Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 5

سورة النساء

وَ لَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ الَّتِیۡ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا وَّ ارۡزُقُوۡہُمۡ فِیۡہَا وَ اکۡسُوۡہُمۡ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ﴿۵﴾

And do not give the weak-minded your property, which Allah has made a means of sustenance for you, but provide for them with it and clothe them and speak to them words of appropriate kindness.

بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالٰی نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے ، ہاں انہیں اس مال سے کھلاؤ پلاؤ پہناؤ اوڑھاؤ اور انہیں معقولیت سے نرم بات کہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Holding the Property of the Unwise in Escrow Allah وَلاَ تُوْتُواْ السُّفَهَاء أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللّهُ لَكُمْ قِيَاماً ... And give not unto the unwise your wealth which Allah has made a means of support for you, Allah prohibited giving the unwise the freedom to do as they wish with wealth, which Allah has made as a means of support for people. This ruling som... etimes applies because of being young, as young people are incapable of making wise decisions. It also applies in cases of insanity, erratic behavior and having a weak intellect or religious practice. It applies in cases of bankruptcy, when the debtors ask that the property of a bankrupt person is put in escrow, when his debts cannot be paid off with his money. Ad-Dahhak reported that Ibn Abbas said that Allah's statement, وَلاَ تُوْتُواْ السُّفَهَاء أَمْوَالَكُمُ (And give not unto the unwise your property) refers to children and women. Similar was also said by Ibn Mas`ud, Al-Hakam bin Uyaynah, Al-Hasan and Ad-Dahhak: "Women and boys." Sa`id bin Jubayr said that `the unwise' refers to the orphans. Mujahid, Ikrimah and Qatadah said; "They are women." Spending on the Unwise with Fairness Allah said, ... وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُواْ لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفًا but feed and clothe them therewith, and speak to them words of kindness and justice. Ali bin Abi Talhah said that Ibn Abbas commented, "Do not give your wealth, what Allah has made you responsible for and made a means of sustenance to you, to your wife or children. Rather, hold on to your money, take care of it, and be the one who spends on them for clothes, food and provision." Mujahid said that the Ayah, وَقُولُواْ لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفًا (and speak to them words of kindness and justice), refers to kindness and keeping good relations. This honorable Ayah commands kind treatment, in deed, with family and those under one's care. One should spend on them for clothes and provisions, and be good to them, such as saying good words to them. Giving Back the Property of the Orphans When They Reach Adulthood Allah said,   Show more

کم عقل اور یتیموں کے بارہ میں احکامات اللہ سبحانہ و تعالیٰ لوگوں کو منع فرماتا ہے کہ کم عقل بیویوں کو مال کے تصرف سے روکیں ، مال کو اللہ تعالیٰ نے تجارتوں وغیرہ میں لگا کر انسان کا ذریعہ معاش بنایا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ کم عقل لوگوں کو ان کے مال کے خرچ سے روک دینا چاہئے ، مثلاً نابالغ بچہ ہو ی... ا مجنون و دیوانہ ہو یا کم عقل بےوقوف ہو اور بےدین ہو بری طرح اپنے مال کو لٹا رہا ہو ، اسی طرح ایسا شخص جس پر قرض بہت چڑھ گیا ہو جسے وہ اپنے کل مال سے بھی ادا نہیں کر سکتا اگر قرض خواہ حاکم وقت سے درخواست کریں تو حاکم وہ سب مال اس کے قبضے سے لے لے گا اور اسے بےدخل کر دے گا ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہاں ( سفہاء ) سے مراد تیری اولاد اور عورتیں ہیں ، اسی طرح حضرت ابن مسعود حکم بن عبینہ حسن اور ضحاک رحمتہ اللہ سے بھی مروی ہے کہ اس سے مراد عورتیں اور بچے ہیں ، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں یتیم مراد ہیں ، مجاہد عکرمہ اور قتادہ کا قول ہے کہ عورتیں مراد ہیں ، ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک عورتیں بیوقوف ہیں مگر جو اپنے خاوند کی اطاعت گزار ہوں ، ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث مطول مروی ہے ، حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سرکش خادم ہیں ۔ پھر فرماتا ہے انہیں کھلاؤ پہناؤ اور اچھی بات کہو ابن عباس فرماتے ہیں یعنی تیرا مال جس پر تیری گزر بسر موقوف ہے اسے اپنی بیوی بچوں کو نہ دے ڈال کر پھر ان کا ہاتھ تکتا پھرے بلکہ اپنا مال اپنے قبضے میں رکھ اس کی اصلاح کرتا رہ اور خود اپنے ہاتھ سے ان کے کھانے کپڑے کا بندوبست کر اور ان کے خرچ اٹھا ، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تین قسم کے لوگ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا ، ایک وہ شخص جس کی بیوی بدخلق ہو اور پھر بھی وہ اسے طلاق نہ دے دوسرا وہ شخص جو اپنا مال بیوقوف کو دے دے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے بیوقوف کو اپنا مال نہ دو تیسرا وہ شخص جس کا فرض کسی پر ہو اور اس نے اس قرض پر کسی کو گواہ نہ کیا ہو ۔ ان سے بھلی بات کہو یعنی ان سے نیکی اور صلہ رحمی کرو ، اس آیت سے معلوم ہوا کہ محتاجوں سے سلوک کرنا چاہئے اسے جسے بالفعل تصرف کا حق نہ ہو اس کے کھانے کپڑے کی خبر گیری کرنی چاہئے اور اس کے ساتھ نرم زبانی اور خوش خلقی سے پیش آنا چاہئے ۔ پھر فرمایا یتیموں کی دیکھ بھال رکھو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائیں ، یہاں نکاح سے مراد بلوغت ہے اور بلوغت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب اسے خاص قسم کے خواب آنے لگیں جن میں خاص پانی اچھل کر نکلتا ہے ، حضرت علی فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بخوبی یاد ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں اور نہ تمام دن رات چپ رہتا ہے ۔ دوسری حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے ، بچے سے جب تک بالغ نہ ہو ، سوتے سے جب جاگ نہ جائے ، مجنوں سے جب تک ہوش نہ آ جائے ، پس ایک تو علامت بلوغ یہ ہے دوسری علامت بلوغ بعض کے نزدیک یہ ہے کہ پندرہ سال کی عمر ہو جائے اس کی دلیل بخاری مسلم کی حضرت ابن عمر والی حدیث ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ احد والی لڑائی میں مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ اس لئے نہیں لیا تھا کہ اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی اور خندق کی لڑائی میں جب میں حاضر کیا گیا تو آپ نے قبول فرما لیا اس وقت میں پندرہ سال کا تھا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کو جب یہ حدیث پہنچی تو آپ نے فرمایا نابالغ بالغ کی حد یہی ہے ، تیسری علامت بلوغت کی زیر ناف کے بالوں کا نکلنا ہے ، اس میں علماء کے تین قول ہیں ایک یہ کہ علامت بلوغ ہے دوسرے یہ کہ نہیں تیسرے یہ کہ مسلمانوں میں نہیں اور ذمیوں میں ہے اس لئے کہ ممکن ہے کسی دوا سے یہ بال جلد نکل آتے ہوں اور ذمی پر جواب ہوتے ہی جزیہ لگ جاتا ہے تو وہ اسے کیوں استعمال کرنے لگا ؟ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ سب کے حق میں یہ علامت بلوغت ہے کیونکہ اولاً تو جبلی امر ہے علاج معالجہ کا احتمال بہت دور کا احتمال ہے ٹھیک یہی ہے کہ یہ بال اپنے وقت پر ہی نکلتے ہیں ، دوسری دلیل مسند احمد کی حدیث ہے ، جس میں حضرت عطیہ قرضی کا بیان ہے کہ بنو قریظہ کی لڑائی کے بعد ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے حکم دیا کہ ایک شخص دیکھے جس کے یہ بال نکل آئے ہوں اسے قتل کر دیا جائے اور نہ نکلے ہوں اسے چھوڑ دیا جائے چنانچہ یہ بال میرے بھی نہ نکلے تھے مجھے چھوڑ دیا گیا ، سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح فرماتے ہیں ، حضرت سعد کے فیصلے پر راضی ہو کر یہ قبیلہ لڑائی سے باز آیا تھا پھر حضرت سعد نے یہ فیصلہ کیا کہ ان میں سے لڑنے والے تو قتل کر دئیے جائیں اور بچے قیدی بنا لئے جائیں غرائب ابی عبید میں ہے کہ ایک لڑکے نے ایک نوجوان لڑکی کی نسبت کہا کہ میں نے اس سے بدکاری کی ہے دراصل یہ تہمت تھی حضرت عمر نے اسے تہمت کی حد لگانی چاہی لیکن فرمایا دیکھ لو اگر اس کے زیر ناف کے بال اگ آئے ہوں تو اس پر حد جاری کر دو ورنہ نہیں دیکھا تو آگے نہ تھے چنانچہ اس پر سے حد ہٹا دی ۔ پھر فرماتا ہے جب تم دیکھو کہ یہ اپنے دین کی صلاحیت اور مال کی حفاظت کے لائق ہو گئے ہیں تو ان کے ولیوں کو چاہئے کہ ان کے مال انہیں دے دیں ۔ بغیر ضروری حاجت کے صرف اس ڈر سے کہ یہ بڑے ہوتے ہی اپنا مال ہم سے لے لیں گے تو ہم اس سے پہلے ہی ان کے مال کو ختم کر دیں ان کا مال نہ کھاؤ ۔ جسے ضرورت نہ ہو خود امیر ہو کھاتا پیتا ہو تو اسے تو چاہئے کہ ان کے مال میں سے کچھ بھی نہ لے ، مردار اور بہے ہوئے خون کی طرح یہ مال ان پر حرام محض ہے ، ہاں اگر والی مسکین محتاج ہو تو بیشک اسے جائز ہے کہ اپنی پرورش کے حق کے مطابق وقت کی حاجت اور دستور کے موجب اس مال میں سے کھا پی لے اپنی حاجت کو دیکھیئے اور اپنی محنت کو اگر حاجت محنت سے کم ہو تو حاجت کے مطابق لے اور اگر محنت حاجت سے کم ہو تو محنت کا بدلہ لے لے ، پھر ایسا ولی اگر مالدار بن جائے تو اسے اس کھائے ہوئے اور لئے ہوئے مال کو واپس کرنا پڑے گا یا نہیں؟ اس میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ واپس نہ دینا ہو گا اس لئے کہ اس نے اپنے کام کے بدلے لے لیا ہے امام شافعی کے ساتھیوں کے نزدیک یہی صحیح ہے ، اس لئے کہ آیت میں بغیر بدل کے مباح قرار دیا ہے اور مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس مال نہیں ایک یتیم میری پرورش میں ہے تو کیا میں اس کے کھانے سے کھا سکتا ہوں آپ نے فرمایا ہاں اس یتیم کا مال اپنے کام میں لا سکتا بشرطیکہ حاجت سے زیادہ نہ اڑا نہ جمع کر نہ یہ ہو کہ اپنے مال کو تو بچا رکھے اور اس کے مال کو کھاتا چلا جائے ، ابن ابی حاتم میں بھی ایسی ہی روایت ہے ، ابن حبان وغیرہ میں ہے کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں اپنے یتیم کو ادب سکھانے کے لئے ضرورتاً کس چیز سے ماروں؟ فرمایا جس سے تو اپنے بچے کو تنبیہہ کرتا ہے اپنا مال بچا کر اس کا مال خرچ نہ کر نہ اس کے مال سے دولت مند بننے کی کوشش کر ، حضرت ابن عباس سے کسی نے پوچھا کہ میرے پاس بھی اونٹ ہیں اور میرے ہاں جو یتیم پل رہے ہیں ان کے بھی اونٹ ہیں میں اپنی اونٹنیاں دودھ پینے کے لئے فقیروں کو تحفہ دے دیتا ہوں تو کیا میرے لئے جائز ہے کہ ان یتیموں کی اونٹنیوں کا دودھ پی لوں؟ آپ نے فرمایا اگر ان یتیموں کی گم شدہ اونٹنیوں کی کو تو ڈھونڈ لاتا ہے ان کے چارے پانی کی خبر گیری رکھتا ہے ان کے حوض درست کرتا رہتا ہے اور ان کی نگہبانی کیا کرتا ہے تو بیشک دودھ سے نفع بھی اٹھا لیکن اس طرح کہ نہ ان کے بچوں کو نقصان پہنچے نہ حاجت سے زیادہ لے ، ( موطا مالک ) حضرت عطاء بن رباح حضرت عکرمہ حضرت ابراہیم نخعی حضرت عطیہ عوفی حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہم اجمعین کا یہی قول ہے دوسرا قول یہ ہے کہ تنگ دستی کے دور ہو جانے کے بعد وہ مال یتیم کو واپس دینا پڑے گا اس لئے کہ اصل تو ممانعت ہے البتہ ایک وجہ سے جواز ہو گیا تھا جب وہ وجہ جاتی رہی تو اس کا بدل دینا پڑے گا جیسے کوئی بےبس اور مضطر ہو کر کسی غیر کا مال کھا لے لیکن حاجت کے نکل جانے کے بعد اگر اچھا وقت آیا تو اسے واپس دینا ہو گا ، دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تخت خلافت پر بیٹھے تو اعلان فرمایا تھا کہ میری حیثیت یہاں یتیم کے والی کی حیثیت ہے اگر مجھے ضرورت ہی نہ ہوئی تو میں بیت المال سے کچھ نہ لوں گا اور اگر محتاجی ہوئی تو بطور قرض لوں گا جب آسانی ہوئی پھر واپس کر دوں گا ( ابن ابی الدنیا ) یہ حدیث سعید بن منصور میں بھی ہے اور اس کو اسناد صحیح ہے ، بیہقی میں بھی یہ حدیث ہے ، ابن عباس سے آیت کے اس جملہ کی تفسیر میں مروی ہے کہ بطور قرض کھائے اور بھی مفسرین سے یہ مروی ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں معروف سے کھانے کا مطلب یہ ہے کہ تین انگلیوں سے کھائے اور روایت میں آپ سے یہ مروی ہے کہ وہ اپنے ہی مال کو صرف اپنی ضرورت پوری ہو جانے کے لائق ہی خرچ کرے تا کہ اسے یتیم کے مال کی حاجت ہی نہ پڑے ، حصرت عامر شعبی فرماتے ہیں اگر ایسی بےبسی ہو جس میں مردار کھانا جائز ہو جاتا ہے تو بیشک کھا لے لیکن پھر ادا کرنا ہوگا ، یحییٰ بن سعید انصار اور ربیعہ سے اس کی تفسیریوں مروی ہے کہ اگر یتیم فقیر ہو تو اس کا ولی اس کی ضرورت کے موافق دے اور پھر اس ولی کو کچھ نہ ملے گا ، لیکن عبارت یہ ٹھیک نہیں بیٹھتا اس لئے کہ اس سے پہلے یہ جملہ بھی ہے کہ جو غنی ہو وہ کچھ نہ لے ، یعنی جو ولی غنی ہو تو یہاں بھی یہی مطلب ہو گا جو ولی فقیر ہو نہ یہ کہ جو یتیم فقیر ہو ، دوسری آیت میں ہے آیت ( وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْيَتِيْمِ اِلَّا بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ حَتّٰي يَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ) 6 ۔ الانعام:152 ) یعنی یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ ہاں بطور اصلاح کے پھر اگر تمہیں حاجت ہو تو حسب حاجت بطریق معروف اس میں سے کھاؤ پیو پھر اولیاء سے کہا جاتا ہے کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں اور تم دیکھ لو کہ ان میں تمیز آچکی ہے تو گواہ رکھ کر ان کے مال ان کے سپرد کر دو ، تا کہ انکار کرنے کا وقت ہی نہ آئے ، یوں تو دراصل سچا شاہد اور پورا نگراں اور باریک حساب لینے والا اللہ ہی ہے وہ خوب جانتا ہے کہ ولی نے یتیم کے مال میں نیت کیسی رکھی؟ آیا خورد برد کیا تباہ و برباد کیا جھوٹ سچ حساب لکھا اور دیا یا صاف دل اور نیک نیتی سے نہایت چوکسی اور صفائی سے اس کے مال کا پورا پورا خیال رکھا اور حساب کتاب صاف رکھا ، ان سب باتوں کا حقیقی علم تو اسی دانا و بینا نگران و نگہبان کو ہے ، صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا اے ابو ذر میں تمہیں ناتواں پاتا ہوں اور جو اپنے لئے چاہتا ہوں وہی تیرے لئے بھی پسند کرتا ہوں خبردار ہرگز دو شخصوں کا بھی سردار اور امیر نہ بننا نہ کبھی کسی یتیم کا ولی بننا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] نادان کے حقوق کی ملکیت کی حد :۔ اس آیت میں نادان سے مراد صرف نادان یتیم ہی نہیں بلکہ کوئی بھی فرد ہوسکتا ہے مثلاً چھوٹا بھائی نادان ہے تو بڑا بھائی اسے اس کا مال نہ دے اور چھوٹا عقلمند اور بڑا نادان ہے تو چھوٹا بھائی اس کا مال اس کے تصرف میں نہ رکھے۔ وجہ یہ ہے کہ مال تو ذریعہ قیام زندگی ہے اگر ... کسی نادان کے ہتھے چڑھ جائے گا تو وہ فضول، ناجائز یا گناہ کے کاموں میں اجاڑ دے گا اور اس کے برے اثرات تمام معاشرہ پر پڑیں گے۔ حقوق ملکیت جو کسی شخص کو اپنی املاک پر ہوتے ہیں اتنے غیر محدود نہیں کہ اگر وہ اس چیز کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا اہل نہ ہو تب بھی اس کے حقوق سلب نہ کیے جاسکیں۔ ایسی صورتوں میں اس نادان کا کوئی قریبی رشتہ دار یا حکومت اس کے مال پر تصرف رکھے گی۔ اس کی خوراک اور پوشاک اسے اس کے مال سے مہیا کی جائے اور جو بات اس سے کہی جائے اس کی بھلائی کو ملحوظ رکھ کر کہی جائے۔ اور اگر یتیم کا مال تجارت یا مضاربت پر لگایا جاسکتا ہو تو اسے تجارت پر لگایا جائے اور منافع سے اس کی خوراک اور پوشاک کے اخراجات پورے کیے جائیں سیدنا عمر (رض) فرمایا کرتے تھے کہ && یتیموں کا مال تجارت پر لگایا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ زکوٰۃ ہی ان کے مال کو کھاجائے۔ && اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ یتیموں کے مال بھی اگر حد نصاب کو پہنچ جائیں تو ان پر بھی زکوٰۃ لاگو ہوگی اور دوسری یہ کہ جہاں تک ممکن ہو یتیموں سے اور ان کے اموال سے خیر خواہی ضروری ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یہاں بےسمجھوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو مال کے انتظام کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔ اس میں چھوٹے بچے اور ناتجربہ کار بیوی بھی آجاتی ہے اور نادان یتیم بھی، یعنی اگر یتیم ناتجربہ کار اور کم عقل ہوں تو وصی یا متولی کو چاہیے کہ یتیم کے مال سے اس کے کھانے پینے اور لباس کا انتظام کرتا رہے، مگر وہ مال اس کے سپرد نہ ... کرے۔ ابوموسیٰ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ تین آدمی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں مگر ان کی دعا قبول نہیں ہوتی ایک وہ آدمی جس کی بیوی بدخلق تھی پھر اس نے اسے طلاق نہیں دی اور ایک آدمی جس کا کسی شخص کے ذمے مال تھا مگر اس نے اس پر کوئی گواہ نہیں بنایا اور ایک وہ آدمی جس نے کسی سفینہ (بےوقوف) کو اپنا مال دے دیا جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے تم بیوقوفوں کو اپنے مال مت دو ۔ (صحیح الجامع : ٣٠٧٥) اس آیت سے علماء نے سفیہ (کم عقل) پر ” حجر “ (پابندی) کا حکم اخذ کیا ہے کہ حاکم وقت اس کے لین دین پر پابندی لگا سکتا ہے۔ (قرطبی)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sequence The injunction to give orphans their property, and the women, their dower, has appeared in previous verses. This may lead one to think that the property of the orphans and women should under all conditions, be given to them, even if they cannot handle relevant transactions and are incapable of protecting their property interests. To remove this misunderstanding, it has been said in these ... verses that properties should not be handed over to the feeble-minded. Instead, they should be watched and tested to determine the age and time when they exhibit the ability to protect their property and the discern¬ment of spending out of it, it is then that their property should be handed over to them. Commentary Do protect what you own These verses affirm the role of property in man&s economic effort which gives him the desire to protect it. Then, at the same time, the general weakness shown in the protection of properties has been corrected. There are people who, giving in to natural love, hand over properties to inexperienced minor children and ill-informed women which usually results in the wastage of the property and the quick poverty which follows in its wake. Do not hand over properties to the feeble-minded The most revered exegete of the Holy Qur&an, Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) : &The guidance the Holy Qur&an gives in this verse is: Do not, by handing over all your property to feeble-minded children and women, become dependent on them. Since Allah Almighty has made you the guardian and the manager, you should, rather, hold the property in your safe custody and keep spending from it as necessary in order to feed and clothe them. And should they, even then, demand to take possession of the property, explain to them honestly, fairly and reasonably in a way which neither breaks their heart nor causes the property to be wasted. For instance, say something like:& All this is there for you. Just grow up a little more and you will have it all.