Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 46

سورة النساء

مِنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ وَ یَقُوۡلُوۡنَ سَمِعۡنَا وَ عَصَیۡنَا وَ اسۡمَعۡ غَیۡرَ مُسۡمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَـیًّۢا بِاَلۡسِنَتِہِمۡ وَ طَعۡنًا فِی الدِّیۡنِ ؕ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا وَ اسۡمَعۡ وَ انۡظُرۡنَا لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ وَ اَقۡوَمَ ۙ وَ لٰکِنۡ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفۡرِہِمۡ فَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۴۶﴾

Among the Jews are those who distort words from their [proper] usages and say, "We hear and disobey" and "Hear but be not heard" and "Ra'ina," twisting their tongues and defaming the religion. And if they had said [instead], "We hear and obey" and "Wait for us [to understand]," it would have been better for them and more suitable. But Allah has cursed them for their disbelief, so they believe not, except for a few.

بعض یہود کلمات کو ان کی ٹھیک جگہ سے ہیر پھیر کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور سُن اس کے بغیر کہ تُو سنا جائے اور ہماری رعایت کر ! ( لیکن اس کہنے میں ) اپنی زبان کو پیچ دیتے ہیں اور دین میں طعنہ دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سُنا اور ہم نے فرمانبرداری کی اور آپ سُنئے اور ہمیں دیکھئے تو یہ ان کے لئے بہت بہتر اور نہایت ہی مناسب تھا لیکن اللہ تعالٰی نے ان کے کُفر کی وجہ سے انہیں لعنت کی ہے ۔ پس یہ بہت ہی کم ایمان لاتے ہیں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مِّنَ الَّذِينَ هَادُواْ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ... Among those who are Jews, there are some who displace words from (their) right places, meaning, they intentionally and falsely alter the meanings of the Words of Allah and explain them in a different manner than what Allah meant. ... وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا ... And say: "We hear your word and disobey, Mujahid and Ibn Zayd explained, saying, "We hear what you say, O Muhammad, but we do not obey you in it." This is the implied meaning of the Ayah, and it demonstrates the Jews' disbelief, stubbornness and disregard for Allah's Book after they understood it, all the while aware of the sin and punishment that this behavior will earn for them. Allah's statement, ... وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ ... And "Hear and let you hear nothing." Ad-Dahhak reported from Ibn Abbas, means, hear our words, may you never hear anything. This is the Jews' way of mocking and jesting, may Allah's curse descend on them. ... وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ ... And Ra`ina, with a twist of their tongues and as a mockery of the religion. meaning, they pretend to say, `Hear us,' when they say, Ra`ina (an insult in Hebrew, but in Arabic it means `Listen to us.').' Yet, their true aim is to curse the Prophet. We mentioned this subject when we explained Allah's statement, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا (O you who believe! Say not Ra`ina but say Unzurna (make us understand)). (2:104) Therefore, Allah said about them, while they pretend to say other than what they truly mean, لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ (With a twist of their tongues and as a mockery of the religion) because of their cursing the Prophet. Allah then said, ... وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَكِن لَّعَنَهُمُ اللّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَ يُوْمِنُونَ إِلاَّ قَلِيلً And if only they had said: "We hear and obey", and "Do make us understand," it would have been better for them, and more proper; but Allah has cursed them for their disbelief, so they believe not except a few. meaning, their hearts are cast away from the path of righteousness and therefore, no beneficial part of faith enters it. Earlier, when we explained, فَقَلِيلً مَّا يُوْمِنُونَ (so little is that which they believe) (2:88) which means they do not have beneficial faith.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 یہودیوں کی خباثتوں اور شرارتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ' ہم نے سنا ' کے ساتھ ہی کہہ دیتے لیکن ہم نافرمانی کریں گے یعنی اطاعت نہیں کریں گے۔ یہ دل میں کہتے یا اپنے ساتھیوں سے کہتے یا شوخ جسارت کا ارتکاب کرتے ہوئے منہ پر کہتے اسی طرح غیر مُسْمَعٍ (تیری بات نہ سنی جائے) یہ بد دعا کے طور پر کہتے۔ یعنی تیری بات قبول نہ ہو۔ راعنا۔ کی بابت دیکھئے سورة البقرہ آیت 104۔ کا حاشیہ۔ 46۔ 2 یعنی ایمان لانے والے بہت ہی قلیل ہیں پہلے گزر چکا ہے کہ یہود میں سے ایمان لانے والوں کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچی۔ یا یہ معنی ہیں کہ بہت ہی کم باتوں پر ایمان لاتے۔ جب کہ ایمان نافع یہ ہے کہ سب باتوں پر ایمان لایا جائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٧۔ الف ] تورات عبرانی زبان میں نازل ہوئی تھی لیکن اصل تورات تو دو دفعہ گم ہوئی۔ پھر مختلف زبانوں میں اس کے تراجم پر انحصار کیا گیا۔ آج کل تورات اور انجیل کے مجموعہ کو بائیبل مقدس کا نام دیا گیا ہے۔ تورات کے حصہ کو عہد نامہ عتیق اور انجیل کے حصہ کو عہد نامہ جدید کہتے ہیں۔ ان میں تحریف کے علاوہ بہت سے الحاقی مضامین بھی شامل ہوچکے ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبارت الہامی نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ درج ذیل عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے : ١۔ & سو موسیٰ خداوند کا بندہ خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مرگیا۔ اسے اس نے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا۔ پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا & (کتاب استثناء باب ٣٤) اس عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب الہی کا حصہ نہیں بلکہ الحاقی مضمون ہے جو سیدنا موسیٰ کی وفات سے مدتوں بعد بائیبل میں شامل کردیا گیا۔ ٢۔ & پھر بنی اسرائیل نے کوچ کیا اور اپنا خیمہ عیدر کے ٹیلے کے اس پار ایستادہ کیا۔ & (کتاب پیدائش باب ٣٥، آیت ٢١) یہ عبارت اس لیے الحاقی ہے کہ عیدر اس منارہ کا نام ہے جو شہر یروشلم کے دروازہ پر تھا اور یہ سیدنا موسیٰ کی وفات کے کئی سو سال بعد بنایا گیا تھا۔ ٣۔ & خداوند نے بنی اسرائیل کی آواز سنی اور کنعانیوں کو گرفتار کروا دیا اور انہوں نے انہیں اور ان کی بستیوں کو حرام کردیا اور اس نے اس مکان کا نام حرمہ رکھا۔ & (کتاب گنتی باب ٢١، آیت ٣) یہ عبارت بھی الہامی نہیں کیونکہ یہ واقعہ تو سیدنا موسیٰ تو درکنار سیدنا یوشع کے بھی بعد پیش آیا۔ کیونکہ موسیٰ تو اپنی زندگی میں کنعان تک پہنچے بھی نہیں تھے۔ بستیوں کو حرام کیسے قرار دے دیا ؟ اس کے جواب میں اکثر اہل کتاب کے علماء یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ جملے الحاقی ہیں اور ان کو سیدنا عزیر نے ملا دیا ہے لیکن اس کی سیدنا عزیر نے کوئی تصریح نہیں کی کہ یہ میرا کلام ہے۔ علاوہ ازیں کلام کے تسلسل سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام متصل ہے۔ یہ مقامات تو ایسے ہیں جو تاریخی لحاظ سے بھی غلط ثابت ہوتے ہیں لیکن بائیبل کی اکثر عبارتیں ایسی ہیں جو اللہ کا کلام نہیں بلکہ کسی دوسرے کا کلام معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً : ٤۔ کتاب خروج باب ٢ کی آیت نمبر ١١ یوں ہے۔ & ان روزوں میں یوں ہوا کہ جب موسیٰ بڑا ہوا & غور فرمائیے یہ اللہ کا کلام معلوم ہوتا ہے یا کسی سوانح نگار کا ؟ اسی طرح اسی کتاب اور اسی باب کی آیت نمبر ١٥ یوں ہے۔ & جب فرعون نے یہ سنا تو چاہا کہ موسیٰ کو قتل کر دے پر موسیٰ فرعون کے حضور سے بھاگا۔ & غرضیکہ ان کتابوں کی بیشمار آیات ایسی ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کا کلام نہیں ہوسکتیں، اور نہ وہ انبیاء کا کلام ہیں بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بہت مدت بعد کسی سوانح نگار نے یہ حالات قلمبند کیے۔ پھر انہیں بھی کتاب مقدس میں شامل کردیا گیا تھا۔ [٧٨] یہود کی شرارتیں : جو یہود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں آیا کرتے تھے ان کی تین طرح کی حرکتوں کا ان آیات میں ذکر ہوا ہے۔ ایک یہ کہ جب وہ کوئی حکم الہی سنتے تو بلند آواز سے تو & سَمِعْنَا & کہتے مگر آہستہ آواز سے یا دل میں & عَصَیْنَا & (یعنی ہم مانیں گے نہیں) کہہ دیتے۔ یا & اَطَعْنَا & کے لفظ کو ہی زبان کو موڑ دے کر یوں ادا کرتے کہ وہ & اَطَعْنَا & کی بجائے & عَصَیْنَا & ہی سمجھ میں آتا۔ (٢) & اِسْمَعْ & (ہماری بات سنیے) یعنی جب کوئی بات ان کی سمجھ میں نہ آتی اور کچھ پوچھنا درکار ہوتا تو & اِسْمَعْ & کہتے اور ساتھ ہی & غَیْرَ مُسْمَعٍ & بھی دل میں کہہ دیتے (یعنی تم سن ہی نہ سکو یا بہرے ہوجاؤ) (٣) اور کبھی & اِسْمَعْ & کی بجائے & رَاعِنَا & کہتے اور زبان کو موڑ دے کر & رَاعِیْنَا & (ہمارے چرواہے) کہہ دیتے۔ پھر آپس میں یہ بھی کہا کرتے کہ اگر یہ فی الواقع نبی ہوتا تو اسے ہماری ان باتوں پر اطلاع ہوجانا یقینی تھا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کی ایسی شرارتوں اور خباثتوں سے مطلع کردیا اور ساتھ ہی یہ بتادیا کہ جو لوگ اپنی ضلالت میں اس درجہ پختہ ہوچکے اور ہٹ دھرم بن چکے ہیں ان سے ایمان لانے کی توقع عبث ہے۔ الا ماشاء اللہ

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مِنَ الَّذِيْنَ ھَادُوْا يُحَرِّفُوْنَ ۔۔ : اوپر کی آیت میں فرمایا کہ وہ گمراہی مول لیتے ہیں، اب اس آیت میں چند امور کے ساتھ اس گمراہی کی تشریح فرمائی۔ یعنی وہ تورات کے احکام میں تحریف کرتے ہیں۔ [ دیکھیے المائدۃ : ١٣، ٤١ ] سورۂ مائدہ میں ” عن مواضعہ “ کے علاوہ ” من بعد مواضعہ “ بھی ہے، جس کا معنی تحریف لفظی ہے، یہاں ” عن مواضعہ “ ہے، اس سے مراد تحریف معنوی ہے، یعنی تاویلات فاسدہ سے کام لیتے ہیں، مثلاً قصۂ ذبیح کا تعلق اسماعیل (علیہ السلام) کی بجائے اسحاق (علیہ السلام) کے ساتھ جوڑنا۔ (رازی۔ شوکانی) ہمارے زمانے میں بھی تمام بدعتیوں کا شیوہ ہوگیا ہے کہ جو آیت یا حدیث امام، مجتہد یا پیرو مرشد کے قول کے خلاف نظر آتی ہے، اس کی تاویل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے حیا نہیں کرتے کہ پیرو مرشد اور امام و مجتہد تو معصوم نہ تھے، بخلاف پیغمبر کہ کہ خطا سے ان کی حفاظت خود اللہ تعالیٰ فرماتا تھا۔ (وحیدی) لَيًّــۢا بِاَلْسِنَتِهِمْ : ” لیّا “ یہ ” لوی یَلْوِی لَیًّا “ سے ہے، بمعنی توڑنا مروڑنا، یعنی زبان کو توڑ مروڑ کر ” راعینا “ کہتے، جو توہین کا کلمہ ہے۔ [ دیکھیے البقرۃ : ١٠٤ ] ان کی ایک گمراہی یہ ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی حکم سنتے ہیں تو ظاہر میں ” سمعنا “ کہتے ہیں (یعنی ہم نے سنا) مگر ساتھ ہی بیحد عداوت کی وجہ سے ” عصینا “ (نہیں مانا) بھی کہہ دیتے ہیں۔ اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی بات کرتے تو کہتے : (وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ ) ” سنو، تمہیں کوئی نہ سنائے۔ “ ظاہر میں یہ نیک دعا ہے کہ تم ہمیشہ غالب رہو، کوئی تمہیں بری بات نہ سنا سکے اور دل میں نیت رکھتے کہ تو بہرا ہوجائے، سن نہ سکے، ایسی شرارت کرتے۔ (رازی ابن کثیر) وَطَعْنًا فِي الدِّيْنِ : یعنی یہ سب حرکتیں کر رہے ہیں اور پھر دین میں طعن کی غرض سے کہتے ہیں کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا تو ہمارا فریب معلوم کرلیتا، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے خبث باطن کو ظاہر فرما دیا اور وہی طعن الٹا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے سچا ہونے کی پختہ دلیل بن گیا۔ (رازی) وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۔۔ : یعنی یہ اگر اس قسم کی حرکات اور طعن کے بجائے ایسے کلمات استعمال کرتے جن میں شرارت کی آمیزش نہیں ہوسکتی اور اخلاص سے پیش آتے، مثلاً : ” عصینا “ کے بجائے ” اطعنا “ اور ” غیر مسمع “ کی بجائے ” انظرنا “ تو ان کے حق میں بہتر ہوتا، مگر افسوس کہ یہ بہت ہی تھوڑے احکام پر ایمان رکھتے ہیں۔ پس ” قلیلاً “ یہاں مصدر محذوف ”إِیْمَانًا “ کی صفت ہے اور یہ معنی بھی ہے کہ ان میں سے بہت ہی کم لوگ ایمان لاتے ہیں، حتیٰ کہ یہودیوں میں سے دس بھی بمشکل ایمان لائے ہوں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مِنَ الَّذِيْنَ ھَادُوْا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَيَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَيًّۢا بِاَلْسِنَتِہِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّيْنِ۝ ٠ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ۝ ٠ۙ وَلٰكِنْ لَّعَنَھُمُ اللہُ بِكُفْرِہِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا۝ ٤٦ هَادَ ( یہودی) فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا [ البقرة/ 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام . الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة/ 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة/ 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ تحریف الکلام : أن تجعله علی حرف من الاحتمال يمكن حمله علی الوجهين، قال عزّ وجلّ : يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] ، ويُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَواضِعِهِ [ المائدة/ 41] ، وَقَدْ كانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ ما عَقَلُوهُ [ البقرة/ 75] ، والحِرْف : ما فيه حرارة ولذع، كأنّه محرّف عن الحلاوة والحرارة، وطعام حِرِّيف، وروي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «نزل القرآن علی سبعة أحرف» «1» وذلک مذکور علی التحقیق في «الرّسالة المنبّهة علی فوائد القرآن» «2» . التحریف الشئ ) کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک جانب مائل کردینا ۔ جیسے تحریف القم قلم کو ٹیڑھا لگانا ۔ اور تحریف الکلام کے معنی ہیں کلام کو اس کے موقع و محل سے پھیر دینا کہ اس میں دو احتمال پیدا ہوجائیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب) کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں ۔ اور دوسرے مقام پر ويُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَواضِعِهِ [ المائدة/ 41] ہے یعنی ان کے محل اور صحیح مقام پر ہونے کے بعد ۔ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ ما عَقَلُوهُ [ البقرة/ 75]( حالانکہ ) ان میں سے کچھ لوگ کلام خد ( یعنی تو رات ) کو سنتے پھر اس کے کچھ لینے کے بعد اس کو ( جان بوجھ کر ) بدل دیتے رہے ہیں ۔ الحرف ۔ وہ چیز جس میں تلخی اور حرارت ہوگو یا وہ حلاوت اور حرارت سے پھیر دی گئی ہے ۔ طعام حزیف چر چراہٹ ( الاکھانا ) ایک روایت میں ہے ۔ (76) کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے ۔ اس کی تحقیق ہمارے رسالہ المنبھۃ علی فوائد القرآن میں ملے گی ۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ وضع الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی: إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة . ( و ض ع ) الواضع ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ عصا العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ : ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس/ 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے رعی الرَّعْيُ في الأصل : حفظ الحیوان، إمّا بغذائه الحافظ لحیاته، وإمّا بذبّ العدوّ عنه . يقال : رَعَيْتُهُ ، أي : حفظته، وأَرْعَيْتُهُ : جعلت له ما يرْعَى. والرِّعْيُ : ما يرعاه، والْمَرْعَى: موضع الرّعي، قال تعالی: كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعامَكُمْ [ طه/ 54] ، أَخْرَجَ مِنْها ماءَها وَمَرْعاه[ النازعات/ 31] ، وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعى [ الأعلی/ 4] ، وجعل الرَّعْيُ والرِّعَاءُ للحفظ والسّياسة . قال تعالی: فَما رَعَوْها حَقَّ رِعايَتِها[ الحدید/ 27] ، أي : ما حافظوا عليها حقّ المحافظة . ويسمّى كلّ سائس لنفسه أو لغیره رَاعِياً ، وروي : «كلّكم رَاعٍ ، وكلّكم مسئول عن رَعِيَّتِهِ» قال الشاعر : ولا المرعيّ في الأقوام کالرّاعي وجمع الرّاعي رِعَاءٌ ورُعَاةٌ. ومُرَاعَاةُ الإنسان للأمر : مراقبته إلى ماذا يصير، وماذا منه يكون، ومنه : رَاعَيْتُ النجوم، قال تعالی: لا تَقُولُوا : راعِنا وَقُولُوا انْظُرْنا [ البقرة/ 104] ، وأَرْعَيْتُهُ سمعي : جعلته راعیا لکلامه، وقیل : أَرْعِنِي سمعَك، ويقال : أَرْعِ علی كذا، فيعدّى بعلی أي : أبق عليه، وحقیقته : أَرْعِهِ مطّلعا عليه . ( ر ع ی ) الرعی ۔ اصل میں حیوان یعنی جاندار چیز کی حفاظت کو کہتے ہیں ۔ خواہ غذا کے ذریعہ ہو جو اسکی زندگی کی حافظ ہے یا اس سے دشمن کو دفع کرنے کے ذریعہ ہو اور رعیتہ کے معنی کسی کی نگرانی کرنے کے ہیں اور ارعیتہ کے معنی ہیں میں نے اسکے سامنے چارا ڈالا اور رعی چارہ یا گھاس کو کہتے ہیں مرعی ( ظرف ) چراگاہ ۔ قرآن میں ہے ۔ كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعامَكُمْ [ طه/ 54] تم بھی کھاؤ اور اپنے چارپاؤں کو بھی چراؤ ۔ أَخْرَجَ مِنْها ماءَها وَمَرْعاها[ النازعات/ 31] اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکالا ۔ وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعى [ الأعلی/ 4] اور جس نے ( خوش نما ) چارہ ( زمین سے ) نکالا ۔ رعی اور رعاء کا لفظ عام طور پر حفاظت اور حسن انتظام کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَما رَعَوْها حَقَّ رِعايَتِها[ الحدید/ 27] لیکن جیسے اس کی نگہداشت کرنا چاہئے تھی انہوں نے نہ کی ۔ اور ہر وہ آدمی جو دوسروں کا محافظ اور منتظم ہوا اسے راعی کہا جاتا ہے ۔ حدیث میں ہے ( 157) کلھم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے متعلق سوال ہوگا شاعر نے کہا ہے ( السریع ) ولا المرعيّ في الأقوام کالرّاعی اور محکوم قومیں حاکم قوموں کے برابر نہیں ہوسکتیں ۔ اور راعی کی جمع رعاء ورعاۃ آتی ہے ۔ المراعاۃ کسی کام کے انجام پر غور کرنا اور نہ دیکھنا کہ اس سے کیا صادر ہوتا ہے کہا جاتا ہے ۔ راعیت النجوم میں نے ستاروں کے غروب ہونے پر نگاہ رکھی ۔ قرآن میں ہے : لا تَقُولُوا : راعِنا وَقُولُوا انْظُرْنا[ البقرة/ 104]( مسلمانو پیغمبر سے ) راعنا کہہ کر مت خطاب کیا کرو بلکہ انظرنا کہا کرو ۔ کہا جاتا ہے : ارعیتہ سمعی ۔ میں نے اس کی بات پر کان لگایا یعنی غور سے اس کی بات کو سنا اسی طرح محاورہ ہے ۔ ارعنی سمعک میری بات سنیے ۔ اور ارع علٰی کذا ۔ کے معنی کسی پر رحم کھانے اور اسکی حفاظت کرنے کے ہیں ۔ لوی اللَّيُّ : فتل الحبل، يقال : لَوَيْتُهُ أَلْوِيهِ لَيّاً ، ولَوَى يدَهُ ، قال : لوی يده اللہ الذي هو غالب ولَوَى رأسَهُ ، وبرأسه أماله، قال تعالی: لَوَّوْا رُؤُسَهُمْ [ المنافقون/ 5] : أمالوها، ولَوَى لسانه بکذا : كناية عن الکذب وتخرّص الحدیث . قال تعالی: يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ، وقال : لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ [ النساء/ 46] ، ويقال فلان لا يلْوِي علی أحد : إذا أمعن في الهزيمة . قال تعالی:إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران/ 153] وذلک کما قال الشاعر : ترک الأحبّة أن تقاتل دونه ... ونجا برأس طمرّة وثّاب ( ل و ی ) لویٰ ( ض ) الجبل یلویہ لیا کے معنی رسی بٹنے کے ہیں ۔ لوی یدہ : اس کے ہاتھ کو موڑ الویراسہ وبراسہ وبراسہ اس نے اپنا سر پھیرلیا یعنی اعراض کیا ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوَّوْا رُؤُسَهُمْ [ المنافقون/ 5] تو سر پھیر لیتے ہیں لو یٰ لسانہ بکذا : کنایہ ہوتا ہے جھوٹ بولنے اور اٹکل بچوں کی باتیں بنانے سے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] کتاب ( تو راۃ) کو زبان موڑ موڑ کر پڑھتے ہیں لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ [ النساء/ 46] زبان کو موڑ کر محاورہ ہے : ۔ فلان لا یلون علیٰ احد ۔ وہ کسی کی طرف گردن موڑ کر بھی نہیں دیکھتا ۔ یہ سخت ہزیمت کھا کر بھاگ اٹھنے کے موقع پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران/ 153] جب تم لوگ دور بھاگ جاتے تھے ۔ اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے ۔ چناچہ شاعر نے اس معنی کو یوں ادا کیا ہے ( 401 ) ترک الاحبۃ ان تقاتل دو نۃ ونجا بر اس طمرۃ وثاب اور اس نے دوستوں کے درے لڑنا چھوڑ دیا اور چھلا نگیں بھر کر دوڑے والی گھوڑی پر سوار ہو کر بھاگ گیا ۔ لسن اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر . ( ل س ن ) اللسان ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان/ 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔ طعن الطَّعْنُ : الضّربُ بالرّمح وبالقرن وما يجري مجراهما، وتَطَاعَنُوا، واطَّعَنُوا، واستعیر للوقیعة . قال تعالی: وَطَعْناً فِي الدِّينِ [ النساء/ 46] ، وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ [ التوبة/ 12] ( ط ع ن ) الطعن ( ف) کے معنی نیزہ ، سینگ وغیرہ کسی تیز اور نوکیلی چیز کے ساتھ زخم کرنے کے ہیں تطاعنوا واطعنوا انہوں نے ایک دوسرے کو نیزہ مارا پھر استعارہ کے طور پر کسی پر الزام لگانے یا اس کی بدگوئی کرنے کے معنی میں بھی طعن کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَطَعْناً فِي الدِّينِ [ النساء/ 46] اور دین میں طنز کی راہ سی۔ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ [ التوبة/ 12] اور تمہارے دین میں طعنے کرنے لگیں ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ لعن اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] ( ل ع ن ) اللعن ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٦) یہودیوں کے دوعالموں یسبع اور رافع بن حرملہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، انہوں نے عبداللہ بن ابی اور ان کے ساتھیوں کو اپنے دین کو دعوت دی تھی، مالک بن صیف یہودی اور اس کے ساتھی باوجود یہ کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت توریت میں موجود ہے۔ مگر پھر بھی اس میں ترمیم کرتے اور چھپاتے ہیں اور رسول اکرم کی خدمت میں آکر اپنی زبانوں کو توہین کے لہجہ میں تبدیل کرکے اور دین میں عیب جوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ظاہرا تو آپ کی بات کو سنتے ہیں مگر حقیقت میں ہم اس کی نافرمانی کرتے ہیں اور اگر یہ یہودی ” سمعنا “ وغیرہ کہتے ہیں تو اگر یہ اس طرح کے تحقیری جملوں سے گریز کرتے تو یہ بات ان کے لیے بہتر ہوتی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی سزا میں ان پر جزیہ مسلط کردیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ (مِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ ) (وَیَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا) یہود اپنی زبانوں کو توڑ مروڑکر الفاظ کو کچھ کا کچھ بنا دیتے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے تو احکام الٰہی سن کر کہتے سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا۔ بظاہر وہ اہل ایمان کی طرح سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا (ہم نے سنا اور ہم نے قبول کیا) کہہ رہے ہوتے لیکن زبان کو مروڑ کر حقیقت میں سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا کہتے۔ (وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ ) وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کو مخاطب کرکے کہتے ذرا ہماری بات سنیے ! ساتھ ہی چپکے سے کہہ دیتے کہ آپ سے سنا نہ جائے ‘ ہمیں آپ کو سنانا مطلوب نہیں ہے۔ اس طرح وہ شان رسالت میں گستاخی کے مرتکب ‘ ہوتے۔ (وَّرَاعِنَا لَیًّام بِاَلْسِنَتِہِمْ ) رَاعِنَا کا مفہوم تو ہے ہماری رعایت کیجیے لیکن وہ اسے کھینچ کر ‘ رَاعِیْنَابنا دیتے۔ یعنی اے ہمارے چرواہے ! (وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ ط) ۔ یہود اپنی زبانوں کو توڑ مروڑ کر ایسے کلمات کہتے اور پھر دین میں یہ عیب لگاتے کہ اگر یہ شخص واقعی نبی ہوتا تو ہمارا فریب اس پر ظاہر ہوجاتا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے فریب کو ظاہرکر دیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

72. It is to be noted that this expression means 'they became Jews', rather than 'they were Jews'. For, originally, they were nothing but Muslims, just as the followers of every Prophet are Muslims. Only later on did they become merely 'Jews'. 73. This signifies three things. First, that they tampered with the text of the Scripture. Second, that they misinterpreted the Scripture and thereby distorted the meanings of the verses of the Book. Third, that they came and stayed in the company of the Prophet (peace be on him) and his Companions and listened to the conversations which took place there, then went among other people and misreported what they had heard. They did this with the malicious intent of bringing the Muslims into disrepute and thereby preventing people from embracing Islam. 74. When the ordinances of God are announced to them, they loudly proclaim: 'Yes, we have heard', (sami'na), but then they whisper: 'And we disobeyed' ('asayna). Or else they pronounce ata'na ('we obey') with such a twist of the tongue that it becomes indistinguishable from 'asayna. 75. Whenever they wanted to say something to the Prophet (peace be on him) they would say, 'isma" (listen), but added to this the expression, 'ghayr musma" which had several meanings. It could either be a polite expression, meaning that he was worthy of such deep respect that one should say nothing to his dislike or it could have a malicious implication, meaning that he did not deserve to be addressed by anybody. It also meant the imprecation: 'May God turn you deaf.' 76. For an explanation of this see Towards Understanding the Qur'an, vol. I, Surah 2, n. 108.