Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 54

سورة النساء

اَمۡ یَحۡسُدُوۡنَ النَّاسَ عَلٰی مَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۚ فَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ مُّلۡکًا عَظِیۡمًا ﴿۵۴﴾

Or do they envy people for what Allah has given them of His bounty? But we had already given the family of Abraham the Scripture and wisdom and conferred upon them a great kingdom.

یا یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے ، پس ہم نے تو آلِ ابراہیم کو کتاب اور حکمت بھی دی ہے اور بڑی سلطنت بھی عطا فرمائی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا اتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ ... Or do they envy men for what Allah has given them of His Bounty! referring to their envy of the Prophet for the great Prophethood that Allah entrusted him with. Their envy made them reject him, because he was an Arab and not from the Children of Israel. At-Tabarani recorded that Ibn Abbas said that, أَمْ يَحْسُدُونَ ... النَّاسَ (Or do they envy men) means, "We are the worthy people, rather than the rest of the people." Allah said, ... فَقَدْ اتَيْنَأ الَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَاتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا Then, We have already given the family of Ibrahim the Book and Al-Hikmah, and conferred upon them a great kingdom. meaning, We gave the Prophethood to the tribes of the Children of Israel, who are among the offspring of Ibrahim and sent down the Books to them. These Prophets ruled the Jews with the prophetic tradition, and We made kings among them. Yet,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 ام یا بل کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی بلکہ یہ اس بات پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو چھوڑ کر دوسروں میں نبی (یعنی آخری نبی) کیوں بنایا ؟ نبوت اللہ کا سب سے بڑا فضل ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٥] یہاں دوسرے لوگوں سے مراد مسلمان ہیں جنہیں دن بدن عروج حاصل ہو رہا تھا اور وہ خود دن بدن ذلیل سے ذلیل تر ہو رہے تھے۔ [٨٦] آل ابراہیم سے مراد سیدنا ابراہیم سے لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک سب پیغمبر ہیں اور کتاب اللہ کا علم و حکمت انہی انبیاء کے پاس رہا اور بہت بڑی بادشاہی بھی۔ جی... سے سیدنا یوسف، سیدنا داؤد، سیدنا سلیمان وغیرہ سب بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی۔ اور اس لفظ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ تمام اقوام عالم پر ہمیشہ آل ابراہیم ہی کا قائدانہ اقتدار رہا ہے۔ اگرچہ آپ کے زمانہ میں یہ اقتدار یہود سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہوگیا۔ تاہم آل ابراہیم ہی میں رہا۔ آل اسحاق سے آل اسماعیل میں آگیا یعنی جس طرح پہلے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکومت اور عزت اور دنیا کی قیادت عطا فرمائی تھی اب ویسی ہی شان و شوکت، عزت اور حکومت ان سے چھین کر مسلمانوں کو عطا کی جائے گی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مطلب یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد میں مدت دراز تک نبوت اور بادشاہت رہی ہے اور داؤد و سلیمان (علیہ السلام) اور دوسرے اولوا العزم پیغمبر ہو گزرے ہیں، اب بنو اسماعیل میں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرما دیا گیا ہے تو یہ کیوں حس... د کر رہے ہیں ؟ ! یہاں ” مِنْ فَضْلِهٖ ۚ“ سے مراد نبوت اور دین و دنیا کی وہ عزت ہے جو نبوت کی برکت سے حاصل ہوئی۔ ” الْكِتٰبَ “ سے مراد کتاب الٰہی اور ” وَالْحِكْمَةَ “ سے اس کا فہم اور اس پر عمل کرنا مراد ہے اور ” مُّلْكًا عَظِيْما “ سے مراد سلطنت اور غلبہ و اقتدار ہے۔ (رازی۔ ابن کثیر)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Admonishing Jews for being unreasonably envious The knowledge, the grace, the high rank and the grandeur of mission given by Allah Almighty to the Noble Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) made Jews all too jealous. Verses 53 and 54 strongly admonish this attitude of theirs, giving two reasons why their envy was unreasonable. The first reason appears in verse 53, while the second, in vers... e 54. But, the outcome of both is the same. The drift of the argument is: &What is the basis of your envy? If this is because you think you are the real inheritors of the kingdom and what he has been blessed with is actually yours, obviously then, this is all wrong. As it is, right now you have no kingdom. Even if you came to have some of it, you are not the kind to give anything to anybody. If your envy is based on the realization that the kingdom, no doubt, did not pass from you onto him, still, the question remains, why did it have to go to him at all. What relevance does he have with having a kingdom? The answer given was: He too comes from the family of prophets who have ruled over kingdoms before him. So, the kingdom has really not come to a stranger. Your envy, therefore, is unreasonable.& The definition and rules of envy ` Allamah al-Nawawi, the Commentator of Muslim, defines Hasad as : اَلحَسَدُ تَمَیّ زَوَّالِ النِّعمَۃ (Muslim, v.2). It means that Hasad (envy) is a desire to see the other person&s blessing somehow disappear, and this is harm (forbidden). The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: لا تباڈضواولا تحاسدوا ولا تدابروا ، وکونوا عباد اللہ اخواناً ، ولا یحل لمسلم ان یھجر اخاہ فوق ثلاث |"Do not hate and do not envy and do not turn your backs on each other. Instead, become servants of Allah, as brothers. And it is not lawful for a Muslim that he abandons his brother for more than three days.|" (Muslim, v.2) In another hadith, he has said: اِیاکم والحسد، فإن الحسد یأکل الحسنات کما تاکل النار الحطب |"Beware of envy, for envy eats up good deeds as the fire eats up wood.|" (Abu Dwud, cited by Mishkat) Sayyidna Zubayr (رض) ، narrates that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: عن الزبیر (رض) قال : قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : دب الیکم داء الامم قبلکم، الحسد والبغضاء ھی لحالقۃ، لا إقول تحلق الشعر، ولکن تحلق الدین |"Stealthily creeping into you is the disease of earlier peoples - envy; and hatred, which is a shaver. I do not say that it shaves hair, but it does shave the religion off.|" (Ahmad and Tirmidhi, cited by Mishkat) Envy, whether it be on account of someone&s worldly, or spiritual excellence, is harem (forbidden) on both counts, as the words أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ (Is it that they have a share in the kingdom?) seem to point out towards worldly excellence, while the words الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (54) (the Book and the wisdom) are indicative of spiritual excellence.  Show more

