Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 55

سورة النساء

فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ اٰمَنَ بِہٖ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ صَدَّ عَنۡہُ ؕ وَ کَفٰی بِجَہَنَّمَ سَعِیۡرًا ﴿۵۵﴾

And some among them believed in it, and some among them were averse to it. And sufficient is Hell as a blaze.

پھر ان میں سے بعض نے تو اس کتاب کو مانا اور بعض اس سے رُک گئے ، اور جہنّم کا جلانا کافی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَمِنْهُم مَّنْ امَنَ بِهِ ... Of them were (some) who believed in it; referring to Allah's favor and bounty (Prophets, Books, kingship). ... وَمِنْهُم مَّن صَدَّ عَنْهُ ... and of them were (some) who rejected it, by disbelieving in it, ignoring it, and hindering the people from its path, although this bounty was from and for them, the Children of Israel. They disputed with their own Prophets; so what about you, O Muhammad, especially since you are not from the Children of Israel. Mujahid said, فَمِنْهُم مَّنْ امَنَ بِهِ (Of them were (some) who believed in (him), "Muhammad, وَمِنْهُم مَّن صَدَّ عَنْهُ (and of them were (some) who rejected (him))." Therefore, O Muhammad, the rejection of you because of their disbelief is even more severe and they are even further from the truth that you brought them. This is why Allah threatened them, ... وَكَفَى بِجَهَنَّمَ سَعِيرًا and enough is Hell for burning (them). meaning, the Fire is a just punishment for them because of their disbelief, rebellion and defiance of Allah's Books and Messengers.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 یعنی بنو اسرائیل کو، جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریت اور آل میں سے ہیں، ہم نے نبوت بھی دی اور بڑی سلطنت و بادشاہی بھی۔ پھر بھی یہود کے سارے لوگ ان پر ایمان نہیں لائے۔ کچھ ایمان لائے اور کچھ نے اعراض کیا۔ مطلب یہ ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر یہ آپ کی نبوت پر ایمان نہیں لا رہے تو کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ ان کی تو تاریخ ہی نبیوں کی تکذیب سے بھری پڑی ہے حتّیٰ کہ اپنی نسل کے نبیوں پر بھی ایمان نہیں لائے۔ ان یہود میں سے کچھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور کچھ نے انکار کیا۔ ان منکرین نبوت کا انجام جہنم ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٧] اس آیت کے بھی دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اسحاق کی اولاد میں سے جو انبیاء مبعوث ہوتے رہے ہیں ان سب پر بھی یہود ایمان نہیں لائے تھے، بہت سے انبیاء کا انکار کردیا اور بہت سے نبیوں کو قتل بھی کردیا۔ اس لحاظ سے اس آیت کے مخاطب صرف یہود ہیں اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر بنو اسحاق کی بجائے آل ابراہیم ہی سمجھا جائے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والے تو بنو اسماعیل تھے اور انکار کرنے والے بنو اسحاق یعنی یہود و نصاریٰ وغیرہ۔ بہرحال جو بھی انبیاء کی دعوت سے انکار کرتا رہا یا دوسروں کو روکتا رہا اس کو لازماً عذاب اخروی سے دو چار ہونا پڑے گا اور اپنے اپنے جرائم کے مطابق اسے سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔ یہ لوگ دنیا میں حسد کی آگ میں جلتے رہے اور آخرت میں جہنم کی آگ میں جلتے رہیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

” اٰمَنَ بِهٖ “ میں ” بہ “ کی ضمیر ” اِیْتَاءٌ“ کی طرف بھی راجع ہوسکتی ہے جو ” آتَیْنَا “ سے مفہوم ہوتا ہے، یعنی بعض تو اس ایتائے انعام (انعام دینے) پر ایمان لے آئے اور بعض اس سے منہ موڑ گئے اور لوگوں کو بھی روکنے کی کوشش کی ( صَدَّ عَنْهُ کے دونوں معنی ہیں، منہ موڑنا اور روکنا) لہٰذا آپ ان کے کفر سے دل گیر نہ ہوں۔ (ابن کثیر) اگر اس ضمیر کا مرجع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مانا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ یہ سب کچھ دیکھ لینے کے باوجود یہود میں سے کچھ لوگ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے، لیکن اکثر نہ صرف خود ایمان نہیں لائے بلکہ جو ایمان لانا چاہتے ہیں انھیں بھی روکنا چاہتے ہیں، ایسے لوگوں کی سزا کے لیے جہنم کافی ہے۔ ( فتح القدیر۔ رازی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ بِہٖ وَمِنْھُمْ مَّنْ صَدَّ عَنْہُ۝ ٠ۭ وَكَفٰى بِجَہَنَّمَ سَعِيْرًا۝ ٥٥ صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ سعر السِّعْرُ : التهاب النار، وقد سَعَرْتُهَا، وسَعَّرْتُهَا، وأَسْعَرْتُهَا، والْمِسْعَرُ : الخشب الذي يُسْعَرُ به، واسْتَعَرَ الحرب، واللّصوص، نحو : اشتعل، وناقة مَسْعُورَةٌ ، نحو : موقدة، ومهيّجة . السُّعَارُ : حرّ النار، وسَعُرَ الرّجل : أصابه حرّ ، قال تعالی: وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] ، وقال تعالی: وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] ، وقرئ بالتخفیف «2» ، وقوله : عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] ، أي : حمیم، فهو فعیل في معنی مفعول، وقال تعالی: إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] ، والسِّعْرُ في السّوق، تشبيها بِاسْتِعَارِ النار . ( س ع ر ) السعر کے معنی آگ بھڑکنے کے ہیں ۔ اور سعرت النار وسعر تھا کے معنی آگ بھڑکانے کے ۔ مجازا لڑائی وغیرہ بھڑکانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے : ۔ استعر الحرب لڑائی بھڑک اٹھی ۔ استعر اللصوص ڈاکو بھڑک اٹھے ۔ یہ اشتعل کے ہم معنی ہے اور ناقۃ مسعورۃ کے معنی دیوانی اونٹنی کے ہیں جیسے : ۔ موقدۃ ومھیجۃ کا لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے ۔ المسعر ۔ آگ بھڑکانے کی لکڑی ( کہرنی ) لڑائی بھڑکانے والا ۔ السعار آگ کی تپش کو کہتے ہیں اور سعر الرجل کے معنی آگ یا گرم ہوا سے جھلس جانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] اور جب دوزخ ( کی آگ ) بھڑکائی جائے گی ۔ عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ تو یہاں سعیر بمعنی مسعور ہے ۔ نیز قران میں ہے : ۔ إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] بیشک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں ( مبتلا ہیں ) السعر کے معنی مروجہ نرخ کے ہیں اور یہ استعار ہ النار ( آگ کا بھڑکنا ) کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٥) یعنی داؤد (علیہ السلام) و سلیمان (علیہ السلام) کی کتاب پر ایمان لائے ہیں، مگر کعب اور اس کے ساتھیوں کے لیے تو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

87. This is in response to the malicious remarks of the Israelites. What is being said is that they had no reason to feel jealous since both the Israelites and Ishmaelites were offspring of the same Abraham. Now, the leadership of the world had been promised only to those children of Abraham who followed the Book and Wisdom revealed by God. The Book and Wisdom had been sent down earlier to the Israelites, and to their discredit they had turned away from them. The same Book and Wisdom had now been made available to the Ishmaelites and they had decided to greet it with faith and gratitude.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :87 یاد رہے کہ یہاں جواب بنی اسرائیل کی حاسدانہ باتوں کا دیا جا رہا ہے ۔ اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ آخر جلتے کس بات پر ہو ؟ تم بھی ابراہیم کی اولاد ہو اور یہ بنی اسماعیل بھی ابراہیم ہی کی اولاد ہیں ۔ ابراہیم سے دنیا کی امامت کا جو وعدہ ہم نے کیا تھا وہ آل ابراہیم میں سے صرف ان لوگوں کے لیے تھا جو ہماری بھیجی ہوئی کتاب اور حکمت کی پیروی کریں ۔ یہ کتاب اور حکمت پہلے ہم نے تمہارے پاس بھیجی تھی مگر تمہاری اپنی نالائقی تھی کہ تم اس سے منہ موڑ گئے ۔ اب وہی چیز ہم نے بنی اسمٰعیل کو دی ہے اور یہ ان کی خوش نصیبی ہے کہ وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ پس اگر آپ کی رسالت و قرآن پر بھی آپ کے زمانہ کے بعض لوگ ایمان نہ لاویں تورنج کی بات نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ بِہٖ ) (الایۃ) یعنی ان لوگوں میں سے بعض ایمان لے آئے اور بعض نے اعراض کیا۔ صاحب روح المعانی تحریر فرماتے ہیں کہ اس میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے اور مطلب یہ ہے کہ آل ابراہیم کو جو کچھ کتاب و حکمت دی گئی بعض اس پر ایمان لے آئے اور بعض منکر ہوئے اسی طرح آپ کے زمانہ کے لوگ بعض ایسے ہیں جو ایمان لے آئے اور بعض ایسے ہیں جو اعراض کر رہے ہیں۔ یہ پہلے سے ہوتا آیا ہے آپ رنجیدہ نہ ہوں جو لوگ منکر ہیں ان کے لیے دہکتی ہوئی آگ ہے جو ان کے لیے کافی ہے۔ ان کی ساری شرارتوں اور حرکتوں پر انہیں سخت ترین عذاب مل جائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

42 :۔ یہاں بیان فرمایا کہ اہل کتاب دو قسم کے لوگ تھے کچھ تو وہ تھے جو ایمان لاچکے تھے اور کچھ ایسے تھے جو ایمان نہیں لائے تھے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْھِمْ ناراً الخ یہ منکرین اہل کتاب کیلئے اخروی تخویف ہے اور وَالَّذِیْن اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْ ا الصّٰلِحٰت سَنُدْخِلُھُمْ الخ مومنین اہل کتاب کیلئے اخروی بشارت ہے یہاں تک احکام رعیت تھے اب احکام سلطانیہ کا بیان شروع ہوتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi