Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 56

سورة النساء

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِنَا سَوۡفَ نُصۡلِیۡہِمۡ نَارًا ؕ کُلَّمَا نَضِجَتۡ جُلُوۡدُہُمۡ بَدَّلۡنٰہُمۡ جُلُوۡدًا غَیۡرَہَا لِیَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۵۶﴾ الرّبع

Indeed, those who disbelieve in Our verses - We will drive them into a Fire. Every time their skins are roasted through We will replace them with other skins so they may taste the punishment. Indeed, Allah is ever Exalted in Might and Wise.

جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کُفر کیا انہیں ہم یقیناً آگ میں ڈال دیں گے جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سِوا اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں یقیناً اللہ تعالٰی غالب حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Punishment of Those Who Disbelieve in Allah's Books and Messengers Allah describes the torment in the Fire of Jahannam for those who disbelieve in His Ayat and hinder from the path of His Messengers. Allah said, إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِأيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا ... Surely, those who disbelieved in Our Ayat, We shall burn them in Fire... , meaning, We will place them in the Fire which will encompass every part of their bodies. Allah then states that their punishment and torment are everlasting, ... كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُواْ الْعَذَابَ ... As often as their skins are roasted through, We shall change them for other skins that they may taste the punishment. Al-Amash said that Ibn Umar said, "When their skin are burned, they will be given another skin in replacement, and this skin will be as white as paper." This was collected by Ibn Abi Hatim, who also recorded that Al-Hasan said, كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ (As often as their skins are roasted through), "Their skin will be roasted through, seventy thousand times every day." Husayn said; Fudayl added that Hisham said that Al-Hasan also said that, كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ (As often as their skins are roasted through), means, "Whenever the Fire has roasted them through and consumed their flesh, they will be told, `Go back as you were before,' and they will." ... إِنَّ اللّهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا Truly, Allah is Ever Most Powerful, All-Wise. The Wealth of the Righteous; Paradise and its Joy Allah said,   Show more

عذاب کی تفصیل اور نیک لوگوں کا انجام بالخیر اللہ کی آیتوں کے نہ ماننے اور رسولوں سے لوگوں کو برگشتہ کرنے والوں کی سزا اور ان کے بد انجام کا ذکر ہوا انہیں اس آگ میں دھکیلا جائے گا جو انہیں چاروں طرف سے گھیرلے گی اور ان کے روم روم کو سلگا دے اور یہی نہیں بلکہ یہ عذاب دائمی ایسا ہو گا ایک چمڑا جل گیا ... تو دوسرا بدل دیا جائے گا جو سفید کاغذ کی مثال ہو گا ایک ایک کافر کی سو سو کھالیں ہوں گی ہر ہر کھال پر قسم قسم کے علیحدہ علیحدہ عذاب ہوں گے ایک ایک دن میں ستر ہزار مرتبہ کھال الٹ پلٹ ہو گی ۔ یعنی کہدیا جائے گا کہ جلد لوٹ آئے وہ پھر لوٹ آئے گی ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت ہوئی تو آپ پڑھنے والے سے دوبارہ سنانے کی فرمائش کرتے وہ دوبارہ پڑھتا تو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں آپ کو اس کی تفسیر سناؤں ایک ایک ساعت میں سو سو بار بدلی جائے گی اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی سنا ہے ( ابن مردویہ وغیرہ ) دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا کہ مجھے اس آیت کی تفسیر یاد ہے میں نے اسے اسلام لانے سے پہلے پڑھا تھا آپ نے فرمایا اچھا بیان کرو اگر وہ وہی ہوئی جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے تو ہم اسے قبول کریں گے ورنہ ہم اسے قابل التفات نہ سمجھیں گے تو آپ نے فرمایا ایک ساعت میں ایک سو بیس مرتبہ اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے حضرت ربیع بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں پہلی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ ان کی کھالیں چالیس ہاتھ یا چھہتر ہاتھ ہوں گی اور ان کے پیٹ اتنے بڑے ہوں گے کہ اگر ان میں پہاڑ رکھا جائے تو سما جائے ۔ جب ان کھالوں کو آگ کھا لے گی تو اور کھالیں آ جائیں گی ایک حدیث میں اس سے بھی زیادہ مسند احمد میں ہے جہنمی جہنم میں اس قدر بڑے بڑے بنا دیئے جائیں گے کہ ان کے کان کی نوک سے کندھا سات سو سال کی راہ پر ہوگا اور ان کی کھال کی موٹائی ستر ذراع ہوگی اور کچلی مثل احد پہاڑ کے ہوں گی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد کھال سے لباس ہے لیکن یہ ضعیف ہے اور ظاہر لفظ کے خلاف ہے اس کے مقابلوں میں نیک لوگوں کے انجام کو بیان کیا جاتا ہے کہ وہ جنت عدن میں ہوں گے جس کے چپے چپے پر نہریں جاری ہوں گی جہاں چاہیں انہیں لے جائیں اپنے محلات میں باغات میں راستوں میں غرض جہاں ان کے جی چاہیں وہیں وہ پاک نہریں بہنے لگیں گی ، پھر سب سے اعلیٰ لطف یہ ہے کہ یہ تمام نعمتیں ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہوں گی نہ ختم ہوں گی پھر ان کے لئے وہاں حیض و نفاس سے گندگی اور پلیدی سے ، میل کچیل اور بو باس سے ، رذیل صفتوں اور بےہودہ اخلاق سے پاک بیویاں ہوں گی اور گھنے لمبے چوڑے سائے ہوں گے جو بہت فرحت بخش بہت ہی سرور انگیز راحت افزا دل خوش کن ہوں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے تلے ایک سو سال تک بھی ایک سوار چلا جائے تو اس کا سایہ ختم نہ ہو یہ شجرۃ الخلد ہے ( ابن جزیر )   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 یعنی جہنم میں اہل کتاب کے منکرین ہی نہیں جائیں گے بلکہ دیگر تمام کفار کا ٹھکانہ بھی جہنم ہی ہے۔ 56۔ 2 یہ جہنم کے عذاب کی سختی، تسلسل اور دوام کا بیان ہے۔ صحابہ کرام سے منقول بعض آثار میں بتلایا گیا ہے۔ کھالوں کی تبدیلی دن میں بیسیوں بلکہ سینکڑوں مرتبہ عمل میں آئے گی اور مسند احمد کی روایت کی ر... و سے جہنمی جہنم میں اتنے فربہ ہوجائیں گے کہ ان کے کانوں کی لو سے پیچھے گردن تک کا فاصلہ سات سو سال کی مسافت جتنا ہوگا، ان کی کھال کی موٹائی ستر بالشت اور ڈاڑھ احد پہاڑ جتنی ہوگی۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٨] کھالوں کی تبدیلی اس لیے کی جائے گی کہ ان کی تکلیف میں کمی کی بجائے کچھ اضافہ ہی ہوتا رہے کیونکہ جلی ہوئی کھال کو جلانے سے تکلیف نسبتاً کم ہوتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا : یہاں بتایا کہ یہ سزا اہل کتاب کے ایک گروہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ سب کفار کو ملے گی۔ (رازی) (بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَيْرَھَا ) سے اہل جہنم کے عذاب کی سختی بیان کرنا مقصود ہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اتنی تیز آگ میں ان کے چمڑے ایک ایک لمحے میں کتنی کتنی...  بار جل کر دوبارہ تبدیل ہوں گے، البتہ یہ تو صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جہنمیوں کا جسم بہت بڑھا دیا جائے گا، حدیث میں ہے : ” کافر کے کان کی کونپل اور کندھے کے درمیان ستر سال کا فاصلہ ہوگا۔ “ [ أحمد (٢؍١١٦، ١١٧، ح : ٢٤٩٠٩ و سندہ صحیح۔ ہدایۃ المستنیر ھدایۃ المستنیر ] اور اسی طرح فرمایا : ” کافر کی داڑھ احد پہاڑ کے برابر ہوگی اور اس کی جلد کی موٹائی تین دن کے فاصلے کے برابر ہوگی۔ “ [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا و أھلھا : ٢٨٥١ ] اس طرح انھیں دائمی عذاب ہوتا رہے گا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Particular believers and disbelievers were mentioned in the previous verses. Stated now is the reward and punishment of a believer and a disbeliever as a universal rule. Commentary Explaining the highly apocalyptic statement كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم بَدَّلْنَاهُمْ in verse 56, Sayyidna Mu` adh (رض) says that as soon as their skin is burnt out it will be replaced - and this will be with such s... peed that the skin will be replaced a hundred times in one moment. Sayyidna Hasan al-Basri (رح) says: تاکل النار کلّ یوم سبعین الف مرّۃ کلما اکلتھم قیل لھم : عودوا فیعودون کما کانوا (اخرج البیھقی عین الحسن بحوالہ مظھری ج 2) |"The fire will eat them everyday seventy thousand times. When it would have eaten them up, they will be commanded: &Return’. So, they shall return to be as they were.|" (al-Baihaqi, as quoted by Mazhari) According to a narration in al-Bukhari and Muslim, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: عن انبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال : ان اھون اھل النار عذابا رجل فی اخمص قدمیہ جمرتان یغلی منھما دماحہ کما یغلی الرجل بالقمقم (رواہ البخاری و مسلم ، بحوالہ الترغیب و الترھیب ج 4 ص 239) |"Lightest in punishment among the people of fire will be the man in the sole of whose feet there will be two smoldering embers the heat from which will keep his brain boiling like a cauldron boiling to the brim.|" (Almundhiri, al-Targhib v.4, p.239) An explanation of &purified wives& According to Hakim, Sayyidna Abu Said al-Khudri (رض) narrated that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: The women of Jannah will be pure, that is, pure from menstruation, defecation, urination and nasal mucus. Mujahid adds to the above by saying: They shall also be &pure and free from procreation and seminal impurity.& (Mazhari) Let us now look at the last two words: ظِلًّا ظَلِيلًا in verse 57. Here, by mentioning ظلیل after ظل it has been mentioned that the shade in Jannah will be dense and ever-present. This is like saying: شَمسُ شَامِسُ or لیللُ لِیٔیلُ which indicate that the blessings of Paradise will last forever. Sayyidna Abu Hurairah narrates that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: اِن فی الجنۃ الشجرۃ یسیر الراکب فی ظلھا مأۃ عام ما یقطعھا، اقروا إن شٔتم و ظل ممدود |"There is a tree in Paradise. If a rider were to ride under its shade for a hundred years, he will still not cross it. Read, if you wish, وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ (A shade, ever-extended, ever-stretched).|" Explaining ظِلًّا ظَلِيلًا ، Rabi& ibn Anas said: ھو ظل العرش الذی لا یزول |"That is the shade of the Throne (al-&arsh) which will never decline.|"  Show more

خلاصہ تفسیر بلاشک جو لوگ ہماری آیات (و احکام) کے منکر ہوئے (ہم ان کو) عنقریب ایک سخت آگ میں داخل کریں گے (اور وہاں ان کی برابر یہ حالت رہے گی کہ) جب ایک دفعہ ان کی کھال (آگ سے) جل چکے گی تو ہم اس پہلی کھال کی جگہ فوراً دوسری (تازہ) کھال پیدا کر دینگے تاکہ (ہمیشہ) عذاب ہی بھگتتے رہیں (کیونکہ پہلی ک... ھال میں جلنے کے بعد شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید اس میں ادراک و احساس نہ رہے اس لئے شبہ قطع کرنے کے یہ سنا دیا) بلاشک اللہ تعالیٰ زبردست ہیں (کہ وہ ایسی سزا دے سکتے ہیں اور) حکمت والے ہیں (اس لئے باوجود قدرت کے جلی ہوئی کھال کو تکلیف پہنچا سکتے ہیں، پھر بھی کسی حکمت سے بدل دیا جیسے کہ ایک حکمت کا بیان ابھی ہوا ہے) اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے ہم ان کو عنقریب ایسے باغوں میں داخل کرینگے کہ ان کے (محلات) کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ان کے واسطے ان (باغوں) میں پاک صاف بیبیاں ہوں گی اور ہم ان کو نہایت گنجان سایہ (کی جگہ) میں داخل کریں گے۔ معارف ومسائل حضرت معاذ کلما نضجت جلودھم بدلنھم کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب ان کی کھال جل چکے گی تو اس کو تبدیل کیا جائے گا اور یہ کام اتنی سرعت سے ہوگا کہ ایک ساعت میں سو مرتبہ کھال تبدیل کی جائے گی۔ ” آگ ایک دن میں ستر ہزار مرتبہ ان کو کھائے گی، جب ان کو کھاچکے گی تو ان لوگوں کو کہا جائے گا کہ تم پھر پہلی حالت پر لوٹ جاؤ، پس وہ لوٹ جائیں گے۔ “ ” نبی (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اہل جہنم میں سب سے کم عذاب کے اعتبار سے وہ آدمی ہوگا جس کے تلووں میں آگ کی دو چنگاریاں ہوں گی جن کی وجہ سے اس کا دماغ ہانڈی کی طرح کھولتا ہوگا۔ “ (رواہ البخاری و مسلم، بحوالہ الترغیب و الترھیب ج ٤ ص ٩٣٢) ازواج مطھرة کی تفسیر :۔ حاکم نے ابوسعید خدری سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جنت کی عورتیں پاک ہوں گی، یعنی وہ حیض، بول وبراز اور ناک سے بہنے والی کدورت سے پاک ہوں گی۔ حضرت مجاہد نے مذکوروہ چیزوں پر اضافہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ بچے پیدا کرنے اور ناپاک نطفہ سے بھی پاک ہوں گی۔ (مظہری) ظلا ظلیلاً ظل کے بعد ظلیل کا لفظ ذکر کر کے اشارہ کردیا کہ وہ سایہ ہمیشہ رہنے والا ہوگا اور گھنا سایہ ہوگا جیسا کہ کہا جاتا ہے شمس شامس اور لیل لئیل اس سے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جنت کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہوں گی۔ ” حضرت ابوہریرہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ تحقیق جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے سایہ کو ایک سوار سو سال میں بھی طے نہ کرسکے گا اگر آپ چاہیں تو یہاں آیت وظل ممدو پڑھیں۔ “ ربیع بن انس نے ظلا ظلیلاً کی تفسیر میں فرمایا ھو ظل العرش الذی لایزول ” یعنی وہ سایہ عرش کا سایہ ہے جو کبھی زائل نہیں ہوگا۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِيْہِمْ نَارًا۝ ٠ۭ كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَيْرَھَا لِيَذُوْقُوا الْعَذَابَ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَزِيْزًا حَكِــيْمًا۝ ٥٦ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أ... درک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ سوف سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو : سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ : شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر : إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه . ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ نضج يقال : نَضَجَ اللَّحْمُ نُضْجاً ونَضْجاً : إذا أدْرَكَ شَيّه . قال تعالی: كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها[ النساء/ 56] ، ومنه قيل : ناقة مُنَضِّجَةٌ: إذا جاوزتْ بحَمْلها وقتَ وِلادَتِهَا، وقد نَضَّجَتْ ، وفلان نَضِيجُ الرَّأْي : مُحْكَمُهُ ( ن ض ج ) نضج الاحم ( ض ) نضجا ونضجا کے معنی گوشت کے پوری طرح پک جانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها[ النساء/ 56] جب ان کی کھالیں گل اور جل بائیں گی تو ہم اور کھالیں بدل دیں گے ۔ اسی سے ناقۃ منضجۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی حاملہ اونٹنی کے مدت دلادت سے تجاوز کر جانے کے ہیں ۔ اور پختہ رائے آدمی کو نضیج الراء ی کہا جاتا ہے ۔ جلد الجِلْد : قشر البدن، وجمعه جُلُود . قال اللہ تعالی: كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها [ النساء/ 56] ، وقوله تعالی: اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 23] . والجُلُود عبارة عن الأبدان، والقلوب عن النفوس . وقوله عزّ وجل : حَتَّى إِذا ما جاؤُها شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِما کانُوا يَعْمَلُونَ [ فصلت/ 20] ، وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت/ 21] ، فقد قيل : الجلود هاهنا کناية عن الفروج «2» ، وجلَدَهُ : ضرب جلده، نحو : بطنه وظهره، أو ضربه بالجلد، نحو : عصاه إذا ضربه بالعصا، وقال تعالی: فَاجْلِدُوهُمْ ثَمانِينَ جَلْدَةً [ النور/ 4] . والجَلَد : الجلد المنزوع عن الحوار، وقد جَلُدَ جَلَداً فهو جَلْدٌ وجَلِيد، أي : قويّ ، وأصله لاکتساب الجلد قوّة، ويقال : ما له معقول ولا مَجْلُود أي : عقل وجَلَد . وأرض جَلْدَة تشبيها بذلک، وکذا ناقة جلدة، وجَلَّدْتُ كذا، أي : جعلت له جلدا . وفرس مُجَلَّد : لا يفزع من الضرب، وإنما هو تشبيه بالمجلّد الذي لا يلحقه من الضرب ألم، والجَلِيد : الصقیع، تشبيها بالجلد في الصلابة . ( ج ل د ) الجلد کے معنی بدن کی کھال کے ہیں اس کی جمع جلود آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها [ النساء/ 56] جب ان کی کھالیں گل ( اور جل ) جائیں گی تو ہم اور کھالیں بدل دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 23] اور خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں ( یعنی ) کتاب ) جس کی آیتیں باہم ) ملتی جلتی ( ہیں ) اور دہرائی جاتی رہیں ) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے اس سے رونکتے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ پھر ان کے بدن اور دل نرم ( ہوکر ) کی یاد کی طرف ( متوجہ ) ہوجاتے ہیں ۔ میں جلود سے مراد ابدان اور قلوب سے مراد نفوس ہیں اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذا ما جاؤُها شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِما کانُوا يَعْمَلُونَ [ فصلت/ 20] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو ان کان اور آنکھیں اور چمڑے ( یعنی دوسرے اعضا ) ان کے خلاف ان کے اعمال کی شہادت دیں گے اور وہ اپنے چمڑوں ( یعنی اعظا ) سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں کیوں شہادت دی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ جلود سے فروج یعنی شرمگاہ ہیں مراد ہیں ۔ جلدۃ ( ض ) کیس کے چمڑے پر مارنا ۔ جیسے اور اس کے دوسرے معنی درے لگانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے عصاہ ( یعنی لاٹھی کے ساتھ مارنا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمانِينَ جَلْدَةً [ النور/ 4] تو ان کے اسی اور سے مارو ۔ الجلد والجلد اونٹنی کے بچہ کی بھس بھری ہوئی کھال ۔ جلد ( ک ) جلدا کے معنی قوی ہونے کے ہیں صیغہ صفت جلدۃ وجلدۃ ہے اور اس کے اصل معنی اکتساب الجلدۃ قوۃ یعنی بدن میں قوت حاصل کرنے گے ہیں ۔ محاورہ ہے ؟ ۔ مالہ معقول ولا مجلود اس میں نہ عقل ہے نہ قوت ۔ اور تشبیہ کے طور پر سخت کو اوض جلدۃ کہا جاتا ہے اس طرح قوی اونٹنی کو ناقۃ جلدۃ کہتے ہیں ۔ جلذت کذا میں نے اس کی جلد باندھی ۔ فرس مجلہ مار سے نہ ڈرونے والا گھوڑا یہ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے کیونکہ مجلد اس شخص کو کہتے ہیں جسے مارنے سے دور نہ ہو الجلید پالا یخ گویا صلابت میں چمڑے کے متشابہ ۔ بدل الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (کلمانضجت جلودھم بدلنا ھم جلوداغیرھا، جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے ) اس کی تفسیر میں ایک قول ہے اللہ تعالیٰ جل جانے والی کھالوں کی جگہ نئی کھالیں پیدا کردے گا، اس تفسیر کے قائلین وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ کھال انسان کا حصہ نہیں ہوتی ، بلکہ گوشت...  اور ہڈیاں بھی انسان کی جز نہیں ہوتیں، انسان اس روح کا نام ہے جس نے اس بدن کو اپنالباس بنارکھا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ کھال انسان کا حصہ ہے اور انسان سر سے پیر تک موجود شخص کا نام ہے اس کے نزدیک آیت زیر بحث کی تفسیر یہ ہے کہ کھالوں کی اس طرح تجدید ہوگی کہ انہیں اس حالت پر لایاجائے گا جس پر جل جانے سے پہلے تھیں جس طرح اگر ایک انگوٹھی کو توڑ کر اس سے دوسری انگوٹھی بنائی جائے توکہاجائے گا یہ انگوٹھی اس پہلی انگوٹھی سے مختلف ہے یا جس طرح کوئی شخص اپنی قمیص کو قطع کرکے قباء کی شکل دے دے توکہاجائے گا کہ یہ لباس اس پہلے لباس کا غیر یعنی مختلف ہے۔ بعض کا قول ہے تبدیلی ان کی کھالوں میں واقع نہیں ہوگی بلکہ ان کرتوں کی ہوگی جو انہوں نے پہن رکھے ہوں گے لیکن یہ بہت ہی بعد تاویل ہے کیونکہ کرتے کھال نہیں کہلاتے ۔ واللہ اعلم۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٦) اور جو لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں، ہم آخرت میں ان کو دوزخ میں داخل کریں گے، جب ان کے بدن جل جائیں گے تو ہم انہیں دوسری کھالیں دیں گے تاکہ درد کی شدت معلوم ہو، اللہ تعالیٰ ان کھالوں کی تبدیلی کرنے میں بڑی حکمت والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْہِمْ نَارًا ط) (کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنٰہُمْ جُلُوْدًا غَیْرَہَا) (لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ ط) یہ بھی ایک بہت بڑی حقیقت ہے جسے میڈیکل سائنس نے دریافت کیا ہے کہ درد کا احساس انسان کی کھال (skin) ہی میں ہے۔ اس کے نیچے گوشت ... اور عضلات وغیرہ میں درد کا احساس نہیں ہے۔ کسی کو چٹکی کاٹی جائے ‘ کانٹا چبھے ‘ چوٹ لگے یا کوئی حصہ جل جائے تو تکلیف اور درد کا سارا احساس جلد ہی میں ہوتا ہے۔ چناچہ ان جہنمیوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ جب بھی ان کی کھال آتش جہنم سے جل جائے گی تو اس کی جگہ نئی کھال دے دی جائے گی تاکہ ان کی تکلیف اور سوزش مسلسل رہے ‘ جلن کا احساس برقرار رہے ‘ اس میں کمی نہ ہو۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(56 ۔ 57) ۔ اوپر ذکر تھا کہ بدلوگوں کے لئے جہنم کی دہکتی آگ کی سزا کافی ہے اس پر یہ خیال گذر سکتا تھا کہ جب ایک دفعہ دہکتی آگ میں دوخیوں کا گوشت پوست جل جائے گا۔ تو پھر اسی جلی ہوئی کھال پر شاید آگ کی تکلیف کچھ کم ہوجائے گی کیونکہ جلی کھائی مردار ہوجاتی ہے اس لئے فرمایا کہ اللہ کی آیتوں کے منکر لوگو... ں کی کھال جب دوزخ میں جل کر مردار ہوجائے گی تو عذاب کی تکلیف قائم رہنے کے لئے فورًا تازہ کھال بدل جائے گی۔ بیہقی ‘ تفسیر ابن ابی حاتم ‘ تفسیر ابن مردویہ میں حضرت عمر (رض) اور عبد اللہ بن عمر (رض) اور معاذ بن جبل (رض) سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ تھوڑی سی دیر میں دوزخیوں کی کھائیں کئی دفعہ بدلی جائیں گی ١۔ یہ ان لوگوں کا حال جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے منکر ہونے کے سبب سے ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے ہیں جو لوگ دوزخ سے نکل کر جنت میں داخل ہونے والے ہیں ان کی کھال نہیں بدلی جائے گی بلکہ وہ ایک دفعہ کے جلنے میں مر کر کوئلے ہوجائیں گے پر ان کوئلوں میں نہر حیات میں غوطہ دیا جائے گا۔ جس سے وہ زندہ ہوجائیں گے اور ان کو جنت میں جانے کا حکم ہوگا۔ چناچہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی شفاعت کی ابو سعید خدری (رض) کی حدیث میں اس کا ذکر ہے ٢۔ عزیزا حکیما کا یہ مطلب ہے کہ اللہ ایسا زبر دست ہے کہ اس کے عذاب کو کوئی روک نہیں سکتا۔ صاحب حکم توہ ایسا ہے کہ اس نے ہر ایک سزا جرم کے موافق مقرر کی ہے کسی کی کھال عذاب کی تکلیف بڑھانے کے لئے بدلی جائے گی کوئی دوزخ کے پہلے ہی جھونکے میں جل کر کوئلہ ہوجائے گا۔ تاکہ دیر تک جلنے کی تکلیف نہ ہو اہل دوزخ کے مقابلہ میں اب آگے اہل جنت کا ذکر فرمایا کہ ان کے رہنے کو عالی شان محل عمدہ باغ جن میں نہریں جاری ہیں ان محلوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے جہاں ان کو نہ بیماری کا کھٹکا ہے نہ موت کا ان کی صحبت کے لئے حیض و نفاس اور سب عیبوں سے پاک بیبیاں ہوں گے جنت کے محلوں اور باغوں کے گھنے درختوں کی چھاؤں ہوگی جس میں وہ بیٹھیں گے۔ اگرچہ جنت میں دھوپ نہ ہوگی جس سے بچنے کیلئے سایہ درکار ہو لیکن زیادہ ٹھنڈک کے لئے اس سایہ میں جنتی لوگ بیٹھیں گے۔ عرب کے بےسایہ ملک میں سایہ کی بڑی قدر ہے اس لئے خاص طور پر سایہ کا ذکر فرمایا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:56) نصلیہم۔ ہم ان کو داخل کریں گے۔ نیز ملاحظہ ہو (4:30) کلما۔ کل اور ما سے مرکب ہے۔ اس ترکیب میں ظرفیت کی وجہ سے لفظ کل ہمیشہ منصوب رہتا ہے۔ اس میں ظرفیت ما کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ ما حرف مصدر ہی ہے یا اسم نکرہ ہے۔ بمعنی وقت کے۔ اکثر کلما کے بعد فعل ماضی آتا ہے۔ کلما اضاء لہم مشوا فیہا (2... :20) اور آیۃ ہذا۔ نضجت۔ واحد مؤنث غائب۔ ماضی معروف نضج مصدر (سمع) پک جائیں گی (ان کی کھالیں) ناضج۔ پکا ہوا گوشت۔ پکا ہوا پھل۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اٰ من بہ میں بہ کی ضمیر ایتا کی طرف بھی راجع کرسکتی ہے جو اتینا سے مفہوم ہوتا ہے یعنی بعض تو اس ایتا انعام پر ایمان لے آئے اور بعض نے اعراض کیا اور لوگوں کو بھی روکنے کوشش کی، لہذ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے کفر سے لگیر نہ ہوں (ابن کثیر) اور اگر اس ضمیر کا مرجع آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآ... لہ وسلم) کو مانا چائے تو معنی یہ ہوں گے کہ یہ سب کچھ دیکھ لینے کے باوجود یہود میں سے کچھ لوگ تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا چاہتے ہیں انہیں بھی روکنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سزا کے لیے جہنم کافی ہے۔ ْ ( فتح القدیر۔ کبیر) یہاں بتا کہ یہ سزا صرف اہل کتاب کے ایک گروہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ سب کفار کو ملے گی ، (کبیر) بدلناھم جود اغیر ھا سے اہل جہنم کے عذاب کی سختی بیان کرنی مقصود ہے بعض آثار و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دن میں سینگڑو مرتبہ چمڑوں کی یہ حالت تبدیل ہوگی اران کے چمڑے ستر گز مو ٹے ہوں گے اور ایک جہنمی کی ڈاڑھ احد کی مثل ہوگی۔ اس طرح ان کو دئمی عذاب ہوتا رہے گا ، (ابن کثیر۔ کبیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ کیونکہ پہلی کھال میں جلنے کے بعد شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید اس میں ادراک نہ رہے اس لیے شبہ قطع کرنے کے لیے یہ سنا دیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب بالخصوص یہودی حسد کی بنا پر اسلام اور مسلمانوں سے عداوت رکھتے ہیں لہٰذاحاسدوں اور منکروں کا انجام بیان ہوتا ہے۔ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ قرآن مجید کا یہ مستقل اسلوب ہے کہ برے لوگوں کے مقابلے میں نیک لوگوں کا اور جہنم کی سزاؤں کے مقابلے میں جنت کی عطاؤں کا ذکر کرتا ہے۔ ... تاکہ قرآن کی تلاوت کرنے والا اپنے انجام کا موقع پر ہی فیصلہ کرسکے۔ چناچہ جو لوگ کفر کی حالت میں کوچ کریں گے وہ مرنے کے بعد جہنم کے گھاٹ اتریں گے۔ جہاں ان کو آگ میں جلایا جاتا رہے گا۔ جب ان کی چمڑیاں جل جائیں گی تو سزا کے لیے ان کے جسموں کو باربار تبدیل کیا جائے گا تاکہ ان کو پوری پوری سزا مل سکے۔ وہ جہنم سے بھاگ سکیں گے اور نہ ہی جل کر راکھ ہوں گے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضِرْسُ الْکَافِرِ مِثْلُ أُحُدٍ وَغِلْظُ جِلْدِہٖ مَسِیْرَۃُ ثَلَاثٍ ) [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ، باب النار یدخلھا الجبارون والجنۃ یدخلھا الضعفاء ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کافر کی ڈاڑھ احد پہاڑ کے برابر اور اس کی جلد تین دن کی مسافت کے مساوی موٹی ہوگی۔ “ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَابَیْنَ مَنْکِبَی الْکَافِرِمَسِیْرَۃَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ للرَّاکِبِ الْمُسْرِعِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا کافر کے دونوں کندھوں کا درمیانی فاصلہ تیز ترین گھوڑے کے تین دن دوڑنے کے برابر ہوگا۔ “ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً مِنْ نَارِ جَھَنَّمَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَّ سِتِّیْنَ جُزْءً کُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا) [ متفق علیہ : وَاللَّفْظُ لِلْبُخَارِیِّ ] وَفِیْ رِوَایَۃِ مُسْلِمٍ نَارُکُمُ الَّتِیْ یُوْقِدُ ابْنُ اٰدَمَ وَفِیْھَاعَلَیْھَا وَکُلُّھَا بَدَلَ عَلَیْھِنَّ وَکُلُّھُنَّ ۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری آگ، دوزخ کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک ہے آپ سے عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول ! جلانے کو تو دنیا کی آگ ہی کافی تھی۔ آپ نے فرمایا دوزخ کی آگ کو دنیا کی آگ سے انہتر ڈگری بڑھا دیا گیا ہے۔ ہر ڈگری دنیا کی آگ کے برابر ہوگی۔ (بخاری و مسلم) یہ بخاری کے الفاظ ہیں اور مسلم کی روایت میں ہے ‘ کہ تمہاری آگ جسے ابن آدم جلاتا ہے۔ نیز اس میں عَلَیْھِنَّ وَکُلُّھِنَّ کی بجائے عَلَیْہَا وَ کُلُّھَا کے الفاظ ہیں۔ “ (عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ أَھْوَنَ أَھْلِ النَّارِ عَذَابًامَّنْ لَّہٗ نَعْلَانِ وَشِرَاکَانِ مِنْ نَّارٍ یَغْلِیْ مِنْھُمَا دِمَاغُہٗ کَمَایَغْلِی الْمِرْجَلُ مَایَرٰی أَنَّ أَحَدًا أَشَدُّمِنْہُ عَذَابًا وَّإِنَّہٗ لَأَھْوَنُھُمْ عَذَابًا) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب أھون أھل النار عذابا ] ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ یقیناً دوزخیوں میں سب سے معمولی عذاب پانے والے کے پاؤں میں آگ کے جوتے اور تسمے ہوں گے۔ جس کی وجہ سے اس کا دماغ ہنڈیا کی طرح کھول رہا ہوگا۔ وہ یہ خیال کرے گا کہ کسی دوسرے شخص کو اس سے زیادہ عذاب نہیں ہو رہا ‘ حالانکہ وہ سب سے ہلکے عذاب میں مبتلا ہوگا۔ “ مسائل ١۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والوں کو جہنم میں جلایا جائے گا۔ ٢۔ ان کی کھالوں کو بار بار بدلا جائے گا تاکہ ان کو پوری پوری سزا مل سکے۔ تفسیر بالقرآن عذاب کی مختلف شکلیں : ١۔ آنتوں اور کھالوں کا بار بار گلنا۔ (النساء : ٥٦) ٢۔ دوزخیوں کی کھال کا بار بار بدلنا۔ (الحج : ٢٠) ٣۔ کانٹے دار جھاڑیوں کا کھانا۔ (الغاشیہ : ٦) ٤۔ لوہے کے ہتھوڑوں سے سزا پانا۔ (الحج : ٢١، ٢٢) ٥۔ کھانا گلے میں اٹک جانا۔ (المزمل : ١٣) ٦۔ دوزخیوں کو کھولتا ہوا پانی دیا جانا۔ (الانعام : ٧٠) ٧۔ دوزخیوں کو پیپ پلایا جانا۔ (النبا : ٢٥) ٨۔ آگ کا لباس پہنایا جانا۔ (الحج : ١٩)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٥٦ تا ٥٧۔ (آیت) ” نضجت جلودھم بدلنھم جلودا غیرھا “۔ (٤ : ٥٦) ” اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے ‘۔ یہ ایک ایسا منظر ہے جو مسلسل چلتا ہے ۔ ایک ایسا منظر جو نظروں کے سامنے ہے اور بار بار دہرایا جارہا ہے نظریں اس کے اوپر جم جاتی ہیں ۔ خیال ایک جگہ...  مرکوز ہوجاتا ہے ۔ اور اس سے ادھر ادھر نہیں ہوتا ۔ یہ یقینا ایک خوفناک منظر ہے ‘ اس کی خوفناکی فکر ونظر کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے ۔ اس مسلسل اور خوفناک منظر کو صرف ایک لفظ اسکرین پر لاتا ہے یہ لفظ (کلما) ہے ۔ اور یہ منظر صرف فقرے کے ایک حصے کے ذریعہ خوفناک اور ہولناک بن جاتا ہے ۔ (کلما نضجت جلودھم ) اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی ۔ “ اس کے بعد جملے کے دوسرے حصے میں اس عمل کو خارق عادت عمل اور تعجب انگیز کردیا جاتا ہے ۔ (آیت) ” بدلنھم جلودا غیرھا “۔ ” تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے ۔ “ اور یہ تمام ہولناک مناظر اور خوفناک عمل اور عجیب اور معجزانہ منظر صرف ایک جملہ شرطیہ کے اندر تمام ہوتا ہے صرف ایک جملہ میں ۔ یہ کفار کے لئے مناسب اور منصفانہ جزاء ہے ” تاکہ وہ عذاب کا مزہ چکھیں ۔ “ (آیت) ” لیذوقوا العذاب “۔ اللہ تعالیٰ ہر سزا دینے پر قادر ہے اور سزا سنانے میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ۔ (آیت) ” ان اللہ کان عزیزا حکیما “۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور اپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت خوب جانتا ہے ۔ کفار کے لئے اس بھڑکتی ہوئی خوفناک جہنم کے مقابلے میں مومنوں کا انعام کیا ہے ۔ ان جلتی ہوئی کھالوں ‘ بھونی جانے والی کھالوں کے مقابلے میں کہ جب وہ گل جائیں تو بدل جائیں اور از سر نو جلنے لگیں اور از سر نو تعذیب شروع ہو ۔ اس خوفناک منظر اور اس کربناک مشاہدے کے مقابلے میں مومنوں کا انعام واکرام کیا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں۔ (آیت) ” والذین امنوا وعملوا الصلحت “۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا اور نیک عمل کئے “ وہ تروتازہ باغات میں ہوں گے ۔ (آیت) ” جنت تجری من تحتھا الانھر “ ۔ ’‘’ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔ “ اور یہ منظر نہایت پرسکون ‘ دائمی اور اطمینان بخش ہوگا ۔ (آیت) ” خلدین فیھا ابدا “۔ ” جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ “ ۔۔۔۔۔ ان باغات مین ان کو پاکیزہ بیویاں میسر ہوں گی ۔ (آیت) ” ازواج مطھرۃ “۔ اور ان باغات میں گھنی چھاؤں نظر آتی ہے نہایت ہی خوشگوار (آیت) ” وندخلھم ظلا ظلیلا “۔ ” اور ہم انہیں گھنی چھاؤں میں رکھیں گے ۔ “ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک پہلے تھا جزاء کا منظر ‘ ایک یہ جزاء کا منظر ہے ۔ اور یہ منظر مشاہدات میں بھی ‘ تصاویر میں بھی اور اثرات میں بھی پہلے منظر کا عین مقابل ہے ۔ مناظر قیامت کے بیان میں قرآن کا یہی انداز ہوتا ہے کہ اس میں گہرے اشارے ہوتے ہیں اور موثر اور گہرے اثرات ہوتے ہیں ‘ جو ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ درس ٣٥ ایک نظر میں : یہ سبق نہایت ہی اہم موضوع پر مشتمل ہے اور یہ موضوع امت مسلمہ کی زندگی کا اساسی موضوع ہے ۔ اس میں ایمان کی شرائط اور ایمان کی تعریف بیان کی گئی ہے وہ ایمان جو اس امت کے نظام اساسی کی صورت میں ظاہر ہو ‘ اس موضوع کی اہمیت ایک تو اس کے نفس مضمون کی وجہ سے ہے اور دوسرے نظام اساسی کے ساتھ اپنے طریقہ ارتباط اور امتزاج کی وجہ سے بھی یہ اہم ہے ۔ قرآن کریم نے اس امت کو وجود بخشا اور اس کی تربیت کی ۔ اس امت کو پوشیدگی سے نکالا گیا ‘ یا عدم سے وجود کی طرف نکالا گیا اور قرآن کریم نے اس کے لئے نہایت ہی جامع انداز تعبیر استعمال کیا ۔ (آیت) ” کنتم خیر امۃ اخرجت للناس “۔ (٣ : ١١) ” تم خیر امت تھے اور تمہیں لوگوں کے لئے نکالا گیا ۔ “ غرض قرآن نے اس مت کو وجود بخشا ‘ اس لئے کہ وہ قرآن سے پہلے موجود نہ تھی ۔ پھر اس نے اس کی تربیت کی تاکہ وہ تاریخ انسانیت میں بےمثال امت بن جائے ۔ اور خیر امت ہو اور (آیت) ” اخرجت اللناس “۔ ” اسے لوگوں کیلئے نکالا گیا ۔ “ بات آگے بڑھانے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اس حقیقت کی ذرا وضاحت کردیں کہ قرآن نے اس امت کو کس طرح پیدا کیا اور کیسے تربیت دی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس امت کا پیدا کیا جانا اور پھر اس کو تربیت دیا جانا ‘ اس کیلئے ایک نیاجنم تھا۔ بلکہ یہ پوری انسانیت کے لئے ایک نیا جنم تھا ۔ اس امت کے آنے کے بعد ‘ انسانیت بالکل ایک نئی شکل میں سامنے آئی ۔ یہ امت ترقی کی راہ میں ایک مرحلہ نہ تھی ‘ نہ ارتقاء کی منازل میں سے ایک منزل تھی ۔ نہ یہ ترقیاتی عمل میں ایک لانگ جمپ تھی بلکہ یہ امت دراصل امت عربیہ اور پھر پوری انسانیت کے لئے ایک نیا جنم تھی ۔ جب ہم جاہلیت کے دور کے اشعار پر نظر ڈالتے ہیں اور جاہلیت کے دور کے اکا دکا آثار کا مطالعہ کرتے ہیں جو درحقیقت عربوں کا دیوان ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں عربوں کا نظریہ حیات ‘ ان کا نظریہ کائنات ‘ انکا نظریہ اخلاق اور سماجی طرز عمل ریکارڈ ہوا ہے ۔ اور یہ ان کے دائمی اور بنیادی تصورات ہیں۔ ان اشعار میں انکی زندگی کے نشانات ‘ ان کے قومی جذبات اور انکے تصورات کا کل اثاثہ موجود ہے ۔ ان کی تہذیب و تمدن کا خلاصہ بھی ان کے اندر ریکارڈ شدہ ہے ۔ غرض عربوں کی مکمل شخصیت ان جاہلی اشعار اور دوسرے اکا دکا آثار میں موجود ہے ۔ ہم عربوں کے اس دیوان میں ان کے تصورات اور انکے علم و ثقافت کا مجموعہ دیکھتے ہیں اور ان کے اس دیوان میں موجود انکی اقدار کا جائزہ قرآن کریم کی روشنی میں لیتے ہیں ‘ پھر ہم ‘ وجود ‘ زندگی ‘ کائنات اور انسان کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو دیکھتے ہیں اور ان کے نظام معاشرت اور وجود انسانی کے مقاصد کے بارے میں ان کے تصورات ‘ اور ان تصورات کی اساس پر ان کی عملی تنظیم کو دیکھتے ہیں ‘ پھر ہم عربوں کی عملی صورت حال کا جائزہ قبل از اسلام اور بعد از اسلام لیتے ہیں اور یہ تقابلی جائزہ ان تصورات کی روشنی میں لیتے ہیں جو ان کے اس دیوان کے اندر پائے جاتے ہیں اور پھر اس کا تقابل ان حالات سے کرتے ہیں جو قرآنی تصورات کے تحت عربی معاشرے میں پیدا ہوئے تو ہمیں نہایت ہی قطعیت کے ساتھ معلوم ہوجاتا ہے ۔ کہ قرآنی تصورات کے تحت یہ جدید معاشرہ عربوں کیلئے ایک جدید جنم تھا ۔ یہ ترقی نہ تھی ‘ نہ ترقی کا کوئی مرحلہ تھا ‘ نہ یہ کوئی برق رفتار ترقی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی صنعت کاری سے اس قوم کا ظہور ہوا ‘ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے جنم دیا گیا ۔ قرآن کریم نے اس کے لئے (آیت) ” (اخرجت) کا لفظ بالکل صحیح استعمال کیا ہے ۔ اور یہ نشاۃ جدیدہ نہایت ہی حیران کن اور تعجب انگیز تھی اس لئے کہ یہ اس قوم کا پہلا اور آخری ظہور تھا ۔ اور دنیا میں یہ واحد مثال ہے کہ ایک کتاب کے دونوں وقایوں کے درمیان سے ایک قوم جنم لیتی ہے ۔ ایک امت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور ایک کتاب کے الفاظ سے اسے زندگی ملتی ہے لیکن یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ کلمات اللہ کے احکامات ہیں۔ اس نکتے پر اگر کوئی ہم سے بحث و مباحثہ کرتا ہے تو بتائے کہ تاریخ کے جس موڑ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ذریعے اس امت کو برپا کیا ‘ اس سے پہلے یہ امت کہاں تھی ۔ جب قرآن کریم نے اسے پیدا کیا اور یہ نکالی گئی تو یہ کہاں تھی ؟ ہم جانتے ہیں کہ یہ جزیرۃ العرب میں تھی لیکن کیا اس کا کوئی انسانی وجود تھا ؟ انسانی تمدن کے رجسٹر میں اس کا کیا ریکارڈ تھا ۔ عالمی تاریخ میں اس کے بارے میں کتنے اوراق موجود تھے ۔ انسانیت کے عالمی دسترخوان پر اس کا مقام کہاں تھا ۔ اور اس دسترخوان پر اس کی جانب سے کیا تحفہ تھا تاکہ تاریخ یاد کرتی اور یہ ان کی پہچان ہوتی کہ یہ ہے عربوں کا تحفہ ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس امت کی نشوونما صرف اس دین کے ذریعے ہوئی اور اس کی تربیت اسلامی نظام زندگی کے زیر سایہ ہوئی ۔ اس نے اپنے نفس اور اپنی ذات کی قیادت اور پھر پوری انسانیت کی قیادت اس کتاب کے ذریعے سے کی جو اس کے ہاتھ میں تھی اور اس کتاب کے نظام حیات کے مطابق اس کی زندگی پر چھاپ پڑی ۔ صرف قرآن اور صرف قرآن سے وہ وجود میں آئی ۔ اس پر تاریخ گواہ ہے ۔ اور اللہ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا ۔ (آیت) ” ولقد انزلنا الیکم کتابا فیہ ذکرکم ۔۔۔۔۔۔ افلا تعقلون “۔ (بےشک ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب نازل کی جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے ۔ ) غرض اس کرہ ارض پر امت عربیہ کا تذکرہ صرف اس کتاب کی وجہ سے ہوا اور تاریخ میں اس کا اہم کردار رہا ۔ سب سے پہلے اس نے اپنا ایک انسانی وجود قائم کیا ‘ اس کے بعد اس نے ایک عالمی تمدن وتہذیب کو وجود بخشا ۔ لیکن بعض احمق اب یہ چاہتے ہیں کہ وہ امت عربیہ پر اللہ کے اس احسان کا انکار کردیں اور اس بات کی ناشکری کی جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے انسانوں کے لئے اپنا آخری کلام عربی زبان میں نازل فرمایا اور عربوں کو اس کے اولین مخاطب قرار دیا ۔ اس کلام کی وجہ سے ان کو ایک انسانی وجود بخشا ‘ ان کو شہرت اور تاریخ اور تمدن عطا کئے ۔ یہ احمق دراصل اس خلعت کا اتارنا چاہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے امت عربیہ کو پہنائی اور وہ اس جھنڈے کو پھاڑنا چاہتے ہیں ‘ جس کی وجہ سے ان کو عزت اور شہرت نصیب ہوئی بلکہ ان کو ایک وجود ملا ‘ جب اللہ نے ان کو بحیثیت امت اٹھایا۔ ہم کہتے ہیں کہ جب اسلام اس امت کی تخلیق کررہا تھا اور اس کی تربیت کر رہا تھا ‘ جماعت مسلمہ کے اندر اسلام کے جدید خدوخال کے خطوط کھینچ کر ان کو مستحکم کر رہا تھا ‘ اسے جاہلیت کی گہری کھائی سے نکال کر اس کے وجود سے جاہلیت کے تمام خدوخال مٹا رہا تھا ‘ اس کی زندگی ‘ ان کے نفوس اور اس کے معاشرے کو پاک کر رہا تھا ‘ اس کو منظم کر رہا تھا ’ اسے از سر نو کھڑا کر کے اسے جدید جنم دے رہا تھا اس جدید جماعت کو ایک معرکہ کار زار میں اتار رہا تھا اور وہ اپنے نفوس ‘ اپنے اوضاع واطوار سے سابقہ معاشرتی آثار جاہلیت مٹا رہا تھا ۔ اور جس وقت قرآن جماعت کے اندر سے اور اس کے ماحول سے مدینہ منورہ کے اندر منافقین ‘ مشرکین اور یہودیوں کی شکل میں پائے جانے والی جاہلیت کو ختم کر رہا تھا جاہلیت کے ساتھ یہ معرکے رات دن جاری تھے ‘ ہر زمان ومکان میں جاری تھے ۔ یہ سب کچھ کرتے ہوئے اس دوران میں قرآن نے سب سے پہلے اس امت کو ایک صحیح تصور حیات دیا ۔ اس کے لئے ایمان کی شرائط وحدود وضع کیں ‘ پھر اس تصور کے مطابق اسلام نے اس کے لئے ایک دستوری نظام تجویز کیا جس کی وجہ سے اس کے وجود اور اس کے اردگرد جاہلیت کے وجود کے درمیان خط امتیاز کھینچ دیا گیا ان کے لئے وہ خصائص ومقاصد متعین کئے گئے جن کے لئے اسے برپا کیا گیا تھا تاکہ وہ لوگوں کے سامنے ان کی تبلیغ کرے اور ان کو اللہ اور اللہ کے ربانی نظام کی طرف دعوت دے ۔ اس درس میں اس اساسی نظام کا بیان ہے ۔ یہ نظام اس اساسی تصور حیات سے پھوٹتا ہے اور اس پر قائم ہے ۔ اور انہی شرائط ایمان اور حدود اسلام کے مطابق ہے ۔ پھر اس سبق میں وہ تجدید عہد ہے جس سے یہ امت اپنا نظام حیات لیتی ہے ۔ وہ طریقہ بھی بتایا گیا ہے جس کے مطابق وہ اپنا نظام اخذ کرے گی ۔ وہ نظام بھی بتایا گیا ہے جس کے مطابق وہ اس چیز کا ادراک کرے گی جسے وہ اخذ کررہی ہے یا زندگی کے مسائل اور اس کی مشکلات میں اس نظام کی طرف رجوع کرے گی ‘ ان امور میں جن کے بارے میں کوئی نص اور صریح حکم نہیں ہے اور جن میں رائے کا اختلاف ممکن ہے ۔ پھر یہ بھی بتایا گیا کہ وہ انتظامیہ کون سی ہے جس کی اطاعت ہوگی اور اس انتظامیہ کی قوت کا مرجع کونسی چیز ہے اور یہ تمام امور ایمان کی شرائط اور تعریفات ہیں۔ یہاں آکر اس امت کا دستوری نظام اس کے نظریہ حیات کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے ۔ یہ اتحاد پھر تحلیل نہیں ہوتا اور نہ ان کے عناصر ترکیبی ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں ۔ یہ ہے وہ اہم موضوع جس کا حق یہ سبق ادا کرتا ہے اس بارے میں مکمل ہدایات دی جاتی ہیں اور اس سے متعلق تمام سوالوں کا جواب دیا جاتا ہے ۔ اس سبق کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ اس قدر واضح اور بدیہی ہے کہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس بارے میں کوئی مسلمان کس طرح مجادلہ کرسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ درس امت کو واضح طور پر بتاتا ہے کہ رسولوں کو بھیجا ہی اس لئے گیا ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے اور یہ اطاعت اللہ کے حکم سے ہے اور یہ کہ رسولوں کو محض تبلیغ یا لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا کہ وہ لوگوں کو مسکت دلائل سنا دیں بلکہ (آیت) ” وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ “۔ (اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے وہ صرف اس لئے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے) یہ سبق واضح کرتا ہے کہ لوگ مومن ہی نہ ہوں گے اگر وہ اپنے فیصلے اس نظام قانون کے مطابق نہیں کرتے جو اللہ نے اتارا ہے ۔ یہ منہاج رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عملی زندگی اور آپ کے احکام میں پایا جاتا ہے اور جو قرآن وسنت کی شکل میں قیامت تک باقی ہے ۔ اور یہ بات بھی کافی نہیں ہے کہ وہ اس قانون کے مطابق اپنے فیصلے کرائیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ دلی رضا مندی سے ان فیصلوں کو قبول بھی کریں ۔ (آیت) ” (فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مماقضیت ویسلموا تسلیما “ (٤ : ٦٥) ” نہیں اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے رب کی قسم ‘ یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ‘ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دل میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں ‘ بلکہ سر تسلیم خم کرلیں) اس سبق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جو لوگ طاغوت کے پاس اپنے فیصلے لے جاتے ہیں یعنی اللہ کی شریعت کے سوا کسی اور قانون کے مطابق فیصلے کراتے ہیں تو ان سے ان کا یہ دعوی قبول نہ ہوگا کہ وہ اللہ کے کلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام پر ایمان لانے والے ہیں ‘ یا وہ پہلی کتابوں پر ایمان لانے والے ہیں ۔ ان کا یہ دعوی جھوٹا ہے اور اس پر دلیل ان کا یہ فعل ہے کہ وہ اپنے فیصلے طاغوت کے پاس لے جاتے ہیں ۔ (آیت) ” الم ترالی الذین یزعمون انھم امنوا بما انزل الیک وما انزل من قبلک یرویدن ان یتحاکموا الی الطاغوت وقد امروا ان یکفروا بہ ویرید الشیطن ان یظلھم ضللا بعیدا “۔ (٤ : ٦٠) ” اے نبی تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعوی تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ‘ اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ‘ مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لئے طاغوت کی طرف رجوع کریں ۔ حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ شیطان تمہیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے) اور اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نفاق کی علامت یہ ہے کہ لوگوں کو اس قانون کے مطابق فیصلے کرنے روکا جائے جو اللہ نے نازل فرمایا ہے اور جو سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ہے ۔ (آیت) ” واذا قیل لھم تعالوا الی ما انزل اللہ ولی الرسول رایت المنفقین یصدون عنک صدودا “۔ (٤ : ٦١) (اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں) یہ سبق کہتا ہے کہ ایمانی طریق کار اور اس کا دستور اساسی یہ ہے کہ تم لوگ اللہ کی نازل کردہ کتاب کی پیروی کرو اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی پیروی کرو اور ان اہل ایمان کی اطاعت کرو جو اولو الامر ہیں۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ اطیعوا الرسول واولی الامر منکم “۔ (٤ : ٥٩) (اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں) یہ سب بتاتا ہے کہ جہاں نقطہ نظر مختلف ہو ‘ اور مسائل بالکل نئے ہوں اور ان میں منصوص احکام موجود نہ ہوں تو پھر اللہ و رسول کی طرف رجوع کرو اور قرآن وسنت کی روشنی میں ان کا حل تلاش کرو ۔ (آیت) ” (فان تنازعتم فی شیء فردہ الی اللہ والرسول) (٤ : ٥٩) ” اگر تم کسی چیز میں متنازع ہوجاؤ تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو ۔ “ اس طریقے سے اسلامی نظام حیات ان مسائل اور حالات کا حل دریافت کرلیتا ہے جو بالکل پہلی مرتبہ نمودار ہوئے ہوں ۔۔۔ اس قاعدے کے ذریعے اسلام ابدی طور پر نئے نئے مسائل کے حل کی تدبیر کرتا ہے ۔ چونکہ اسلام کا دستوری قاعدہ یہ ہے کہ اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے مسائل اسلامی نظام کے مطابق حل نہ کرین اس لئے اسلامی نظام زندگی کی وسعت کے ساتھ ان کے حل کا یہ طریقہ وضع کرتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ مسائل کو اللہ اور رسول اللہ کی طرف لوٹایا جائے ‘ کیونکہ یہاں اطاعت شرط ایمان ہے ۔ ایمان واضح طور پر مشروط ہے ۔ (آیت) ” (ان کنتم مومنون باللہ والیوم الاخر (٤ : ٥٩) ” اگر تم واقعی اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو ۔ “ ہمیں اس سے قبل بیان کردہ یہ فرمان الہی نہیں بھولنا چاہئے ۔ (آیت) ” (ان اللہ لا یفغر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشآء (٤ : ٤٨) اللہ اس بات کو تو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ شرک کا ارتکاب کیا جائے اور اس کے سوا جس گناہ کو چاہے بخش دے ۔ “ یہودیوں کو مشرک قرار دیا گیا ‘ محض اس لئے کہ وہ اپنے احبار کو اللہ کے علاوہ رب قرار دیتے تھے ‘ اس لئے نہیں کہ وہ اپنے ارباب کی عبادت اور بندگی کرتے تھے بلکہ اس لئے کہ انہوں نے ارباب کو حلال و حرام قرار دینے کے اختیارات دے رکھے تھے ۔ انہوں نے احبار کو حق حاکمیت اور حق قانون سازی دونوں عطا کردیئے اور یہ کام انہوں نے اپنی جانب سے کیا تھا ۔ اس لئے انہوں نے انکو اللہ کا شریک بنا لیا تھا جو ناقابل معافی جرم ہے اور اس کے علاوہ تمام جرائم معاف ہو سکتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ۔ (وان زنا وان سرق وان شرب الخمر) (اگرچہ اس نے زنا کیا اور چوری کی اور شراب نوشی کی) ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے عقیدے کی بات کو اس میں منحصر کردیا ہے کہ اللہ کے ساتھ حاکمیت میں کوئی شریک نہیں ہے ۔ اس میں وہ منفرد ہے اس لئے کہ الوہیت کی صفات میں سے یہ مخصوص ترین صفت ہے ۔ اس کے اندر رہ کر ہی ایک مومن ‘ مومن اور مسلم ‘ مسلم رہ سکتا ہے اور وہ امید رکھ سکتا ہے کہ اس کے گناہ معاف ہوں ‘ چھوٹے ہوں یا بڑے ۔ اس سے باہر نکل جائیں تو شرک ہے ‘ جسے اللہ کبھی بھی معاف نہیں فرماتے ۔ اس لئے کہ یہ ایمان کی شرط اور اسلام کی تعریف (Definition) ہے ۔ (آیت) ” ان کنتم تومنون باللہ والیوم الاخر (٤ : ٥٩) (اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے ہو۔ ) یہ ہے وہ اہم موضوع جو اس سبق میں زیر بحث ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کرہ ارض پر ایک مسلم امت کے فرائض کیا ہیں ۔ مثلا یہ کہ انہوں نے اللہ کے درست نظام زندگی کی مطابق عدل و انصاف قائم کرنا ہے ۔ (آیت) ” (ان اللہ یامرکم ان تودوا الامنت الی اہلھا واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل ان اللہ نعما یعظکم بہ اللہ کان سمیعا بصیرا “۔ (٤ : ٥٨) (مسلمانو ! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو ‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ‘ اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے ۔ یہ ہے اس سبق کا اجمالی خاکہ ۔ اب ذرا نصوص پر تفصیلی بحث دیکھئے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کو دوزخ میں سخت عذاب، کھالوں کا بار بار جلنا اور بار بار نئی کھال پیدا ہونا اور اہل ایمان کا جنتوں میں عیش کرنا اوپر مومنین اور منکرین کا ذکر تھا۔ اب یہاں کافروں کا عتاب اور مومنین کا ثواب ذکر کیا جاتا ہے۔ پہلی آیت میں کافروں کے سخت عذاب کا اور دوسری آیت میں اہل ایمان کا اجر وثواب اور انعاما... ت کا ذکر ہے۔ کافروں کے بارے میں فرمایا کہ بلاشبہ ہم ان کو آگ میں داخل کردیں گے یہ آگ معمولی نہ ہوگی بہت بڑی آگ ہوگی جس پر لفظ ناراً کی تنوین دلالت کرتی ہے اور سورة اعلیٰ میں اس آگ کے بارے میں فرمایا (یَصْلَی النَّارَ الْکُبْریٰ ) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری یہ آگ (جو دنیا میں ہے) جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے عرض کیا گیا یا رسول اللہ (انسانوں کے عذاب کے لیے) تو یہی کافی تھی آپ نے فرمایا (اس کے باوجود) دوزخ کی آگ دنیاوی آگ پر ٦٩ درجہ زیادہ بڑھا دی گئی ہے ہر درجہ کی حرارت اسی قدر ہے جس قدر دنیا کی آگ میں حرارت ہے۔ (صحیح بخاری صٖحہ ٦٤٢: ١) اہل دوزخ کے عذاب کی کچھ تفصیل بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب ان کی کھالیں جل کر پک جائیں گی تو ہم ان کی جگہ دوسری کھالیں پلٹ دیں گے اور بار بار ایسا ہی ہوتا رہے گا دنیا میں جس طرح ہوتا ہے کہ آگ نے جلا دیا اور جل کر ختم اور بھسم ہوگئے۔ وہاں ایسا نہ ہوگا، وہاں تو ہمیشہ ہی عذاب ہوگا، اور وہ عذاب والی زندگی ایسی ہوگی جس کے لیے (لَا یَمُوْتُ فِیْھَا وَ لَا یَحْیٰی) فرمایا کہ نہ تو زندگی ہوگی جس میں آرام ہو اور اسے زندگی کہا جائے اور نہ موت آئے گی تاکہ عذاب ختم ہوجائے۔ اسی لیے فرمایا (لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ ) یعنی ہم کھالوں کو پلٹتے رہیں گے تاکہ وہ عذاب چکھیں۔ پھر فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیْزًا حَکِیْمًا) کہ بلاشبہ اللہ زبردست ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے اور غالب ہے اس کے ارادہ سے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور وہ حکیم بھی ہے اس کا ہر فیصلہ اور ہر فعل حکمت کے موافق ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف پھر ان لوگوں میں سے کچھ تو اس کتاب اور حکمت پر ایمان لے آئے اور کچھ لوگ اس سے اعراض اور روگردانی کرتے رہے ایسے منکروں کے لئے دوزخ کی تیز آگ سزا کو کافی ہے۔ یقین جانو ! جن لوگوں نے ہماری آیات و احکام کو قبول کرنے سے انکار کیا تو ہم ان کو مستقبل قریب میں ایک تیز آگ میں داخل کریں گے جہاں ان کی برابر ... یہ حالات رہے گی کہ جب کبھی بھی ان کی کھالیں جل جائیں گی تو ہم ان کھالوں کی جگہ اور دوسری کھالیں بدل دیں گے خواہ ایک دن میں کتنی ہی بار یہ واقعہ پیش آئے تاکہ وہ برابر عذاب کا مزہ چکھتے رہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ کمال قوت کا اور کمال حکمت کا مالک ہے وہ ہر جلی ہوئی کھال کو بدل سکتا ہے اور یہ دوسری کھال بدل دینا بھی اس کی حکمت کا مقتضا ہے۔ (تیسیر) سعیر وہ آگ جو خوب دھونکا کر روشن کی جائے نضج جلنا، پکنا، جھلس جانا، فمنھم کی ضمیر سے مراد یہود بھی ہوسکتے ہیں اور انبیائے مذکورہ کے زمانے کے لوگ بھی ہوسکتے ہیں بہ سے مراد حضرت ابراہیم بھی ہوسکتے ہیں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہوسکتے ہیں کتاب و حکمت بھی ہوسکتے ہیں ہم نے تیسیر میں سب کا لحاظ رکھا ہے۔ پہلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان روگردانی کرنے والوں کو اگر دنیا میں نہ بھی پکڑا گیا تو قیامت میں ان کے لئے ایک سخت اور تیز آگ کی سزا کاٹی ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی ہمیشہ اللہ نے ابراہیم کے گھر میں بزرگی دی ہے اب بھی اسی کے گھر میں پھر جو کوئی قبول نہ رکھے وہ بےانصاف ہے۔ (موضح القرآن) آیت میں اگر ایمان لانے والوں سے یہود مراد ہوں تو عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی شاید مراد ہوں گے اور اگر دوسرے پیغمبروں کی امتیں یا حضرت ابراہیم کے زمانے والے مراد ہوں تو بھی ہر زمانہ میں دو فریق رہے ہیں دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایسے منکروں کو قیامت کے دن ہم ایک تیز آگ میں داخل کریں گے اور جب ان کی ایک کھال جل جائے گی تو ہم فوراً دوسری کھال پیدا کردیں گے۔ حضرت یحییٰ حضرمی کا قول ہے کہ مجھ کو یہ بات پہونچی ہے کہ کافر کو سو (100) کھالیں دی جائیں گی ہر کھال میں نیا عذاب ہوگا۔ حضرت حسن نے کہا ستر ہزار بار کھال جلے گی اور دوسری کھال دی جائیگی حضرت ابن عمر نے مرفوعاً کہا ہے کہ ایک ساعت میں سو بار تغیر و تبدل ہوگا۔ بغوی نے کعب سے روایت کیا ہے کہ ایک گھڑی میں ایک سو بیس مرتبہ کھال بدلی جائے گی (واللہ اعلم) مطلب عذاب میں دائماً رہنا ہے اور اس خیال کی تغلیط کرنا ہے کہ جل بھن کر ختم ہوجائیں گے یہ نہیں ہوگا بلکہ جب کھال جل چکے گی تو دوسری کھال بدل دی جائے گی۔ بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ یا تو پہلی ہی کھال کو پھر درست کردیا جائے گا اور یا یہ مطلب ہے کہ اور دوسری کھال یعنی بالکل نء یبدل دی جائے گی۔ صاحب روح المعانی کا خیال یہی ہے کہ کھال نئی اور دوسری ہوگی اور اکثر حضرات کا خیال یہ ہے کہ پہلی کو بدل کر نیا کردیں گے حضرت عبداللہ بن عباس کے قول یبدلون جلودا بیضاء کا مثال القراطیس کا بھی یہی مطلب بیان کیا گیا ہے۔ (واللہ اعلم) بہرحال اس پہلی کھال کو درست کردیا جائے یا دوسری کھال دے دی جائے مطلب وہی ہے کہ عذاب کسی وقت منقطع نہ ہوگا بلکہ عذاب کا سلسلہ مسلسل جاری رہے گا۔ عیاذ باللہ من النار۔ (تسہیل)  Show more