Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 59

سورة النساء

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا ﴿٪۵۹﴾  5

O you who have believed, obey Allah and obey the Messenger and those in authority among you. And if you disagree over anything, refer it to Allah and the Messenger, if you should believe in Allah and the Last Day. That is the best [way] and best in result.

اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالٰی کی اور فرمانبرداری کرو رسول ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی ۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالٰی کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اگر تمہیں اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے ۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبارِ انجام کے بہت اچھا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Necessity of Obeying the Rulers in Obedience to Allah Allah says; يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الاَمْرِ مِنكُمْ ... Obey Allah and obey the Messenger, and those of you who are in authority. Al-Bukhari recorded that Ibn Abbas said that; the Ayah, "Was revealed about Abdullah bin Hudhafah bin Qays bin Adi, who the Messenger of Allah sent on a military expedition." This statement was collected by the Group, with the exception of Ibn Majah. At-Tirmidhi said, "Hasan, Gharib". Imam Ahmad recorded that Ali said, "The Messenger of Allah sent a troop under the command of a man from Al-Ansar. When they left, he became angry with them for some reason and said to them, `Has not the Messenger of Allah commanded you to obey me?' They said, `Yes.' He said, `Collect some wood,' and then he started a fire with the wood, saying, `I command you to enter the fire.' The people almost entered the fire, but a young man among them said, `You only ran away from the Fire to Allah's Messenger. Therefore, do not rush until you go back to Allah's Messenger, and if he commands you to enter it, then enter it.' When they went back to Allah's Messenger, they told him what had happened, and the Messenger said, لَوْ دَخَلْتُمُوهَا مَا خَرَجْتُمْ مِنْهَا أَبَدًا إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوف Had you entered it, you would never have departed from it. Obedience is only in righteousness." This Hadith is recorded in the Two Sahihs. Abu Dawud recorded that Abdullah bin Umar said that the Messenger of Allah said, السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُوْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَ سَمْعَ وَلاَ طَاعَة The Muslim is required to hear and obey in that which he likes and dislikes, unless he was commanded to sin. When he is commanded with sin, then there is no hearing or obeying. This Hadith is recorded in the Two Sahihs. Ubadah bin As-Samit said, "We gave our pledge to Allah's Messenger to hear and obey (our leaders), while active and otherwise, in times of ease and times of difficulty, even if we were deprived of our due shares, and to not dispute this matter (leadership) with its rightful people. The Prophet said, إِلاَّ أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ فِيهِ مِنَ اللهِ بُرْهَان Except when you witness clear Kufr about which you have clear proof from Allah." This Hadith is recorded in the Two Sahihs. Another Hadith narrated by Anas states that the Messenger of Allah said, اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَإِنْ أُمِّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌحَبَشِيٌّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَة Hear and obey (your leaders), even if an Ethiopian slave whose head is like a raisin, is made your chief. Al-Bukhari recorded this Hadith. Umm Al-Husayn said that she heard the Messenger of Allah giving a speech during the Farewell Hajj, in which he said; وَلَوِ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌيَقُودُكُمْ بِكِتَابِ اللهِ اسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا Even if a slave was appointed over you, and he rules you with Allah's Book, then listen to him and obey him. Muslim recorded this Hadith. In another narration with Muslim, the Prophet said, عَبْدًا حَبَشِيًّا مَجْدُوعًا Even if an Ethiopian slave, whose nose was mutilated... In the Two Sahihs, it is recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللهَ وَمَنْ أَطَاعَ أَمِيرِي فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ عَصَى أَمِيرِي فَقَدْ عَصَانِي Whoever obeys me, obeys Allah, and whoever disobeys me, disobeys Allah. Whoever obeys my commander, obeys me, and whoever disobeys my commander, disobeys me. This is why Allah said, ... أَطِيعُواْ اللّهَ ... Obey Allah, adhere to His Book. ... وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ ... and obey the Messenger, adhere to his Sunnah. ... وَأُوْلِي الاَمْرِ مِنكُمْ ... And those of you who are in authority. in the obedience to Allah which they command you, not what constitutes disobedience of Allah, for there is no obedience to anyone in disobedience to Allah, as we mentioned in the authentic Hadith, إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوف Obedience is only in righteousness. The Necessity of Referring to the Qur'an and Sunnah for Judgment Allah said, ... فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ ... (And) if you differ in anything amongst yourselves, refer it to Allah and His Messenger. Mujahid and several others among the Salaf said that the Ayah means, "(Refer) to the Book of Allah and the Sunnah of His Messenger." This is a command from Allah that whatever areas the people dispute about, whether major or minor areas of the religion, they are required to refer to the Qur'an and Sunnah for judgment concerning these disputes. In another Ayah, Allah said, وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَىْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ And in whatsoever you differ, the decision thereof is with Allah. (42:10) Therefore, whatever the Book and Sunnah decide and testify to the truth of, then it, is the plain truth. What is beyond truth, save falsehood. This is why Allah said, ... إِن كُنتُمْ تُوْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الاخِرِ ... if you believe in Allah and in the Last Day. meaning, refer the disputes and conflicts that arise between you to the Book of Allah and the Sunnah of His Messenger for judgment. Allah's statement, إِن كُنتُمْ تُوْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الاخِرِ (if you believe in Allah and in the Last Day), indicates that those who do not refer to the Book and Sunnah for judgment in their disputes, are not believers in Allah or the Last Day. Allah said, ... ذَلِكَ خَيْرٌ ... That is better, meaning, referring to the Book of Allah and the Sunnah of His Messenger for judgment in various disputes is better. ... وَأَحْسَنُ تَأْوِيلً and more suitable for final determination. As-Suddi and several others have stated, meaning, "Has a better end and destination." Mujahid said, "Carries a better reward."

مشروط اطاعت امیر صحیح بخاری شریف میں بروایت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چھوٹے سے لشکر میں حضرت عبداللہ بن حذافہ بن قیس کو بھیجا تھا ان کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ، بخاری و مسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا جس کی سرداری ایک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دی ایک مرتبہ وہ لوگوں پر سخت غصہ ہوگئے اور فرمانے لگے کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری فرمانبرداری کا حکم نہیں دیا ؟ سب نے کہا ہاں بیشک دیا ہے ، فرمانے لگے اچھا لکڑیاں جمع کرو پھر آگ منگوا کر لکڑیاں جلائیں پھر حکم دیا کہ تم اس آگ میں کود پڑو ایک نوجوان نے کہا لوگو سنو آگ سے بچنے کے لئے ہی تو ہم نے دامن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پناہ لی ہے تم جلدی نہ کرو جب تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملاقات نہ ہو جائے پھر اگر آپ بھی یہی فرمائیں تو بےجھجھک اس آگ میں کود پڑھنا چنانچہ یہ لوگ واپس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ کہہ سنایا آپ نے فرمایا اگر تم اس آگ میں کود پڑھتے تو ہمیشہ آگ ہی میں جلتے رہتے ۔ سنو فرمانبرداری صرف معروف میں ہے ۔ ابو داؤد میں ہے کہ مسلمان پر سننا اور ماننا فرض ہے جی چاہے یا طبیعت رو کے لیکن اس وقت تک کہ ( اللہ تعالیٰ اور رسول کی ) نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے ، جب نافرمانی کا حکم ملے تو نہ سنے نہ مانے ۔ بخاری و مسلم میں ہے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیعت لی کہ کام کے اہل سے اس کام کو نہ چھینیں ۔ لیکن جب تم ان کا کھلا کفر دیکھو جس کے بارے میں تمہارے پاس کوئی واضح الٰہی دلیل بھی ہو ، بخاری شریف میں ہے سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر حبشی غلام امیر بنایا گیا ہو چاہے کہ اس کا سرکشمکش ہے ، مسلم شریف میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے میرے خلیل ( یعنی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے سننے کی وصیت کی اگرچہ ناقص ہاتھ پاؤں والا حبشی غلام ہی ہو ، مسلم کی ہی اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں فرمایا چاہے تم پر غلام عامل بنایا جائے جو تمہیں کتاب اللہ کے مطابق تمہارا ساتھ چاہے تو تم اس کی سنو اور مانو ایک روایت میں غلام حبشی اعضاء کٹا کے الفاظ ہیں ، ابن جریر میں ہے نیکوں اور بدوں سے بد تم ہر ایک اس امر میں جو مطابق ہو ان کی سنو اور مانو کہ میرے بعد نیک سے نیک اور بد سے بد تم کو ملیں گے تم پر ایک میں نے جو حق پر ہو اس کا سننا اور ماننا تم سے اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہو اگر وہ نیکی کریں گے ۔ تو ان کے لئے تفع ہے اور تمہارے لئے بھی اور اگر وہ بدی کریں گے تو تمہارے لئے اچھائی ہے اور ان پر گناہوں کا بوجھ ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بنو اسرائیل میں مسلسل لگاتار رسول آیا کرتے تھے ایک کے بعد ایک اور میرے بعد کوئی نبی نہیں مگر خلفاء بکثرت ہوں گے لوگوں نے پوچھا پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا پہلے کی بیعت پوری کرو پھر اس کے بعد آنے والے کی ان کا حق انہیں دے دو اللہ تعالیٰ ان سے ان کی رعیت کے بارے میں سوال کرنے والا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں جو شخص اپنے امیر کا کوئی ناپسندیدہ کام دیکھے اسے صبر کرنا چاہیے جو شخص جماعت کے بالشت بھر جدا ہو گیا پھر وہ جاہلیت کی موت مرے گا ( بخاری و مسلم ) ارشاد ہے جو شخص اطاعت سے ہاتھ کھینچ لے وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے حجت و دلیل بغیر ملاقات کرے گا اور جو اس حالت میں مرے کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرے گا ( مسلم ) حضرت عبدالرحمن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں بیت اللہ شریف میں گیا دیکھا تو حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ کے سایہ میں تشریف فرما ہیں اور لوگوں کا ایک مجمع جمع ہے میں بھی اس مجلس میں ایک طرف بیٹھ گیا اس وقت حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث بیان کی فرمایا ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے ایک منزل میں اترے کوئی اپنا خیمہ ٹھیک کرنے لگا کوئی اپنے نیز سنبھالنے لگا کوئی کسی اور کام میں مشغول ہو گیا ، اچانک ہم نے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں ہر نبی پر اللہ کی طرف سے فرض ہوتا ہے کہ اپنی امت کو تمام نیکیاں جو وہ جانتا ہے ان کی تربیت انہیں دے اور تمام برائیوں سے جو اس کی نگاہ میں ہیں انہیں آگاہ کر دے ۔ سنو میری امت کی عافیت کا زمانہ اول کا زمانہ ہے آخر زمانے میں بڑی بڑی بلائیں آئیں گی اور ایسے ایسے امور نازل ہوں گے جنہیں مسلمان ناپسند کریں گے اور ایک ہر ایک فتنہ برپا ہو گا ایک ایسا وقت آئے گا کہ مومن سمجھ لے گا اسی میں میری ہلاکت ہے پھر وہ ہٹے گا ۔ تو دوسرا اس سے بھی بڑا آئے گا جس میں اسے اپنی ہلاکت کا کامل یقین ہوگا بس یونہی لگا تار فتنے اور زبردست آزمائشیں اور کال تکلیفیں آتی رہیں گے پس جو شخص اس بات کو پسند کرے کہ جہنم سے بچ جانے اور جنت کا مستحق ہو اسے چاہیے کہ مرتے دم تک اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے اور لوگوں سے وہ برتاؤ کرے جو خود اپنے لئے پسند کرتا ہے سنو جس نے امام سے بیعت کر لی اس نے اپنا ہاتھ اس کے قبضہ میں اور دل کی تمنائیں اسے دے دیں ۔ اور اپنے دل کا پھل دے دیا اب اسے چاہیے کہ اس کی اطاعت کرے اگر کوئی دوسرا اس سے خلاف چھیننا چاہے تو اس کی گردن اڑا دو ، عبدالرحمن فرماتے ہیں میں یہ سن کر قریب گیا اور کہا آپ کو میں اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کیا خود آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی سنا ہے؟ تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے کان اور دل کی طرف بڑھا کر فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے ان دو کانوں سے سنا اور میں نے اسے اپنے اس دل میں محفوظ رکھا ہے مگر آپ کے چچا زاد بھائی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیں ہمارے اپنے مال بطریق باطل سے کھانے اور آپس میں ایک دوسرے سے جنگ کرنے کا حکم دیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کاموں سے ممانعت فرمائی ہے ، ارشاد ہے ( آیت یا ایھا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم الخ ، ) اسے سن کر حضرت عبداللہ ذرا سی دیر خاموش رہے پھر فرمایا اللہ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اگر اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں تو اسے نہ مانو اس بارے میں حدیثیں اور بھی بہت سی ہیں ، اسی آیت کو تفسیر میں حضرت سدی رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا جس کا امیر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنایا اس لشکر میں حضرت عمار بن یاسر رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے یہ لشکر جس قوم کی طرف جانا چاہتا تھاچلا رات کے وقت اس کی بستی کے پاس پہنچ کر پڑاؤ کیا ان لوگوں کو اپنے جاسوسوں سے پتہ چل گیا اور چھپ چھپ کر سب راتوں رات بھاگ کھڑے ہوئے ۔ صرف ایک شخص رہ گیا اس نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا انہوں نے اس کا سب انسباب جلا دیا یہ شخص رات کے اندھیرے میں خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر میں آیا اور حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ اے ابو الیقظان میں اسلام قبول کر چکا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں میری ساری قوم تمہارا آنا سن کر بھاگ گئی ہے صرف میں باقی رہ گیا ہوں تو کیا کل میرا یہ اسلام مجھے نفع دے گا ؟ اگر نفع نہ دے تو میں بھی بھاگ جاؤں حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یقیناً یہ اسلام تمہیں نفع دے گا تم نہ بھاگو بلکہ ٹھہرے رہو صبح کے وقت جب حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لشکر کشی کی تو سوائے اس شخص کے وہاں کسی کو نہ پایا اسے اس کے مال سمیت گرفتار کر لیا گیا جب حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہا اسے چھوڑ دیجئے یہ اسلام لا چکا ہے اور میری پناہ میں ہے حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم کون ہو جو کسی کو پناہ دے سکو؟ اس پر دونوں بزرگوں میں کچھ تیز کلامی ہو گئی اور قصہ بڑھا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا گیا ۔ آپ نے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پناہ کو جائز قرار دیا اور فرمایا آئندہ امیر کی طرف سے پناہ نہ دینا پھر دونوں میں کچھ تیز کلامی ہونے لگی اس پر حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور سے کہا اس ناک کٹے غلام کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ نہیں کہتے؟ دیکھئے تو یہ مجھے برا بھلا کہہ رہا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا نہ کہو ۔ عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گالیاں دینے والے کو اللہ گالیاں دے گا ، عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دشمنی کرنے والے سے اللہ دشمنی رکھے گا ، عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جو لعنت بھیجے گا اس پر اللہ کی لعنت نازل ہو گی اب تو حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لینے کے دینے پڑھ گئے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ غصہ میں چلا رہے تھے آپ دوڑ کر ان کے پاس گئے دامن تھام لیا معذرت کی اور اپنی تقصیر معاف کرائی تب تک پیچھانہ چھوڑا جب تک کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ راضی نہ ہوگئے ، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ( امر امارت و خلافت کے متعلق شرائط وغیرہ کا بیان آیت واذقال ربک للملائکتہ انی جاعل فی الارض خلیفۃ کی تفسیر میں گزر چکا ہے ہاں ملاحظہ ہو ۔ مترجم ) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ رویات مروی ہے ( ابن جریر اور ابن مردویہ ) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں اولی الامر سے مراد سمجھ بوجھ دین والے ہیں یعنی علماء کی ظاہر بات تو یہ معلوم ہوتی ہے آگے حقیقی علم اللہ کو ہے کہ یہ لفظ عام ہیں امراء علماء دونوں اس سے مراد ہیں جیسے کہ پہلے گزرا قرآن فرماتا ہے ( آیت لولا ینھاھم الربانیون الخ ، ) یعنی ان کے علماء نے انہیں جھوٹ بولنے اور حرام کھانے سے کیوں نہ روکا ؟ اور جگہ ہے ( آیت فاسئلوااھل الذکر الخ ، ) حدیث کے جاننے والوں سے پوچھ لیا کرو کہ اگر تمہیں علم نہ ہو ، صحیح حدیث میں ہے میری اطاعت کرنے والا اللہ کی اطاعت کرنے والا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی ہے پس یہ ہیں احکام علماء امراء کی اطاعت کرو یعنی اس کی سنتوں پر عمل کرو اور حکم والوں کی اطاعت کرو یعنی اس چیز میں جو اللہ کی اطاعت ہو ، اللہ کے فرمان کے خلاف اگر ان کا کوئی حکم ہو تو اطاعت نہ کرنی چاہیے ایسے وقت علماء یا امراء کی ماننا حرام ہے جیسے کہ پہلی حدیث گزر چکی کہ اطاعت صرف معروف میں ہے یعنی فرمان الہ و فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائرے میں مسند احمد میں ہے اس سے بھی زیادہ صاف حدیث ہے جس میں ہے کسی کی اطاعت اللہ تعالیٰ کے فرمان کے خلاف جائز نہیں ۔ آگے چل کر فرمایا کہ اگر تم میں کسی بارے میں جھگڑ پڑے تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹاؤ یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف جیسے کہ حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر ہے پس یہاں صریح اور صاف لفظوں میں اللہ عزوجل کا حکم ہو رہا ہے کہ لوگ جس مسئلہ میں اختلاف کریں خواہ وہ مسئلہ اصول دین سے متعلق ہو خواہ فروغ دین سے متعلق اس کے تصفیہ کی صرف یہی صورت ہے کہ کتاب و سنت کو حکم مان لیا جائے جو اس میں ہو وہ قبول کیا جائے ، جیسے اور آیت قرآنی میں ہے ( آیت وما اختلفتم فیہ من شیء فحکمہ الی اللہ ) یعنی اگر کسی چیز میں تمہارا اختلاف ہو جائے اس کا فیصلہ اللہ کی طرف ہے پس کتاب و سنت جو حکم دے اور جس مسئلہ کی صحت کی شہادت دے وہی حق ہے باقی سب باطل ہے ، قرآن فرماتا ہے کہ حق کے بعد جو ہے ضلالت و گمراہی ہے ، اسی لئے یہاں بھی اس حکم کے ساتھ ہی ارشاد ہوتا ہے اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو ، یعنی اگر تم ایمان کے دعوے میں سچے ہو تو جس مسئلہ کا تمہیں علم نہ ہو یعنی جس مسئلہ میں اختلاف ہو ، جس امر میں جدا جدا آراء ہوں ان سب کا فیصلہ کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا کرو جو ان دونوں میں ہو مان لیا کرو ، پس ثابت ہوا کہ جو شخص اختلافی مسائل کا تصفیہ کتاب و سنت کی طرف سے نہ لے جائے وہ اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جھگڑوں میں اور اختلافات میں کتاب اللہ و سنت رسول کی طرف فیصلہ لانا اور ان کی طرف رجوع کرنا ہی بہتر ہے ، اور یہی نیک انجام خوش آئند ہے اور یہی اچھے بدلے دلانے والا کام ہے ، بہت اچھی جزا اسی کا ثمر ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

59۔ 1 مطلب یہ ہے کہ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ کی ہے کیونکہ حکم صرف اللہ ہی کا ہے ' لیکن چونکہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خالص منشاء الٰہی ہی کا مظہر ہے اور اس کی مرضیات کا نمائندہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کو بھی مستقل طور پر واجب الاطاعت قرار دیا اور فرمایا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔ (مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰهَ ) 004:080 " جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی " جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حدیث بھی اسی طرح دین کا مأخذ ہے جس طرح قرآن کریم۔ تاہم امر و احکام کی اطاعت بھی ضروری ہے کیونکہ وہ یا تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کا نفاذ کرتے ہیں۔ یا امت کے اجتماعی مصالح کا انتظام اور نگہداشت کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ امر و حکام کی اطاعت اگرچہ ضروری ہے لیکن وہ علی الاطلاق نہیں بلکہ مشروط ہے اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے ساتھ۔ اسی لیے اطیعوا اللہ کے بعد اطیعوا الرسول تو کہا کیونکہ یہ دونوں اطاعتیں مستقل اور واجب ہیں لیکن اطیعوا اولی الامر نہیں کہا کیونکہ اولی الامر کی اطاعت مستقل نہیں اور حدیث میں بھی کہا گیا ہے۔ (لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق) (وقال الالبانی حدیث صحیح۔ مشکٰوۃ نمبر 696 فی لفظ لمسلم لا طاعۃ فیی معصیۃ اللہ کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فر غیر معصیۃ حدیث نمبر 1840 اور (انما الطاعۃ فی المعروف) (صحیح بخاری کتاب الاحکام باب نمبر 4) (السمع والطاعۃ للامام مالم رکن معصیۃ) " معصیت میں اطاعت نہیں، اطاعت صرف معروف میں ہے۔ " یہی حال علما و فقہا کا بھی ہے۔ (اگر اولوا لامر میں ان کو بھی شامل کیا جائے) یعنی ان کی اطاعت اس لیے کرنی ہوگی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام و فرمودات بیان کرتے ہیں اور اس کے دین کی طرف ارشاد و ہدایت اور راہمنائی کا کام کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ علماء و فقہا بھی دینی امور و معاملات میں حکام کی طرح یقینا مرجع عوام ہیں لیکن ان کی اطاعت بھی صرف اس وقت تک کی جائے گی جب تک کہ عوام کو صرف اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات بتلائیں لیکن اگر وہ اس سے انحراف کریں تو عوام کے لیے ان کی اطاعت بھی ضروری نہیں بلکہ انحراف کی صورت میں جانتے بوجھتے ان کی اطاعت کرنا سخت معصیت اور گناہ ہے۔ 59۔ 2 اللہ کی طرف لوٹانے سے مراد قرآن کریم اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مراد اب حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے یہ تنازعات کے ختم کرنے کے کیے ایک بہترین اصول بتلا دیا گیا ہے اس اصول سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی تیسری شخصیت کی اطاعت واجب نہیں جس طرح تقلید شخصی یا تقلید معین کے قائلین نے ایک تیسری اطاعت کو واجب قرار دے رکھا ہے اور اسی تیسری اطاعت نے جو قرآن کی اس آیت کے صریح مخالف ہے مسلمانوں کو امت متحدہ کی بجائے امت منتشرہ بنا رکھا ہے اور ان کے اتحاد کو تقریبا ناممکن بنادیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩١] اسلامی حکومت کے چار اصول :۔ اس آیت میں ایک اسلامی حکومت کی چار مستقل بنیادوں کا ذکر کیا گیا ہے : ١۔ اسلامی نظام میں اصل مطاع صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی کائنات کا خالق ومالک ہے لہذا ہر طرح کے قانونی اور سیاسی اختیارات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ آج کی زبان میں یوں کہیے کہ قانونی اور سیاسی مقتدر اعلیٰ صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ قانون سازی اور حلت و حرمت اور اوامرو نواہی کے اختیارات اسی کے لیے ہیں۔ اس وقت دنیا میں جس قدر نظام ہائے سیاست رائج ہیں ان سب میں مقتدر اعلیٰ یا کوئی انسان ہوتا ہے یا ادارہ۔ جبکہ اسلامی نظام خلافت میں مقتدر اعلیٰ کوئی انسان یا ادارہ نہیں ہوسکتا بلکہ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اور یہی اصل اس نظام سیاست کو دوسرے تمام نظام ہائے سیاست سے ممتاز کرتی ہے۔ خ جمہوریت خلافت کی ضد ہے :۔ آج کل بیشتر ممالک میں خواہ وہ مسلم ملک ہوں یا غیر مسلم۔ جمہوری نظام سیاست ہی رائج ہے۔ جمہوری نظام سیاست میں سیاسی مقتدر اعلیٰ تو عوام ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں اور قانونی مقتدر اعلیٰ پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کو قانون سازی کے جملہ اور وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں جنہیں چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور عدالتوں کا کام محض یہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے کریں۔ اس لحاظ سے یہ نظام مردود اور نظام خلافت کی عین ضد ہے۔ ٢۔ رسول کی اطاعت اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے پاس اللہ کے احکام کی اس کی منشاء کے مطابق بجاآوری کا رسول کی اطاعت کے بغیر کوئی ذریعہ نہیں۔ لہذا رسول کی اطاعت بھی حقیقتاً اللہ ہی کی اطاعت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے اللہ کی اور رسول کی اطاعت ایک ہی اطاعت قرار پاتی ہے۔ علاوہ ازیں رسول کی اطاعت کی ایک مستقل حیثیت بھی ہوتی ہے۔ وہ یوں کہ جہاں کتاب اللہ خاموش ہو اور رسول ہمیں کوئی حکم دے۔ خواہ یہ حکم قانون سے تعلق رکھتا ہو یعنی حلت و حرمت سے متعلق ہو یا اوامرو نواہی سے تو ایسا حکم ماننا بھی ہم پر ایسے ہی فرض ہے جیسے اللہ کی اطاعت اور چونکہ ایسی اطاعت کا بھی اللہ نے خود ہمیں حکم دیا ہے تو اس لحاظ سے یہ بھی اللہ کی اطاعت کے تحت آجاتی ہے۔ ٣۔ تیسری اطاعت ان حکام کی ہے جو مسلمان ہوں۔ حکام (اولی الامر) سے مراد وہ ہر قسم کے حکام ہیں جو کسی ذمہ دارانہ منصب پر فائز ہوں۔ یہ انتظامیہ سے تعلق رکھتے ہوں یا عدلیہ سے یا علماء مجتہدین سے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تو غیر مشروط ہوتی ہے لیکن اولی الامر کی اطاعت صرف اس صورت میں ہوگی جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے خلاف نہ ہو۔ اگر خلاف ہو تو اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ ٤۔ اور چوتھی بنیاد یہ ہے کہ اگر کسی حاکم کے اور رعایا کے درمیان کسی معاملہ میں نزاع پیدا ہوجائے، تو ایسا معاملہ (آپ کی زندگی میں) آپ کی طرف اور (آپ کی زندگی کے بعد) کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف لوٹایا جائے گا۔ اور حَکَم کی حیثیت کتاب و سنت کی ہوگی۔ اور آخر میں یہ بتادیا گیا کہ اگر تم نے ان چار اصولوں میں سے کسی بھی اصول میں کوتاہی کی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہارا اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ اور اگر تمہارا اللہ اور آخرت پر ایمان کا دعویٰ سچا ہے تو تمہیں بہرحال ان چار اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا اور جب تک تم نے ان چاروں امور کا خیال رکھا اس وقت تک تمہارے اخلاق و کردار درست اور تمہاری حکومت مستحکم رہے گی۔ امیر یا حاکم کی اطاعت کس قدر ضروری ہے اور کن حالات میں ضروری ہے۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ اطاعت امیر کی اہمیت اور حدود :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا & جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ & (مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب وجوب طاعۃ الامراء۔۔ بخاری، کتاب الاحکام۔ باب قولہ اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول۔۔ ) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا & ہر شخص پر امیر کا حکم سننا اور اسے ماننا فرض ہے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند، جب تک کہ اسے گناہ کا حکم نہ دیا جائے اور اگر اسے اللہ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر نہ ایسے حکم کو سننا لازم ہے اور نہ اس کی اطاعت & (بخاری، کتاب الاحکام، باب السمع والطاعۃ للامام مالم تکن معصیۃ) ٣۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا & جو شخص امیر کی اطاعت اور جماعت سے الگ ہوا، پھر اسی حال میں مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اور جو شخص کسی اندھے (جھنڈے) کے تحت لڑائی کرے اور تعصب کے لیے جوش دلائے یا تعصب کی طرف بلائے اور تعصب کے لیے مدد کرے پھر مارا جائے تو وہ بھی جاہلیت کی موت مرا۔ & (مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب ملازمۃ المسلمین) ٤۔ سیدنا حارث (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا & میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے۔ (امیر کا حکم) سننا اور اطاعت کرنا، جہاد کرنا، ہجرت کرنا اور جماعت (سے چمٹے رہنا) کیونکہ جو شخص بالشت بھر بھی جماعت سے الگ ہوا اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے اتار پھینکا۔ الا یہ کہ وہ واپس لوٹ آئے۔ & (ترمذی ابو اب الامثال) ٥۔ امیر سے تنازعہ :۔ سیدنا علی (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے ایک لشکر روا نہ کیا اور اس کا امیر ایک انصاری (عبداللہ بن حذافہ) کو مقرر کیا اور لشکر کو ان کی اطاعت کا حکم دیا۔ وہ امیر ان سے کسی بات پر خفا ہوگیا اور ان سے پوچھا & کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا۔ & وہ کہنے لگے & کیوں نہیں ؟ & امیر نے کہا & اچھا تو ایندھن جمع کرو اور آگ جلاؤ اور اس میں داخل ہوجاؤ۔ & انہوں نے لکڑیاں جمع کیں اور آگ جلائی اور جب داخل ہونے کا ارادہ کیا تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ کسی نے کہا & ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ہی اس لیے کی ہے کہ آگ سے بچ جائیں، تو کیا ہم آگ میں داخل ہوں ؟ & اتنے میں آگ بجھ گئی اور امیر کا غصہ بھی ٹھنڈا ہوگیا۔ اس بات کا ذکر آپ سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا & اگر تم آگ میں داخل ہوجاتے تو اس سے کبھی نہ نکلتے۔ اطاعت تو صرف معروف کاموں میں ہے۔ & اور مسلم کی روایت کے مطابق آپ نے فرمایا & اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں۔ اطاعت صرف معروف کاموں میں ہے۔ & (بخاری، کتاب الاحکام۔ باب السمع والطاعۃ للامام مالم تکن معصیۃ۔۔ مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ) ٦۔ آپ نے فرمایا & عنقریب فتنے فساد ہوں گے تو جو اس امت کے معاملہ میں تفرقہ ڈالے جبکہ وہ متحدہ ہو۔۔ اور ایک روایت میں ہے کہ & جماعت کا کسی ایک شخص پر اتحاد و اتفاق ہو اور وہ شخص تمہاری جمعیت میں پھوٹ ڈالنا چاہے تو اس کی گردن اڑا دو ۔ خواہ وہ کوئی ہو۔ & (مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب من فرق امر المومنین و ہو مجتمع) یہ تو اطاعت امیر سے متعلقہ احکام تھے۔ اب امیر سے تنازعہ کا مسئلہ یوں ہے کہ سیدنا عمر (رض) نے اپنے دور خلافت میں مسجد نبوی کی توسیع کا ارادہ کیا تو سیدنا ابی بن کعب (رض) کا مکان اس میں رکاوٹ تھی۔ سیدنا عمر (رض) نے ابی بن کعب (رض) سے کہا بلکہ انہیں مجبور کیا کہ وہ جائز قیمت لے کر مکان دے دیں لیکن ابی بن کعب (رض) مکان کو فروخت کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ تنازعہ بڑھ گیا تو فریقین نے جن میں مدعی حکومت وقت یا امیر المومنین سیدنا عمر (رض) تھے اور مدعا علیہ سیدنا ابی بن کعبص، سیدنا زید بن ثابت (رض) کو اپنا ثالث (یا عدالت) بنانا منظور کرلیا۔ تنقیح طلب معاملہ یہ تھا کہ اسلام انفرادی ملکیت کو کس قدر تحفظ دیتا ہے اور آیا اجتماعی مفاد کی خاطر انفرادی مفادات کو قربان کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ چناچہ کتاب و سنت کی رو سے سیدنا زید بن ثابت (رض) نے اس مقدمہ کا فیصلہ سیدنا عمر (رض) کے خلاف دے دیا۔ جب سیدنا ابی بن کعب (رض) نے مقدمہ جیت لیا تو انہوں نے یہ مکان بلاقیمت ہی مسجد کی توسیع کے لیے دے دیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ تنازعہ دراصل مکان کی فروخت کا نہیں بلکہ ضد بازی اور امیر اور اس کی رعیت کے درمیان اپنے اپنے حقوق کی تحقیق سے تعلق رکھتا تھا۔ جب سیدنا عمر (رض) نے ابی بن کعب (رض) کو مکان فروخت کردینے پر مجبور کیا تو سیدنا ابی بن کعب (رض) جو اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ کسی چیز کا مالک اسے بیچنے یا نہ بیچنے کے مکمل اختیارات رکھتا ہے، تو وہ بھی احقاق حق کے لیے ڈٹ گئے اور ثالث نے فیصلہ بھی انہی کے حق میں دیا۔ سیاسی تنازعات اور ان کا حل :۔ تنازعات کی دوسری قسم وہ ہے جو دو گروہوں یا دو قوموں یا دو ملکوں کے درمیان ہوتے ہیں، جسے ہم سیاسی تنازعات کہہ سکتے ہیں اور ایسے تنازعات نے امت مسلمہ کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ آپ نے جو امت تشکیل فرمائی تھی اس میں حبشی، رومی، فارسی، عربی، گورے اور کالے مہاجر اور انصار سب بنیادی طور پر ہم مرتبہ تھے۔ اگر کسی کو تفوق اور فضیلت تھی تو محض تقویٰ کی بنا پر تھی اور یہی قرآن کی تعلیم تھی۔ لیکن آج اس وحدت پر سب سے زیادہ کاری ضرب قوم و وطن کے موجودہ نظریہ نے لگائی ہے۔ آپ نے اپنے معروف خطبہ حجتۃ الوداع میں ارشاد فرمایا تھا کہ & لوگو ! بیشک تمہارا پروردگار ایک ہے۔ تمہارا باپ ایک ہے۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں۔ برتری صرف تقویٰ کی بنا پر ہے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ & وطن اور علاقہ یا زبان کے اختلاف کی بنیاد پر قوموں کی جداگانہ تشکیل یورپ کی پیدا کردہ لعنت ہے۔ وطن پرستی، علاقہ پرستی۔ زبان پرستی اور رنگ پرستی ہی آج کے سب سے بڑے معبود ہیں جن کی خاطر لوگ آپس میں الجھتے اور کٹتے مرتے ہیں۔ انہی باتوں نے امت مسلمہ کو بیسیوں ممالک میں اور پھر ذیلی تقسیم میں تقسیم در تقسیم کے ذریعہ ذلیل و خوار کیا اور تباہی اور بربادی کے جہنم میں دھکیل دیا ہے اور اس جہنم سے نجات صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ کتاب و سنت کو حکم تسلیم کیا جائے اور اپنے آپ کو کتاب و سنت کی تعلیم کے سانچہ میں ڈھالا جائے۔ خ مذہبی تنازعات اور ان کا حل :۔ تنازعات اور اختلافات کی تیسری بڑی نوع فقہی اور مذہبی اختلافات ہیں۔ اور ہمارے علماء اور فقہاء بھی اولی الامرمنکم کے زمرہ میں آتے ہیں۔ ہمارے ہاں آج کل چار فق ہیں یا چار مذاہب رائج ہیں جو اپنی اپنی فقہ کو سینہ سے چمٹائے ہوئے ہیں اور ان میں اس قدر تعصب پیدا ہوچکا ہے کہ ہر فرقہ اپنے آپ کو حق پر اور دوسروں کو غلط سمجھتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن سب کا ایک ہے اور سنت بھی ایک ہے لیکن فقہ چار ہیں اور اگر شیعہ حضرات کی فقہ جعفریہ کو بھی شامل کرلیں تو پانچ ہیں۔ خ فقہ یا قیاس دین کی بنیاد نہیں ہے :۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی فقہ دین کی بنیاد نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایک مخصوص فقہ پر اصرار کرنا واجب ہے نیز اس سے دوسرا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ اگر پہلے سے پانچ فقہ موجود ہیں تو موجودہ زمانہ کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اجتہاد کر کے اگر چھٹی فقہ بھی مرتب کرلی جائے تو اس میں کچھ ہرج نہیں ہے مگر برا ہو تعصب اور اندھی عقیدت کا جس نے تقلید شخصی جیسی قابل مذمت روایت کو جنم دیا۔ پھر صرف جنم ہی نہیں دیا بلکہ اسے واجب قرار دے دیا اور آئندہ کے لیے اجتہاد کے دروازہ کو بند کردیا گیا ایسے تنازعات کو ختم کرنے کا بھی واحد حل یہی ہے کہ ہر فقہ کے مسئلہ کو کتاب و سنت پر پیش کیا جائے اور تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جو اجتہادی مسئلہ کتاب و سنت کے مطابق یا زیادہ اقرب ہو اسے قبول کرلیا جائے باقی کو چھوڑ دیا جائے۔ خ ہر قسم کے نظاموں اور فرقوں کی بنیاد کوئی بدعی عقیدہ یا عمل ہوتا ہے :۔ واضح رہے کہ جتنے بھی مذہبی فرقے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی بدعی عقیدہ ضرور شامل ہوتا ہے اور جب تک کوئی بدعی عقیدہ شامل نہ ہو یا شامل نہ کیا جائے کوئی نیا فرقہ وجود میں آ ہی نہیں سکتا۔ مثلاً چار مذاہب میں بدعی عقیدہ صرف اپنے اپنے امام کی تقلید، تقلید شخصی کا وجوب اور آئندہ کے لیے اجتہاد کے دروازہ کو تاقیامت بند رکھنا ہے۔ شیعہ حضرات کا سب سے بڑا بدعی عقیدہ بارہ اماموں کی تعیین اور انہیں معصوم عن الخطاء سمجھنا صرف انہی کے اقوال کو قبول کرنا ہے۔ نیچریوں کا بدعی عقیدہ خوارق عادات امور اور معجزات سے انکار ہے وغیرہ وغیرہ، یہی حال سیاسی نظاموں کا ہے۔ جمہوریت کا بدعی عقیدہ اللہ تعالیٰ کے بجائے عوام کی بالادستی سمجھنا اور انہیں ہی طاقت کا سرچشمہ قرار دینا ہے۔ اشتراکیت کا بدعی عقیدہ انفرادی ملکیتوں کا غصب اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے انکار ہے۔ غرضیکہ جتنے بھی فرقے ہیں، خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی، ان کا کوئی نہ کوئی عقیدہ یا عمل ضرور کتاب و سنت کے خلاف ہوگا۔ خ عام تنازعات :۔ تنازعات کی چوتھی قسم ذاتی اور انفرادی معاملات کے جھگڑے ہیں اور ان کے علاوہ اور بھی تنازعات کی کئی اقسام ہوسکتی ہیں۔ خواہ ان کا تعلق اولی الامر سے ہو یا نہ ہو، جیسے بھی تنازعات ہوں ان سب کا واحد حل یہی ہے کہ انہیں کتاب و سنت پر پیش کیا جائے اور اپنے اعتقادات اور تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہیں بسر و چشم قبول کر کے ان کی تعمیل کی جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رعایا کو، چاہے فوج کے افراد ہوں یا عام لوگ، انھیں اپنی، اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور حکام و امراء کی اطاعت کا حکم دیا ہے، الا یہ کہ حکام اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” اختیار والے بادشاہ، قاضی اور جو کسی کام پر مقرر ہو اس کے حکم پر چلنا ضروری ہے، جب تک وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف حکم نہ کرے، اگر صریح خلاف کرے تو وہ حکم نہ مانیے۔ “ (موضح) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ ) ” اطاعت صرف نیکی کے امور میں ہے۔ “ [ بخاری، الأحکام، باب السمع والطاعۃ للإمام۔۔ : ٧١٤٥، عن علی ] عبد اللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہر مسلمان کو لازم ہے کہ وہ ہر کام میں، خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند، سمع و طاعت بجا لائے، بشرطیکہ اسے کسی معصیت کا حکم نہ دیا گیا ہو، اور اگر اسے کسی معصیت کے کام کا حکم دیا گیا ہو تو اس میں سمع و طاعت نہیں۔ “ [ بخاری، الفتن، باب السمع والطاعۃ للإمام : ٧١٤٤ ] فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ ۔۔ : اس آیت میں ایک نہایت اہم حکم دیا ہے کہ باہمی نزاع اور جھگڑے کی صورت میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع شرط ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت تو قرآن کی اطاعت ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے بعد آپ کی سنت کی اطاعت ہے اور یہ اطاعتیں اصل اور مستقل ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بھی اسلامی قانون کا مستقل ماخذ ہے۔ نواب صدیق حسن خان (رح) لکھتے ہیں : ” اس آیت سے مقلدین تقلید کے واجب ہونے پر دلیل لیتے ہیں لیکن یہ دلیل نہیں ہوسکتی، کیونکہ ” اولی الامر “ سے بادشاہ اور حکام مراد ہیں۔ (دیکھیے فوائد موضح) اگر بعض اہل علم کے مطابق اس سے علمائے دین مراد ہیں تو اس میں اول تو کسی عالم کی تخصیص نہیں ہے، دوسرے بہ فرض تسلیم عالم کی تقلید کا حکم ہے تو وہ اسی وقت تک ہے کہ اس کا حکم قرآن و حدیث کے موافق ہو (اگرچہ یہ تقلید نہیں بلکہ قرآن و حدیث پر عمل ہے) پھر خود چاروں اماموں نے اپنی تقلید سے منع فرمایا ہے اور قرآن کریم نے حکم دیا ہے کہ ائمہ کی اتباع میں جھگڑا ہو تو اللہ اور رسول کی طرف رجوع ہونا چاہیے۔ “ (ترجمان) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ، تابعین یا ائمہ میں اگر کسی مسئلے پر نزاع ہو تو کسی کا قول بھی حجت نہیں، بلکہ وہاں صرف قرآن و حدیث پر عمل ہوگا۔ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا : اگر دو مسلمان جھگڑتے ہیں اور ایک نے کہا، چل شرع کی طرف رجوع کریں، دوسرے نے کہا، میں شرع کو (کچھ) نہیں سمجھتا، یا مجھے شرع سے کام نہیں وہ بیشک کافر ہوا۔ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Proof of Ijtihad اِجتِھاد and Qiyas قیاس Finally, let us now refer to the statement: فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّ‌سُولِ in verse 59 (Then, if you quarrel about something, revert it back to Allah and the Messenger.) This &reverting back to Allah and the Messenger& takes two forms: 1. Revert to ahkam, the code of commands as mandated in the Book of Allah and the Sunnah of the Messenger of Allah. 2. If the textually-mandated ahkam do not exist, the act of reverting back will be accomplished by analogical deduction (Qiyas) as based on their precedents. The words of the expression: فَرُدُّہ (revert it back) are general, thus being inclusive of both forms.

