Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 44

سورة النساء

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یَشۡتَرُوۡنَ الضَّلٰلَۃَ وَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَضِلُّوا السَّبِیۡلَ ﴿ؕ۴۴﴾

Have you not seen those who were given a portion of the Scripture, purchasing error [in exchange for it] and wishing you would lose the way?

کیا تم نے نہیں دیکھا؟ جنہیں کتاب کا کچھ حصّہ دیا گیا ہے وہ گُمراہی خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ سے بھٹک جاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Chastising the Jews for Choosing Misguidance, Altering Allah's Words, and Mocking Islam Allah says; أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُواْ نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يَشْتَرُونَ الضَّلَلَةَ ... Have you not seen those (the Jews) who were given a portion of the Book, purchasing the wrong path, Allah states that the Jews, may Allah's continued curse fall on them until the Day of Resurrection, have purchased the wrong path instead of guidance, and ignored what Allah sent down to His Messenger Muhammad. They also ignored the knowledge that they inherited from previous Prophets, about the description of Muhammad, so that they may have a small amount of the delights of this life. ... وَيُرِيدُونَ أَن تَضِلُّواْ السَّبِيلَ and wishing that you should go astray from the right path. for they would like that you disbelieve in what was sent down to you, O believers, and that you abandon the guidance and beneficial knowledge that you have.

یہودیوں کی ایک مذموم خصلت اللہ تبارک وتعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ یہودیوں کی ایک مذموم خصلت یہ بھی ہے کہ وہ گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دیتے ہیں ، نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو کتاب نازل ہوئی اس سے بھی روگردانی کرتے ہیں اور اللہ کا دیا ہوا جو علم ان کے پاس ہے اسے بھی پس پشت ڈال دیتے ہیں خود اپنی کتابوں میں نبی موعود کی بشارتیں پڑھتے ہیں لیکن اپنے مریدوں سے چڑھاوا لینے کے لالچ میں ظاہر نہیں کرتے بلکہ ساتھ ہی یہ چاہتے ہیں کہ خود مسلمان بھی راہ راست سے بھٹک جائیں اللہ کی کتاب کے مخالف ہو جائیں ہدایت کو اور سچے علم کو چھوڑ دیں ، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں سے خوب با خبر ہے وہ تمہیں ان سے مطلع کر رہا ہے کہ کہیں تم ان کے دھوکے میں نہ آجاؤ ۔ اللہ کی حمایت کافی ہے تم یقین رکھو کہ وہ اپنی طرف جھکنے والوں کی ضرور حمایت کرتا ہے وہ اس کا مددگار بن جاتا ہے ۔ تیسری آیت میں لفظ من سے شروع ہوئی ہے اس میں من بیان جنس کے لئے ہے جیسے ( فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ ) 22 ۔ الحج:30 ) میں پھر یہودیوں کے اس فرقے کی جس تحریف کا ذکر ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کلام اللہ کے مطلب کو بدل دیتے ہیں اور خلاف منشائے الٰہی تفسیر کرتے ہیں اور ان کا یہ فعل جان بوجھ کر ہوتا ہے قصداً افترا پردازی کے مرتکب ہوتے ہیں ، پھر کہتے ہیں کہ اے پیغمبر جو آپ نے کہا ہم نے سنا لیکن ہم ماننے کے نہیں خیال کیجئے ان کے کفر و الحاد کو دیکھئے کہ جان کر سن کر سمجھ کر کھلے لفظوں میں اپنے ناپاک خیال کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں آپ سنئے اللہ کرے آپ نہ سنیں ۔ یا یہ مطلب کہ آپ سنئے آپ کی نہ سنی جائے لیکن پہلا مطلب زیادہ اچھا ہے یہ کہنا ان کا بطور تمسخر اور مذاق کے تھا اور اللہ انہیں لعنت کرے علاوہ ازیں راعنا کہتے جس سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں ہماری طرف کان لگائے لیکن وہ اس لفظ سے مراد یہ لیتے تھے کہ تم بڑی رعونت والے ہو ۔ اس کا پورا مطلب ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ ) 2 ۔ البقرۃ:104 ) کی تفسیر میں گزر چکا ہے ، مقصد یہ ہے کہ جو ظاہر کرتے تھے اس کے خلاف اپنی زبانوں کو موڑ کر طعن آمیز لہجہ میں کہتے اور حقیقی مفہوم میں اپنے دل میں مخفی رکھتے تھے دراصل یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی اور گستاخی کرتے تھے پس انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان دو معنی والے الفاظ کا استعمال چھوڑ دیں اور صاف صاف کہیں کہ ہم نے سنا ، مانا ، آپ ہماری عرض سنئے! آپ ہماری طرف دیکھئے! یہ کہنا ہی ان کے لئے بہتر ہے اور یہی صاف سیدھی سچی اور مناسب بات ہے لیکن ان کے دل بھلائی سے دور ڈال دیئے گئے ہیں ایمان کامل طور سے ان کے دلوں میں جگہ ہی نہیں پاتا ، اس جملے کی تفسیر بھی پہلے گزر چکی ہے مطلب یہ ہے کہ نفع دینے والا ایمان ان میں نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٧] کچھ حصہ اس لحاظ سے کہ علمائے یہود نے کتاب الہی کا ایک حصہ گم کردیا تھا اور جو باقی رہ گئی تھی، اس میں بھی تحریف و تاویل سے انہوں نے اسے کچھ کا کچھ بنادیا تھا ان کی تمام تر دلچسپیاں اور قابلیتیں ظاہری الفاظ اور لفظی بحثوں اور فقہی موشگافیوں اور فلسفیانہ پیچیدگیوں تک محدود ہو کر رہ گئی تھیں۔ لیکن ان کے قلوب و اذہان منشائے الہی اور دینداری کی روح سے خالی تھے اور اپنی ایسی گمراہ کن باتوں میں مسلمانوں کو بھی الجھانا چاہتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا : اس سے پہلے ( وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا ) میں مشرکین کے طرز عمل سے متنبہ کرنے کے بعد درمیان میں ضرورت کے کچھ مسائل، مثلاً شراب، نماز اور تیمم وغیرہ ذکر کرنے کے بعد یہود کے فریب اور ان کی دشمنی کا ذکر تفصیل سے شروع ہوگیا ہے۔ یہود کو تیمم میں بھی مسلمانوں سے حسد تھا۔ اسی حسد کی بنا پر وہ خود مسلمان ہونے کے بجائے چاہتے تھے کہ مسلمان بھی کافر ہوجائیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا ښ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ ) [ البقرۃ : ١٠٩ ] ” بہت سے اہل کتاب چاہتے ہیں کہ کاش ! وہ تمہیں تمہارے ایمان کے بعد پھر کافر بنادیں، اپنے دلوں کے حسد کی وجہ سے۔ “ نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ : یعنی انھیں کتاب کا کچھ حصہ ہی ملا ہے، باقی ضایع کر بیٹھے ہیں اور یہ بھی مراد ہے کہ جو حصہ ملا ہے اس کے الفاظ ملے ہیں، عمل کا حصہ عطا نہیں ہوا اور یہ بھی کہ تورات میں انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت تو معلوم کرلی مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت معلوم نہ کرسکے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The present verses take up the matter of dealings with enemies. It brings into sharp focus the wicked tricks, in word and deed, as prac¬ticed by the Jews, and then gives a view of what is true and correct. This last aspect is in a way an exhortation to Muslims that they should be careful in choosing the words they use to say what they have to say, for mincing words is not their style. In the previous verse (46), there was a description of the Jewish stance against Islam which ranged from flat denial to laboured falsifi¬cation, something born out of the desire to misrepresent, alter and ridicule. The present verse addresses them directly and commands them to believe in the final revelation and demonstrate their confirma¬tion. Should they continue ignoring the warning and remain hostile, they should really be concerned with the chilling prospects of what their fate would be as a consequence of their ill choice.