& Based on this tafsir of Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) ، the sense of the verse covers all women, children and others who are feeble-minded and inexperienced, to whom it is dangerous to hand over properties since it may result in their loss, irrespective of the fact that they may be one&s own children, or orphans, or the fact be that the property may belong to such children and orphans themselves, or to the guardians. The same tafsir has been reported from Sayyidna Abu Musa al-Ash` ari (رض) and the renowned mufassir al-Tabari has also adopted the same view. The context of the earlier and later verses may, though, lead one to particularize this injunction too with orphaned children, yet, the generality of words remains there as such and which includes all children, orphans and non-orphans. And perhaps, the form of address in اموالکم &amwalukum& (your properties) may have the special wisdom that it is inclusive of the properties of the guardians as well as that of the orphans. The suggestion is that the properties of the orphans, until such time that they become mature and discerning, remain under the guardian&s safe custody and responsibility as if these properties, so to say, were like their own. It will be recalled that the fact of the matter - that the properties of the orphans have to be given only to them - has been made very clear in verse 2: وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ (And give the orphans their property). After this, there remains no reason for any doubt. Protecting property is necessary. Wasting it is a sin. A person killed while defending his property is a shahid (martyr). This is similar to being killed in defence of one&s life which makes one deserving of the great reward of شھادہ shahadah (martyrdom). The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: من قُتِلَ دُونَ مالِہِ فھوَ شھید Whosoever is killed while protecting his property is a shah id (that is, he is counted among Muslim martyrs in terms of Divine reward). (Bukhri, v.1, p. 337 - Muslim, v.1, p.81) He has also said: نعما بالمال الصالح للرجل الصالح For a good man, his good and clean property is the best asset of his life. (Mishkat, p. 326) Yet another saying of his is: لا باسَ بِالغنیٰ لمنِ اتَّقیِ اللہ عَزَّوجَلَّ Being rich is not harmful for one who fears Allah, the Mighty, the Exalted. (Mishkat, p. 491) The last two ahadith quoted above tell us that the wealth possessed by a righteous and God-fearing person is not harmful for him because such a person, by virtue of being God-fearing, will abstain from spending it in what is sinful. The anti-wealth teachings of many Muslim saints and mystics apply to none but those who spend their lustily-earned wealth for sinful purposes and thus go on to make it the cause of their punishment in the Hereafter. Also, since man is natu¬rally inclined to abandon, once he is rich, all concerns of moderation in his spending, as well as the very anxiety to see that he stays safe against other sins - that is why staying away from wealth has been considered desirable. God bless our earlier people; they would earn, more or less, as needed, were grateful to Allah and ended up being happy that they have succeeded in saving their skins from being ulti¬mately &audited& for the whats and hows and whereas of spending their wealth, if they had it. But, in our time, people do not care much about matters of faith; they are more attracted to material things; they are all too ready to abandon their faith at the slightest provocation, not because there is some discomfort involved. Rather, they would do that lest they go against fragile fashion, or trend, or some borrowed norm of contemporary society. Therefore, it is important that people earn lawfully and conserve their earnings. For such people, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: کَادَ الفَقرُ اَن یَّکُونَ کُفُراً Poverty can take one to the point of being a disbeliever. (Mishkat, p. 439) Sayyidna Sufyan al-Thawri (رض) elaborates this by saying: کان المال فیما مضی یکرہ، فاما الیوم فھو ترس المؤمن Previously, owning and keeping wealth was not considered good, but today, this wealth is a shield of the true Muslim. He has also said: من کان فی یَدِہِ مِن ھٰذہِ شیاً فَلیُصلِحۃ ، فانُّہ زَمَانُ اِنِ احتاجَ کَانَ اوَّل من یبذل دینہ Whoever has any of this (wealth) in his hands should make it serve him well for these are times when, in the event of some need, one is likely to first &spend& his faith in order to take care of that need. (i.e. the desire to fulfill one&s need has become more important than the obligation to follow one&s faith) (Mishkat, p.491)   Show more

ربط آیات : گزشتہ آیات میں یتیموں کے مال ان کو سپرد کردینے اور عورتوں کے مہر ان کو ادا کرنے کا حکم گذر چکا ہے جس سے بظاہر یہ مستفاد ہوسکتا ہے کہ یتیموں اور عورتوں کا مال بہرحال ان کے حوالہ کردینا چاہئے، خواہ ان کو معاملات کا سلیقہ بھی نہ ہو اور وہ اموال کی حفاظت پر بھی قادر نہ ہوں، اس غلط فہمی کو د... ور کرنے کے لئے ان آیات میں فرمایا ہے کہ کم عقلوں کو اموال سپرد نہ کرو اور ان کی جانچ کرتے رہو، جب اموال کی حفاظت اور ان کے مصارف کی سوجھ بوجھ ان کے اندر محسوس ہونے لگے تو اموال ان کے سپرد کردو۔ خلاصہ تفسیر (اور اگر یتیم بالغ ہوجائیں جس کا مقتضی مال کا سپرد کردینا ہے جیسا آگے آتا ہے لیکن کم عقل ہوں تو) تم (ان) کم عقلوں کو اپنے (یعنی ان کے) وہ مال مت دو جن کو اللہ تعالیٰ نے (ایسے کام کا پیدا کیا ہے کہ ان کو) تمہارے (سب کے) لئے مایہ زندگی بنایا ہے (مطلب یہ کہ مال قدر کی چیز ہے، ان کو ابھی مت دو کہ بےقدری کر کے اڑا دیں گے) اور ان مالوں میں (سے) ان کو کھلاتے رہو پہناتے رہو اور ان سے معقول بات کہتے رہو (یعنی ان کو تسلی کرتے رہو کہ مال تمہارا ہے، تمہاری خیر خواہی کی وجہ سے ابھی تمہارے ہاتھ میں نہیں دیا، ذرا سمجھ دار ہوجاؤ گے تو تم ہی کو دے دیا جائے گا) اور (جب مال سپرد کرنے کے لئے ہوشیاری دیکھنا ضروری ہے تو) تم یتیموں کو (بالغ ہونے سے پہلے ہوشیاری وتمیز داری کی باتوں میں) آزما لیا کرو (کیونکہ بالغ ہونے کا وقت تو سپردگی مال کا وقت ہے، تو آزمائش پہلے سے چاہئے، مثلاً کچھ کچھ سودا سلف اس سے منگا لیا اور دیکھا کہ کیسے سلیقہ سے خرید کر لائے، یا کوئی چیز فروخت کی دے دی اور دیکھا کہ اس کو کس طرح فروخت کیا) یہاں تک کہ (ان کو آزمایا جائے) کہ جب وہ نکاح (کی عمر) کو پہنچ جاویں (یعنی بالغ ہوجاویں، کیونکہ نکاح کی پوری قابلیت بلوغ سے ہوتی ہے۔ ) پھر (بعد بلوغ و آزمائش) اگر ان میں ایک گو نہ تمیز دیکھو (یعنی حفاظت و رعایت مصالح مال کا سلیقہ اور انتظام ان میں پاؤ ں) تو ان کے اموال ان کے حوالے کردو (اور اگر ہنوز سلیقہ یا انتظام نہ معلوم ہو تو چندے اور حوالہ نہ کیا جائے) اور ان اموال (یتامی) کو ضرروت سے زائد اٹھا کر اور اس خیال سے کہ یہ بالغ ہوجاویں گے (پھر ان کو حوالہ کرنا پڑے گا) جلدی جلدی اڑا کر مت کھا ڈالو اور (اگر اس طرح نہ اڑا دیں، بلکہ تھوڑا کھانا چاہیں تو اس کا یہ حکم ہے کہ) جو شخص (اس مال سے) مستغنی ہو (یعنی اس کے پاس بھی بقدر کفایت موجود ہے گو صاحب نصاب نہ ہو) سو وہ تو اپنے کو بالکل (تھوڑا کھانے سے بھی) بچائے اور جو شخص حاجت مند ہو تو وہ مناسب مقدار سے (یعنی جس میں حاجات ضروریہ رفع ہوجاویں) کھلا ہے (برت لے) پھر جب (بعد وجود شرائط یعنی بلوغ و رشد مذکور کے) ان کے اموال ان کے حوالے کرنے لگو تو (بہتر ہے کہ) ان (کے اموال ان کو دیدینے) پر گواہ بھی کرلیا کرو، شاید کسی وقت کچھ اختلاف واقع ہو تو گواہ کام آویں) اور (یوں تو) اللہ تعالیٰ ہی حساب لینے والا کافی ہے (اگر خیانت نہ کی ہو تو گواہوں کا نہ ہونا بھی مضر نہیں، کیونکہ اصل حساب جن کے متعلق ہے وہ تو اس کی صفائی جانتے ہیں اور اگر خیانت کی ہے تو گواہوں کا ہونا کوئی نافع نہیں، کیونکہ جن سے حساب کا سابقہ ہے وہ اس کا ملوث ہونا ہونا جانتے ہیں، صرف ظاہری انتظام کے لئے گواہوں کا ہونا مصلحت ہے۔ ) معارف و مسائل مال سرمایہ زندگی ہے اور اس کی حفاظت لازمی ہے :۔ ان آیات میں ایک طرف تو مال کی اہمیت اور انسانی معاش میں اس کا بڑا دخل ہونا بیان فرما کر اس کی حفاظت کا داعیہ قلوب میں پیدا کیا گیا، دوسری طرف حفاظت اموال کے متعلق ایک عام کوتاہی کی اصلاح فرمائی گئی، وہ یہ کہ بہت سے آدمی طبعی محبت سے مغلوب ہو کر ناتجربہ کار نابالغ بچوں اور ناواقف عورتوں کو اپنے اموال حوالہ کردیتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ مال کی بربادی اور بہت جلد افلاس و تنگدستی ہوتی ہے۔ عورتوں بچوں اور کم عقلوں کو اموال سپرد نہ کئے جائیں :۔ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی اس آیت میں یہ ہدایت فرمائی کہ اپنا پورا مال کم عقل بچوں عورتوں کے سپرد کر کے خود ان کے محتاج نہ بنو، بلکہ اللہ تعالیٰ نے تم کو قوام اور منتظم بنایا ہے تم مال کو خود اپنی حفاظت میں رکھ کر بقدر ضرورت ان کے کھلانے پہنانے پر خرچ کرتے رہو اور اگر وہ مال کو اپنے قبضہ میں لینے کا مطالبہ بھی کریں تو ان کو معقول بات کہہ کر سمجھا دو ، جس میں دلشکنی بھی نہ ہو اور مال بھی ضائع نہ ہونے پائے، مثلاً یہ کہہ دو کہ یہ سب تمہارے ہی لئے رکھا ہے، ذرا تم ہوشیار ہوجاؤ گے تو تمہیں دے دیا جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی اس تفسیر پر آیت کا مفہوم ان سب عورتوں، بچوں اور کم عقل ناتجربہ کار لوگوں کو شامل ہے، جن کو مال سپرد کردینے پر مال میں نقصان کا خطرہ ہے، خواہ وہ اپنی بچے ہوں یا یتیم بچے اور خواہ وہ مال ان بچوں اور یتیموں کا اپنا ہو یا اولیاء کا ہو ........ یہی تفسیر حضرت ابوموسی اشعری سے بھی منقول ہے اور امام تفسیر حافظ طبری نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ پچھلی اور اگلی آیتوں کا سیاق اگرچہ اس حکم کو بھی یتیم بچوں کے ساتھ مخصوص کرنے کا رجحان پیدا کرسکتا ہے، لیکن الفاظ کا عموم اپنی جگہ ہے، جس میں یتیم اور غیر یتیم سب بچے داخل ہیں اور شاید اس جگہ اموالکم بصیغہ خطاب فرمانے میں یہی حکمت ہو کہ وہ اپنے اموال کو بھی شامل ہے اور وہ یتیموں کے اموال کو بھی، جب تک ان میں ہوشیاری نہ آئے ان کی ذمہ داری میں ہونے کی وجہ سے گویا انہی کے اموال ہیں اور اس سے پہلی آیات میں واتوا الیتمی اموالھم فرما کر اصل حقیت کو واضح بھی کردیا گیا ہے کہ یتیموں کے مال انہی کو دینا ہے، جس کے بعد کوئی مغالطہ باقی نہیں رہ سکتا۔ مال کی حفاظت ضروری امر ہے اور اس کو ضائع کرنا گناہ ہے اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے کوئی شخص مقتول ہوجائے تو شہید ہے، جیسا کہ جان کی حفاظت کرتے ہوئے مقتول ہونے پر شہادت کا درجہ موعود ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے جو شخص مقتول ہوجائے وہ شہید ہے (یعنی ثواب کے اعتبار سے شہیدوں میں شمار ہے۔ “ ) ” نیک آدمی کے لئے اس کا اچھا اور پاکیزہ مال بہترین متاع حیات ہے۔ “ ” جو شخص اللہ عزوجل سے ڈرتا ہو اس کی مال داری میں دین کا کوئی حرج نہیں۔ “ آخر کی ان دونوں میں حدیثوں میں یہ بات بتائی ہے کہ صالح اور متقی آدمی کا مال پاس رکھنا اس کے حق میں مضر نہیں ہے، کیونکہ ایسا شخص اللہ سے خوف کھاتے ہوئے اپنے مال کو گناہوں میں خرچ کرنے سے بچے گا، بہت سے اولیاء اللہ اور صوفیاء زاہدین سے جو مال کی برائی منقول ہے، وہ انہی لوگوں کے حق میں ہے جو گناہوں میں خرچ کر کے اپنے کمائے ہوئے مال کو آخرت کے عذاب کا ذریعہ بناتے ہیں اور چونکہ انسان طبعی طور پر مال دار ہونے کے بعد اسراف اور دیگر معاصی سے محفوظ رہنے کی فکر چھوڑ دیتا ہے، اس لئے مال سے دور رہنے کو محبوب سمجھا گیا ہے، بقدر ضررت تھوڑا بہت کمایا اور اللہ کا نام لیا اور مال کے حساب سے اپنی جان بچائی، یہ پرانے بزرگوں کا طرز تھا دور حاضر میں لوگوں میں دین و ایمان کی اہمیت زیادہ نہیں ہے، دنیوی ساز و سامان کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں اور معمولی سی تکلیف ہی نہیں بلکہ ظاہری فیشن کے خلاف ورزی ہوجانے پر دین چھوڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں، اس لئے ایسے لوگوں کے لئے مال حلال کسب کرنے اور اس کو محفوظ رکھنے کی زیادہ اہمیت ہے، اسی طرح کے لوگوں کے لئے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یعنی تنگدستی انسان کو بعض اوقات کافر بنا سکتی ہے۔ “ حضرت سفیان ثوری نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا : کان المال فیما مضی یکرہ فاما الیوم فھوترس المومن، یعنی ” زمانہ سابق میں مال کو پاس رکھنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن آج یہ مال مومن کی ڈھال ہے۔ “ نیز انہوں نے فرمایا : من کان فی یدہ من ھذہ شیاً فلیصلحہ فانہ زمان ان احتاج کان اول من بیدل دینہ، یعنی جس کے پاس دراہم ودنانیر میں سے کچھ موجود ہو اسے چاہئے کہ اس مال کو مناسب طریقہ پر کام میں لائے کیونکہ یہ وہ زمانہ ہے کہ اگر کچھ حاجت پیش آگئی تو انسان سب سے پہلے حاجت پوری کرنے کے لئے اپنے دین ہی کو خرچ کرے گا۔ “ مطلب یہ ہے کہ حاجت پوری کرنے کی اہمیت دین پر چلنے سے زیادہ ہوگئی۔ (مشکوة ص ١٩٤)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَاۗءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِىْ جَعَلَ اللہُ لَكُمْ قِيٰـمًا وَّارْزُقُوْھُمْ فِيْھَا وَاكْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۝ ٥ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّل... اةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی سفه السَّفَهُ : خفّة في البدن، ومنه قيل : زمام سَفِيهٌ: كثير الاضطراب، وثوب سَفِيهٌ: ردیء النّسج، واستعمل في خفّة النّفس لنقصان العقل، وفي الأمور الدّنيويّة، والأخرويّة، فقیل : سَفِهَ نَفْسَهُ [ البقرة/ 130] ، وأصله سَفِهَتْ نفسه، فصرف عنه الفعل نحو : بَطِرَتْ مَعِيشَتَها [ القصص/ 58] ، قال في السَّفَهِ الدّنيويّ : وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء/ 5] ، وقال في الأخرويّ : وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن/ 4] ، فهذا من السّفه في الدّين، وقال : أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة/ 13] ، فنبّه أنهم هم السّفهاء في تسمية المؤمنین سفهاء، وعلی ذلک قوله : سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة/ 142] ( س ف ہ ) السفۃ اس کے اصل معنی جسمانی ہلکا پن کے ہیں اسی سے بہت زیادہ مضطرب رہنے والی مہار کو زمام سفیہ کہا جاتا ہے اور ثوب سفیہ کے معنی ردی کپڑے کے ہیں ۔ پھر اسی سے یہ لفظ نقصان عقل کے سبب خفت نفس کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے سفہ نفسہ جو اصل میں سفہ نفسہ ہے پھر اس سے فعل کے نسبت قطع کر کے بطور تمیز کے اسے منصوب کردیا ہے جیسے بطرت معشیتہ کہ یہ اصل میں بطرت معیشتہ ہے ۔ اور سفہ کا استعمال امور دنیوی اور اخروی دونوں کے متعلق ہوتا ہے چناچہ امور دنیوی میں سفاہت کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء/ 5] اور بےعقلوں کو ان کا مال ۔۔۔۔۔۔ مت دو ۔ اور سفاہت اخروی کے متعلق فرمایا : ۔ وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن/ 4] اور یہ کہ ہم میں سے بعض بیوقوف خدا کے بارے میں جھوٹ افتراء کرتے ہیں ۔ یہاں سفاہت دینی مراد ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة/ 13] تو کہتے ہیں بھلا جس طرح بیوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں : ۔ میں ان سفیہ کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ ان کا مؤمنین کو سفھآء کہنا بنا بر حماقت ہے اور خود ان کی نادانی کی دلیل ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة/ 142] احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلہ پر ( پہلے چلے آتے تھے ) اب اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ قيام والْقِيَامُ علی أضرب : قيام بالشّخص، إمّا بتسخیر أو اختیار، و قیام للشیء هو المراعاة للشیء والحفظ له، و قیام هو علی العزم علی الشیء، فمن القِيَامِ بالتّسخیر قوله تعالی: مِنْها قائِمٌ وَحَصِيدٌ [هود/ 100] ، وقوله : ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوها قائِمَةً عَلى أُصُولِها [ الحشر/ 5] ، ومن القِيَامِ الذي هو بالاختیار قوله تعالی: أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر/ 9] . وقوله : الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] ، وقوله : الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ [ النساء/ 34] ، وقوله : وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِياماً [ الفرقان/ 64] . والقِيَامُ في الآیتین جمع قائم . ومن المراعاة للشیء قوله : كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ [ المائدة/ 8] ، قائِماً بِالْقِسْطِ [ آل عمران/ 18] ، وقوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] أي : حافظ لها . وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران/ 113] ، وقوله : إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران/ 75] أي : ثابتا علی طلبه . ومن القِيَامِ الذي هو العزم قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 6] ، وقوله : يُقِيمُونَ الصَّلاةَ [ المائدة/ 55] أي : يديمون فعلها ويحافظون عليها . والقِيَامُ والقِوَامُ : اسم لما يقوم به الشیء . أي : يثبت، کالعماد والسّناد : لما يعمد ويسند به، کقوله : وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِياماً [ النساء/ 5] ، أي : جعلها ممّا يمسككم . قيام اور قیام کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے :( 1 ) کسی شخص کا تسخیری طور پر یا اپنے ارادے سے کھڑا ہونا ۔ ( 2 ) قیام للشئی : یعنی شے کی حفاظت اور نگہبانی کرنا ۔ ( 3 ) کسی کام کا پختہ ارادہ کرلینا ۔ تسخیری طور کھڑا ہونے کے معنی میں فرمایا : ۔ مِنْها قائِمٌ وَحَصِيدٌ [هود/ 100] ان میں سے بعض تو باقی ہیں اور بعض تہس نہس ہوگئے ہیں ۔ ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوها قائِمَةً عَلى أُصُولِها [ الحشر/ 5] کجھور کے جو درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا ۔ اور قیام اختیاری کے معنی میں فرمایا : ۔ أَمَّنْ هُوَ قانِتٌ آناءَ اللَّيْلِ ساجِداً وَقائِماً [ الزمر/ 9] یا وہ جو رات کے وقتوں میں زمین پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہوکر عبادت کرتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] اور جو کھڑے اور بیٹھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ اور نیز ایت : ۔ وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّداً وَقِياماً [ الفرقان/ 64] اور وہ لوگ اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کر کے ( عجز وادب سے ) کھڑے رہکر راتیں بسر کرتے ہیں ۔ میں قیام قائم کی جمع ہے اور کسی چیز کی حفاظت اور مراعات کے معنی میں فرمایا : ۔ الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّساءِ [ النساء/ 34] مرد عورتوں پر راعی اور محافظ ہیں ۔ كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَداءَ بِالْقِسْطِ [ المائدة/ 8] انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو ۔ قائِماً بِالْقِسْطِ [ آل عمران/ 18] جو انصافپر قائم ہیں ۔ أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] تو کیا جو خدا ہر متنفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔ نیز فرمایا ؛ لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران/ 113] یہ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں ۔ ان اہل کتاب میں کچھ لوگ حکم خدا پر قائم بھی رہیں ۔ اور آیت کریمہ : إِلَّا ما دُمْتَ عَلَيْهِ قائِماً [ آل عمران/ 75] تو جب تک اس کے سر پر ہر وقت کھڑے نہ رہو ۔ میں قائما کے معنی برابر مطالبہ کرنے والے کے ہیں اور قیام بمعنی عزم کے متعلق فرمایا : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 6] مومنو جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو اور آیت کریمہ : ۔ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ [ المائدة/ 55] اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیں ۔ میں یقیمون کے معنی نماز پر دوام اور راس کے ارکان کی حفاطت کرنے کے ہیں ۔ اور قیام دقوام اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس کے سہارے کوئی چیز قائم رہ سکے جس طرح کہ عماد اور سناد اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو سہارا لگا دیا جائے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِياماً [ النساء/ 5] اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لئے سبب معشیت بنایا مت دو ۔ یعنی ان کو تمہاری بقا کا سبب بنایا رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو كسا الكِسَاءُ والْكِسْوَةُ : اللّباس . قال تعالی: أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة/ 89] ، وقد كَسَوْتُهُ واكْتَسَى. قال : وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء/ 5] ، فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ( ک س و ) الکساء والکسوۃ کے معنی لباس کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة/ 89] یا ان کو کپڑا دینا کسوتہ ۔ میں نے اسے لباس پہنایا ۔ اکتسیٰ ( افتعال ) اس نے پہن لیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء/ 5] ہاں اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو ۔ فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] پھر ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھا تا ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] والقَوْلُ يستعمل علی أوجه : أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا . الثاني : يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا . الثالث : للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة . الرابع : في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . ( ق و ل ) القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔ ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفه ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) ( 4 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔ معْرُوفُ : اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان/ 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