اجتہاد اور قیاس کا ثبوت : قولہ تعالیٰ فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ والرسول اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اگر تمہارا کسی امر کے بارے میں اختلاف ہوجائے تو تم اللہ اور رسول کی جانب رجوع کرو۔ کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنے کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ کتاب و سنت کے احکام منصوصہ کی جانب رجوع کیا جائے، دوسری صورت یہ ہے کہ اگر احکام منصوصہ موجود نہیں تو ان کے نظائر پر قیاس کر کے رجوع کیا جائے گا، فردوہ کے الفاظ عام ہیں جو دونوں صورتوں کو شامل ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝ ٠ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۝ ٥٩ۧ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس نزع نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] . وَانْتَزَعْتُ آيةً من القرآن في كذا، ونَزَعَ فلان کذا، أي : سَلَبَ. قال تعالی: تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] ، وقوله : وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات/ 1] قيل : هي الملائكة التي تَنْزِعُ الأرواح عن الأَشْباح، وقوله :إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر/ 19] وقوله : تَنْزِعُ النَّاسَ [ القمر/ 20] قيل : تقلع الناس من مقرّهم لشدَّة هبوبها . وقیل : تنزع أرواحهم من أبدانهم، والتَّنَازُعُ والمُنَازَعَةُ : المُجَاذَبَة، ويُعَبَّرُ بهما عن المخاصَمة والمُجادَلة، قال : فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء/ 59] ، فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه/ 62] ، والنَّزْعُ عن الشیء : الكَفُّ عنه . والنُّزُوعُ : الاشتیاق الشّديد، وذلک هو المُعَبَّر عنه بإِمحَال النَّفْس مع الحبیب، ونَازَعَتْنِي نفسي إلى كذا، وأَنْزَعَ القومُ : نَزَعَتْ إِبِلُهم إلى مَوَاطِنِهِمْ. أي : حَنَّتْ ، ورجل أَنْزَعُ : زَالَ عنه شَعَرُ رَأْسِهِ كأنه نُزِعَ عنه ففارَقَ ، والنَّزْعَة : المَوْضِعُ من رأسِ الأَنْزَعِ ، ويقال : امرَأَةٌ زَعْرَاء، ولا يقال نَزْعَاء، وبئر نَزُوعٌ: قریبةُ القَعْرِ يُنْزَعُ منها بالید، وشرابٌ طَيِّبُ المَنْزَعَةِ. أي : المقطَع إذا شُرِبَ كما قال تعالی: خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین/ 26] . ( ن زع ) نزع ( ن زع ) نزع اشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کمانکو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ آیت کو کسی واقعہ میں بطور مثال کے پیش کرنا ۔ نزع فلان کذا کے معنی کسی چیز کو چھین لینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران/ 26] اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات/ 1] ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نازعات سے مراد فرشتے ہیں جو روحوں کو جسموں سے کھینچتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر/ 19] ہم نے ان پر سخت منحوس دن میں آندھی چلائی وہ لوگوں کو اس طرح اکھیڑ ڈالتی تھی ۔ میں تنزع الناس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہو اپنی تیز کی وجہ سے لوگوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال باہر پھینک دیتی تھی بعض نے کہا ہے کہ لوگوں کی روحوں کو ان کے بد نوں سے کھینچ لینا مراد ہے ۔ التنازع والمنازعۃ : باہم ایک دوسرے کو کھینچا اس سے مخاصمت اور مجا دلہ یعنی باہم جھگڑا کرنا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء/ 59] اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو رجوع کرو ۔ فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه/ 62] تو وہ باہم اپنے معاملہ میں جھگڑنے لگے ۔ النزع عن الشئی کے معنی کسی چیز سے رک جانے کے ہیں اور النزوع سخت اشتیاق کو کہتے ہیں ۔ وناز عتنی نفسی الیٰ کذا : نفس کا کسی طرف کھینچ کرلے جانا کس کا اشتیاق غالب آجانا ۔ انزع القوم اونٹوں کا پانے وطن کا مشتاق ہونا رجل انزع کے معنی سر کے بال بھڑ جانا کے ہیں ۔ اور نزعۃ سر کے اس حصہ کو کہتے ہیں جہاں سے بال جھڑ جائیں ۔ اور تانیث کے لئے نزعاء کی بجائے زعراء کا لفظ استعمال ہوتا ہے بئر نزدع کم گہرا کنواں جس سے ہاتھ کے رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔ اول ( تاویل) التأويل من الأول، أي : الرجوع إلى الأصل، ومنه : المَوْئِلُ للموضع الذي يرجع إليه، وذلک هو ردّ الشیء إلى الغاية المرادة منه، علما کان أو فعلا، ففي العلم نحو : وَما يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ [ آل عمران/ 7] ، وفي الفعل کقول الشاعر : وللنّوى قبل يوم البین تأويل وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ [ الأعراف/ 53] أي : بيانه الذي غایته المقصودة منه . وقوله تعالی: ذلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا [ النساء/ 59] قيل : أحسن معنی وترجمة، وقیل : أحسن ثوابا في الآخرة . التاویل ۔ یہ بھی اول سے مشتق ہے جس کے معنی چیز کے اصل کی طرف رجوع ہونے کے ہیں اور جس مقام کی طرف کوئی چیز لوٹ کر آئے اسے موئل ( جائے بازگشت) کہا جاتا ہے ۔ پس تاویل کسی چیز کو اس غایت کی طرف لوٹانا کے ہیں جو اس سے بلحاظ علم علم یا عمل کے مقصود ہوتی ہے ۔ چناچہ غایت علمیٰ کے متعلق فرمایا :۔ { وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ } ( سورة آل عمران 7) حالانکہ اس کی مراد اصلی خدا گے سوا کوئی نہیں جانتا یا وہ لوگ جو علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں اور غایت عملی کے متعلق شاعر نے کہا ہے ۔ ، ، وللنوی ٰ قبل یوم البین تاویل ، ، اور جدائی کے دن سے پہلے جدائی کا انجام کا ( اور اس کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں ۔ اور قرآن میں ہے { هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ } ( سورة الأَعراف 53) اب صرف وہ اس کی تاویل یعنی وعدہ عذاب کے انجام کار کا انتظار کر رہے ہیں جس دن اس وعدہ عذاب کے نتائج سامنے آجائیں گے ۔ یعنی اس دن سے جو غایت مقصود ہے وعملی طور پر ان کے سامنے ظاہر ہوجائے گی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا } ( سورة النساء 59) میں بعض نے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے ( احسن تاویلا ہونا مراد لیا ہے اور بعض نے آخرت میں بلحاظ ثواب کے احسن ہونا مراد لیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

اولی الامر کی اطاعت کا بیان ارشاد باری ہے (ایا ایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ واطیعوالرسول واولی الامر منکم، اے ایمان لانے والو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرورسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں) ۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اولی الامر کی تاویل میں اختلاف رائے ہے حضرت جابر بن عبداللہ حضرت ابن عباس ، ایک روایت کے مطابق) حسن ، عطا، اور مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو فقہ یعنی دین کی سمجھ اور علم رکھنے والے ہوں۔ حضرت ابن عباس (ایک اور روایت کے مطابق) اور حضڑت ابوہریرہ سے مروی ہے اس سے مراد جہاد پر جانے والے فوجی دستوں کے سالار ہیں یہ بھی درست ہے کہ آیت میں یہ تمام لوگ مراد ہوں کیونکہ اولی الامر کا اسم ان سب کو شامل ہے۔ امرائے جیوش شکروں اور فوجی دستوں اور دشمن سے حرب وضرب کی تدابیر سے تعلق رکھنے والے معاملات کے نگران اور ذمہ دار ہوتے ہیں جبکہ علمائے شرعیت کی حفاظت اور معاملات وامور کے جواز اور عدم جواز کی پاسبانی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ اس لیے لوگوں کو امراء اور حکام کی اس وقت تک اطاعت کا حکم دیا گیا اور ان کی بات ماننے کے لیے کہا گیا جب تک وہ عدل وانصاف سے کام لیتے رہیں ، رہ گئے علماء تو وہ عادل ہوتے ہیں ان کی شخصیتیں پسندیدہ ہوتی ہیں اور جو کچھ وہ لوگوں کو بتاتے اور جو کچھ کرتے ہیں اس میں ان کی دین داری اور دیانت داری پر لوگوں کو پورا بھروسا ہوتا ہے۔ یہ بات اس قول باری کی نظیر ہے (فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون) اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھو) ایک قول یہ بھی ہے کہ اس جگہ اولی الامر سے امراء یعنی ارباب بست وکشاد مراد لینازیادہ واضح ہوگا، کیونکہ اس سے پہلے انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کا دن گزرچکا ہے یہ ان لوگوں کو خطاب ہے جو احکام و قوانین کی تنقید کے ذمہ دار ہیں ، یعنی حکام اور قضاۃ اس پر اولوالامر کی اطاعت کے حکم کو عطف کیا گیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ اولوالامر سے مراد وہ ارباب بست کشاد ہیں جو لوگوں پر حکومت کرتے ہیں جب تک یہ انصاف پر قائم رہیں اور لوگوں کی نظروں میں پسندیدہ رہیں۔ ان کی اطاعت ضروری ہے لیکن اس میں کوئی امتناع نہیں کہ اولوالامر کے دونوں طبقوں یعنی فوجی دستوں کے امراء اور علماء کی اطاعت اور فرمانبرداری کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہو۔ کیونکہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کے حکم کا پہلے گزرجانا اس بات کی موجب نہیں ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کے حکم کو صرف امراء تک محدود کردیاجائے کسی اور کو اس میں شامل نہ کیا جائے جبکہ حضور سے یہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (من اطاع امیری فقد اطاعنی) جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے گویا میری اطاعت کی ٩۔ زہری نے محمد بن جبیر بن مطعم سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منی میں خیف کے مقام پر کھڑے ہوکر فرمایا (نضر اللہ عبداسمع مقالتی فوعا ھاثم اداھا الی من لم یسمعھا فرب حامل فقہ لافقہ لہ ورب حامل فقہ الی من ھو افقہ منہ ثلاث لایغل علیھن قلب مومن اخلاص العمل اللہ تعالیٰ ، وقال بعضھم وطاعۃ ذوی الامر ، وقال بعضھم والنصیحۃ لاولی الامر ولزوم جماعۃ المسلمین فان دعوتھم تحیط من وراء ھم۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ اور سرسبز شاداب رکھے جس نے میری بات سنی اور اسے یاد رکھا اور پھر ان لوگوں تک پہنچادیا جوا سے سن نہ سکے تھے کیونکہ بعض دفعہ دین کی ایک بات کو دوسروں تک پہنچانے والاایسا ہوتا ہے جسے خود اس بات کی سمجھ نہیں ہوتی اور بعض دفعہ وہ اس بات کو ای سے انسان تک لے جاتا ہے جو اس سے بڑھ کر سمجھ دار ہوتا ہے۔ تین باتیں ایسی ہیں جن کے متعلق ایمان والے کسی دل میں کوئی کھوٹ اور ملاوٹ نہیں ہوتی ، اول اللہ کے لیے اخلاص دوام اولی الامر خیرخواہی ، سوم مسلمانوں کی جماعت سے وابستگی اس لیے کہ مسلمانوں کی دعا انہیں اپنے حفاظتی گھیرے میں لیے ہونے ہوتی ہے۔ اس روایت میں زیادہ واضح بات یہی ہے کہ آپ نے اولوالامر سے امراء مراد لی ہے ، آیت زیر بحث کے ساتھ ہی) ارشاد باری ہے (فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والرسول ، اگر کسی معاملے میں تمہارا اختلاف ہوجائے توا سے اللہ اور رسول کی طرف پھیردو) ۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اولوالامر سے مراد فقہاء ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے پھر اس قول باری میں اولوامر کی حکم دیا گیا ہے کہ وہ وہ متنازع فیہ معاملہ کو کتاب اللہ اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹائیں اور اس کا حل ان دونوں ماخذ کی روشنی میں تلاش کریں کیونکہ عوام الناس اور غیر اہل علم طبقے کا یہ مرتبہ نہیں ہوسکتا جس کا ذکر آیت میں کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ انہیں اس بات کا پتہ ہی نہیں ہوتا کہ متنازع فیہ معاملے کو کتاب وسنت کی روشنی میں کس طرح حل کیا جاتا ہے اور نئے مسائل کے لیے ان سے کسی طرح استدلال ہوتا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں علماء کو خطاب ہے۔ بعض اہل علم نے امامت کے متعلق روافض کے مذہب کا ابطال ، قول باری (واطیعوا اللہ واطیعوالرسول واولی الامر منکم) سے کیا ہے کیونکہ اولو الامر سے یاتوفقہاء ہوگی یا امراء یا امام جس کے یہ دعویدار ہیں۔ اگر اس سے فقہاء اور امزاء مراد ہوں توپھرامام مراد لینا باطل ہوجائے گا فقہاء اور امراء سے غلطی سرزد ہونے ، نسیان ، سہو، واقع ہونے اور تغیر و تبدیل کا امکان ہے لیکن ہمیں ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے یہ بات عقیدہ امامت کی بنیاد کو باطل کردیتی ہے کیونکہ روافض کے ہاں امام کے لیے معصوم ہوناشرط ہے یعنی اس سے غلطی سرزد نہیں ہوسکتی، نسیان ، سہو اورتغیر وتبدل سے وہ مبرا ہوتا ہے۔ آیت سے امام معصوم مراد لینا درست نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ خطاب میں یہ فرمایا (فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ، والرسول ) اگر کوئی امام ہوتا جس کی اطاعت فرض ہوتی تومتنازع فیہ معاملے میں اس کی طرف رجوع کرنا واجب ہوتا ہے اور تنازعہ اور اختلاف کو ختم کرانے میں وہی آکر سند کی حیثیت رکھتا ہے لیکن نئے پیدا شدہ مسائل میں اختلاف رائے کی صورت میں امام معصوم کی بجائے کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ ا نکاعقیدہ امامت باطل ہے۔ اس لیے کہ اگر کسی واجب الطاعۃ امام کا وجود ہوتا ہے تو قول باری کے الفاظ یہ ہوتے اے امام کی طرف لوٹاؤ، کیونکہ روافض کے نزدیک کتاب وسنت کی تاویلات اور معانی ومفاہیم کی تعیین میں امام کا قول ، قول فیصل ہوتا ہے۔ لیکن آیت میں جب سالاران عساکر اور فقہاء امت کی اطاعت اور نئے پیدا شدہ مسائل میں اختلاف رائے کو امام کی بجائے کتاب وسنت کی طرف راجع کرنے کا حکم دیا گیا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مختلف فیہ مسائل کے احکام کے سلسلے میں امام معصوم واجب الطاعہ، نہیں ہے نیز یہ کہ ہر فقیہ کو مختلف فیہ مسئلے میں کتاب وسنت کے نظائر سے استدلال کرنے کی اجازت ہے ۔ اس باطل فرقے کا خیال یہ ہے کہ قول باری (والی الامر منکم) سے حضرت علی مراد ہیں۔ لیکن یہ تاویل سراسر غلط ہے کیونکہ اولی الامر گروہ اور جماعت کی شکل میں ہوں گے جبکہ حضرت علی ایک فرد واحد ہیں ، نیز حضور کے زمانے میں لوگوں کو اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا تھا اور اس زمانے میں حضرت علی امام نہیں تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوگئی کہ حضور کے زمانے میں امراء اور عمال اولی الامر تھے اور ان کی اطاعت بھی اس وقت تک لازم تھی جب تک وہ لوگ کو معصیت کے ارتکاب کا حکم نہ دیں، حضور کے زمانے کے بعد بھی امراء وعمال کی اطاعت اور ان کی اتباع کے لیے یہی شرط ہے کہ معصیت کے اندران کی پیروی اور اطاعت مسلمانوں پر لازم نہیں ہے۔ قول باری ہے (فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والرسول) کے متعلق مجاہد، قتادہ ، میمون بن مہران اور سدی سے مروی ہے کہ اللہ اور رسول کی طرف لوٹانے سے مراد کتاب وسنت کی طرف لوٹانا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور کی زندگی کے اندر اورآ پ کی وفات کے بعد متنازع فیہ معاملے کو کتاب وسنت کی طرف لوٹانے کے وجوب مین عموم ہے۔ کتاب وسنت کی طرف لوٹانے کی دوصورتیں ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ مختلف فیہ معاملے کو اس حکم کی طرف لوٹایاجائے جو منصوص ہوا اور جس کا ذکر اس کے اسم اور معنی کے ساتھ ہوا ہو، دوسری صورت یہ ہے کہ معاملے کو اس حکم کی طرف لوٹایاجائے جو نصا تو ثابت نہ ہورہاہو لیکن اس پر دلالت موجود ہو اورقیاس اور نظائر کی مدد سے اس کا اعتبار کیا جاسکتا ہو۔ آیت میں وارد لفظ کا عموم ان دونوں صورتوں کو شامل ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جب کسی معاملے میں ہمارے درمیان اختلاف رائے پیدا ہوجائے توا سے کتاب وسنت کے منصوص حکم کی طرف لوٹایاجائے۔ اگر مختلف فیہ مسئلے کے متعلق ان دونوں ماخذوں میں کوئی حکم موجود ہو لیکن اگر کوئی منصوص حکم موجود نہ ہو تو اس کی نظیر کی طرف لوٹانا واجب ہوگا۔ کیونکہ ہمیں ہر حالت میں معاملے کو کتاب وسنت کی طرف لوٹانے کا حکم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کے لیے کسی کا ص حالت یا صورت کی تخصیص نہیں فرمائی، البتہ مضمون کلام اور اس کا ظاہراس بات کا مقتضی ہے کہ کتاب وسنت کی طرف ایسے مختلف فیہ معاملات ہی لوٹائے جاسکیں گے جس کے متعلق کوئی منصوص حکم موجود نہ ہوکیون کہ نص کی موجودگی میں کسی مسئلے کے اندراس حکم کے سوا کسی اور حکم کا احتمال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے مسئلے میں صحابہ کرام کے درمیان بھی اختلاف رائے نہیں ہوتا جب کہ عربی زبان کے وہ رموز آشنا تھے اور کلام میں احتمال اور غیر احتمال کی صورتوں سے پوری طرح واقف تھے، اس لیے آیت کا ظاہر اس بات کا مقتضی ہے کہ مختلف فیہ مسئلے کو کتاب وسنت مین پائے جانے والے اس کے نظائر کی طرف لوٹایاجائے۔ اگریہ کہاجائے کہ اس سے مراد ہے کہ اختلاف رائے ختم کرکے کتاب وسنت کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کردیاجائے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ مختلف فیہ مسئلے کو کتاب وسنت کی طرف لوٹانے کے سلسلے میں تمام مسلمانوں کو خطاب کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے (یا ایھا الذین امنواطیعواللہ واطیعوالرسول) اگر اس کی تاویل وہی ہے جس کا معترض نے ذکر کیا ہے تو آیت کے معنی یہ ہوں گے اے ایمان والو، کتاب اللہ اور اس کے نبی کی سنت کی پیروی کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو جبکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ جو شخص ایمان لے آتا ہے تو ایمان پر اس کے عقیدے کے اندر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کے التزام کا عقیدہ بھی موجود ہوتا ہے۔ اس لیے معترض کی تاویل کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ قول باری (فردوہ الی اللہ والرسول) کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہے گا، نیز آیت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ اورا سکے رسول کی اطاعت کا حکم گزر چکا ہے اس لیے قول باری (فردوہ الی اللہ والرسول) کو اسی مفہوم پر محمول کرنا درست نہیں ہوگاجس کا اظہار خطاب کے شروع میں ایک دفعہ ہوچکا ہے۔ بلکہ اس نئے مفہوم اور فائدے پر محمول کرنا ضروری ہوگا اور نیا مفہوم یہ ہے کہ ایسا مسئلہ جس کا مفہوم منصوص نہیں ہے اس میں اختلاف رائے کی صورت میں اسے منصوص علیہ مسئلے کی طرف لوٹایاجائے ۔ دوسرے الفاظ میں ہر مختلف فیہ مسئلے میں کتاب وسنت کے اندر اس کے نظائر سے حکم تلاش کیا جائے گا، نیز آیت میں لفظ کے عموم کے تحت یہ دلالت ہے کہ ہم تمام مختلف فیہ مسائل کو کتاب وسنت کی طرف لوٹانے کے پابند ہیں اور دلیل کے بغیر کسی مسئلے کو کتاب وسنت سے باہر نہیں لے جاسکتے ۔ اگریہ کہاجائے کہ حضور کی زندگی کے دوران کسی مسئلے میں اختلاف رائے کی صورت میں صحابہ کرام اس آیت کے حکم کے مخاطب تھے اور یہ بات معلوم ہے کہ حضو رکی موجودگی میں نئے پیدا ہونے والے مسائل کے احکام کے سلسلے میں ان حضرات کے لیے اپنی رائے سے کام لینے اور قیاس کرنے کی گنجائش نہیں تھی ، بلکہ ان پر حضور کی بات مان لینا، اور آپ کے حکم کی پیروی کرنا فرض تھا، قیاس کے ذریعے معاملے کو لوٹانے کے تکلف کی ضرورت نہیں تھی، اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ منصوص احکامات پر عمل کیا جائے اور غیر منصوص باتوں پر غور کرنے اور اجتہاد سے کام لینے کے تکلف سے گریز کیا جائے۔ اس اعتراض کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ یہ بات سرے سے غلط ہے کیونکہ حضور کی زندگی کے اندر بھی رائے سے کام لینے اور اجتہاد کر بروئے کار لانے نیز نئے پیدا شدہ مسائل کو ان کے منصوص نظائر کی طرف لوٹانے کا سارا عمل دوصورتوں میں جائز سمجھاجاتا تھا ایک صورت میں جواز نہیں قرار دیاجا تھا۔ جواز کی پہلی صورت وہ تھی جب صحابہ کرام حضور سے دور چلے جاتے جس طرح آپ نے حضرت معاذ بن جبل کو یمن کی طرف روانہ کرتے ہوئے ان سے پوچھا تھا اگر کوئی مقدمہ پیش ہوگا تو اس کا فیصلہ کس طرح کرو گے ؟ حضرت معاذ نے جواب میں عرض کیا تھا کہ میں کتاب اللہ کے مطابق ا سکافیصلہ کروں گا۔ آ پ نے فرمایا اگر کتاب اللہ میں وہ حکم نہ ملا توکیاکرو گے ؟ حضرت معاذ نے جواب دیا، میں اللہ کے نبی کی سنت کے مطابق اس کا فیصلہ کروں گا، آپ نے پھر پوچھا اگر اس کا حکم کتاب اللہ اور سنت رسول میں نہ ملاتوپھرکیاکرو گے ؟ حضرت معاذ نے جواب دیا، تو پھر اپنے غور وفکر اور سوچ بچار سے کام لوں گا، اور اس میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے حضرت معاذ کے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا (الحمدللہ الذی وفق رسول اللہ لمایرضی رسول اللہ ، للہ الحمد، کہ اس نے اللہ کے رسول کے رسول اور پیغامبر کو اس طریق کار کی توفیق عطا کی جس سے اللہ کا رسول راضی ہے) ۔ یہ ایک صورت تھی جس کے تحت حضور کی زندگی میں اجتہاد کرنے اور رائے سے کام لینے کا جواز تھا، دوسری صورت یہ تھی کہ حضور کسی صحابی کو اپنے سامنے ایک مسئلے پر غور کرنے اور نئے مسئلے کو اس کی نظیر کی طرف لوٹانے کا حکم دیتے تاکہ غور و فکر کرنے والے صاحب کی صلاحیتوں کا اندازہ لگ جائے اور یہ معلوم ہوجائے کہ یہ صاحب اس کام کے لیے موزوں ہیں یا نہیں ؟ اگر ان سے غلطی ہوتی اور غور و فکر کی راہ سے ہٹ جاتے تو آپ انہیں سیدھی راہ پر لگاتے اور انہیں ہدایات بھی دیتے۔ آپ صحابہ کرام کو اس بات کی تعلیم دیتے تھے کہ میرے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد نئے مسائل کے احکام معلوم کرنے کے لیے تم پر اجتہاد واجب ہے ، اس طرح حضور کی موجودگی میں اس طریقے سے اجتہاد کی گنجائش موجود رہی۔ جیسا کہ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت کی ہے انہیں اسلم بن سہل نے ، انہیں محمد بن خالد بن عبداللہ نے ، انہیں ان کے والد نے حفص بن سلیمان سے ، انہوں نے کثیر بن شنظیہ سے انہوں نے ابوالعالیہ سے انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر سے ایک دفعہ دو شخص حضور کی خدمت میں اپنا جھگڑا لے کر آئے آپ نے حضرت عقبہ سے فرمایا عقبہ ان کے جھگڑے کا فیصلہ کرو۔ حضرت عقبہ نے عرض کیا، حضور آپ کی موجودگی میں میں ان کے جھگڑے کا فیصلہ کروں۔ آپ نے فرمایا، فیصلہ کرو اگر درست فیصلہ کرو گے تو تمہیں دس نیکیاں ملیں گی اور اگر غلطی کرو گے تو ایک نیکی کے مستحق ٹھہرو گے۔ اس طرح حضور نے اپنے سامنے اس طریقے پر اجتہاد کرنے کی اباحت کردی جو ہم نے بیان کی ہے۔ ہمارے نزدیک حضور کا حضرت معاذ اور حضرت عقبہ کو اجتہاد کرنے کا حکم اس قول باری ، فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والرسول) کی بنیاد پر صادر ہوا تھا اس لیے کہ اگر ہمیں حضور کی جانب سے کوئی ایسا حکم مل جائے جو اس مفہوم ومعنی کے موافق ہو جس کا قرآن میں ورود ہوچکا ہوتوہم ایسے حکم کو قرآن کے ذریعے دیاجانے والاحکم تصور کریں گے۔ حضور سے اس کی ابتدا نہیں سمجھیں گے۔ مثلا آپ کا چور کو قطع ید اور زانی کو کوڑوں کی سزا دینا اور اسی قسم کے دوسرے احکام اس لیے معترض کا یہ قول درست نہیں ہے کہ حضور کے زمانے میں نئے مسائل کے احکام معلوم کرنے کے لیے اجتہاد کی گنجائش نہیں تھی، اور مختلف فیہ معاملے کو کتاب وسنت کی طرف لوٹانا واجب تھا جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ اختلاف اور تنازعہ کو ترک کرکے اس چیز کو تسلیم کرلیناضروری تھا جو کتاب وسنت میں منصوص ہوتی۔ تیسری صورت جس کے تحت حضور کی زندگی میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہ تھی وہ یہ تھی کہ کوئی شخص آپ کی موجودگی میں کسی حکم کو جاری کرانے اور اپنی رائے پر ڈٹے رہنے کی نیت سے اجتہاد کرتا، اس طریقے پر اجتہاد نہ کرتا جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی واجب ہے قول باری ہے (واطیعواللہ واطیعوالرسول) اللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اطاعت کرو) نیز فرمایا (وماارسلناک من رسول الا لیطاع باذن اللہ) ہم نے جو بھی رسول بھیجا وہ اس لیے بھیجا کہ اللہ کی اجازت سے اس کی پیروی کی جائے) ۔ نیز فرمایا (ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ، جو شخص رسول کی پیروی کرتا ہے وہ اللہ کی پیروی کرتا ہے ) نیز ارشاد ہوا (فل اوربک لایومنون حتی یحکمونک فیما شجر بینھم ثم لایجدون۔۔۔ تا۔۔۔۔۔ تسلیما۔ نہیں ، اے محمد تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلاف میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں، بلکہ سرتسلیم خم کرلیں) اللہ جل شانہ نے ان آیات کے ذریعے رسول اللہ کی اطاعت کے وجوب کی پوری طرح تاکید کردی اور یہ واضح کردیا کہ رسول اللہ کی طاعت اللہ کی اطاعت ہے جس سے یہ بات از خود معلوم ہوگئی کہ رسول اللہ کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے ۔ قول باری ہے (فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنہ، او یصیبھم عذاب الیم، ان لوگوں کو جو پیغمبر کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اس بات سے ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں کسی آزمائش کی گرفت میں نہ آجائیں یا کوئی دردناک عذاب انہیں آنہ لے) اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کے حکم کی مخالفت پر وعید سنائی اور آپ کے حکم کی مخالفت کرنے والے، آپ کے فیـصلے کو تسلم نہ کرنے والے اور اس میں شریک کرنے والے کو دائرہ ایمان سے خارج قرار دیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا (فل اوربک لایومنون حتی یحکموک فیماشجر بینھم۔۔ تا۔۔۔ آخر آیت۔ آیت میں لفظ حرج کے معنی شک کے بیان کیے گئے ہیں مجاہد سے اس معنی کی روایت کی گئی ہے۔ حرج کے اصل معنی تنگی کے ہیں، اس سے یہ مراد لینا بھی جائز ہے کہ حضور کے فیصلے کو اس طرح تسلیم کرلیاجائے کہ اس کے وجوب تسلیم کے بارے میں کوئی شک نہ ہو اورنہ دل میں اس سے کوئی تنگی پیدا ہوبل کہ کھلے دل کے ساتھ اور پورے یقین و بصیرت کے ساتھ اسے مان لیاجائے۔ آیت میں یہ دلالت موجود ہے کہ جس شخص نے اللہ یا اس کے رسول کے اوامر میں سے کسی امر اور حکم کو ٹھکرادیا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے خواہ س نے شک کی بنا پر اسے ٹھکرادیاہویاقبول نہ کرنے کی بنا پر تسلیم کرنے سے باز رہنے کی بنا پر اس نے ایسا کیا ہو۔ یہ بات صحابہ کرام کے اس موقف کی صحت کی موجب ہے جوان حضرات نے مانعین زکوۃ پر ارتداد کا حکم لگانے ، انہیں قتل کرنے اور ان کے اہل وعیال کو جنگی قیدی بنالینے کے بارے میں اختیار کیا تھا، اس لے کہ اللہ نے یہ فرمادیا کہ جو شخص نبی کریم کے فیصلے اور آپ کے احکامات کو تسلیم نہیں کرتا وہ اہل ایمان میں سے نہیں ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ جب رسول اللہ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے تو رسول اللہ کا امر اللہ کا امر کیوں نہیں ہے ، اس کے جواب میں کہاجائیگا کہ رسول اللہ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دینے کی وجہ سے یہ ہے کہ رسول اللہ کی اطاعت اس لحاظ سے اللہ کی اطاعت کے ساتھ موافقت ومطابقت رکھتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے اندر اللہ کے اوامر پیش نظر ہوتے ہیں۔ جہاں تک امر کا تعلق ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ کہنے والاکسی سے کہے، افعل (فلاں کام کرلے) اس مفہوم کے تحت یہ درست نہیں ہوگا کہ دوامر کرنے والوں سے ایک امر صادر ہو جس طرح دو کہنے والوں سے ایک قول اور دوکام کرنے والوں سے ایک کام صادر ہونادرست نہیں ہوتا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٩) عثمان بن طلحہ (رض) اور ان کے ساتھیوں، احکام خداوندی میں اس کا اور نیز حکام اور علماء کا کہنا مانو اور اگر کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اگر بعث بعد الموت پر ایمان رکھتے ہو تو اس چیز کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالہ کردیا کرو۔ اس کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ شان نزول : (آیت) ” یایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ “۔ (الخ) حضرت امام بخاری (رح) وغیرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن حذافیہ بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجا تھا۔ داؤدی کہتے ہیں کہ یہ ابن عباس (رض) عنہپر جھوٹ ہے کیوں کہ عبداللہ بن حذافہ ایک لشکر کے امیر بن کر روانہ ہوئے، انھوں نے ناراض ہو کر آگ روشن کی اور لشکر کو بھی آگ روشن کرنے کا حکم دیا، چناچہ بعض نے اس سے کنارہ کش رہنے اور بعض نے حکم کی اطاعت کرنے کا ارادہ کیا اگر آیت اس واقعہ سے قبل نازل ہوئی ہے تو یہ عبداللہ بن حذیفہ کے ساتھ کیسے خاص ہوسکتی ہے۔ اور اگر آیت بعد میں نازل ہوئی ہے تو لوگوں کو تو امر بالمعروف میں اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس موقع پر عدم اطاعت کی بنا پر ان سے کسی قسم کی باز پرس نہیں کی گئی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی (رح) نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ مقصود یہ ہے کہ اس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہے (ان کی اطاعت کے بارے میں نازل نہیں ہوئی) کیوں کہ لشکر والے آگ سے بچنے کی وجہ سے حکم کی بجا آوری میں رائے میں اختلاف ہوا تو اس وقت اس حکم کا نازل ہونا مناسب ہوا کہ اس قسم کے اختلاف کے وقت لوگوں کو کس قسم کا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے، اس کی جانب رہنمائی ہوجائے۔ اور وہ رہنمائی کا طریقہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کا معاملہ کا حوالہ کردیتا ہے اور ابن جریر (رح) نے روایت کیا ہے عمار بن یاسر (رض) نے بغیر ان کی اجازت کے ایک شخص کو پناہ دے دی اس پر دونوں میں اختلاف ہوا، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

فرمایا : آیت ٥٩ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ) یعنی کوئی قانون اللہ اور اس کے رسول کی منشا کے خلاف نہیں بنایا جاسکتا۔ اصولی طور پر یہ بات پاکستان کے دستور میں بھی تسلیم کی گئی ہے : |" No Legislation will be done repugnant to the Quran and the Sunnah.|" لیکن اس کی تنفیذ و تعمیل کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے ‘ لہٰذا اس وقت ہمارا دستور منافقت کا پلندہ ہے۔ اس آیت کی رو سے اللہ کے احکام اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام قانون سازی کے دو مستقل ذرائع (sources) ہیں۔ اس طرح یہاں منکرین سنت کی نفی ہوتی ہے جو مؤخر الذکر کا انکار کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی فرمایا : (وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج) یہاں بہت عجیب اسلوب ہے کہ تین ہستیوں کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے : اللہ کی ‘ رسول کی اور اولوالامر کی ‘ لیکن پہلے دو کے لیے اَطِیْعُوْا “ کا لفظ آیا ہے ‘ جبکہ تیسرے کے لیے نہیں ہے۔ ایک اسلوب یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اَطِیْعُوْا “ ایک مرتبہ آجاتا اور اس کا اطلاق تینوں پر ہوجاتا : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ‘۔ اس طرح تینوں برابر ہوجاتے۔ دوسرا اسلوب یہ ہوسکتا تھا کہ اَطِیْعُواتیسری مرتبہ بھی آتا : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاَطِیْعُوْا اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ “۔ لیکن قرآن نے جو اسلوب اختیار کیا ہے کہ اَطِیْعُوا “ دو کے ساتھ ہے ‘ تیسرے کے ساتھ نہیں ہے ‘ اس سے اولوالامر کی اطاعت کا مرتبہ (status) متعینّ ہوجاتا ہے۔ ایک تو مِنْکُمْ “ کی شرط سے واضح ہوگیا کہ اولوالامر تم ہی میں سے ہونے چاہئیں ‘ یعنی مسلمان ہوں۔ غیر مسلم کی حکومت کو ذہناً تسلیم کرنا اللہ سے بغاوت ہے۔ وہ کم از کم مسلمان تو ہوں۔ پھر یہ کہ متذکرہ بالا اسلوب سے واضح ہوگیا کہ ان کی اطاعت مطلق ‘ دائم اور غیر مشروط نہیں۔ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت مطلق ‘ دائم ‘ غیر مشروط اور غیر محدود ہے ‘ لیکن صاحب امر کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے تابع ہوگی۔ وہ جو حکم بھی لائے اسے بتانا ہوگا کہ میں کتاب و سنت سے کیسے اس کا استنباط کر رہا ہوں۔ گویا اسے کم از کم یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ حکم کتاب و سنت کے خلاف نہیں ہے۔ ایک مسلمان ریاست میں قانون سازی اسی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔ دور جدید میں قانون ساز ادارہ کوئی بھی ہو ‘ کانگریس ہو ‘ پارلیمنٹ ہو یا مجلس ملی ہو ‘ وہ قانون سازی کرے گی ‘ لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ یہ قانون سازی قرآن وسنت سے متصادم نہ ہو۔ (فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ ) ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ اولوالامرک ہے کہ میں تو اسے عین اسلام کے مطابق سمجھتا ہوں ‘ لیکن آپ کہیں کہ نہیں ‘ یہ بات خلاف اسلام ہے ‘ تو اب کہاں جائیں ؟ فرمایا : (فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ ) یعنی اب جو بھی اپنی بات ثابت کرنا چاہتا ہے اسے اللہ اور اس کے رسول سے یعنی قرآن و سنت سے دلیل لانی پڑے گی۔ میری پسند ‘ میرا خیال ‘ میرا نظریہ والا استدلال قابل قبول نہیں ہوگا۔ استدلال کی بنیاد اللہ اور اس کے رسول کی مرضی ہوگی۔ یہ بات ماننی پڑے گی کہ ابھی یہاں ایک خلا ہے۔ وہ خلا یہ ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ فریقین میں سے کس کی رائے صحیح ہے۔ اور آج کے ریاستی نظام میں آکر وہ خلا پر ہوچکا ہے کہ یہ عدلیہ (Judiciary) کا کام ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں جب عرب میں اسلامی ریاست قائم ہوئی تو اس طرح علیحدہ علیحدہ ریاستی ادارے ابھی پوری طرح وجود میں نہیں آئے تھے اور ان کی الگ الگ شناخت نہیں تھی کہ یہ مقننہ (Legislature) ہے ‘ یہ عدلیہ (Judiciary) ہے اور یہ انتظامیہ (Executive) ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) کے زمانے میں تو کوئی قاضی تھے ہی نہیں۔ سب سے پہلے حضرت عمر (رض) نے شعبہ قضاء شروع کیا۔ تو رفتہ رفتہ یہ ریاستی ادارے پروان چڑھے۔ جدید دور میں ان تنازعات کے حل کا ادارہ عدلیہ ہے۔ وہاں ہر شخص جائے اور اپنی دلیل پیش کرے۔ علماء جائیں ‘ قانون دان جائیں اور سب جا کر دلائل دیں۔ وہاں سے فیصلہ ہوجائے گا کہ یہ بات واقعتا قرآن و سنت سے متصادم ہے یا نہیں۔ (اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط) (ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً ) آگے پھر منافقین کا تذکرہ شروع ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ میں نے آغاز میں عرض کیا تھا کہ اس سورة مبارکہ کا سب سے بڑا حصہ منافقین سے خطاب اور ان کے تذکرے پر مشتمل ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