خلاصہ تفسیر (اے مخاطب) کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا (یعنی دیکھنے کے قابل ہیں دیکھو تو تعجب کرو جن کو کتاب (اللہ یعنی توریت کے علم) کا ایک بڑا حصہ ملا ہے (یعنی توریت کا علم رکھتے ہیں باوجود اس کے) کہ وہ لوگ گمراہی (یعنی کفر) کو اختیار کر رہے ہیں اور (خود تو گمراہ ہوئے ہی تھے مگر وہ) یوں چاہتے ہیں کہ تم (بھی) راہ (راست) سے (علیحدہ ہو کر) بےراہ ہوجاؤ (یعنی طرح طرح کی تدبیریں اس کی کرتے ہیں جیسا کہ تیسرے پارہ کے آخر اور چوتھے کے شروع میں کچھ ذکر ہو بھی چکا ہے) اور تم کو اگر ان لوگوں کی اب تک خبر نہ ہو تو کیا ہوا) اللہ تعالیٰ (تو) تمہارے (ان) دشمنوں کو خوب جانتے ہیں (اس لئے تم کو بتلا دیا سو تم ان سے بچتے رہو) اور (ان کا حال مخالفت کا سن کر زیادہ فکر میں بھی نہ پڑجانا، کیونکہ) اللہ تعالیٰ (تمہارا) کافی رفیق ہے (کہ تمہاری مصلحتوں کی رعایت رکھے گا) اور اللہ تعالیٰ (تمہارے لئے) کافی حامی ہے (کہ ان کی مضرتوں سے تمہاری حفاظت کرے گا اور) یہ لوگ (جن کا ذکر ہوچکا ہے) یہودیوں میں سے ہیں (اور ان کا گمراہی کو اختیار کرنا جو اوپر آ چکا ہے یہ ہے کہ) کلام الٰہوی یعنی توریت) کو اس کے مواقع (اور محل) سے (لفظاً یا معنی) دوسری طرف پھیر دیتے ہیں اور (ایک گمراہی ان کی جس میں دھوکہ سے دوسرے سادہ ذہن شخص کا پھنس جانا بھی ممکن ہے یہ ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات چیت کرتے وقت) یہ کلمات کہتے ہیں (جو آگے مذکور ہوتے ہیں، ان کلمات کے دو دو معنی ہیں ایک اچھے اور ایک برے، وہ لوگ برا مطلب لیتے تھے اور دوسروں پر ظاہر کرتے تھے کہ ہم اچھے مطلب سے کہتے ہیں اور اس سے کسی مسلمان کا دھوکہ میں آ کر بعضے ایسے ہی کلمات سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرنا بعید نہ تھا، چناچہ سورة بقرہ کے رکوع نمبر ٣١ (آیت ٤٠١) کہنا ایک گونہ دوسروں کو گمراہ کرنا بھی ہے، گو لفظاً ہی ہو، پس اس میں یریدون ان تضلوا کا لفظ جو کہ اوپر آیا ہے بیان بھی ہوگیا، جیسا کہ من الذین ھادوا میں بیان تھا الذین اوتوا نصیباً کا اور یحرفون میں بیان تھا یشترون کا ان کلمات میں سے ایک یہ ہے کہ سمعاً وعصینا اس کا ترجمہ تو یہ ہے کہ ہم نے سن لیا اور مانا نہیں، اس کا اچھا مطلب تو یہ ہے کہ آپ کا ارشاد ہم نے سن لیا اور کسی آپ کے مخالف کا قول جو کہ ہم کو بہکاتا تھا نہیں مانا۔ “ اور بڑا مطلب ظاہر ہے کہ ہم نے آپ کی بات کو سن تو لیا مگر ہم عمل نہ کریں گے) اور دوسرا کلمہ یہ ہے) اسمع غیر مسمع (اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ تم ہماری بات سنو اور خدا کرے تم کو کوئی بات سنائی نہ جاوے، اس کا اچھا مطلب تو یہ کہ تم کو کوئی مخالف اور رنج دہ بات نہ سنائی جاوے، بلکہ آپ کا ایسا اقبال رہے کہ جو بات فرمائیں سب اس کے جواب میں موافق ہی بات آپ کو سنائیں اور برا مطلب یہ ہے کہ تم کو کوئی موافق اور مسرت بخش بات نہ سنائی جائے بلکہ آپ جو بات کہیں اس کا جواب مخالف ہی آپ کے کان میں پڑے) اور (تیسرا کلمہ یہ ہے) راعنا (اس کے دونوں اچھے اور برے مطلب سورة بقرہ میں گزر چکے ہیں کہ اچھے معنی تو یہ ہیں کہ ہماری رعایت کیجئے اور برے معنی لغت یہود میں دشنام ہے، غرض ان کلمات کو) اس طور پر (کہتے ہیں) کہ اپنی زبانوں کو لہجہ توقیر سے لہجہ تحقیر کی طرف) پھیر کر اور (دل سے) دین میں طعنہ زنی (اور تحقیر ہی) کی نیت سے (وجہ یہ ہے کہ نبی کے ساتھ طعن و استہزاء عین دین کے ساتھ طعن و تمسخر ہے) اور اگر یہ لوگ (بائے دو معنی دینے والے الفاظ کے) یہ کلمات کہتے (بجائے سمعنا وعصینا کے) سمعنا اطعنا (جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا) اور بجائے اسمع غیر مسمع کے صرف) اسمع (جس کے معنی خالی یہ ہیں کہا آپ سن لیجئے) اور (بجائے راعنا کے) انظرنا (جس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری مصلحت پر نظر فرمایئے اور یہ کلمات معنی شرارت سے پاک ہیں تو اگر یہ کلمات کہتے) تو یہ بات ان کے لئے بہتر (اور نافع بھی) ہوئی اور (حقیقت میں بھی) موقع کی باتیں تھی مگر (انہوں نے تو ایسے نفع اور موقع کی بات کہی ہی نہیں، بلکہ وہی بیہودہ بات بکتے رہے، اس لئے ان کو یہ تکلیف پہنچی کہ) ان کو اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کے سبب (جس میں یہ کلمات بھی آگئے اور بھی ان کے سب اقوال و افعال کفریہ داخل ہوگئے، پس ان سب کفریات کے سبب اللہ تعالیٰ نے ان کو) اپنی رحمت (خاصہ) سے دور پھینک دیا اب وہ ایمان نہ لاویں گے ہاں مگر تھوڑے سے آدمی (بوجہ اس کے کہ وہ ایسی حرکتوں سے دور رہے وہ دوری رحمت خاصہ سے مستثنی ہیں اور وہ ایمان بھی لے آئے جیسے عبداللہ بن سلام وغیرہ) معارف ومسائل ربط آیات :۔ پچھلی آیات میں مواقع تقویٰ کا بیان تھا، سج میں زیادہ تر ذکر باہمی معاملات کا تھا، درمیان میں کچھ احکام عبادت نماز اور متعلقات کے ذکر کردیئے گئے، جو انسان میں خدا کا خوف اور فکر آخرت پیدا کرتے اور معاملات کی درستگی کو آسان کردیتے ہیں، مذکورہ آیات سے مخالفین کے ساتھ معاملات کا ذکر فرمایا گیا ہے جس میں یہود کی شرارت کا علاج اور مسلمانوں کو الفاظ و عنوان میں بھی ادب کی رعایت کی تلقین کی گئی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَۃَ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِيْلَ۝ ٤٤ۭ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے آتینا وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] . [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ نَّصِيبُ : الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] ( ن ص ب ) نصیب و النصیب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو شری الشِّرَاءُ والبیع يتلازمان، فَالْمُشْتَرِي دافع الثّمن، وآخذ المثمن، والبائع دافع المثمن، وآخذ الثّمن . هذا إذا کانت المبایعة والْمُشَارَاةُ بناضّ وسلعة، فأمّا إذا کانت بيع سلعة بسلعة صحّ أن يتصور کلّ واحد منهما مُشْتَرِياً وبائعا، ومن هذا الوجه صار لفظ البیع والشّراء يستعمل کلّ واحد منهما في موضع الآخر . وشَرَيْتُ بمعنی بعت أكثر، وابتعت بمعنی اشْتَرَيْتُ أكثر، قال اللہ تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] ، أي : باعوه، ( ش ر ی ) شراء اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٤۔ ٤٥) کیا کتاب میں ان لوگوں سے آگاہی نہیں ہوئی جن کو توریت کا کچھ علم دیا گیا، اور انہوں نے یہودیت کا اختیار کیا اور کیا دین اسلام چھوڑنا چاہتے ہیں، اللہ تعالیٰ منافقین اور یہودیوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ شان نزول : الم تر الی الذین اوتو “۔ (الخ) ابن اسحاق (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ علماء یہود میں سے رفاعہ بن زید جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کرتا تو کہتا ”۔ ارعنا سمعک حتی “۔ (ادھر متوجہ ہوں تاکہ میں آپ کی بات سنوں) لیکن وہ یہ بات توہین وتحقیر آمیز انداز میں کہتا، پھر اسلام میں طعن وتشنیع کرتا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ الم تر الی الذین “۔ کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب کا ایک بڑا حصہ ملا ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ ) وہ الکتاب “ ایک حقیقت ہے جس میں سے ایک حصہ تورات اور ایک حصہ انجیل کے نام سے نازل ہوا اور پھر وہ کتاب ہر اعتبار سے کامل ہو کر قرآن کی شکل میں نازل ہوئی۔ (یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَۃَ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَ ) مشرکین مکہ بھی یہی کچھ کیا کرتے تھے کہ لوگ لہو و لعب میں مشغول رہیں اور قرآن نہ سنیں۔ انہوں نے ایران سے رستم و اسفندیار کے قصے منگوا کر داستان گوئی کا سلسلہ شروع کیا اور گانے بجانے والی لونڈیوں اور آلات موسیقی کا انتظام کیا تاکہ لوگ انہی چیزوں میں مشغول رہیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کوئی نہ سنے۔ اسی طرح مدینہ میں یہود کا بھی یہی معاملہ تھا کہ وہ خود بھی گمراہ کن مشاغل اختیار کرتے اور دوسروں کو بھی اس میں مشغول کرنے کی کوشش کرتے۔ ہمارے زمانے میں اس قسم کے مشاغل کی بہت سی صورتیں ہیں۔ ہمارے ہاں جب کرکٹ میچ ہو رہے ہوتے ہیں اور ٹیوی پر دکھائے جاتے ہیں تو پوری قوم کا یہ حال ہوتا ہے گویا دنیا کی اہم ترین شے کرکٹ ہی ہے۔ اسی طرح دنیا میں دوسرے کھیل تماشے دیکھے جاتے ہیں کہ دنیا ان کے پیچھے پاگل ہوجاتی ہے۔ شیطان کو اور کیا چاہیے ؟ وہ تو یہی چاہتا ہے ناکہ لوگوں کی حقائق کی طرف نگاہ ہی نہ ہو۔ کسی کو یہ سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو کہ زندگی کس لیے ہے ؟ جینا کا ہے کے لیے ہے ؟ موت ہے تو اس کے بعد کیا ہونا ہے ؟ انسان یا تو حیوانی سطح پر زندگی گزار دے کہ اسے حلال و حرام کی تمیز ہی نہ رہے کہ وہ کیا کما رہا ہے اور کیا کھا رہا ہے ‘ اور یا پھر اس طرح کے لہو و لعب کے اندر زندگی گزار دے۔ ان چیزوں کے فروغ کے لیے بڑے مستحکم نظام ہیں اور ان کھلاڑیوں وغیرہ کے لیے بہت بڑے بڑے انعامات ہوتے ہیں۔ فرمایا : یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں بھی سیدھے راستے سے بھٹکا دیں ‘ راہ حق سے منحرف کردیں ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

71. The Qur'an often characterizes the scholars of the People of the Book as those who 'were given a portion of the Book'. The reason for the use of this expression, in the first place, is that they caused a part of the divine revelation to be lost. Moreover, they had detached themselves from the spirit and purpose of the divine revelation which was available to them. Their concern with the Scripture was confined to verbal discussions, arguments about legal minutiae, and speculation about subtle and involved philosophical and theological questions. This had so alienated even their religious leaders and scholars from the true concept of religion that they lost true religious devotion and piety.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :71 علماء اہل کتاب کے متعلق قرآن نے اکثر یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ ” انہیں کتاب کے علم کا کچھ حصہ دیا گیا ہے ۔ “ اس کی وجہ یہ ہے کہ اول تو انہوں نے کتاب الہٰی کا ایک حصہ گم کر دیا تھا ۔ پھر جو کچھ کتاب الہٰی میں سے ان کے پاس موجود تھا اس کی روح اور اس کے مقصد و مدعا سے بھی وہ بیگانہ ہو چکے تھے ۔ ان کی تمام دلچسپیاں لفظی بحثوں اور احکام کے جزئیات اور عقائد کی فلسفیانہ پیچیدگیوں تک محدود تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دین کی حقیقت سے ناآشنا اور دینداری کے جوہر سے خالی تھے ، اگرچہ علماء دین اور پیشوایان ملت کہے جاتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(44 ۔ 46) ۔ ابن اسحاق نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ رفاعہ بن زید اور مالک بن و خشم یہودیوں میں دو بڑے سردار تھے وہ طرح طرح کی شرارتیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرتے تھے کبھی آپ سے کوئی مسئلہ پوچھتے اور آپ جو جواب دیتے اس کو بدل کر اور طرح پر لوگوں سے بیان کرتے اور کبھی زبان دبا کر دو معنی کلمات آپ کو کہتے مثلاً راعنا کو ان معنوں میں بدلتے جن کا ذکر سورة بقر میں گذرا اور ظاہر میں سمعنا واطعنا کہہ کر چپکے سے کہتے سنا ہم نے اور نہ مانا۔ اور واسمع غیر مسمع سے یہ مطلب نکالتے۔ آپ بہرے ہوجائیں غرض ان دونوں شخصوں اور اس قسم کے شریر النفس جو یہود تھے ان سب کی تنبیہ میں اللہ تعالیٰنے یہ آیت نازل فرمائی ١۔ اور فرمایا جس تورات سے ان لوگوں کو موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت معلوم ہوئی اس تورات میں نبی آخر الزمان کی نبوت کا بھی ذکر ہے۔ مگر ان لوگوں نے ایسی بری سوداگری کی کہ ہدایت کے معاوضہ میں گمراہی خریدی اور کچھ تو اسی دشمنی کے سبب سے کہ ان کے گھرانے میں یہ آخری نبوت کیوں نہ ہوئی۔ اور کچھ کے تھوڑے سے لالچ کے خیال سے انہوں نے تورات کے لفظوں اور بعض جگہ معنوں کو بدلا اور اس دھوکے سے اے مسلمانوں یہ لوگ تم کو بھی نیک راستہ سے بھلانا چاہتے ہیں لیکن اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ تمہارے دشمن ہیں تم ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرو اس کی مدد تم کو کافی ہے اس کی مدد کے آگے ان کی دشمنی کیا چل سکتی ہے۔ ” اگر وہ کہتے ہم نے سنا اور مانا اور سن اور ہم پر نظر کر تو بہتر ہوتا ان کے حق میں اور درست لیکن لعنت کی ان کو اللہ نے ان کے کفر سے اس لئے ایمان نہیں لاتے مگر کم “۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ یہود لوگ اگر ان شرارت کے لفظوں کی جگہ یہ سیدھے سیدھے لفظ کہتے تو ان کے لئے دین دنیا میں یہ ان کے حق میں بہتر تھا۔ دین کی بہتری تو یہ تھی کہ تورات میں نبی آخر الزمان پر ایمان لانے کا حکم تھا۔ اس کی تعمیل ہو کر ان لوگوں کی عقبیٰ درست ہوجاتی اور دنیا کی بہتری یہ تھی کہ یہ لوگ یہاں کی چٹی سے بچ جاتے اور ان لوگوں کے طرح طرح کے گناہوں کے سبب سے ان پر تنگ دستی جو سورا ہے وہ جاتی رہتی۔ چناچہ سورة مائدہ میں فرمایا { وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتَابَ اٰمَنُوْ وَاتَّقُوْ لَکَفَّرْنَا عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَلاَ دَخَلْنَا ھُمْ جَنَّاتِ النَّعِیْم وَلَوْ اَنَّہُمْ قَامُوْا التَّوْرَۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ مِنْ رَّبِھِمْ لاََ کَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ } (١٥۔ ٦٦/٦٥) حاصل مطلب ان سورة مائدہ کی آیتوں کا وہی ہے جو اوپر بیان ہوا کہ اگر یہ اہل کتاب تورات اور انجیل کے پابند ہو کر نبی آخر الزمان اور قرآن پر ایمان لاتے تو ان کے لئے دین و دنیا میں بہتر تھا۔ پھر فرمایا کہ یہ ہوتا تو کیونکر ہوتا۔ یہ تو ایسوں کی اولاد اور ان ہی اپنے بڑوں کے ڈھنگ پر ہیں جن پر داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں خدا کی لعنت اتر چکی ہے۔ یہ پورا قصہ سورة مائدہ میں آئے گا۔ لیکن مسند امام احمد، ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ میں جو روایتیں بنی اسرائیل پر لعنت اترنے کی ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں جب گناہوں کی کثرت ہوگئی اور ان کے علماء جاہل لوگوں کو چھوڑ کر خود بھی ان گنہگاروں کی مجلسوں میں شریک ہونا شروع کردیا۔ تو حضرت داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی ان پر اللہ کی لعنت اتری۔ یہ روایت متصل۔ اور مرسل چند طریقوں سے ہے جس سے ایک روایت کو دوسری سے تقویت حاصل ہوجاتی ہے ١۔ آخر آیت میں فرمایا کہ اس خاندانی پھٹکار کے سبب سے ان میں سے عبد اللہ بن سلام (رض) وغیرہ چند لوگ راہ راست پر آئے باقی سب اسی پھٹکار میں گرفتار رہے۔ اللہ کی لعنت اور پھٹکار کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں پر اللہ کی رحمت نہ ہوگی۔ اگرچہ یہ قصہ یہود کا ہے۔ لیکن اس امت میں بھی جب وہ حالت گناہوں کی کثرت اور علماؤں کی چشم پوشی کی پیش آئے گی تو اسی طرح کے کسی عذاب کے آنے کا خوف ہے چناچہ ترمذی میں حذیفہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھا کر فرمایا اے لوگوں نیک باتوں کی تاکید اور بری باتوں کی ممانعت انجان لوگوں کو کرتے رہو ورنہ جب یہ بات تم میں نہ رہے گی تو کوئی نہ کوئی اللہ کا عذاب آئے گا۔ اور پھر اس عذاب سے بچنے کی دعا کی جائے گی تو کسی کی دعا قبول نہ ہوگی۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:44) ان تضلوا السبیل ۔ کہ تم راہ راست سے ہٹ جاؤ۔ بہک جاؤ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی یہود خود گمرہ ہیں اور تم کو بھی بہکانا چاہتے ہیں (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیت نمبر 44 تا 46: الم تر الی الذین ۔۔۔ فلا یومنون الا قلیلا۔ اے مخاطب ان لوگوں کا حال دیکھ لیجئے جن کو پہلے کتاب اللہ میں سے حصہ نصیب ہوا یعنی یہود ونصاریٰ تو انہوں نے اس پر عمل کرنے میں کوتاہی کی اپنی خواہشات کے تابع ہوگئے یعنی کتاب کے ساتھ ایمان کا دعوی تو قائم رکھا مگر عملی زندگی میں کتاب سے نہ صرف بیگانہ رہے بلکہ اپنی رائے کو جواز مہیا کرنے کے لیے کتاب اللہ کے کلمات تبدیل کردئیے تو نتیجہ الٹ گیا وہ کتاب جو سراسر ہدایت تھی اس کو بدل کر اور اس کی اطاعت سے نکل کر گمراہ ہوگئے یعنی انہوں نے گمراہی خرید لی کہ ان پر مسلط نہیں کی گئی بلکہ انہوں نے اپنی رائے اور پسند سے اختیار کی تو اب ان کی خواہش یہ ہے کہ دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ مل جائیں یعنی مسلمانوں کو بھی گمراہ کرنے کے درپے ہیں۔ مگر اللہ کریم تمہارے دشمنوں سے آگاہ ہے اور بہترین کارساز اور مدد کرنے والا ہے یہ قاعدہ ارشاد ہوا کہ جو لوگ عملی زندگی میں گمراہی اختیار کرتے ہیں ان کی کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ سب کو ساتھ ملا لیں مگر جنہیں اطاعت الہی نصیب ہو اور خلوص دل سے اس کے لیے کوشش کرتے رہیں انہیں حفاظت الہیہ نصیب ہوتی ہے اور برا ماحول یا معاشرہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا بد اعمالی کا اثر بد خود ان لوگوں پہ زیادہ پڑتا ہے جو اسے اختیار کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کلام الہی میں تحریف کے مرتکب ہوتے ہیں تاکہ اپنی رائے کو جواز مہیا کریں تو اس طرح انہیں اس تفسیر سے ٹکرانا پڑتا ہے جو اللہ کے نبی کی ارشاد کردہ ہو جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود نبی کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں جیسے یہود کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذومعنی الفاظ استعمال کرتے تھے جن سے اچھے اور برے دونوں معنی نکل سکتے تھے چناچہ انہیں اللہ کی رحمت سے محروم کردیا گیا اور ان قلیل افراد کو ایمان نصیب ہوا جو اس گناہ سے بچتے تھے خود ان کے حق میں بہتر تھا کہ ذومعنی الفاظ کی بجائے ایسے الفاظ استعمال کرتے جو صاف معنی پر دلالت کرنے والے تھے اور اطاعت اختیار کرتے یہ سب بد عملی کے نتائج تھے جو انہیں پیش آئے مراد یہ ہے کہ جو ارشادات ورع وتقوی حلال و حرام یا اخلاقیات اور آپس کے تعلقات کے متعلق ارشاد ہوئے ہیں ان کو اپنانا خود انسانی بہتری کے لیے ضروری ہے وگرنہ محض عقیدت اور عملی اعتبار سے بےرخی آخر اس مقام پر لے جائے گی جہاں خود نبی کی ذات بھی تنقید کی زد سے محفوظ نہ رہ سکے گی جیسے آج کل کے بےعمل افراد احکام الہی اور سنت خیر الانام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے بغیر جھجھک کے کہہ دیتے ہیں یہ بات جاہلانہ ہے یا پڑھے لکھے لوگوں کا انداز ذرا مختلف ہوتا ہے وہ قدامت پسندی کی اصطلاح استعمال کرتے یا کہتے ہیں کہ آج کل کے زمانے میں ناقابل عمل ہے حالانکہ اسلام کا اعجاز یہی ہے کہ یہ ایک ایسا طرز حیات ہے جو ہر قوم کے لیے ہر ملک اور ہر زمانے میں قابل عمل ہے شرط یہ ہے کہ قرآن حکیم کی وہ تفسیر اختیار کی جائے جو خود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس پر عمل کیا جو تشریح ہم اس سے ہٹ کر اور اپنی رائے سے کریں گے یقینا وہ دشوار بھی ہوگی اور ناقابل عمل بھی۔ اگر اسی پر اصرار کیا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ارشادات نبوی پر صحابہ کرام پر تنقید ہوگی جو رحمت الہی سے دور اور سزوار لعنت بنا دے گی ادب نبوی یہ ہے کہ کوئی ایسا لفظ بھی استعمال نہ کیا جائے جس کے اچھے اور برے دونوں معنے لیے جاسکتے ہوں ورنہ ایمان سلب ہونے کا اندیشہ ہے چہ جائیکہ ارشاداتِ عالی پہ تنقید کی جائے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 44-47 لغات القرآن : الم تر، کیا تو نے نہیں دیکھا ؟ ۔ یشترون، خریدتے ہیں۔ اعداء، دشمن (عدو کی جمع ہے) ۔ مواضع، موقع و محل (موضع، جگہ، موقع) ۔ غیر مسمع، نہ ہو سننے والا۔ لی، مروڑنا۔ السنۃ، زبانیں (لسان کی جمع ہے) ۔ طعن، طعنہ دینا، عیب لگانا۔ اقوم، زیادہ بہتر۔ نطمس، ہم مٹا دیں ہم بگاڑ دیں۔ نرد، ہم پھیر دیں۔ ادبار، پیٹھ (دبر، پیٹھ) ۔ اصحاب السبت، ہفتہ والے (بنی اسرائیل میں سے جن کو مچھلیوں کے شکار سے آزمایا گیا) ۔ امر اللہ، اللہ کا حکم۔ تشریح : ان آیات میں مجلسی آدب بتائے گئے ہیں۔ جان بوجھ کر ذومعنی الفاظ کہنا سخت منع ہے جو بظاہر احترام اور عزت کے ہیں لیکن حقیقتاً حقارت اور ذلت کے الفاظ ہیں اور محض تلفظ کے الٹ پھیر سے معنی کہیں سے کہیں چلے جاتے ہیں۔ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محفل میں منافق بھی ہوا کرتے تھے جب حضور کوئی بات فرماتے تو وہ سمعنا کہتے یعنی ہم نے سن لیا لیکن ساتھ ہی ساتھ چپکے سے عصینا بھی کہتے یعنی ہم نہیں مانیں گے۔ کچھ اس طرح زبان لچکا کر لفظ عصینا کو ادا کرتے کہ سننے میں اطعنا بھی آتا یعنی ہم مانیں گے اسی طرح وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور مسلم حاضرین محفل کو یقین دلانے کی کوشش کرتے کہ ہم نے سن لیا ہے اور ہم عمل کریں گے لیکن حقیقت میں وہ یہی کہتے کہ ہم نے سن لیا ہے لیکن ہم ہرگز عمل نہیں کریں گے۔ اور اسطرح اپنے دل کا غبار نکالتے رہتے تھے۔ اس طرح راعنا کہا کرتے۔ عین کو زبان سے د با کر کہتے اور اس طرح اس کے معنی کو تذلیل و تحقیر کی طرف لے جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان کی ان تمام حرکتوں کو سب کے سامنے کھول کر رکھ دیا کہ کوئی دھوکا نہ کھائے اور ان کا فریب سب پر ظاہر ہوجائے۔ ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا کہ ذو معنی الفاظ کا استعمال کرنا سخت گناہ ہے جو ظاہر میں کچھ ہیں اور باطن میں کچھ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ کون سے صحیح الفاظ کا استعمال کرنا چاہئے جن سے سوائے عزت اور تعظیم کے کوئی دوسرے معنی نہ نکلتے ہوں۔ اس قسم کے ذو معنی الفاظ صرف وہی بول سکتے ہیں جن کے اندر ایمان نہیں اور ان پر اللہ کی پھٹکار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مخاطب کرکے یہ بھی ہوشیار کردیا ہے کہ ایمان لاؤ ورنہ ایک دن اللہ کا عذاب آجائے گا۔ تمہارا سامنے کا چہرہ بگاڑ کر پیچھے کی طرف کردیا جائے گا۔ یا تمہیں اس طرح سے لعنت زدہ کرکے بندر بنا دیا جائے گا جس طرح سبت والوں کے ساتھ ہوا جس کا ذکر سورة بقرہ میں ہے۔ اللہ نے یہ بھی خبردار کردیا ہے کہ ہمارا حکم نافذ ہو کر رہے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سورت کی ابتدا میں تمام انسانوں کو اس کے بعد مسلمانوں کو اور اب اہل کتاب کو مخاطب کیا جارہا ہے۔ اس سورة کا آغاز ” اَیُّھَا النَّاسُ “ کہہ کر کیا اور باور کروایا کہ تم ایک ہی ماں، باپ کی اولاد اور ایک ہی اللہ کی مخلوق ہو لہٰذا تمہیں اپنے خالق سے ڈرتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو میاں بیوی کے حوالے سے اور پھر ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کے احکام جاری فرمائے۔ اب اہل کتاب کو خطاب کرتے ہوئے ان کی غلطیوں کی نشاندھی کرنے کے بعد نہایت ہی خیر خواہی کے انداز میں سمجھانے کے ساتھ مسلمانوں کو ان کے کردار پر کڑی نظر رکھنے اور اپنے آپ کو گمراہی سے بچانے کی تلقین کی گئی ہے اور تسلی دی ہے کہ ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کے لیے کافی ہے۔ خصوصی توجہ کے لیے فرمایا کہ کیا تم نے ان لوگوں کے کردار پر غور نہیں کیا ؟ جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا۔ قرآن مجید نے اہل کتاب کو خطاب کرتے ہوئے یہ الفاظ کئی مرتبہ استعمال فرمائے ہیں کہ جن لوگوں کو کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا۔ ان الفاظ کے اہل علم نے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔ کچھ حصہ سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے تورات اور انجیل کے کافی حصہ کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی خاطر ضائع کردیا تھا۔ جو ان کے ہاں کتابی شکل میں تورات اور انجیل پائی جاتی ہے اس میں بھی بیشمار ترامیم و اضافے کیے۔ اس لحاظ سے تورات اور انجیل کے حقیقی اجزاء تھوڑے ہی باقی تھے۔ یہ کہ تمہیں تورات اور انجیل کی شکل میں جو احکام دیئے گئے ہیں وہ اپنے وقت کے مطابق کافی تھے لیکن ان سے دین مکمل نہیں ہوجاتا کہ تم انہیں پر جم کر بیٹھے رہو۔ وہ نامکمل دین تھا لہٰذا اب جامع دین نازل ہو رہا ہے جو عنقریب مکمل ہوجائے گا۔ اس لیے تمہیں جامع اور اکمل دین کی پیروی کرنی چاہیے۔ لیکن تمہاری حالت یہ ہے کہ تم اپنے مفاد اور عناد کی خاطر نہ صرف اس دین سے انحراف کر رہے ہو بلکہ گمراہی کے خریدار بن کر مسلمانوں کی گمراہی کے درپے ہوچکے ہو۔ اس صورت حال سے آگاہ کرکے مسلمانوں کو تسلی دی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں اور ان کے عزائم کو اچھی طرح جانتا ہے۔ یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بشرطیکہ تم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت پر ثابت قدم رہو۔ اللہ تمہارا سرپرست خیر خواہ اور مددگار ہے۔ گمراہی کے خریدار : دنیا میں گمراہی خریدنے کی کئی شکلیں ہیں : اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مقدم اور بہتر سمجھنے کی بجائے دنیا کے مفاد کو مقدم اور اپنے لیے بہتر تصور کرنا۔ بے حیائی اور برائی کے کاموں کو فروغ دے کر شہرت اور دولت حاصل کرنا۔ دین کو سیاسی اور معاشی مفاد کے لیے استعمال کرنا۔ شریعت کے حرام کردہ کاروبار کو اختیار کرنا۔ مسائل ١۔ اہل کتاب گمراہی کے خریدار ہیں اور مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ ٢۔ اللہ ہی مسلمانوں کا حمایتی اور مدد گا رہے۔ تفسیر بالقرآن اہل کتاب کی بدترین تجارت : ١۔ رشوت لینے والے۔ (البقرۃ : ٨٥، ٨٦) ٢۔ کفر کا سودا کرنے والے۔ (البقرۃ : ٨٩، ٩٠) ٣۔ دین کے بدلے مال بٹورنے والے۔ (البقرۃ : ١٧٤) ٤۔ گمراہی کے خریدار۔ (البقرۃ : ١٧٥) ٥۔ ایمان کے بدلے کفر کو پسند کرنے والے۔ (آل عمران : ١٧٧) ٦۔ دنیا کے بدلے بد عہدی کا ارتکاب کرنے والے۔ (النحل : ٩٥) ٧۔ اللہ کی آیات کو فروخت کرنے والے۔ (التوبۃ : ٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٤٣ تشریح آیات : ٤٤۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٥٧ مدینہ کی نوخیز تحریک اسلامی کا جو گھیراؤ مخالف اسلام کیمپوں نے کر رکھا تھا ‘ اس سبق کے ساتھ ان کیمپوں کے خلاف یہاں معرکہ آرائی شروع ہو رہی ہے ۔ اس سبق کے اندر اس بات پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے کہ مدینہ کے یہودی اس دین جدید اور جامعت مسلمہ کے خلاف کیا کیا اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں ۔ اس سے اگلے سبق میں بتایا گیا ہے کہ جماعت مسلمہ کے فرائض کیا ہیں اور یہ کہ اسلامی نظام کا مزاج کیا ہے ‘ اسلام کی تعریف کیا ہے اور ایمان کی شرائط کیا ہیں جس کی وجہ سے اسلامی زندگی اور اسلامی نظام حیات دوسرے لوگوں کی زندگی اور نظام سے متمیز ہوتا ہے ۔ اس سے پھر اگلے سبق میں جماعت مسلمہ کو خبردار کیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ وہ اسلامی نظام کے نفاذ ‘ اپنی صورت حالات کی درستی اور اپنے وجود کو بچانے کے اقدامات کرے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اس کے منافق دشمن اس کے خلاف خفیہ سازشوں میں مصروف ہیں۔ جماعت مسلمہ کو بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے اندرونی اختلافات کی طرف بھی متوجہ ہو اور ان دفاعی اقدامات پر بھی غور کرے جو اسے اپنے اردگرد پھیلے ہوئے دشمن کیمپوں کے مقابلے میں کرنے ہیں۔ اس میں قانون بین الاقوام کے سلسلے میں بعض ہدایات بھی ہیں ۔ اس کے اگلے سبق میں ایک یہودی کا معاملہ آتا ہے جس کے ساتھ اسلامی معاشرے میں تمام دشمنیوں سے بلند ہو کر معاملہ کی گیا ۔ اس سے اگلے سبق میں شرک اور مشرکین کے ساتھ دو دو ہاتھ کئے گئے ہیں اور ان بنیادوں کو حقارت آمیز انداز میں بیان کیا گیا ۔ جن کے اوپر مشرک معاشرہ قائم تھا ۔ اس معرکے کے درمیاں بعض ہدایات داخلی تنظیم کے بارے میں بھی دی گئی ہیں ۔ جن کا تعلق ‘ ابتدائے سورة کے مضامین بابت خاندانی نظام کے ساتھ ہے ۔ اب اس پارے کا آخری سبق آتا ہیں جو نفاق اور منافقین کے ساتھ خاص ہے ۔ یہ سبق فیصلہ کرتا ہے کہ منافقین آگ میں سب سے نیچے درجے میں ہوں گے ۔ ان سرسری اشارات سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ اس وقت تحریک اسلامی کو داخلی اور خارجی محاذوں پر کس قدر ہمہ جہت لڑائی کا سامنا تھا ۔ اور پہلی تحریک اسلامی کو کس طرح بیک وقت داخلی اور خارجی محاذوں پر کام کرنا پڑ رہا تھا ۔ اس لئے کہ داخلی محاذ اور خارجی محاذ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک اور پیوستہ تھے ۔ اور یہی معرکہ آج بھی عالمی تحریک اسلامی کو درپیش ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا ۔ اس لئے کہ اسلامی تحریک کی اساس اور حقیقت ایک ہے ۔ (آیت) ” نمبر ٤٤ تا ٤٦۔ (سمعنا وعصینا) اور (واسمع غیر مسمع) اور (راعنا) حالانکہ اگر وہ کہتے ۔ (سمعنا واطعنا) اور (واسمع وانظرنا) تو یہ انہی کے لئے بہتر تھا اور راست بازی کا طریقہ تھا ۔ مگر ان پر تو انکی باطل پرستی کی بدولت اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں “۔ اس سورة میں جن متعدد جگہ تعجب کا اظہار کیا گیا ان میں سے پہلی جائے تعجب تو یہ ہے کہ اس کا خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے اور اہل کتاب سے مراد یہودی ہیں جبکہ مفہوم میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو ایسا موقف اختیار کرتے ہیں جو انوکھا اور تعجب خیز ہو ۔ (آیت) ” الم تر الی الذین اوتوا نصیبا من الکتب یشترون الضللۃ ویریدون ان تضلوا السبیل “۔ (٤٤) ” تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جنہیں کتاب کے علم کا کچھ حصہ دیا گیا ہے ؟ وہ خود ضلالت کے خریدار بنے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ گم کر دو ۔ چونکہ انکو کتاب دی گئی تھی اس لئے ان کے شایان شان تو یہ تھا کہ وہ فورا ہدایت قبول کرتے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے بڑے پیغمبر تھے اللہ نے انہیں تورات دی تھی ۔ تاکہ انہیں وہ ان کی ضلالت سے نکالے اور ان کے لئے نور اور ہدایت ہو ۔ لیکن وہ اپنی اس قسمت سے انکاری ہیں اور ہدایت چھوڑ کر ضلالت کے خریدار بن گئے ہیں ۔ خریداری سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے ضلالت لینے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے ‘ ان کی نیت ہی یہ ہے اسی لئے انہوں نے ہدایت کو ترک کرکے گمراہی کو پسند کیا ہے ۔ ہدایت ان کے ہاتھوں میں ہے لیکن وہ اسے چھوڑ کر گمراہی اخذ کررہے ہیں ۔ گویا وہ قصد و ارادہ سے یہ سودا کر رہے ہیں ‘ جہل اور خطا سے ایسا نہیں کررہے ۔ اس لئے ایک عقلمند آدمی سے ایسی حرکت تعجب خیز اور بالکل انوکھی ہے اور قابل استکراہ ہے ۔ لیکن اس قابل تعجب صورت حال میں ہوتے ہوئے بھی وہ سمجھتے ہیں کہ وہ نگران بنے ہوئے ہیں ‘ حالانکہ الٹا وہ اس سعی میں لگے ہوئے ہیں کہ ہدایت یافتہ لوگ گمراہ ہوجائیں ‘ اہل اسلام میں جو صحیح راہ پر ہیں ان کو وہ گمراہ کردیں ۔ وہ اسی مقصد کے لئے متعدد ذرائع اور وسائل اختیار کر رہے ہیں ‘ جن کی تفصیلات سورة بقرہ اور سورة آل عمران میں گزر چکی ہیں ۔ اور ان کے کچھ نمونے اس سورة میں بھی آگے آرہے ہیں۔ انہوں نے خود جو گمراہی خریدی ہوئی ہے وہ اس پر اکتفا نہیں کر رہے بلکہ ان کے اردگرد جو شمع ہدایت روشن ہوچکی ہے وہ اسے بھی بجھانا چاہتے ہیں اور اس کے آثار تک مٹانے کے درپے ہیں کہ نہ ہدایت رہے اور نہ ہدایت پانے والے ۔ اس پہلی اور دوسری جھلکی میں اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کو متنبہ کیا ہے کہ یہودی تمہارے خلاف کیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں اور یہ کہ اسلام کے خلاف وہ کیا کیا تدابیر اختیار کرنا چاہتے ہیں ۔ کیا ہی اچھی تدبیر ہے یہ کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے خلاف اہل ایمان کے دلوں میں نفرت بٹھانا چاہتے ہیں ‘ جو مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے تھے ۔ اس وقت مسلمان اس ہدایت پر فخر کرتے تھے اور وہ ان لوگوں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے جو ان کو اس قابل فخر وعزت پوزیشن سے لوٹا کر پھر جاہلیت کی طرف لے جانا چاہتے تھے ‘ جس کو وہ خوب جانتے تھے اور اسلام بھی اس جاہلیت سے اچھی طرح واقف تھا اور جو شخص بھی انہیں جاہلیت کی طرف لوٹا رہا تھا ‘ وہ اسے بہت ہی برا سمجھتے تھے ۔ اس دور میں قرآن ان لوگوں سے مخاطب تھا ‘ اللہ کے علم کے مطابق نازل ہو رہا تھا ۔ اور مسلمانوں کے دلوں میں اس کی وقعت اور اہمیت تھی ۔ اس لئے اس کے بعد قرآن صراحتا بتاتا ہے کہ یہودیوں کی یہ سازش ہے اور تصریح کردی جاتی ہے کہ یہ یہودی مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ اہل ایمان کو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ان کی اس مذموم کوشش کے مقابلے میں اللہ کی ہدایت اور نصرت پر ہی بھروسہ کریں ۔ (آیت) ” واللہ اعلم باعدآء کم وکفی باللہ ولیا وکفی باللہ نصیرا “۔ (٤٥) اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور تمہاری حمایت ومددگاری کے لئے اللہ ہی کافی ہے کہتے ہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ “ یوں صراحت کے ساتھ اعلان کردیا جاتا ہے کہ مدینہ میں جماعت مسلمہ اور یہودیوں کے درمیان دشمنی ہے ۔ اور ان کے درمیان متوازی خطوط متعین ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اگرچہ تعجب کا اظہار تمام اہل کتاب کے بارے میں ہیں لیکن اس آیت میں مدینہ کے یہودی ہی مراد ہیں ۔ کلام الہی نے فقط اشارہ پر اکتفا نہ کیا بلکہ یہودیون کا ذکر صراحت کے ساتھ کیا اور اس کے بعد ان کی سرگرمیوں اور سازشوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ان کی گستاخیوں کا تفصیلا ذکر کیا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعات ہجرت کے ابتدائی دور کے تھے اور ابھی تک مدینہ طیبہ میں اسلام کو اس قدر شوکت اور غلبہ نصیب نہ ہوا تھا ۔ (آیت) ” من الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ ویقویون سمعنا وعصینا واسمع غیر مسمع وراعنا لیا بالسنتھم وطعنا فی الدین (٤ : ٤٦) ” جن لوگوں نے یہودیت کا طریقہ اختیار کیا ہے ان میں کچھ لوگ ہیں جو الفاظ کو ان کے محل سے پھیر دیتے ہیں اور دین حق کے خلاف نیش زنی کرکے اپنی زبانوں کو توڑ موڑ کر کہتے ہیں ۔ (سمعنا وعصینا) اور (واسمع غیر مسمع) اور (راعنا) کلام الہی کے اندر توڑ پھوڑ کرتے ہوئے وہ حد سے گزر گئے تھے ۔ وہ اللہ کی شان میں بھی گستاخی کرتے تھے اور اس طرح وہ کلامی الہی کا سیدھا مفہوم کچھ سے کچھ بنا دیتے تھے ۔ اس آیت کے مفہوم میں راجح بات یہ ہے کہ وہ تورات کی عبارتوں کو اس طرح بدلتے تھے کہ اس کے الفاظ کا مفہوم بدل جاتا ۔ اور اس تحریف کا بڑا مقصد یہ تھا کہ وہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے بارے میں تورات میں جو دلائل تھے ‘ ان کو تبدیل کردیں اور ان احکام اور قوانین کو بدل دیں جن کو اسلامی شریعت نے بحال رکھا اور جن سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ جس منبع سے تورات نازل ہوئی ہے ‘ اسی سے قرآن کریم نازل ہو رہا ہے اور نتیجتہ یہ بات ثابت ہو رہی تھی کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت برھق ہے ۔ اور وہ ان باتوں کو اپنے مدلول سے اس طرح بدل دیتے کہ ان کی خواہشات کے مطابق مفہوم بن جاتا اور یہ صفت ان تمام لوگوں میں پائی جاتی ہے جو اپنے دین سے منحرف ہوجاتے ہیں اور ایسی تحریفات کرتے ہیں کہ جس سے اقتدار پر قابض لوگوں کو خوش کریں ‘ یا ان عوام الناس کو خوش کریں جو دین سے اپنے آپ کو چھڑانا چاہتے ہیں ۔ یہودی ہمیشہ اس کام میں ماہر رہے ہیں اگرچہ ہمارے دور میں مسلمانوں کے اندر بھی بعض لوگوں نے یہ کام شروع کردیا ہے اور یہ لوگ اس خصلت میں یہودیوں سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ پھر یہ لوگ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گستاخی کرتے ہوئے اس قدر آگے بڑھ گئے تھے کہ وہ کہتے ” ہم نے سنا اور نافرمانی کی “ اس لئے ہم نہ ایمان لاتے ہیں اور نہ اتباع کرتے ہیں اور نہ اطاعت کرتے ہیں ۔ اس سے بھی اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ یہ آیات مدینہ کے ابتدائی ایام میں نازل ہوئیں جہاں یہودیوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں اس قدر بےباکانہ جرات ہو سکتی تھی ۔ اس ظاہری انکار کے بعد وہ نہایت ہی بےادبی ‘ نہایت ہی بداخلاقی پر اتر آئے اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرنے لگے ۔ بظاہر کہتے ہیں ۔ (اسمع) (سنئے) (غیر مسمع) آپ کوئی یہ حکم نہیں دے سکتا کہ آپ (سنئے) بظاہر تو یہ کلمہ تادیب تھا اور (راعنا) کا مفہوم یہ تھا کہ آپ ہماری رعایت کریں ‘ ہمارے حال کو مدنظر رکھیں ۔ یعنی یہ کہ وہ اہل کتاب ہیں اور انکو اسلام کی طرف اس طرح دعوت نہیں دی جانی چاہئے جس طرح عام مشرکین کو دی جاتی ہے ۔ ان اصل معنوں کو وہ زبان کے ہیر پھیر سے اس طرح بگاڑتے کہ (غیر مسمع) کا معنی یوں بن جاتا کہ آپ کی بات کوئی نہ سنے اور نہ آپ سن سکیں ۔ (اللہ انکو ذلیل کرے) اور (راعنا) کے لفظ کا اشقاق وہ رعونت سے کرتے ۔ یہ تھی انکی بےشرمی اور بےحیائی اور بےادبی اور ہیر پھیر اور مداہنت اور بات کا مفہوم بدلنا اور لفظ کا محل بدلنا وغیرہ ۔ قرآن کریم یہودیوں کی ان کمزوریوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ بتاتا ہے کہ یہودی چونکہ اہل کتاب اور اہل ثقافت ہیں اور ان کا فرض یہ تھا کہ ان کا رویہ شریفانہ ہوتا اور تہذیب کے دائرے کے اندر وہ بات کرتے اس لئے کہ جن لوگوں کو کتاب کا حصہ ملا ہے ‘ ان کو غیر اہل کتاب کے مقابلے میں نہایت ہی سلجھا ہوا ہونا چاہئے ۔ یہ کہنے کے بعد ان کو یہ امید دلائی جاتی ہے کہ وہ ہدایت پاکر کر اچھی جزاء ‘ اللہ کی جانب سے بھلائی اور فضل وکرم کے مستحق ہوں گے بشرطیکہ وہ سیدھے راستے پر آجائیں ۔ لیکن ان کا مزاج ہی ایسا نہیں رہا ہے اور ان پر اللہ کی لعنت ہوگئی ہے اور ان کی حالت یہ ہے ۔ (آیت) ” ولوانھم قالوا سمعنا واطعنا واسطمع وانظرنا لکان خیرالھم واقوم ولکن لعنھم اللہ بکفرھم فلا یمومنون الا قلیلا “۔ (٤ : ٤٦) ” حالانکہ اگر وہ کہتے ۔ (سمعنا واطعنا ) اور (واسمع) اور (وانظرنا) تو یہ انہی کے لئے بہتر تھا اور زیادہ راست بازی کا طریقہ تھا ۔ مگر ان پر تو ان کی باطل پرستی کی بدولت اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔ “ لیکن وہ سچائی کے مقابلے میں صاف اور قطعی بات نہیں کرتے اور اگر وہ صفائی کے ساتھ اس سچائی کو قبول کرتے اور صاف صاف بات کرتے اور کہتے ” ہم نے سنا اور اطاعت کی “ یا کہتے ” سنئے اور ذرا ہمارا انتظار کیجئے “ تو انکے لئے یہ بہتر ہوتا اور ان کے مزاج اور ان کی نفسیات اور حالات کے زیادہ مطابق ہوتا ۔ لیکن وہ اپنے کفر کی وجہ سے ہدایت سے دور بھاگتے ہیں کم لوگ ان میں ایسے ہیں جو ایمان لاتے ہیں ۔ اللہ کی بات بہت ہی سچی ہے ۔ اسلامی نظام حیات کو یہودیوں میں سے بہت ہی کم لوگوں نے قبول کیا اور اسلام کی طویل تاریخ اس پر گواہ ہے اور یہ قیل تعداد بھی وہ تھی جس کی قسمت میں اللہ نے یہ بھلائی لکھ دی تھی ‘ اور یہ ارادہ کرلیا تھا کہ وہ راہ ہدایت پالیں ۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے سچائی تک پہنچنے کے لئے جدوجہد کی ۔ انہوں نے ہدایت پانے کے لئے سعی کی ۔ رہا یہودی فرقہ تو وہ چودہ سو سال سے اسلام کے خلاف برسرجنگ ہے ۔ جب سے مدینہ میں ‘ ان کے پڑوس میں اسلام نازل ہوا ہے ‘ اس وقت سے لے کر آج تک اسلام کے خلاف ان کی سازشیں غیر منقطع ہیں اور اسلام کے ساتھ انہیں جو بغض ہے وہ آج تک ختم نہیں ہوا ۔ ہاں اس کی شکل ‘ اس کا رنگ اور اس کا فنی انداز بدلتا رہا ہے ۔ اور آج تک اسلام کے خلاف جو سازشیں بھی کی گئیں جس میں صیلبی جنگیں اور جدید استعماریت بھی شامل ہے ‘ اس کے پیچھے یہودیوں ہی کا ہاتھ رہا ہے ‘ اور یہ سازشیں مختلف شکلوں میں رہی ہیں۔ اگر براہ راست نہیں تو اس میں یہودیوں کا حصہ اور ہاتھ ضرور رہا ہے ۔ اس کے بعد خطاب اہل کتاب یہودیوں سے ہے ۔ انہیں دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اس کتاب کو قبول کرلیں جو اس کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے جو تمہارے ہاں موجود ہے ۔ انہیں سخت دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر بلاوجہ وہ قبول حق سے رودگردانی کریں گے تو ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ انہیں مسخ کر کے انکے چہرے پھیر دے گا اور ان پر اسی طرح لعنت ہوگی جس طرح سبت کی خلاف ورزی کرنے والوں پر ہوئی تھی ۔ ارتکاب شرک سے انہیں منع کیا جاتا ہے اور خالص توحید کو قبول کرنے کی دعوت دی جاتی ہے جس کی اساس پر خود ان کا دین بھی استوار ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرماتے جبکہ اس کے علاوہ تمام گناہ معاف ہوسکتے ہیں ‘ شرک بہرحال گناہ عظیم ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35 اَلَمْ تَرَ اِلیَ الَّذِیْنَ سے فَلَا یُؤْمِنُونَ اِلَّا قَلِیْلاً تک یہود پر زجریں اور شکوے ہیں کہ وہ مذکورہ احکام کو نہیں مانتے تھے کیونکہ یہ احکام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے ہیں نیز وہ آپ کی تکذیب کرتے اور ان کی کتابوں میں آپ کی جو صفتیں مذکور تھیں ان میں تحریف کرتے تھے کیونکہ آپ کو آخری پیغمبر مان لینے کی صورت میں آپ کا لایا مسئلہ توحید بھی ماننا پڑے گا اور مسئلہ توحید کو ماننے سے ان کی گدیاں نذریں، منتیں اور تمام دنیوی وقار ختم ہوجائے گا۔ ان سے فرمایا کہ اگر وہ آخری پیغمبر کو مان لیتے تو ان کے لیے بہتر تھا۔ یَشْتَرُونَ کے معنی یستبدلون کے ہیں اور مفعول کے بعد بالھدی محذوف ہے اور جملہ اوتوا کی ضمیر سے حال ہے۔ و معنی یشترون یستبدلون فھو فی موضع نصب علی الحال و فی الکلام حذف تقدیرہ یشترون الضللۃ بالھدی (قرطبی ج 242) مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا میں من بیانیہ ہے۔ اور یہ اَلَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْباً کا بیان ہے اور اَلْکَلِمَ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ صفات مراد ہیں جو تورات میں مذکور تھیں۔ یہودیوں کے مولوی ان میں تحریف کرتے تھے ان کی اسی تحریف کو پہلے اَلضَّلٰلَۃ سے تعبیر فرمایا۔ علماء یہود اپنے ماننے والوں اور اپنے معتقدین سے بڑی بڑی رقمیں وصول کرتے اور اپنی خواہشات کے مطابق تورات میں لفظی اور معنوی تحریفیں کیا کر تھے قال الزجاج النعی یاخذون الرشا ویحرفون التورۃ فالضلالۃ ھو ھذا لتحریف ای اشتروھا بمال الرشا (روح ج 5 ص 45)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اے مخاطب ! کیا تو نے ان لوگوں کی حالت پر نظر نہیں کی اور تو نے ان کو متعجبانہ نظر سے نہیں دیکھا جن کو کتاب یعنی توریت سے کافی حصہ ملا ہے اور توریت کے علم سے ان کو کافی اور ایک اچھا خاصا حصہ ملا ہے مگر باوجود اس کے وہ لوگ کفر کی گمراہی خرید رہے ہیں اور انہوں نے گمراہی کو اختیار کر رکھا ہے اور صرف یہی نہیں کہ وہ خود گمراہی ہیں بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی صحیح راہ سے بھٹک جائو اور گمراہ ہو جائو۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ یہود خود تو باوجود پڑھے لکھے ہونے کے گمراہ ہو ہی چکے ہیں اور ہدایت چھوڑ کر گمراہی اختیار کرچکے ہیں مگر تمہارے گمراہ کرنے کی بھی مختلف تدابیر کرتے رہتے ہیں اور تمہارے خلاف ان کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی گمراہ ہو جائو اور اسلام سے ہٹ جائو۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں۔ یہود کو فرمایا کہ کچھ ملا کتاب کا ایک حصہ یعنی لفظ پڑھنے کو ملے ہیں اور عمل کرنا نہیں۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب نے نصیراً پر یہ حاشیہ لکھا ہے ہم نے یہیں نقل کردیا ہے۔ شاہ صاحب نے چونکہ نصیباً کا ترجمہ ملا ہے کچھ ایک حصہ کیا ہے اس لئے اس کے موافق خلاصہ بھی فرمایا ہے۔ الم تر ایسے موقعہ پر بولتے ہیں جہاں کسی تعجب انگیز واقعہ کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ اے مخاطب اگر تو ان لوگوں کی حالت پر غور کرتا اور ان کے حال کو دیکھتا تو ضرور تعجب کرتا۔ اب آگے ان کی دشمنی اور اپنی حمایت و دوستی کا ذکر فرماتے ہیں۔ (تسہیل)