نادانوں اور بیوقوفوں کو ان کا مال حوالے کرنا اسلام مال وجائد اد کی حفاظت کا حکم دیتا ہے قول باری ہے (ولاتؤتوالسفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاما، اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیئے قیام زندگی کا ذریعہ بنایا ہے ناوان لوگوں کے حوالے نہ کرو۔ ) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس آیت کی تاویل و... تفسیر میں اہل کا اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ کوئی شخص اپنامال اپنی اولاد کے درمیان تقسیم نہ کرے اور پھر خودان کا دست نگربن جائے، جبکہ اس کی اولاد کو اس کا دست نگرہونا چاہیئے اور عورت بیوقوف ترین مخلوق ہے۔ اس طرح حضرت ابن عباس (رض) نے آیت کی اس کے ظاہر اور اس کی حقیقت کے مقتضیٰ کے مطابق تفسیر کی اس لیے کہ قول باری (اموالکم) اس بات کا متقاضی ہے کہ اپنا مال نادانوں کے حوالے کرنے کی نہی کا خطاب ہر شخص کو ہے۔ اس لیے کہ حوالہ کردینے کی صورت میں گویا اپنا مال ضائع کردینا ہے کیونکہ نادان لوگ مال کی حفاظت اور اس میں اضافہ کرنے سے عاجزہوتے ہیں۔ نادان لوگوں سے آپ کی مراد بچے اور عورتیں ہیں جو مال کی حفاظت کے نااہل ہوتے ہیں نیز اس امرپر بھی دلالت ہورہی ہے کہ ایک شخص کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنے مال کا کسی ایسے فرد کو وکیل اور کارپروازبنادے جس میں نادانی اور بیوقوفی کی صفت پائی جاتی ہو اور نہ ہی ان جیسے لوگوں کو اپنے مال کے متعلق وصیت کرے۔ نیز یہ دلالت بھی ہورہی ہے کہ ایک شخص کے ورثاء کم عمرہوں تو اس کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنے مال کے متعلق کسی ایسے شخص کو وصیت کرے جو امانت دارہو اور ان ورثاء کی خاطر اس مال کی دل وجان سے حفاظت کرسکتا ہو۔ اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ مال کو ضائع کرنے سے روکا گیا ہے اور اس کی حفاظت دیکھ بھال اور نگرانی واجب کردی گئی ہے۔ اس لیے کہ قول باری ہے (التی جعل اللہ لکم قیا ما) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتادیا ہے۔ کہ اس نے ہمارے جسموں کی زندگی اور قیام کا ذریعہ مال کو بنادیا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو مال دنیامیں سے کوئی حصہ عطاکیا ہے۔ اس پر اس میں سے اللہ کا حق یعنی زکوۃ و صدقات اداکرنا لازم ہے پھر باقی ماندہ مال کی حفاظت اور اسے ضائع ہونے سے بچانا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ اس طرح اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اصلاح معاش اور حسن تدبیر کی ترغیب دی ہے، یہ بات اللہ نے اپنی کتاب عزیز میں کئی مواقع پر بیان فرمائی ہے۔ چناچہ قول باری ہے۔ (ولاتبذرتبذیرا ان لمبذرین کانوا اخوان الشیطین، اور بلاضرورت خرچ نہ کرو بیشک بلاضرورت مال اڑانے والے شیطانوں کے بھائی بند ہیں) نیز قول باری ہے (ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولاتبسطھا کل البسط فتقعدملومامحسورا۔ اپنے ہاتھ اپنی گردن سے باندھ کر نہ رکھو، اور نہ ہی اسے پوری طرح پھیلا دو کہ پھر ملامت زدہ اور تھکاہاربن کر بیٹھ رہو) نیز قول باری ہے (والذین اذا انفقوالم یسرفواولم یقتروا، اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ ہی کنجوسی) اللہ تعالیٰ نے اموال کی حفاظت اور گواہوں، دستاویز اوررہن کے ذریعے قرض میں دی ہوئی رقموں کو محفوظ کرلینے کے جو احکامات دیئے ہیں جن کا ذکرہم پہلے کر آئے ہیں وہ بھی اصلاح معاش اور حسن تدبیر کے سلسلے میں دی جانے والی ترغیب کی ایک کڑی ہیں۔ قول باری (التی جعل اللہ لکم قیاما، کی اور تفسیر بھی کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان اموال کانگران ومحافظ بنا ہے۔ اس لیے انہیں ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں جانے نہ دوجوان کے ضیاع کا سبب بن جائیں۔ اسلام میں مال ودولت کا ضائع کرنا منع ہے آیت زیر بحث کی ایک اور تاویل سعید بن جبیر سے منقول ہے کہ آیت کا اصل مفہوم یہ ہے ، ناوانوں کو ان کے اموال حوالے نہ کرو۔ اموال کی اضافت دراصل سفہاء یعنی نادانوں کی طرف ہے۔ اب الفاظ میں اموال کی جو اضافت مخاطبین کی طرف ہے تو اس کی مثال یہ قول باری ہے (ولاتقتلوا انفسکم، تم اپنی جانوں کو قتل نہ کرو) یہاں (انفسکم) سے مراد یہ ہے کہ ، تم میں سے بعض بعض کو قتل نہ کرے۔ اسی طرح قول باری (فاقتلوا انفسکم، تم اپنے آپ کو قتل کرو) کا یہی مفہوم ہے۔ نیز قول باری (واذدختلم بیوتا فسلمواعلی انفسکم، اور جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے آپ کو سلام کرو) کا مفہوم یہ ہے کہ گھروں میں رہنے والوں کو سلام کرو۔ اس تاویل کی بناپرنادانوں اور بیوقوفوں پر ان کے اموال کے سلسلے میں پابندی ہوگی اور انہیں نادانی اور بے وقوفی زائل ہونے تک ان کے اموال سے دوررکھاجائے گا۔ یہاں سفہاء کے معنی میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے، تمہاری اولاد اور اہل وعیال میں سے سفیہ اور بے وقوف، نیز فرمایا : عورت بیوقوف ترین مخلوق ہے۔ سعید بن جبیر، حسن اور سدی نیز ضحاک اور قتادہ کے نزدیک عورتیں اور بچے سفہاء گنے جاتے میں بعض اہل علم کا قول ہے کہ اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جس میں مال کے متعلق سفاہت اور نادانی کی صفت پائی جاتی ہو خواہ اس پر پابندی لگی ہو یا نہ لگی ہو، شعبی نے ابوبردہ سے، انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری (رض) سے روایت کی ہے۔ کہ آپ نے فرمایا : تین افرادای سے ہیں جو اللہ سے دعا مانگتے ہیں لیکن اللہ ان کی دعاقبول نہیں کرتا، ایک تو وہ شخص جس کی بیوی بداخلاق اور بدزبان ہو اور وہ طلاق دے کر اپنی جان نہ چھڑائے۔ دوسراوہ جو اپنا مال کسی بیوقوف کے حوالے کردے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (ولاتوتوالسفھاء اموالکم) اور تیسراوہ شخص جس نے کسی کو قرض میں اپنی رقم دی اور اس پر گواہی نہ قائم کی ہو۔ مجاہد سے مروی ہے کہ سفہاء سے مراد عورتیں ہیں کہ ایک قول ہے کہ سفابت کے اصل معنی حلم اور بردباری کے لحاظ سے ہلکاپن کے ہیں اسی بناء پر فاسق کو سفیہ کہا گیا ہے اس لیے کہ اہل دین اور اہل علم کے نزدیک اس کا کوئی وزن اور مقام نہیں ہوتا۔ ناقص العقل کو بھی سفیہ کہاجاتا ہے اس لیے کہ اس میں عقل کی کمی ہوتی ہے۔ آیت زیربحث میں جسن سفہاء کا ذک رہے ان کی سفابت میں کوئی خدمت کا پہلو نہیں ہے اور نہ ہی اس سے اللہ کی نافرنی کا مفہوم ظا ہوتا ہے بلکہ انہیں سفہاء صرف ان کی عقل کی کمی اور مال کی حفاظت میں ان کی سمجھ بوجھ کی قلت کی بناء پر کہاگیا ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ اس بات کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہم بچوں اور عورتوں کو مال بطور ہبہ دے سکتے ہیں۔ ایک صحابی حضرت بشیر (رض) نے اپنے بیٹے نعمان (رض) کو بطورہبہ کچھ دینے کا ارادہ کیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اس سے صرف اس لیے روک دیا کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کو یکساں طریقے پر ہبہ نہیں کیا تھا۔ اس بیان کی روشنی میں سفہاء کو ہماری طرف سے اموال نہ دینے کے معنی پر آیت کے کیسے محمول کیا جائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں تملیک اور مال کسے ہبہ کے معنی نہیں ہیں۔ اس میں تو مفہوم یہ ہے کہ ہم اموال کو ان کے ہاتھوں میں دے دیں جبکہ انہیں ان کی حفاظت کی کوئی خاص پروانہ ہو۔ دوسری طرف ایک انسان کے لیے جائز ہے کہ نابالغ یا عورت کو بطورہبہ کوئی مال دے دے جس طرح کہ وہ بالغ عقلمند کو ہبہ کے طورپر کوئی چیزدے سکتا ہے۔ پہلی صورت میں صرف اتنی بات ہوئی کہ اس ہبہ کو بچے کا ولی اپنے قبضے میں لے کر اس کی حفاظت کرے گا اور اسے ضائع ہونے نہیں دے گا۔ آیت میں اللہ تعانے ہمیں اس سے روکا ہے کہ ہم اپنے اموال بچوں اور عورتوں کے ہاتھوں میں دے دیں جوان کی حفاظت اور دیکھ بھال کے نااہل ہوتے ہیں۔ قول باری ہے (فارزقوھم فیھا واکسوھم، ان نادانوں کو ان اموال میں سے کھلاؤ اور پہناؤ) یعنی انہیں ان اموال میں سے کھلاؤ اس لیے کہ یہاں حرف، فی، حرف، من ، کے معنی میں ہے اس لیے کہ حروف پر آگے پیچھے صفات ک اورودہوتارہتا ہے جس کی بناپربعض حروف بعض دوسرے حروف کے قائمقام ہوکران کے معنی دیتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری ہے (ولاتاکلوا اموالھم الی اموالکم) میں معنی ، مع اموالکم، کے ہیں، یعنی ان کے اموال اپنے اموال کے ساتھ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں اموال کو سفہاء کے حوالے کردینے سے روک دیا ہے جوان اموال کی حفاظت کا کام سرانجام نہیں دے سکتے اور یہ حکم دیا کہ ہم انہیں ان اموال میں سے ان کی خوراک اور لباس کا بندوبست کریں۔ اگر آیت سے مراد ہمیں اپنے اموال انہیں حوالے کرنے سے روکنا ہے جیسا کہ آیت کا ظاہراس کا مقتضی ہے تو پھر اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ اپنی بیوی اور نادان اولاد اور بیویوں کانان ونفقہ ہم پر واجب ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ہمیں حکم ہے کہ ہم ان پر اپنے اموال میں سے خرچ کریں۔ اگر آیت کی تاویل وہ ہے جسے ان لوگوں نے اختیارکیا ہے جن کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد یہ بات ہے کہ ہم ان کے اموال اس وقت تک ان کے حوالے نہ کریں جب تک ان میں سفاہت کی صفت موجودہوتو پھر اس صورت میں ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم ان کے اموال میں سے ان پر خرچ کریں، یہ بات دوجوہ سے ایسے لوگوں پر پابندی پر دلالت کرتی ہے اول یہ کہ انہیں ان کے اموال سے دوررکھا گیا ہے دوم ان پر خرچ کرنے اور ان کی خوراک اور لباس کی خریداری کے سلسلے میں ہمیں ان کے اموال میں تصرف کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ قول باری ہے (وقولوالھم قولا معروفا، ان سے بھلی بات کہو) مجاہد اورابن جریج کا قول ہے کہ (قولا معروفا) سے مراد نیکی اور صلہ رحمی کرنے کے لیے موزوں اور جائز طریقے پر ان سے مناسب الفاظ میں وعدہ کرلینا ہے۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد بھلے الفاظ میں ان سے گفتگو کرنا اور اس کے لیے نرم لہجہ اختیارکرنا ہے۔ جیسا کہ قول باری ہے (فاماالیتیم فلاتقھر، اور تم یتیم پر سختی نہ کرو) یا جس طرح یہ قول باری ہے (واما تعرضن عنھم ابتغاء رحمۃ من ربک ترجوھافقل لھم قولا میسورا، اگر تمھیں ان سے پہلوتہی کرنا پڑے اس انتظار میں کہ تیرے پروردگار کی طرف سے وہ کشایش آئے جس کی تمہیں امیدہوتوان سے نرمی کی بات کہہ دو ۔ ) ایک قول یہ بھی ہے یہاں، قول معروف، سے تادیب و تنبیہ نیزراست روی اور نیکی کی بدایت اور اخلاق حسنہ کے حصول کی راہنمائی مراد لینا بھی جائز ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد ہمیں یہ نصیحت کرنا ہے کہ تم ان کے لیے اپنے اموال میں سے خوراک وپوشاک کے اخراجات اداکروتو اس موقعہ پر ان سے بھلے اور مناسب الفاظ میں گفتگوکرو اورا نہیں اپنی بیزاری کا اظہارکرکے نیز انہیں ذ (رح) لیل کرکے اور نظروں سے گراکر ان کی ایذارسانی نہ کروجیسا کہ ارشادباری ہے (واذاحضرالقسمۃ اولوالقربی والیتامی والمساکین فارزقوھم منہ وقولوالھم قولا معروفا، اور جب تقسیم ترکہ کے وقت رشتہ دار، یتیم اور مساکین آجائیں توا نہیں بھی اس میں سے کچھ حصہ دو اور ان سے عمدہ انداز میں گفتگوکرو) یعنی مناسب الفاظ میں گفتگو اوراظہار بیزاری اور احسان جتانے سے پرہیز نیز یہ قول باری بھی ہے (لاتبطلواصدقاتکم بالمن والاذی اپنے صدقات کو احسان جتلاکر اورتکلیف پہنچاکربربادنہ کرو) یہ بھی درست ہے کہ مذکورہ بالاتمام معانی آیت (وقولوالھم قولا معروفا) میں مراد ہوں ۔ واللہ اعلم۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥) اور تم ان کم عقل یتیم عورتوں اور لڑکوں کو وہ مال جو تمہارے لیے مایہ زندگی ہے، مت دو باقی اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو اور تم ہی اس چیز کے نگران ومحافظ رہو کیوں کہ تم صحیح مصارف کو زیادہ جانتے ہو اور ان کی تسلی کے لیے معقول بات کہتے رہو کہ ابھی دوں گا وغیرہ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (وَلاَ تُؤْتُوا السُّفَہَآءَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیٰمًا) معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو نادانوں اور ناسمجھ لوگوں (سُفَہاء) پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں بچے بھی شامل ہیں جو ابھی سن شعور کو نہیں پہنچے۔ ایسے بچے اگر یتیم ہوجائیں تو وہ وراثت میں ملنے والے مال کو ال... لوں تللوں میں اڑا سکتے ہیں۔ لہٰذا یہاں ہدایت کی گئی ہے کہ ایسے مال کے بےجا استعمال کی معاشرتی سطح پر روک تھام ہونی چاہیے۔ یہ تصور ناقابل قبول ہے کہ میرا مال ہے ‘ میں جیسے چاہوں خرچ کروں ! چناچہ اس مال کو اَمْوَالَکُمْ “ کہا گیا کہ یہ اصل میں معاشرے کی مشترک بہبود کے لیے ہے۔ اگرچہ انفرادی ملکیت ہے ‘ لیکن پھر بھی اسے معاشرے کی مشترک بہبود میں خرچ ہونا چاہیے۔ ِ (وَّارْزُقُوْہُمْ فِیْہَا وَاکْسُوْہُمْ ) (وَقُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا ) اسی اصول کے تحت برطانوی دور کے ہندوستان میں of wards Court مقرر کردیے جاتے تھے۔ اگر کوئی بڑا جاگیردار یا نواب فوت ہوجاتا اور یہ اندیشہ محسوس ہوتا کہ اس کا بیٹا آوارہ ہے اور وہ سب کچھ اڑا دے گا ‘ ختم کر دے گا تو حکومت اس میراث کو اپنی حفاظت میں لے لیتی اور ورثاء کے لیے اس میں سے سالانہ وظیفہ مقرر کردیتی۔ باقی سب مال و اسباب جمع رہتا تھا تاکہ یہ ان کی آئندہ نسل کے کام آسکے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8. This verse covers a very wide spectrum of meaning. It emphasizes to the community of believers that wealth is one of the main supports of human life. It should not be left, therefore, at the mercy of those who are incompetent to handle it properly. By misusing wealth such people might destroy the bases of social and economic life and wreck the moral foundations of human society. The right to pr... ivate property is not so absolute; if a person is incapable of exercising this right properly and if he might cause grave social harm by wanton expenditure then his right may be forfeited. The necessities of such a person's life should always be provided for. But so far as the exercise of his proprietary rights is concerned, due restrictions should be placed on it in order that the owner is restrained from spending his resources in brazen disregard of the dictates of morality, collective welfare and economic interests of the community. According to the directive embodied in the verse, anyone who entrusts his property to someone else's care should satisfy himself that the latter is capable of making good use of it. At a higher level, it is incumbent upon an Islamic state to take over the management of the properties of those who either lack totally the capacity for good management or cause social damage by misuse. In such cases the state is responsible for providing these people with their livelihood.  Show more

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :8 یہ آیت وسیع معنی کی حامل ہے ۔ اس میں امت کو یہ جامع ہدایت فرمائی گئی ہے کہ مال جو ذریعہ قیام زندگی ہے ، بہر حال ایسے نادان لوگوں کے اختیار و تصرف میں نہ رہنا چاہیے جو اسے غلط طریقے سے استعمال کر کے نظام تمدن و معیشت اور بالآخر نظام اخلاق کو خراب کر دیں ۔ حقوق ملکیت ... جو کسی شخص کو اپنے املاک پر حاصل ہیں اس قدر غیر محدود نہیں ہیں کہ وہ اگر ان حقوق کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا اہل نہ ہو اور ان کے استعمال سے اجتماعی فساد برپا کر دے تب بھی اس کے وہ حقوق سلب نہ کیے جا سکیں ۔ جہاں تک آدمی کی ضروریات زندگی کا تعلق ہے وہ تو ضرور پوری ہونی چاہئیں ، لیکن جہاں تک حقوق مالکانہ کے آزادانہ استعمال کا تعلق ہے اس پر یہ پابندی عائد ہونی چاہیے کہ یہ استعمال اخلاق و تمدن اور اجتماعی معیشت کے لیے صریحاً مضر نہ ہو ۔ اس ہدایت کے مطابق چھوٹے پیمانہ پر ہر صاحب مال کو اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ وہ اپنا مال جس کے حوالہ کر رہا ہے وہ اس کے استعمال کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں ۔ اور بڑے پیمانہ پر حکومت اسلامی کو اس امر کا انتظام کرنا چاہیے کہ جو لوگ اپنے اموال پر خود مالکانہ تصرف کے اہل نہ ہوں ، یا جو لوگ اپنی دولت کو برے طریقے پر استعمال کر رہے ہوں ، ان کی املاک کو وہ اپنے انتظام میں لے لے اور ان کی ضروریات زندگی کا بندوبست کر دے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: یتیموں کے سرپرستوں کی ذمہ داریاں بیان کی جارہی ہیں کہ ایک طرف تو انہیں یتیموں کے مال کو امانت سمجھ کر انتہائی احتیاط سے کام لینا ہے، دوسری طرف یہ بھی خیال رکھنا ہے کہ یتیموں کا پیسہ ایسے وقت ان کے حوالے کیا جائے جب ان میں روپے پیسے کی ٹھیک ٹھیک دیکھ بھال کی سمجھ اور اسے صحیح مصرف پر خرچ کرنے کا س... لیقہ آ چکا ہو۔ جب تک وہ نا سمجھ ہیں، ان کا مال ان کی تحویل میں نہیں دینا چاہیے اور اگر وہ خود مطالبہ کریں کہ ان کا مال ان کے حوالے کردیا جائے تو انہیں مناسب انداز میں سمجھا دینا چاہئے۔ اگلی آیت میں اسی اصول کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ وقتاً فوقتاً ان یتیم بچوں کو آزماتے رہنا چاہئے کہ آیا وہ اتنے سمجھ دار ہوگئے ہیں کہ انہیں اپنے مال کے صحیح استعمال کا سلیقہ آگیا ہے۔ یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ صرف بالغ ہوجانا بھی کافی نہیں، بلوغ کے بعد بھی اگر وہ سمجھ دار نہ ہو پائے ہوں تو مال ان کے حوالے نہ کیا جائے۔ بلکہ جب یہ محسوس ہوجائے کہ ان میں سمجھ آگئی ہے تب مال ان کے حوالے کیا جائے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

یہاں عبد اللہ بن عباس (رض) و سعید بن جبیر میں اختلاف ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) اس آیت کی شان نزول یہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کی بی بی بد سلیقہ ہو یا اولاد بد خرچ اور بیوقوف ہو تو ایسی بی بی بچوں کے ہاتھ میں خرچ نہ دینے کے لئے یہ آیت اتری ہے، اور سعید بن جبیر کہتے ہیں نہیں جو یتیم بیوقوف ہوں ان کا ... مال ان کے ہاتھ میں نہ سونپ دینے کے لئے یہ یہ آیت اتری ہے۔ لیکن اصل میں اس آیت کا حکم عام ہے ہر طرح کے بیوقوف کو شامل ہے اور حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ بد سلیقہ خواہ بی بی بچے ہوں یا یتیم ماں ان کے حوالہ نہ کیا جائے ہاں ان کو اس مال میں سے کھلاناپہنانا چاہیے اور ان سے اس طرح کی فہمائش کی باتیں کہہ دینی چاہئیں جس سے ان کا دل خوش ہو مال کو گذران اس لئے فرمایا کہ اس سے ہر طرح کا کام چلتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:5) قیما۔ مصدر بھی ہے (باب نصر) جس کے معنی ہیں کھڑا ہونا۔ بیٹھنے کی حالت سے اٹھنا۔ اور قائم کی جمع بھی ہے۔ کھڑے ہونے والے۔ قیام کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ (1) کسی شخص کا تسخیری طور پر یا اپنے ارادہ سے کھڑا ہونا۔ مثال منھا قائم وحصید (11:100) ان میں سے بعض تو باقی ہیں اور بعض تہس نہس ... ہوگئے ہیں (تسخیری طور پر کھڑا ہونے کے معنی ہیں) ۔ والذین یبیتون لربھم سجدا وقیاما (25:64) اور وہ لوگ اپنے رب کے حضور سجدہ میں اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ (قیام اختیاری کی مثال) (2) قیام للشیئ۔ کسی شے کی حفاظت اور نگرانی کرنا۔ الرجال قوامون علی النساء (4:34) مرد عورتوں پر راعی اور محافظ ہیں (3) کسی کام کا پختہ ارادہ کرلینا ۔ یایھا الذین امنوا اذا قمتم الی الصلوۃ (5:6) مومنو ! جب تم ارادہ کرو نماز پڑھنے کا۔ (4) قیام اور قوام اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس سے کسی شے کی بقا وابستہ ہو۔ مثلاً آیۃ ہذا : ولا تؤتوا السفھاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاما (4:5) نہ دونا دانوں کو اپنے مال جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے زندگی کا سہارا بنایا ہے۔ اموالکم۔ سے اصل مراد وہ مال ہے جو نادان یتیموں کا دوسروں کی تحویل میں بطور نگران دیا گیا ہے۔ ھم کی بجائے کم کی ضمیر کا استعمال اس اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ہوا ہے کہ یہ مال ایسا ہی قابل توجہ اور قابل احتیاط ہے جیسا کہ تمہارا اپنا مال۔ اس لئے اس کا ضیاع بہرنوع مذموم ہے۔ اور جعل اللہ لکم قیاما جیسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے زندگی کا سہرا بنایا ہے) کے الفاظ اس مال کی اہمیت اور اس کی قدروقیمت کو ذہن نشین کرانے کے لئے ہے کہ یہ مال زندگی کا سہارا ہے اس لئے اس کو بےمقصد خرچ کرنا منع ہے تو اس آیۃ کا مطلب یہ ہوا کہ نابالغ۔ بےسمجھ یتیموں کے مال کی اپنا مال سمجھ کر حفاظت کرو یہ مال زندگی کا سہارا ہے اس لئے اسے بےمقصد خرچ کے لئے ان کے مال ان نادان یتیموں کے حوالے نہ کرو۔ جو نادانی کی وجہ سے اسے چند دنوں میں اڑا دیں گے (لیکن ان کے کھانے پینے اور لباس ضروریہ پر اس مال سے خرچ کرسکتے ہو) ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