89. This verse is the cornerstone of the entire religious, social and political structure of Islam, and the very first clause of the constitution of an Islamic state. It lays down the following principles as permanent guidelines: (1) In the Islamic order of life, God alone is the focus of loyalty and obedience. A Muslim is the servant of God before anything else, and obedience and loyalty to God constitute the centre and axis of both the individual and collective life of a Muslim. Other claims to loyalty and obedience are acceptable only insofar as they remain secondary and subservient, and do not compete with those owed to God. All loyalties which may tend to challenge the primacy of man's loyalty to God must be rejected. This has been expressed by the Prophet (peace be on him) in the following words: 'There may be no obedience to any creature in disobedience to the Creator.' (Muslim, 'Iman', 37; Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 3, p. 472 - Ed.) (2) Another basic principle of the Islamic order of life is obedience to the Prophet (peace be on him). No Prophet, of course, is entitled to obedience in his own right. Obedience to Prophets, however, is the only practical way of obeying God, since they are the only authentic means by which He communicates His injunctions and ordinances to men. Hence, we can obey God only if we obey a Prophet. Independent obedience to God is not acceptable, and to turn one's back on the Prophets amounts to rebellion against God. The following tradition from the Prophet (peace be on him) explains this: 'Whoever obeyed me, indeed obeyed God; and whoever disobeyed me, indeed disobeyed God.' (Bukhari, 'Jihad', 109; 'I'tisam', 2; Muslim, 'Amarah', 32, 33; Nasa'i, 'Bay'ah', 27; etc. - Ed.) We shall see this explained in more detail a little further on in the Qur'an. (3) In the Islamic order of life Muslims are further required to obey fellow Muslims in authority. This obedience follows, and is subordinate to, obedience to God and the Prophet (peace be on him). Those invested with authority (ulu al-amr) include all those entrusted with directing Muslims in matters of common concern. Hence, persons 'invested with authority' include the intellectual and political leaders of the community, as well as administrative officials, judges of the courts, tribal chiefs and regional representatives. In all these capacities, those 'invested with authority' are entitled to obedience, and it is improper for Muslims to cause dislocation in their collective life by engaging in strife and conflict with them. This obedience is contingent, however, on two conditions: first, that these men should be believers; and second, that they should themselves be obedient to God and the Prophet (peace be on him). These two conditions are not only clearly mentioned in this verse they have also been elucidated at length by the Prophet (peace be on him) and can be found in the Hadith. Let us consider, for example, the following traditions: A Muslim is obliged to heed and to obey an order whether he likes it or not, as long as he is not ordered to carry out an act of disobedience to God (ma'siyah). When ordered to carry out an act of disobedience-to God he need neither heed nor obey. There is no obedience in sin; obedience is only in what is good (ma'ruf). (For these traditions see Bukhari, 'Ahkam', 4; 'Jihad', 108; Muslim, 'Amarah', 39; Tirmidhi, 'Jihad', 29; Ibn Majah, 'Jihad', 40; Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 2, pp. 17 and 142 - Ed.) There will be rulers over you, some of whose actions you will consider good and others abominable. Who even disapproves of their abominable acts will be acquitted of all blame, and whoever resents them he too will remain secure (from all blame); not so one who approves and follows them in their abominable acts. They (i.e. the Companions) asked: 'Should we not fight against them?' The Prophet (peace be on him) said: 'No, not as long as they continue to pray.' (See Bukhari, 'Jihad', 108 - Ed.) This means that their abandonment of Prayer will be a clear sign of their having forsaken obedience to God and the Prophet (peace be on him). Thereafter it becomes proper to fight against them. In another tradition the Prophet (peace be on him) says: Your worst leaders are those whom you hate and who hate you; whom you curse and who curse you. We asked: 'O Messenger of God! Should we not rise against them?' The Prophet (peace be on him) said: 'No, not as long as they establish Prayer among you: not as long as they establish Prayer among you.' (See Muslim, 'Amarah', 65, 66; Tirmidhi, 'Fitan', 77; Darimi, 'Riqaq, 78; Ahmad b. Hanbal, Musnad, vol. 6, pp. 24, 28 - Ed.) In this tradition the position is further clarified. The earlier tradition could have created the impression that it was not permissible to revolt against rulers as long as they observed their Prayers privately. But the latter tradition makes it clear that what is really meant by 'praying' is the establishment of the system of congregational Prayers in the collective life of Muslims. This means that it is by no means sufficient that the rulers merely continue observing their Prayers: it is also necessary that the system run by them should at least be concerned with the establishment of Prayer. This concern with Prayer is a definite indication that a government is essentially an Islamic one. But if no concern for establishing Prayer is noticed, it shows that the government has drifted far away from Islam making it permissible to overthrow it. The same principle is also enunciated by the Prophet (peace be on him) in another tradition, in which the narrator says: 'The Prophet (peace be on him) also made us pledge not to rise against our rulers unless we see them involved in open disbelief, so that we have definite evidence against them to lay before God' (Bukhari and Muslim). (4) In an Islamic order the injunctions of God and the way of the Prophet (peace be on him) constitute the basic law and paramount authority in all matters. Whenever there is any dispute among Muslims or between the rulers and the ruled the matter should be referred to the Qur'an and the Sunnah, and all concerned should accept with sincerity whatever judgement results. In fact, willingness to take the Book of God and the Sunnah of His Messenger as the common point of reference, and to treat the judgement of the Qur'an and the Sunnah as the last word on all matters, is a central characteristic which distinguishes an Islamic system from un-Islamic ones. Some people question the principle that we should refer everything to the Book of God and the Sunnah of the Prophet (peace be on him). They wonder how we can possibly do so when there are numerous practical questions involved, for example, rules and regulations relating to municipal administration, the management of railways and postal services and so on which are not treated at all in these sources. This doubt arises, however, from a misapprehension about Islam. The basic difference between a Muslim and a non-Muslim is that whereas the latter feels free to do as he wishes, the basic characteristic of a Muslim is that he always looks to God and to His Prophet for guidance, and where such guidance is available, a Muslim is bound by it. On the other hand, it is also quite important to remember that when no specific guidance is available, a Muslim feels free to exercise his discretion because the silence of the Law indicates that God Himself has deliberately granted man the freedom to make his decision. 90. Since the Qur'an is not merely a legal code, but also seeks to instruct, educate, admonish and exhort, the earlier sentence which enunciates a legal principle is followed by another which explains its underlying purpose and wisdom. Two things are laid down. First, that faithful adherence to the above four principles is a necessary requirement of faith. Anyone who claims to be a Muslim and yet disregards the principles of Islam involves himself in gross self-contradiction. Second, the well-being of Muslims lies in basing their lives on those principles. This alone can keep them on the straight path in this life, and will lead to their salvation in the Next. It is significant that this admonition follows immediately after the section which embodies comments about the moral and religious condition of the Jews. Thus the Muslims were subtly directed to draw a lesson from the depths to which the Jews had sunk, as a result of their deviation from the fundamental principles of true faith just mentioned. Any community that turns its back upon the Book of God and the guidance of His Prophets, that willingly follows rulers and leaders who are heedless of God and His Prophets, and that obeys its religious and political authorities blindly without seeking authority for their actions either in the Book of God or in the practice of the Prophets, will inevitably fall into the same evil and corruption as the Israelites.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :89 یہ آیت اسلام کے پورے مذہبی ، تمدنی اور سیاسی نظام کی بنیاد اور اسلامی ریاست کے دستور کی اولین دفعہ ہے ۔ اس میں حسب ذیل اصول مستقل طور پر قائم کر دیے گئے ہیں: ( ۱ ) اسلامی نظام میں اصل مطاع اللہ تعالیٰ ہے ۔ ایک مسلمان سب سے پہلے بندہ خدا ہے ، باقی جو کچھ بھی ہے اس کے بعد ہے ۔ مسلمان کی انفرادی زندگی ، اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام ، دونوں کا مرکز و محور خدا کی فرمانبرداری اور وفاداری ہے ۔ دوسری اطاعتیں اور وفاداریاں صرف اس صورت میں قبول کی جائیں گی کہ وہ خدا کی اطاعت اور وفاداری کی مد مقابل نہ ہوں بلکہ اس کے تحت اور اس کی تابع ہوں ۔ ورنہ ہر وہ حلقہ اطاعت توڑ کر پھینک دیا جائے گا جو اس اصلی اور بنیادی اطاعت کا حریف ہو ۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ۔ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کے لیے کوئی اطاعت نہیں ہے ۔ ( ۲ ) اسلامی نظام کی دوسری بنیاد رسول کی اطاعت ہے ۔ یہ کوئی مستقل بالذات اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعت خدا کی واحد عملی صورت ہے ۔ رسول اس لیے مطاع ہے کہ وہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں ۔ ہم خدا کی اطاعت صرف اسی طریقہ سے کر سکتے ہیں کہ رسول کی اطاعت کریں ۔ کوئی اطاعت خدا رسول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے ، اور رسول کی پیروی سے منہ موڑنا خدا کے خلاف بغاوت ہے ۔ اسی مضمون کو یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصانی فقد عصی اللہ ۔ ” جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی ۔ “ اور یہی بات خود قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھ آگے آرہی ہے ۔ ( ۳ ) مذکورہ بالا دونوں اطاعتوں کے بعد اور ان کے ماتحت تیسری اطاعت جو اسلامی نظام میں مسلمانوں پر واجب ہے وہ ان” اولی الامر“ کی اطاعت ہے جو خود مسلمانوں میں سے ہوں ۔ ”اولی الامر “ کے مفہوم میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے سربراہ کار ہوں ، خواہ وہ ذہنی و فکری رہنمائی کرنے والے علماء ہوں ، یا سیاسی رہنمائی کرنے والے لیڈر ، یا ملکی انتظام کرنے والے حکام ، یا عدالتی فیصلے کرنے والے جج ، یا تمدنی و معاشرتی امور میں قبیلوں اور بستیوں اور محلوں کی سربراہی کرنے والے شیوخ اور سردار ۔ غرض جو جس حیثیت سے بھی مسلمانوں کا صاحب امر ہے وہ اطاعت کا مستحق ہے ، اور اس سے نزاع کر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں خلل ڈالنا درست نہیں ہے ۔ بشرطیکہ وہ خود مسلمانوں کے گروہ میں سے ہو ، اور خدا و رسول کا مطیع ہو ۔ یہ دونوں شرطیں اس اطاعت کے لیے لازمی شرطیں ہیں اور یہ نہ صرف آیت مذکورہ صدر میں صاف طور پر درج ہیں ، بلکہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پوری شرح و بسط کے ساتھ بیان فرما دیا ہے ۔ مثلاً حسب ذیل احادیث ملاحظہ ہوں: السمع و الطاعۃ المرء المسلم فی ما احب و کرہ مالم یؤمر بمعصیۃ فاذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ ۔ ( بخاری و مسلم ) مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے اولی الامر کی بات سنے اور مانے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند ، تاوقتیکہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے ۔ اور جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اسے نہ کچھ سننا چاہیے نہ ماننا چاہیے ۔ لا طاعۃ فی معصیۃ انما الطاعۃ فی المعروف ۔ ( بخاری و مسلم ) خدا اور رسول کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے ۔ اطاعت جو کچھ بھی ہے ”معروف“ میں ہے ۔ یکون علیکم امراء تعرفون و تنکرون فمن انکر فقد بری و من کرہ فقد سم ولکن من رضی و تابع فقالوا افلا نقاتلھم؟ قال لا ما صلّوا ۔ ( مسلم ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر ایسے لوگ بھی حکومت کریں گے جن کی بعض باتوں کو تم معروف پاؤ گے اور بعض کو منکر ۔ تو جس نے ان کے منکرات پر اظہار ناراضی کیا وہ بری الذمہ ہوا ۔ اور جس نے ان کو ناپسند کیا وہ بھی بچ گیا ۔ مگر جو ان پر راضی ہوا اور پیروی کرنے لگا وہ ماخوذ ہوگا ۔ صحابہ نے پوچھا ، پھر جب ایسے حکام کا دور آئے تو کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں ۔ یعنی ترک نماز وہ علامت ہو گی جس سے صریح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ وہ اطاعت خدا و رسول سے باہر ہو گئے ہیں ، اور پھر ان کے خلاف جدوجہد کرنا درست ہو گا ۔ شِرَار ائمّتکُم الّدیْن تبغضونہم و یبغضونکم و تلعنونہم و یلعنونکم قلنا یا رسول اللہ افلا نناذبھم عند ذالک؟ قال لا ما اقاموا فیکم الصلوۃ ، لا مَا اقاموا فیکم الصلوۃ ۔ ( مسلم ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے بدترین سردار وہ ہیں جو تمہارے لیے مبغوض ہوں اور تم ان کے لیے مبغوض ہو ۔ تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جب یہ صورت ہو تو کیا ہم ان کے مقابلہ پر نہ اٹھیں؟ فرمایا نہیں ، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں ۔ نہیں ، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں ۔ اس حدیث میں اوپر والی شرط کو اور زیادہ واضح کر دیا گیا ہے ۔ اوپر کی حدیث سے گمان ہوسکتا تھا کہ اگر وہ اپنی انفرادی زندگی میں نماز کے پابند ہوں تو ان کے خلاف بغاوت نہیں کی جاسکتی ۔ لیکن یہ حدیث بتاتی ہے کہ نماز پڑھنے سے مراد دراصل مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں نماز کا نظام قائم کرنا ہے ۔ یعنی صرف یہی کافی نہیں ہے کہ وہ لوگ خود پابند نماز ہوں ، بلکہ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے تحت جو نظام حکومت چل رہا ہو وہ کم از کم اقامت صلوٰۃ کا انتظام کرے ۔ یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ ان کی حکومت اپنی اصولی نوعیت کے اعتبار سے ایک اسلامی حکومت ہے ۔ ورنہ اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ حکومت اسلام سے منحرف ہوچکی ہے اور اسے الٹ پھینکنے کی سعی مسلمانوں کے لیے جائز ہو جائے گی ۔ اسی بات کو ایک اور روایت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے من جملہ اور باتوں کے ایک اس امر کا عہد بھی لیا کہ ان لا ننازع الامر اھلہ الا ان تروا کفرا بَوَاحًا عندکم من اللہ فیہ برھان ، یعنی یہ کہ” ہم اپنے سرداروں اور حکام سے نزاع نہ کریں گے ، اِلّا یہ کہ ہم ان کے کاموں میں کھلم کھلا کفر دیکھیں جس کی موجودگی میں ان کے خلاف ہمارے پاس خدا کے حضور پیش کرنے کے لیے دلیل موجود ہو ۔ “ ( بخاری و مسلم ) ( ٤ ) چوتھی بات جو آیت زیر بحث میں ایک مستقل اور قطعی اصول کے طور پر طے کر دی گئی ہے یہ ہے کہ اسلامی نظام میں خدا کا حکم اور رسول کا طریقہ بنیادی قانون اور آخری سند ( Final authority ) کی حیثیت رکھتا ہے ۔ مسلمانوں کے درمیان ، یا حکومت اور رعایا کے درمیان جس مسئلہ میں بھی نزاع واقع ہوگی اس میں فیصلہ کے لیے قرآن اور سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور جو فیصلہ وہاں سے حاصل ہوگا اس کے سامنے سب سر تسلیم خم کر دیں گے ۔ اس طرح تمام مسائل زندگی میں کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کو سند اور مرجع اور حرف آخر تسلیم کرنا اسلامی نظام کی وہ لازمی خصوصیت ہے جو اسے کافرانہ نظام زندگی سے ممیز کرتی ہے ۔ جس نظام میں یہ چیز نہ پائی جائے وہ بالیقین ایک غیر اسلامی نظام ہے ۔ اس موقع پر بعض لوگ یہ شبہہ پیش کرتے ہیں کہ تمام مسائل زندگی کے فیصلہ کے لیے کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی طرف کیسے رجوع کیا جا سکتا ہے جبکہ میونسپلٹی اور ریلوے اور ڈاک خانہ کے قواعد و ضوابط اور ایسے ہی بے شمار معاملات کے احکام سرے سے وہاں موجود ہی نہیں ہیں ۔ لیکن درحقیقت یہ شبہہ اصول دین کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے ۔ مسلمان کو جو چیز کافر سے ممیز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ کافر مطلق آزادی کا مدعی ہے ، اور مسلمان فی الاصل بندہ ہونے کے بعد صرف اس دائرے میں آزادی کا متمتع ہوتا ہے جو اس کے رب نے اسے دی ہے ۔ کافر اپنے سارے معاملات کا فیصلہ خود اپنے بنائے ہوئے اصول اور قوانین اور ضوابط کے مطابق کرتا ہے اور سرے سے کسی خدائی سند کا اپنے آپ کو حاجت مند سمجھتا ہی نہیں ۔ اس کے برعکس مسلمان اپنے ہر معاملہ میں سب سے پہلے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتا ہے ، پھر اگر وہاں سے کوئی حکم ملے تو وہ اس کی پیروی کرتا ہے ، اور اگر کوئی حکم نہ ملے تو وہ صرف اسی صورت میں آزادی عمل برتتا ہے ، اور اس کی یہ آزادی عمل اس حجت پر مبنی ہوتی ہے کہ اس معاملہ میں شارع کا کوئی حکم نہ دینا اس کی طرف سے آزادی عمل عطا کیے جانے کی دلیل ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :90 ”قرآن مجید چونکہ محض کتاب آئین ہی نہیں ہے بلکہ کتاب تعلیم و تلقین اور صحیفہ وعظ و ارشاد بھی ہے ، اس لیے پہلے فقرے میں جو قانونی اصول بیان کیے گئے تھے ، اب اس دوسرے فقرے میں ان کی حکمت و مصلحت سمجھائی جا رہی ہے ۔ اس میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں : ایک یہ کہ مذکورہ بالا چاروں اصولوں کی پیروی کرنا ایمان کا لازمی تقاضا ہے ۔ مسلمان ہونے کا دعویٰ اور ان اصولوں سے انحراف ، یہ دونوں چیزیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں ۔ دوسرے یہ کہ ان اصولوں پر اپنے نظام زندگی کو تمیر کرنے ہی میں مسلمانوں کی بہتری بھی ہے ۔ صرف یہی ایک چیز ان کو دنیا میں صراط مستقیم پر قائم رکھ سکتی ہے اور اسی سے ان کی عاقبت بھی درست ہو سکتی ہے ۔ یہ نصیحت ٹھیک اس تقریر کے خاتمہ پر ارشاد ہوئی ہے جس میں یہودیوں کی اخلاقی و دینی حالت پر تبصرہ کیا جا رہا تھا ۔ اس طرح ایک نہایت لطیف طریقہ سے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تمہاری پیش رو امت دین کے ان بنیادی اصولوں سے منحرف ہو کر جس پستی میں گر چکی ہے اس سے عبرت حاصل کرو ۔ جب کوئی گروہ خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی ہدایت کو پس پشت ڈال دیتا ہے ، اور ایسے سرداروں اور رہنماؤں کے پیچھے لگ جاتا ہے جو خدا رسول کے مطیع فرمان نہ ہوں ، اور اپنے مذہبی پیشواؤں اور سیاسی حاکموں سے کتاب و سنت کی سند پوچھے بغیر ان کی اطاعت کرنے لگتا ہے تو وہ ان خرابیوں میں مبتلا ہونے سے کسی طرح بچ نہیں سکتا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہوئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

41:’’صاحبِ اختیار‘‘ سے مراد اکثر مفسرین کے مطابق مسلمان حکمران ہیں۔ جائز امور میں ان کے اَحکام کی اطاعت بھی مسلمانوں کا فرض ہے۔ البتہ یہ اطاعت اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ کسی ایسی بات کا حکم نہ دیں جو شرعاً جائز ہو۔ اس بات کو قرآنِ کریم نے دو طرح واضح فرمایا ہے۔ ایک تو اس طرح کہ اصحابِ اختیار کی اطاعت کا ذکر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد فرمایا ہے جس میں یہ اشارہ ہوگیا کہ حکمرانوں کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے تابع ہے۔ دوسرے اگلے جملے میں مزید صراحت کے ساتھ بتادیا گیا کہ اگر کسی معاملے میں یہ اختلاف پیدا ہوجائے کہ آیا حکمرانوں کا دیا ہوا حکم صحیح اور قابلِ طاعت ہے یا نہیں تو اسے اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کردو جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم کو قرآن اور سنت کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھو، اگر وہ قرآن وسنت کے خلاف ہو تو اس کی اطاعت واجب نہیں ہے اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ ایسا حکم واپس لے لیں، اور اگر وہ حکم قرآن وسنت کے کسی صریح یا اجماعی طور پر مسلَّم حکم کے خلاف نہیں ہے تو عام مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس پر عمل کریں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اوپر کی آیت میں حاکموں کا ذکر فرما کر اس آیت میں محکوم لوگوں کا ذکر فرمایا اس آیت کی شان نزول قصہ طلب ہے حاصل اس قصہ کا یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبد اللہ بن حذافہ (رض) صحابی کو سردار کر کے اور کچھ لوگ ان کے ساتھ کر کے بخد کی طرف ایک چھوٹی سے لڑائی پر ان کو بھیجا تھا۔ راستے میں عبد اللہ بن حذافہ (رض) کو اپنے ساتھ کے لوگوں سے کچھ رنجش ہوگی۔ انہوں نے اپنے ساتھ کے لوگوں سے کہا کیا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم لوگوں کو میری اطاعت کا حکم نہیں دیا ہے ان لوگوں نے کہا ہاں دیا ہے۔ اس پر عبد اللہ نے حذافہ (رض) جنگل سے لکڑیاں جمع کرا کے ان لکڑیوں میں آگ لگادی۔ اور اپنے ساتھ کے سب آدمیوں سے کہا کہ تم سب اس آگ میں کود پڑو۔ اب عبد اللہ بن حذافہ (رض) کے ساتھوں کے دو گروہ ہوگئے کچھ لوگ تو آگ میں کودنے کو راضی ہوگئے اور کچھ لوگوں نے کہا کہ آگ سے بچنے کے لئے تو ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے ہیں بغیر اجازت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہم ہرگز یہ فعل نہ کریں گے۔ آخر یہ قصہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک آیا آپ نے فرمایا کہ جس امر کی شریعت اجازت دے حاکم کی اطاعت ایسے امر میں ہے تم اگر آگ میں کود پڑتے تو ہمیشہ اس آگ میں رہتے ١۔ اس شان نزول کو امام بخاری (رح) نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے بخاری ٢ میں روایت کیا ہے اور داؤدی شارح صحیح نے اس شان نزول پر جو اعتراض کیا ہے اس کا جواب اچھی طرح علامہ حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری ٣ میں دے دیا ہے۔ اور مفسرین نے سوا اس شان نزول کے اور شان نزول جو اس آیت کے بیان کئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان حالات پر بھی آیت کا مطلب صادق آتا ہے۔ ورنہ اصل شان نزول وہی ہے جو امام بخاری کی اس شان نزول کی روایت پر بخاری کی شرح داؤدی میں جو اعتراض کیا گیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر آیت کا نزول کی روایت پر بخاری کی روایت پر دوسری روایت کو فوقیت نہیں ہوسکی بخاری کی اس شان نزول عبد اللہ بن حذافہ (رض) کے قصے سے پہلے ماناجائے تو آیت کو قصہ سے کوئی تعلق باقی نہیں رہتا اگر آیت کا نزول قصے سے بعد مانا جائے تو عبد اللہ (رض) کے نافرمان لوگوں کو آیت میں کچھ سرزنش نہیں ہے حالانکہ جب آیت اولی الامر کی فرماں برداری کے حکم میں ہے اور قصے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے سردار کا حکم نہیں مانا تو آیت میں ان کا کچھ ذکر ہونا چاہیے تھا۔ حافظ ابن حجر (رح) کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ قصہ میں حاکم اور محکوم کا اس پر جھگڑا تھا کہ عبد اللہ (رض) کے حکم سے جو آگ جلائی گئی ہے اس میں کود پڑنا جائز ہے یا نہیں اس کا حکم آیت میں یہ ہے کہ ایسی باہمی نزاع کی صورت میں آپس کی نزاع کو بڑھانا نہیں چاہیے۔ بلکہ ہر ایماندار آدمی کو چاہیے کہ ایسے نزاع کی حالت میں اللہ اور اللہ کے رسول کا حکم تلاش کر کے اس کے موافق آپس کے جھگڑے کا تصفیہ کرے تاکہ بغیر حکم خدا اور رسول کے عقلی طور پر کسی کام کو کرلینے سے دین کی کوئی خرابی نہ لازم آجائے جس طرح عبد اللہ کے ساتھوں کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اتنی بڑی خرابی جتلائی کہ اگر وہ بغیر آنحضرت سے پوچھنے کے اپنی سمجھ سے اس آگ میں کود پڑتے تو قیامت تک اس آگ رہتے یہ آپ نے اس لئے فرمایا کہ یہ ایک صورت خود کشی کی تھی اور خود کشی کا حکم اوپر آیت و لا تقتلو انفسکم کی تفسیر میں گذر چکا ہے کہ جس طرح سے کوئی شخص خود کشی کرے گا اسی طرح کا عذاب اس پر ہمیشہ کیا جائے گا۔ اولی الامر کی تفسیر میں سلف کا اختلاف ہے بعضوں نے اس لفظ کی تفسیر امراء کی ہے اور بعضوں نے علماء دونوں تفسیروں میں کوئی تفسیر بھی لی جائے جب کہ آیت کی شان نزول کی بعض روایتوں میں الطاعۃ فی المعروف اور بعض روایویتوں میں انما الطاعۃ فی المعروف کا لفظ موجود ہے تو معنی آیت کے یہی ہوں گے اولی الامر منکم کی اطاعت اسی حد تک ہے جو حد کسی شرعی حکم سے شریعت میں معروف ہے اسی واسطے اللہ اور رسول کے نام کے ساتھ اطیعوا کا لفظ فرمایا اور اولی الامر کے ساتھ اطیعوا کا لفظ نہیں فرمایا تاکہ معلوم ہوجائے کہ اولی الامر کا حکم مستقل طور پر شرعی حکم نہیں ہے بلکہ اللہ اور رسول کے حکم کی یہ ایک شاخ ہے اور دنیا میں کوئی شاخ بغیر جڑ کے قائم نہیں رہ سکتی چناچہ اسی بنا پر اہل سنت اور مخالف اہل سنت فر قوں کے ما بین قدیم سے یہ جھگڑا چلا آتا ہے کہ ان فرقوں نے احادیث شفاعت ‘ حوض ‘ میزان ‘ عذاب قبر ‘’ صفات وغیرہ کے مخالف فقط قیاس سے اپنے مذہب کی چند شاخیں قائم کی ہیں جن کے رد قدح کے اہل سنت درپے ہیں اور کہتے ہیں کہ صریح حکم شرعی کے مقابلہ میں کوئی قیاس مقبول نہیں ہوسکتا۔ اسی بحث میں دفتر کے دفتر تالیف ہوگئے۔ اور قیامت تک ہوں گے بعض علماء نے اس بحث کے متعلق یہ لکھا ہے کہ اہل سنت کی کی وہ بحث مسائل اعتقادی سے متعلق ہے مسائل عملی سے متعلق نہیں ہے اور علماء نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اطیعوا الرسول کے حکم سے اللہ کے رسول کی اطاعت تمام مسائل اعتقادی اور عملی میں فرض ہے باوجود اس کے اس اطاعت کو مسائل اعتقادی میں منحصر کردینا گویا نبوت کو اس کے ایک جز میں منحصر کردینا ہے۔ جس کی جرأت کسی مسلمان کو نہیں چاہیے۔ اب غور طلب یہ بات ہے کہ جب ایسے دو مختلف حکم ہوں کہ ایک طرف صحیح سند سے حکم رسول ہو۔ اور دوسری طرف کسی عالم کا فتویٰ تو ان میں معروف شرعی کس کو کہا جائے گا۔ اور انما الطاعۃ فی المعروف کے موافق ان دونوں حکموں میں کون سے حکم کو حصر کے طور پر واجب الطاعت ٹھہرایا جائے گا۔ جس کے دل میں نور ایمان کی کچھ جھلک ہے اس غور مطلب بات کا جواب اس کی زبان سے یہی نکلے گا کہ ایسی صورت میں واجب الاطاعت معروف شرعی وہی اللہ کے رسول کا حکم ٹھہرایا جائے گا جس کی معروفیت کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنی اطاعت کے بعد اور اولی الامر کی اطاعت کے ما قبل ذکر فرمایا ہے اس لئے حاصل آیت کا یہ ہے کہ ما قبل کو ما قبل کے اور ما بعد کو مابعد کے رتبہ پر رکھنا حکم الٰہی کی فرمانبرداری اور اس کے برعکس میں نافرمانی ہے جس سے ہر مسلمان کو خوف کرنا اور ان کنتم مومنین کی شرط کو پورا کرنا چاہیے۔ اس شرط کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا۔ کہ جس کے دل میں نور ایمانی کی کچھ جھلک ہے اس کو اس طرح کے اختلاف کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی اس نصیحت کے مواف عمل کرنا چاہیے جو اس نے اس آیت میں فرمائی ہے ذلک خیر و احسن تاویلا کا مطلب یہ ہے کہ آیت کی ہدایت کے موافق عمل کرنے میں یہ خوبی ہے کہ جو اختلاف تھا وہ بھی رفع ہوجائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کا اجر بھی عقبیٰ میں ملے گا۔ تاویل کے معنی یہاں انجام کے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:59) تاویلا۔ تاویل بروزن تفعیل۔ اول سے مشتق ہے جس کے معنی اصل کی طرف لوٹنے کے ہیں۔ اسی لئے مرجع اور جائے بازگشت کو موئل کہتے ہیں۔ اول الشی الیہ۔ اس کی چیز کو واپس لوٹا دو ۔ یقال فی الدعاء اول اللہ علیک ضالتک خدا تمہاری گمشدہ چیز کو واپس دلادے۔ احسن تاویلا انجام کار بہتر ہے۔ Best and most suitable for final determination

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 مو ضح کا ترجمہ اوفائدہ یہ ہے اولی الا مر اختیار والے باشاہ اور قاضی اور جو کسی کام پر مقرر ہو اس کے حکم پر چلنا ضروری ہے جبتک وہ خلاف خدا اور سول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حکم نہ کرے اگر صریح خلاف کرے تو وہ حکم نہ مانے ایک امیر کی اطاعت کے سلسلہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انما الطاعتہ فی المعروف کہ امیر کی اطاعت صرف معروف یعنی نیکی میں ہے (ابن کثیر بحوالہ صحیحین)7 اس آیت میں ایک نہایت اہم حکم دیا ہے یعنی باہمی نزاع کی صورت میں اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رجوع ہونا شرط ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت تو قرآن کی اتباع ہے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی اطاعت ہے اور یہ اطاعتیں مستقل ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بھی اسلامی قانون کا مستقل ماخذ ہے۔ حضرت نواب صاحب لکھتے ہیں۔ اس آیت سے مقلدین دلیل لیتے ہیں تقلید کے واجب ہونے پر لیکن یہ دلیل نہیں ہوسکتی اولی الا مر سے بادشاہ اور حکام مراد ہیں (دیکھئے فوائد موضح) لیکن اگر سلف (رح) سے یہ منقول ہے کہ علمائے دین مراد ہیں تو اس میں اول تو کسی عالم کی تخصیص نہیں ہے دوسرے ہر فرض تسلیم عالم کی تقلید کا حک اسی وقت تک ہے کہ اس کا حکم قرآن و حدیث کے موافق ہو پھر خود رائمہ اربعہ نے اپنی تقلید سے منع فرمایا ہے اور قرآن نے حکم دیا ہے کہ ائمہ (رح) کی اتباع میں جھگڑ اہو تو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رجوع ہونا چاہیے (ترجمان) 1 اگر دو مسلمان جھگڑتے ہیں ایک نے کہا چل شرع کی طر رجوع کریں دوسرے نے کہا میں شرع کو (کچھ) نہیں سمجھتا یا مجھے شرع سے کام نہیں وہ بیشک کافرہوا (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 59 لغات القرآن : اولی الامر، صاحب اختیار۔ تنازعتم، تم آپس میں جھگڑ پڑے۔ ردوہ، اس کو لوٹاؤ۔ احسن، بہترین تاویل، انجام، جزا۔ تشریح : یہ آیت تمام آئین و قوانین اسلام کی جان ہے۔ اسلامی دستور کی حیثیت سے اول و آخر ہے۔ انسان کے بنائے ہوئے آئین کب اس کی خاک کو پہنچ سکتے ہیں۔ اسلامی دستور سارے کا سارا سمیٹ کر اور لپیٹ کر اٹھائیس الفاظ میں حل کردیا گیا ہے۔ اس کا تعلق ظاہری احکام سے بھی ہے اور اس روح مقصد سے بھی ہے جسے ایمان کہتے ہیں۔ یعنی اس میں ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔ اگر باطن میں ایمان نہیں ہے تو ظاہری احکام کو آدھے دل سے ٹالنے کے لئے مان لینا اچھا نتیجہ نہیں دکھا سکتا۔ اس آیت کے مطابق اسلامی دستور کی چار بنیادیں ہیں۔ (1) قرآن میں واضح احکامات ہیں، ان کا ماننا اور ان پر بلاچون و چرا عمل کرنا شرط اول ہے پھر ان اللہ یامر سے ارشاد کردیا کہ اصل حکم اللہ تعالیٰ کا ہے لہٰذا اقتدار اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ (2) رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو احکامات اثبات یا نفی میں دئیے ہیں یا جو احکام قرآنیہ کی تفصیلات طے کی ہیں ، یعنی جو کچھ الفاظ و اعمال سے ہدایت بخشی ہے، وہ سب وحی غیر متلو ہیں۔ سب حق تعالیٰ کے حکم اور مرضی سے ہیں۔ ان کا ماننا گویا اللہ کا حکم ماننا ہے۔ ان کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔ (3) زمین پر انسان کی حکمرانی نائب و امین کی حیثیت سے ہے لہٰذا قانون سازی ایسے اصول پر مبنی ہوگی جو قرآن و حدیث سے متصادم نہ ہو۔ (4) اس حاکم وقت کا حکم ماننا جو تم میں سے ہو۔ ” تم میں سے ہو “ کے معنی ہیں کہ مومن ہو۔ اگر وہ واقعی مومن کی بصیرت اور حکمت رکھتا ہے تو اس کے احکام بھی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کی روشنی میں ہوں گے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ اجتہادی غلطی کر جائے لیکن اگر اس کے احکام کی بنیاد اسلام ہے تو اس کا حکم ماننا ضروری ہے۔ اگر احکام و امراء کا حکم ایسے معاملات کے بارے میں ہے جو کتاب و سنت کی روشنی میں جائز چیزوں کی قسموں میں سے ہیں اور اس میں آپ حکام کو غلطی پر سمجھتے ہیں تو اختلاف رائے کیا جاسکتا ہے، مشورے دئیے جاسکتے ہیں۔ احتجاج کیا ہوسکتا ہے لیکن حکم حاکم سے دم مارنے کی گنجائش نہیں ہے۔ حکم حکم ہے اور تسلیم کرنا پڑے گا۔ ورنہ انتظام کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اگر وہ غلطی عظیم ہے اور بنیادی اہمیت کی ہے اس لئے کہ حاکم کا حکم عدل و انصاف کے خلاف ہے تو پھر اس میں امیر کی اطاعت نہیں ہے بلکہ اس میں تو حاکم اور محکوم دونوں کو اللہ کا حکم ہے کہ اجتہاد پر، قرآن و حدیث کی روشنی میں نظرثانی کریں۔ اگر دونوں طرف دل میں خلوص ہوگا، ایک دوسرے کی خیرخواہی ہوگی تو انشاء اللہ قرآن و حدیث کی روشنی میں نظر ثانی اور نظر ثالث مفاہمت کا دروازہ کھول دے گا۔ دوسرے الفاظ میں یہ حاکم کی طرف سے ظلم و ستم کی اجازت ہے جو محکوم کی طرف سے بغاوت اور ہنگامے کی۔ آیت یوں ختم ہوتی ہے ” اگر تم واقعی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی کا صحیح طریقہ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی حسن و خوبی کا مظہر ہے “ ۔ یہاں پر ” اولی الامر “ کا لفظ اپنے اندر بہت ہی وسیع معنی رکھتا ہے۔ سربراہ مملکت اور اس کے مقرر کردہ انتظامی حکام سے لے کر کنبہ کے سربراہ یعنی والدین اور شوہر تک اس میں شامل ہیں۔ اس آیت کی رو سے ہر طرح کا فتنہ و فساد، سازش، خونی انقلاب، مطالبات منوانے کے لئے بھوک ہڑتال ، ناجائز ہڑتالوں، پستول ، بم، سب ہتھکنڈے منع ہیں۔ ہاں پر امن تحریک چلائی جاسکتی ہے۔ اور حدود اسلامی کے اندر مفاہمت کا ہر موقع استعمال کیا جاسکتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اپنے میں سے کسی کو حاکم بنانے کا یہ مقصد نہیں کہ حکمران حاکم مطلق بن جائے بلکہ وہ بھی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع ہیں۔ امانتوں کی ادائیگی اور اختیارات کا صحیح استعمال کرنے کا حکم دینے کے بعد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا اس لیے فوری ذکر کیا ہے تاکہ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ کوئی اپنے اختیارات میں آزاد ہے۔ اس بات کو مزید واضح کرنے کی خاطر ” اُولِی الْاَمْرِ “ کے لیے لفظِ ” اطاعت “ استعمال کرنے کے بجائے فقط واؤ کے عطف سے اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے تاکہ راعی اور رعیت، امیر اور مامور اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنے آپ کو صرف اللہ اور اس کے رسول کے تابع فرمان سمجھیں۔ اسی سورة کی آیت ٦٤ اور ٨٠ میں واضح کیا کہ رسول کی اطاعت فی ذاتہٖ نہیں بلکہ در حقیقت وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا حقیقی منشاء سمجھنا اور اس کے مطابق سو فیصد عمل کرکے دکھلانا رسول کا کام ہوتا ہے۔ اگر رسول سے بتقاضائے بشریت کوئی چوک ہوجائے تو اللہ تعالیٰ فوراً اس کی درستگی فرما دیتا ہے۔ اس لیے رسول امت کے ہر شخص کے لیے اسوۂ حسنہ اور واجب الاتباع ہوتا ہے۔ رسول کے علاوہ کوئی شخص غیر مشروط اطاعت کے لائق نہیں۔ اگر امیرالمومنین یا بڑے سے بڑا عالم اور امام غلطی کرے یا اس کے ساتھ کسی مسئلہ میں اختلاف ہوجائے تو اس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں وہ معاملہ قرآن و سنت کے سامنے رکھا جائے۔ پھر اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے سامنے ہر کسی کو سر تسلیم خم کرنا لازم ہے۔ یہی اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کا تقاضا ہے۔ اس طرز عمل میں دنیا کی بہتری اور آخرت کی خیرمضمر ہے اور اسی طریقے سے امت متحد رہ سکتی ہے۔ اگر کسی مسئلہ میں دلائل برابر ہوں تو اہل علم کی اکثریت کی پیروی کرنا ہوگی۔ امیر کا انتخاب اور اس کی اطاعت اس فرمان میں امیر کے لیے ” مِنْکُمْ “ آیا ہے اور ” کُمْ “ ضمیر استعمال کی ہے کہ وہ تم میں سے ہو۔ جس سے دوٹوک انداز میں واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا امیر مسلمان اور انہی کی مرضی سے ہونا چاہیے۔ کیونکہ امارت اور خلافت کی بنیاداُوپر سے نہیں نیچے سے قائم کی گئی ہے۔ تاکہ فکری اور عملی طور پر اس کی جڑیں گھر اور عوام میں ہوں اور ہر فرد اس ذمہ داری میں اپنے آپ کو برابر کا شریک سمجھے۔ جہاں تک امت میں سیاسی، گروہی اور مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے۔ اس کا شریعت میں صرف جواز کے سوا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ لہٰذا ان جماعتوں کے امراء اور سربراہوں کی حیثیت سفری امیر سے زیادہ نہیں۔ جس طرح اس کے وقتی اور محدود اختیارات ہوتے ہیں اسی طرح جماعتوں کے امراء کو اپنے حقوق و فرائض کا تعین کرنا چاہیے۔ مسائل ١۔ مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول اور نیک حکمرانوں کی اطاعت کرنی چاہیے۔ ٢۔ تنازعات کو اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ ٣۔ قرآن و سنت کے مطابق فیصلہ کرنا اور کروانا ایمان داروں کے لیے فرض ہے اسی میں دنیا اور آخرت کی بہتری ہے۔ تفسیر بالقرآن اختلافات کا حل : ١۔ معاملہ اللہ کی طرف لوٹایا جائے۔ (الشوریٰ : ١٠) ٢۔ کتاب اللہ میں مسائل کا حل ڈھونڈا جائے۔ (المائدۃ : ٤٧) ٣۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فیصل تسلیم کیا جائے۔ (النساء : ٥٩) ٤۔ جو اللہ کے رسول کو فیصل تسلیم نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں۔ (النساء : ٦٥) ٥۔ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد مومن کو کوئی اختیار نہیں باقی رہتا۔ (الاحزاب : ٣٦) ٦۔ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والا ظالم، کافر اور فاسق ہے۔ (المائدہ : ٤٤، ٤٥، ٤٧) نوٹ : مزید تفصیل کے لیے دیکھیں میری کتاب ” اتحاد امت اور نظم جماعت “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٥٩۔ اس مختصر آیت میں اللہ تعالیٰ ایمان کی شرط اور اسلام کی تعریف بیان کرتے ہیں ‘ اور اس میں امت مسلمہ کا اساسی دستور بھی آجاتا ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام میں حاکمیت اور اقتدار کا منبع کونسا ہے ۔ یہ سب کام اللہ سے شروع ہوتے ہیں اور اللہ کی ذات پر ہی ان کا اختتام ہوتا ہے ۔ اگر شریعت میں کسی حکم کے بارے میں تفصیلات نہ ہوں تو پھر اہل اسلام اس دستوری اصول کی طرف رجوع کرکے اپنے تمام جزئی مسائل میں جواب حاصل کرسکتے ہیں اور قیامت تک یہ اساسی دستوری اصول قائم ودائم ہے ۔ اس میں لوگوں کی آراء ار ان کی عقلی کاوشوں کے لئے اختلاف کی گنجائش بھی چھوڑی گئی ہے ۔ انسانوں کی زندگی پر حاکمیت کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے ‘ چاہے ظاہری امر ہو یا پوشیدہ ہو ‘ چاہے بڑا معاملہ ہو یا چھوٹا ۔ ان معاملات میں اللہ تعالیٰ نے شریعت کا حکم مقرر فرمایا ہے ۔ اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اس کے بارے میں موجود ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محض ہوائی باتیں نہیں کیں ۔ آپ کی تمام باتیں وحی پر مبنی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے جو قانون بنائے وہ بھی اللہ کے قوانین ہیں ۔ اللہ واجب الاطاعت ہے ۔ اللہ کی الوہیت کا اہم خاصہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کے لئے شریعت بنائے ۔ اس لئے اس کی شریعت واجب النفاذ ہے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت کریں ۔ اور پھر وہ رسول اللہ کی اطاعت کریں اس لئے کہ رسول جو کچھ کہتا ہے وہ بھی اللہ کے حکم سے کہتا ہے ۔ رسول کی اطاعت میں اللہ کی اطاعت ہے کیونکہ اللہ ہی نے رسول کو یہ شریعت دے کر بھیجا ہے ۔ اس نے اپنی سنت میں شریعت کو لوگوں کے لئے بیان کیا ہے اس لئے آپ کی سنت اور آپ کے فیصلے اس زاویے سے شریعت کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ لوگوں کے ایمان کا تعلق شریعت کے اس نفاذ سے ہے وجودا اور عدما اس لئے کہ اللہ کا حکم ہے کہ (آیت) ” ان کنتم تومنون باللہ والیوم الاخر (٤ : ٥٩) (اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو) یہاں (آیت) ” (واولی الامر منکم) (یعنی تم میں جو صاحب امر ہوں) سے مراد بھی متعین کردی جاتی ہے ۔ یعنی وہ تم میں سے ہوں یعنی وہ لوگ جن کے اندر شرط ایمان اور اسلام کی تعریف (Definition) پائی جاتی ہو ۔ یعنی وہ لوگ جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں جو حق قانون سازی اور حق اطاعت صرف اللہ تعالیٰ کو دیتے ہیں اور ان معاملات میں صرف اللہ تعالیٰ سے ہدایات اخذ کرتے ہوں ۔ ان حالات میں جن میں منصوص ہدایات آگئی ہیں نیز جن معاملات میں انسانوں کے فہم وادراک میں اختلاف رائے ہو اور جن میں کوئی نص وارد نہ ہوئی ہو ان میں بھی وہ اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رجوع کریں اور ان مسائل میں ان اصولی احکام کو منطبق کریں جو وارد ہیں اور منصوص ہیں ۔ اس نص میں بطور اصلیت اللہ کی اطاعت کو لازم کیا گیا ہے ‘ نیز اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو بھی اصل اطاعت قرار دیا گیا ہے ۔ اس حیثیت سے کہ یہ اللہ کی فرستادہ ہیں (آیت) ” (واولی الامر) کی اطاعت اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت کے تابع اطاعت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ (آیت) ” (واولی الامر منکم) کے ساتھ لفظ (آیت) ” (اطیعوا) کو تیسری بار نہیں لایا گیا ۔ جیسا کہ اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لفظ (آیت) ” (اطیعوا) دہرایا گیا ہے ۔ یہ اس لئے کہ (آیت) ” (واولی الامر) کی اطاعت اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے ماخوذ ہے ۔ جبکہ (آیت) ” (واولی الامر) کے ساتھ (منکم) کے لفظ کے مطابق ان کا اہل ایمان میں سے ہونا ضروری ہے ۔ یہ اولی الامر کے لئے شرط ہے ۔ ان تمام تاکیدوں کے ساتھ ساتھ اولی الامر کی اطاعت ان اوامر میں سے ہے جو اللہ کی طرف سے منصوص اور مشروع ہوں اور حدود اللہ کے اندر ہوں اور ان اوامر کے خلاف کوئی نص وارد نہ ہو ۔ نیز یہ اوامر اور احکام اصول شریعت کی روشنی میں بھی شریعت کے خلاف نہ ہوں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت میں علی وجہ الیقین ان حدود وقیود کا تعین کردیا گیا ہے جن کی مطابق اولی الامر کی اطاعت کی جاتی ہے ۔ صحیحین میں حضرت اعمش (رض) کی حدیث میں ہے (انما الطاعۃ فی معروف) (اطاعت صرف معروف طور پر جائز کاموں میں) ۔ صحیحین میں یحییٰ القطان کی حدیث ہے ۔ (السمع والطاعۃ علی المراء المسلم فیما احب اوکرہ مالم یومر معصیۃ واذا بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ) (سمع اور اطاعت ہر مسلم شخص پر لازم ہے ایسے امور میں بھی جو وہ پسند کرے اور ایسے امور میں بھی جنہیں وہ ناپسند کرے ‘ اس وقت تک جب تک اسے معصیت کا حکم نہ دیا گیا ہو ۔ اگر اسے معصیت کا حکم دیا گیا تو اس پر نہ سمع لازم ہے اور نہ اطاعت) مسلم نے ام الحصین کی حدیث نقل کی ہے ۔ (ولو استعمل علیکم عبد یقودکم بکتاب اللہ اسمعوا لہ واطیعوا) (اگر تم پر کوئی غلام مقررکر دیا جائے جو تمہاری قیادت کتاب اللہ کے مطابق کرے تو اس کی بات بھی سنو اور اطاعت بھی کرو) اس طرح اسلام نے ہر شخص کو اللہ کی شریعت اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر امین اور نگہبان بنا دیا ہے ۔ اس کے ایمان اور اس کے دین پر اسے نگران مقرر کردیا ہے ۔ اس کے نفس اور اس کی عقل کا اسے نگران مقرر کردیا ہے ۔ دنیا اور آخرت دونوں میں اس کے معاملات کا اسے نگران مقرر کردیا ہے ۔ اسلام نے انسان کو اس طرح نہیں چھوڑا ہے جس طرح کسی گلے میں ایک جانور ہوتا ہے کہ اسے یہاں سے روکا جائے اور وہاں سے روکا جائے اور وہ سمع و اطاعت نہ کرے اور ہر وقت اسے ہش کہنے کی ضرورت ہو ‘ اس لئے کہ اسلامی نظام واضح ہے ۔ اطاعت کی حدود واضع نصوص وارد نہیں ہیں ‘ اور مشکلات اور مسائل کی وجہ سے کوئی بالکل نیا معاملہ درپیش ہو ‘ بعد میں آنے والے ادوار میں حالات کے اختلاف میں اور سوسائٹیوں کے اختلاف میں اور بدلتے ہوئے حالات ہوں اور ان میں کوئی نص قطعی نہ ہو یا بالکل کوئی نص ہی نہ ہو ‘ جس میں مختلف لوگوں کے آراء اور اندازے مختلف ہوں اور ہر شخص اپنی عقل کے مطابق رائے رکھتا ہو تو ایسے مسائل کو بھی بالکل آزادانہ نہیں چھوڑ دیا گیا ‘ ان کو بھی بغیر کسی اصول اور قاعدے کے نہیں چھوڑا گیا ۔ نہ اس طرح چھوڑ دیا گیا کہ ان میں اجتہاد واستنباط کے لئے کوئی ضابطہ نہیں ہے بلکہ اس مختصر نص میں اس کے لئے ایک شاندار منہاج رکھ دیا گیا ہے اور اس کے لئے بھی حدود مقرر کردیئے گئے ہیں اور یہ آیت وہ اصول بتا دیتی ہے جس کے مطابق اجتہاد ہو سکتا ہے ۔ (آیت) ” فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ والرسول (٤ : ٥٩) (پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو ) یعنی ان کو ان نصوص کی طرف لوٹا دو ‘ جن پر یہ نصوص ضمنا منطبق ہوتی ہیں ۔ اگر ایسی نصوص نہ ملیں جن کا انطباق ان مسائل پر ہوتا ہو تو اسلامی شریعت میں جو بنیادی اصول اور عام قواعد ہیں ۔ ان کی روشنی میں ان کا حل نکالو ‘ ان مسائل کو افراتفری کے عالم میں بےلگام نہیں چھوڑ دیا گیا ‘ اور نہ یہ مسائل ان نامعلوم امور کی طرح ہیں جن میں انسانی عقول سرگردان رہتی ہیں جیسا کہ بعض دھوکہ باز اس طرح سمجھانے کی سعی کرتے ہیں ۔ اسلامی نظام میں بعض اساسی اور بنیادی اصول ہیں اور یہ اصول بالکل واضح اور منقح ہیں ۔ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہیں ۔ یہ اصول زندگی کے لئے ایسی باڑ اور ایسا دائرہ تجویز کرتے ہیں جن کے اندر رہ کر ہر وہ شخص جس کا ضمیر مسلم ہو سچائی تک بڑی سہولت کے ساتھ پہنچ سکتا ہے ۔ (آیت) ” (ان کنتم تومنون باللہ والیوم الاخر (٤ : ٥٩) (اگر تم واقعی اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو) ۔ یہ اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ہے ۔ یہ اولی الامر کی اطاعت ہے جو مومن ہوں اور اللہ کی شریعت پر قائم ہوں اور سنت رسول کے مطابق کام کر رہے ہوں ۔ یہ متنازع امور کا اللہ اور رسول اللہ کی طرف رد کرنا ‘ یہ تمام امور شرائط ایمان باللہ اور یوم آخرت میں سے ہیں اور یہ سب امور ایمان باللہ اور ایمان بالاخرت کا تقاضا بھی ہیں ۔ اگر یہ شرائط مفقود ہوں تو سرے سے ایمان ہی نہ ہوگا اسی طرح ایمان اس صورت میں بھی موجود نہ ہوگا اگر ایمان کے لازمی تقاضے پورے نہ ہوں ۔ جب اس آیت نے اس مسئلے کو اس طرح قانونی انداز میں ہمارے سامنے رکھ دیا تو اس کے بعد پھر اسے بطور وعظ ونصیحت بھی دوبارہ لایا جاتا ہے اور محبت کے انداز میں انہیں آمادہ کیا جاتا ہے ‘ جب طرح امانت اور عدالت کے احکام کے ذکر کے بعد یہی رویہ اختیار کیا گیا تھا ۔ (آیت) ” ذلک خیر واحسن تاویلا (٤ : ٥٩) (یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے) ۔ یہ طریق کار اور دستور العمل تمہارے لئے بہت ہی اچھا ہے ۔ دنیا میں بھی خیر ہے اور آخرت میں بھی خیر ہے ۔ دنیا میں بھی اس کا انجام اچھا ہوگا اور آخرت میں بھی اس کی جزاء اچھی ہوگی ۔ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ اس دستور العمل پر عمل کرنے کی وجہ سے اللہ راضی ہوگا اور آخرت میں ثواب ملے گا ۔ اگرچہ یہ بھی ایک عظیم اور اہم بات ہے لیکن اس کے علاوہ اس دستور العمل کو اختیار کرنے کی وجہ سے دنیا میں بھی بہتری ہے ۔ ایک فرد کی ‘ ایک سوسائٹی کی اور اس پوری دنیاوی زندگی کی بھی اس میں بہتری ہے ۔ اسلامی نظام حیات ایک ایسا نظام ہے کہ اس کے زیر سایہ جن لوگوں کو زندگی بسر کرنے کا موقعہ ملتا ہے وہ خوش وخرم زندگی بسر کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک ایسا نظام ہے جسے اس اللہ نے بنایا ہے ۔ وہ صانع ‘ حکیم ‘ علیم ‘ خبیر اور بصیر ہے ۔ یہ ایسا نظام ہے جو انسان کی جہالتوں سے پاک ہے ‘ جو انسان کی خواہشات سے پاک ہے ‘ جو انسان کے نقائص سے پاک ہے ۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں کسی فرد کے ساتھ کوئی خصوصی برتاؤ نہیں کیا گیا نہ کسی طبقے ‘ نہ کسی قوم نہ کسی نسل اور نہ کسی خاص قبیلے کی رو رعایت اس میں ملحوظ رکھی گئی ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کے رب ہیں اور اللہ تعالیٰ کسی کی محبت میں مبتلا نہیں ہوتے کسی طبقے ‘ نہ کسی رنگ ونسل اور نہ کسی قوم قبیلے کی محبت ہیں ۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کا بنانے والا پوری کائنات کو بنانے والا ہے جو انسان کی فطرت کی ماہیت سے واقف ہے ۔ وہ انسان کے نفس کے رجحانات ومیلانات سے بھی واقف ہے ۔ انسان کے ذرائع خطاب اور اس کے طریقہ اصلاح سے بھی واقف ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے کسی معاملے میں غلطی صادر نہیں ہو سکتی ۔ نہ اسے یہ ضرورت ہے کہ وہ کسی نظام کا تجربہ کرکے اس کی غلطیوں کو دور کرے اور نہ وہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ لوگوں پر نظاموں کے تجربے کر کے انہیں مشکلات سے دو چار کرے اور وہ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں اور پریشان ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قانونی اور اخلاقی نظام دے کر مادی ایجادات کا ایک وسیع میدان انکے لئے چھوڑ دیا ہے کہ وہ اس میں تجربے کرتے رہیں ۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو انسانی عقل کی جولانیوں کے لئے بہت ہی کافی ہے ۔ عقل کے لئے بس یہی کافی ہے کہ وہ اس نظام کو نافذ اور مسائل پر منطبق کرنے کا کام جاری رکھے اور اس میں جہاں جہاں قیاس اور اجتہاد کی ضرورت ہے وہاں کام کرتی رہے ۔ پھر اسلامی نظام کی واضع وہی ذات ہے جو اس کائنات کی خالق ہے اس لئے اس نے انسان کو ایک ایسا منہاج دیا ہے جو اس کائنات کے نوامیس فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہے ۔ یہ نظام فطرت کے ساتھ معرکہ آراء نہیں ہوتا بلکہ وہ فطرت کی ساتھ ہم نوا ہوتا ہے ‘ اس کو مانتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ یہ نظام اس کی راہنمائی بھی کرتا ہے اور اس کو بچاتا بھی ہے ۔ اس نظام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ انسانیت کی ہدایت اور حمایت کے ساتھ ساتھ یہ اس کا اکرام اور احترام بھی کرتا ہے ۔ اس نظام میں عقل انسانی کے لئے ایک وسیع دائرہ کار رکھا گیا ہے ۔ اور اس میں قرآن و سنت کی نصوص وہدایات کے اندر تشریح و اجتہاد کی گنجائش موجود ہے ۔ پھر وہ معاملات جن میں واضح نصوص وارد نہیں ہیں ان کو اصول عامہ کے مطابق حل کرنے کی سعی کی گنجائش ہے ۔ اس کے علاوہ وہ اصل میدان کار بھی ہے جو اس نظام نے عقل کی بہترین کے لئے کھلا رکھا ہے ‘ جس پر اس کا مکمل کنٹرول ہے یعنی علمی تحقیقات اور سائنس کے میدان میں اکتشافات اور مادی ایجادات ۔ (آیت) ” ذلک خیر واحسن تاویلا (٤ : ٥٩) (یہ بہتر ہے اور اچھا طریقہ کار ہے) اس سبق میں اس قاعدہ کلیہ کے بیان کے بعد ایمان کی شرط اور اسلام کی تعریف کرنے کے بعد ‘ امت کا دستور اساسی (GrundNorm) وسیع کرنے کے بعد ‘ امت کے لئے طریقہ قانون سازی اور اس کی اصل بتانے کے بعد ‘ اب روئے سخن ان لوگوں کی طرف پھرجاتا ہے جو اس دستوری اساس سے انحراف کرتے ہیں اور پھر بھی وہ یہ زعم رکھتے ہیں کہ وہ مومن ہیں حالانکہ وہ ایمان کی شرط اور اسلام کی تعریف (Definition) کے خلاف جار رہے ہیں وہ اپنی عدالتوں میں فیصلے ایسے قانون کے مطابق کرتے ہیں جو اللہ کی شریعت کے مطابق نہیں ہے ۔ (آیت) ” ان یتحاکموا الی الطاغوت وقد امروا ان یکفروا بہ) (وہ اپنے فیصلے طاغوتی قانون کے مطابق کراتے ہیں حالانکہ ان کو حکم یہ دیا گیا تھا کہ وہ اس کا انکار کریں۔ ) روئے سخن اس طرف پھیرتے ہی ایسے لوگوں پر سخت تعجب کیا جاتا ہے ‘ ان لوگوں پر سخت تعجب کیا جاتا ہے ‘ ان لوگوں کو سخت ڈرایا جاتا ہے کہ وہ ذرا سوچیں کہ شیطان انہیں کس طرف لے جارہا ہے ۔ یہاں ایسے لوگوں کا حال بتایا جاتا ہے کہ جب انہیں اسلامی قانون کو نافذ کرنے اور اس کے مطابق فیصلے کرنے کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ نہایت ہی منافقانہ روش کے مطابق اسے روکنے کی سعی کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی روش نفاق بتاتے ہیں ۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ شیطانی قانون کے مطابق فیصلے کرانے کا ارادہ کرتے ہی انسان ایمان سے فارغ ہوجاتا ہے بلکہ یہ لوگ ابتداء ایمان میں داخل ہی تصور نہیں ہوتے یہاں یہ بھی بتادیا جاتا ہے کہ ان کے عذرات کس قدر بورے ہیں اور کس قدر واہیات اور جھوٹے ہیں اور ان کا یہ منصوبہ نہایت ہی قابل نکیر ومذمت ہے اور اس کے نتیجے میں ان پر وبال آنے ہی والا ہے ۔ اس کے باوجود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ آپ دعور وموعظت جاری رکھیں پھر بات کو اس پر ختم کیا جاتا ہے کہ رسولوں کو بھیجا ہی اس لئے گیا ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے ۔ اس کے بعد صریح اور قطعی الفاظ میں ‘ ایک بار پھر ایمان کی شرط اور اسلام کی تعریف (Definition) بیان کی جاتی ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ اور رسول اور اولی الامر کی اطاعت کا حکم اور امور متنازعہ میں کتاب و سنت کی طرح رجوع کرنے کا فرمان آیت کا سبب نزول بتاتے ہوئے علامہ واحدی نے اسباب النزول صفحہ ١٥٢ میں اور علامہ آلوسی نے روح المعانی صفحہ ٦٥: ج ٥ میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت خالد بن ولید (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک فوجی دستہ کا امیر بنا کر بھیجا ان کی زیر امارت حضرت عمار بن یاسر (رض) بھی تھے۔ انہوں نے حضرت خالد (رض) سے اجازت لیے بغیر ایک شخص کو امان دے دی حضرت خالد (رض) نے اس پر ناگواری کا اظہار فرمایا اور ان سے کہا کہ میرے بغیر اجازت تم نے کیوں امان دی۔ اس سے دونوں میں تلخی پیدا ہوگئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں معاملہ پیش ہوا تو آپ نے عمار کی امان کو نافذ فرما دیا اور ان سے فرمایا کہ آئندہ امیر سے رائے لیے بغیر امان نہ دیا کریں پھر آپس میں دونوں میں رضا مندی ہوگئی۔ سبب نزول جو بھی ہو آیت کا مفہوم عام ہے جس میں اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت اور فرمانبر داری کا حکم دیا ہے اور اولوالامر کی فرمانبر داری کا بھی حکم دیا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ جب تم میں کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو ، جو حکم اور فیصلہ وہاں سے ملے اسے قبول کرلو اور اس پر راضی ہوجاؤ اللہ تعالیٰ شانہٗ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور فرمانبرداری کا حکم قرآن مجید میں جگہ جگہ موجود ہے اللہ تعالیٰ خالق اور مالک ہے احکم الحاکمین ہے اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا ان پر اپنی کتاب نازل فرمائی اور ان کے ذریعہ احکام نازل فرمائے۔ ان کی اطاعت ہر شخص پر فرض ہے اور نافرمانی باعث مواخذہ اور سبب عتاب و عذاب ہے۔ اس آیت میں اللہ جل شانہٗ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے ساتھ اولی الامر کی اطاعت کرنے کا بھی حکم دیا ہے بات یہ ہے جب کسی کو امیر بنا لیا جسے امام اور خلیفہ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کا حکم ماننے ہی سے امت کا شیرازہ مجتمع رہ سکتا ہے امیر کی فرمانبر داری نہ کرنے سے شیرازہ منتشر ہوجاتا ہے اور ہر ایک اپنی اپنی راہ پکڑتا ہے۔ جب انتشار ہوتا ہے تو وحدت قائم نہیں رہتی اور دشمن حاوی ہوجاتا ہے پھر امیر اعلیٰ جن لوگوں کو مختلف جماعتوں کا امیر بنائے یا چند مسلمان مل کر کسی کو امیر بنائیں تو اس کی اطاعت بھی ضروری ہے اس کی اطاعت نہ کرنے سے بھی پھوٹ پڑے گی اور آپس میں نزاع اور جدال کی صورتیں پیدا ہوں گی۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ امیر کی اطاعت کرو اس لیے امیر کی اطاعت کرنا اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ اس اطاعت میں ثواب بھی ہے اور امت مسلمہ کا اتحاد بھی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (معالم التنزیل صفحہ ٤٤٤: ج ١) اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی فرمانبر داری نہیں ہے : حضرت ام الحصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اگر تم پر ایسا شخص امیر بنا دیا جائے جس کے ناک کان کٹے ہوئے ہوں اور وہ تم کو اللہ کی کتاب کے مطابق لے کر چلتا ہو تو اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ (رواہ مسلم صفحہ ١٢٥: ج ٣) جو لوگ امیر ہوں ان کی اطاعت واجب ہے لیکن انہی امور میں اطاعت واجب ہے جو شریعت کے خلاف نہ ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان آدمی پر بات سننا اور فرمانبر داری کرنا واجب ہے دل چاہے یا نہ چاہے جب تک کہ گناہ کا حکم نہ دیا جائے۔ سو جب گناہ کا حکم دیا گیا تو کوئی بات سننا نہیں اور کوئی فرمانبر داری نہیں۔ (رواہ البخاری صفحہ ١٠٥٧: ج ٢) حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ گنہگاری میں کوئی فرمانبر داری نہیں۔ فرمانبر داری صرف اچھے کام میں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٢١٩) آج کل جو لوگ عہدے لے لیتے ہیں امارت سنبھال لیتے ہیں ان کو یہ تو خیال ہوجاتا ہے کہ ہم اولوالامر ہیں اور اس خیال کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ عوام اور خواص ہماری اطاعت کریں لیکن خود یہ نہیں سوچتے کہ ہم جو حکم دے رہے ہیں اس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی تو نہیں ہے ؟ خود بھی اللہ تعالیٰ کے نافرمان ہوتے ہیں اور ماتحتوں سے بھی اللہ کی نافرمانی کراتے ہیں اور جب کوئی بات منوانی ہو اور جاہلی قانون کے مطابق کوئی فیصلہ کرنا ہو یا آرڈی ننس جاری کرنا ہو تو آیت مذکورہ بالا ریڈیو اور ٹیوی پر نشر کرا دیتے ہیں اور لوگوں کو یہ باوا کرانا چاہتے ہیں کہ ہمارا فرمان واجب العمل ہے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صاف طور پر فرما دیا کہ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی فرمانبر داری نہیں۔ جن لوگوں کو اقتدار حاصل ہوجائے وہ لوگ خود بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کے پابند رہیں اور دوسروں کو بھی شرعی احکام پر چلائیں۔ حضرت علی (رض) نے ارشاد فرمایا کہ امام المسلمین پر واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل فرمودہ احکام کے مطابق فیصلے کرے اور امانت ادا کرے، وہ جب ایسا کرے گا تو رعیت پر واجب ہوگا کہ اس کی بات سنیں اور فرمانبر داری کریں۔ (معالم التنزیل صفحہ ٤٤٤: ج ١) اولوالامر سے کون مراد ہیں ؟ اولوالامر سے امراء مراد ہیں حضرت ابوہریرہ (رض) نے یہی فرمایا، اور حضرت ابن عباس اور حضرت جابر (رض) نے فرمایا ہے کہ اولوالامر سے فقہا اور علماء مراد ہیں جو لوگوں کو دینی احکام سکھاتے ہیں۔ حضرت حسن اور حضرت مجاہد (رح) کا بھی یہی قول ہے اور حضرت عکرمہ (رض) نے فرمایا کہ اولوالامر سے حضرت ابوبکر و عمر (رض) مراد ہیں۔ اور حضرت عطاء نے فرمایا کہ اس سے مہاجرین و انصار اور تابعین بالا حسان مراد ہیں۔ (ذکرہ البغوی فی تفسیرہ صفحہ ٤٤٤، ٤٤٥: ج ١) مفسر ابن کثیر صفحہ ٥١٨: ج ١ میں فرماتے ہیں : والظاھر واللہ اعلم انھا عامۃ فی کل اولی الامر من الامراء والعلماء (یعنی بظاہر آیت شریفہ کا عموم تمام اولی الامر کو شامل ہے امراء اور علماء بھی اولی الامر ہیں) اور وجہ اس کی یہ ہے کہ علماء کے ہاتھ میں نظام دین ہے ان کی فرمانبرداری بھی ضروری ہے اور امرا کے ہاتھ میں نظام حکومت ہے دونوں فریق کی فرمانبر داری سے دین کے تمام شعبوں پر عمل ہوسکتا ہے اور اتحاد باقی رہ سکتا ہے۔ رفع تنازع کے لیے کیا کیا جائے ؟ پھر فرمایا (فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ) (پس اگر تم آپس میں کسی چیز کے بارے میں جھگڑنے لگو تو اس کو لوٹا دو اللہ کی طرف اور رسول کی طرف اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو) آپس کے اختلاف کو رفع کرنے کے لیے اس آیت میں سب سے بڑا سنہری اصول بتایا ہے اور وہ یہ کہ جب اللہ پر ایمان لے آئے اور آخرت کے دن کی پیشی اور وہاں کے حساب کتاب کو بھی جزو ایمان بنا لیا تو مومن کی شان یہ ہے کہ ہر معاملے میں اور ہر موقعہ پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رجوع کرے آپس میں جب کوئی نزاع ہوجائے اس کو نبٹانے کے لیے ہر فریق کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رجوع کرے اور جو کتاب و سنت کا فیصلہ ہے اس پر راضی ہوجائے اور اپنی رائے کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے سامنے ختم کر دے۔ بہت سے لوگ جن میں رؤسا ووزراء امراء عوام و خواص سب ہی شامل ہیں اپنی رائے پر ضد کرتے ہیں اور بہت سے وہ لوگ جن کا کوئی دنیاوی نفع قرآن و حدیث کے فیصلے کی وجہ سے مارا جاتا ہے وہ بھی بس اپنے ہی دعوے کو دیکھتے ہیں مومن بندہ کا یہ طریقہ نہیں۔ مومن بندہ کا یہ طریقہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے پر راضی رہے۔ مسلم حکومتوں کا غلط طریق کار : مسلمانوں کی حکومتیں ہیں صاحب اقتدار اسلام کے دعویدار ہیں اسمبلی میں قانون بناتے ہیں تو یورپ کے طرز حکومت کو سامنے رکھتے ہیں قرآن و حدیث کو سامنے نہیں رکھا جاتا، یورپین حکومتوں نے جو قوانین بنا رکھے ہیں انہیں میں کچھ رد و بدل کر کے قوانین نافذ کردیتے ہیں۔ حدود اور جنایات کے احکام شریعت کے مطابق نافذ کرنے کو کہا جاتا ہے تو کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیں دیت اور قصاص کا قانون نافذ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تو بات سننے کو تیار نہیں۔ کسی ملک میں اقتدار مل جاتا ہے تو دشمنوں کو خوش کرنے کے لیے اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا طریقہ کار نیشنل ازم ہوگا کوئی ملک اعلان کرتا ہے کہ ہم کمیونزم اور سوشلزم جاری کریں گے کچھ لوگ مغربی جمہوریت کے دلدادہ ہیں اور کچھ لوگ لا دینی حکومت بنانے کا اعلان کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور اسلامی نظام نافذ کرنے سے شرماتے ہیں۔ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ طور طریق کہاں تک زیب دیتا ہے۔ ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چلیں اور عوام کو بھی چلائیں۔ (اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ) فرما کر اسی پر تنبیہ فرمائی ہے۔ یہ صورت حال مسلمانوں کے تقریباً تمام ہی طبقات میں ہے کہ جو حکم قرآنی اپنے فائدہ کے مطابق نہ ہو دنیاوی رواج کے خلاف ہو اسے نہیں مانتے حاکم محکوم سرمایہ دار فیکٹری کے مالک مستاجر اور اجیر کسان اور مزدور سبھی اختلافات کے مواقع میں اپنے ذاتی منافع کو اپنی اپنی رایوں کو اور قبیلوں کے رواج کو سرداروں کے فیصلوں کو دیکھتے ہیں قرآن کی طرف دیکھنے کو تیار نہیں ہوتے۔ بدعت اور سنت ہونے کا معیار : بہت سے امور ہیں جن کو ایک جماعت بدعتی کہتی ہے اور دوسری جماعت ان کو امور دین بتاتی ہے ان اختلافات کا حل بالکل آسان ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رجوع ہوں جو فیصلہ قرآن و حدیث سے ملے اسی پر راضی ہوجائیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ بدعتوں کے جاری کرنے والے ہیں اور ان کے خوگر ہوچکے ہیں وہ آیات اور حدیث کے مقابلہ میں اپنی رائے اور اپنی جاری کردہ بدعت ہی کی پاسداری کرتے ہیں۔ فالی اللہ المشتکی وھو المستعان آخر میں فرمایا (ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا) (یہ بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے بہت خوب تر ہے) اس میں تنبیہ فرمائی کہ اپنی اپنی رایوں پر چلنے میں خیر نہیں ہے۔ کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ میری رائے یا میری جماعت کی رائے بہتر ہے بہتر وہی ہے جس کا اللہ نے حکم دیا۔ دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبر داری کا انجام بہتر ہوگا اور بہتری اللہ ہی کا قانون ماننے میں ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی فرمانبر داری میں ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 4 اے ایمان والو تم اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی بھی فرمانبرداری بجا لائو جو تم میں سے صاحب حکم ہوں خواہ وہ علماء ہوں یا امراء ہوں پھر اگر تم میں اور ان اولی الامر میں کوئی جھگڑا آپڑے اور تم باہم جھگڑنے لگو تو کہو یہ حکم شریعت کے خلاف ہے اور حاکم کہے میں نے قوانین اسلام کے موافق یہ حکم دیا ہے۔ غرض ! کسی بات میں اگر جھگڑا پڑجائے تو اس بات کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول یعنی کتاب و سنت کی طرف لوٹا دو ، یعنی کتاب و سنت پر اس چیز کو پیش کردو، بشرطیکہ تم اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت کے وقوع پر ایمان رکھتے ہو، یہ طریقہ جھگڑے کے وقت کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنا دنیا میں بھی بہتر ہے اور آخرت میں بھی اس کا انجام اور مآل بہت اچھا اور خوش آئند ہے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اختیار والے بادشاہ اور قاضی اور جو کسی کام پر مقرر ہو اس کے حکم پر چلنا ضرور ہے جب تک وہ خلاف خدا اور رسول حکم نہ کرے اگر صریح خلاف کرے تو وہ حکم نہ مانتے، اگر دو مسلمان جھگڑتے ہیں ایک نے کہا چل شرع میں رجوع کریں دوسرے نے کہا میں شرع نہیں سمجھتا مجھے شرع سے کام نہیں وہ بیشک کافر ہوا۔ (موضح القرآن) آیت میں اولی الامر سے مراد یا تو والی حاکم، قاضی اور امراء ہیں یا علماء یا فقہا ہیں یا اہل قرآن یا اہل علم ہیں یا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں، یا اہل عقل اور اہل رائے ہیں یہ سب اقوال سلف سے منقول ہیں اگرچہ رائج وہی پہلا قول ہے یعنی حاکم اور اہل حکومت کی اطاعت کو قرآن نے لازم قرار دیا ہے شان نزول میں جو روایت آئی ہیں ان سے بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ آیت یا تو عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی کے بارے میں اتری ہے جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ایک چھوٹے سے لشکر کا امیر بنایا تھا اور یا ایک دوسرے لشکر کے بارے میں اتری ہے جس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک انصاری کو امیر بنایا تھا وہ امیر کسی بات پر لشکر والوں سے ناراض ہوگیا اور اس نے کہا کیا تم کو میری اطاعت کا حکم نہیں دیا گیا ہے اہل لشکر نے کہا ہاں دیا گیا ہے اس نے کہا اچھا لکڑیاں جمع کرو اور جمع شدہ لکڑیوں میں آگ لگا کر تم کو قسم ہے تم اس آگ میں گھس جائو۔ لشکر میں سے ایک نوجوان نے کہا ہم تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگ سے بچنے کے لئے جمع ہوئے ہیں اور آگ سے بھاگ کر ہم نے حضرت کے دامن میں پناہ لی ہے تم جلدی نہ کرو پہلے حضرت سے چل کر ہل لو اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں و آگ میں داخل ہوجانا۔ چنانچہ یہ سب لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واقعہ کو سن کر فرمایا اگر تم آگ میں داخل ہوجاتے تو پھر کبھی آگ سے نہیں نکلتے امیر کی اطاعت تو امر معروف میں ہوتی ہے امر منکر میں نہیں۔ حضرت علی (رض) سے اس روایت کو صحیحین میں نقل کیا ہے آیت میں مسلمانوں کو خطاب ہے اور ان کو مخاطب کرتے ہوئے یہ حکم دیا ہے کہ جماعتی نظام قائم رکھنے کی غرض سے جب تم پر کوئی شخص تم ہی میں سے حاکم مقرر ہوجائے اور یہ تقرر عام انتخابات سے ہو یا کسی اور طرح سے جو شریعت میں قابل تسلیم ہو تو پھر وہ اولی الامر ہے اور اس کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ بشرطیکہ اس کا حکم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان ک خلاف نہ ہو اور جب یہ بات محکوم و حاکم دونوں کے نزدیک بالاتفاق معتبر ہو کہ حاکم کا حکم اللہ و رسول کے فرمان کے خلاف نہیں ہے تو اس کو ماننا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہوگا، البتہ اگر وہ حکم جو حاکم نے دیا ہے وہ بالاتفاق اللہ و رسول کے فرمان کے خلاف ہے تو اس میں اطاعت ضروری نہیں بلکہ مخالفت موجب اجر وثواب ہے، یعنی حاکم بھی جانتا ہے کہ یہ حکم کتاب و سنت کے خلاف ہے اور محکوم بھی جانتا ہے تو ایسے امور میں اطاعت نہ کرے اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں صورتیں اتفاق کی ان ہی امور میں ہوں گی جو صراحتہ نص میں موجود ہوں اور ان کی حلت و حرمت کے احکام صاف طور پر مذکور ہوں لیکن کوئی ایسی صورت اگر پیش آجائے کہ حاکم اور محکوم کے درمیان اختلاف ہوجائے کہ حاکم کا حکم اللہ و رسول کے فرمان کے خلاف ہے یا نہیں تو اس کو کتاب اللہ و سنت رسول پر پیش کرو یعنی جب رسول موجود نہ ہوں اور ان کی وفات ہوجائے، البتہ اگر رسول موجود ہوں تو الی اللہ و الرسول اپنے معنی پر ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت پر جس میں اجماع اور مجتہد کا قیاس اور خلفائے راشدین کا فرمان بھی داخل ہے ان چیزوں سے فتویٰ حاصل کردیا ان چیزوں کے جاننے والوں سے فتویٰ حاصل کر کے اس پر عمل کرو۔ یہ تفصیل جو فقیر نے کی ہے متوسط لوگوں کے لئے کافی ہے بعض حضرات نے اجماع و قیاس کی مخالفت میں اس آیت سے استدلال کیا ہے اور تقلید شخصی کی مذمت کی ہے اور اس آیت کے تحت میں بہت سی لا یعنی اور بےسرو پا باتیں کہی ہیں جس کا جواب اس موقعہ پر محض تطویل کا موجب ہوگا ہم نے تسہیل میں کافی اشارہ کردیا ہے اور ان مسائل پر اب تک بہت سے رسالے اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ اس نے ہم اس موقعہ پر کچھ عرض کرنا مناسب نہیں سمجھتے قرآن کریم نے جو کچھ وہ ایک سیدھی سادھی اور اصولی بات ہے۔ قرآن کریم کی آیت کو کھینچ تان کر اپنے مقاصد کے مطابق بنانا اہل علم کی شان کے مناسب اور شان کے شایاں نہیں ہے۔ آگے ان لوگوں کا ذکر ہے جو اپنے معاملات میں اللہ کے رسول کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا حکم اور نیح بنانا چاہتے ہیں اور انصاف سے بچ کر اپنی خواہش کے موافق فیصلہ کرانا چاہتے ہیں خواہ وہ منافق ہوں اور خواہ وہ کچے اور کمزور خیال کے مسلمان ہوں منافق خواہ کفار میں سے ہوں یا یہود میں سے ہوں۔ بہرحال ایسے لوگوں کا رد اور ان کی تنبیہ مقصود ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)