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :72 یہ نہیں فرمایا کہ ”یہودی ہیں“ بلکہ یہ فرمایا کہ ”یہودی بن گئے ہیں“ ۔ کیونکہ ابتداءً تو وہ بھی مسلمان ہی تھے ، جس طرح ہر نبی کی امت اصل میں مسلمان ہوتی ہے ، مگر بعد میں وہ صرف یہودی بن کر رہ گئے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :73 اس کے تین مطلب ہیں: ایک یہ کہ کتاب اللہ کے الفاظ میں رد و بدل کرتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ اپنی تاویلات سے آیات کتاب کے معنی کچھ سے کچھ بنا دیتے ہیں ۔ تیسرے یہ کہ یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں کی صحبت میں آکر ان کی باتیں سنتے ہیں اور واپس جا کر لوگوں کے سامنے غلط طریقہ سے روایت کرتے ہیں ۔ بات کچھ کہی جاتی ہے اور وہ اسے اپنی شرارت سے کچھ کا کچھ بنا کر لوگوں میں مشہور کرتے ہیں تاکہ انہیں بدنام کیا جائے اور ان کے متعلق غلط فہمیاں پھیلا کر لوگوں کو اسلامی جماعت کی طرف آنے سے روکا جائے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :74 یعنی جب انہیں خدا کے احکام سنائے جاتے ہیں تو زور سے کہتے ہیں کہ سَمِعْنَا ( ہم نے سن لیا ) اور آہستہ کہتے ہیں عَصَیْنَا ( ہم نے قبول نہیں کیا ) ۔ یا اَطَعْنَا ( ہم نے قبول کیا ) کا تلفظ اس انداز سے زبان کو لچکا دے کر کرتے ہیں کہ عَصَیْنَا بن جاتا ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :75 یعنی دوران گفتگو میں جب وہ کوئی بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں اِسْمَعْ ( سنیے ) اور پھر ساتھ ہی غَیْرَ مُسْمَعٍ بھی کہتے ہیں جو ذو معنی ہے ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ آپ ایسے محترم ہیں کہ آپ کو کوئی بات خلاف مرضی نہیں سنائی جاسکتی ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہیں کوئی سنائے ۔ ایک اور مطلب یہ ہے کہ خدا کرے تم بہرے ہو جاؤ ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :76 اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۰۸ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

33: اس آیت میں بعض یہودیوں کی دو شرارتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک شرارت یہ ہے کہ وہ تورات کے الفاظ کو اپنے موقع محل سے ہٹاکر اس میں لفظی یا معنوی تحریف کا ارتکاب کرتے ہیں، یعنی بعض اوقات اس کے الفاظ ہی کو کسی اور لفظ سے بدل دیتے ہیں اور بعض اوقات اس لفظ کو غلط معنیٰ پہنا کر اس کی من مانی تفسیر کرتے ہیں۔ اور دوسری شرارت یہ ہے کہ جب وہ آنحضرتﷺ کے پاس آتے ہیں تو ایسے مبہم اور منافقانہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کا ظاہری مفہوم بُرا نہیں ہوتا، لیکن وہ اندرونی طور پر ان الفاظ سے وہ بُرے معنیٰ مراد لیتے ہیں جو ان الفاظ میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے اس کی تین مثالیں اس آیت میں ذکر کی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کہتے ہیں ’’سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا‘‘ جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ’’ہم نے آپ کی بات سن لی، اور نافرمانی کی‘‘، وہ ان الفاظ کا مطلب یہ ظاہر کرتے تھے کہ ہم نے آپ کی بات سن لی ہے اور آپ کے مخالفین کی نافرمانی کی ہے، لیکن اندر سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ہم نے آپ کی بات سن کر اسی بات کی نافرمانی کی ہے۔ دوسرے وہ کہتے تھے ’’اسمع غیر مُسمَعٍ ‘‘اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے ’’آپ ہماری بات سنیں، خدا کرے آپ کو کوئی بات سنائی نہ جائے‘‘ ظاہری طور پر وہ یہ دُعا دیتے تھے کہ آپ کو کوئی ایسی بات نہ سنائی جائے جو آپ کی طبیعت کی خلاف ہو، لیکن اندر سے ان کا مطلب ہوتا تھا کہ خدا کرے آپ کو ایسی بات نہ سنائی جائے جو آپ کو خوش کرے۔ تیسرے وہ ایک لفظ ’’رَاعِنَا‘‘ استعمال کرتے تھے جس کے معنیٰ عربی زبان میں تو یہ ہیں کہ ’’ہمارا خیال رکھئے‘‘ لیکن عبرانی زبان میں یہ ایک گالی کا لفظ تھا جو وہ اندرونی طور پر مراد لیتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:46) ھادوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ ھود۔ مصدر۔ باب نصر۔ وہ یہودی ہوئے من الذین ھادوا۔ جو یہودی ہیں ان میں سے بعض لوگ۔ یحرفون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ تحریف (تفعیل) مصدر۔ تحریف کرتے ہیں۔ بدل ڈالتے ہیں۔ بگاڑ دیتے ہیں۔ تحریف خواہ لفظی ہو یا معنوی یہاں دونوں مراد ہیں۔ الکلم۔ جنس جمع ہے۔ کلمۃ واحد ہے۔ یحرفون الکلم عن مواضعہ کلمات کو ان کے مقام سے بدل دیتے ہیں (یہاں کلمات سے مراد کلمات توارۃ ہیں) مواضعہ۔ اسم ظرف جمع موضع واحد۔ وضع مصدر۔ باب فتح۔ رکھنے کے مقامات۔ اصلی جگہوں سے وضع اتار کر رکھ دینا۔ اسمع۔ تو سن۔ سماع وسماعۃ۔ سے امر کا صیغہ۔ واحد مذکر حاضر۔ غیر مسمع۔ مسمع اسم مفعول واحد مذکر۔ باب افعال۔ اسماع مسدر۔ نہ سنا گیا۔ واسمع غیر مسمع۔ سنیئے نہ سنوائے جاؤ۔ کا محاورہ دو طرح بولا جاتا ہے : (1) ایک بددعا کے طور پر۔ سنو تم بہرے ہوجاؤ کچھ نہ سن سکو۔ (2) دوسرا دعا کے طور پر۔ سنو ۔ تمہیں کوئی ناگوار بات نہ سننی پڑے۔ راعنا۔ ہماری رعایت کر۔ ہماری طرف کان لگا۔ ہمارا خیال رکھ۔ مراعاۃ سے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ نا ضمیر جمع متکلم۔ مزید دیکھیں 2:104 ۔ لیا۔ مصدر موڑنا۔ مروڑنا۔ پھیرنا۔ گھمانا۔ لوی یلوی (ضرب) زبان کو مروڑکر۔ یہود ایک تو تورات میں لفظی اور معنوی تحریف کا ارتکاب کرتے تھے۔ کہ اس میں جو حصص حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت یا ان کی صفات کے متعلق تھے۔ ان کو حرفا یا معنی تبدیل کردیتے تھے۔ دوسرے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں بیٹھتے تھے اور ان کو دعوت حق دی جاتی تھی تو وہ کہتے تھے : (1) سمعنا وعصینا یعنی باآواز بلند تو یہ کہتے ہیں سمعنا (ہم نے سن لیا۔ سمجھ لیا) اور بعد میں آہستہ سے یہ بھی کہہ دیتے عصینا۔ ہم قبول نہیں کرتے۔ ہم انکار کرتے ہیں ہم نہیں مانتے۔ (2) اسمع غیر مسمع۔ جو دعا اور بددعا دونوں کے معنی میں لئے جاسکتے ہیں تشریح اوپر گزرچکی ہے۔ (3) اور کہتے راعنا (معنی اوپر دئیے گئے ہیں۔ مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو (2:104) لیا۔ مصدر ان کے جملہ کلام کے متعلق ہے۔ طعنا فی الدین (دین پر طعنہ زنی کرتے ہوئے) بھی ان کے جملہ کلام کے متعلق ہے اور ان کی نیت کو ظاہر کرتا ہے۔ فرمایا ۔ اگر وہ مندرجہ بالا دو معنی فقرات کی بجائے نیک نیتی سے (1) سمعنا واطعنا (2) اسمع توجہ فرمائیے۔ (3) انظرنا ہم پر نظر فرما دیں۔ ہماری طرف التفات فرما دیں۔ تو انہی کے لئے بہتر اور درست ہوتا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اوپر کی آیت میں بیان فرمایا ہے کہ وہ گمراہی مول لیتے ہیں اب اس آیت میں چند امور کے ساتھ اس گمراہی کی تشریح فرمائی اور ان کلو توا نصیبامن الکتاب اس لیے فرمایا کہ انہوں نے توراۃ میں موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی نبوت تو معلوم کرلی مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا ادراک نہ کر سے (کبیر) یعنی تورات کے احکام میں تحریف کرتے ہیں یعنی تورات کے احکام میں تحریف کرتے ہیں (دیکھئے سورت مائدہ :13 ۔ 41) سورت مائدہ میں من بعد مواضعہ ہے یعنی تحریف لفظی کرتے ہیں اور ان الفاظ کو تورات سے نکال ڈالتے ہیں مثلا یہاں عن مواضعہ سے مراد تحریف معنوی ہے یعنی تاویلات فسدہ سے کام لتیے ہیں مگر حضرت ابراہیم کی اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی کہ یہاں اکلوتے بیٹے کی بجائے حضرت اسحاق ( علیہ السلام) کو بنادیا ہے۔ (کبیر۔ شوکانی) ہمارے زما میں بھی تمام بدعتیوں کا شیوہ ہ ہو یا ہے کہ جو آیت یا حدیث امام مجتہد یا پیر ومرشد کے قول کے خلاف نظر آتی ہے اس کی تا ویل کرتے ہیں اور خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہیں شرماتے کہ پیر و مرشد اور امام معصوم نہ تھے بخلاف پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہ ان سے خطا نہیں ہوسکتی (وحیدی)7 یعنی زبان کو توڑ مروڑ کے راعینا کہتے ہیں جو کلمہ ششم ہے (دیکھئے سورة بقرہ آیت 104 ان کی ایک گمراہی یہ بھی ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی حکم سنتے ہیں تو بظاہر سمعنا کہتے ہیں مگر ساتھ ہی فرط عناد کی بنا پر عصینا (نہ مانا) بھی کہہ دیتے ہیں اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے تو کہتے سنو تم کو کوئی نہ سنائے ظاہر میں یہ نیک دعا ہے کہ تم ہمیشہ غالب رہو کوئی تم کو بری بات نہ سنا سکے اور دل میں نیت رکھتے کہ توبہرا ہوجائے ایسی شرارت کرتے (کبیر، ابن کثیر)8 یعنی یہ سب حرکتیں کر رہے ہیں اور پھر دین میں طعن کی غرض سے کہتے ہیں کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا تو ہمارا فریب معلوم کرلیتا اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے خبث کو ظاہر فرمادیا ہے اور وہی طعن الٹا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صدق نبوت کے لیے دلیل قاطع بن گیا۔ (کبیر۔ ،9 یعنی اگر یہ اس قسم کی حرکات اور طعن کی بجائے ایسے کلمات استعمال کرتے ہیں جن میں شرارت کی آمیزش نہیں ہوسکتی اور اخلاص سے پیش آتے مثلا عصینا کی بجائے اطعنا کہتے اور غیر مسمع کی بجائے انظونا تو ان کے حق میں بہتر ہوتامگر افسوس ہے کہ یہ بہت ہی تھوڑے احکام پر ایمان رکھتے ہیں پس قلیلا یہاں مصدر معخدوف ایمانا کی صفت ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ نبی کے ساتھ طعن وستہزاء عین دین کے ساتھ طعن و استہزاء ہے۔ 8۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا۔ 9۔ اسمع کے معنی یہ ہیں کہ آپ سن لیجیے اور انظرنا کے معنی یہ ہیں کہ ہماری مصلحت پر نظر فرمائیے۔ 10۔ یہ لایومنون ان ہی کی نسبت فرمایا جو علم الہی میں کفر پر مرنے والے تھے پس نومسلموں کے ایمان لانے سے کوئی شبہ نہیں ہوسکتا اور جو ایمان لے آتا ہے اگر وہ کسی وقت میں بےادبی و نافرمانی بھی کرچکا ہو لیکن جب اس سے باز آگیا تو وہ کالعدم ہوگیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس آیت میں یہودیوں پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے ان کی بد ترین عادتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس شخص یا گروہ میں یہ عادتیں پائی جائیں وہ معاشرے کے لیے ناسور، مذہب کا بدترین دشمن اور لوگوں کی ہدایت میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بجائے اس کی لعنت کے سزاوار ہوتے ہیں۔ ان سے چھٹکارا پائے بغیر معاشرہ جرائم سے پاک نہیں ہوسکتا۔ اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں کو ہمیشہ کے لیے مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا تھا اور اپنی حیات مبارکہ کے آخری لمحات میں ان پر لعنت اور پھٹکار کی۔ جن عادتوں کی وجہ سے یہودیوں پر لعنت کی گئی وہ یہ ہیں : 1 ۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کو اس کے سیاق وسباق سے ہٹ کر بیان کرنا۔ 2 ۔ سچ سننے اور سمجھنے کے باوجود اس کا انکار کرنا۔ 3 ۔ خدا کے رسول کو بہرہ ہونے کی بد دعا دینا اور آپ کو چرواہا کہہ کر گستاخی کا ارتکاب کرنا۔ 4 ۔ دین اسلام میں عیب نکالنا۔ ان بھاری جرائم کے باوجود انہیں نہایت ہی دلرباانداز میں سمجھایا گیا ہے کہ کاش یہ لوگ سننے کے بعد سمع و اطاعت کا مظاہرہ کرتے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مزید ارشادات سننے کے لیے ” راعنا “ کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے نہایت ادب کے ساتھ عرض کرتے کہ اے رسول محترم ! ہماری طرف توجہ فرمائیں۔ اس لفظ کی تشریح پہلے صفحہ ١٧٤ میں گزر چکی ہے۔ ایسا کرنا اور کہنا ان کے لیے نہایت ہی بہتر اور درست ثابت ہوتا لیکن ان کی بری نیت اور بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر پھٹکار کی۔ اب ان میں نہایت ہی تھوڑے ہوں گے جو ہدایت پائیں گے۔ اس کے باوجود ایک دفعہ پھر قرآن مجید نے یہ بات کہہ کر انہیں ایمان لانے کی دعوت دی ہے کہ یہ کتاب تمہارے انبیاء کی تصدیق اور تورات و انجیل کی تائید کرتی ہے لہٰذا تمہیں اس پر ایمان لانا چاہیے۔ اس برے وقت سے پہلے جب تمہارے چہروں کو مسخ کر کے گدیوں کے بل الٹا کردیا جائے یا تم پر ہفتہ والوں کی طرح لعنت کی جائے۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ ” اَصْحَاب السَّبْتِ “ سے مراد یہودیوں کے وہ آباء و اجداد ہیں جنہیں ہفتہ کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کے بجائے حیلہ سازی سے کام لیتے ہوئے دریا کے کنارے تالاب تیار کیے اس میں مچھلیاں خود بخود آجاتیں۔ ہفتہ کی بجائے انہیں اتوار کے روز پکڑ لیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار ہوئی اور ان کو ذلیل بندر بنا دیا گیا۔ جس کی تفصیل پہلے اور چھٹے پارے میں دیکھنی چاہیے۔ مسائل ١۔ یہودی اللہ کی کتاب میں تحریف کرتے ہیں۔ ٢۔ یہودی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام بگاڑکر لیتے ہیں۔ ٣۔ یہودی دین اسلام میں عیب جوئی کرتے ہیں۔ ٤۔ یہودیوں پر ان کے کفر اور کلام اللہ میں تحریف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پھٹکار برستی ہے۔ ٥۔ اہل کتاب کو عذاب الٰہی سے پہلے قرآن مجید پر ایمان لانا چاہیے۔ ٦۔ ہفتہ کے دن زیادتی کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت بر سی ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہودیوں کی شرارت اور شقاوت تفسیر در منثور صفحہ ١٦٨: ج ٢ میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ رفاعہ بن زید یہودیوں کا ایک چودھری تھا۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آتا تو اپنی زبان موڑ کر بات کرتا پھر اس نے اسلام میں طعنہ زنی شروع کردی اور احکام اسلام میں عیب نکالنے لگا اس پر یہ آیت شریفہ الا قلیلاً تک نازل ہوئی۔ یہودیوں کو اللہ تعالیٰ نے تورات کا علم دیا تھا باوجودیکہ اس میں تحریف کرلی تھی پھر بھی اس میں آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور نبوت و رسالت کا ذکر موجود تھا۔ ہر قوم کے چھوٹے اپنے بڑوں کے پیچھے لگتے ہیں۔ یہودیوں کے علماء اور زعماء حق جانتے ہوئے نہ اسلام کی طرف آتے تھے اور نہ عوام کو اس کی طرف آنے دیتے تھے۔ ہدایت کی جگہ گمراہی اختیار کی، اپنی قوم کو بھی کفر پر جمایا اور مسلمانوں کو بھی اسلام سے ہٹانا چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے فرمایا کہ اللہ کو تمہارے دشمنوں کا خوب علم ہے اور وہ تمہاری مدد کے لیے کافی ہے۔ یہودی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے تو زبان موڑ کر بات کرتے تھے۔ ایسے الفاظ بولتے تھے جن کا ظاہری معنی کچھ اور ہوتا تھا اور دل سے دوسرے معنی لیتے تھے۔ ان الفاظ میں سے لفظ راعِنَا بھی تھا۔ جس کا معنی عربی میں تو یہ ہے کہ ہماری رعایت فرمائیں اور ان کی زبان میں یہ لفظ موت کی بددعا کے لیے بولا جاتا ہے۔ جس کی تشریح سورة بقرہ کے رکوع نمبر ١٣ میں آیت (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا) کے ذیل میں گزر چکی ہے۔ اس آیت شریفہ میں بھی ان لوگوں کی اس حرکت بد کا تذکرہ فرمایا ہے وہ بات سنتے تھے ساتھ ہی عَصَیْنَا بھی کہتے تھے کہ ہم فرمانبرداری نہیں کریں گے، اور اس بات کو نہیں مانیں گے (یہ تو ان کا مطلب دل میں تھا، اور ظاہری مطلب یہ تھا کہ آپ کے خلاف کسی کی بات نہ مانیں گے) اور جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے اِسْمَعْ کہتے تھے تو ساتھ ہی غیر مُسْمَعٍ بھی لگا دیتے تھے۔ صاحب روح المعانی (صفحہ ٤٧: ج ٥) لکھتے ہیں کہ اس لفظ کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک معنی شرکا ہے اور وہ یہ کہ تم سننے والے نہ رہو جس کا مقصد قوت سامعہ ختم ہوجانے کی بددعا دینا تھا۔ اور یہی ان لوگوں کا مقصود تھا دوسرا معنی یہ ہے کہ آپ کو کوئی مکروہ بات سننا نہ پڑے۔ یہودی ملعون قوم ہے وہ بطور استہزاء یہ لفظ بولتے تھے تاکہ ظاہر میں کچھ اور سمجھا جائے اور اپنے دلوں میں وہ اپنی نیت کے مطابق معنی لیتے رہیں۔ ان کے بارے میں فرمایا کہ اگر یہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا (کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا) کہتے اور اسمع (سن لیجیے) کہتے اور ساتھ ہی (غَیْرَ مُسْمَعٍ ) کا لفظ نہ ملاتے اور اُنْظُرْنَا (ہماری طرف توجہ فرمایے) کہتے اور راعِنَا نہ کہتے تو ان کے لیے اچھا تھا اور ٹھیک تھا انہوں نے بیہودگی اختیار کی۔ اللہ پاک نے ان کے کفر کے سبب ان کو ملعون قرار دے دیا۔ اب یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے ہاں ان میں سے تھوڑے سے آدمی ایمان لائیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36 یہ یہود کی ایک دوسری شرارت کا بیان ہے۔ منافقین و یہود ان الفاظ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے یہ الفاظ ذو وجہین ہیں اور ان میں ایک پہلو مدح کا ہے دوسرا ذم کا۔ مدح کی صورت میں یہ اسمع فلان فلانا اذا سبہ سے ماخوذ ہے اور مطلب یہ ہے اِسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ مکروھا (مدارک ج 1 ص 178) یعنی خدا کرے آپ کوئی اور ناپسندیدہ بات نہ سننے پائیں اور ذم کی صورت میں اس کا مفہوم یہ ہے خدا کرے تمہارے کانوں تک بھلائی کی کوئی آواز نہ پہنچے یعنی (عیاذاً باللہ) تم بہرے ہوجاؤ ان الفاظ سے ان کی مراد تو دوسرے معنی ہوتے لیکن ظاہر یوں کرتے کہ وہ پہلے معنی مراد لے رہے ہیں اسی طرح لفظ رَاعِنَا بھی ذو وجہین ہے ایک مفہوم تو یہ ہے کہ گفتگو میں ہماری بھی رعایت فرمائیے اور ہماری طرف بھی توجہ دیجئے دوم یہ رعونت بمعنی حماقت سے اسم فاعل ہے اس میں بھی وہ نیت بد سے دوسرے معنی مراد لیتے یا یہ کہ وہ زبان کو موڑ کر لفظ راعنا کو اس طرح ادا کرتے کہ وہ راعینا بن جاتا جس کا مطلب ہے ہمارا چرواہا۔ لَیًّا حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ یہ مصدر بمعنی اسم فاعل یُحَرِّفُوْنَ کی ضمیر سے حال ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے موہم الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کا ایک پہلو صحیح ہوتا ہے لیکن اس میں ایک خفی پہلو شرک کا بھی ہوتا ہے جس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کے موہم شرک الفاظ مسلمانوں میں رائج ہوجائیں جو آگے چل کر شرک کا ذریعہ بنیں۔ چناچہ لفظ رَاعِنَا کو انہوں نے اسی لیے منتخب کیا کہ اس میں اچھے معنی کے ساتھ شرکیہ مفہوم کی بھی گنجائش ہے بظاہر اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا خیال بھی فرمائیے اور ہماری طرف بھی توجہ دیجئے لیکن اس میں آپ کو نگہبانی اور حفاظت کیلئے پکارنے کا پہلو بھی موجود ہے جیسا کہ صراح میں ہے مراعاۃ نگہداشتن (یعنی نگہبانی کرنا) واسترعاء نگہداشتن خواستن (یعنی نگہبان بنانا) فی المثل من استرعی الذئب فقد ظلم یعنی جس نے بھیڑئیے کو ریوڑ کا نگہبان بنایا اس نے ظلم کیا۔ اس طرح یہاں لَیًّا کا وہی مفہوم ہے جو سورة آل عمران رکوع 8 میں اس آیت کا ہے۔ وَاِنَّ مِنْھُمْ لَفَرِیْقًا یَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَھُمْ بِالْکِتَابِ الایۃ دیگر مفسرین نے لَیًّا کو یَقُوْلُوْنَ سے متعلق کیا ہے۔ یعنی وہ اپنی زبانوں کو حق سے باطل کی طرف پھیرتے ہیں اور اللہ کی کتاب میں تحریف کرتے ہیں ای یلوون السنتھم عن الحق ای یمیلنھا الی ما فی قلوبھم (قرطبی ج 5 ص 243) یا یہ کہ وہ اپنی زبانوں کو ما فی الضمیر (دل کی بات) سے پھیر کر اس کے خلاف کا اظہار کرتے ہیں مثلاً دل میں تو پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحقیر کا جذبہ موجزن ہے مگر زبان سے ایسے الفاظ ادا کرتے ہیں جن سے تعظیم و توقیر کا پہلو بھی نکلتا ہے اویفتلون بالسنتھم ما یضمرون من الشتم الی ما یظھرونہ من التوقیر نفاقا (مدارک ج 1 ص 178) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور ان دشمنوں سے خوب واقف ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارا سرپرست ہے اور تمہاری حمایت کرنے کو کافی ہے اور وہ با اعتبار ایک مددگار کے تمہاری مدد کو کافی ہے۔ ان یہود میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جو کلام الٰہی کو اور توریت کے الفاظ کو اس کے محل اور موقع سے پھیر دیتے ہیں یعنی الفاظ کی لفظی اور معنوی تحریف کرتے ہیں اور نیز نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں گفتگو کرتے وقت اپنی زبانوں کو پیچ دیکر دین میں طعنہ زنی کرنے کی غرض سے ذومعینین الفاظ بولتے ہیں اور یوں کہتے ہیں سنا ہم نے اور نہ مانا ہم نے آپ سنیے نہ سنائے جائیں آپ اور آپ ہماری رعایت فرمائیے اور اگر یہ لوگ بجائے ان ذومعینین الفاظ کے ان الفاظ کو اس طرح کہتے کہ سنا ہم نے اور مان لیا ہم نے اور آپ سنیے اور آپ ہماری جانب بھی توجہ فرمائیے تو یہ کہنا ان کا ان کے حق میں بہتر اور نافع ہوتا اور فی نفسہ یہ بات بہت درست اور باموقع ہوتی لیکن انہوں نے یہ سیدھی سادھی بات اختیار نہیں کی اور کافرانہ معاندانہ روش پر چلے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا۔ لہٰذا اب وہ ایمان نہیں لائیں گے مگر ان میں سے بہت تھوڑے لوگ۔ (تیسیر) من الذی ھادوا کی ترکیب میں کئی قول ہیں ہم نے ایک قول کی بنا پر ترجمہ کیا ہے مطلب یہ ہے کہ ان گم کردہ راہ یہود میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جو توریت کے کلمات کو پھیر دیتے ہیں یا تو الفاظ ہی بدل دیتے ہیں کہ اصل الفاظ کی جگہ اور الفاظ پڑھ دیتے ہیں یا کتاب میں لکھ دیتے ہیں اور یا کلمات تو نہیں بدلتے مگر ان کلمات کی توجیہہ اور تاویل ایسی کرتے ہیں اور ایسے بیڈھب طریقے سے اس کا مطلب بیان کرتے ہیں جو کلام الٰہی کے منشا کے بالکل خلاف ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے زمانہ کے اہل بدعت اور اہل اہو ا کیا کرتے ہیں یہ شرارت و ضلالت تو ان کی کلام الٰہی کے ساتھ ہے اس کے علاوہ جب کبھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں آتے ہیں تو طعن و تشیع اور دشنام دہی کی نیت سے ذومعینین الفاظ بولتے ہیں اور بولتے بھی اسطرح ہیں کہ اپنی زبانوں کو دبا کر اور مڑ ڈر کر اور پیچ دیکر کہتے ہیں کہ اگر کوئی توجہ سے نہ سنے تو معلوم ہو کہ جو کچھ کہہ رہے ہیں صحیح کہہ رہے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں سمعنا وعصینا جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے آپ کا کلام سن لیا اور آپ کے مخالفوں کی بات نہیں مانی اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سنا اور قبول نہیں کیا یا یہ مطلب ہے کہ سمعنا زبان سے کہتے ہیں اور دل میں دعصینا کہتے ہیں یا یہ کہ سمعنا صاف زبان سے کہتے ہیں اور وعصینا دبا کر کہ دیتے ہیں دوسرا لفظ مجلس میں یہ کہتے ہیں واسمع غیر مسلمع جس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ آپ ہماری بات سنیے خدا کرے آپ کو کوئی بات مخالفانہ سنائی جائے اور مقصد یہ ہوتا تھا کہ آپ کوئی خوشی کی بات نہ سن سکیں ۔ تیسرا لفظ وہی ہے جو ہم سورة بقرہ میں بتا چکے ہیں یعنی انظر ناکی بجائے راعنا اور کبھی زبان کو دبا کر راعینا کہ دیا کرتے تھے جو ان کی زبان میں ایک سو قیانہ لفظ ہے بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی غرض سے راعنا کہہ رہے ہیں یعنی ہماری بھی رعایت فرمائیے مگر نیت تو ہیں کی ہوتی تھی غرض زبان سے ان جرائم کا ارتکاب کرتے تھے اور دل سے تحقیر اور طعن مقصد ہوتا تھا یا یہ کہ زبان سے ذرا مئودبانہ لہجے میں کہتے تھے کہ کسی کو طعن محسوس نہ ہو مگر دل سے نیت توہین کی کرتے تھے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجلس سے جا کر طنہ زنی کرتے تھے کہ ہم آج پردے پردے میں سب کچھ کہ آئے اگر یہ نبی ہوتا تو اس کو ہماری بات کو کچھ تو پتہ چلتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان ذومعینین الفاظ کے مقابلہ میں دوسرے الفاظ تعلیم کئے جو اپنے معنی میں صاف تھے اور فرمایا اگر پہلے لفظ کی بجائے سمعنا واطعنا کہتے یعنی ہم نے سنا اور قبول کیا اور ہم تعمیل کا وعدہ کرتے ہیں اور دوسرے لفظ کی بجائے صرف واسمع کہتے یعنی ہماری بات کو توجہ کے ساتھ سن لیجیے اور غیر مسمع کو چھوڑ دیتے اور تیسرے کلمہ کی جگہ انظرنا کہتے یعنی ہماری جانب بھی توجہ فرمائیے تو یہ الفاظ ان کے لئے ان کے شرارت آمیز فقروں سے بہتر ہوتے اور ان کی یہ بات سیدھی سادھی مضبوط اور منصفانہ ہوتی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی اور ان کو اپنی رحمت سے دور پھینک دیا اور اس لعنت کا یہ اثر ہوا کہ اب ان سوائے تھوڑے سے مخصوص لوگوں کے اور کسی کو ایمان نصیب نہیں ہوگا اور وہ تھوڑے سے وہی ہیں جو لعنت سے محفوظ رہے اور چناچہ وہ ایمان بھی لے آئے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الا قلیلا کو لعنہم سے استثنا بنایا جائے اور یوں ترجمہ کیا جائے کہ اللہ نے ان پر لغت کی مگر بہ تھوڑے لوگوں پر لہٰذا اب یہ ایمان نہیں لائیں گے مگر ہاں وہ ایمان لے آئیں گے جو لعنت سے محفوظ رہے ہیں جیسے حضرت عبداللہ بن سلام اور ان نہیں لائیں گے مگر ہاں وہ ایمان لے آئیں گے جو لعنت سے محفوظ رہے ہیں۔ جیسے حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی چناچہ جن لوگوں کی طرف اشارہ تھا انہوں نے اسلام قبول کیا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں راعنا لظ بولتے تھے اس کا بیان سورة بقرہ میں ہوا اسی طرح حضرت بات فرماتے تو جواب میں کہتے سنا ہم نے اس کے معنی یہ ہیں کہ قبول کیا لیکن آہستہ کہتے کہ نہ مانا یعنی فقط کان سے سنا اور دل سے نہ سنا اور حضرت کو خطاب کرتے تو کہتے سن نہ سنایا جائیو۔ ظاہر میں یہ دعا نیک ہے کہ تو ہمیشہ غالب رہے کوئی تجھ کو بری بات نہ سنا سکے اور دل میں نیت رکھتے کہ تو بہرہ ہو جائیو ایسی شرارت کرتے پھر دین میں عیب دیتے کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا تو ہمارا فریب معلوم کرتا وہی اللہ صاحب نے واضح کردیا۔ (موضح القرآن) لایئومنون الا قلیلا کے تحت میں بعض مفسرین نے بہت سی باتیں کہی ہیں اور تقریباً وہ باتیں جو ہم سورة بقرہ کے پہلے رکوع میں عرض کرچکے ہیں کہ لایئومنون بندے کے سلب اختیار کو مستلزم نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں جو کفر پر مرنے والے تھے ان کے متعلق فرمایا یہ مطلب نہیں کہ قیامت تک کوئی یہودی مسلمان ہی نہیں ہوگا اگر کوئی شخص اپنے افعال شنیعہ کی وجہ سے ناقابل التقات قرار پا جائے لیکن وہ ان افعال سے باز آجائے اور تائب ہوجائے تو وہ افعال قبیحہ سب ختم ہوجاتے ہیں اسی طرح بہتر ہوتا اس میں بھی بعض باتیں قابل بحث ہیں ان کا خلاصہ صرف اس قدر ہے کہ ذومعینین الفاظ کے ترک کے ساتھ ایمان بھی لے آتے تب تو بہتر ہوتا ہی اور اگر ایمان نہ لاتے اور ذومعینین الفاظ ترک کردیتے تب بھی دنیا میں تہذیب و شائستگی اور آداب مجلس کے اعتبار سے ان کے حق میں بہتر ہوتا۔ نیز قیامت میں بھی اس کا امکان تھا کہ عذبا میں کچھ تخفیف ہوجاتی جیسا کہ باہم کفار کے عذاب میں تفادت ثابت ہے۔ (واللہ اعلم) اب آگے اہل کتاب کو خطاب کر کے فرماتے ہیں کہ اگر تم ہمارے احکام کی خلاف ورزی سے باز نہ آئو گے تو پھر دنیا ہی میں تم پر ایسا کوئی عذاب بھیجا جائے گا جیسے تمہارے بڑوں پر بھیجا جا چکا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (سہیل)