)3 یہاں بیوقوفوں کی صلا حیت نہ رکھتے ہوں۔ اس میں چھو ٹے بچے اور ناتجر نہ کار بیوی بھی آجاتی ہے اور نادان یتیم بھی۔ یعنی اگر تجربہ کار اور کم عقل ہوں تو وصی یا متولی کو چاہیے کہ یتیم کے مال سے اس کے کھا نے پینے اور لباس کا انتظام کرتا رہے مگر وہ مال اس کے سپرد نہ کرے۔ اس آیت سے علما نے سفیہ (کم عقل) ... پر حجر کا حکم اخذ کیا ہے کہ حاکم وقت اس کے تصرف پر پابندی لگا سکتا ہے (ابن کثیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیت 5 6: ولا توتوا السفھاء اموالکم۔ ۔۔۔ اسلام میں دولت کی اہمیت : ہاں مال اس قدرت بےوقعت بھی نہیں کہ اسے ضائع کیا جائے بلکہ مال کی حفاظت بھی بہت ضروری ہے کہ یہ ایک بہت بڑی قوت ہے اور انسانی زندگی کا مدار اس پر ہے سو مالدار ہونا کوئی عیب نہیں بلکہ حلال ذرائع سے کمانا اور پھر اس کی حفاظت ضروری ہے کہ ص... رف ضرورت کے مطابق خرچ کیا جائے اور ضائع ہونے سے بچایا جائے اگر کوئی اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا گیا تو شہید ہوگا جیسا کہ صحیح بخاری میں موجود ہے۔ من قتل دون مالہ فھو شہید۔ سو کسی ایسے عزیز کے سپرد مال نہ کیا جائے جو بےعقل ہو اور سنبھال نہ سکے خواہ یتیم ہو یا اپنا بچہ یا عورت لیکن اس میں سے اس کی ضروریات کو مناسب طریقے سے پورا کرو اور نہایت لطف سے پیش آؤ یعنی مال کی حفاظت مقصود ہے کسی کو دوسرے پر مسلط کرنا مراد نہیں ہے ایسے یتیم جب نکاح کی حالت کو پہنچیں یعنی بالغ ہوجائیں تو ان کو پرکھ لو آزما لو اگر وہ ہوشیار معلوم ہوں یعنی ان میں بھلے برے کی تمیز آجائے اور نفع نقصان کی خبر رکھتے ہوں تو ان کے اموال انہیں لوٹا دو اور ان کے مالوں میں اسراف یعنی فضول خرچ نہ کرو نہ اس طرح کھانا شروع کردو کہ ان کے بڑا ہونے سے پہلے ختم کرلیا جائے ورنہ لوٹانا پڑے گا بلکہ اگر گزارہ ہوسکے تو یتیم کے مال سے ہرگز نہ لو اور اپنا دامن صاف رکھو ہاں اگر احتیاج ہو تو بقدر گذارہ لے لو۔ یعنی کم از کم رقم لو اور جب انہیں مال لوٹانے لگو تو اس پر گواہ مقرر کرلو اگرچہ حساب تو اللہ کریم ہی نے لینا ہے اور وہ ہر بات سے خوب واقف ہے مگر قانون کے مطابق گواہ کا ہونا بہت اچھی بات ہے کہ دنیا کی زندگی بھی کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو ہمارے ہاں جو مال کی مذمت کی جاتی ہے اور اکثر بزرگان دین سے بیان ہوئی ہے اس کا سبب مالداروں کی گمراہی ہے اور غریب کی نسبت مالداروں کے پاس گناہ کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں نیز عموماً مالدار لوگ گناہ کی زندگی اختیار کرلیتے ہیں اس لیے مال کو مصیبت سمجھا جانے لگا ورنہ حلال دولت کمانا عبادت ہے اور مال و اقتدار رکھتے ہوئے حدود الہی کی حفاظت اور نگہداشت بڑا مجاہدہ ہے بلکہ جہاد اکبر ہے۔ اکثر علماء صحابہ کرام کی تنگ دستی کے احوال بیان فرماتے ہیں مگر میری نگاہ میں تو قابل بیان ان کا وہ دلی تعلق ہے جو براہ راست ذات باری سے قائم ہوگیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک نگاہ پاک نے ان کے دل چھلنی اور جگر کباب کردئیے پھر کوئی مصیبت یا تکلیف انہیں اللہ کے دروازے سے ہٹا سکی اور نہ دولت و اقتدار نے ان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کیا ورنہ ربع صدی میں چین سے ہسپانیہ تک اور سائبیریا سے جنوبی افریقہ تک ان کی سلطنت پھیل چکی تھی تاریخ عالم میں اتنی بڑی سلطنت اور نظر نہیں آتی پھر روم وفارس اور یمن کے خزانے جو ٹنوں سونے اور جواہرات پر مشتمل تھے سب اکابر صحابہ میں تقسیم ہوتے تھے ان اموال نے انہیں ارب پتی بنا دیا مگر کیا مجال جو عشق الہی میں سرد مہری ہو یا اطاعتِ الہی اور اطاعت رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کمی آئی ہو اور یہی فرد کا کمال ہے کہ اللہ کریم کے ساتھ اس کے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دل کا تعلق ہو اور اتنا مضبوط کہ نہ مال اور نہ اقتدار اس کی جگہ لے سکے سو مال کمانا جائز زرائع سے اور اس کی حفاظت کرنا پسندیدہ بات ہے ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ بچوں یا اہل خانہ کو تنگ دستی میں چھوڑ کر مرنے سے انہیں خوشحال چھوڑ کر مرنا بہت پسندیدہ ہے اور آج کل تو رواج ہے کہ لوگ مال کی مذمت کرتے ہیں اور اسی ذریعہ سے دولت کماتے بھی ہیں فقروفاقہ کے فضائل بیان کرکے فیس وصول کرتے ہیں جہاں مال کمانا اچھی بات وہاں دوسرے کے مال پہ نگاہ رکھنا سخت ناپسندیدہ ہے بلکہ دینی اور ملکی امور پر مقرر حضرات کے لیے جو ایسی خدمات پر مقرر ہیں جن کا انجام دینا فرض کفایہ ہے۔ مثلاً اوقاف ، مساجد ، مدارس یا ایسے ہی دوسرے ادارے تو افضل یہ ہے کہ ان اداروں سے رقوم لے کر نہ کھائیں اور ذریعہ معاش کوئی دوسرا ہونا چاہئے ہاں اگر مجبور ہوں اور اس طرف سے وقت نہ بچے تو بقدر ضرورت حلال ہوگا یعنی جس سے اپنے اور اپنے گھر والوں کے ضرور اخراجات پورے کرسکیں فلیاکل بلمعروف۔ پیش نظر رہنا چاہئے اور اس بات پر بھی نظر ہو کہ۔ وکفی باللہ حسیبا۔ اللہ کریم کے روبرو حساب دینا ہوگا جن حضرات نے مساجد و مدارس اور دینی تقاریر وغیرہ کو عیش کوشی کا سبب بنا رکھا ہے ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے کتنی حسرت کی بات ہوگی کہ جن کی باتیں سن کر اور اپنا کر لوگ نجات پا جائیں گے وہ خود مال کے ناجائز طور پر کھانے کی سزا بھگت رہے ہوں اللہ کریم آخرت کی روسوائی سے پناہ دے اور دو عالم میں اپنی رضا اور لطف و کرم نصیب فرمائے آمین۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 5- 6 لغات القرآن : لاتؤتوا، تم نہ دو ۔ السفھاء، نادان ، ناسمجھ۔ قیم، سہارا، سرمایہ زندگی۔ اکسوا، پہناؤ۔ قول معروف اچھی بات، معقول بات۔ ابتلوا، آزماؤ۔ الیتمی، یتیم، بےباپ کے بچے۔ حتی بلغوا، جب تک وہ پہنچ نہ جائیں۔ انستم، تم نے محسوس کیا، اندازہ کرلیا۔ رشد، سمجھ داری، ہوشیاری۔ ادفعوا، دے دو ،...  حوالے کر دو ۔ اسراف، زیادتی ، اڑا لینا۔ ان یکبروا، یہ کہ وہ بڑے ہوجائیں۔ غنی، خوش حال، آسودہ۔ فلیستعفف، پھر بچنا چاہئے۔ اشھدوا، گواہ بنالو۔ حسیب، حساب لینے والا۔ تشریح : حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ اپنا پورا مال کم عقل بچوں اور عورتوں کے حوالے اس طرح نہ کرو کہ خود ان کے محتاج بن کر بیٹھ جاؤ بلکہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو قوام اور منتظم بنایا ہے فرمایا تم مال کو خود اپنی حفاظت میں رکھ کر ضرورت کے مطابق ان کو کھلاؤ پہناؤ اور ان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرتے رہو اور اگر ناسمجھ یتیم بچے اس مال کو اپنے قبضے میں لینے کا مطالبہ کریں تو ان کو معقول طریقے سے سمجھا دو جس میں ان کی دل شکنی بھی نہ ہو اور مال بھی ضائع نہ ہونے پائے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ ایسے یتیم بچے جن کے مال کے تم نگراں ہو ان کو ایسے ہی مال نہ دے دو بلکہ آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ ان کو آزماتے رہو کہ وہ اس قابل بھی ہیں کہ اگر مال و دولت ان کے سپرد کردیا جائے گا تو وہ اس کا ضائع نہ کریں گے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے چھوٹے چھوٹے معمولی خریدوفروخت کے معاملات سپرد کرکے دیکھو۔ ان کی صلاحیتوں کا امتحان کرتے رہو۔ یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے قابل ہوجائیں تو اب خاص طور سے اندازہ لگاؤ کہ وہ اپنے معاملات میں سمجھ دار ہوگئے ہیں یا نہیں۔ جب تم ان میں ہوشیاری محسوس کرلو تو ان کے مال ان کے سپرد کر دو ۔ اس کی احتیاط ہونی چاہئے کہ جب مال ان بچوں کے حوالے کیا جائے تو کچھ لوگوں کو گواہ بھی بنا لیا جائے تاکہ آئندہ کسی موقع پر کوئی نیا فتنہ نہ کھڑا ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں فرمایا ہے کہ وہ انسانوں کے تمام اعمال اور افعال و کردار سے آگاہ ہے۔ ایک آدمی دنیا کی نگاہوں میں دھول جھونک سکتا ہے لیکن اللہ سے نہیں چھپا سکتا اس لئے ممکن ہے ایک شخص کچھ لوگوں کے سامنے حساب کتاب پیش کرکے سرخ رو ہوجائے لیکن اصل حساب کتاب وہ ہے جب قیامت کے دن تمام انسانوں سے ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ ان آیات میں یتیم بچوں کے سرپرستوں کیلئے چند خاص ہدایات دی گئی ہیں۔ فرمایا گیا ہے کہ (1) امانت میں خیانت نہ کی جائے (2) یتیم کے مال کو فضول نہ اڑایا جائے (3) اور اس خوف سے جلدی جلدی خرچ نہ کردیا جائے کہ وہ بچے جوان ہوکر اپنا حق طلب کریں گے (4) اگر ایک سرپرست اپنا خرچ آپ برداشت کرسکتا ہے تو یتیم کے مال میں سے کچھ بھی نہ لے، لیکن اگر ضرورت مند ہے تو بقدر حاجت لے سکتا ہے۔ حضرت عثمان (رض) غنی خلیفہ ثالث اسی آیت کے تحت حکومت کے خزانے سے کوئی تنخواہ نہیں لیتے تھے۔ دوسرے خلفاء راشدین بھی بس اتنی ہی رقم لیتے تھے جس سے ان کا گزارہ ہوجائے۔ اس جگہ ایک بات کا اور لحاظ رکھا جائے کہ ان آیات میں نابالغ بچوں کیلئے فرمایا جا رہا ہے پوری ملت اور اس کے ہر فرد کیلئے نہیں فرمایا گیا ہے۔ میری مراد یہ ہے کہ بعض لوگوں نے اس آیت کو دلیل بنا کر یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ مال و دولت بہت اہم ہے اس کو نادان اور ان پڑھ قوم کے لئے کھلا نہیں چھوڑا جاسکتا لہٰذا اگر ساری قوم کا مال و دولت حکومت لے کر سب کو روٹی کپڑا مکان انصاف کے ساتھ دے تو یہ بہتر ہے اور دلیل میں اس آیت کو پیش کرتے ہیں میں ایسے نادانوں سے یہی کہوں گا کہ کمیونسٹ نظریات کو (جو نظام تقریباً فیل ہوچکا ہے) اس کو اپنانے کیلئے خواہ مخواہ کی تاویلیں کرکے قرآن کریم کے ابدی اصولوں کو وقتی نطریات کی بھینٹ چڑھانا جائز نہیں ہے۔ اور ہمیں ان نطریات سے مرعوب ہوکر قرآن و سنت کو اس رنگ میں ڈھالنا کائنات کی سب سے بڑی بےوقوفی ہے۔ اس آیت میں نابالغ نادان بچوں کیلئے فرمایا جا رہا ہے کہ بالغ ہونے کے بعد فوراً ہی مال ان کے حوالے نہ کیا جائے جب ان میں معاملہ فہمی پیدا ہوجائے تو پھر حق دار کو اس کا حق دے دیا جائے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی ان کی تسلی کرتے ہو کہ مال تمہارا ہے تمہاری خیرخواہی کی وجہ سے ابھی تمہارے ہاتھ میں نہیں دیا ذرا سمجھ جاو گے تو تم ہی کو دے دیا جائے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سابقہ فرامین میں یتامیٰ اور عورتوں کے مالی حقوق کی ادائیگی کا حکم تھا۔ اب فرمایا کہ یتیموں کو ان کا مال واپس لوٹاتے ہوئے اچھی طرح اندازہ کرلو کہ کہیں وہ ناتجربہ کاری یا صغر سنی کی وجہ سے اپنا مال ضائع نہ کربیٹھیں۔ قرآن مجید نے دوسری آزمائشوں کے ساتھ مال کو بھی آدمی کے لیے ایک...  بڑی آزمائش اور فتنہ قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی رزق حلال کو اللہ تعالیٰ کا فضل ‘ نعمت ‘ زندگی کا لازمہ اور اسے تقویت کا باعث ٹھہرایا ہے۔ یتیموں کے لیے بالخصوص مال سہارا اور تقویت کا باعث ہوتا ہے کیونکہ عام طور پر ان کا کمانے والا کوئی نہیں ہوتا بلکہ ان کی جائیداد کا بھی کوئی دوسرا نگران ہوتا ہے۔ یہاں یتیموں کے سر پرست کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ان کے مال کو اپنا تصور کرتے ہوئے اس کی حفاظت اور نگرانی کرے اور جب تک یتیم میں فہم و شعور اور مال سنبھالنے کی صلاحیت پیدا نہ ہو۔ اس وقت تک ان کا سرپرست ان کے مال سے ان کے کھانے پینے اور پہننے کا انتظام کرتا رہے۔ ان کی طرف سے اگر کوئی مطالبہ یا غلط فہمی پیدا ہو تو نہایت محبت اور پیار کے ساتھ ان کو بہلاتا اور سمجھاتا رہے۔ یہاں تک کہ یتیم اپنا مال سنبھالنے کے قابل ہوجائے۔ یتیموں کے لیے ناسمجھ کا لفظ دو وجہ سے استعمال ہوا ہے۔ ایک تو یہ مال کی حفاظت اور اس کو استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ نو عمر اور یتیم ہونے کی وجہ سے یہ لوگوں کے پروپیگنڈہ کا شکار ہو کر اپنے سر پرست اور خیر خواہ سے اکثر بدظن ہو کر مال واپس لے کر اسے ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (أَلَا مَنْ وَلِيَ یَتِیْمًا لَہٗ مَالٌ فَلْیَتَّجِرْ فِیْہِ وَلَا یَتْرُکْہٗ حَتّٰی تَأْکُلَہٗ الصَّدَقَۃُ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزکاۃ، باب ماجاء فی الزکاۃ من مال الیتیم ] ” خبردار ! جو کسی یتیم کا سرپرست بنے اور یتیم کے پاس مال ہو تو وہ اس کے مال کو کاروبار میں لگائے۔ کہیں آہستہ آہستہ زکوٰۃ سے اس کا مال ختم نہ ہوجائے۔ “ یتیموں کے مال کی حفاظت کے پیش نظر یہ اصول بھی قائم فرمایا کہ جب تک وہ بالغ نہ ہوجائیں اور ان میں مالی معاملات سمجھنے کی کچھ نہ کچھ صلاحیت پیدا نہ ہوجائے۔ ان کا مال اس وقت تک نہیں لوٹانا چاہیے جب وہ شعور کو پہنچ جائیں تو انہیں ان کا مال لوٹاتے ہوئے اس پر گواہ بنالینے چاہییں تاکہ جس آدمی نے سر پرستی کی صورت میں ان کی خدمت کی ہے وہ ہر قسم کے الزامات سے محفوظ رہ سکے۔ سر پرست کو یہ حکم بھی دیا کہ اگر وہ امیر ہے تو یتیموں کے مال کی نگرانی اور سرپرستی کے عوض ان کے مال سے کچھ نہ لے اور اگر اس کی اپنی گزران تنگ ہے تو مناسب طریقے سے اس میں سے کھا سکتا ہے۔ یتیم اور ان کے سرپرست کو ہر دم خیال رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے حساب و کتاب کو خوب جانتا ہے اور اس کے ہاں تمام معاملات لکھے اور پیش کیے جاتے ہیں اور قیامت کے دن پائی پائی کا حساب لے گا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے مال کو لوگوں کے لیے استحکام کا ذریعہ بنایا ہے۔ ٢۔ یتیموں سے نرم لہجے میں پیش آنا چاہیے۔ ٣۔ یتیموں کا مال کھانا منع ہے۔ ٤۔ یتیموں کو آزمانے اور ان میں سمجھداری دیکھنے کے بعد ان کا مال ان کے سپرد کرنا چاہیے۔ ٥۔ یتیموں کا کفیل مالدار ہو تو اسے ان کے مال سے کچھ نہیں لینا چاہیے۔ ٦۔ یتیموں کا کفیل تنگ دست ہو تو معروف طریقے سے ان کے مال میں سے کھا سکتا ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کا حساب لینے کے لیے کافی ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” ولا توتوا السفہآء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیما وارزقوھم فیھا واکسوھم وقولوا لھم قولا معروفا “۔ (٥) نادانی اور دانائی کا پتہ بلوغ کے بعد چل جاتا ہے ۔ بالعموم نادان اور دانا کے درمیان ہو ہی جاتی ہے ۔ اس لئے اس بات کی ضرورت نہیں ہوتی کہ قانون کے اندر اس کیلئے کوئی فارمولا وضع کردیا جائے ، ہر...  خاندان اس بات کی تمیز اچھی طرح کرلیتا ہے کہ اس کے اندر نادان کون ہے اور دانا کون ہے ۔ اسے اچھی طرح تجربہ ہوتا ہے کہ یہ راشد ہے اور یہ سفیہ ہے نیز سوسائٹی سے بھی کسی شخص کے معاملات اور تصرفات پوشیدہ نہیں ہوتے ۔ لہذا جانچ پڑتال اس بات کی ہوگی کہ یتیم بالغ ہوگیا ہے یا نہیں ۔ یہاں آیت میں اس بلوغ کی تعبیر لفظ نکاح سے کی گئی ہے کیونکہ بلوغ میں سے نکاح ایک اہم اثر ہوتا ہے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7 چوتھا حکم رعیت۔ (سن رشد سے پہلے یتیموں کو ان کا مال نہ دو ۔ جب دو اس پر گواہ بنا لو) ۔ یہ حکم یتیموں کا مال ان کے حوالے کرنے سے متعلق ہے۔ یعنی جب تک یتیم کم عقل اور نابالغ ہوں اس وقت تک ان کے اموال ان کے حوالے نہ کرو۔ البتہ ان کی خوراک و پوشاک وغیرہ کے اخراجات انہی کے مال سے اٹھاؤ اور یتیموں سے کہ... ہ دو کہ تمہارا مال ہمارے پاس محفوظ ہے ہم اس کے امین اور محافظ ہیں۔ جب تم بالغ ہوجاؤ گے اور اپنے نفع اور نقصان کو سمجھنے لگو گے تو تمہارا مال تمہارے حوالے کردیا جائیگا۔ اور جب یتامی سنِ رشد کو پہنچ جائیں اور تم ان کے اموال ان کے سپرد کرنے لگو تو اصولی طور پر گواہ بنا لو تاکہ تم پر تہمت خیانت کا شبہ باقی نہ رہے اور ان کو اطمینان ہوجائے کہ تم نے ان کا مال ضائع نہیں کیا۔ اِسْرَافاً وَّ بِدَاراً دونوں مصدر ہیں بمعنی اسم فاعل اور لَا تَاکُلُوْا کی ضمیر سے حال ہیں اَیْ لَاتَاکُلُوْھَا مُسْرِفِیْنَ وَ مُبَادِرِیْنَ (روح ج 4 ص 207، مدارک ج 1 ص 162) اور اَنْ یَّکْبَرُوْا سے پہلے مِنْ مقدر ہے۔ یعنی یتیموں کا مال اس طرح مت کھاؤ کہ اسراف سے کام لو اور ان کا سارا مال ہضم کرنے کی غرض سے جلدی جلدی اسے ختم کر ڈالو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بڑے ہو کر سن رشد کو پہنچ جائیں اور تمہیں ان کا مال ان کے حوالے کرنا پڑے۔ اس کے بعد جائز طریقہ سے مال یتیم سے فائدہ اٹھانے کی اجازت فرمادی۔ وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ ۔ یعنی اگر یتیم کا ولی مالدار ہو تو وہ یتیم کے مال سے بالکلیہ اجتناب کرے نہ اس میں قرض لے اور نہ اس میں تجارت کرے۔ وَمَنْ کَانَ فَقِیْراً فَلْیَاکُلْ بِالْمَعْرُوْف۔ اور اگر تنگ دست ہو تو اسے اجازت ہے کہ جائز طریقہ سے انتفاع کرے۔ مثلاً اس میں سے قرض لے اور بوقت فراخی ادا کردے۔ یا مال یتیم میں تجارت کرے اور منافع سے جائز حصہ وصول کرے۔ یا اس کے مال کی حفاظت و اصلاح کی اجرت لے۔ والمعروف القرض ای یستقرض مال الْیتیم اذا احتاج الیہ فاذا ایسر قضاہ وقال قوم المعروف ان یاخذ من مالہ بقدر قیامہ واجرۃ عملہ (خازن ج 1 ص 403) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور اے سرپرستو ! تم اپنے وہ مال جن مالوں کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری معیشت اور گندن کا سبب بنایا ہے اور تم سب کے لئے اس کو سرمایہ زندگی کیا ہے ان اموال کو ناسمجھ اور کم عقلوں کے سپرد نہ کرو وہاں ان کو ان اعمال میں سے کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان کو معقول و بھلی بات کہتے رہو۔ مطلب یہ ہے کہ وہ یتیم ج... و تمہاری زیر نگرانی ہیں اور جن کے مال تمہاری حفاظت میں ہیں اور حفاظت کی غرض سے وہ مال تمہارے سپرد کئے گئے ہیں اور چونکہ یہ مال ایسی چیز ہے کہ تم سب کی زندگی کا سرمایہ اور سہارا ہے اس لئے یتیم جب بالغ ہوجائیں تو ذرا دیکھ بھال کر یہ مال ان کے سپرد کیا کرو ناسمجھ اور کم عقلوں کو نہ پکڑا دیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی کم عقلی کے باعث مال کو برباد کر ڈالیں۔ اور اس کو اڑا ڈالیں۔ ہاں ان پر خرچ کرتے رہو اور ان سے معقول بات کہتے رہو مثلاً یوں کہو کہ یہ مال تمہارا ہی ہے ہم تو محض نگراں ہیں تم ہی کو دیدیں گے۔ تمہاری خیر خواہی اور بھلائی مدنظر ہے اس لئے تم کو ابھی نہیں دیتے۔ جب تم کو خرچ کرنے کا ڈھنگ اور سلیقہ آجائے گا تو تمہارے حوالے کردیں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی لڑکا بےعقل ہے اس کا مال اس کے ہاتھ نہ دو اس کا خرچ اس میں چلائو جب بالغ ہو اور عقل پیدا کرلے تب مال حوالے کرو لیکن بات معقول کہو یعنی تسلی کرلو کہ مال تیرا ہے ہمارا نہیں ہم تیری خیر خواہی کرتے ہیں۔ (موضح القرآن) خلاصہ یہ ہے۔ (1) اگرچہ آیت عام ہے اور اسی لئے عبداللہ بن عباس نے تیرے بیٹے اور تیری عورتیں کیا ہے اور عبداللہ بن مسعود (رض) کی بھی یہی رائے ہے کہ ناسمجھ عورتوں اور لڑکوں کو مال حوالے نہ کرو۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کا قول ہے کہ سفہا سے مراد خادم ہیں۔ سفیہہ اگر بالغ بھی ہو تو مال اس کے سپرد نہ کیا جائے۔ ابن کثیر نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سفہا کو تصرف سے روکا ہے اس کو شریعت میں حجر کہتے ہیں یعنی کسی کو تصرف علی المال سے روک دینا خواہ یہ روکنا لڑکپن کی وجہ سے ہو یا جنون کی وجہ سے ہو یا کم عقلی کے باعث ہو۔ غرض ان مسائل کی تفصیل دیکھنی ہو تو کتب فقہ میں کتاب الحجر کا مطالعہ کریں۔ یہ شریعت کا ایک مستقل قانون ہے کہ حاکم مال کی حفاظت کرے اور بدسلیقہ لوگوں کی آمدنی اور خرچ پر کنٹرول کرے تاکہ نااہل لوگ دولت کو برباد نہ کریں اور کنگال نہ بن جائیں۔ (2) حضرت سعید بن جبیر اور دیگر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس آیت سے یتامیٰ مراد ہیں نابالغی کی حالت میں تو ان کا مال ان کے حوالے کیا ہی نہیں جاسکتا لیکن اس آیت میں قرآن کریم کا منشا یہ ہے کہ اگر ان میں خریدوفروخت کا سلیقہ نہ ہو اور طبیعت میں لاابالی پن ہو تو بالغ ہوتے ہی ان کے مال ان کے حوالے نہ کردو بلکہ چندے ٹھہرو اور ذرا توقف کرو اور جب ان میں مال رکھنے کی سمجھ آجائے تب ان کے اموال ان کے سپرد کردو۔ ہم نے تیسیر اور ترجمہ میں اسی قول کو اختیار کیا ہے اور آگے خود قرآن میں اس کی تصریح آتی ہے۔ (3) چونکہ یتامیٰ کے مال ان لوگوں کی نگرانی میں ہوتے ہیں اس مناسبت سے اموالکم فرمادیا ورنہ حقیقت میں وہ مال ان ہی یتیموں کے ہیں اور سرپرست محض اموال کے نگراں ہیں۔ (4) جعل اللہ لکم قیاما میں ایک بہت بڑے مسئلے کی طرف اشارہ فرمایا اور مال کی اہمیت اور اس کی قدر ظاہر کی اور مبذرین و مفسرین کو تنبیہہ فرمائی کہ مال کو تو اللہ تعالیٰ نے سرمایۂ حیات بنایا ہے اور اس کو بیوقوفوں اور کم عقلوں کے ہاتھ دیکر تباہ و برباد نہ کرو بلکہ پیسے کو پیسے کی طرح خرچ کرنی کی جب تمیز آجائے جب ان کے حوالے کرو۔ (5) ہم نے جو سلیقہ اور تمیز کہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو خریدو فروخت اور لین دین کا سلیقہ ہی نہ ہو یا سلیقہ ہو مگر بےپروائی سے استعمال نہ کرتاہو۔ (6) حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک اگر یتیم بالغ ہوجائے اور اس میں سفاہت ہو تو اس کے مال کو ولی پچیس سال کی عمر ہونے تک روک سکتا ہے اگر پچیس 52 سال کی عمر ہونے پر بھی اس کی سفاہت و کم عقلی دور نہ ہو تو اس کا مال اس کے حوالے کردیں۔ (7) سفاہت و جنون و پاگل پن میں فرق ہے اگر کوئی مجنوں یا پاگل یا نیم پاگل ہے تو اس کا مال پچیس سال کے بعد بھی اس کے حوالے نہ کیا جائے گا بلکہ جب تک اس کا دماغ صحیح نہ ہوجائے اس کو تصرف کا حق نہ ہوگا۔ اب آگے اسی مسئلہ کی مزید تفصیل مذکور ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)  Show more