معاف و مسائل یہودیوں کے حسد کرنے پر شدید مذمت : اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو علم و فضل اور جاہ و جلال عطا کیا تھا، اس پر یہودی جلتے تھے، اللہ تعالیٰ نے آیت نمبر ٣٥، ٤٥ میں ان کے اسی حسد و بغض کی شدید مذمت کی ہے اور ان کے حسد کو نامعقول قرار دیتے ہوئے دو وجہیں بیان کی ہی... ں ایک وجہ آیت نمبر ٣٥ میں بیان کی اور دوسری آیت نمبر ٤٥ میں، لیکن دونوں کا حاصل ایک ہے، یعنی تمہارا حسد کس بات پر ہے اگر اس پر ہے کہ اصل صاحب سلطنت تم ہو تمہاری ہی سلطنت ان کو مل گئی، اس کا غلط ہونا تو کھلا ہوا ہے کہ تم سلطنت سے خود محروم ہو اور تمہیں کچھ حصہ سلطنت کا مل جاتا تو تم ایک کوڑی بھی کسی کو نہ دیتے اور اگر تمہارا حسد اس پر ہے کہ گو سلطنت ہمارے پاس سے ان کے پاس نہیں گئی پھر بھی ان کو کیوں ملی، ان کو سلطنت سے کیا علاقہ ؟ تو اس کا جواب یہ دیا کہ یہ بھی انبیاء کے خاندان سے ہیں جن میں سلطنت پہلے سے ہوتی آئی ہے اس لئے کسی اجنبی جگہ سلطنت نہیں آئی، لہٰذا تمہارا حسد کرنا نامعقول ہے۔ حسد کی تعریف، حکم اور اس کی مضرتوں کا بیان :۔ علامہ نووی شارح مسلم، حسد کی تعریف اس طرح کرتے ہیں۔ الحسد تمنی زوال النعمة (مسلم ج ٢) یعنی دوسرے آدمی کی نعمت کے زوال کی خواہش کرنا حسد کہلاتا ہے۔ “ اور یہ حرام ہے۔ ” تم آپس میں بغض اور حسد نہ کرو اور نہ ہی ایک دوسرے سے پشت پھیرو بلکہ اللہ کے بندے اور بھائی بن جاؤ اور جائز نہیں کسی مسلمان کے لئے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق کرے۔ ” تم حسد سے بچو، اس لئے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ “ ” حضرت زبیر نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ تمہاری طرف (بھی) پہلی قوموں کا مرض چپکے سے چل پڑا ہے اور وہ حسد ہے اور بغض ایسی خصلت ہے جو مونڈ دینے والی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ وہ بالوں کو مونڈتی ہے، بلکہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔ “ حسد خواہ دنیاوی کمال پر ہو یا دینی کمال پر دونوں حرام ہیں، چناچہ اللہ تعالیٰ کے قول ” ام لھم نصیب من الملک “ سے امر اول کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے اور ” الکتب والحکمة “ سے امرثانی کی طرف۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ يَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰي مَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ۝ ٠ۚ فَقَدْ اٰتَيْنَآ اٰلَ اِبْرٰہِيْمَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَاٰتَيْنٰھُمْ مُّلْكًا عَظِيْمًا۝ ٥٤ حسد الحسد : تمنّي زوال نعمة من مستحق لها، وربما کان مع ذلک سعي في إزالتها، وروي : «المؤمن يغبط والمنافق يحسد» وقال تعالی: حَسَداً م... ِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ [ البقرة/ 109] ، وَمِنْ شَرِّ حاسِدٍ إِذا حَسَدَ [ الفلق/ 5] . ( ح س د ) الحسد ( ن ) کسی مستحق نعمت سے اس نعمت سے اس نعمت کے زائل ہونے کی تمنا کرنے کا نام حسد ہے بسا اوقات اس میں اسی مقصد کے لئے کوشش کرنا بھی شامل ہوتا ہے ایک روایت میں ہے : ۔ کہ مومن رشک کرتا ہے اور منافق حسد کرتا ہے قرآن میں ہے : ۔ حَسَداً مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ [ البقرة/ 109] اپنے دل کی جلن سے ۔ وَمِنْ شَرِّ حاسِدٍ إِذا حَسَدَ [ الفلق/ 5] اور حسد کرنے والے کی برانی سے جب حسد کرنے لگے ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی حکمت ( نبوۃ) قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه . قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا مون ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ام یحسدون الناس علی مااتاھم اللہ من فضلہ) پھر کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا ہے ) حضرت ابن عباس مجاہد ضحاک سدی اور عکرمہ سے مروی ہے کہ یہاں الناس سے مراد صرف رسول اللہ کی ذات اقدس ہے ۔ قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد عرب کے لوگ ہیں کچھ لوگوں کا قول ... ہے کہ اس سے مراد حضور اور آپ کے صحابہ ہیں یہ تاویل بہتر ہے کیونکہ خطاب کی ابتداء میں یہود کا ذکر ہے اور یہ لوگ اس سے قبل اپنی کتابوں میں حضور کی بعثت آپ کے اوصاف ، اور آپ کی نبوت کے حالات کے متعلق پڑھا کرتے تھے۔ بلکہ یہ لوگ آخری نبی کی بعثت پر عربوں کو قتل کی دھمکی دیتے تھے اس لیی کہ ان کے خیال میں عرب کے لوگ اس نبی کی پیروی پر تیار ہونے والے نہیں تھے نیزان کا یہ بھی گمان تھا کہ اس نبی کی بعثت بنی اسرائیل میں ہوگی، لیکن جب اللہ نے حضور کی بعثت بنواسماعیل میں کردی تو ان لوگوں نے ایک طرف عربوں سے حسدکرناشروع کردیا اور دوسری طرف حضور کی تکذیب پر کمربستہ ہوگئے اور جن حقائق کا انہیں اپنی کتابوں کے ذریعے علم ہوا تھا ان سے صاف مکر گئے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے (وکانوا من قبل یستفحوان علی الذین کفروا فلما جاء ھم ماعرفواکفروبہ) ، باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح ونصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے مگر جب وہ چیز آگئی جسے وہ پہچان بھی گئے تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا،۔ نیز ارشاد باری ہے ، (ودکثیر من اھل الکتاب لویردونکم من بعد ایمانکم کفاراحسدا من عند انفسھم، اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں۔ اپنے نفس کے حسد کی کی بنا پر تمہار لیے ان کی یہ خواہش ہے) ۔ عربوں کے ساتھ یہودیوں کی عداوت اور دشمنی حضور کی بعثت کے وقت سے ہی ظاہرہوگئی تھی ، اس دشمنی کی بنیاد پر اس حسد پر تھی کہ حضور کی بعثت عربوں میں کیوں ہوئی بنی اسرائیل میں کیوں نہیں ہوئی۔ اس تشریح کی روشنی میں آیت کو اس معنی پر محمول کرنا زیادہ واضح ہوگا کہ الناس سے مراد حضور کی ذات اقدس اورآ پ کے صحابہ کرام ہیں اور یہودیوں کو آپ سے اور آپ کے صحابہ کرام سے دوسرے الفاظ میں عربوں سے حسد تھا، حسد اس تمنا کا نام ہے جو کسی شخص سے اس کی نعمت چھن جانے کے لیے کی جائے۔ اسی بنا پر مقولہ ہے ، تم ہر شخص کو راضی کرسکتے ہو لیکن حاسد کو راضی نہیں کرسکتے کیونکہ وہ تو صرف نعمت کے زوال اور اس کے چھن جانے پر ہی راضی ہوسکتا ہے ، حسد کے مقابلے میں غبطہ مذموم نہیں ہے جس میں کسی نعمت کی تمنا کی جائے لیکن دوسرے سے اس نعمت کے چھن جانے کی کو اہش کا پہلوا نہ ہوبل کہ اس کے ہاں اس نعمت کی بقاء پر اس تمنا کرنے والے کو خوشی اور سرور محسوس ہوتا ہو۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآاٰتٰٹہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ج) دراصل یہ سب اس حسد کا نتیجہ ہے جو یہ مسلمانوں سے رکھتے ہیں کہ اللہ نے ان امیین میں اپنا آخری نبی ‘ بھیج دیا اور انہیں اپنی آخری کتاب عطا فرما دی جنہیں یہ حقیر سمجھتے تھے۔ اب یہ اس حسد کی آگ میں جل رہے ہیں۔ (فَقَدْ اٰتَ... یْنَآ اٰلَ اِبْرٰہِیْمَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاٰتَیْنٰہُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا) ۔ یعنی تمہیں بھی اگر تورات اور انجیل ملی تھی تو ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل ہونے کے ناتے سے ملی تھی ‘ تو یہ جو اسماعیل ( علیہ السلام) کی نسل ہے یہ بھی تو ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی نسل ہے۔ ہاں بنی اسرائیل کو کتاب اور حکمت علیحدہ علیحدہ ملی۔ تورات کتاب تھی اور انجیل حکمت تھی ‘ جبکہ یہاں کتاب اور حکمت اللہ تعالیٰ نے ایک ہی جگہ پر قرآن میں بتمام و کمال جمع کردی ہیں۔ مزید برآں جیسے ان کو ملک عظیم دیا تھا ‘ اب ہم ان مسلمانوں کو اس سے بڑا ملک دیں گے۔ یہ مضمون سورة النور میں آئے گا : (لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ) (آیت ٥٥) ہم ‘ لازماً ان اہل ایمان کو دنیا میں حکومت اور خلافت عطا کریں گے جیسے ان سے پہلوں کو عطا کی تھی۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

85. By implication, this query accurately portrays the state of mind of the Jews. They saw the Muslims being endowed with the grace and reward of God which they, notwithstanding their own unworthiness had expected to fall to their share. By virtue of the advent of a great Prophet among the ummis of Arabia, a spiritual, moral and intellectual revolution had taken place which totally changed their p... ractical life and ultimately led them to greatness and glory. It is this which aroused their spite and envy, and which was reflected in their unjustifiable remarks about the Muslims. 86. This 'mighty dominion' refers to the position of world leadership and authority which a people attain by virtue of receiving the knowledge in the Book of God and acting according to its dictates.  Show more

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :85 یعنی یہ اپنی نااہلی کے باوجود اللہ کے جس فضل اور جس انعام کی آس خود لگائے بیٹھے تھے ، اس سے جب دوسرے لوگ سرفراز کر دیے گئے اور عرب کے امیوں میں ایک عظیم الشان نبی کے ظہور سے وہ روحانی و اخلاقی اور ذہنی و عملی زندگی پیدا ہوگئی جس کا لازمی نتیجہ عروج و سربلندی ہے ، تو ... اب یہ اس پر حسد کر رہے ہیں اور یہ باتیں اسی حسد کی بنا پر ان کے منہ سے نکل رہی ہیں ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :86 ”ملک عظیم“ سے مراد دنیا کی امامت و رہنمائی اور اقوام عالم پر قائدانہ اقتدار ہے جو کتاب اللہ کا علم پانے اور اس علم و حکمت کے مطابق عمل کرنے سے لازماً حاصل ہوتا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

39: یعنی اﷲ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت جس کو مناسب سمجھتا ہے نبوت اور خلافت وحکومت کے اعزاز سے سرفراز فرماتا ہے، چنانچہ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نبوّت وحکمت عطا فرمائی اور ان کی اولاد میں یہ سلسلہ جاری رکھا۔ چنانچہ ان میں سے بعض (مثلا حضرت داود اور سلیمان علیہما السلام) نبی ہونے کے ساتھ حکمران...  بھی بنے۔ اب تک ان کے ایک صاحبزادے (حضرت یعقوب علیہ السلام) کی اولاد میں نبوّت و حکومت کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ اب اگر ان کے دوسرے صاحب زادے (حضرت اسماعیل علیہ السلام) کی اولاد میں حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ اعزاز بخش دیا گیا ہے تو اس میں اعتراض یا حسد کی کیا بات ہے؟  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:54) فقد اتینا ال ابراہیم۔ تو یاد رہے ہم دے چکے ہیں (قبل ازیں) ۔ آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور عظیم سلطنت۔ مثلاً حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کو۔ یعنی ایسی ہی نعمت قبل ازیں ال ابراہیم کو بھی تو دی جا چکی ہے۔ پھر یہ مؤمنوں کو وہی نعمت دئیے جانے پر کیوں جلتے ہیں۔ بعض کے نزدیک الناس سے مراد حضرت محمد ... (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و اصحابہ مراد ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے بیٹے اسحاق ( علیہ السلام) کی اولاد میں مدت دراز تک نبوت اور بادشاہی رہی اور حضرت داود ( علیہ السلام) ، حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اور دوسرے اولو العزم پیغمبر ہو گزرے ہیں۔۔ اب بنو اسمعیل ( علیہ السلام) میں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت و ... رسالت سے سرفراز فرمادیا گیا ہے تو یہ کیوں حسد کررہے ہیں۔ یہاں من فضلہ سے مراد نبوت اور دین دنیا کی وہ عزت مراد ہے جو نبوت کی برکت سے حاصل ہوئی الکتاب سے مراد کتاب الہیٰ ادر الحمت سے اس کا فہم اور اس پر عمل مراد ہے اور ملک عظیم سے مراد سلطنت اور غلبہ وقتدار ہے۔ (رازی۔ ابن کثیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ چناچہ بنی اسرائیل میں بہت سے انبیاء گزرے بعض انبیاء سلاطین بھی ہوئے جیسے حضرت یوسف (علیہ السلام) و حضرت داود (علیہ السلام) و حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا کثیر الازواج ہونامعلوم و مشہور ہے اور یہ سب اولاد ابراہیم میں ہیں سو جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اولاد ابراہیم سے ہیں تو آپ کو...  اگر یہ نعمتیں و عطیات مل گئیں تو تعجب کی کیا بات ہے۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہودیوں کو بغض اور حسد کھا گیا لباب النقول صفحہ ٧١ میں ہے کہ اہل کتاب نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں کہتے ہیں کہ ان کو جو کچھ دیا گیا تواضع کی وجہ سے دیا گیا اور ان کی نو بیویاں ہیں اور ان کا مقصد بس نکاح کرنا ہی ہے اور اس سے بڑھ کر کون سا بادشاہ ہوگا، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت بالا (ا... َمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ ) آخر تک نازل فرمائی۔ یہود حق کو تو قبول کرتے نہ تھے۔ البتہ اعتراضات اور جھوٹے بہانے تلاش کرتے رہتے تھے اور کچھ نہ ملا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کثرت ازواج پر ہی اعتراض کردیا جب دلائل سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت ثابت ہوگئی اور یہ بھی معلوم ہے کہ نبی اور رسول، اللہ تعالیٰ کے قانون کے خلاف نہ خود چلتے ہیں نہ دوسروں کو چلاتے ہیں تو اب یہ اللہ تعالیٰ پر اعتراض ہوا کہ اس نے ایسے شخص کو کیوں نبی بنایا جس کی بیویوں کی تعداد زیادہ ہے، اعتراض کرنا یہودیوں کی جہالت کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا کہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اگر ملک کا کچھ حصہ ان کے پاس ہوتا تو کسی کو نقیر کے برابر بھی کچھ نہ دیتے۔ (نقیر کھجور کے گٹھلی کے اندر کے گڑھے کو کہا جاتا ہے جس کا ترجمہ ہم نے یوں کیا ہے کہ کسی کو ذرا بھی کچھ نہ دیتے) خود تو کسی کو پھوٹی کوڑی دینے کو تیار نہیں اور اللہ نے اپنے فضل سے جو کچھ عطا فرمایا ہے اس پر حسد کرتے ہیں۔ حسد کرنے والابہت بڑا بیوقوف ہوتا ہے اس کے حسد سے کسی کی نعمت چھن نہیں جاتی اور وہ خواہ مخواہ ان نعمتوں کو دیکھ دیکھ کر جو اللہ نے کسی کو دی ہیں اندر اندر کڑھتا رہتا ہے اور حسد کی آگ میں جلتا بھنتا ہے حسد کی یہ سب سے بڑی شناعت اور قباحت ہے کہ حاسد اللہ کی قضا و قدر پر راضی نہیں۔ اللہ نے تو اپنی مہربانی سے نعمت عطا فرما دی۔ لیکن حاسد اللہ کے اس انعام سے راضی نہیں۔ آل ابراہیم کو اللہ نے کتاب اور حکمت اور ملک عظیم عطا فرمایا : چونکہ یہودی بنی اسرائیل کی تاریخ سے واقف تھے اس لیے ان کو اللہ تعالیٰ نے یاد دلایا کہ ہم نے آل ابراہیم کو کتاب بھی دی اور حکمت بھی دی اور ان کو ملک بھی عطا کیا۔ آل ابراہیم سے حضرت داؤد (علیہ السلام) مراد ہیں۔ داؤد (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنی کتاب زبور عطا فرمائی تھی اور داؤد و سلیمان (علیہ السلام) کو حکومت اور سلطنت بھی عطاء کی تھی اور ان حضرات کی بیویاں بھی بہت زیادہ تھیں۔ معالم التنزیل صفحہ ٤٤٢: ج ١ میں لکھا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کی ایک ہزار تین سو بیویاں تھیں۔ اور داؤد (علیہ السلام) کی سو بیویاں تھیں، جیسے وہ حضرات آل ابراہیم میں سے تھے سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی آل ابراہیم میں سے ہیں ان کی بیویاں متعدد ہوگئیں تو اس میں کیا اشکال کی بات ہے۔ سورة ابراہیم میں فرمایا (وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ وَ جَعَلْنَا لَھُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّۃً ) (اور البتہ تحقیق ہم نے بھیجے آپ سے پہلے رسول اور ہم نے ان کو بیویاں دیں اور ذریت بھی دی) ۔ اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے جس کو جو نعمت چاہے عطا فرمائے اس میں کسی کو کیا اعتراض ہے اللہ کی عطا اور بخشش پر اعتراض کرنا اور اس سے راضی نہ ہونا کفر ہے پھر جس طرح تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ کو پورا پورا اختیار ہے جس کو چاہے عطا فرمائے اسی طرح بیویاں حلال فرما دیں اور سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے نو بیویوں کی اجازت دے کر ارشاد فرمایا (لاَ یَحِلُّ لَکَ النّسَآءُ مِنْ بَعْدُ ) (الایۃ) اور امت محمدیہ کو صرف چار بیویوں تک کی اجازت دے دی وہ مالک تکوین و تشریع ہے اس پر اعتراض کرنا جہالت اور ضلالت ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

41 یہود کے حسد کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ ان کے پاس اگرچہ سلطنت نہیں ہے لیکن پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو کیوں ملی ہے یہ کب سلطنت اور نبوت کے لائق تھے تو اس کا جواب فرمایا کہ ہم نے اپنے فضل و رحمت سے جو نعمتیں مثلاً نبوت، علم و حکمت اور حکومت وغیرہ اپنے پیغمبر کو دی ہیں ... ان پر وہ حسد کرتے ہیں اور ان کو ان انعامات کا اہل نہیں سمجھتے حالانکہ یہ تمام نعمتیں ہم پہلے آل ابراہیم کو دے چکے ہیں آل ابراہیم کو ہم نے نبوت و رسالت بھی دی اور حکومت بھی جس سے معلوم ہوا کہ آل ابراہیم میں ان نعمتوں کی صلاحیت موجود ہے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تو آل ابراہیم ہی سے ہیں اس لیے ان میں کیوں صلاحیت نہیں اور اگر ان کو ہم نے اپنے انعامات و احسانات سے نوازا ہے تو کونسی قابل تعجب بات ہے۔ ال ابراہیم الذین ھم اسلاف محمد (علیہ السلام) وانہ لیس ببدع ان یوتیہ اللہ مثل ما اوتی اسلافہ (مدارک ج 1 ص 179) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 کیا ان یہود کے پاس حکومت کا کوئی حصہ ہے اگر ایسا ہوتا تو یہ دوسرے لوگوں کو ذرا سی بھی کوئی چیز نہ دیتے یا یہ دوسرے لوگوں سے یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب سے ان نعمتوں پر حسد کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے عنایت کی ہیں تو ان نعمتوں کا عطا ہونا بھی کوئی نئی با... ت نہیں ہے کیونکہ ہم اب سے پہلے بھی حضرت ابراہیم کے خاندان والوں کو کتاب آسمانی اور حکمت و نبوت سے نواز چکے ہیں اور ہم اس خاندان ابراہیم کے لوگوں کو سلطنت بھی عطا کرچکے ہیں۔ (تیسیر) نقیر، نقرۃ گٹھلی کے اوپر کا چھلکا یا نقطہ مراد ہے بہت ہی حقیر چیز جس کی کوئی قیمت نہ ہو اور سلطنت کا حصہ رکھتے ہوئے کسی حقیر چیز کا بھی نہ دینا انتہائی بخل ہے۔ الناس سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ہے اور آپ کو کثرت صفات کے باعث جمع سے تعبیر کیا ہے یا آپ کے اصحاب مراد ہیں یا دونوں مراد ہیں، مسلمان جو تدریجی ترقی کر رہے تھے اور بالخصوص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور آپ کی بیویوں کی تعداد پر جو یہود کی جانب سے اعتراض کئے گئے تھے ان کا جواب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کیا ان کا کوئی حصہ سلطنت میں ہے یعنی ان کو حکومت میں کوئی حصہ نہیں ہے اگر ان کا کوئی حصہ ہو یا ان کو کچھ دے دیا جائے تو یہ ایسے بخل ہیں کہ ذرا سی بھی کوئی چیز لوگوں کو نہ دیں تو جب ان کی سلطنت میں سے مسلمانوں کو کچھ نہیں مل رہا ہے کیونکہ ان کے پاس سلطنت ہی نہیں پھر ان کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہے اور کیوں مسلمانوں کی ترقی اور پیغمبر کی مرفہ الحالی اور ان کی نوبیوں پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ انتہائی بخل کی علامت ہے کہ خود دینے کے قابل نہیں اور اگر کبھی دینے کے قابل ہوجائیں تو کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہ دیں اور کسی دوسرے کی ترقی کو دیکھ بھی نہ سکیں اور اس کی ترقی اور … خوشحالی پر معترض ہوں اس فقرے میں یہود کی انتہائی ذہانت اور عمل کی کمزوری کا اظہار ہے۔ پھر فرمایا کہ کیا یہ لوگ اس بات سے جل رہے ہیں اور ان نعمتوں پر حسد کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے محمد (علیہ الصلوۃ والسلام) کو عطا فرمائی ہیں تو یہ بات بھی کوئی قابل حسد نہیں کیونکہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ خاندان ابراہیمی پر اللہ تعالیٰ نے مختلف نعمتیں نازل فرمائی ہیں۔ کتاب سے بھی نوازا ہے حکمت یعنی نبوت بھی ابراہیم کی اولاد میں رہی ہے اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان والوں کو بڑی بڑی سلطنتیں بھی وہی ہیں آخر یہ پیغمبر بھی اسی گھرانے کا ایک روشن چراغ ہے اگر اس کو نبوت اور قرآن دیا گیا اور عرب کے بعض حصوں پر اس کو اقتدار حاصل ہوگیا تو اس میں حسد کی کیا بات ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) ، حضرت دائود (علیہ السلام) ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) یہ سب وہ لوگ ہیں جن کو نبوت اور سلطنت عطا ہوئی تھی اور ان پیغمبروں کی بھی کئی کئی بیویاں تھیں اور یہ سب لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد تھے پھر اگر ان ہی کی اولاد میں سے آج ایک شخص کو یہ سب کچھ مل گیا تو اس پر جلے مرنا اور حسد کرنا انتہائی حماقت اور کم علمی کی دلیل ہے۔ حکمت کے معنی یہاں بعض نے نبوت کیا ہے بعض نے کتاب کا فہم کیا ہے۔ بعض اپنے بزرگوں نے علم لدنی کیا ہے۔ (واللہ اعلم) چونکہ ہر دور میں ایسا ہوتا رہا ہے کچھ لوگ اپنے پیغمبر پر ایمان لاتے رہے ہیں اور کچھ ایمان لانے سے روکتے رہے ہیں چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں بھی یہودیوں سے کچھ لوگ مسلمان ہوگئے تھے اور اکثر لوگ مخالفت پر کمر بستہ رہے اور آخر وقت تک لوگوں کو روکتے رہے۔ آگے ان کی تفصیل ہے ۔ روکنے والوں کے لئے عذاب کی وعید ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے دائمی جنت کی بشارت ہے چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔ (تسہیل)  Show more