Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 51

سورة النساء

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡجِبۡتِ وَ الطَّاغُوۡتِ وَ یَقُوۡلُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ہٰۤؤُلَآءِ اَہۡدٰی مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا سَبِیۡلًا ﴿۵۱﴾

Have you not seen those who were given a portion of the Scripture, who believe in superstition and false objects of worship and say about the disbelievers, "These are better guided than the believers as to the way"?

کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصّہ مِلا ہے؟ جو بُت کا اور باطل معبود کا اعتقاد رکھتے ہیں اور کافروں کے حق میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں سے زیادہ راہ راست پر ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُواْ نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُوْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ ... Have you not seen those who were given a portion of the Scripture! They believe in Jibt and Taghut. Muhammad bin Ishaq said from Hassan bin Fa'id that Umar bin Al-Khattab said, "Jibt is sorcery and Taghut is the Shaytan." Abu Nasr Ismail bin Hamma... d Al-Jawhari, the renowned scholar, said in his book As-Sihah, "Al-Jibt means idol, soothsayer and sorcerer." Ibn Abi Hatim recorded that; Jabir bin Abdullah was asked about Taghut, and he said, "They are soothsayers upon whom the devils descend." Mujahid said "Taghut is a devil in the shape of man, and they refer to him for judgment." Imam Malik said, "Taghut is every object that is worshipped instead of Allah, the Exalted and Most Honored." Disbelievers Are not Better Guided Than Believers Allah said, ... وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ هَوُلاء أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ امَنُواْ سَبِيلً and say to those who disbelieve, "These people are better guided on the way," than the believers. preferring the disbelievers over Muslims, because of their ignorance, un-religious nature and disbelief in Allah's Book which is before them. Ibn Abi Hatim recorded that Ikrimah said, "Huyay bin Akhtab and Ka`b bin Al-Ashraf (two Jewish leaders) came to the people of Makkah, who said to them, `You (Jews) are people of the Book and knowledge, so judge us and Muhammad.' They said, `Describe yourselves and describe Muhammad.' They said, `We keep relation with kith and kin, slaughter camels (for the poor), release the indebted and provide water for the pilgrims. As for Muhammad he is without male children, he severed our relations, and the thieves who rob pilgrims (the tribe of) Ghifar follow him. So who is better, we or him?' They said, `You are more righteous and better guided.' Thereafter, Allah sent down, لَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُواْ نَصِيبًا (Have you not seen those who were given a portion)." This story was also reported from Ibn Abbas and several others among the Salaf. Allah's Curse on the Jews Allah said, أُوْلَـيِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللّهُ وَمَن يَلْعَنِ اللّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا   Show more

منہ پر تعریف و توصیف کی ممانعت یہودونصاری کا قول تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اولاد اور اس کہ چہیتے ہیں اور کہتے تھے کہ جنت میں صرف یہود جائیں گے یا نصرانی ان کے اس قول کی تردید میں یہ ( آیت الم تر الخ ، ) نازل ہوئی اور یہ قول حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کے خیال کے مطابق اس آیت کا شان نزول ہی ہے ک... ہ یہ لوگ اپنے بچوں کو امام بناتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بےگناہ ہے ، یہ بھی مروی ہے کہ ان کا خیال تھا کہ ہمارے جو بچے فوت ہوگئے ہیں وہ ہمارے لئے قربت الہ کا ذریعہ ہیں ہمارے سفارشی ہیں اور ہمیں وہ بچالیں گے پس یہ آیت اتری ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہودیوں کا اپنے بچوں کا آگے کرنے کا واقعہ بیان کر کے فرماتے ہیں وہ جھوٹے ہیں اللہ تعالیٰ کسی گنہگار کو بےگناہ کی وجہ سے چھوڑ نہیں دیتا ، یہ کہتے تھے کہ جیسے ہمارے بچے بےخطا ہیں ایسے ہیں ہم بھی بےگناہ ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت دوسروں کو بڑھی چڑھی مدح و ثنا بیان کرنے کے رد میں اتری ہے ، صحیح مسلم شریف میں ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم مدح کرنے والوں کے منہ مٹی سے بھر دیں ، بخاری و مسلم میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک شخص کو دوسرے کی مدح و ستائش کرتے ہوئے سن کر فرمایا افسوس تو نے اپنے ساتھی کی گردن توڑ دی پھر فرمایا اگر تم میں سے کسی کو ایسی ہی ضرورت کی وجہ سے کسی کی تعریف کرنی بھی ہو تو یوں کہے کہ فلاں شخص کے بارے میں میری رائے یہ ہے اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل یہی ہے کہ کسی کی منہ پر تعریف نہ کی جائے ۔ مسند احمد میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ جو کہے میں مومن ہوں وہ کافر ہے اور جو کہے کہ میں عالم ہوں وہ جاہل ہے اور جو کہے میں جنتی ہوں جہنمی ہے ، ابن مردویہ میں آپ کے فرمان میں یہ بھی مروی ہے کہ مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف اس بات کا ہے کہ کوئی شخص خود پسندی کرنے لگے اور اپنی سمجھ پر آپ فخر کرنے بیٹھ جائے ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی کم حدیث بیان فرماتے اور بہت کم جمعے ایسے ہوں گے جن میں آپ نے یہ چند حدیثیں نہ سنائی ہوں کہ جس کے ساتھ اللہ کا ارادہ بھلائی کا ہوتا ہے اسے اپنے دین کی سمجھ عطافرماتا ہے اور یہ مال میٹھا اور سبز رنگ ہے جو اسے اس کے حق کے ساتھ لے گا اسے اس میں برکت دی جائے گی تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کی مدح و ستائش سے پرہیز کرو اس لئے کہ یہ دوسرے پر چھری پھیرنا ہے یہ پچھلا جملہ ان سے ابن ماجہ میں بھی مروی ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ انسان کے پاس ایک صبح کو اپنے دین میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا ( اس کی وجہ یہ ہوتی ہے ) کہ وہ صبح کسی سے اپنا کام نکالنے کے لئے ملا ، اس کی تعریف شروع کر دی اور اس کی مدح سرائی شروع کی اور قسمیں کھا کر کہنے لگا آپ ایسے ہیں اور ایسے ہیں حلانکہ نہ وہ اس کے نقصان کا مالک ہے نہ نفع اور بسا ممکن ہے کہ ان تعریفی کلمات اور اس کا تفصیلی بیان ( فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ ) 53 ۔ النجم:32 ) کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ پس یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ جسے چاہے پاک کر دے کیونکہ تمام چیزوں کی حقیقت اور اصلیت کا عالم وہی ہے ، پھر فرمایا کہ اللہ ایک دھاگے کے وزن کے برابر بھی کسی کی نیکی نہ چھوڑے گا ، فتیل کے معنی ہیں کھجور کی گٹھلی کے درمیان کا دھاگہ اور مروی ہے کہ وہ دھاگہ جسے کوئی اپنی انگلیوں سے بٹ لے ، پھر فرماتا ہے ان کی افترا پردازی تو دیکھو کہ کس طرح اللہ عزوجل کی اولاد اور اس کے محبوب بننے کے دعویدار ہیں؟ اور کیسی باتیں کر رہے ہیں کہ ہمیں تو صرف چند دن آگ میں رہنا ہوگا کس طرح اپنے بروں کے نیک اعمال پر اعتماد کیے بیٹھے ہیں؟ حالانکہ ایک کا عمل دوسرے کو کچھ نفع نہیں دے سکتا جیسے ارشاد ہے ( تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ ۚ وَلَا تُسْـــَٔــلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:134 ) یہ ایک گروہ ہے جو گزر چکا ان کے اعمال ان کے ساتھ اور تمہارے اعمال تمہارے ساتھ پھر فرماتا ہے ان کا یہ کھلا کذب و افترا ہی ان کے لئے کافی ہے جبت کے معنی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے جادو اور طاغوت کے معین شیطان کے مروی ہیں ، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جبت جبش کا لفظ ہے اس کے معنی شیطان کے ہیں ، شرک بت اور کاہن کے معنی بھی بتائے گئے ہیں بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد حی بن اخطب ہے ، بعض کہتے ہیں کعب بن اشرف ہے ، ایک حدیث میں ہے فال اور پرندوں کو ڈانٹنا یعنی ان کے نام یا ان کے اڑنے یا بولنے یا ان کے نام سے شگون لینا اور زمین پر لکیریں کھینچ کر معاملہ طے کرنا اور جبت ہے ، حسن کہتے ہیں جبت شیطان کی غنغناہٹ ہے ، طلاغوت کی نسبت سوال کیا گیا تو فرمایا کہ یہ کاہن لوگ ہیں جن کے پاس شیطان آتے تھے مجاہد فرماتے ہیں انسانی صورت کے یہ شیاطین ہیں جن کے پاس لوگ اپنے جھگڑے لے کر آتے ہیں اور انہیں حاکم مانتے ہیں حضرت امام مالک فرماتے ہیں اس سے مراد ہر چیز ہے جس کی عبادت اللہ کے سوا کی جائے پھر فرمایا کہ ان کی جہالت بےدینی اور خود اپنی کتاب کے ساتھ کفر کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کافروں کو مسلمانوں پر ترجیح اور افضلیت دیتے ہیں ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ حی بن اخطب اور کعب بن اشرف مکہ والوں کے پاس آئے تو اہل مکہ نے ان سے کہا تم اہل کتاب اور صاحب علم ہو بھلا بتاؤ تو تم بہتر ہیں یا محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) انہوں نے کہا تم کیا ہو؟ اور وہ کیا ہیں؟ تو اہل مکہ نے کہا ہم صلہ رحمی کرتے ہیں تیار اونٹنیاں ذبح کر کے دوسروں کو کھلاتے ہیں لسی پلاتے ہیں غلاموں کو آزاد کرتے ہیں حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صنبور ہیں ہمارے رشتے ناتے تڑوا دئیے ۔ ان کا ساتھ حاجیوں کے چوروں نے دیا جو قبیلہ غفار میں سے ہیں اب بتاؤ ہم اچھے یا وہ؟ تو ان دونوں نے کہا تم بہتر ہو اور تم زیادہ سیدھے راستے پر ہو اس پر یہ آیت اتری دوسری روایت میں ہے کہ انہی کے بارے میں ( آیت ان شانئک ھو الابتر ) اتری ہے ، بنو وائیل اور بنو نضیر کے چند سردار جب عرب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف آگ لگا رہے تھے اور جنگ عظیم کی تیاری میں تھے اس قوت جب یہ قریش کے پاس آئے تو قریشیوں نے انہیں عالم و درویش جان کر ان سے پوچھا کہ بتاؤ ہمارا دین اچھا ہے یا محمد کا ؟ تو ان لوگوں نے کہا تم اچھے دین والے اور ان سے زیادہ صحیح راستے پر ہو اس پر ہی آیت اتری اور خبر دی گئی کہ یہ لعنتی گروہ ہے اور ان کا ممد و معاون دنیا اور آخرت میں کوئی نہیں اس لئے کہ صرف کفار کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے بطور چاپلوسی اور خوشامد کے یہ کلمات اپنی معلومات کے خلاف کہہ رہے ہیں لیکن یاد رکھ لیں کہ یہ کامیاب نہیں ہو سکتے چنانچہ یہی ہوا زبردست لشکر لے کر سارے عرب کو اپنے ساتھ ملا کر تمام تر قوت و طاقت اکٹھی کر کے ان لوگوں کو مدینہ شریف پر چڑھائی کی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ کے اردگرد خندق کھودنی پڑی لیکن بالآخر دنیا نے دیکھ لیا ان کی ساری سازشیں ناکام ہوئیں یہ خائب و خاسر رہے ، نامراد و ناکام پلٹے ، دامن مراد خالی رہا بلکہ نامرادی مایوسی اور نقصان عظیم کے ساتھ لوٹنا پڑا ۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی مدد آپ کی اور اپنی قوت و عزت سے ( کافروں کو ) اوندھے منہ گرا دیا ، فالحمد اللہ الکبیر المتعال   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 اس آیت میں یہودیوں کے ایک اور فعل پر تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اہل کتاب ہونے کے باوجود یہ (جبت) بت، کاہن یا ساحر (جھوٹے معبودوں) پر ایمان رکھتے اور کفار مکہ کو مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں جبت کے یہ سارے مزکورہ معنی کیے گئے ہیں ایک حدیث میں آتا ہے " ان العیافۃ والطرق والطیرۃ م... ن الجبت "' پرندے اڑا کر، خط کھینچ کر، بدفالی اور بد شگونی لینا ' یعنی یہ سب شیطانی کام ہیں اور یہود میں یہ چیزیں عام تھیں طاغوت کے ایک معنی شیطان بھی کئے گئے ہیں '، دراصل معبودان باطل کی پرستش، شیطان ہی کی پیروی ہے۔ اس لئے شیطان بھی یقینا طاغوت میں شامل ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٣] جبت اور طاغوت جبت دراصل اوہام و خرافات کے لیے ایک جامع لفظ ہے جس میں جادو، ٹونے، ٹوٹکے، جنتر منتر سیاروں کے انسانی زندگی پر اثرات، فال گیری، گنڈے، نقش اور تعویذ وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ اور طاغوت ہر وہ باطل قوت اور نظام ہے جس کی اطاعت کرنے پر لوگ مجبور ہوں اور اللہ کی اطاعت کے مقابلہ میں انہیں اس...  فرد، ادارہ یا حکومت کی اطاعت کرنے پر مجبور کیا جائے یا مجبور بنادیا جائے اور لوگ انہیں احکام الٰہیہ کے علی الرغم تسلیم کرلیں۔ یہ گاؤں کے چودھری بھی ہوسکتے ہیں، پیر و مشائخ بھی، سوشلزم یا جمہوریت کی طرح باطل نظام بھی۔ اور فرعون و نمرود کی طرح سرکش بادشاہ بھی۔ خ یہود کا مشرکوں کو مسلمانوں سے بہتر قرار دیا :۔ یعنی ان یہود و نصاریٰ کی اکثریت ایسی ہے جو اوہام و خرافات اور ٹونے ٹوٹکے کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور اللہ پر ایمان لانے کی بجائے طاغوت کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ اپنی ایسی گمراہ حالت کے باوجود دوسرے کافروں (مشرکین وغیرہ) سے یہ کہتے ہیں کہ ان ایمان لانے والوں (مسلمانوں) سے تو تم ہی اچھے ہو اور ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہو۔ یعنی خود تو سراسر ضلالت میں ڈوبے ہیں اور مشرکوں کو مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ مشرکین مکہ نے جب بھی مدینہ پر چڑھائی کی تو یہود ہمیشہ قولاً اور عملاً ان کا ساتھ دیتے رہے۔ ایسے ہی کسی موقع پر مشرکوں نے یہودیوں سے پوچھا کہ سچ بتانا کہ یہ مسلمان بہتر ہیں یا ہم ؟ اور ان سے پوچھا اس لیے گیا کہ عرب بھر میں یہود کی علمی ساکھ تھی۔ لیکن یہ بےایمان محض مشرکوں کو خوش کرنے کی خاطر ایسا جواب دے دیتے۔ حالانکہ حقیقت انہیں پوری طرح معلوم تھی کہ شرک اللہ کے ہاں ناقابل معافی جرم ہے اور مسلمان موحد ہونے کی بنا پر مشرکوں سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ ۔۔ : عمر فاروق (رض) نے فرمایا : ” جبت سے مراد جادو اور طاغوت سے مراد شیطان ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ (وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰي سَفَرٍ ) قبل : ٤٥٨٣، معلقًا ] جوہری نے الصحاح میں فرمایا : ” جبت “ کا لفظ بت، کاہن، جادوگ... ر اور اس قسم کی دوسری چیزوں پر استعمال ہوتا ہے۔ “ اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ ” پرندوں کو اڑا کر شگون لینا اور زمین پر لکیریں کھینچ کر فال گیری کرنا جبت میں شامل ہے۔ “ [ أبو داوٗد، الطب، باب فی الخط وزجر الطیر : ٣٩٠٧ ] اور طاغوت سے مراد شیطان ہے اور ہر وہ شخص جو گناہ کی دعوت دے اس پر یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ عرب میں بتوں کے ترجمان ہوتے تھے، جو ان کی زبان سے جھوٹ نقل کرتے اور لوگوں کو گمراہ کرتے، ان کو طاغوت کہا جاتا تھا۔ مزید دیکھیے البقرۃ (٢٥٢) 2 یہودیوں کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مخالفت ہوئی تو انھوں نے مشرکین مکہ سے رابطہ قائم کرلیا اور ان سے کہنے لگے کہ تمہارا دین مسلمانوں کے دین سے بہتر ہے۔ یہ سب کچھ اس حسد کی وجہ سے تھا کہ نبوت اور ریاست ہمارے سوا دوسروں کو کیوں مل گئی، اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ان کو الزام دیا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

A description of the evil traits of Jews has been appearing from the previous verse beginning with: أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يَشْتَرُ‌ونَ الضَّلَالَةَ. The present verses also deal with the same subject. 1. Jibt: Originally, the name of an idol which was also used later on for every false god as well as for sorcery. 2. Taghut: Literally signifies the arrogant....  It is ai. used for Satan, and for evil and falsehood. it variously. Sayyidna Ibn ` Abbas, Ibn Jubayr and Abu al-` Aliyah Commentary What is Jibt جِبت and Taghut طَاغوت ? Two words, &al-Jibt& and &al-Taghut have been mentioned in the present verse (51). What do they mean? Commentators have explained have said that &Jibt& comes from the Ethiopian language and refers to a magician while &Taghut& signifies a soothsayer. Sayyidna ` Umar says that &Jibt& means magic and &Taghut& means Satan. Sayyidna Malik ibn Anas (رض) is reported to have said that everything worshipped other than Allah is covered by the name &Taghut&. Imam al-Qurtubi (رح) says that the view of Sayyidna Malik 1bn Anas (رح) ، being more inclusive, is generally preferred because it also has its support from the Holy Qur&an where it is said: أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ (Worship Allah and avoid Taghut.) (16:36) But, really, there is no contradiction as such in these different views. They all can be implied in one or the other sense, as Jibt was essentially the name of an idol after all, but it was later on that it came to be applied to other things and beings worshipped other than Allah. (Ruh al-Ma’ ani) The present verses in the background of their revelation Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) narrates that two chiefs of the Jews, Huyayy ibn Akhtab and Ka&b ibn Ashraf came along with a group of theirs, after the battle of Uhud, to meet the Quraysh at Makkah. The Jewish Chief, Ka&b ibn Ashraf met Abu Sufyan and promised to collaborate with him in his fight against the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The people of Makkah told Ka&b ibn Ashraf that they were a people who cheated by making false promises. Then, they challenged them to pros¬trate before two particular idols (Jibt and Taghut) there, if they really meant what they had said. So, in order to assure the Quraysh, he did exactly that. After that, Ka&b told the Quraysh: &Let thirty people from among you and thirty people from among us come forward so that we declare our resolve before the Lord of the Ka&bah that all of us will jointly fight against Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The Quraysh liked this proposal from Ka&b and this was how they opened a united front against Muslims. After that, Abu Sufyan told Ka&b: You are learned people. You have the Book of Allah with you. But, we are totally ignorant. Now, you let us know what do you think about us - tell us if we are on the right path, or is it Muhammad? Ka&b asked: &What is your religion?& Abu Sufyan said: &We slaughter our camels for the Hajj. We offer their milk to pilgrims, and entertain guests. We maintain good relations with our kin. We make tawaf of the House of Allah and perform ` Umrah. Contrary to this, Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has abandoned his ancestral religion and he has cut himself off from his own people and, on top of that, he has challenged our ancestral religion by introducing a new religion of his own.& Hearing all this, Ka&b ibn Ashraf said: &You people are on the right path. Muhammad, (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has gone astray.& Thereupon, Allah Almighty revealed these verses and, thus, exposed their lying and deceit. (Ruh al-Ma’ ani) The blind pursuit of material gains sometimes makes man surrender religion and faith Ka&b ibn Ashraf was a distinguished scholar among the Jews. He believed in God and worshipped none but Him. However, when the ghost of overweening personal desires overpowered his mind and heart, he offered to join forces with the Quraysh against Muslims. As we already know, the Quraysh put forth the condition that he should prostrate before their idols. He swallowed this bitter pill to achieve his personal end. Here, we see that he squarely stooped to fulfill the condi¬tion imposed by the Quraysh, something, contrary to his religion, but he made no effort to stand by his religious beliefs and did not show the courage to part ways with them on so crucial an issue. The Holy Qur&an mentions a similar incident elsewhere concerning Bal&am ibn Ba’ ur. It says: وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ ﴿١٧٥﴾ (Recite to them the news of the one who was given Our signs, then he eased out from it and followed the Satan, and he was one of those who seduce people to err.) (7:175) Commentators say that Bal&am ibn Ba’ ur was a great scholar and a mendicant who wielded spiritual powers. But, when he launched his sinister plans against Sayyidna Musa (علیہ السلام) ، in an effort to achieve his personal desires, he was unable to achieve anything against him, but what did happen was that he himself ended up being accursed and went astray. This tells us that religious knowledge as culled from a book is not enough to guarantee the desired benefit. What is needed is action sought by the knowledge. This will not be possible unless one totally abstains from material greed and from the pursuit of carnal desires. Otherwise, man would not stay strong enough to resist against sacri¬ficing something so dear as his religion on the altar of his desires. In our own time, we have the kind of people who would abandon their trice creed just to achieve their material and political goals. Some of them would go for the extra effort to dress up their secular beliefs and views with the garb of Islam. Such people less care about the grave Covenant between God and man, nor do they worry much about what would happen to them in the Akhirah. All this happens when one abandons his true and right creed and starts following the signals of the Satan.  Show more

خلاصہ تفسیر (اے مخاطب) کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب (الہی یعنی توراة کے علم) کا ایک حصہ ملا ہے (پھر باوجود اس کے) وہ بت اور شیطان کو مانتے ہیں (کیونکہ مشرکین کا دین بت پرستی اور شیطان کی پیروی تھا جب ایسے دین کو اچھا بتلایا تو بت اور شیطان کی تصدیق لازم آئی) اور وہ لوگ (یعنی اہل کتا... ب) کفار (یعنی مشرکین) کی نسبت کہتے ہیں کہ یہ لوگ بہ نسبت ان مسلمانوں کے زیادہ راہ راستے پر ہیں (یہ تو انہوں نے صراحتہ ہی کہا تھا) یہ لوگ (جنہوں نے کفر کے طریقہ کو اسلامی طریقہ سے افضل بتلایا) وہ ہیں جن کو خد تعالیٰ نے ملعون بنایا ہے (اسی معلون ہونے کا تو اثر ہے کہ ایسے بےباک ہو کر کفریات بک رہے ہیں) اور اللہ تعالیٰ جس کو ملعون بنا دے اس کا (عذاب کے وقت) کوئی حامی نہ پاؤ گے (مطلب یہ ہے کہ اس پر ان کو آخرت میں یا دنیا میں بھی سخت سزا ہوگی، چناچہ دنیا میں بعضے قتل، بعضے قید، بعضے ذلیل رعایا ہوئے اور آخرت میں جو ہونے والا ہے وہی ہوگا۔ ) ربط آیات :۔ پچھلی آیت الم ترا الی الذین اوتوا نصیباً من الکتب یشرون الضللة الخ سے یہود کی قبائح اور بری خصلتوں کا ذکر چل رہا ہے، ان آیات کا تعلق بھی انہی کے ذکر قبائح سے ہے۔ معارف مسائل ” الجبت و الطاغوت “ سے کیا مراد ہے ؟:۔ اوپر کی آیت نمبر ١٥ میں دو لفظ ” الجبت “ اور ” الطاغوت “ کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان سے مراد کیا ہے ؟ مفسرین کے اس بارے میں متعدد اقوال ہیں، حضرت ابن عباس، ابن جبیر اور ابوالعالیہ (رض) فرماتے ہیں کہ ” جبت “ حبشی لغت ہیں ساحر کو کہتے ہیں اور ” طاغوت “ سے مراد کاہن ہے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ” جبت “ سے مراد سحر ہے اور ” طاغوت ‘ سے مراد شیطان ہے، مالک بن انس سے منقول ہے کہ اللہ کے سوا جن چیزوں کی عبادت کی جاتی ہے ان سب کو طاغوت کہا جاتا ہے۔ امام قرطبی فرماتے ہیں کہ مالک بن انس کا قول زیادہ پسندیدہ ہے، کیونکہ اس کا ثبوت قرآن سے بھی ہوتا ہے، ارشاد ہے، ان اعبدواللہ واجنبوا الطاغوت، لیکن ان متعدد اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہے، اس لئے سب ہی مراد لئے جاسکتے ہیں، اسطرح کہ اصل میں جبت تو بت ہی کا نام تھا، لیکن بعد میں اس کا استعمال اللہ کے سوا دوسری عبادت کی جانے والی چیزوں پر بھی ہونے لگا (روح المعانی) مذکورہ آیات کا شان نزول :۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ یہود کے سردار حیی بن اخطب اور کعب بن اشرف اپنی ایک جماعت کو جنگ احد کے بعد لے کر مکہ میں قریش کے ساتھ ملنے آئے، یہود کا سردار کعب بن اشرف، ابوسفیان کے پاس آیا اور اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ان کے ساتھ تعاون کرنے کا وعدہ کیا، اہل مکہ نے کعب بن اشرف سے کہا تم ایک دھوکہ دینے والی قوم ہو اگر تم واقعی اپنے قول میں سچے ہو تو ہمارے ان دو بتوں (جبت اور طاغوت) کے سامنے سجدہ کرو۔ چنانچہ اس نے قریش کو مطمئن کرنے کے لئے ایسا ہی کیا، اس کے بعد کعب نے قریش سے کہا کہ تیس آدمی تم میں سے اور تیس ہم میں سے سامنے آئیں، تاکہ رب کعبہ کے ساتھ اس چیز کا عہد کریں کہ ہم سب مل کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جنگ کریں گے۔ کعب کی اس تجویز کو قریش نے پسند کیا اور اس طرح سے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کردیا، اس کے بعد ابوسفیان نے کعب سے کہا کہ تم اہل علم ہو تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے، لیکن ہم بالکل جاہل ہیں، اس لئے آپ ہمارے متعلق بتائیں کہ ہم حق پر چلنے والے ہیں یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعب نے پوچھا کہ تمہارا دین کیا ہے ؟ ابوسفیان نے کہا ہم حج کے لئے اپنے اونٹوں کو ذبح کرتے ہیں اور ان کا دودھ پلاتے ہیں، مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں، اپنے خویش و اقرباء کے تعلقات کو قائم رکھتے ہیں اور بیت اللہ کا طواف اور عمرہ کرتے ہیں، اس کے برخلاف محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے آبائی دین کو چھوڑ دیا ہے، وہ اپنوں سے علیحدہ ہوچکا ہے، اور اس نے ہمارے قدیم دین کے خلاف اپنا ایک نیا دین پیش کیا ہے۔ ان باتوں کو سن کر کعب بن اشرف نے کہا کہ تم لوگ حق پر ہو، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (معاذ اللہ) گمراہ ہوچکا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیات نازل فرما کر ان کے دجل و فریب کی مذمت کی۔ روح المعانی) نفسانی خواہشات بعض اوقات آدمی کو دین ایمان سے محروم کردیتی ہیں :۔ کعب بن اشرف یہودیوں کا ایک ممتاز عالم تھا جو خدا پر بھی عقیدہ رکھتا تھا اور اسی کی عبادت کرتا تھا، لیکن جب اس کے دل و دماغ پر نفسانی خواہشات کا بھوت سوار ہوا تو اس نے مسلمانوں کے خلاف قریش سے الحاق کرنا چاہا، قریش مکہ نے اس کے ساتھ ملنے کی یہ شرط لگائی کہ وہ ہمارے بتوں کے سامنے سجدہ کرے، اس نے اس کو بھی گوارا کرلیا، جس کی تفصیل گزر چکی ہے، اس نے اپنے مذہب کے خلاف قریش کی شرط کی تو پورا کیا لیکن اپنے مذہبی عقائد کو قائم رکھنے کے لئے ان سے علیحدگی اختیار کرنا گوارا نہ کیا، قرآن عزیز نے ایک دوسرے مقام پر اسی قسم کا واقعہ بلعم باعورا کے بارے میں بیان کیا ہے، ارشاد ہے : واتل علیھم نبا الذین اتینہ ایتنا فانسلخ منھا فاتبعہ الشیطان فکان من الغوین مفسرین نے لکھا ہے کہ بلعم بن باعورا ایک جلیل القدر عالم اور صاحب تصرف درویش تھا، لیکن جب اس نے اپنی نسفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف ناپاک تدبیریں کرنی شرع کیں تھیں ان کا تو کچھ نہ بگاڑ سکا، لیکن خود مردود اور گمراہ ہوگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتاب کا محض علم کچھ نافع نہیں ہوسکتا کہ صحیح معنی میں اس کا اتباع نہ ہو اور محض دنیوی طمع اور سفلی خواہشات کی پیروی سے مکمل اجتناب نہ ہو، ورنہ آدمی اپنے مذہب جیسی عزیز چیز کو بھی اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھانے سے نہیں بچتا آج کل بھی بعض لوگ اس قسم کے ہیں جو مادی اور سیاسی اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے اپنے حق مسلک کو آسانی سے چھوڑ دیتے ہیں اور لا دینی عقائد و نظریات کو اسلام کا لباس پہنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں نہ ان کو خدا کے عہد و میثاق کی کچھ پرواہ ہوتی ہے اور نہ آخرت کا خوف یہ سب کچھ صحیح اور حق مسلک کو چھوڑ کر شیطان کے اشاروں پر چلنے سے ہوتا ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ وَيَقُوْلُوْنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ہٰٓؤُلَاۗءِ اَہْدٰى مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سَبِيْلًا۝ ٥١ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع...  في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ نَّصِيبُ : الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] ( ن ص ب ) نصیب و النصیب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء/ 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو جبت قال اللہ تعالی: يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] ، الجِبْتُ والجبس : الفسل الذي لا خير فيه، وقیل : التاء بدل من السین، تنبيها علی مبالغته في الفسولة، کقول الشاعر : عمرو بن يربوع شرار النّاس أي : خس اس الناس، ويقال لكلّ ما عبد من دون اللہ : جبت، وسمي الساحر والکاهن جبتا . ( ج ب ت ) الجبت جبت اور جبس اس دھوان کو کہتے ہیں جو کسی کام کا نہ ہو اور بعض نے کہا ہے کہ دراصل جبس کے سین کو تار سے تبدیل کرلیا گیا ہے ۔ تاکہ مبالغہ پر دلالت کرے شاعر نے کہا ہے ۔ ( رجز ) یعنی عمر وبن پر بوع تمام لوگوں سے ناکام ہے ۔ نیز ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا پر ستش کی جائے وہ جبت کہلاتی ہے اور ساحر کا ہن کو بھی جبت کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] کہ بےاصل باتوں اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ طَّاغُوتُ والطَّاغُوتُ عبارةٌ عن کلِّ متعدٍّ ، وكلِّ معبود من دون الله، ويستعمل في الواحد والجمع . قال تعالی: فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ [ البقرة/ 256] ، وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] ، أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ [ البقرة/ 257] ، يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء/ 60] ، فعبارة عن کلّ متعدّ ، ولما تقدّم سمّي السّاحر، والکاهن، والمارد من الجنّ ، والصارف عن طریق الخیر طاغوتا، ووزنه فيما قيل : فعلوت، نحو : جبروت وملکوت، وقیل : أصله : طَغَوُوتُ ، ولکن قلب لام الفعل نحو صاعقة وصاقعة، ثم قلب الواو ألفا لتحرّكه وانفتاح ما قبله . الطاغوت : سے مراد ہر وہ شخص ہے جو حدود شکن ہوا اور ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا پرستش کی جائے اسے طاغوت کہاجاتا ہے اور یہ واحد جمع دونوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ [ البقرة/ 256] جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے ۔ وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] اور جنہوں نے بتوں کی پوجا۔۔ اجتناب کیا ۔ أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ [ البقرة/ 257] ان کے دوست شیطان ہیں ۔ اور آیت کریمہ : يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء/ 60] اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لے جاکر فیصلہ کرائیں ۔ میں طاغوت سے حدود شکن مراد ہے اور نافرمانی میں حد سے تجاوز کی بنا پر ساحر، کا ہن ، سرکش جن اور ہر وہ چیز طریق حق سے پھیرنے والی ہوا سے طاغوت کہاجاتا ہے بعض کے نزدیکی فعلوت کے وزن پر ہے جیسے جبروت ومنکوت اور بعض کے نزدیک اس کی اصل طاغوت ہے ۔ پھر صاعقۃ اور صاقعۃ کی طرح پہلے لام کلمہ میں قلب کیا گیا اور پھر واؤ کے متحرک اور ماقبل کے مفتوح ہونے کہ وجہ سے الف سے تبدیل کیا گیا ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥١۔ ٥٢) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے مالک بن صیف اور اس کے ساتھیوں کو (جن کی تعداد تقریبا ستر ہے) نہیں دیکھا کہ یہ لوگ حی بن اخطب اور کعب بن اشرف کی باتوں کو مانتے ہیں اور اس بات کے دعویدار ہیں کہ کفار مکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیروکاروں کی نسبت کے زیادہ صحیح راستہ پر ہیں۔ (نعوذ...  باللہ) ان کی اس گستاخانہ روش کے سبب ان لوگوں پر جزیہ نافذ کردیا گیا اور جن پر اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں عذاب نازل فرمائے تو اللہ کے مقابلے میں ان کی عذاب الہی سے کون حفاظت کرسکتا ہے۔ شان نزول : (آیت) ” الم تر الی الذین اوتوا “۔ (الخ) احمد اور ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب کعب بن اشرف یہودی مکہ آیا تو قریش نے اس سے کہا کہ اس شخص کو نہیں دیکھا جو اپنی قوم میں نبوت کا دعوی کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ہم سے بہتر ہے حالانکہ ہم حجاج ہیں سدانیہ اور سقایہ والے ہیں۔ کعب بولا کہ نہیں وہ نہیں بلکہ تم لوگ بہتر ہو۔ چناچہ ان کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ ابن اسحاق (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ قریش کے پاس جن قبیلوں نے جماعتیں روانہ کیں وہ غطفان اور بنی قریظہ تھے ، ، چناچہ انہوں نے حیی بن اخطب، سلام بن ابی الحقیق، ابورافع اور ربیع بن ابو الحقیق اور ابو عمارہ کو روانہ کیا اور بنی نضیر نے اپنے خطیب جو زۃ بن قیس کو روانہ کیا جب یہ لوگ قریش کے پاس پہنچے تو وہ بولے کہ یہ یہود کے علماء ہیں پہلی کتابوں کے جاننے والے ہیں، ان سے اپنے دین کے بارے میں پوچھو کہ ہمارا دین بہتر ہے یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا، چناچہ قریش نے ان لوگوں سے دریافت کیا یہ کہنے لگے کہ تمہارا دین ان کے دین سے بہتر ہے اور تم ان سے اور ان کے متبعین سے زیادہ صحیح راستے پر قائم ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ ) (یُؤْمِنُوْنَ بالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ ) (وَیَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ہٰٓؤُلَآءِ اَہْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلاً ) یہود اپنی ضد اور ہٹ دھرمی میں اس حد تک پہنچ گئے تھے۔ انہیں خوب معلوم تھا کہ محمد رسول ... اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھی (رض) ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ میں ان سے مشابہ تھے ‘ پھر وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر بھی ایمان رکھتے تھے اور تورات کو اللہ کی کتاب مانتے تھے۔ لیکن اہل ایمان کے ساتھ ضدمّ ضدا اور عداوت میں وہ اس حد تک آگے بڑھے کہ مشرکین مکہ سے مل کر ان کے بتوں کی تعظیم کی اور کہا کہ یہ مشرک مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں اور ان کا دین مسلمانوں کے دین سے بہتر ہے   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

81. Jibt signifies 'a thing devoid of any true basis and bereft of all usefulness'. In Islamic terminology the various forms of sorcery, divination and soothsaying, in short all superstitions, are termed jibt. It is reported in a tradition that, 'to divine things from the cries of animals, or the traces of animals' paws, or the flight of birds, constitutes jibt. Thus, jibt may be roughly translate... d as 'superstition'. (See Abu Da'ud, Tibb', 23; Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 3, p. 477 and vol. 5, p. 60 - Ed.) 82. For explanation see Towards Understanding the Qur'an, vol. I, Surah 2, nn. 286 and 288. 83. The obstinacy of the Jewish religious scholars had, reached such a point that they brazenly declared the followers of Muhammad (peace be on him) to be in greater error than even the polytheists of Arabia. This was despite the fact that they knew that the Muslims stood for absolute monotheism while their opponents believed in that undisguised polytheism which has been so vehemently denounced throughout the Bible.  Show more

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :81 جِبْت کے اصل معنی بے حقیقت ، بے اصل اور بے فائدہ چیز کے ہیں ۔ اسلام کی زبان میں جادو ، کہانت ( جوتش ) ، فال گیری ، ٹونے ٹوٹکے ، شگون اور مہورت اور تمام دوسری وہمی و خیالی باتوں کو” جبت “ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے النیاقۃ والطرق والطیر من ال... جبت ۔ یعنی جانوروں کی آوازوں سے فال لینا ، زمین پر جانوروں کے نشانات قدم سے شگون نکالنا اور فال گیری کے دوسرے طریقے سب ”جِبت“ کا مفہوم وہی ہے جسے ہم اردو زبان میں اوہام کہتے ہیں اور جس کے لیے انگریزی میں ( Superstitions ) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :82 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ حاشیہ نمبر ۲۸٦ و ۲۸۸ ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :83 علماء یہود کی ہٹ دھرمی یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ان کو وہ مشرکین عرب کی بہ نسبت زیادہ گمراہ قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ان سے تو یہ مشرکین ہی زیادہ راہ راست پر ہیں ۔ حالانکہ وہ صریح طور پر دیکھ رہے تھے کہ ایک طرف خالص توحید ہے جس میں شرک کا شائبہ تک نہیں اور دوسری طرف صریح بت پرستی ہے جس کی مذمت سے ساری بائیبل بھری پڑی ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

37: یہ مدینہ منوّرہ میں آباد بعض یہودیوں کا تذکرہ ہے۔ آنحضرتﷺ نے ان سب کے ساتھ یہ معاہدہ کیا ہوا تھا کہ وہ اور مسلمان آپس میں امن کے ساتھ رہیں گے، اور ایک دوسرے کے خلاف کسی بیرونی دُشمن کی مدد بھی نہیں کریں گے، لیکن انہوں نے اس معاہدے کی بار بار خلاف ورزی کی، اور مسلمانوں کے دُشمن کفارِ مکہ کی حم... ایت اور درپردہ مدد کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کا ایک بڑا سردار کعب بن اشرف تھا۔ جنگِ اُحد کے بعد وہ ایک اور یہودی سردار حیی بن اخطب کے ساتھ مکہ مکرمہ کے کافروں کے پاس گیا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف تعاون کی پیشکش کی۔ کفار مکہ کے سردار ابو سفیان نے کہا کہ اگر واقعی اپنی پیشکش میں سچے ہو تو ہمارے دو بتوں کے سامنے سجدہ کرو، چنانچہ کعب بن اشرف نے ابوسفیان کا یہ مطالبہ بھی مان لیا، پھر ابوسفیان نے کعب سے پوچھا کہ ہمارا مذہب اچھا ہے یا مسلمانوں کا؟ تو اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ تمہارا مذہب مسلمانوں کے مذہب سے زیادہ بہتر ہے، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ مکہ کے یہ لوگ بت پرست ہیں اور کسی آسمانی کتاب پر اِیمان نہیں رکھتے، لہٰذا ان کے مذہب کو بہتر قرار دینے کا مطلب بت پرستی کی تصدیق کرنا تھا، اس آیت میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(51 ۔ 52) ۔ مسند امام احمد تفسیر ابن جریر ابن ابی حاتم وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) ‘ مجاہد ‘ عکرمہ ‘ اور قتادہ کی روایتوں سے جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جب یہود لوگ احزاب کی لڑائی کے لئے قریش کو رغبت دلانے کے لئے مکہ کو گئے اس وقت قریش نے حی بن اخطب اور ک... عب بن اشرف یہود کے سرداروں سے پوچھا کہ تم اہل کتاب ہو بھلا یہ تو بتاؤ کہ ہم لوگ حق پر ہیں یا محمد اور ان کے ساتھی حق پر ہیں اس وقت یہود کی یہ غرض قریش کے متعلق تھی کہ کسی طرح قریش کو بہکا کر جنگ احزاب پر لایا جائے اس لئے ان یہود کے سرداروں نے کہا کہ تمہارا دین اچھا ہے۔ اور تم حق پر ہو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ٣ اور فرمایا۔ ان لوگوں کی بےایمان دیکھنے کے قابل ہے کہ دنیا کی ایک غرض کے سبب سے انہوں نے اہل کتاب ہو کر شرک کو توحید سے اور مشرکوں کو موحدوں سے اچھا بتایا۔ ایسے بےایمانوں پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جس پر اللہ کی پھٹکار ہو اس کو دنیا اور آخرت میں اللہ کے عذاب سے کوئی بچا نہیں سکتا یہ جو فرمایا کہ اہل کتاب ہو کر مانتے ہیں بتوں کو اور شیطان کو “ اس شان نزول کی بعض روایتوں میں اس کا قصہ یوں ہے کہ جب ان یہود کے سرداروں نے قریش کو احزاب کی لڑائی کے لئے ابھارنا چاہا تو قریش نے کہا کہ تم اور محمد اہل کتاب اور دونوں ایک ہو اس لئے ہم کو تمہاری باتوں پر اس وقت تک بھروسہ نہیں ہے جب تک تم ہمارے بتوں کو سجدہ نہ کرو اس پر یہود کے دونوں سرداروں نے شیطان کے بہکانے سے اہل مکہ کے بتوں اپنی غرض کے لئے سجدہ بھی کیا ١ حیت کے معنی بتوں کے ہیں۔ اور طاغوت کے معنی شیطان کے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:51) جبت۔ بت۔ جادوگر شیطان ۔ جادو۔ جبت اور طاغوت سے ہر وہ جنس مراد ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا کی جاوے۔ خواہ وہ بت ہو یا آدمی ہو یا جن۔ یا شیطان طاغوت۔ شیطان ۔ حق سے روکنے والا۔ بت ۔ معبود باطل۔ سرکش۔ سخت۔ طاغی۔ طغی مادہ۔ طغی یطغی طغیانا۔ سرکشی کرنا۔ اطغاہ (افعال) اسے سرکشی طغیان پر اجارا۔ ان...  الانسان لیطغی۔ بیشک انسان سرکش ہوجاتا ہے ھولائ۔ مراد الذین کفروا۔ و۔ یقولون للذین کفروا۔ کافروں سے کہتے ہیں کہ انتم ھولاء اھدی ۔۔ سبیلا۔ تم ہی وہ لوگ ہو جو ایمان سے زیادہ راہ راست پر ہو (الخازن)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 الجبت بت کو کہتے ہیں اور جادوگر کاہن ٹونے ٹوٹکے اور اس قسم کی سب چیزیں الجبت میں داخل ہیں۔ حدیث میں ہے اطیر ۃ والعیافتہ والطرق من الجبت شگون لینا پرندوں کو اڑاکر اور زمین پر لکیریں کھینچ کر فال گری کرنا جنت میں شامل ہیں اور الطاغوت سے مراد شیطان ہے اور ہر وہ شخص معاصی کی دعوت دے اس پر یہ لفظ بول... ا جاتا ہے۔ عرب میں بتوں کے ترجمان ہوتے تھے جو ان کی زبان سے جھوٹ نقل کرتے اور لوگوں کو گمراہ کرتے ان کو طاغوت کہا جاتا تھا (کبیر)6 یہودیوں کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مخالفت ہوئی تو انہوں نے مشرکین مکہ سے رابطہ قائم کرلیا اور ان سے کہنے لگے کہ تمہارا دین مسلمانوں سے بہتر ہے۔ یہ سب کچھ اس حسد کی وجہ سے تھا کہ نبوت اور ریاست دینی ہمارے سوا دوسروں کو کیوں مل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ان کو الزام دیا۔ تفسیر معالم میں ہے کہ یہ یہود کعب بن اشرف تھے جو غزوہ احد کے بعد مکہ مکرمہ گئے اور مشرکین کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے ان کے بتوں کو بھی سجدہ کرگزرے۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 51 تا 52 ۔ الم تر الی الذین ۔۔۔۔ نصیرا۔ آپ ایسے لوگوں کو دیکھئے جنہیں کتاب الہی نصیب ہوئی کہ احقاق حق کی سب سے بڑی دلیل ہے اور اتنی بڑی نعمت ہے کہ انسان اس کی عظمت کا انداز تک نہیں کرسکتا جس کی خاطر انبیاء مبعوث کیے جاتے ہیں کہ کوئی غیر نبی کلام الہی کو وصول کرنے کی تاب ہی نہیں رکھتا جس کا کما... ل یہ ہے کہ وہ شخص جو اللہ تعالیٰ سے حاصل کرتا ہے معصوم عن الخطا ہوتا ہے کہ کلام الہی کے حصول کیلئے یہ تقدس شرط ہے پھر جو کوئی اس پر ایمان لاتا ہے فوراً کفر کی ساری ظلمت دور ہو کر اس کا سینہ منور ہوجاتا ہے اور قدم قدم پر اسے نہ صرف راہنمائی ملتی ہے بلکہ تائید باری بھی برابر حاصل ہوتی ہے مگر انانیت اور خود ستائی اتنا بڑا جرم ہے کہ یہ لوگ بتوں اور شیاطین کو اپنا معبود مان رہے ہیں اور نگاہ کی کجی ملاحظہ ہو کہ کہتے ہیں کفار مسلمانوں کی نسبت حق پر اور راہ راست پر ہیں یہاں مفسرین نے جو واقعہ نقل فرمایا ہے وہ بھی عبرت کا نمونہ ہے کہ فرماتے ہیں حی بن اخطب اور کعب بن اشرف وغیرہ سرداران یہود جنگ احد کے بعد مشرکین مکہ کے پاس آئے اور مسلمانوں کے خلاف آپس میں معاہدہ کرنا چاہا جس پر اہل مکہ نے کہا کہ یہود ایک دھوکہ دینے والی قوم ہے اس لیے اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہاں اگر ہمارے بتوں کے سامنے سجدہ کرکے وعدہ کرو تو البتہ قابل غور ہے یہود نے ایسا کر دکھایا پھر کعب بن اشرف نے جو بہت بڑا عالم بھی تھا تجویز پیش کی کہ تیس آدمی تمہارے ہوں اور تیس آدمی ہمارے اور بیت اللہ شریف کے سامنے مل کر عہد کریں کہ ہم مسلمانوں کے خلاف متحد ہو کر لڑیں گے قریش نے تجویز تو پسند کی مگر ابو سفیان نے کہا ایک بات ہے کہ تم کتاب کے عالم ہو اور ہم لوگ دین کے معاملہ میں علم نہیں رکھتے اس لیے پہلے یہ بتاؤ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق پر ہیں یا ہم مراد یہ تھی کہ اگر وہ حق پر ہیں تو پھر ان کے خلاف معاہدہ کیسا ہم قبول کریں یا نہ حق کے خلاف لڑنا تو معقول بات نہیں کعب نے پوچھا پنا دین بیان کرو انہوں نے وہ رسومات گنوا دیں جو مشرکین عرب میں دین کے نام پہ رائج تھیں اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے کہا کہ وہ ان کو چھوڑ چکے اور ایک نیا دین پیش کر رہے ہیں اس پر کعب نے کہا کہ تم حق پر ہو اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گمراہ ہوچکے ہیں۔ حالانکہ کعب بہت بڑا عالم اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک کا علم رکھنے والا پھر عقاید میں توحید و شرک ، دین اور رسومات کے فرق سے آگاہ تھا مگر اپنے آپ کو بڑا منوانے کے لیے کس قدر اندھا ہوگیا کہ باطل کو حق اور حق کو باطل قرار دے رہا ہے یہ دل و دماغ کی کجی اس لیے ہے کہ اللہ نے ایسے متکبر لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جو رحمت سے دوری اور محرومی ہے لہذا اس کے نتیجہ میں یہ لوگ گمراہ ہوئے جس کی بنیاد یہ تھی کہ اپنے آپ کو بڑا منوانے کی فکر و آرزو رکھتے تھے اور یاد رکھیں جس پر اللہ کی طرف سے لعنت ہو اس کو کوئی بھی مددگار نصیب نہیں ہوتا۔ اور کوئی مدد کرے گا بھی کیسے کہ جب رحمت باری ہی سے محروم ہوا تو مدد نصیب ہونا بھی تو اللہ ہی کی رحمت سے ہے اسباب تو محض پردہ ہوتے ہیں پس پردہ تو مسبب الاسباب ہی کی قدرت کاملہ کار فرما ہوتی ہے اس محرومی کے بھی مختلف درجے ہیں جس کا آخری درجہ تو کفر ہے مگر ابتدا کبائر سے یعنی بڑے بڑے گناہوں سے ہوتی ہے مثلاً ان عورتوں پر لعنت کی گئی جو مردوں کا لباس پہننا یا شکل بنانا شروع کردیتی ہیں ایسے ہی ان مردوں پر بھی جو عورتوں کی طرح نظر آنا چاہتے ہیں۔ بلکہ ایک روایت میں ایک عورت کے مردانہ جوتے پہننے پر بھی لعنت کی وعید ملتی ہے بھویں چننے والی عورتوں پر نظر بد ڈالنے الوں پر اور ایسی عورتوں پر جو لوگوں کی نظروں کی خواہش رکھتی ہوں یعنی بناؤ سنگھار کرکے بےپردہ پھرنے والی ہوں سود لینے اور دینے والے پر قوم لوط کا عمل کرنیوالے پر کتاب اللہ میں زیادتی کرنیوالے پر زبردستی اقتدار حاصل کرکے شرفا کو رسوا کرنے اور بدکاروں کو عزت دینے والے پر یا حرام کو حلال جاننے والے پر غرض حدیث شریف میں اس طرح سے بہت سے اعمال پر لعنت کی وعید ہے مراد ہے رحمت الہی سے محرومی جس سے فہم و نظر میں کجی پیدا ہوتی ہے اور اگر توبہ نصیب نہ ہو تو ایمان سلب ہوجانے کا خطرہ ہے جو ہمیشہ کی رسوائی اور سخت عذاب میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے اے اللہ تو ہمیں اس آفت سے محفوظ رکھ ۔ آمین ۔۔ ام لھم نصیب۔ کبر ایک ایسی مصیبت ہے اور اتنی بڑی خرابی ہے اگر اسے تمام برائیوں کی اصل جڑ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا اللہ کریم کی نافرمانی اور اپنی خواہش کی پیروی بھی اسی کا نتیجہ ہے جو کفر و شرک میں مبتلا کرنے کا باعث بنتی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ آدمی اپنی پارسائی کا راگ الاپنے لگتا ہے دوسروں تک نعمت کو پہنچنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے حتی کہ اگر ایسوں کے پاس سلطنت بھی ہو تو دوسروں کو ایک تنکا تک دینا گوارا نہیں کرتے جس کی مثال علمائے یہود ہیں کہ اگر ان کا بس چلے تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور مسلمانوں کو پانی کا گھونٹ بھی نہ دیں بلکہ اس سے بڑھ کر ایسا آدمی حسد میں مبتلا ہوجاتا ہے حسد کا معنی کسی زوال نعمت کی تمنا کرنے کا ہے اپنے پاس سے کچھ دینا تو دور کی بات ہے جو انعام اللہ کریم نے عطا فرمائے ہیں دینی ہوں یا دنیوی یہ ان کے بھی زوال کے متمنی ہیں۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی اولاد ابراہیم (علیہ السلام) میں دینی برکات کتاب و حکمت اور نبوت و رسالت کی صورت میں رہی ہیں جس پر یہود بھی ایمان لاتے رہے ہیں اور اب بھی ایماندار ہونے کے مدعی ہیں اور حکومت و ریاست کی شکل میں بھی یہ دولت آل ابراہیم میں رہی ہے حتی کہ بعض حضرات نبوت و حکومت دونوں طرح کے انعامات سے نوازے گئے اب اگر یہ دونوں انعامات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جمع ہوگئے ہیں تو انہیں انکار نہ کرنا چاہے مگر یہ کوئی ایسی تعجب انگیز بات بھی نہیں کہ انبیاء سابقہ کے ساتھ ان کے اجداد کا وطیرہ بھی تو یہی رہا ہے کہ کچھ ایمان لاتے تھے اور بعض انکار کردیتے تھے اور اپنے آپ کو دوزخ کا سزاوار بنا لیتے تھے کہ کفر کی سزا دوزخ ہی بس ہے جو سخت جلانے والی ہے زندگی میں بھی اس کی تپش چین حرام کیے رکھتی ہے اور بعد موت تو رہنا ہی اسی میں ہوگا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت سے ان کا انکار تو محض حسد پر مبنی ہے جس کا کسی صورت میں کوئی جواز نہیں اور حسد بجائے خود ایک عذاب ہے اس کی مثال آگ کی سی ہے جو ہمہ وقت حسد کرنے والے کو جلاتی رہتی ہے اور نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم پر حسد کرکے تو یہ کفر میں مبتلا ہوئے حسد یوں بھی حرام ہے اور مفضی الی الکفر (یعنی کفر کی طرف لے جانے والا) کہ اللہ جو نعمت چاہے جس کو چاہے عطا کرے ہاں کسی کمال پر رشک کرنا درست ہے یعنی جائز ذرائع سے اس کمال کو پانے کی کوشش بغیر اس خواہش کے کہ دوسرے شخص سے اس کے زوال کی تمنا ہو اور کافر تو عنقریب ایسی آگ میں داخل ہوں گے جو واقعی جسموں کو جلا دے گی مگر جل بھن کر ختم نہ ہوں گے کہ جیسے جیسے جسم جلتا چلا جائے گا قدرت باری سے نیا پیدا ہوتا جائے گا تاکہ مسلسل عذاب میں مبتلا رہیں اور اس کی شدت کو زیادہ سے زیادہ محسوس کرتے رہیں نیا پیدا ہونے والا گوشت یا جلد زیادہ حساس ہوتی ہے اللہ بہت بڑی طاقت والا اور ہر چیز پر غالب ہے یہ اس کی حکمت ہے کہ فرصت عمل دی مگر انسان نادانی کے باعث اللہ کے مقابلے میں اپنی بڑائی ثابت کرنے لگ گیا جس کے یہ سب نتائج بد سامنے آنے والے ہیں اور جو لوگ کبر سے بچے اپنے عجز اور اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اقرار کیا یعنی ایمان لائے اور اللہ کی اطاعت اختیار کی اطاعت ہی ایمان کی سب سے بڑی دلیل ہے اگر عمل ہی دعوے کے خلاف ہو تو اس پر کیا اعتبار۔ ایسے لوگ بہت جلدی ایک اعلی ترین زندگی کو پائیں گے جو انسان کی منزل ہے اور بہترین جگہ بہترین نعمتوں کے ساتھ ہے جس کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہاں کی نعمتوں کو زوال ہوگا اور نہ داخل ہونے والے انسان کو کبھی وہاں سے نکالے جانے کا خوف جو اس منزل پہ پہنچا وہاں ہمیشہ رہے گا اور ہر طرح کی نعمتیں روحانی ، مالی ، بدنی نصیب ہوں گی سدا بہار رہیں گی خزاں کا نام نہ ہوگا صحت بیماری سے آزاد ہوگی اور حیات کو موت کا کھٹکا نہ ہوگا وہاں عورتیں بھی ہر طرح کے چھوٹے بڑے عیب سے پاک ہوں گی نہ بدنوں میں نجاست ہوگی نہ دلوں میں نفرت اور نہ صورت میں کمی یعنی ہر طرح کی راحت ہوگی فکر نام کی شئے کا وہاں گذر نہیں۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 51-57 لغات القرآن : الجبت، بت، ساحر، دیوتا، اوھام۔ الطاغوت، شیطان (اور شیطانی قوتیں) ۔ اھدی، زیادہ ہدایت پر۔ لایؤتون، وہ نہیں دیں گے۔ نقیر، تل برابر، ذرہ برابر۔ یحسدون، وہ حسد کرتے ہیں، جلتے ہیں۔ صد، وہ رک گیا۔ نضجت، جل گئی (جل جائیں گی) ۔ جلود، کھالیں، (بدن کی کھال) ۔ لیذوقوا، تاکہ وہ چکھ... یں۔ ظلال ظلیلا، گھنا سایہ، گھنی چھاؤں۔ تشریح : یہود کے علماء کا ذکر ہے ۔ بیشک وہ الکتاب کا علم رکھتے تھے مگر مختصر، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ علم ایمان کی گارنٹی نہیں ہے یعنی ضروری نہیں ہے کہ عالم مومن بھی ہو۔ دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ دنیاوی علوم کے ماہر ہوتے ہیں مگر وہ عقیدہ کی بہت سی گندگیوں میں ملوث ہوتے ہیں ۔ اور شیطانوں کے راستے اختیار کئے ہوئے ہوتے ہیں اور دین کا بہت مختصر علم رکھتے ہیں۔ مختصر علم رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ یا تو ساری کتاب پر حاوی نہیں ہوتے۔ بس ادھر ادھر سے کچھ پڑھ پڑھا کر اپنا کلام چلا لیتے ہیں ۔ اس کے یہ بھی معنی ہو سکتے ہیں کہ وہ سطحی مطالعہ کرتے ہیں۔ حقیقت کی روح اور گہرائی تک نہیں پہنچتے۔ اس کے دو ثبوت دئیے گئے ہیں کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر جبت اور طاغوت کو مانتے ہیں۔ دوسرے یہ کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مومنوں کے مقابلے میں زیادہ صحیح راستے پر ہیں۔ جبت اور طاغوت کیا ہیں ؟ حضرت عمر (رض) کا قول ہے کہ جبت سے مراد سحر ہے اور طاغوت سے مراد شیطان۔ یعنی اللہ کے سوا جس کی بھی عبادت اور پرستش کی جائے اسے جبت یا طاغوت کہتے ہیں۔ جبت ایک بت تھا۔ آگے چل کر اس کے معنی غیر اللہ اور معبود کے ہوگئے۔ جبت اور طاغوت تقریبا ہم معنی الفاظ ہیں۔ جن لوگوں پر اللہ کی پھٹکار ہے ان میں وہ بھی شامل ہیں جو کم علمی بلکہ کم عقلی کی وجہ سے شرک کرتے ہیں اور شیطان کی پیروی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کفار زیادہ صحیح راستے پر ہیں۔ یہاں پر لعنت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس پر اللہ لعنت کر دے پھر اس کا کوئی مددگار نہیں۔ ملعونوں کے متعلق ایک جگہ قرآن میں فرمایا ہے کہ ” جن پر اللہ کی لعنت ہے وہ جہاں کہیں بھی ملیں ان کی گردن اڑا دی جائے “ ۔ یہود اسلام کے اتنے دشمن کیوں تھے ؟ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ وہ حسد کر رہے ہیں کیوں کہ نبوت اور سلطنت بنی اسمعیل کے حصہ میں آگئی ہے جب کہ ان کے گمان کے مطابق اسے بنی اسرائیل کے حصہ میں آنا چاہئے تھا۔ اس کا جواب صاف صاف یہ ہے کہ اللہ نے کتاب اور ملک عظیم تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بخشی تھی۔ اور اس کے بعد ان کی مومن اولاد کو۔ اب بنی اسمعیل نے ایمان کو قبول کرلیا ہے اور بنی اسرائیل کافر ہی رہ گئے۔ بنی اسرائیل کی کنجوسی کا حال یہ ہے کہ اگر اللہ صرف انہیں ہی مال و دولت اور سلطنت سے نوازتا تو دوسروں کو ایک پھوٹی کوڑی تک نہ دیتے۔ کافروں کو عذاب کی وعید دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آیت 56 میں نقشہ کھینچا ہے کہ جہنم میں کیا کچھ ہوگا۔ فرمایا ہے کہ جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی اور اس میں حس پیدا ہوجائے گی تو اس گلی ہوئی کھال کی جگہ تازہ کھال پہنا دی جائے گی تاکہ جلنے کا احساس قائم رہے حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ یہ کھال کی تبدیلی دن میں ستر ہزار بار ہوگی اور ہر دن ہوگی ہمیشہ ہمیشہ۔ آیت نمبر 57 میں جنت کی جھلک دکھائی گئی ہے ۔ یہ جنت ان ہی لوگوں کے لئے ہے جو ایمان بھی لائیں گے اور ایمان کی تصدیق میں عمل صالح بھی پیش کریں گے۔ ایسے لوگ ان باغوں میں داخل ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہاں وہ ابدالا باد تک یعنی ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے لئے وہ بیویاں ہوں گی جن کا ظاہر بھی پاک ہوگا اور باطن بھی۔ اور اس جنت میں بہترین درخت ہوں گے اور ان کی گھنی گھنی چھاؤں ہوگی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ کیونکہ مشرکین کا دین بت پرستی اور شیطان کی پیروی تھا جب ایسے دین کو اچھا بتلایاتو بت اور شیطان کی تصدیق صاف لازم آئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اہل کتاب کے کردار کی مزید تفصیل اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی بھی عبادت اور اطاعت کی جائے وہ طاغوت کی عبادت اور اطاعت ہوگی۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کو وقتی طور پر ہزیمت اٹھانی پڑی لیکن اس کے باوجود یہودی سمجھتے تھے کہ مسلمان دن بدن آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس کی روک تھام کے...  لیے مدینے کا ایک وفد کعب بن اشرف کی سر کردگی میں مکہ معظمہ پہنچا تاکہ کفار کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکا جاسکے۔ لیکن ابو سفیان اور اہل مکہ یہودیوں پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ جس کی وجہ سے انہوں نے یہ شرط پیش کی کہ جب تک تم ہمارے بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اکٹھے رہنے کا یقین نہیں دلاتے ہم آپ پر اعتماد نہیں کرسکتے۔ یہودی مشرک ہونے کے باوجود بتوں کی پوجا سے نفرت کرتے تھے بالخصوص کعب بن اشرف بتوں کو سجدہ کرنے کا سخت مخالف تھا لیکن اہل مکہ کو اعتماد دلانے کے لیے اس نے بتوں کے سامنے سجدہ کیا۔ اس موقعہ پر ابو سفیان نے کعب سے پوچھا کہ ہم تو اتنا علم نہیں رکھتے آپ بتائیں کہ ہم راہ راست پر ہیں یا محمد ؟ کعب بن اشرف اور اس کے وفد نے کہا کہ تم زیادہ ہدایت یافتہ ہو جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ تم نے ان لوگوں کے کردار پر غور نہیں کیا جو اہل کتاب ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود بتوں اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں۔ حسد و بغض میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ مسلمانوں کے مقابلے میں اہل کفر کو یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ تم مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہو۔ باطل عقائد رکھنے والوں کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ جس کی مثال آج بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ یہودی اور عیسائی اہل کتاب ہونے کے باوجود باطل مذاہب کے اس قدر دشمن نہیں ہیں جس طرح مسلمانوں کے دشمن ہیں یہی حالت مسلمانوں کے اندر باطل عقائد رکھنے والوں کی ہے۔ وہ اہل توحید اور سنت پر عمل کرنے والوں کی زیادہ مخالفت کرتے ہیں۔ طاغوت کی پوجا کرنے کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ مشرک اور کافر جس طرح چاہیں آپس میں گٹھ جوڑ کرلیں اللہ تعالیٰ کے بغیر ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ یہی کچھ ہوا کہ ٹھیک دو سال کے بعد غزوۂ خندق سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں کو ہمیشہ کے لیے جزیرۂ عرب سے نکال دیا۔ (١) (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ دَخَلَ النَّبِيُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَکَّۃَ وَحَوْلَ الْکَعْبَۃِ ثَلَاث ماءَۃٍ وَّسِتُّوْنَ نُصُبًا فَجَعَلَ یَطْعَنُھَا بِعُوْدٍ فِيْ یَدِہٖ وَجَعَلَ یَقُوْلُ (جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ ) الآیۃ) [ رواہ البخاری : کتاب المظالم والغصب، باب ھل تکسر الدنان التی فیھا الخمر ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے اور کعبے کے ارد گرد تین سو ساٹھ بت تھے آپ انہیں اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی سے گراتے اور کہتے : (حق آچکا اور باطل بھاگ گیا) ۔ “ (٢) (عَنْ أَبِی الْہَیَّاجِ الأَسَدِیِّ قَالَ قَالَ لِی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ (رض) أَلاَّ أَبْعَثُکَ عَلَی مَا بَعَثَنِی عَلَیْہِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ لاَ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلاَّ طَمَسْتَہُ وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّیْتَہُ )[ رواہ مسلم : کتاب الجنائز ] ” ابو الھیاج اسدی کہتے ہیں مجھے علی بن ابی طالب (رض) نے کہا کیا میں تجھے اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھیجا تھا کہ ہر تصویرکو مٹادے اور جو اونچی قبر دیکھے اسے برابر کردے۔ “ مسائل ١۔ اہل کتاب بتوں اور شیاطین پر ایمان رکھتے ہیں۔ ٢۔ اہل کتاب مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کو ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں۔ ٣۔ اہل کتاب پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور لعنتی اپنے لیے کوئی مددگار نہیں پاسکتا۔ تفسیر بالقرآن طاغوت : ١۔ طاغوت کے انکار کا حکم۔ (النساء : ٦٠) ٢۔ کفار طاغوت کے ساتھ ہیں۔ (البقرۃ : ٢٥٧) ٣۔ کفار طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ (النساء : ٧٦) ٤۔ اہل کتاب میں سے بھی طاغوت کی عبادت کرنے والے ہیں۔ (المائدۃ : ٦٠) ٥۔ طاغوت کا انکار کرنے والا مضبوط کڑے کو تھامتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٥٦) ٦۔ طاغوت کی عبادت سے بچنے والے کے لیے خوشخبری ہے۔ (الزمر : ١٧)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٥١ تا ٥٥۔ جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی وہ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ اس آخری کتاب قرآن پر ایمان لے آئیں اور شرک سے باز آجائیں جو ان لوگوں کا شیوہ ہے جن کو اللہ کی طرف سے کوئی کتاب ہدایت نہیں ملی ۔ وہ اپنی زندگیوں میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کریں اور طاغوت کی اطاعت نہ کریں (طاغوت ہ... ر وہ قانون ہے ‘ جو اللہ کی طرف سے نہیں ہے اور ہر وہ حکم ہے جس کی پشت پر کوئی شرعی سند نہیں ہے) لیکن یہودی جو ہر وقت پاکی دامان کے قصہ خواں تھے اور اس امر پر فخر کرتے تھے کہ وہ اللہ کے محبوب بندے ہیں ‘ ان دعاوی کے ساتھ ساتھ وہ باطل اور شرک کے پیروکار تھے ۔ وہ کاہنوں کی تابع داری کرتے تھے اور اپنے احبار کی اطاعت کرتے تھے جو ان کے لئے ایسے قوانین بناتے تھے جن پر اللہ کی جانب سے کوئی سند نہ ہوتی تھی ۔ وہ طاغوت پر ایمان لاتے تھے (طاغوت وہ نظام حکومت اور قانونی نظام ہے جو شریعت پر مبنی نہ ہو ) اسے طاغوت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں طغیان اور دست درازی پائی جاتی ہے ۔ مثلا کوئی انسان اپنے لئے ان خصوصیات کا مدعی ہوجاتا ہے جو اللہ کی الوہیت اور حاکمیت کی اہم خصوصیات ہیں اور یہ انسان اپنے آپ کو شریعت کے ضابطے کی اطاعت سے باہر نکال لیتا ہے ‘ جس کے مطابق عدل کرنا اس پر لازمی تھا ۔ یہ عمل ہے طغیان کا اور ایسا شخص طاغوت ہے اور اس طاغوت کے مطیع اور اس پر ایمان لانے والے مشرک ہیں یا کافر ہیں ۔ ایسے لوگوں پر اللہ تعجب کا اظہار فرماتے ہیں کہ وہ یہ فعل مکروہ اس کے باوجود کرتے ہیں کہ ان کو اس سے قبل کتاب دی گئی تھی ، لیکن انہوں نے اس کتاب کی پیروی نہ کی ۔ جبت (ہرقسم کی وہمیات) اور طاغوت پر ایمان لانے پر مزید انہوں نے یہ کیا کہ کفار اور مشرکین کی صف میں جا کھڑے ہوئے اور ان مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہوگئے جن کو اللہ نے کتاب دی ہے ۔ (آیت) ” ویقولون للذین کفروا ھولآء اھدی من الذین امنوا سبیلا (٤ : ٥١) ” اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں ۔ “ ابن اسحاق نے بواسطہ محمد ابن ابی محمد ‘ عکرمہ اور سعید ابن جبیر ‘ حضرت ابن عباس (رض) اجمعین سے یہ روایت نقل کی ہے کہ قریش ‘ غطفان ‘ بنی قریظہ کے جن لوگوں نے جنگ احزاب میں تمام پارٹیوں اور احزاب کو جمع کیا تھا ان میں حیی ابن اخطب ‘ سلام ابن الحقیق ‘ ابو رافع ‘ ربیع ابن الحقیق ‘ ابو عامر ‘ وحوح ابن عامر اور ہوذہ ابن قیس تھے ۔ جب یہ لوگ قریش کے پاس آئے تو انہوں نے کہا : ” یہ لوگ یہودیوں کے احبار اور علماء ہٰں اور یہ لوگ پہلی کتاب کے ماہرین علماء ہیں آپ لوگ ان سے جو پوچھنا چاہیں پوچھ لیں کہ تمہارا دین اچھا ہے یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین اچھا ہے ۔ قریش نے ان سے پوچھا انہوں نے جواب دیا : تمہارا دین محمد کے دین سے بہتر ہے اور جو لوگ محمد کے تابع ہوگئے ہیں تم ان سے زیادہ ہدایت پر ہو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ (آیت) ” الم تر الی الذین اوتوا نصیبا من الکتب) سے لے کر (واتینھم ملکا عظیما) (٤ : ٥٤) اور یہ ان لوگوں پر لعن طعن ہے اور اس بات کا اعلان ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں میں ان کا کوئی ناصر اور مددگار نہ ہوگا ‘ یہ لوگ اب مشرکین سے امداد چاہتے ہیں ۔ انہوں نے مشرکین کو زیادہ ہدایت یافتہ اس لئے کہا تاکہ ان کو اپنی امداد کے لئے مائل کرلیں ۔ چناچہ انہوں نے انکی دعوت قبول کرلی اور یوم الاحزاب میں یہ لوگ لشکر لے کر آگئے ۔ اس جنگ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) اجمعین نے مدینہ کے اردگر خندق کھودی اور ان لوگوں کے اس عظیم شرکا دفعیہ صرف اللہ نے کیا اور (اللہ نے ان لوگوں کو بھاری غم واندوہ کے ساتھ لوٹا دیا جنہوں نے کفر کیا تھا ‘ اور وہ کچھ خیر نہ پاسکے اور اللہ تعالیٰ مومنین کی مدد کے لئے کافی تھا ۔ وہ تو بہت قوی اور غالب تھا) ۔ یہ بات تعجب انگیز تھی کہ یہودی یہ کہنے پر اتر آئیں کہ مشرکین کا دین ‘ دین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کے دین سے بہتر ہے ۔ اور مشرکین ان لوگوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے ہیں لیکن یہودیوں کی جانب سے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے ۔ حق و باطل کے درمیان انہوں نے ہمیشہ باطل کو ترجیح دی اور اہل حق اور اہل باطل میں سے ان کو ہمیشہ اہل باطل اچھے لگتے ہیں ۔ یہ اس قدر لالچی ہیں جس کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔ وہ اس قدر نفسانیت میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ ان کے مزاج میں اعتدال کا آنا ممکن ہی نہیں ہے ۔ ان کے سینے بغض سے بھرے ہوئے ہیں جو کبھی صاف نہیں ہو سکتے ۔ وہ اہل حق کے ہاں ‘ اپنی ٰخواہشات ‘ اپنے لالچ اور اپنے کین سے کا سامان نہیں پاتے ۔ انہیں اگر کچھ ملتا ہے تو ہمیشہ اہل باطل سے ملتا ہے ۔ اس لئے وہ ہمیشہ شہادت حق کے مقابلہ میں شہادت زور کے عادی ہیں اور اہل حق کے مقابلے میں اہل باطل کے لئے شہادت دیتے ہیں ۔ یہ ان کے دائمی حالات و عادات ہیں۔ ان حالات کی پشت پر جو اسباب تھے وہ اب بھی قائم ہیں اس لئے کہ یہ فعل ان کا طبیع اور منطقی فعل تھا کہ وہ کافروں کے متعلق یہ شہادت دیں کہ وہ اہل ایمان مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ ہدایت پر ہیں۔ آج یہودی برملا کہتے ہیں کہ وہ اپنی اس قوت سے جو میڈیا کے حوالے سے ان کے قبضے میں ہے ‘ اس کرہ ارض پر کامیاب ہونے والی ہر تحریک کو باکام کرسکتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ اہل باطل کے ساتھ پوری پوری معاونت کرتے ہیں تاکہ وہ تحریک اسلامی کو بدنام اور نیست ونابود کر دے ۔ اور یہ راز داری وہ اس لئے اختیار کرتے ہیں کہ اگر یہ کھل کر سامنے آتے ہیں تو دور جدید میں ان کے فریب کا پردہ چاک ہوتا ہے اور ان کے ایجنٹ عوام الناس میں بدنام ہوتے ہیں ‘ جو درحقیقت ان کے اشاروں پر کام کرتے ہیں اور ہر جگہ اسلامی تحریکات کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے رات دن کام کرتے ہیں ۔ بلکہ بعض اوقات ان کیمکاری اور ہشیاری اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ بظاہر اپنے ایجنٹوں کے ساتھ اپنی دشمنی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ لڑتے نظر آتے ہیں لیکن دراصل وہ ان لوگوں کے مددگار ہوتے جو اسلامی تحریکات کا قلع قمع کرنے میں لگے ہوئے ہوتے ہیں اور سچائی کو مٹا رہے ہوتے ہیں ۔ بعض اوقات وہ اپنے ان ایجنٹوں کے ساتھ جھوٹی لڑائی شروع کردیتے ہیں جو صرف زبان و کلام کے لئے کام کرکے انکے دور رس مقاصد پورے کرتے رہیں ۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کی شکل بگاڑنے کے کام کو کبھی نہیں چھوڑتے اس لئے کہ انہیں اصل بغض تو اسلامی نظریہ حیات سے ہے اور ان کی اصل دشمنی احیائے اسلام کی ہر اس تحریک کے ساتھ ہے جو انہیں دور سے نظر آئے اور وہ اسے دھوکے میں نہ ڈال سکتے ہوں۔ یہ ایک ہی فطرت ہے ‘ ایک ہی منصوبہ ہے اور یک ہی مقصد ہے یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو اللہ کی جانب سے مردود اور ملعون ہونے کا اعلان ہوتا ہے ۔ ان کو راندہ درگاہ قرار دیا جاتا ہے ۔ اور یہ فیصلہ کردیا جاتا ہے کہ ان کے لئے کوئی نصرت نہ ہوگی اور نہ ان کا کوئی مددگار ہوگا ۔ (آیت) ” اولئک الذین لعنھم اللہ ومن یلعن اللہ فلن تجدلہ نصیرا “۔ (٤ : ٥٢) ”۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کر دے پھر تم اس کا کوئی مددگار نہیں پاؤ گے ۔ “ آج یہ بات ہمیں ہولناک نظر آتی ہے کہ تمام مغربی ممالک یہودیوں کے ناصر و مددگار ہیں۔ اس لئے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اللہ کا یہ وعدہ کہاں گیا کہ اللہ نے یہودیوں پر لعنت کی اور جس کو اللہ نے ملعون قرار دے دیا ‘ اس کا کوئی مددگار نہ ہوگا ؟ حقیقت یہ ہے کہ حقیقی مددگار صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ حقیقی مددگار لوگ نہیں ہیں اور نہ حکومتیں ہیں۔ اگرچہ ان کے پاس ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم ہوں اور میزائل ہوں۔ حقیقی ناصر اللہ ہے اور وہ اپنے تمام بندوں کے اوپر کنٹرول والا ہے اور بم اور میزائل ان لوگوں کے پاس ہیں جو اللہ تعالیٰ کے مکمل کنٹرول میں ہیں ۔ اللہ ہی حقیقی مددگار ہے ان لوگوں کا جو اس کی مدد کرتے ہیں۔ (آیت) ” (وینصرون اللہ من ینصرہ) اور اللہ صرف ان لوگوں کی معاونت کرتا ہے جو اللہ پر اس طرح ایمان لے آئیں جس طرح ایمان لانے کا حق ہے اور وہ اس کے نظام کی اس طرح اطاعت کرتے ہیں جس طرح اطاعت کا حق ہوتا ہے اور جو تسلیم ورضا کے ساتھ اپنے تمام فیصلے اسلامی منہاج اور اسلامی شریعت کے مطابق کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے ذریعے ایک ایسی امت کو خطاب کیا تھا جو صحیح معنوں میں اللہ پر ایمان لا چکی تھی ۔ وہ اسلامی نظام زندگی کی مطیع تھی ۔ وہ اپنے تمام فیصلے شریعت کے مطابق کرتی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس مومن امت کے مقابلے میں اس کے دشمنوں یعنی یہودیوں کو کمزور بنایا تھا اور اس وقت اہل ایمان کو یہودیوں پہ نصرت ملتی تھی اور فتح حاصل ہوتی تھی اس لئے کہ ان کا مددگار کوئی نہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کو عملی شکل دے دی تھی اور اللہ کا وعدہ عملی شکل صرف ان لوگوں کے ذریعے اختیار کرتا ہے جو صحیح معنوں میں مومن ہوں ۔ ہمیں اس وقت تمام ملحدین ‘ مشرکین اور اہل صلیب کی جانب سے بالاتفاق یہودیوں کی پشت پناہی سے خائف نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ وہ تو ہر دور میں اسلام کے خلاف یہودیوں کے ناصر و مددگار رہے ہیں ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ہمیں یہ بات دھوکے میں بھی نہ ڈال دے ۔ نصرت کا وعدہ صرف مومنین کے ساتھ ہے ۔ جب بھی ہم مومن بن جائیں گے فتح ہمارے قدم چومے گی ۔ اہل اسلام کو چاہئے کہ وہ تجربہ کرلیں ‘ ایک بار تجربہ کریں کہ وہ صحیح مسلمان بن جائیں پھر دیکھیں کہ آیا یہودیوں کے لئے کوئی مددگار اس دنیا رہتا ہے اور کیا یہودیوں کو ان مشرکین اور اہل صلیب کی نصرت کوئی فائدہ دیتی ہے ؟ اہل کتاب کے حالات ان کے موقف اور ان کی باتوں پر تعجب کا اظہار کرنے اور ان کو ذلیل اور ملعون قرار دینے کے بعد ‘ اس بات پر نکیر کی جاتی ہے کہ ان لوگوں کا موقف حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے بارے میں قابل مواخذہ ہے ۔ نیز یہ کہ وہ اس بات پر سیخ پا ہیں کہ اللہ نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانون پر یہ احسان کیوں فرمایا کہ ان کو دین ‘ نصرت اور فتح سے ہمکنار کیا اور پھر اللہ نے ان پر فضل وکرم کی جو بارش کی اس پر بھی وہ جل بھن گئے ۔ حالانکہ اہل اسلام کو کوئی خیر یا بھلائی ان سے چھین کر نہ دی گئی تھی ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کس قدر سخت مزاج اور کس قدر لالچی تھے ۔ وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے علاوہ بھی کسی کو کچھ ملے ۔ حالانکہ اللہ نے ان پر بھی فیضان رحمت فرمایا ۔ ان کے آباء پر بھی احسان کیا اور ان کو فیاضی اور رواداری سے منع نہ کیا تھا اور نہ ان کو یہ بغض اور حسد سکھایا تھا ۔ (آیت) ” ام لھم نصیب من الملک فاذا لا یوتون الناس نقیرا (٥٣) ام یحسدون الناس علی ما اتھم اللہ من فضلہ فقد اتینا ال ابرھیم الکتب والحکمۃ واتینھم ملکا عظیما (٥٤) (٤ : ٥٣۔ ٥٤) ” کیا حکومت میں ان کا کوئی حصہ ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو دوسروں کو ایک پھوٹی کوڑی تک نہ دیتے ۔ پھر کیا یہ دوسروں سے اس لئے حسد کرتے ہیں اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا ؟ اگر یہ بات ہے تو انہوں معلوم ہو کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک عظیم بخش دیا ۔ “ یہ نہایت ہی تعجب انگیز بات ہے کہ یہ لوگ یہ برداشت ہی نہیں کرسکتے کہ اللہ اپنے خزانوں سے کسی اور پر فضل وکرم کرے ۔ کیا یہ لوگ اللہ کے ساتھ اس کے نہ ختم ہونے والے خزانوں میں شریک ہیں ۔ کیا یہ لوگ اللہ کے اقتدار میں اس کے شریک ہیں ۔ یہ تو اللہ ہی ہے جو داتا ہے اور وہی ہے جو روکتا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگ اپنی کنجوسی اور سختی کی وجہ سے کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہ دیتے نقیر سے مراد وہ جھلی ہے جو گٹھلی کی پشت پر ہوتی ہے ۔ اور یہودیوں کی کنجوسی اور ان کا بخل اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اتنا بھی کسی کو دے دیں اگر اللہ کی بادشاہی میں ان کا کوئی حصہ ہوتا ۔ یہ خدا کا شکر ہے کہ خدائی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو اگر تمام لوگ بھی بھوک سے ہلاک ہوجاتے تو وہ کسی کو گٹھلی کا چھلکا تک نہ دیتے ۔ شاید انہیں رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات پر حسد ہے کہ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے نوازا ہے کہ انکو یہ دین دیا جس سے ان عربوں کو جدید جنم نصیب ہوا اور وہ از سر نو ترقی کرنے لگے اور ان جاہل عربوں کو صاحب امتیاز قوم اور انسان بنا دیا ان کو روشنی یقین ‘ اطمینان اور اعتماد عطا کیا ۔ انکو پاکیزگی اور صفائی اور دنیا کے اندر اقتدار عطا کیا یقینا یہ صورت حال ان یہودیوں کے حسد کی وجہ ہے ۔ وہ اس بات پر مر گئے تھے کہ جاہل ‘ متفرق ‘ باہم متصادم عربوں پر ان کی ادبی اور ثقافتی اور اقتصادی برتری اب ختم ہونے والی ہے ۔ یہ برتری اس وقت قائم تھی جب ان کے پاس کوئی دینی پیغام نہ تھا ۔ یہ لوگ اس بات پر کیوں حسد کرتے ہیں کہ اللہ کسی قوم کو نبوت اور زمین پر اقتدار اعلی عطا فرمائے حالانکہ ان پر تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے ہی یہ فضل وکرم ہوتا رہا ہے جن کو اللہ نے کتاب اور حکمت (نبوت) عطا کی تھی ۔ ان کی آل واولاد میں نبوت جاری رہی تھی اور ان کو حکومت اور اقتدار اعلی بھی دیا گیا تھا لیکن انہوں نے اس فضل وکرم کی کچھ قدر نہ کی ۔ نہ اس نعمت کو سنبھالا ‘ نہ انہوں نے اس عہد قدیم کا پاس رکھا جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا بلکہ ان میں سے کئی لوگ تو سرے سے مومن ہی نہ تھے ۔ جن لوگوں پر اس قدر فضل عظیم کیا گیا ہو ‘ ان کے لئے یہ تو مناسب نہیں ہے کہ ان میں منکر اور کافر پیدا ہوں ۔ (آیت) ” فقد اتینا ال ابرھیم الکتب والحکمۃ واتینھم ملکا عظیم (٥٤) فمنھم من امن بہ ومنھم من صد عنہ وکفی بجھنم سعیرا “۔ (٥٥) (٤ : ٥٤۔ ٥٥) ” ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک عظیم بخش دیا ‘ ۔ مگر ان میں سے کوئی اس پر ایمان لایا اور کوئی اس سے منہ موڑ گیا ‘ اور منہ موڑنے والوں کے لئے تو بس جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہی کافی ہے “۔ حسد کا درد کس کے حصے میں آتا ہے ۔ اگر کوئی نادار شخص کسی مالدار صاحب نعمت سے حسد کرے تو یہ حسد بھی فعل بد ہے ۔ لیکن اگر کوئی مالدار صاحب نعمت کسی پر حسد کرنے لگے تو یہ رذالت سے بھی آگے نہایت گہرا شر ہے اور اس قسم کا شر و فساد صرف یہودیوں کا حصہ ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ انکو جہنم کی آگ کی دھمکی دی گئی ہے ‘ جو اس رذالت کے لئے نہایت ہی مناسب جزاء ہے ۔ (آیت) ” وکفی بجھنم سعیرا “۔ (٤ : ٥٥) (ان کیلئے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہی کافی ہے) ۔ جب بات یہاں تک پہنچی کہ آل ابراہیم میں سے بعض لوگ مومن ہوئے اور بعض نے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا تو اس کے بعد ضروری ہوگیا کہ اہل ایمان کا انجام بھی بتا دیا جائے اور ان لوگوں کا انجام بھی بتا دیا جائے جو راہ ایمان سے روکتے ہیں ۔ یہ سزا وجزاء ہر دین میں ہمیشہ ایس طرح رہی ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں نہایت ہی شدید اور خوفناک مناظر قیامت کی صورت میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہودیوں کی جسارت جنہوں نے شرک کو توحید سے افضل بتا دیا لباب النقول صفحہ ٧١ میں اس آیت کا شان نزول بتاتے ہوئے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ یہودیوں کے علماء اور رؤساء جو قبیلہ بنی نضیر میں سے تھے مکہ معظمہ پہنچے۔ قریش مکہ نے آپس میں کہا کہ یہ لوگ علماء یہود ہیں پہلی کتابوں کا بھی علم رکھتے ہیں... ۔ ان سے دریافت کرو کہ ہمارا دین بہتر ہے یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین بہتر ہے ؟ چناچہ انہوں نے علماء یہود سے دریافت کیا۔ ان لوگوں نے (یہ جانتے ہوئے کہ قریش مکہ مشرک ہیں اور دین ابراہیمی کو چھوڑ چکے ہیں اور سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق پر ہیں واقعی اللہ کے نبی ہیں) جواب میں کہہ دیا کہ تم لوگ محمد سے اور ان کا اتباع کرنے والوں کی نسبت زیادہ ہدایت پر ہو، اس پر اللہ تعالیٰ نے (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ ) سے لے کر (مُلْکاً عَظِیْماً ) تک آیات نازل فرمائیں۔ یہودی یہ جانتے تھے کہ سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں وہ آپ کی آمد کے انتظار میں بھی تھے۔ اور جو علامات پہلے سے انہیں معلوم تھیں ان کے اعتبار سے آپ کو پہچان بھی لیا لیکن چند افراد کے علاوہ یہود کے علماء اور عوام نے اسلام قبول نہ کیا (فَلَمَّا جَآءَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بہٖ فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَافِرِیْنَ ) اور مشرکین کو بھی انہوں نے یہ بتادیا کہ تم بنسبت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب اور اتباع کے زیادہ ہدایت والے ہو۔ نفسانیت اور عناد کا ناس ہو جب یہ دونوں چیزیں کسی کے دل میں جگہ پکڑ لیتی ہیں تو حق اور حقیقت کو دیکھنے ہی نہیں دیتیں، آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہیں دل کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں۔ جن لوگوں کے پاس توریت شریف کا علم تھا اور وہ جانتے تھے کہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) توحید کی دعوت دینے کے لیے تشریف لاتے رہے اور یہ بھی جانتے تھے کہ شرک بدترین چیز ہے اس بات کو جانتے ہوئے علماء یہود نے مشرکین مکہ کو ضد اور عناد میں داعی توحید سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب و اتباع سے زیادہ ہدایت پر بتادیا۔ جو کچھ علم ان کے پاس تھا اس کی کچھ لاج نہ رکھی اور جبت اور طاغوت پر ایمان لے آئے۔ جبت اور طاغوت کا معنی : لفظ جبت اور طاغوت کے بارے میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ جبت ایک بت کا نام تھا۔ اس کے بعد وہ ہر معبود باطل کے لیے استعمال ہونے لگا۔ اور طاغوت ہر باطل چیز کو کہا جاتا ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ جبت جادو گر کے لیے اور طاغوت شیطان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی اقوال ہیں ہم نے بعض اقوال کے مطابق آیت شریفہ کا ترجمہ کردیا ہے یہودیوں کی شرارت نفس دیکھو کہ علم کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا اور جہالت اختیار کرلی اور اہل شرک کو ہدایت پر بتادیا، اور اس طرح وہ بتوں پر شیطان پر ایمان لے آئے۔ ایسی جاہلانہ باتیں عصبیت جاہلیہ کی وجہ سے دور حاضر کے بعض فرقوں اور بعض جماعتوں سے بھی صادر ہوتی رہتی ہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

39 یہ بھی اہل کتاب کو زجر ہے وہ شیطان اور اصنام کی عبادت کرنیوالوں کو ہدایت یافتہ کہتے تھے اور اَلْجِبت سے بت اور ہر معبود غیر اللہ مراد ہے اور اَلطَّاغُوْتُ سے مراد شیطان ہے جو بتوں میں کلام کرتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ بت بول رہا ہے۔ الجبت الاوثان والطاغوت شیاطین الاوثان و لکل صنم شیطان و یعبر عن... ہ فیغتر بہ الناس (معالم) سے متعلق ہے اور وَ یَقُوْلُوْنَ میں واو تفسیری ہے اور یَقُوْلُوْنَ ، یُؤْمِنُوْنَ کی تفسیر ہے۔ اہل کتاب کو اچھی طرح معلوم تھا کہ بت پرستی شرک ہے لیکن اس کے باوجود بت پرستی اور بت پرستوں کی نہ صرف حمایت کرتے تھے بلکہ ان مشرکوں کو مومنوں سے بہتر سمجھتے تھے تو ان کا یہ فعل محض بغض وحسد اور ضد وعناد کی وجہ سے تھا۔ لاشک انھم کانوا عالمین بان ذالک باطل فکان اقدامھم علی ھذا القول لمحض العناد والتعصب (کبیر ج 3 ص 345) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi