Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 6

سورة النساء

وَ ابۡتَلُوا الۡیَتٰمٰی حَتّٰۤی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ۚ فَاِنۡ اٰنَسۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ رُشۡدًا فَادۡفَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ ۚ وَ لَا تَاۡکُلُوۡہَاۤ اِسۡرَافًا وَّ بِدَارًا اَنۡ یَّکۡبَرُوۡا ؕ وَ مَنۡ کَانَ غَنِیًّا فَلۡیَسۡتَعۡفِفۡ ۚ وَ مَنۡ کَانَ فَقِیۡرًا فَلۡیَاۡکُلۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ فَاِذَا دَفَعۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ فَاَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیۡبًا ﴿۶﴾

And test the orphans [in their abilities] until they reach marriageable age. Then if you perceive in them sound judgement, release their property to them. And do not consume it excessively and quickly, [anticipating] that they will grow up. And whoever, [when acting as guardian], is self-sufficient should refrain [from taking a fee]; and whoever is poor - let him take according to what is acceptable. Then when you release their property to them, bring witnesses upon them. And sufficient is Allah as Accountant.

اور یتیموں کو ان کے بالغ ہونے تک سُدھارتے اور آزماتے رہو پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حُسنِ تدبیر پاؤ تو انہیں ان کے مال سونپ دو اور ان کے بڑے ہو جانے کے ڈر سے ان کے مالوں کو جلدی جلدی فضول خرچیوں میں تباہ نہ کر دو مال داروں کو چاہیے کہ ( ان کے مال سے ) بچتے رہیں ، ہاں مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق واجبی طور سے کھالے پھر جب انہیں ان کے مال سونپو تو گواہ بنا لو ، دراصل حساب لینے والا اللہ تعالٰی ہی کافی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَابْتَلُواْ الْيَتَامَى ... And test orphans, Ibn Abbas, Mujahid, Al-Hasan, As-Suddi and Muqatil bin Hayyan stated, meaning, test their intelligence. ... حَتَّىَ إِذَا بَلَغُواْ النِّكَاحَ ... until they reach the age of marriage, According to Mujahid, the age of puberty. The age of puberty according to the majority of scholars comes when the child has a wet dream. In his Sunan, Abu Dawud recorded that Ali said, "I memorized these words from the Messenger of Allah , لاَا يُتْمَ بَعْدَ احْتِلَامٍ وَلاَا صُمَاتَ يَوْمٍ إِلَى اللَّيْل There is no orphan after the age of puberty nor vowing to be silent throughout the day to the night. In another Hadith, Aishah and other Companions said that; the Prophet said, رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَثَةٍ عَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَحْتَلِمَ وَعَنِ النَّايِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيق The pen does not record the deeds of three persons: the child until the age of puberty, the sleeping person until waking up, and the senile until sane. Or, the age of fifteen is considered the age of adolescence. In the Two Sahihs, it is recorded that Ibn Umar said, "I was presented in front of the Prophet on the eve of the battle of Uhud, while I was fourteen years of age, and he did not allow me to take part in that battle. But I was presented in front of him on the eve of the battle of Al-Khandaq (The Trench) when I was fifteen years old, and he allowed me (to join that battle)." Umar bin Abdul-Aziz commented when this Hadith reached him, "This is the difference between a child and an adult." There is a difference of opinion over whether pubic hair is considered a sign of adulthood, and the correct opinion is that it is. The Sunnah supports this view, according to a Hadith collected by Imam Ahmad from Atiyah Al-Qurazi who said, We were presented to the Prophet on the day of Qurizah, whoever had pubic hair was killed, whoever did not was left free to go, I was one of those who did not, so I was left free." The Four Sunan compilers also recorded similar to it. At-Tirmidhi said, "Hasan Sahih." Allah's statement, ... فَإِنْ انَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُواْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ... if then you find sound judgment in them, release their property to them, Sa`id bin Jubayr said that this portion of the Ayah means, when you find them to be good in the religion and wise with their money. Similar was reported from Ibn Abbas, Al-Hasan Al-Basri and others among the Imams. The scholars of Fiqh stated that; when the child becomes good in the religion and wise concerning with money, then the money that his caretaker was keeping for him should be surrendered to him. Poor Caretakers are Allowed to Wisely Spend from the Money of the Orphan Under Their Care, to Compensate for Their Work Allah said, ... وَلاَ تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُواْ ... But consume it not wastefully and hastily, fearing that they should grow up. Allah commands that the money of the orphan should not be spent unnecessarily, إِسْرَافًا وَبِدَارًا (Wastefully and hastily) for fear they might grow up. Allah also commands, ... وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ... And whoever among guardians is rich, he should take no wages, Hence, the guardian who is rich and does not need the orphan's money, should not take any of it as wages. ... وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ... but if he is poor, let him have for himself what is just and reasonable. Ibn Abi Hatim recorded that Aishah said, "This Ayah, وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ (And whoever among guardians is rich, he should take no wages, but if he is poor, let him have for himself what is just and reasonable) was revealed about the guardian of the orphan and pertains to whatever work he does for the orphan's estate." Al-Bukhari also collected this Hadith. Imam Ahmad recorded that `Amr bin Shu`ayb said that his father said that his father told him that; a man asked the Messenger of Allah, "I do not have money, but I have an orphan under my care." The Messenger said, كُلْ مِنْ مَالِ يَتِيمِكَ غَيْرَ مُسْرِفٍ وَلاَ مُبَذِّرٍ وَلاَ مُتَأَثِّلٍ مَالاً وَمِنْ غَيْرِ أَنْ تَقِيَ مَالَكَ أَوْ قَالَ تَفْدِيَ مَالَكَ بِمَالِه Eat from your orphan's wealth without extravagance or wastefulness, or mixing it, and without saving your money by spending his." Allah said, فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ... And when you release their property to them. after they become adults, and you see that they are wise, then, ... فَأَشْهِدُواْ عَلَيْهِمْ ... take a witness in their presence; Allah commands the guardians of orphans to surrender the property of the orphans who become consenting adults, in the presence of witnesses, so that none of them denies the fact that he received his money. Allah said next, ... وَكَفَى بِاللّهِ حَسِيبًا and Allah is All-Sufficient in taking account. meaning, Allah is sufficient as Witness, Reckoner and Watcher over their work for orphans, and when they surrender their money to them, whether their property was complete and whole, or deficient and less. Indeed, Allah knows all of that. In his Sahih, Muslim recorded that the Messenger of Allah said, يَا أَبَا ذَرَ إِنِّي أَرَاكَ ضَعِيفًا وَإِنِّي أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِي لاَا تَأَمَّرَنَّ عَلَى اثْنَيْنِ وَلاَا تَلِيَنَّ مَالَ يَتِيم O Abu Dharr! Verily, you are weak, and I love for you what I love for myself. Do not become a leader of two nor assume guardianship of an orphan's property.

وراثت کے مسائل مشرکین عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی مر جاتا تو اس کی بڑی اولاد کو اس کا مال مل جاتا چھوٹی اولاد اور عورتیں بالکل محروم رہتیں اسلام نے یہ حکم نازل فرما کر سب کی مساویانہ حیثیت قائم کر دی کہ وارث تو سب ہوں گے خواہ قرابت حقیقی ہو یا خواہ قرابت حقیقی ہو یا خواہ بوجہ عقد زوجیت کے ہو یا بوجہ نسبت آزادی ہو حصہ سب کو ملے گا گو کم و بیش ہو ، ام کجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتی ہیں کہ حضور میرے دو لڑکے ہیں ان کے والد فوت ہو گئے ہیں ان کے پاس اب کچھ نہیں پس یہ آیت نازل ہوئی ، یہی حدیث دوسرے الفاظ سے میراث کی اور دونوں آیتوں کی تفسیر میں بھی عنقریب انشاء اللہ آئے گی واللہ اعلم ، دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی مرنے والے کا ورثہ بٹنے لگے اور وہاں اس کا کوئی دور کا رشتہ دار بھی آ جائے جس کا کوئی حصہ مقرر نہ ہو اور یتیم و مساکین آ جائیں تو انہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دو ۔ ابتداء اسلام میں تو یہ واجب تھا اور بعض کہتے ہیں مستحب تھا اور اب بھی یہ حکم باقی ہے یا نہیں؟ اس میں بھی دو قول ہیں ، حضرت ابن عباس تو اسے باقی بتاتے ہیں حضرت مجاہد حضرت ابن مسعود حضرت ابو موسیٰ حضرت عبدالرحمن بن ابو بکر حضرت ابو العالیہ حضرت شعبی حضرت حسن حضرت سعید بن جیر حضرت ابن سیرین حضرت عطاء بن ابو رباح حضرت زہری حضرت یحیٰی بن معمر رحمتہ اللہ علیہم اجمعین بھی باقی بتاتے ہیں ، بلکہ یہ حضرات سوائے حضرت ابن عباس کے وجوب کے قائل ہیں ، حضرت عبیدہ ایک وصیت کے ولی تھے ۔ انہوں نے ایک بکری ذبح کی اور تینوں قسموں کے لوگوں کو کھلائی اور فرمایا اگر یہ آیت نہ ہوتی تو یہ بھی میرا مال تھا ، حضرت عروہ نے حضرت مصعب کے مال کی تقسیم کے وقت بھی دیا ، حضرت زہری کا بھی قول ہے کہ یہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں ، ایک روایت میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ وصیت پر موقوف ہے ۔ چنانچہ جب عبدالرحمن بن حضرت ابو بکر کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ نے اپنے باپ کا ورثہ تقسیم کیا اور یہ واقعہ حضرت مائی عائشہ کی موجودگی کا ہے تو گھر میں جتنے مسکین اور قرابت دار تھے سب کو دیا اور اسی آیت کی تلاوت کی ، حضرت ابن عباس کو جب یہ معلوم ہوا تو فرمایا اس نے ٹھیک نہیں کیا اس آیت سے تو مراد یہ ہے کہ جب مرنے والے نے اس کی وصیت کی ہو ( ابن ابی حاتم ) بعض حضرات کا قول ہے کہ یہ آیت بالکل منسوخ ہی ہے مثلاً حصرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے ۔ اور ناسخ آیت ( يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ) 4 ۔ النسآء:11 ) ہے ، حصے مقرر ہونے سے پہلے یہ حکم تھا پھر جب حصے مقرر ہو چکے اور ہر حقدار کو خود اللہ تعالیٰ نے حق پہنچا دیا تو اب صدقہ صرف وہی رہ گیا جو مرنے والا کہہ گیا ہو حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ ہاں اگر وصیت ان لوگوں کے لئے ہو تو اور بات ہے ورنہ یہ آیت منسوخ ہے ، جمہور کا اور چاروں اماموں کا یہی مذہب ہے ، امام ابن جریر نے یہاں ایک عجیب قول اختیار کیا ہے ان کی لمبی اور کئی بار کی تحریر کا ماحصل یہ ہے کہ مال وصیت کی تقسیم کے وقت جب میت کے رشتہ دار آ جائیں تو انہیں بھی دے دو اور یتیم مسکین جو آگئے ہوں ان سے نرم کلامی اور اچھے جواب سے پیش آؤ ، لیکن اس میں نظر ہے واللہ اعلم ، حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں تقسیم سے مراد یہاں ورثے کی تقسیم ہے ، پس یہ قول امام ابن جریر رحمہ اللہ کے خلاف ہے ، ٹھیک مطلب آیت کا یہ ہے کہ جب یہ غریب لوگ ترکے کی تقسیم کے وقت آجائیں اور تم اپنا اپنا حصہ الگ الگ کر کے لے رہے ہو اور یہ بیچارے تک رہے ہوں تو انہیں بھی خالی ہاتھ نہ پھیرو ان کا وہاں سے مایوس اور خالی ہاتھ واپس جانا اللہ تعالیٰ رؤف و رحیم کو اچھا نہیں لگتا بطور صدقہ کے راہ اللہ ان سے بھی کچھ اچھا سلوک کر دو تا کہ یہ خوش ہو کر جائیں ، جیسے اور جگہ فرمان باری ہے کہ کھیتی کے کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو اور فاقہ زدہ اور مسکینوں سے چھپا کر اپنے باغ کا پھل لانے والوں کی اللہ تعالیٰ نے بڑی مذمت فرمائی ہے جیسے کہ سورۃ نون میں ہے کہ وہ رات کے وقت چھپ کر پوشیدگی سے کھیت اور باغ کے دانے اور پھل لانے کے لئے چلتے ہیں وہاں اللہ کا عذاب ان سے پہلے پہنچ جاتا ہے اور سارے باغ کو جلا کر خاک سیاہ کر دیتا ہے دوسروں کے حق برباد کرنے والوں کا یہی حشر ہوتا ہے ، حدیث شریف میں ہے جس مال میں صدقہ مل جائے یعنی جو شخص اپنے مال سے صدقہ نہ دے اس کا مال اس وجہ سے غارت ہو جاتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے ڈریں وہ لوگ جو اگر اپنے پیچھے چھوڑ جائیں یعنی ایک شخص اپنی موت کے وقت وصیت کر رہا ہے اور اس میں اپنے وارثوں کو ضرر پہنچا رہا ہے تو اس وصیت کے سننے والے کو چاہئے کہ اللہ کا خوف کرے اور اسے ٹھیک بات کی رہنمائی کرے اس کے وارثوں کے لئے ایسی بھلائی چاہئے جیسے اپنے وارثوں کے ساتھ بھلائی کرانا چاہتا ہے جب کہ ان کی بربادی اور تباہی کا خوف ہو ، بخاری و مسلم میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس ان کی بیماری کے زمانے میں ان کی عیادت کو گئے اور حضرت سعد نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس مال بہت ہے اور صرف میری ایک لڑکی ہی میرے پیچھے ہے تو اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے مال کی دو تہائیاں اللہ کی راہ میں صدقہ کر دوں آپ نے فرمایا نہیں انہوں نے کہا پھر ایک تہائی کی اجازت دیجئے آپ نے فرمایا خیر لیکن ہے یہ بھی زیادہ تو اگر اپنے پیچھے اپنے وارثوں کو توانگر چھوڑ کر جائے اس سے بہتر ہے تو کہ تو انہیں فقیر چھوڑ کر جائے کہ وہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لوگ ایک تہائی سے بھی کم یعنی چوتھائی کی ہی وصیت کریں تو اچھا ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہائی کو بھی زیادہ فرمایا ہے فقہاء فرماتے ہیں اگر میت کے وارث امیر ہوں تب تو خیر تہائی کی وصیت کرنا مستحب ہے اور اگر فقیر ہوں تو اس سے کم کی وصیت کرنا مستحب ہے ، دوسرا مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تم یتیموں کا اتنا ہی خیال رکھو جتنا تم تمہاری چھوٹی اولاد کا تمہارے مرنے کے بعد چاہتے ہو اور لوگ خیال رکھیں جس طرح تم نہیں چاہتے کہ ان کے مال دوسرے ظلم سے کھا جائیں اور وہ بالغ ہو کر فقیر رہ جائیں اسی طرح تم دوسروں کی اولادوں کے مال نہ کھا جاؤ ، یہ مطلب بھی بہت عمدہ ہے اسی لئے اس کے بعد ہی یتیموں کا مال ناحق مار لینے والوں کی سزا بیان فرمائی ، کہ یہ لوگ اپنے پیٹ میں انگارے بھرنے والے اور جہنم و اصل ہونے والے ہیں ، بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات گناہوں سے بچو جو ہلاکت کا باعث ہیں پوچھا گیا کیا کیا ؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک ، جادو ، بےوجہ قتل ، سود خوری ، یتیم کا مال کھا جانا ، جہاد سے پیٹھ موڑنا ، بھولی بھالی ناواقف عورتوں پر تہمت لگانا ، ابن ابی حاتم میں ہے صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معراج کی رات کا واقعہ پوچھا جس میں آپ نے فرمایا کہ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ نیچے لٹک رہے ہیں اور فرشتے انہیں گھسیٹ کر ان کا منہ خوب کھول دیتے ہیں پھر جہنم کے گرم پتھر ان میں ٹھونس دیتے ہیں جو ان کے پیٹ میں اتر کر پیچھے کے راستے سے نکل جاتے ہیں اور وہ بےطرح چیخ چلا رہے ہیں ہائے ہائے مچا رہے ہیں ۔ میں نے حضرت جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ کہا یہ یتیموں کا مال کھا جانے والے ہیں جو اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب جہنم میں جائیں گے ، حضرت سدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یتیم کا مال کھا جانے والا قیامت کے روز اپنی قبر سے اس طرح اٹھایا جائے گا کہ اس کے منہ آنکھوں نتھنوں اور روئیں روئیں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہوں گے ہر شخص دیکھتے ہی پہچان لے گا کہ اس نے کسی یتیم کا مال ناحق کھا رکھا ہے ۔ ابن مردویہ میں ایک مرفوع حدیث بھی اسی مضمون کے قریب قریب مروی ہے اور حدیث میں ہے میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ان دونوں ضعیفوں کا مال پہنچا دو عورتوں کا اور یتیم کا ، ان کے مال سے بچو ، سورۃ بقرہ میں یہ روایت گزر چکی ہے کہ جب یہ آیت اتری تو جن کے پاس یتیم تھے انہوں نے ان کا اناج پانی بھی الگ کر دیا اب عموماً ایسا ہوتا کہ کھانے پینے کی ان کی کوئی چیز بچ رہتی تو یا تو دوسرے وقت اسی باسی چیز کو کھاتے یا سڑنے کے بعد پھینک دی جاتی گھر والوں میں سے کوئی اسی ہاتھ بھی نہ لگاتا تھا یہ بات دونوں طرف ناگوار گزری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی اس کا ذکر آیا ہے اس پر آیت ( وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْيَتٰمٰي ۭ قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَيْرٌ ۭوَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُكُمْ ) 2 ۔ البقرۃ:220 ) اتری جس کا مطلب یہ ہے کہ جس کام میں یتیموں کی بہتری سمجھو کرو چنانچہ اس کے بعد پھر کھانا پانی ایک ساتھ ہوا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یتیموں کے مال کے بارے میں ضروری ہدایات دینے کے بعد یہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تمہارے پاس رہا، تم اس کی کس طرح حفاظت کی اور جب مال ان کے سپرد کیا تو اس میں کوئی کمی بیشی یا کسی قسم کی تبدیلی کی یا نہیں، عام لوگوں کو تو تمہاری امانت داری یا خیانت کا شاید پتہ نہ چلے۔ لیکن اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز چھپی نہیں۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے، کہ یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوذر (رض) سے فرمایا " ابوذر ! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں، جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں، تم دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بننا، نہ کسی یتیم کے مال کا والی اور سرپرست " (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] نادان کو مال کی واپسی کی شرائط :۔ گویا یتیموں کو ان کا مال واپس کرنے کے لیے دو شرطیں ہیں۔ ایک بلوغت دوسرے رشد۔ یعنی مال کے صحیح طور پر استعمال کرنے کی اہلیت۔ یہ اہلیت معلوم کرنے کے لیے تمہیں ان کا تجربہ کرتے رہنا چاہیے اور یہ چیزیں معمولی معمولی باتوں سے بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ آیا وہ کفایت شعار ہے یا اجاڑنے والا ہے۔ خریدو فروخت کیسے کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور جب تک یہ دونوں شرطیں نہ پائی جائیں اس کا مال اس کے حوالہ نہ کرنا چاہیے اور اس صورت میں اس کا حکم وہی ہوگا جو مذکورہ بالا آیت میں نادانوں کے سلسلہ میں ذکر ہوا ہے۔ بلوغت کے لیے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں۔ گرم ممالک میں لڑکے لڑکیاں جلد بالغ ہوجاتے ہیں۔ جبکہ سرد ممالک میں دیر سے ہوتے ہیں۔ البتہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کچھ ایسی علامات ضرور ہیں جو ان کے بالغ ہونے کا پتہ دیتی ہیں مثلاً لڑکوں کو احتلام ہونا اور عورتوں کو حیض آنا۔ اور چھاتیوں کا ابھر آنا خاص علامات ہیں۔ پھر کچھ علامات ایسی بھی ہیں جو ان دونوں نوعوں میں یکساں پائی جاتی ہیں۔ جیسے عقل داڑھ کا اگنا۔ آواز کا نسبتاً بھاری ہونا جسے گھنڈی پھوٹنا بھی کہتے ہیں اور بغلوں کے نیچے اور زیر ناف بال اگنا اور صرف مردوں کے لیے داڑھی اور مونچھ کے بال اگنا ہے اور ان سب میں سے پکی علامتیں وہی ہیں جو پہلے مذکور ہوئیں یعنی لڑکوں کو احتلام اور عورتوں کو حیض آنا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں نکاح نامہ پر بلوغت کی جو عمر درج ہے کہ لڑکی ١٦ سال سے اور لڑکا ١٨ سال سے کم نہ ہو یہ حد بندی غیر شرعی ہے۔ اور بالغ ہونے کے بعد ہی نکاح کی قید لگانا بھی غیر شرعی ہے۔ نیز اس میں نکاح ثانی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت حاصل کرنے کی شرط بھی غیر شرعی ہے۔ اسی طرح عورت کے حق طلاق کی شق بھی غیر شرعی ہے۔ [١٠] یہاں پھر دو ایسی باتوں کا ذکر ہوا ہے جن سے یتیم کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایک یہ کہ ضرورت سے زیادہ مال خرچ کیا جائے اور دوسرے یہ کہ بلا ضرورت یا ضرورت پیش آنے سے پہلے ہی خرچ کیا جائے تاکہ وہ بڑے ہو کر اس کا مطالبہ نہ کرنے لگیں۔ اور یہ سب بددیانتی کی راہیں ہیں جن سے یتیم کا نقصان ہوجاتا ہے لہذا ہر ایسی صورت سے منع کیا جا رہا ہے۔ [١١] یتیم کے ولی کا حق الخدمت :۔ یتیم کا متولی اگر کوئی کھاتا پیتا شخص ہے تو اسے یتیم کے مال میں سے حق الخدمت کے طور پر کچھ لینا قطعاً ناجائز ہے۔ ہاں اگر متولی تنگدست ہے تو مال کے تجارت پر لگانے اور حق المحنت کے طور پر ایسا واجبی سا خرچہ لے سکتا ہے جسے کوئی غیر جانبدار آدمی بھی واجبی قرار دے۔ نیز جو کچھ وہ حق الخدمت لے چوری چھپے نہ لے۔ بلکہ اعلانیہ متعین کر کے لے اور اس کا حساب رکھے۔ [١٢] جب یتیم میں مندرجہ بالا دونوں شرطیں پائی جائیں تو اس کا مال اسے واپس کردیا جائے اور اس پر دو گواہ بھی بنا لیے جائیں تاکہ بعد میں اگر کوئی جھگڑا ہو یا کوئی چیز بعد میں یاد آئے تو اس کا تصفیہ کرنے میں آسانی رہے اور اگر یہ تحریری صورت میں ہو تو اور بھی بہتر ہے۔ اور پوری دیانتداری سے یہ فریضہ سرانجام دو ۔ کیونکہ سب سے بڑا گواہ تو اللہ تعالیٰ ہے۔ اور بددیانتی کی صورت میں پورا پورا حساب لینے پر قادر بھی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَابْتَلُوا الْيَتٰمٰى ۔۔ : بلوغت کے لیے مرد کی علامت احتلام اور عورت کی حیض ہے، علی (رض) نے فرمایا : ” میں نے ( بلوغت کے سلسلے میں) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر یہ یاد رکھا ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں اور دن سے لے کر رات تک خاموشی نہیں۔ “ [ أبو داوٗد، الوصایا، باب ما جاء متی ینقطع الیتم : ٢٨٧٣ ] عطیہ قرظی (رض) بیان کرتے ہیں : ” قریظہ کے دن ہمیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا گیا تو جس کے (زیر ناف) بال اگے تھے اسے قتل کردیا گیا اور جس کے بال نہیں اگے تھے اسے قتل نہیں کیا گیا، میں ان میں سے تھا جن کے بال ابھی نہیں اگے تھے، لہٰذا مجھے چھوڑ دیا گیا۔ “ [ أبو داوٗد، الحدود، باب فی الغلام یصیب الحد : ٤٤٠٤ ] جنگ میں شرکت کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن عمر (رض) کو چودہ سال کی عمر میں احد میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔ خندق میں جائزہ لیا گیا تو پندرہ سال کے تھے، آپ نے اجازت دے دی۔ نافع نے عمر بن عبد العزیز (رح) کو یہ حدیث پہنچائی تو انھوں نے کہا : ” بچے اور بڑے کا یہی فرق ہے۔ “ [ بخاری، الشہادات، باب بلوغ الصبیان۔۔ : ٢٦٦٤ ] مگر ظاہر ہے کہ یہ فرق بچے اور اس بڑے کا ہے جسے جنگ میں شرکت کی اجازت ہے۔ محج بلوغت کی علامت احتلام ہے اگر اس کا علم نہ ہو سکے تو زیر ناف بال اگنا ہے۔ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا : یعنی یتیموں کا امتحان اور ان کی تربیت کرتے رہو، جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ پہلے تھوڑا سا مال دے کر ان کو کسی کام پر لگا کر دیکھو کہ آیا وہ مال کو بڑھاتے ہیں یا نہیں، پھر جب وہ بالغ ہوجائیں اور ان میں رشد ہو تو بلا توقف مال ان کے حوالے کر دو ۔ ” رشدا “ سے مراد عقلی اور دینی صلاحیت ہے، پس بالغ ہونے کے علاوہ مال کی سپرد داری کے لیے رشد بھی شرط ہے، اگر کسی شخص میں رشد نہیں ہے تو خواہ وہ بوڑھا ہی کیوں نہ ہوجائے متولی یا وصی کو چاہیے کہ وہ مال اس کے حوالے نہ کرے۔ ( قرطبی۔ ابن کثیر ) 3 ” فَلْيَسْتَعْفِفْ “ عَفَّ یَعِفُّ (ض) کا معنی بچنا ہے۔ فلیستعفف باب استفعال میں حروف کی زیادتی کی وجہ سے ترجمہ ” بہت بچے “ کیا گیا ہے۔ 4 ۚ وَمَنْ كَانَ فَقِيْرًا ۔۔ : جانا پہچانا طریقہ یہی ہے کہ اس کے اموال کی نگرانی کی اجرت، جو معروف ہے، لے لے۔ دوسرا یہ کہ زیادہ سے زیادہ اتنا لے لے جس سے اس کی ضرورت پوری ہو سکے۔ 5 فَاَشْهِدُوْا عَلَيْھِمْ ۭ : یتیم کے متولی یا وصی کو حکم ہے کہ گواہوں کے رو برو مال واپس کرے، تاکہ کل کو اس پر کوئی الزام نہ آئے۔ ( وَكَفٰى باللّٰهِ حَسِـيْبًا ) کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگوں کو تو مطمئن کرلو گے، مگر اصل حساب تو اللہ تعالیٰ نے لینا ہے، اس کا خاص خیال رکھو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The injunction to test the ability and understanding of minors Once we know from verse 5 that minors should not be entrusted with properties until such time that their ability to discern and decide stands proved, the injunctions to educate and test such children to determine their ability follow in the next verse (6) Verse 6: وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ translated as &and test the orphans until they reach marriageable age;& means that children, well before they become pubert and marriageable, should be tested through small assignments of buying and selling in order to determine their ability to conduct themselves in transactions on their own. This process of prac¬tical experimentation should continue right through upto the age of marriage-ability, that is, when they become pubert and mature. This is the time of special assessment. Now it should be determined if they have become smart and self-reliant in their affairs. Once this is sensed as &dependable&, it is time to hand over their property to them. In short, given the nature of children and the factors involved in the growth of reason and intelligence among them, they have been divided in three stages. One: minority (before puberty). Two: After puberty. Three: After self-reliance, and discretion in conducting personal affairs (Rushd as opposed to Safahah). During the first stage, the guardians of children have been instructed to educate and train them by providing for them hands-on experience, that is, let them become smarter by conducting small dealings in buying and selling on their own. The expression: وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ (and test the orphans) in this verse means exactly this. It is from here that Imam Abu Hanifah (رح) has deduced the ruling that the transactions of buying and selling entered into by minor children with the permission of their guardian are sound, valid and operative. In accordance with the other injunction, when children become mature, pubert and marriageable, the guardian should check up their state of growth at that stage in terms of experience, intelligence and dealings, and once it becomes clear that they understand their profit and loss and handle their affairs and dealings in a satisfactory manner, their property should be handed over to them. The Age of Maturity Along with the injunction of maturity (بلوغ bulugh) in this verse, the Holy Qur&an has also answered the question as to the &age& when a child would be taken as mature ( بالغ baligh) by saying: إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ translated as &until they reach marriage-ability&. Here, it has been indicated that real maturity is not tied up with any particular count of years. Rather, it depends on particular indicators and signs experienced by adults entering the threshold of adulthood. When, in terms of these indicators and signs, they would be regarded fit to marry, they would be considered mature, even if their age does not exceed thirteen or fourteen years. But, should it be that such signs of maturity just do not show up in some child, he shall be considered mature in terms of age, a position in which Muslim jurists vary. Some fix eighteen years for boys and seventeen for girls; some others have fixed fifteen years for both. With the Hanafiyyah, the fatwa is on the position that the boy and the girl shall both be considered mature under the Islamic law after they have completed their fifteenth year, irrespective of whether or not signs of maturity are found. The Perception of Proper Understanding : How to find it? An Explanation of آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُ‌شْدًا The injunction of the Qur&an is: &then, if you perceive in them proper understanding, hand over to them their property.& Now, what is the time of this &proper understanding& (rushd)? The Holy Qur&an has not elaborated on this final limit of time. Therefore, some Muslim jurists leaned towards favouring the view that the properties of chil¬dren should not be handed over to them until it has been determined that they do have full and proper understanding. Instead, these will stay under the safe custody of the guardian as usual, even if this state of affairs continues for the rest of life. But, in accordance with the verification of the issue by Imam Abu Hanifah (رح) at this point the absence of &proper understanding& refers to the state affected by childhood. Within ten years after maturity, the effect of childhood is gone. So, there are fifteen years as the age of maturity (بلوغ bulugh) and ten years as the age of proper understanding (rushd). Once these 25 years are reached, such proper understanding is most likely to be achieved; something which was not possible due to the barriers of childhood, and later, younger years. Then, it should be noted that the Holy Qur&an uses the word, ‘rushdan’ in its indefinite form whereby it is suggesting that full understanding and perfect sense are not absolute conditions. A reasonable measure of understanding is also sufficient for this purpose on the basis of which their properties could be given to them. Therefore, even if perfect understanding has not been achieved despite the long wait of twenty five years, even then, their properties will be handed over to them. As far as perfect understanding and wisdom is concerned, there are people who do not get to achieve these throughout their entire lives. They always remain simple, innocent and rather shy and slow in conducting their practical dealings. They will not be deprived of their properties because of this. However, should there be someone totally insane, he will be governed by a separate rule since such a person always remains in the category of immature children. His property will never be handed over to him until his insanity disappears, even if his entire life were to pass in insanity. The Prohibition of Undue Spending from the Property of Orphans As we know, the verse instructs that the property of the orphans should not be handed over to them until a certain degree of under-standing and experience is perceived in them. Naturally, for this purpose, one will have to wait for some more time. In that case, it was probable that the guardian of the orphan could commit an excess against the interests of the orphan. So, the verse goes on to say: وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَ‌افًا وَبِدَارً‌ا أَن يَكْبَرُ‌وا And do not consume it extravagantly and hastily lest they should grow up. Here, the guardians of the orphans have been prevented from two things: Firstly, from spending out of their property extravagantly, that is, from spending over and above normal needs; and secondly, from starting to spend out from their property way before the need to do so, as if in a hurry, thinking of the near future when their wards would grow up and their property would have to be given to them and the guardian&s control will be all over. The orphan&s guardian, if needy, can take out some of his expenses from the orphan&s property Does a person, who spends his time and labour in the upbringing of an orphan and is devoted to the protection of his property, have the right to take an honorarium for his services from the property of the orphan? The rule is given towards the later part of the verse when it is said: وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ (And whoever is rich he should abstain). It means that a person who is need-free as he can take care of his needs through some other means, then, he should not take any payment for his services from the property of the orphan, because this service is an obligation on him. Receiving payment for it is not permissible. Then, it was said: وَمَن كَانَ فَقِيرً‌ا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُ‌وفِ (and whoever is poor he should consume in fairness). It means that the guardian of an orphan who is poor and needy and has no other source of earning his livelihood, he can consume a reasonable amount from the property of the orphans for his sustenance in a measure that is just about right to cover his basic needs. Having witnesses while handing over property The verse concludes with فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ حَسِيبًا : It means: &when you hand over to them their property (after having gone through the period of test and trial), have (some reliable and pious people as) witnesses upon them (so that there is no dispute later). And (remember that) Allah is sufficient for reckoning (for He has a count of everything within His sight). Payment for services rendered to country, community and Awqaf The contextual extension of the verse yields an important juristic rule and principle. It concerns people who supervise Awqaf (religious endowments, trusts and estates) or manage mosques and religious schools or head institutions of Muslim states or hold charge of similar other services rendered for the country and community, services the rendering of which is known in Islamic terminology as فرض علی الکفایہ fard &alal &kifayah (an obligation which, if discharged by some, will absolve others). For these gentlemen too, the superior and more meritorious conduct is - of course, if they have sufficient assets to take care of the necessary expenses needed to maintain their family - that they should not take anything from these institutions or from the public exchequer of the government. But, should it be that they do not have funds of their own to sustain themselves and they devote their earning time to such service-oriented activities, then, they have the right to take such funds from these institutions in proportion to their need. Please do notice the condition which is: &in proportion to need&. A lot of people fix an insignificant monthly emolument shown on paper to satisfy legal requirements but they go on spending by various other means on their person and on their family recklessly, much much beyond it. There is just no remedy for this lack of caution except the fear of Allah. The last words of the verse: وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ حَسِيبًا and Allah is sufficient for reckoning) invite everyone, masses or classes, to realize that the man who stays untouched by unlawful acquisitions will be the man who fears the final accounting by Allah. وباللہ التوفیق :And the ability to do so comes from Allah.

نابالغوں کی سمجھ اور صلاحیت جانچنے کا حکم پہلی آیت میں جب یہ معلوم ہوگیا کہ جب تک معاملات میں نابالغوں کی ہوشیاری ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک ان کو اموال سپرد نہ کئے جائیں، اس لئے دوسری آیت میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام اور پھر امتحان کر کے ان کی صلاحیت معلوم کرنے کے احکام دیئے گئے، ارشاد ہوا : وابتلوالیتمی حتی اذا بلغوا النکاح، ” یعنی بالغ ہونے سے پہلے ہی چھوٹے چھوٹے معمولی معاملات خریدو فروخت ان کے سپرد کر کے ان کی صلاحیت کا امحتان لیتے رہو، یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے قابل یعنی بالغ ہو جائیں “ تو اب خاص طور سے اس کا اندازہ لگاؤ کہ وہ اپنے معاملات میں ہوشیا رہ گئے یا نہیں، جب ہوشیاری محسوس کرلو تب ان کے اموال ان کے سپرد کردو۔ خلاصہ یہ کہ بچوں کی مخصوص طبیعت اور ان میں عقل و ہوش کے نشو و نما کے اعتبار سے ان کے تین درجے کردیئے گئے، ایک بلوغ سے پہلے دوسرا بلوغ کے بعد، تیسرا ہوشیاری کے بعد بلوغ سے پہلے بچوں کے اولیاء کو یہ حکم ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت کی کوشش کریں معاملات میں ان کو ہوشیار کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے معاملات خریدو فروخت کے ان کے ہاتھ سے کرائیں، آیت میں وابتلوا الیتامی کا یہی مطلب ہے ........ اس سے امام اعظم ابوحنیفہ رحمتہ اللہ نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ نابالغ بچے جو معاملات خریدو فروخت کے ان کے ہاتھ سے کرائیں، آیت میں وابتلوا الیتمی کا یہی مطلب ہے ........ اس سے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ نابالغ بچے جو معاملات خریدو فروخت اپنے ولی کی اجازت سے کریں وہ صحیح اور نافذ ہیں۔ دوسرا حکم یہ ہے کہ جب وہ بالغ اور نکاح کے قابل ہوجائیں تو اب معاملات اور تجربہ کے اعتبار سے ان کے احوال کی جانچ کرو، اگر دیکھو کہ وہ اپنے نفع و نقصان کو سمجھنے لگے ہیں اور معاملات سلیقہ سے کرتے ہیں تو ان کے مال ان کے حوالے کردو۔ بلوغ کی عمر :۔ اس آیت میں جہاں بلوغ کا حکم بیان فرمایا گیا وہاں قرآن کریم نے اس بارے میں کہ بچے کا بالغ ہونا کس عمر میں سمجھا جائے گا فاذا بلغوا النکاح فرما کر اس کی طرف اشارہ کردیا کہ اصل بلوغ کسی عمر کے ساتھ مقید نہیں، بلکہ اس کا مدار ان آثار پر ہے جو بالغوں کو پیش آتے ہیں، ان آثار کے اعتبار سے جس وقت بھی وہ نکاح کے قابل ہوجائیں بالغ سمجھے جائیں گے خواہ عمر تیرہ چودہ سال ہی کی ہو، البتہ اگر کسی بچے میں آثار بلوغ نمودار ہی نہ ہوں تو عمر کے اعتبار سے اس کو بالغ قرار دیا جائے گا، جس میں فقہا کا اختلاف ہے بعض نے لڑکے کے لئے اٹھارہ سال اور لڑکی کے لئے سترہ سال مقرر کئے ہیں اور بعض نے دونوں کے لئے پندرہ سال قرار دیئے، امام اعظم ابوحنیفہ کے مذہب میں فتوی اس قول پر ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں پندرہ سال کی عمر پوری ہونے پر شرعاً بالغ قرار دیئے جائیں گے، خواہ آثار بلوغ پائے جائیں یا نہیں۔ ہوشیاری کیونکر معلوم ہوگی ؟ اس سلسلہ میں انستم منھم رشداً کی تشریح :۔ حکم قرآنییہ ہے کہ جب تم ان میں ہوشیاری محسوس کرو اس وقت ان کے اموال ان کو سپرد کردو، اس ہوشیاری کی کیا میعاد ہے ؟ قرآن مجید نے اس آخری میعاد کی کوئی صراحت نہیں فرمائی، اس لئے بعض فقہاء اس طرف گئے کہ جب تک پوری ہوشیاری محسوس نہ کی جائے اس وقت تک ان کے اموال ان کے سپرد نہ کئے جائیں گے، بلکہ بدستور سابق ولی کی حفاظت و امانت میں رہیں گے، خواہ ساری عمر اسی حالت میں گزر جائے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ کی تحقیق یہ ہے کہ اس جگہ عدم ہوشیاری سے وہ مراد ہے جو بچپن کے اثر سے ہو، اور بالغ ہونے کے دس سال بعد تک بچپن کا اثر ختم ہوجاتا ہے، اس لئے پندرہ سال عمر بلوغ اور دس سال سن رشد و ہوشیاری یہی کل پچیس سال کی عمر ہوجانے پر وہ رشد و ہوشیاری ضرور حاصل ہوگی جس کے حاصل ہونے میں بچپن اور کم عمری حائل تھی اور قرآن کریم نے لفظ رشدا نکرہ لا کر اس کی طرف اشارہ بھی کردیا ہے کہ مکمل ہوشیاری اور دانشمندی شرط نہیں، کسی قدر ہوشیاری بھی اس کے لئے کافی ہے کہ ان کے اموال ان کو دے دیے جائیں، اس لئے پچیس سال تک انتظار کر کے اگر مکمل ہوشیاری نہ بھی آئے تب بھی ان کے اموال ان کو دے دیے جائیں گے، رہی مکمل ہوشیاری اور دانشمندی، سو یہ بعض لوگوں میں عمر بھر نہیں آتی، وہ ہمیشہ سیدھے بھولے رہتے ہیں، اس کی وجہ سے ان کو اپنے اموال سے محروم نہ کیا جائے گا، ہاں اگر کوئی بالکل پاگل اور مجنون ہی ہو سو اس کا حکم علیحدہ ہے کہ وہ ہمیشہ نابالغ بچوں کے حکم میں رہتا ہے اور اس کے اموال کبھی اسکے حوالہ نہ کئے جائیں گے، جب تک اس کا جنون زائل نہ ہوجائے، اگرچہ ساری عمر اس جنون میں گزر جائے۔ یتیموں کے مال بےجا خرچ کرنے کی ممانعت :۔ جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے اس آیت میں اس بات کی ہدایت دی گئی ہے کہ یتیموں کے مال ان کو اس وقت تک حوالے نہ کرو جب تک ان میں کسی قدر ہوشیاری اور تجربہ نہ آجائے اور اس کے لئے ظاہر ہے کہ مزید کچھ عرصہ انتظار کرنا ہوگا۔ اس حالت میں یہ امکان تھا کہ اولیاء یتیم کی طرف سے کوئی ایسی زیادتی ہو جس سے یتیم کا نقصان ہو، اس لئے آگے اس آیت میں ارشاد فرمایا : ولاتاکلوھا اسرافابداراً ان یکبروا یعنی ” ان اموال کو ضرورت سے زائد اٹھا کر اور اس خیال سے کہ یہ بالغ ہوجائیں گے تو ان کو دینا پڑے گا، جلدی جلدی اڑا کر مت کھا ڈالو “ اس میں اولیاء یتیم کو دو چیزوں سے روکا گیا، ایک ان کے مال میں اسراف یعنی ضرورت سے زائد خرچ کرنے سے دوسرے اس بات سے کہ ان کا مال ضرورت پیش آنے سے پہلے جلد جلد خرچ کرنے لگیں، اس خیال سے عنقریب یہ بڑے ہوجائیں گے تو ان کا مال ان کو دینا پڑے گا، ہمارا اختیار ختم ہوجائے گا۔ یتیم کا ولی اس کے مال میں سے ضرورتاً کچھ لے سکتا ہے :۔ آخر آیت میں اس کا ضابطہ ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی یتیم بچے کی تربیت اور اس کے مال کی حفاظت میں اپنا وقت اور محنت خرچ کرتا ہے کیا اس کو یہ حق ہے کہ یتیم کے مال میں سے اپنا حق الخدمت کچھ لے لے، چناچہ فرمایا ومن کان غنیاً فلستعفف، یعنی جو شخص حاجت مند نہ ہو اپنی ضرورت کا تکفل کسی دوسرے ذریعہ سے کرسکتا ہے، اس کو چاہئے کہ یتیم کے مال میں سے حق الخدمت نہ لیا کرے، کیونکہ یہ خدمت اس کے ذمہ فرض ہے، اس کا معاوضہ لینا جائز نہیں، پھر فرمایا : ومن کان فقیراً فلیاکل بالمعروف یعنی جو ولی یتیم، فقیر محتاج ہو اور دوسرا کوئی ذریعہ معاش نہ رکھتا ہو وہ یتیم کے مال میں سے ایک مناسب مقدار رکھ سکتا ہے جس سے حاجات ضروریہ پوری ہوجائیں۔ مال سپرد کرتے وقت گواہ بنانا :۔ آخر میں ارشاد فرمایا : فاذا دفعتم الیھم اموالھم فاشھدوا علیھم وکفی باللہ حسیباً یعنی ” جب آزمائش کے بعد یتمیوں کے اموال ان کے سپرد کرنے لگو تو چند ثقہ اور نیک لوگوں کو گواہ بنا لیا کرو، تاکہ آئندہ کسی نزاع اور جھگڑے کی صورت پیدا نہ ہو اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے حساب میں ہر چیز ہے۔ “ اوقاف اور دوسری ملکی اور ملی خدمت کا معاوضہ :۔ آیت کے سباق سے ایک فقہی ضابطہ اور اصول معلوم ہوگیا کہ جو لوگ اوقاف کے نگران ہیں، یا مساجد و مدارس کے منتظم ہیں، یا مسلم حکومتوں کے اداروں کے ذمہ دار ہیں، یا ایسی ہی دوسری ملکی اور ملی خدمات جن کا انجام دینا فرض کفایہ ہے ان پر امور ہیں، ان حضرات کے لئے بھی اعلی اور افضل یہ ہے کہ اگر اپنے پاس اتنا اثاثہ ہو، اور وہ اپنے بچوں کے ضروری اخراجات پورے کرسکتے ہوں تو ان اداروں سے اور حکومت کے بیت المال سے کچھ بھی نہ لیں، لیکن اگر اپنے پاس گزارہ کے لئے مال موجود نہ ہو اور کسب کے اوقات ان کاموں میں مشغول ہوجاتے ہوں تو بقدر ضرورت ان اداروں سے مال لے لینے کا اختیار ہے، مگر قدر ضرورت کا لفظ پیش نظر رہے، بہت سے لوگ ضابطہ کے طور پر کاغذی خانہ پرسی کے لئے اپنا ماہانہ کچھ حصہ مقرر کرلیتے ہیں، لیکن مختلف طریقوں سے اس سے کہیں زیادہ بےاحتیاطی کے ساتھ اپنی ذات پر اور بال بچوں پر خرچ کرتے چلے جاتے ہیں، اس بےاحتیاطی کا مداوی ٰ بجز خوف الہی کے کچھ نہیں، جس کی طرف آیت کے اخیر ٹکڑے میں وکفی باللہ حسیباً فرما کر جملہ عوام و خواص کو توجہ دلا دی گئی ہے جسے اللہ کے محاسبہ کا خیال ہو وہی ناجائز مال سے بچ سکتا ہے، وباللہ التوفیق۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَابْتَلُوا الْيَتٰمٰى حَتّٰٓي اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ۝ ٠ ۚ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَيْھِمْ اَمْوَالَھُمْ۝ ٠ ۚ وَلَا تَاْكُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ يَّكْبَرُوْا۝ ٠ ۭ وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ۝ ٠ ۚ وَمَنْ كَانَ فَقِيْرًا فَلْيَاْكُلْ بِالْمَعْرُوْف۝ ٠ ۭ فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَيْھِمْ اَمْوَالَھُمْ فَاَشْہِدُوْا عَلَيْھِمْ۝ ٠ ۭ وَكَفٰى بِاللہِ حَسِـيْبًا۝ ٦ ابتلاء وإذا قيل : ابْتَلَى فلان کذا وأَبْلَاهُ فذلک يتضمن أمرین : أحدهما تعرّف حاله والوقوف علی ما يجهل من أمره، والثاني ظهور جو دته ورداء ته، وربما قصد به الأمران، وربما يقصد به أحدهما، فإذا قيل في اللہ تعالی: بلا کذا وأبلاه فلیس المراد منه إلا ظهور جو دته ورداء ته، دون التعرف لحاله، والوقوف علی ما يجهل من أمره إذ کان اللہ علّام الغیوب، وعلی هذا قوله عزّ وجل : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة/ 124] . ويقال : أَبْلَيْتُ فلانا يمينا : إذا عرضت عليه الیمین لتبلوه بها «3» . ( کسی کا امتحان کرنا ) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے ( 1) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے دوسرے ( 2 ) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے ۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص لہ خوبی یا نقص کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذات ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں لہذا آیت کریمہ : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة/ 124] اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراھیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے ۔ دوسری معنی پر محمول ہوگی ( یعنی حضرت ابراھیم کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا ) ابلیت فلانا یمینا کسی سے آزمائش قسم لینا ۔ يتم اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی/ 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان/ 8] وجمعه : يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء/ 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة/ 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ. ( ی ت م ) الیتم کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی/ 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان/ 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء/ 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة/ 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےملا چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ رشد الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] ( ر ش د ) الرشد والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔ دفع الدَّفْعُ إذا عدّي بإلى اقتضی معنی الإنالة، نحو قوله تعالی: فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 6] ، وإذا عدّي بعن اقتضی معنی الحماية، نحو : إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا [ الحج/ 38] ، وقال : وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج/ 40] ، وقوله : لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج/ 2- 3] ، أي : حام، والمُدَفَّع : الذي يدفعه كلّ أحد «3» ، والدُّفْعَة من المطر، والدُّفَّاع من السّيل . ( د ف ع ) الدفع ( دفع کرنا ، ہٹا دینا ) جب اس کا تعدیہ بذریعہ الیٰ ہو تو اس کے معنی دے دینے اور حوالے کردینا ہوتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 6] تو ان کا مال ان کے حوالے کردو ۔ اور جب بذریعہ عن متعدی ہو تو اس کے معنی مدافعت اور حمایت کرنا ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا[ الحج/ 38] خدا تو مومنوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹا تا تا رہتا ہے ہے ۔ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج/ 40] اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے ( پر چڑھائی اور حملہ کرنے ) سے ہٹاتا نہ رہتا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج/ 2- 3] کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا ۔ اور وہ ) خدائے صاحب درجات کی طرف سے ( نازل ہوگا ) میں دافع کے معنی حامی اور محافظ کے ہیں ۔ المدقع ۔ ہر جگہ سے دھتکار ہوا ۔ ذلیل ار سوار ۔ الدفعۃ ۔ بارش کی بوچھاڑ ۔ الدفاع سیلاب کا زور ۔ سرف السَّرَفُ : تجاوز الحدّ في كلّ فعل يفعله الإنسان، وإن کان ذلک في الإنفاق أشهر . قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] ، وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] ، ويقال تارة اعتبارا بالقدر، وتارة بالکيفيّة، ولهذا قال سفیان : ( ما أنفقت في غير طاعة اللہ فهو سَرَفٌ ، وإن کان قلیلا) قال اللہ تعالی: وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] ، وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] ، أي : المتجاوزین الحدّ في أمورهم، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] ، وسمّي قوم لوط مسرفین من حيث إنهم تعدّوا في وضع البذر في الحرث المخصوص له المعنيّ بقوله : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] ، وقوله : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ، فتناول الإسراف في المال، وفي غيره . وقوله في القصاص : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] ، فسرفه أن يقتل غير قاتله، إمّا بالعدول عنه إلى من هو أشرف منه، أو بتجاوز قتل القاتل إلى غيره حسبما کانت الجاهلية تفعله، وقولهم : مررت بکم فَسَرِفْتُكُمْ أي : جهلتكم، من هذا، وذاک أنه تجاوز ما لم يكن حقّه أن يتجاوز فجهل، فلذلک فسّر به، والسُّرْفَةُ : دویبّة تأكل الورق، وسمّي بذلک لتصوّر معنی الإسراف منه، يقال : سُرِفَتِ الشجرةُ فهي مسروفة . ( س ر ف ) السرف کے معنی انسان کے کسی کام میں حد اعتدال سے تجاوز کر جانے کے ہیں مگر عام طور پر استعمال اتفاق یعنی خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرجانے پر ہوتا پے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیچا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں ۔ وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے ( یعنی بڑی ہو کہ تم سے اپنا کا مال واپس لے لیں گے ) اسے فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ اور یہ یعنی بےجا سرف کرنا مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے بولاجاتا ہے چناچہ حضرت سفیان ( ثوری ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں ایک حبہ بھی صرف کیا جائے تو وہ اسراف میں داخل ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] اور بےجانہ اڑان کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں ۔ یعنی جو اپنے امور میں احد اعتدال سے تجاوز کرتے ہیں إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جا حد سے نکل جانے والا ( اور ) جھوٹا ہے ۔ اور قوم لوط (علیہ السلام) کو بھی مسرفین ( حد سے تجاوز کرنے والے ) کیا گیا ۔ کیونکہ وہ بھی خلاف فطرف فعل کا ارتکاب کرکے جائز حدود سے تجاوز کرتے تھے اور عورت جسے آیت : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ میں حرث قرار دیا گیا ہے ۔ میں بیچ بونے کی بجائے اسے بےمحل ضائع کر ہے تھے اور آیت : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ( اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدد کہ ) اے میرے بندو جہنوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی میں اسرفوا کا لفظ مال وغیرہ ہر قسم کے اسراف کو شامل ہے اور قصاص کے متعلق آیت : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] تو اس کا چاہئے کہ قتل ( کے قصاص ) میں زیادتی نہ کرے ۔ میں اسراف فی القتل یہ ہے کہ غیر قاتل کو قتل کرے اس کی دو صورتیں ہی ۔ مقتول سے بڑھ کر باشرف آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کرے ۔ یا قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرے جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا ۔ عام محاورہ ہے ۔ کہ تمہارے پاس سے بیخبر ی میں گزر گیا ۔ تو یہاں سرفت بمعنی جھلت کے ہے یعنی اس نے بیخبر ی میں اس حد سے تجاوز کیا جس سے اسے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا اور یہی معنی جہالت کے ہیں ۔ السرفتہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو درخت کے پتے کھا جاتا ہے ۔ اس میں اسراف کو تصور کر کے اسے سرفتہ کہا جاتا ہے پھر اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سرفت الشجرۃ درخت کرم خور دہ ہوگیا ۔ اور ایسے درخت کو سرقتہ ( کرم خوردہ ) کہا جاتا ہے ۔ بدر قال تعالی: وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] أي : مسارعة، يقال : بَدَرْتُ إليه وبَادَرْتُ ، ويعبّر عن الخطأ الذي يقع عن حدّة : بَادِرَة «2» . يقال : کانت من فلان بَوَادِر في هذا الأمر، والبَدْرُ قيل سمّي بذلک لمبادرته الشمس بالطلوع، وقیل : لامتلائه تشبيها بالبَدْرَةِ «3» ، فعلی ما قيل يكون مصدرا في معنی الفاعل، والأقرب عندي أن يجعل البدر أصلا في الباب، ثم تعتبر معانيه التي تظهر منه، فيقال تارة : بَدَرَ كذا، أي : طلع طلوع البدر، ويعتبر امتلاؤه تارة فشبّه البدرة به . والبَيْدَرُ : المکان المرشح لجمع الغلّة فيه وملئه منه لامتلائه من الطعام . قال تعالی: وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ [ آل عمران/ 123] ، وهو موضع مخصوص بين مكة والمدینة . ( ب د ر ) بدرت الیہ وبادرت : کسی کام کے لئے جلدی کرنا قرآن میں ہے ولا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ یعنی اسراف اور عجلت سے یتیم کا مال مت کھاؤ اور جو لغزش جلدی بازی سے انسان سے سرزد ہوا سے بادرۃ کہا جاتا ہے ۔ بوادر کانت من فلان بوادر فی ھذا الامر فلاں سے اس معاملہ میں جلد بازی سے لغزشیں ہوئی ہیں ۔ البدر ( ماہ کامل ) بعض نے کہا ہے کہ پورے چاند کو بدر اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہے کہ وہ سورج سے پہلے طلوع ہوتا ہے اور بعض نے بدرۃ ( روپے سے بھری ہوئی تھیلی ) سے اخذا کیا ہے اور کہا ہے کہ پورا چاند بھی بدرۃ کی طرح بھر پور ہوتا ہے اس لئے اسے بدرۃ کی طرح بھرپور ہوتا ہے اس لئے اسے بدر کہا جاتا ہے اس توجیہ کی بنا پر یہ مصدر بمعنی فاعل ہوگا ۔ لیکن قرین قیاس یہ ہے کہ بدر کو اس باب میں اصل قرار دیا جائے ۔ اور دوسرے معافی کو بدر کے مختلف اوصاف کے اعتبار سے اس پر متفرع کیا جائے مثلا بدر کذا کے معنی ہوں گے وہ بدر کی طرح طلوع اور ظاہر ہو اور معنی امتلاء کے لحاظ سے دراہم جیسے بھری تھیلی کو بدرۃ کہہ دیتے ہیں اس طرح کھلیان کو البیدر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی غلہ سے پر ہوجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ [ آل عمران/ 123] اور خدا نے جنگ بدر میں تہماری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تم بےسرو سامان تھے ۔ میں بدر مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مشہور مقام کا نام ہے غنی الغِنَى يقال علی ضروب : أحدها : عدم الحاجات، ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] ، الثاني : قلّة الحاجات، وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس» والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ 2 قدرے محتاج ہونا اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ عف العِفَّةُ : حصول حالة للنّفس تمتنع بها عن غلبة الشّهوة، والمُتَعَفِّفُ : المتعاطي لذلک بضرب من الممارسة والقهر، وأصله : الاقتصار علی تناول الشیء القلیل الجاري مجری العُفَافَة، والعُفَّة، أي : البقيّة من الشیء، أو مجری العفعف، وهو ثمر الأراك، والاستعفاف : طلب العفّة . قال تعالی: وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] ، وقال : وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لا يَجِدُونَ نِکاحاً [ النور/ 33] . ( ع ف ف ) العفۃ نفس میں ایسی حالت کا پیدا ہوجاناجسکے ذریعے وہ غلبہ شہوت سے محفوظ رہے المتعفف زبر دستی سے اپنے اندد ایسی حالت پیدا کرنے والا اصل میں اس کے معنی تھوڑی سی چیز پر قناعت کرنے کے ہیں ۔ جو بمنزلہ عفافۃ یا عفۃ یعنی بچی کھچی چیز کے ہو یا بمنزلہ عفعف یعنی پہلوں کے ہو الا ستعفاف عفت طلب کرنا کیس چیز سے پر ہز کرنا قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] اور جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ( ایسے مال سے قطعی طور پر ) پر پرہیز رکھنا چاہیئے ۔ وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لا يَجِدُونَ نِکاحاً [ النور/ 33] اور جو نکاح کا مقدور نہیں رکھتے انہیں چاہیئے کہ اپنے آپ کو بچائے رکھیں ۔ فقر الفَقْرُ يستعمل علی أربعة أوجه : الأوّل : وجود الحاجة الضّرورية، وذلک عامّ للإنسان ما دام في دار الدّنيا بل عامّ للموجودات کلّها، وعلی هذا قوله تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر/ 15] ، وإلى هذا الفَقْرِ أشار بقوله في وصف الإنسان : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء/ 8] . والثاني : عدم المقتنیات، وهو المذکور في قوله : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة/ 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة/ 273] ، إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور/ 32] . وقوله : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة/ 60] . الثالث : فَقْرُ النّفس، وهو الشّره المعنيّ بقوله عليه الصلاة والسلام : «كاد الفَقْرُ أن يكون کفرا» «1» وهو المقابل بقوله : «الغنی غنی النّفس» «1» والمعنيّ بقولهم : من عدم القناعة لم يفده المال غنی. الرابع : الفَقْرُ إلى اللہ المشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : ( اللهمّ أغنني بِالافْتِقَارِ إليك، ولا تُفْقِرْنِي بالاستغناء عنك) ، وإيّاه عني بقوله تعالی: رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] ، وبهذا ألمّ الشاعر فقال : ويعجبني فقري إليك ولم يكن ... ليعجبني لولا محبّتک الفقر ويقال : افْتَقَرَ فهو مُفْتَقِرٌ وفَقِيرٌ ، ولا يكاد يقال : فَقَرَ ، وإن کان القیاس يقتضيه . وأصل الفَقِيرِ : هو المکسورُ الْفِقَارِ ، يقال : فَقَرَتْهُ فَاقِرَةٌ ، أي داهية تکسر الفِقَارَ ، وأَفْقَرَكَ الصّيدُ فارمه، أي : أمكنک من فِقَارِهِ ، وقیل : هو من الْفُقْرَةِ أي : الحفرة، ومنه قيل لكلّ حفیرة يجتمع فيها الماء : فَقِيرٌ ، وفَقَّرْتُ للفسیل : حفرت له حفیرة غرسته فيها، قال الشاعر : ما ليلة الفقیر إلّا شيطان فقیل : هو اسم بئر، وفَقَرْتُ الخَرَزَ : ثقبته، وأَفْقَرْتُ البعیر : ثقبت خطمه . ( ف ق ر ) الفقر کا لفظ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کا نہ پایا جانا اس اعتبار سے انسان کیا کائنات کی ہر شے فقیر و محتاج ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر/ 15] لوگو ! تم سب خدا کے محتاج ہو ۔ اور الانسان میں اسی قسم کے احتیاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء/ 8] اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں ۔ ضروریات زندگی کا کما حقہ پورا نہ ہونا چناچہ اس معنی میں فرمایا : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة/ 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة/ 273] تو ان حاجت مندوں کے لئے جو خدا کے راہ میں رے بیٹھے ہیں ۔إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور/ 32] اگر وہ مفلس ہونگے تو خدا ان گو اپنے فضل سے خوشحال کردے گا ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة/ 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں اور محتاجوں ۔۔۔ کا حق ہے ۔ فقرالنفس : یعنی مال کی ہوس۔ چناچہ فقر کے اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا : کا دالفقر ان یکون کفرا ۔ کچھ تعجب نہیں کہ فقر کفر کی حد تک پہنچادے اس کے بلمقابل غنی کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا الغنیٰ عنی النفس کو غنا تو نفس کی بےنیازی کا نام ہے ۔ اور اسی معنی میں حکماء نے کہا ہے ۔ من عدم القناعۃ لم یفدہ المال غنی جو شخص قیامت کی دولت سے محروم ہوا سے مالداری کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف احتیاج جس کی طرف آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (73) اللھم اغننی بالافتقار الیک ولا تفتونی بالاستغناء عنک ( اے اللہ مجھے اپنا محتاج بناکر غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کرکے فقیر نہ بنا ) اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] کہ پروردگار میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے (342) ویعجبنی فقری الیک ولم یکن لیعجبنی لولا محبتک الفقر مجھے تمہارا محتاج رہنا اچھا لگتا ہے اگر تمہاری محبت نہ ہوتی تو یہ بھلا معلوم نہ ہوتا ) اور اس معنی میں افتقر فھو منتقر و فقیر استعمال ہوتا ہے اور فقر کا لفظ ) اگر چہ قیاس کے مطابق ہے لیکن لغت میں مستعمل نہیں ہوتا ۔ الفقیر دراصل اس شخص کو کہتے ہیں جس کی ریڑھ ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو چناچہ محاورہ ہے ۔ فقرتہ فاقرہ : یعنی مصیبت نے اس کی کمر توڑدی افقرک الصید فارمہ : یعنیشکار نے تجھے اپنی کمر پر قدرت دی ہے لہذا تیر ماریئے بعض نے کہا ہے کہ یہ افقر سے ہے جس کے معنی حفرۃ یعنی گڑھے کے ہیں اور اسی سے فقیر ہر اس گڑھے کو کہتے ہیں جس میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے ۔ فقرت اللفسیل : میں نے پودا لگانے کے لئے گڑھا کھودا شاعر نے کہا ہے ( الرجز) (343) مالیلۃ الفقیر الاالشیطان کہ فقیر میں رات بھی شیطان کی مثل ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں الفقیر ایک کنویں کا نام ہے۔ فقرت الخرز : میں نے منکوں میں سوراخ کیا ۔ افقرت البیعر اونٹ کی ناک چھید کر اس میں مہار ڈالنا ۔ شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے كفى الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل . ( ک ف ی ) الکفایۃ وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔ حسب الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] ، وقیل : لا يعلم حسبانه إلا الله، ( ح س ب ) الحساب کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

یتیم کو مال حوالے کرنا مالی ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے سمجھ بوجھ اور ہوشیاری ضروری ہے قول باری ہے (وابتلوالیتامی حتی اذا بلغوالنکاح فان انستم منھم رشدافادفعوا الیھم اموالھم، اور یتیموں کی پرکھ کرتے رہویہاں تک کہ وہ نکاح کی عمرکوپہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں سمجھ بوجھ اور ہوشیاری دیکھ لوتوان کے اموال ان کے حوالے کردو) حسن، قتادہ اورسدی نے کہا کہ تم انکی عقلمندی اور دینداری کو پرکھتے رہو۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ بالغ ہونے سے پہلے ہم یتیموں کی پرکھ کرتے رہیں۔ اس لیے کہ فرمایا (وابتلوا الیتامی حتی اذابلغوالنکاح) اس میں ہمیں ان کی یتیمی کی حالت میں ان کو پرکھتے رہنے کا حکم ملاپھر فرمایا (حتی اذابلغوالنکاح) اس میں یہ بتادیا کہ بلوغ نکاح کامرحلہ ابتلاء یعنی پرکھتے رہنے کے مرحلے کے بعد آئے گا۔ اس لیے کہ حرف، حتی، غایت کے لیے ہے جس کا ذکرابتلاء کے بعد آیا ہے ، اس لیے آیت دوطرح سے اس پر دلالت کررہی ہے۔ کہ یہ ابتلاء بلوغ سے پہلے ہے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ اگر ایک نابالغ لڑکے کے اندرسمجھ بوجھ اور عقلمندی پیدا ہوجائے توا سے تجارت اور کا ردبار کرنے کی اجازت دے دینا جائز ہے۔ اس لیے کہ ابتلاء یعنی پرکھ کی یہی صورت ہے کہ مال کی حفاظت اور مالی تصرنات میں اس کے علم اور سمجھ کی جانچ کی جائیا ور اس کی حالت معلوم کی جائے اور جب اسے اس طرح کے کام کے لیے کہاجائے گا تو گویا اسے تجارت کرنے کی اجازت مل جائے گی۔ تاہم بچے کو تجارت وغیرہ کرنے کی اجازت دینے کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام ابوحنفیہ۔ ابویوسف، محمد، زفر، حسن بن زیادہ اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر نابا (رح) لغ میں خریدوفروخت کی سوجھ بوجھ ہے تو باپ کے لیے جائز ہے کہ وہ اسے تجارت کرنے کی اجازت دے دے۔ اسی طرح باپ کی طرف سے مقررکردہ وصی یا باپ کا وصی نہ ہونے کی صورت میں دادا کی طرف سے مقررکردہ وصی بھی اس قسم کی اجازت دے سکتا ہے۔ اس نابالغ کی حیثیت اس غلام کی طرح ہوگی جسے آقا کی طرف سے تجارت وغیرہ کرنے کی اجازت مل گئی ہو، ابن القاسم نے امام مالک کی طرف سے کہا ہے کہ میرے خیال میں بچے کے باپ اور دصی کی طرف سے تجار ت کی اجازت مل جانا جائز نہیں ہے اور اگر اس سلسلے میں اس پر قرض چڑھ جائے تو بچے کے ذمے کسی قسم کی کوئی رقم عائد نہیں ہوگی۔ ربیع نے اپنی کتاب میں اقرار کے باب میں امام شافعی سے روایت نقل کی ہے کہ بچہ اگر اللہ یا کسی انسان کے حق یا کسی مالی یا غیر مالی حق کا اقرارکرے گا تو اس کا یہ اقرار ساقط ہوگا خواہ اسے باپ یا کسی ولی یاحاکم کی طرف سے تجارت کی اجازت ملی ہوحاکم کے لیے جائز نہیں کہ وہ بچے کو اس کی اجازت دے دے اگر اس نے ایسا کرلیا توحاکم کی طرف سے بچے کا اقرارساقط سمجھا جائے گا اسی طرح اس کی خریدوفروخت بھی منسوخ سمجھی جائے گی۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت، تجارت کے لیئے اسے اجازت دے دینے کے جو ارپردلالت کررہا ہے۔ اس لیے کہ قول باری ہے کہ (وابتلوالیتامی) ابتلاء کا مفہوم یہی ہے کہ ان کی عقلمندی، ان کی دینداری اور تصرفات میں ان کے جزم واحتیاط کی آزمائش کی جائے۔ اس لفظ کا مفہوم ان تمام وجوہ کے لیے عام ہے اور جب لفظ میں عموم کا احتمال ہو تو اس کے خلاف چلتے ہوئے کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس آزمائش کو کسی کے لیے مخصوص کردے۔ بیع وشراء میں اس کی سوجھ بوجھ، نیز اپنے معاملات کو قابوں میں رکھنے کی صلاحیت اور اپنے مال کی حفاظت کے سلسلے میں اس کے احوال کی پرکھ۔ صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ اسے تجارت کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ اب جس شخص نے ابتلاء کے مفہوم کو صرف گفتگو کے ذریعے عقلی پرکھ تک محدودرکھا ہے اور تجارت میں اس کی کارکردگی اور مال کی حفاظت وغیرہ کا لحاظ نہیں کیا اس نے گویا دلیل کے بغیر لفظ کے عموم کو خاص کردیا۔ اگریہ کہاجائے کہ ترتیب تلاوت میں قول باری (فان انستم منھم رشدافادفعوا الیھم اموالھم) اس پر دلالت کرتا ہے کہ نابالغ ہونے کی حالت میں مالی تصرف کی اجازت نہیں ملنی چاہیئے۔ آیت میں یہ اذن مراد نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توبالغ ہونے اور سمجھ بوجھ نیزاہلیت کے آثارظاہر ہونے کے بعد مال حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر تجارت کے سلسلے میں بالغ ہونے سے پہلے اجازت دینے کا جوازہوتاتومال بھی حوالے کردینے کا جواز ہوتا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے بالغ ہونے اور اہلیت ظاہر ہونے کے بعد مال حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ تجارت کی اجازت کا مال حوالے کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے کہ اذن کا مفہوم تو یہ ہے کہ اسے خریدوفروخت کے لیے کہاجائے اور یہ بات اسے مال حوالے کیئے بغیر بھی ممکن ہے جس طرح کہ غلام کو کوئی مال دیئے بغیر تجارت اور خریدوفروخت کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ اس لیے ہم یہ کہتے ہیں آیت میں اسے پرکھنے اور آزمانے کا حکم ہے اور آزمائش کی ایک صورت بھی ہے کہ مال حوالے کیئے بغیر اسے تجارت کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ پھر اس کے بعد جب بالغ ہوجائے اور ایلبت کے آثار ظاہرہوجائیں تو اس کا مال اس کے حوالے کردیاجائے۔ اگر آزمائش بیع وشری میں تصرف کی اجازت کے ذریعے پرکھ کا تقاضانہ کرتی اور اس سے مراد صرف اس کی عقل اور سمجھ کی پرکھ ہوتی، معاملات کے بارے میں اس کی والشمندی اور گرفت کی حالت کا صحیح اندازہ لگانانہ ہوتاتو پھر بلوغت سے قبل ابتلاء یعنی آزمائش کا کوئی معنی نہ ہوتا۔ لیکن جب بلوغت سے پہلے ہی اسے آزمانے اور اس کی پرکھ کا ہمیں حکم دیا گیا تو ہمیں معلوم ہوگیا کہ اس سے مراد معاملات میں اس کے تصرفات کی آزمائش ہے نیز اس کی عقل کی صحت کی پرکھ اس بات کا پتہ نہیں دے سکتی کہ اپنے معاملات پر اس کی گرفت مضبوط ہے، اپنے مال کی حفاظت بھی کرسکتا ہے اور خرید و فروخت کے متعلق اس کا علم بھی درست ہے اور یہ بات اپنے مال کی حفاظت بھی کرسکتا ہے اور خریدوفروخت کے متعلق اس کا علم بھی درست ہے اور یہ بات تو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال کی حفاظت اور تصرفات کے متعلق اس کے علم کے سلسلے میں اس کے حالات کا جائز ہ لینے کا حکم ایک احتیاطی تدبیر کے طورپر دیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ بلوغت سے قبل جس آزمائش کا حکم دیا گیا ہے وہ ان ہی باتوں کے حکم پر مشتمل ہو۔ صرف اس کی عقلی آزمائش کے حکم پر مشتمل نہ ہو۔ نیز بلوغت سے قبل اگر ا سے تجارت کرنے کی اجازت اس لیے نہیں دی گئی تھی کہ اس پر اس کی پابندی تھی تو پھر اس پہلو سے اس کی آزمائش ساقط رہے گی۔ اب بلوغت کے بعد اس کی اہلیت اور سمجھ بوجھ کا اندازہ لگانے کے لیے ہمارا ذریعہ یہ ہوگا کہ ہم یاتوا سے تجارت کی اجازت دے کر اس کی آزمائش کریں گے یا اس کے بغیر ایسا کریں گے۔ اگرپہلی صورت اختیار کی جائے گی تو پھر معترض کے نزدیک اسے تصرف کی اجازت مل جائے گی۔ حالانکہ معترض بلوغت کے بعد بھی سمجھ بوجھ اور اہلیت کے آثارمعلوم ہونے تک اس پر پابندی کا قائل ہے۔ جب بلوغت کے بعد پابندی کی حالت میں اسے تجارت کی اجازت مل سکتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اجازت دے کرمعترض نے اسے پابندی کی حالت سے باہرنکال لیاجب کہ حقیقت میں اس پر پابندی لگی ہوئی ہے اور بلوغت کے بعد بھی اسے اس کے مال سے دوررکھا گیا ہے، ساتھ ہی ساتھ اسے اجازت بھی ملی ہوئی ہے تو اس صورتحال کے تحت معترض سے یہ پوچھاجا سکتا ہے کہ آپ نے بلوغت سے قبل اس کی حالت کا جائز ہ لینے کی خاطر اسے تجارت وغیرہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جس طرح بلوغت کے بعد اہلیت کے آثارنظرآنے تک پابندی کے باوجود اس کی حالت کا جائزہ لینے کی خاطر آپ نے اس کی اجازت دے دی ہے۔ اب اگر بلوغت کے بعد بھی تجارت وغیرہ کی اجازت دے کر اس کی حالت کا اندازہ لگایا جائے تو پھر اس کی اہلیت کا پتہ لگانے کا اور کیا ذریعہ ہوگا اس لیے معترض کے اعتراض کی وجہ سے دو باتوں میں سے ایک لازم آتی ہے یاتوآزمائش اور پرکھ کا ترک لازم آتا ہے یا اہلیت معلوم کرنے سے پہلے ہی مال حوالے کردینا لازم آتا ہے۔ تجارت کے لیئے نابالغ کو اجازت دینے کے جواز پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ حدیث دلالت کرتی ہے۔ جس حضرت ام سلمہ (رض) کے نابالغ بیٹے عمربن ابی سلمہ کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کا نکاح آپ سے کرادیں۔ عبداللہ بن شدادنے روایت بیان کی ہے کہ آپ نے سلمہ بن ابی سلمہ کو اس کا حکم دیا تھا۔ جبکہ ابھی وہ نابالغ تھے اس روایت میں خریدوفروخت سے متعلق اس تصرف کے اجازت کی دلیل ہے جس میں کام اگرچہ یہ کرتاہو لیکن اس کا کنڑول کسی اور کے ہاتھ میں ہو آپ نہیں دیکھتے کہ روایت اس بات کی متقاضی ہے کہ باپ اگر نابالغ بیٹے کے لیے کوئی غلام خریدنایا اپنا کوئی غلام فروخت کرنا چاہے تو اس کے لیے اسے وکیل بناکریہ کام اس کے سپرد کردینا جائز ہے، تجارت کے لیے اجازت کا مفہوم بھی یہی ہے۔ جن لوگوں نے قول باری (وابتلوالیتامی) کا مفہوم یہ لیا ہے کہ ان کی عقل ومہم اور دینداری کی جانچ کی جائے تو یہ جان لینا چاہیے کہ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ مال حوالے کرنے کے سلسلے میں دینداری کا اعتبارضروری نہیں ہے اس لیے کہ یتیم اگر ایک فاسق وفاجرشخص ہو، لیکن اسے معاملات پر پوری گرفت ہو۔ اور تجارتی طریقوں میں قصرفات کا اسے علم ہو تو اس کے فسق وفجور کی بناء پر اس کا مال حوالے نہ کرنا جائز نہیں ہوگا اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس معاملے میں دینداری کا اعتبار ضروری نہیں۔ دوسری طرف اگر ایک یتیم دیند ار اورصالح ہو لیکن اپنے مال کا پوری طرح تحقط کرنے کا اہل نہ ہو اورہمیشہ لین دین میں دوسروں کے ہاتھوں نقصان اٹھاتا ہوتوای سے شخص کو ان لوگوں کے نزدیک مال حوالے نہیں کیا جائے گا جو عقل کی کمی اور قلت ضبط کی بناپر پابندی لگانے کے قائل ہیں۔ اس سے ہمیں یہ چیزمعلوم ہوگئی کہ اس معاملے میں دینداری کا اعتبار ایک بےمعنی بات ہے۔ قول باری ہے (حتی اذابلغوانکاح) حضرت ابن عباس (رض) مجاہد اور سدی کا قول ہے کہ اس سے مراد حلم ہے جا کا مفہوم نکاح کی حالت کو پہنچ جانا ہے یعنی اختلام کا آجانا ہے قول باری (فان انستم منھم رشدا) کے متعلق حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے : اگر تمھیں ان کے اندراس چیزکاعلم ہوجائے۔ ایک قول میں ہے کہ ایناس کے اصل معنی احساس کے ہیں یعنی تم ان میں سمجھ بوجھ اور اہلیت کا احساس کرلو۔ اس معنی کی حکایت خلیل نحوی سے کی گئی ہے۔ قول باری ہے (انی انست نارا، میں نے آگ دیکھی ہے) یعنی میں نے اگ کا وجود محسوس کرلیا اور اسے دیکھ لیا ہے۔ یہاں ، رشد، کے معنی میں اختلاف رائے ہے ابن عباس (رض) اور سدی کا قول ہے کہ عقل دفہم اور حفظ مال کی اہلیت کو رشدکہتے ہیں۔ حسن اور قتادہ کا قول ہے عقل وفہم اور دین کی اہلیت کا نام رشد ہے۔ ابراہیم نخعی اور مجاہدنے کہا ہے کہ اس سے مراد عقل ہے۔ سماک نے عکرمہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے قول باری (فان انستم منھم رشدا) کی تفسیر میں فرمایا کہ جب اس میں بردباری، عقلمندی اور وقار کی کیفیت پختہ ہوجائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب رشد کے اسم کا اطلاق ان لوگوں کی تاویل کی بناپرعقل پر ہوتا ہے۔ جنہوں نے اس کے یہی معنی لیئے ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفع نقصان اور برے بھلے میں امتیاز کرنے والی سمجھ بوجھ اور عقلمندی کی شرط لگائی ہے ہر قسم کی سمجھ بوجھ اور ہوشیاری کی شرطہ نہیں لگائی تو اس لفظ کا ظاہراس کا متقاضی ہے کہ عقل کے وجود کی بناپر اس صفت کا یتیم میں پیدا ہوجانا، مال اس کے حوالے کرنے کا موجب اور اس پر پابندی لگانے سے مانع ہے۔ اس سے ایک عاقل، بالغ اور آزادانسان پر پابندی لگانے کے بطلان کی وجہ بھی نکلتی ہے۔ ابراہیم نخعی، محمد بن سیرین اور امام ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے۔ اس کی وضاحت ہم نے سورة بقرہ میں کردی ہے۔ قول باری (فادفعوالیھم اموالھم، ان کے اموال ان کے حوالے کردو) بلوغت کے بعد سمجھ بوجھ کے آثارظاہرہونے پر ان کا مال ان کے حوالے کردینے کے وجوب کا متقاضی ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں اس کی نظریہ قول باری ہے (واتوا الیتامی اموالھم) رشد کی یہ شرط یہاں بھی معتب رہے۔ تقدیرکلام اس طرح ہے۔ جب یتیم بالغ ہوجائیں اور تم ان میں اہلیت کے آثار محسوس کرلوتوان کے اموال ان کے حوالے کردو۔ قول باری ہے (ولاتاکلوھا اسرافاوبدارا ان یکبروا، ایسانہ کرنا کہ حدانصاف سے تجاوزکرکے اس خوف سے ان کے مال جلدی جلدی کھاجاؤ کہ وہ بڑے ہوکر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے) ، سرف، کا مفہوم مباح کی حد سے تجاوزکرکے محفور یعنی غیرمباح کی حد میں داخل ہوجانا ہے بعض دفعہ ، سرف، تفریط کی صورت میں پایاجاتا ہے اور بعض دفعہ افراط کی شکل میں کیونکہ ان دونوں حالتوں میں جائز اور مباح کی حد سے تجاوزہوتا ہے۔ قول باری (وبدارا) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس، قتادہ، حسن اور سدی کا قول ہے کہ اس کے معنی مبادرت کے ہیں اور مبادرت کسی کام میں تیزی دکھانے کو کہتے ہیں اس لیے تقدیر کلام یہ ہے کہ ان کا مال اس خوف سے جلدی جلدی کھاجانے سے روکاگیا ہے کہ وہ برے ہوکر اپنے حق کا مطالبہ کریں گے۔ آیت میں یہ دلالت موجود ہے کہ جب یتیم بڑے ہونے کی حدکوپہنچ جائے تو عاقل ہونے کی شرط کے ساتھ وہ اپنے مال کا حق دارہوجائے گا اور اہلیت کے پائے جائے کی کوئی شرط نہیں لگائی جائے گی، اس لیے کہ سمجھ بوجھ اور اہلیت کی شرط کا تعلق بلوغت کے بعد کے زمانے سے ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (ولاتاکلوھا اسرافاوبدارا) سے یہ واضح فرمادیا کہ جب یتیم بڑا ہونے کی حدکوپہنچ جائے تو پھر اس کا مال اس سے روک رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے اگر یہ مفہوم نہ لیاجائے تو پھر لفظ، کبر، یعنی بڑا ہوجانے، کا ذکریہاں بےمعنی ہوگا۔ اس لیے کہ بڑے ہونے کی حدکوپہنچنے سے پہلے اور پہنچنے کے بعد اس کا ولی ہی اس کے مال کا مستحق تھا۔ اب یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جب وہ بڑے ہونے کی حدکو پہنچ جائے تو مال حوالے کردیئے جانے کا حقدارہوجائے گا۔ امام ابوحنیفہ نے بڑے ہونے کی حدپچیس برس مقرر کی ہے۔ اس لیے کہ اس عمرکوپہنچ جانے والا شخص عام طورپر سنجیدہ اور سمجھدارہوجاتا ہے اور یہ بات محال ہے کہ ایک شخص سنجیدہ اور سمجھدارہو اوربڑوں کی حد اور ان کے درجے تک نہ پہنچ پائے۔ واللہ اعلم۔ یتیم کے ولی کا اس کے مال میں سے اپنے اوپر خرچ کرنا یتیم ہمدردی کا مستحق ہے ارشادباری ہے (ومن کان غنیا فلیستعفف ومن کان فقیرافلیا کل بالمعروف، یتیم کا جو سرپرست مالدارہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جو غریب ہو وہ معروف طریقے سے کھائے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کی تاویل وتفسیر میں سلف کا اختلاف ہے۔ معمرنے زہری سے اور انہوں نے قاسم بن محمد سے روایت کی ہے کہ ایک شخص حضرت ابن عباس (رض) کے پاس آکر کہنے لگا کہ میری سرپرستی میں کچھ یتیم بچے ہیں جن کے مال مویشی بھی ہیں ۔ کیا مجھے ان سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے ؟ آپ نے اس سے پوچھا، کیا تم ان میں سے جو مویشی خارش زوہ ہیں ان کی خارش دور کرنے کے لیے قطران کی مالش کرتے ہو ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا پھر پوچھا کیا جوجانوربھٹک کر گم ہوجائے اس کی تم تلاش کرتے ہو ؟ اس نے پھر اثبات میں جواب دیا۔ پھر فرمایا کیا تم ان کے پانی کے حوضوں کو مٹی سے لیپتے بھی ہو ؟ اس نے پھر ہاں کہا۔ آپ نے پھر سوال کیا، کیا تم پانی کی باری کے دن ان سے پہلے گھاٹ پر پہنچ جاتے ہو ؟ اس نے اس کا بھی اثبات میں جواب دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا ک، پھر ان کادودھ پی لیا کروالبتہ ان کے تھنوں سے سارادودھ نہ نکالو اورتھن سے خود بخود نکلنے والے دودھ کو نقصان نہ پہنچاؤ۔ شیبانی نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ وصی کو جب ضرورت پیش آئے ان یتیموں کے ہاتھ کے ساتھ اپناہاتھ بھی دڈال دے (یعنی ان کے ساتھ مل کر کھاپی لے) لیکن وہ پگڑی باندھ نہیں سکتا (یعنی ان کے ساتھ کھاپی تو سکتا ہے۔ لیکن ان کالباس اپنے استعمال میں نہیں لاسکتا) پہلی روایت میں حضرت ابن عباس (رض) نے کھاپی لینے کی اباحت کے لیے۔ یتیم کے مال مویشیوں کی دیکھ بھال اور ان کی خدمت کی شرط لگائی ہے۔ لیکن عکرمہ کی روایت میں ایسی کوئی شرط بیان نہیں کی۔ ابن لھیعہ نے یزیدبن ابی حبیب سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کچھ انصار صحابہ کرام سے قول باری (ومن کان غنیا فلیستعفف ومن کان فقیرافلیاکل بالمعروف) کے متعلق استفسار کیا تھا، ان حضرات نے جواب میں فرمایا تھا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اگر وصی یتیم کے کھجور کے درختوں کی دیکھ بھال کرتاتو اس کا ہاتھ یتیم کے ہاتھ کے ساتھ ہوتا یعنی وہ بھی ان درختوں کے پھلوں کے استعمال میں یتیم کے ساتھ شریک ہوجاتا۔ درج بالاروایت پر سند کے اعتبار سے تنقید کی گئی ہے۔ نیز یہ روایت اس وجہ سے بھی غلط ہے کہ اگر کھاپی لینے کی اباحت دیکھ بھال اور خدمت کی وجہ سے ہے تو اس لحاظ سے غنی اور فقیہ میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیئے۔ جبکہ آیت میں ان دونوں میں فرق رکھاگیا ہے۔ ہمیں اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہ تاویل باطل وساقط ہے۔ نیز حضرت ابن عباس (رض) سے منقول روایت میں کھاپی لینے کی اباحت ہے، پگڑی باندھنے کی اجاز ت نہیں ہے یا اب اگر ولی یادصی کام کرے اور اپنا وقت لگانے کی بناپر اس کا حق دارقرارپاتاتو پھر ماکول اور ملبوس کے حکم میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ بہرحال آیت کی تاویل کی یہ ایک صورت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ولی جب یتیم کے مال مویشیوں کے لیے کام کاج کرے گا تو وہ صرف کھانے پینے کی حدتک ان سے فائدہ اٹھائے گا۔ کچھ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ ولی یتیم سے قرض لے کر اپنی ضرورت پوری کرے گا اور اس کا قرض اداکرے گا۔ شریک نے ابواسحاق سے انہوں نے حارثہ ابن مضرب سے اور انہوں نے حضرت عمر (رض) سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ، میں نے اللہ تعالیٰ کے مال کو اپنے لیے یتیم کے مال کی طرح سمجھ رکھا ہے کہ اگر مجھے گنجائش ہوگی تو اس سے پرہیز کروں گا۔ اور اگر تنگدستی کی بناپر مجھے اس کی ضرورت ہوگی تو معروف طریقے سے اس میں سے لے کر کھاؤں گا اور پھر اس کی ادائیگی کردوں گا۔ عبیدہ سلمانی اور سعیدبن جبیرنیز ابوالعالیہ، ابو وائل اور مجاہد سے یہی بات مروی ہے۔ کہ یتیم کا ولی ضرورت کے وقت اس کے مال میں سے بطورقرض لے گا اور پھر گنجائش ہونے پر اس کی ادائیگی کردے گا۔ ایک تیسراقول بھی ہے جوحسن، عطابن ابی رباح، ابراہیم نخعی اور مکحول سے مروی ہے کہ وہ اس کے مال میں سے بس اسی قدرلے گا جس سے وہ اپنی بھوک دور کرسکے اور اپنابدن ڈھانک سکے پھر گنجائش ہونے پر وہ اس کی ادائیگی نہیں کرے گا۔ چوتھاقول جس کے قائل شعبی ہیں یہ ہے کہ ولی کے لیے اس کے مال کی حیثیت دہی ہوگی جو مردار کی ہے، یعنی ضرورت پڑنے پر ہی وہ اسے ہاتھ لگائے، پھر اگرا سے گنجائش دکشایش حاصل ہوجائے گی تو اس کی ادائیگی کردے گ اورنہ اس پر اس کی واپسی کی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ پانچویں قول کی روایت مقسم نے حضرت ابن عباس (رض) سے کی ہے کہ قول باری (فلیستعفف) کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اس سے بےپرداہ رہے یعنی اس کے مال کی طرف نظرنہ کرے اور (ومن کان فقیرافلیاکل بالمعروف، کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی ذات پر اپنا ہی مال خرچ کرتا رہے تاکہ یتیم کے مال کو ہاتھ لگانے کی اسے ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے، انہیں محمد بن عثمان بن ابی شیبہ نے، انہیں منجاب بن الحارث نے ، انہیں ابوعامراسدی نے، انہیں سفیان نے اعمش سے، انہوں نے حکم سے، انہوں نے مقسم سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اسی مفہوم کی روایت کی عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ولی یتیم کے مال میں سے صرف کرے گا اور پھر بعد میں اس کی ادائیگی کردے گا، آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے۔ مجاہد نے ایک اور روایت میں کہا ہے کہ ولی اپنے ذاتی مال میں سے معروف طریقے سے اپنے اوپر خرچ کرتا رہے گا۔ اور اسے یتیم کے مال کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہی حکم کا بھی قول ہے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ سلف کے اختلاف رائے کی یہ صورتیں جو اوپربیان ہوئیں۔ اس سلسلے میں چاررائتیں وار ہوئیں۔ جیسا کہ ہم ذکرکرآئے ہیں۔ پہلی روایت تو یہ ہے کہ اگر ولی یتیم کے مملوکہ اونٹوں اور موشیوں کی دیکھ بھال کرے گا اور ان کی خدمت میں اپنا وقت لگائے گا تو وہ ان کا دودھ پی سکے گا۔ دوسری روایت میں وہ یتیم کا مال اپنی ذات پر خرچ کرنے کی صورت میں اس کی ادائیگی کرے گا، تیسری روایت میں وہ یتیم کے مال میں سے کچھ بھی خرچ نہیں کرے گا۔ بلکہ اپنیء مال میں سے اس طرح سنبھال سنبھال کر خرچ کرے گا کہ اسے یتیم کے مال کو ہاتھ لگانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے ۔ چوتھی روایت میں اس حکم کو منسوخ کہاگیا ہے۔ ہمارے اصحاب کاس سلسلے میں جو مسلک ہم تک منقول ہوا ہے اس کے مطابق ولی خواہ غنی ہو یا فقیریتیم کے مال میں سے نہ بطورقرض کچھ لے گا اور نہ ہی کسی اور طریقے سے کچھ حاصل کرے گا، نہ ہی اس کے مال میں سے کسی اور کو کوئی قرضہ وغیرہ دے گا۔ اسماعیل بن سالم نے امام محمد سے روایت کی ہے کہ جہاں تک ہمارا تعلق ہے توہم وصی کے لیے یہ پسند نہیں کرتے کہ وہ یتیم کے مال میں سے قرض لے یا کسی اور طریقے سے کچھ کھائے ۔ اس مسئلے میں ہمارے اصحاب کا کوئی اختلاف منقول نہیں ہے۔ امام محمد نے، کتاب الاثار میں امام ابوحنیفہ سے، انہوں نے ایک شخص سے، اس نے حضرت ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ وصی یتیم کے مال میں سے قرض لے کریا کوئی اور صورت اختیارکرکے کچھ نہیں کھائے گا۔ اس روایت کے ذکرکے بعد امام محمد نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے۔ طحاوی نے امام ابوحنیفہ کا یہ مسلک بیان کیا ہے کہ ولی یاوصی کو جب ضرورت پڑجائے یتیم کے مال میں سے قرض لے کر اپنی ضرورت پوری کرے اور پھر یہ قرض واپس کردے جیسا کہ حضرت عمر (رض) اور آپ کے ہم خیال اصحاب سے یہی منقول ہے ۔ بشربن الولید نے امام ابویوسف سے نقل کیا ہے کہ ولی جب تک اقامت کی حالت میں ہوگا اس وقت تک وہ اس کے مال کو ہاتھ نہیں لگائے گا، البتہ جب وہ یتیم کے دیئے ہوئے قرضوں کی وصولی یا اس کی زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے نکلے گا تو اس کے لیے اس کے مال میں سے اپنے اوپر خرچ کرنا، اس کے جانورپر سواری کرنا ورکپڑے پہن لینا جائز ہوگا۔ پھر جب وہ واپس ہوگا تو کپڑے اوسواری یتیم کو واپس کردے گا۔ بشربن الولید نے مزید کہا کہ امام ابویوسف نے قول باری (فلیاکل بالمعروف) کے متعلق فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ حکم قول باری (ولاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) کی وجہ سے منسوخ ہوچکاہو۔ ؟ یتیم کا سرپرست عادل اور امین ہونا چاہیے ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ امام ابویوسف نے وصی کو درج بالا صورتوں میں مضارب کی طرح قراردیا ہے کہ وہ بھی سفر کی حالت میں سرمایہ لگانے والی کے مال میں سے اپنی ذات پر خرچ کرسکتا ہے۔ ابن عبدالحکم نے امام مالک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جس شخص کی سرپرستی میں کوئی یتیم ہو اور اس نے اس کے اخراجات کو اپنے مال کے ساتھ ملالیاہو، تواگریتیم کے اخراجات ولی کے اخراجات سے زیادہ ہوں تو پھر اس کا مال اپنے مال کے ساتھ ملالینے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر یتیم کے مال میں بچت ہو یعنی اس کے اخراجات کم ہوں تو پھر وہ اسے اپنے مال کے ساتھ نہ ملائے۔ امام مالک نے غنی اور فقیر کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ المعانی نے سفیان ثوری سے نقل کیا ہے کہ یتیم کے ولی کے لیے یتیم کے کھانے میں سے کھالینا جائز ہے تاہم ولی اس کے بدل کے طورپریتیم کو ضرور کچھ دے گا یہ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ثوری کے نزدیک یتیم کے مال میں سے کسی قسم کا کوئی فائدہ اٹھائے اگرچہ اس سے یتیم کو کوئی نقصان بھی نہ پہنچتاہو، مثلا یتیم کی مملوکہ تختی پر وہ کچھ لکھنے کی مشق کرے وغیرہ حسن بن حی کا قول ہے کہ ولی کو جب ضرورت پیش آئے وہ یتیم کے مال میں سے قرض لے سکتا ہے پھر وہ اسے یہ قرض واپس کردے۔ نیز یتیم کے مال میں سے وصی کو اپنے کام اور دوڑدھوپ کی مقدار کھالینے کی اجازت ہے بشرطیکہ اس سے یتیم بچے کا کوئی نقصان نہ ہو۔ ایک اہم نقطہ۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ قول باری (واتوالیتامی اموالھم ولاتتبدلوا الخبیث بالطیب ولاتاکلوا اموالھم الی اموالکم انہ کان حوباکبیرا) نیز فرمایا (فان الستم منھم رشدافادفعوا الیھم اموالم ولا تاکلوھا اسرافاو بدا ان یکبروا) نیز فرمایا (ولاتقم بوامالالیتم الابالتیھی احسن حتی یبلغ اشدہ) نیز فرمایا (وان تقومواللیتامی بالقسط) ایکجگہ ارشادہوا (ولاتاکلواموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم) یہ تمام آیات محکم ہیں یعنی ان میں سے کوئی بھی متشابہ یا منسوخ نہیں۔ ان سب کی اس پر دلالت ہورہی ہے کہ ولی خواہ غنی ہو یا فقیر یتیم کا مال کھانا اس کے لیے ممنوع ہے اور قول باری (ومن کا فقیرا فلیاکل بالمعروف) ایک متشابہ آیت ہے جس میں ان تمام وجوہ کا احتمال ہے جو ہم سابقہ سطور میں بیان کر آئے ہیں اس لیے اس آیت کی تاویل کا احسن طریقہ ہے کہ اسے محکم آیات کے موافق مفہوم پر محمول کیا جائے اور وہ یہ ہے کہ ولی معروف طریقے سے اپناذاتی مال اپنے اوپر اس طریقے سے خرچ کرتا رہے کہ اسے یتیم کے مال کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں متشابہ آیات کو محکم آیات کی طرف لوٹا نے کا حکم دیا ہے۔ نیز ہمیں ایساکیئے بغیرمتابہ آیات کی اتباع سے منع فرمایا ہے چناچہ قول باری ہے (منہ ایات محکمات ھن ام الکتاب واخرمتشا بھات، فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ) اب زیربحث آیت کی تاویل میں یہ کہا گیا ہے کہ اس سے یتیم کے مال کو بطورقرض یابطور غیرقرض لینے کا جوازثابت ہوتا ہے۔ ان کی یہ تاویل محکم کے مخالف ہے جن لوگوں نے درج بالا تاویل کے علاوہ دوسری تاویل کی ہے انہوں نے اس متشابہ آیت کو محکم آیات کی طرف لوٹاکرا سے ان کے معانی پر محمول گیا ہے۔ اس لیے یہ تاویل اولی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ قول باری (فلیاکل بالمعروف) منسوخ ہے اس کی روایت حسن بن ابی الحسن بن عطیہ نے عطیہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کی ہے۔ آپ نے فرمایا اس آیت کو بعد میں آنے والی آیت (ان الذین یاکلون اموال الیتامی) نے منسوخ کردیا ہے۔ عثمان بن عطاء نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح کی روایت کی ہے عیسیٰ بن عبید الکندی نے عبیداللہ سے، انہوں نے ضحاک بن مزاحم سے قول باری (ومن کان فقیرا فلیاکل بالمعروف) کے متعلق روایت کی ہے کہ یہ آیت قول باری (ان الذین یاکلون اموال الیتامی ظلما) کی وجہ سے منسوخ ہوچکی ہے۔ ایک سوال کا جواب اگریہ کہاجائے کہ عمروبن شعیب نے اپنے والد اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میرے پاس کوئی مال نہیں اور سرپرستی میں ایک یتیم پرورش پارہا ہے، اس پر آپ نے فرمایا (کل من مال یتیمک غیرمسرف ولامتاثل مالک بمالہ، تمہاری سرپرستی میں جو یتیم ہے اس کے مال میں سے تم کھالوبشرطی کہ تم اسراف نہ کرو اورنہ ہی اپنامال اس کے مال کے ساتھ ملاؤ) عمروبن دینار نے حسن عوفی سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ یتیم کا ولی اس کے مال میں سے معروف طریقے سے کھائے گا اور مال یکجا نہیں کرے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان دونوں روایات کے ذریعے ہماری ان مذکورہ آیات پر اعتراض درست نہیں ہے۔ جو یتیم کے مال کے متعلق ممانعت کا تقاضا کرتی ہیں۔ اگر یہ درست بھی ہوجائے توا سے اس صورت پر محمول کیا جائے گا جو جائز ہے اور وہ یہ کہ ولی یتیم کے مال میں مضاربت کی بنیاد پر کام کرے گا اور اپنے منافع کی مقدار اس میں سے لے لے گا یہ صورت ہمارے نزدیک جائز ہے۔ سلف کی ایک جماعت سے اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ ایک اور سوال کا جواب اگریہ کہاجائے کہ یتیم کے مال مضاربت کی بنیادپر کام کرکے اگر منافع لینا جائز ہے تو پھر اس کے مال میں کام کرکے کھاناکیوں جائز نہیں ہوگاجیسا کہ حضرت ابن عباس سے ایک روایت کی رو سے اگر ولی یتیم کے خارشتی اونٹوں پر قطران کی مالش کرتاہو، گمشدہ اونٹ کی تلاش میں جاتاہو اور ان کے پانی کے حوضوں کو مٹی سے لیتا ہو، تو اس کے لیے ان اونٹوں کادورھ پینا جائز ہے، بشرطیکہ ان کے تھنوں سے سارادودھ نہ نکال لے اور نہ ہی خود بخود نکلنے والے دودھ کو نقصان پہنچائے یا جس طرح حسن سے روایت ہے کہ وصی اگر یتیم کے مملوکہ کھجور کے درختوں کی دیکھ بھال میں کام کرے گا، تو اس کا ہاتھ بھی یتیم کے ہاتھ کے ساتھ ہوگا یعنی وہ بھی یتیم کے ساتھ مل کر ان درختوں کا پھل کھاسکے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ وصی جب اونٹوں کی دیکھ بھال یا درختوں کی نگرانی میں ہاتھ بٹائے گا تو دوصورتوں میں سے ایک صورت ہوگی یا تو وہ یتیم کے مال میں سے اپنے کام کی اجرت کے طورپر کچھ لے گایا اجرت اور معاوضہ کے علاوہ کسی اور وجہ کی بناپروہ ایسا کرے گا۔ اگروہ پہلی صورت اختیارکرے گا تو اس کے لیے ایسا کرنا چاروجوہ سے فاسدہوگا۔ اول یہ کہ جن لوگوں نے اجرت کے طورپر کچھ لینے کو مباح قراردیا ہے انہوں نے ولی کی غربت کی حالت میں اس کی اجازت دی ہے کیونکہ مالداری کی حالت میں اس کے عدم جواز پر سب کا اتفاق ہے۔ نص سے یہ بات ثابت ہے جیسا کہ قول باری ہے۔ (ومن کان غنیا فلیستعفف) اور اجرت کے استحقاق کے لحاظ سے مالدار اورفقیر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس بناپرا سے اجرت کا نام دیناباطل ہوگیا۔ دوم یہ کہ وصی کو یہ جائز نہیں کہ وہ یتیم کے لیے اپنی ذات کو کرایہ پرلے کر اس کا مزدوربن جائے۔ سوم یہ کہ جن حضرات نے ولی کے لیے اس چیز کو مباح قراردیا ہے انہوں نے اس کے لیے کسی معین اور معلوم چیز کی شرط نہیں لگائی ہے، جبکہ اجارہ اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک اس میں اجرت کا تعین نہیں کیا جاتا۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ ولی کے لیے اس چیزکومباح قراردیتے ہیں انہوں نے اسے اجرت کا نام نہیں دیا ہے۔ اس لیے اس کا اجرت ہوناباطل ہوگیا۔ اگروصی یتیم کے مال میں کام کرکے کچھ لے توا سے مضاربت میں منافع کی حیثیت بھی نہیں دی جاسکتی۔ اس لیے کہ یتیم کے مال میں سے وہ جس منافع کا مستحق ہوگا وہ کبھی یتیم کا مال تھا ہی نہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ مضاربت میں رب المال یعنی سرمایہ کا رمضارب یعنی کارندہ کے لیے جس منافع کی شرط لگاتا ہے۔ وہ کبھی اس کی ملکیت میں نہیں ہوتا۔ اگر یہ رب المال کی ملکیت ہوتا اور مضارب کے تگ ودو اورکام کے بدل کے طورپر مشروط ہوتاتو پھر اس صورت میں اس کا رب المال کی ضمانت کے تحت ہوناضروری ہوتا۔ جس طرح کہ اجارہ میں اجرت کا استحقاق کرایہ پر لینے والے یعنی مستاجر کے مال میں سے مزدور کے کام کے بدل کے طورپرمستاجر کی ضمانت کے تحت ہوتا ہے اب جبکہ مضارب کے لیے شرط کیا ہوا منافع رب المال کی ضمانت کے تحت نہیں ہوتاتو اس سے ثابت ہوا کہ یہ منافع کبھی رب المال کی ملکیت میں نہیں تھا بلکہ یہ مضارب کی ملکیت کے تحت وقوع پذیرہوا ہے اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر ایک مریض اپنا مال مضاربت پردے کر منافع کے دس میں سے نوحصے مضارب کے لیے مقررکردے جبکہ منافع کی نسبت اس جیسی مضاربت کے لحاظ سے زیادہ بھی ہو، تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہوگا۔ اگر مریض اپنی اس بیماری میں مرجائے تومضارب کے لیے مقررکردہ منافع اس کے مال میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ اگر مریض کوئی چیز اس سے زائد کرایہ پر لیتا جتنا کہ عام طورپر اس جیسی چیز کا کرایہ ہوتا ہے۔ اور پھر اس کی وفات ہوجاتی تو اس صورت میں یہ زائد رقم اس کے تہائی مال سے ادا کی جاتی۔ اس طرح مضاربت کی صورت میں مقررکردہ منافع کی حیثیت وہ نہیں ہوئی جو اجارہ میں مقررکردہ کرایہ کی تھی اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ولی مضاربت کی بنیاد پر منافع کی صورت میں یتیم کے مال میں سے کچھ لے لینا گویا یتیم کے مال میں سے لینا نہ ہوا۔ ایک اور سوال کا جواب اگریہ کہاجائے کہ ایساکیوں نہیں ہوسکتا کہ اس معاملے میں وصی کو سرکاری کارندوں اور قاضیوں کی طرح سمجھ لیا جائے جو اپنے شعبوں میں کام کرتے اور مسلمانوں کی خدمات سرانجام دینے کی بناپر اپنے اپنے وظائف یاتنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ وصی بھی اسی طرح ہے کہ جب وہ یتیم کے لیے کام کرے گا تو کام کے مطابق تنخواہ یاوظیفہ حاصل کرے گا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ فقہاء کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وصی کے لیے مالدار ہونے کی صورت میں یتیم کا کام کرنے کی بناپر اس کے مال میں سے کچھ لینا جائز نہیں ہے۔ نص قرآنی نے اس کی ممانعت کردی ہے۔ چناچہ ارشاد ہے۔ (ومن کان غنیا فلیستعفف) اس کے ساتھ یہ بھی ایک اتفاقی مسئلہ ہے کہ سرکاری کارندے اور قاضی صاحبان مالدارہونے کے باوجودبھی اپنے اپنے کاموں کے معاوضہ کے طورپر وظائف یاتنخواہیں لے سکتے ہیں۔ اگریتیم کے مال میں سے ولی کی لی ہوئی رقم یا چیز کی وہی حیثیت ہوتی جو قاضیوں اور سرکاری کارندوں کی تنخواہوں کی ہے۔ تو پھر مالداری کی حالت میں بھی ولی کو ایسا کرنا جائز ہوتا۔ اس لیے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یتیم کا ولی، یتیم کے مال میں کسی وظیفے یاتنخواہ کا حق نہیں رکھتا۔ نیز اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قاضی کے لیے بھی یتیم کے مال میں سے کچھ لینا جائز نہیں ہے۔ حالانکہ یتیموں کے معاملات کی دیکھ بھال اس کی ذمہ داری ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان تمام لوگوں کے لیئے جو یتیموں کی سرپرستی کا حق رکھتے ہیں، ان کے اموال میں سے کچھ لینا جائز نہیں ہے، نہ قرض کی صورت میں اور نہ ہی غیرقرض کی شکل میں جس طرح کہ قاضی بھی ایسا نہیں کرسکتا خواہ وہ امیرہویاغریب۔ ایک اور سوال اور اس کا جواب اگریہ کہاجائے کہ قاضی اور سرکاری کارندے اپنے اپنے کاموں کی تنخواہیں لیتے ہیں۔ اگر یتیم کا ولی یتیم کا کام کرکے بقدرکفایت اس کے مال میں سے کچھ لے لیتا ہے تو ان دونوں صورتوں نیزاجرت لینے کے درمیان کیا فرق ہے ؟ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ وظیفہ یاتنخواہ کسی چیز کی اجرت نہیں ہوتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مقررکردہ چیز ہے جو اس نے مسلمانوں کے امورسرانجام دینے والوں کے لیے متعین کی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ فقہاء کے لیے وظائف لینا جائز ہے، حالانکہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس پر اجرت لینا جائز ہو۔ اس لیے کہ فتوی نویسی اور لوگوں کو فقہ سے آگاہ کرنے میں ان کی مشغولیت ایک فرض ہے اور کسی کے لیے فرض کام کرکے اس پر اجرت لینا جائز نہیں ۔ اسی طرح میدان جنگ میں جانے والے مجاہدین اور ان کے اہل وعیال کو وظائف دیئے جاتے ہیں حالانکہ یہ اجرت نہیں ہوتی، یہی صورت حال خلفاء کے وظائف کی بھی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت کے، خمس، نیز، فی، میں سے ایک ایک حصہ لیتے تھے اور غزوہ میں شریک ہونے کی صورت میں مال غنیمت میں سے بھی آپ کو ایک حصہ ملتا تھا۔ اب کسی کے لیے یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دینی امور کی انجام دہی پر اجرت لیتے تھے۔ کسی کے لیے یہ کہنا کیسے جائز ہوگا، جبکہ فرمان الٰہی ہے (قل مااسئلکم علیہ من اجر وماانامن المتکلفین، آپ کہہ دیجئے کہ میں اس معاملے میں کسی اجرت کا طلب گار نہیں ہوں۔ اور نہ ہی میں بناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں) نیز فرمایا (قل لااسئلکم علیہ اجرا الاالمودۃ فی القربی، کہہ دیں کہ میں تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا، ہاں رشتہ داری کی محبت ہو) اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ رزق یعنی وظائف یاتنخواہیں، اجرت نہیں ہوتیں۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ فقراء، مساکین اور یتیموں کے لیے بعض دفعہ بیت المال پر حقوق واجب ہوجاتے ہیں جبکہ وہ ان حقوق کو کسی چیز کے بدل کے طورپر نہیں لیتے۔ اس لیے ضی نیز دینی کام سرانجام دینے والے کسی بھی شخص کے لیے اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ قاضی کو توتحفہ اور ہدیہ وصول کرنے سے بھی روک دیاگیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعو (رض) د سے قول باری (اکالولناللسحت، بڑے حرام خور ہیں) کے متعلق دریافت کیا گیا کہ اس کے معنی رشوت کے ہیں۔ آپ نے جواب میں فرمایا : نہیں رشوت توکف رہے اس سے مراد وہ تحائف وہدایا ہیں جو سرکاری کارندے وصول کرتے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ (ھدایا الامراء غلول، حکام کا لوگوں کے تحائف قبول کرنا غلول ہے۔ ) یعنی مال غنیمت میں ہراپھیری کرنے کے مترادف ہے اس لیے قاضی کو قضاء کے سلسلے میں کسی بھی پہلو سے اجرت لینے سے روک دیا گیا ہے۔ اور تحائف قبول کرنے کی ممانعت کردی گئی ہے۔ اور سلف نے قول باری میں مذکورلفظ، سحت، کے یہی معنی لیئے ہیں۔ اب یتیم کا دلی اس کے مال میں سے اگر کچھ کھالیتا ہے یا تو اجرت کے طورپر لے گایاقاضی اور سرکاری کاندے کے وظیفے کے طورپرلے گا۔ اب یہ بات تو واضح ہے کہ اجرت کسی متعین عمل پر ملتی ہے۔ جس کی مدت بھی معلوم ہو اوراجرت بھی۔ اس میں پہلے سے اجارہ کی طرح کوئی عقد یعنی معاملہ ہونا چاہیے۔ اس میں امیر اورغریب کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اب جو حضرات یتیم کے مال میں سے ولی کے لیے بطورقرض یا غیرقرض کچھ لینا جائز قراردیئے ہیں، ان کے نزدیک اس کی حیثیت اجرت کی نہیں ہے جس کے دلائل کا ہم نے پہلے تذکرہ کردیا ہے نیز اس معاملے میں ان حضرات کے نزدیک مالدار اور فقیر کے درمیان فرق ہوتا ہے اس لیے اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ اجرت نہیں ہے اور ولی کے لیے اسے اس بنیاد پر لینا جائز نہیں جس پر قاضی اور سرکاری کارندے اپنے اپنے وظائف لیتے ہیں۔ اس لیے کہ اس معاملے میں مالدار اورفقیر دونوں قسموں کے قاضیوں اور کارندوں کا حکم یکساں ہے جبکہ یتیم کے مال میں سے لینے والے ولی کا حکم مالدار اورفقیرہونے کی نسبت سے مختلف ہے جیسا کہ اس کے جواز کے قائلین کا مسلک ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ اس قسم کے وظائف بیت المال پر واجب ہوتے ہیں کہ کسی ایک متعین شخص ک مال پر نہیں اس لیے جو شخص قاضی کے بیت المال سے وظیفہ لینے یامزدورک مزدوری وصول کرنے کو یتیم کے مال میں سے اس کے ولی کے کچھ لے لینے کے مشابہ قراردے کر اس کے لیے جواز پیداکرتا ہے۔ وہ دراصل اس تعلیل میں غفلت کا شکار ہے۔ یتیم کے مال میں سے اس کے ولی کے کچھ لینے کے عدم جو ازپرحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول دلالت کرتا ہے جو آپ نے خیبر سے آمدہ مال غنیمت ک موقعہ پر فرمایا تھا (لایحل لی مماافاء اللہ علیکم ھذہ، میرے لیے اس مال میں سے جو اللہ تمہیں غنیمت وغیرہ کی صورت میں عطاکرتا ہے۔ اتنی سی چیز بھی حلال نہیں ہے) یہ کہتے ہوئے آپ نے اپنی اونٹنی کے کچھ بال دست مبارک میں لے کر اس کی طرف اشارہ فرمایا، پھر کہا (الاالخمس والخمس مردودفیکم۔ سوائے پانچویں حصے کے اور پانچواں حصہ بھی تمہاری طرف ہی لوٹادیاجاتا ہے) اب جبکہ مسلمانوں کے اموال کی سرپرستی اور تولیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کی کیفیت وہ تھی جس کا ذکردرج بالاحدیث میں ہوا۔ توپھریتیم کے مال کی سرپرستی اور تولیت ک لحاظ سے وصی کو بھی اسی صفت اور کیفیت کا حامل ہونا زیادہ مناسب ہے۔ نیز وصیت میں وصی کی شمولیت نیکی کی بنیادپربوجہ اللہ تھی۔ جس میں اجرت کی کوئی شرط نہیں تھی اس لحاظ سے اس کی حیثیت وہی ہوگی جو رضاکارانہ طورپر کسی کا مال کہیں فروخت کرنے لے جائے اس لیے ولی یاوصی کو یتیم کے مال میں سے بطورقرض یاغیرقرض کچھ لیناجائز نہیں ہوگا۔ جس طرح رضاکارانہ طورپرمال لے جانے والے کے لیے جائز نہیں ۔ کوئی بددیانت شخص یتیم کا سرپرست نہیں ہونا چاہیے قول باری ہے (فاذادفعتم الیھم اموالھم فاشھدواعلیھم، جب تم انہیں ان کے مال حوالے کروتوان پر گواہ بنالو) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ یتیموں کے بارے میں جو آیتیں گذرچ کی ہیں وہ اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کے متعلق درست طریق کاریہ ہے کہ ان کے اموال کی حفاظت اور ان کے مفادات کے تحفظ کے وائرے میں رہتے ہوئے ان اموال کے تصرف کے سلسلے میں ان کا کوئی ولی اور سرپرست بن جائے۔ ایسا شخص یاتویتیم کے باپ کا وصی ہوگایاباپ کی عدم موجودگی میں داداکاوصی ہوگا یاعادل حاکم کا مقررکردہ کوئی امانت داراہلکار ہوگا، بشرطیکہ وہ خود بھی عادل ہو، اس طرح ہراس شخص کے لیے عادل اور امین ہونے کی شرط ہے جو یتیم کی سرپرستی کے معاملات کا ذمہ داربنایاجائے خواہ وہ باپ ہو یا دادایاوصی یا اور کوئی۔ اس بناپرجوباپ یادادافسق وفجور میں مبتلاہویا اس پر تہمت لگ چکی ہو یا حاکم راشی ہو یا وصی امین کی امانت داری مشکوک ہو تو ایسے لوگوں کو یتیم کا سرپرست بن کر اس پر تصرف کا کوئی حق نہیں ۔ اس مسئلے میں ہمیں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے آپ نہیں دیکھتے کہ مسلمانوں کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قاضی کا فسق اگر رشوت خوری یا ہواوہوس کی طرف میلان کی وجہ سے ظاہرہوجائے نیز فیصلوں میں عدل وانصاف چھوڑدے تو وہ معزول ہوجاتا ہے۔ اور اس کے فیصلے ناجائز ہوجاتے ہیں۔ اس طرح ان لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جنہیں اس نے یتیموں ک اموال کا سرپرست بنایا ہے۔ کو اہ وہ قاضی ہو یا وصی یا امین یاحاکم۔ ان میں سے کسی کی سرپرستی اور ولایت کا ثبوت عدالت کی شرط اور امانت کی صحت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ گواہ بنانے پر کیوں زوردیاگیا ہے اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے اولیاء کو ان کی بلوغت کی بعد مال حوالے کرتے وقت گواہیاں قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس میں کئی پہلو اوراحکام ہیں اول یہ کہ اس میں یتیم اور اس کے مال کے محافظ اور نگران دونوں کے لیے احتیاط کا پہلو ہے۔ یتیم کے لیے تو اس لیے کہ جب مال پر قبضہ کرلینے کے متعلق گواہیاں قائم ہوجائیں گی تو اس کے لیے ایسی چیز کے دعویداربننے کے امکانات معدوم ہوجائیں گے جو اس کی نہیں ہے اور وصی کے لیے اس لیے کہ پھر یتیم کا یہ دعوی باطل ہوجائے گا کہ وصی نے اللہ کے حکم کے مطابق اسے اس کا مال حوالے نہیں کیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بیع وشراء کرتے وقت گواہی قائم کرنے کا حکم بھی فروخت کنندہ اور خریدار کے لیے احتیاطی تدبیر کے طورپردیا ہے۔ گواہی کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ امانت کی واپسی کے سلسلے میں وصی کا دامن پاک ہے اور وہ بری الذمہ ہے اب اس کے صحن میں یتیم کے مال کا کوئی حصہ موجود نہیں۔ عیاض بن حمادمجاشعی کی روایت کردہ حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی چیز کی خاطر، لقطہ، یعنی گری پڑی چیز کو اٹھالینے والے کو گواہی قائم کرنے کا حکم دیا تھا، آپ کا ارشاد ہے (من وجدلقطۃ فلیشھد ذوی عدل ولایکتم ولایعیب، جس شخص کو کوئی لقطہ مل جائے۔ تو اس پر دوعادل گواہ بنالے، کچھ نہ چھپائے اور نہ ہی اسے عیب دارکرے) آپ نے گواہی قائم کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ متعلقہ شخص کی امانت داری ظاہرہوجائے نیز تہمت کا امکان ختم ہوجائے۔ واللہ اعلم۔ یتیم کا مال اسے حوالے کرنے کے سلسلے میں ولی کے قول کی تصدیق کے متعلق فقہاء کا اختلاف امام ابوحنیفہ، ابویوسف ، محمد، زفر اورحسن بن زیادہ کا قول ہے کہ یتیم کے بالغ ہوجانے پر اگر وصی یہ دعوی کرے کہ اس نے اس کا مال اس کے حوالے کردیا ہے تو اس کے قول کو درست تسلیم کرلیاجائے گا۔ اسی طرح اگر وہ یہ کہے کہ میں نے یتیم کی نابالغی کی مدت میں اس کا سارامال اس پر ہی صرف کردیا ہے تو اس کی بات مان لی جائے گی، بشرطیکہ اس جیسے پر اتناخرچ اٹھ سکتا ہو، اگر وہ مال کی ہلاکت کا دعوی کرے تو بھی اس کے قول کو مان لیاجائے گا۔ سفیان ثوری سے یہی منقول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ یتیم کو مال حوالے کرنے کے متعلق وصی کے قول کو درست تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ انہوں نے فرمایا، اس کی وجہ یہ ہے کہ وصی نے مال جس کے حوالے کرنے کا دعوی ہے وہ اس شخص کے علاوہ کوئی اور ہے جس نے اس کے پاس مال بطور امانت رکھوایا تھا اس لیے اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگی جسے کسی شخص تک مال پہنچانے کے لیئے وکیل بنایاگیا ہو وہ مال پہنچانے کا دعوی کرے تو ثبوت یعنی گواہی وغیرہ کے بغیر اس کے مال حوالہ کردینے کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (فاذادفعتم الیھم اموالھم فاشھدواعلیھم۔ یتیموں کے مال ومتاع میں انتہائی احتیاط ضروری ہے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ گواہی قائم کرنے کے حکم میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوجائے کہ وصی کو امین تسلیم نہیں کیا گیا یا اس مقابلے میں وہ قابل تصدیق نہیں ہے۔ اس لیے کہ امانتوں کے سلسلے میں گواہی قائم کرنا ایک مستحسن فعل ہے، جس طرح کہ ضمانتوں کے تحت واقع اشیاء میں یہ ایک پسندیدہ اقدام ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ودیعتوں جیسی امانتوں کی واپسی پر گواہی قائم کرنا اسی طرح درست ہوتا ہے، جس طرح کہ قابل ضمانت اشیاء مثلا دیون وغیرہ کی واپسی پر یہ درست ہوتا ہے۔ اس بناپرگواہ بنانے کے حکم میں کوئی ایسی دلالت موجود نہیں ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ گواہ قائم نہ کرنے کی صورت میں اس معاملے میں اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی اور اس کا دعوی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اگریہ کہا جائے کہ جب مال کی واپسی کے سلسلے میں وصی کے قول کو درست تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ تو ثبوت یعنی گواہی وغیرہ کے بغیر اس کے دعوے کو قبول کرلینے کے بعد گواہی قائم کرنے کاکیامطلب اور کیا فائد ہ ہے۔ ؟ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ جس طرح ہم ذکرکرآئے ہیں۔ اس میں یہ فائدہ ہے کہ اس سے ایک طرف تو وصی کی امانت داری کا اظہارہوجائے گا اور دوسری طرف شک وشبہ اور تہمت کے امکان کا خاتمہ ہوجائے گا اور پھر کسی کو اسکے بعد وصی پر کسی قسم کے دعوے کا موقعہ نہیں ملے گا۔ اس میں یتیم کے فائدے کا بات بھی ہے کہ وہ ایسا دعوی کرنے کا حوصلہ ہی نہیں کرے گا جس میں اس کی کذب بیانی ظاہر ہوجاتی ہو۔ گواہ قائم کرنے کی صورت میں وصی سے قسم کھانے کی ذمہ داری ساقط ہوجائے گی۔ گواہی قائم نہ کرنے کی صورت میں یتیم کی طرف سے مال حوالے نہ کرنے کے دعوے پر وصی کے قول کا اعتبارکیاجائے گا لیکن اسے قسم بھی اٹھانی ہوگی۔ لیکن گواہی قائم کرنے کی صورت میں اسے قسم اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ لیکن گواہی قائم کرنے کی صورت میں اسے قسم اٹھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ درج بالا فوائد گواہی قائم کرنے کے ضمن میں پائے جاتے ہیں، اگرچہ یتیم کا مال وصی کے ہاتھ میں امانت کے طورپر ہوتا ہے۔ اور امانتوں کی واپسی کے وقت گواہی قائم کرنا درست تو ہوتا ہے ضروری نہیں ہوتا۔ گواہی کے بغیر ولی کی بات درست تسلیم کرلینے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ وصی امانت کے طورپر یتیم کے مال کی حفاظت کرنے اور اسے اپنے پاس رکھنے کا ذمہ دا رہے، یہاں تک کہ جب یتیم استحقاق کا وقت آجائے قومال اس کے حوالے کردے۔ اس طرح اس کی حیثیت ودیعت، مضاربت اور اس قسم کی دوسری امانتوں کی طرح ہوگی۔ اس بناپرضروری ہے کہ ودیعت کی واپسی کے متعلق تصدیق کی طرح اس مال کی واپسی کے بارے میں بھی اس کے قول کی تصدیق کی جائے۔ اس مال کی حیثیت وہی ہے جو امانت کی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر یتیم اس کے ضائع ہوجانے کے متعلق وصی کے قول کی تصدیق کردے تو وصی پر اس کاتادان عائد نہیں ہوگا، جس طرح اگر ودیعت رکھنے والا اس کے ضیاع کی تصدیق کردے تو پھر اس پر اس کا تاوان عائد نہیں ہوگا۔ جس کے پاس یہ ودیعت رکھی گئی تھی۔ امام شافعی کا یہ قول کی یتیم نے یہ مال ولی یاوصی کے پاس بطور امانت نہیں رکھا تھا۔ اس لیے واپسی کے متعلق وصی یاولی کے قول کو درست تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ظاہری طورپر نہ صرف کمزور ہے بلکہ فقہ کی روح سے بعید، فاسد اورمنتقض بھی ہے، اس لیے کہ اگر ان کی مذکورہ بالاوجہ تصدیق کی نفی کے لیے علت تسلیم کرلی جائے، تو پھر اس سے یہ لازم آئے گا کہ قاضی اگر یتیم سے کہے کہ میں نے تمھارامال تمہیں واپس کردیا ہے۔ تو اس کی بات بھی درست تسلیم نہ کی جائے۔ اس لیے کہ یتیم نے قاضی کے پاس اپنامال بطور امانت نہیں رکھوایا تھا، یہی بات باپ کے حق میں بھی لازم آتی ہے کہ اگر وہ نابالغ بیٹے کے بالغ ہونے پر اس سے کہے کہ میں نے تمھارامال تمہارے حوالے کردیا ہے، تو اس کے اس دعوے کی تصدیق نہ کی جائے اس لیے کہ اس نابا (رح) لغ نے اسے اپنے مال امین نہیں بنایا تھا۔ امام شافعی پر یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ اس صورت میں ولی پر ضمان اور تاوان کے وجوب کا بھی فتوی دیں، جبکہ بالغ ہوجانے کے بعد یتیم اور ولی مال کے ضیاع کے متعلق ایک دوسرے کی تصدیق کردیں۔ اس لیے کہ ولی نے یتیم کی طرف سے مال بطور امانت رکھے جانے کے بغیر ہی اس کا مال اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ امام شافعی نے اس صورت کو دوسرے تک مال پہنچانے والے وکیل یاکارندے کی حالت کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو ایک تشبیہ بعید کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے باوجودوصی اور وکیل کی صورتوں میں اس وجہ کی بناپر کوئی فرق نہیں ہے جو ہم نے وصی کی تصدیق کے سلسلے میں بیان کی تھی۔ اس لیے کہ اپنی ذات کو بری الذمہ قراردینے کے متعلق وکیل کے قول کی بھی تصدیق کی جائے گی۔ تاوان واجب کرنے نیزمال دوسرے تک پہنچادینے کے سلسلے میں اس کے قول کی تصدیق نہیں کی جائے گی۔ اس طرح اس کا قول صرف اس صورت میں قابل قبول نہیں ہوگا، جبکہ وہ اس شخص کے قول کے برعکس ہو جس تک مال پہنچانے پرا سے مامور کیا گیا تھا۔ باقی رہی اپنی ذات کی برأت تو اس میں اس کے قول کی اسی طرح تصدیق کی جائے گی جس طرح ہم نے یتیم کے بالغ ہونے پر وصی کی طرف سیا سے مال حوالے کردینے کے دعوے کی تصدیق کی تھی۔ نیز وصی کی حیثیت اس شخص کی طرحہوتی ہے جو یتیم کی طرف سے اس کی اجازت کے ساتھ تصرف کرسکتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ خریدوفروخت وغیرہ میں یتیم کی طرف سے وصی کا تصرف اس کے باپ کے تصرف کی طرح جائز ہے۔ اب اگر وصی باپ کی طرف سے مال امانت رکھائے جانے کی بناپر اس کا مال اپنے پاس روک سکتا ہے۔ اور دوسری طرف نابالغ کی طرف سے اس کے باپ کی اجازت درست ہوتی ہے توگویایہ سمجھ لیاجائے گا کہ اس نے یتیم کا مال اس کے بالغ ہونے کے بعداس کی اجازت سے اپنے پاس روک رکھا ہے اس بناپروصی اور مودع (جس کے پاس ودیعت رکھی جائے) کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوگا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦) اور یتیموں کی عقلوں وصلاحیتوں کو آزما لیا کرو جب ان میں تم کو صلاحیت دین اور حفاظت مال کا ملکہ نظر آجائے تو ان کے وہ اموال جو تمہارے پاس ہیں وہ ان کو دے دو اور حرام طریقہ پر گناہوں اور اس خیال سے کہ یہ بالغ ہوجائیں گے پھر ان کے اموال ان کو دینے پڑیں گے جلدی جلدی اڑا کر ضائع مت کرو۔ اور جو یتیم کے مال سے مستغنی (بےنیاز) ہو تو وہ اس سے بالکل ہی بچتا رہے اور اس کے مال میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ کرے اور جو محتاج ہو تو وہ کفایت کے ساتھ اس اندازہ سے اپنی ضروریات پوری کرے کہ یتیم کے مال کی ضرورت ہی نہ پیش آئے۔ اور یہ بھی معنی بیان کیے گئے ہیں کہ جس قدریتیم کے مال کی حفاظت میں محنت کرے اس اندازے یا مقدار کے مطابق اس سے کھائے یا یہ کہ بطور قرض اس میں سے لے۔ اور یتیموں کے عاقل وبالغ ہونے کے بعد جب ان کے مال انہیں واپس دو تو ان پر گواہ بھی کرلیا کرو، یاد رہے کہ یہ آیت ثابت رفاعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (وَابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰیٓ اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ج ) (فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْہُمْ رُشْدًا) تم محسوس کرو کہ اب یہ باشعور ہوگئے ہیں ‘ سمجھ دار ہوگئے ہیں۔ ( فَادْفَعُوْآ اِلَیْہِمْ اَمْوَالَہُمْ ج ) (وَلاَ تَاْکُلُوْہَآ اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا ط) ایسا نہ ہو کہ تم یتیموں کا مال ضرورت سے زیادہ اور جلد بازی میں خرچ کرنے لگو ‘ اس خیال سے کہ بچے جوان ہوجائیں گے تو یہ مال ان کے حوالے کرنا ہے ‘ لہٰذا اس سے پہلے پہلے ہم اس میں سے جتنا ہڑپ کرسکیں کر جائیں۔ (وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ ج) ۔ یتیم کا ولی اگر خود غنی ہے ‘ اللہ نے اس کو دے رکھا ہے ‘ اس کے پاس کشائش ہے تو اسے یتیم کے مال میں سے کچھ بھی لینے کا حق نہیں ہے۔ پھر اسے یتیم کے مال سے بچتے رہنا چاہیے۔ (وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بالْمَعْرُوْفِ ط) ۔ اگر کوئی خود تنگ دست ہے ‘ محتاج ہے اور وہ یتیم کی نگہداشت بھی کر رہا ہے ‘ اس کا کچھ وقت بھی اس پر صرف ہو رہا ہے تو معروف طریقے سے اگر وہ یتیم کے مال میں سے کچھ کھا بھی لے تو کچھ حرج نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیم بڑی فطری ہے ‘ اس میں غیر فطری بندشیں نہیں ہیں جن پر عمل کرنا ناممکن ہوجائے۔ (فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْہِمْ اَمْوَالَہُمْ فَاَشْہِدُوْا عَلَیْہِمْ ط) ۔ ان کا مال و متاع گواہوں کی موجودگی میں ان کے حوالے کیا جائے کہ ان کی یہ یہ چیزیں آج تک میری تحویل میں تھیں ‘ اب میں نے ان کے حوالے کردیں۔ ( وَکَفٰی باللّٰہِ حَسِیْبًا ) ۔ یہ دنیا کا معاملہ ہے کہ اس کے لیے لکھت پڑھت اور شہادت ہے۔ باقی اصل حساب تو تمہیں اللہ کے ہاں جا کردینا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9. When such people approach their majority their mental development should be watched so as to determine to what extent they have become capable of managing their own affairs. 10. Two conditions have been laid down for handing over the charge of their properties to such people. The first of these is the attainment of puberty, and the second is that of mental maturity - i.e. the capacity to manage their affairs in a sound and appropriate manner. There is full agreement among Muslim jurists with regard to the first condition. As for the second condition, Abu Hanifah is of the opinion that if an orphan does not attain mental maturity after he has attained puberty, the guardian of the orphan should wait for a maximum of seven years after which he should hand over the property to its owner regardless of whether he has attained maturity or not. According to Abu Yusuf, Muhammad b. al-Hasan and Shafi'i, maturity is an indispensable pre-condition for the handing over of property. If one were to apply the doctrine of the latter jurists it would probably be more appropriate to refer particular cases to a judge under Islamic law. If the judge is convinced that the person concerned lacks maturity he should make adequate arrangements for the supervision of that person's financial affairs. (For a more complete study of the subject see Jassas, vol. 2, pp. 59 ff.; Ibn Rushd, Biddyat al-Mujtahid, 2 vols., Cairo, Al-Maktabahal-Tijariyahal-Kubra, n.d., vol. 2, pp. 275ff.-Ed.) 11. The guardian is entitled to remuneration for his service. The amount of this remuneration should be such as is deemed to be fair by neutral and reasonable people. Moreover, the guardian is instructed that he should take a fixed and known amount by way of remuneration, that he should take it openly rather than secretly, and that he should keep an account of it.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :9 یعنی جب وہ سن بلوغ کے قریب پہنچ رہے ہوں تو دیکھتے رہو کہ ان کا عقلی نشوونما کیسا ہے اور ان میں اپنے معاملات کو خود اپنی ذمہ داری پر چلانے کی صلاحیت کس حد تک پیدا ہو رہی ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :10 مال ان کے حوالہ کرنے کے لیے دو شرطیں عائد کی گئی ہیں: ایک بلوغ ، دوسرے رشد ، یعنی مال کے صحیح استعمال کی اہلیت ۔ پہلی شرط کے متعلق تو فقہائے امت میں اتفاق ہے ۔ دوسری شرط کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یہ ہے کہ اگر سن بلوغ کو پہنچنے پر یتیم میں رشد نہ پایا جائے تو ولی یتیم کو زیادہ سے زیادہ سات سال اور انتظام کرنا چاہیے ۔ پھر خواہ رشد پایا جائے یا نہ پایا جائے ، اس کا مال اس کے حوالہ کر دینا چاہیے ۔ اور امام ابو یوسف ، امام محمد اور امام شافعی رحمہم اللہ کے رائے یہ ہے کہ مال حوالہ کیے جانے کے لیے بہر حال رشد کا پایا جانا ناگزیر ہے ۔ غالباً موخر الذکر حضرات کی رائے کے مطابق یہ بات زیادہ قرین صواب ہو گی کہ اس معاملہ میں قاضی شرع سے رجوع کیا جائے اور اگر قاضی پر ثابت ہو جائے کہ اس میں رشد نہیں پایا جاتا تو وہ اس کے معاملات کی نگرانی کے لیے خود کوئی مناسب انتظام کر دے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :11 یعنی اپنا حق الخدمت اس حد تک لے کہ ہر غیر جانبدار معقول آدمی اس کو مناسب تسلیم کرے ۔ نیز یہ کہ جو کچھ بھی حق الخدمت وہ لے چوری چھپے نہ لے بلکہ علانیہ متعین کر کے لے اور اس کا حساب رکھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: یتیموں کے سرپرست کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے بہت سی خدمات انجام دینی پڑتی ہیں، عام حالات میں جب سرپرست خود کھاتا پیتا شخص ہو اس کے لئے ان خدمات کا کوئی معاوضہ لینا درست نہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک باپ اپنی اولاد کی دیکھ بھال کرتا ہے ؛ لیکن اگر وہ خود تنگدست ہے اور یتیم کی ملکیت میں اچھا خاصا مال ہے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنا ضروری خرچ بھی یتیم کے مال سے لے لے، مگر پوری احتیاط سے اتنا ہی لے جتنا عرف اور رواج کے مطابق ضروری ہے اس سے زیادہ لینا جائز نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

تفسیر خازن وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص رفاعہ کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں انتقال ہوا رفاعہ کے بھائی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آن کر مسئلہ پوچھا کہ رفاعہ کا بیٹا ثابت میری پرورش میں ہے اس کا مال جو اس کا باپ چھوڑ مرا ہے کب اس کے حوالہ کیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ یتیم لڑکا لڑکی جب بالغ ہوجائیں اور ان کی عقل بھی ترکہ کا مال سنبھالنے کے قابل نظر آئے اس وقت ان کا مال ان کے حوالہ کردیا جائے اور غنی پرورش کرنے والا قرابت دار یتیم کے مال میں سے کچھ خرچ نہ کرے البتہ محتاج پرورش کرنے والا قرابت دار ضرور اپنا ذاتی خرچ یتیم کے مال میں سے چلا لیا کرے اور یتیم کو جب مال حوالہ کیا جائے تو دو گواہوں کے رو ربرو حوالہ کیا جایا کرے تاکہ آئندہ کو جھگڑا نہ پڑے بعض علماء نے لڑکا لڑکی کی عقل اور ہوشیاری آزمانے کی یہ صورت بیان کی ہے کہ پہلے ان کو تھوڑا سا مال دے کر ان کا کام کاج دیکھا جائے اور اس سے ان کی ہوشیاری کا اندازہ کیا جائے۔ بالغ ہونے کی علامت زیر ناف کے بال اور احتلام ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:6) ابتلوا۔ تم آزماأ۔ تم امتحان لو۔ ابتلاء (افتعال) سے امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ یعنی تم ان کی آزمائش مختلف طریقوں سے کرتے رہو کہ آیا شعور محکم کو پہنچ گئے ہیں اور اپنے نفع و نقصان کو صحیح طور پر رکھ سکتے ہیں۔ حتی اذا بلغوا النکاح۔ نکاح مصدر ہے اس کے معنی نکاح کرنا یا جماع کرنا دونوں ہیں مطلب اس کا یہ ہے کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ جاویں اور سن تمیز کو پالیں۔ رشدا۔ رشد کے معنی ہیں ہدایت۔ صلاحیت۔ راہ یابی۔ بھلائی۔ راستی۔ حسن تدبیر (رشد یرشد کا مصدر ہے) یہاں مراد صلاحیت ہے۔ ادفعوا۔ تم دیدو۔ تم حوالہ کردو۔ دفع سے ۔ امر کا صیغہ مذکر حاضر۔ ولا تاکلوھا۔ یعنی تم خود اس مال سے خرچ مت کرو۔ اسرافا۔ فضول مدوں میں ۔ بدارا۔ جلدی کرکے بروزن فعال۔ مصدر۔ یعنی شتابی اور سرعت سے کام لے کر ان کا مال بےدریغ خرچ نہ کر ڈالو کہ بڑے ہوگئے تو اپنا مال واپس لے لیں گے۔ فلیستعفف۔ امر ۔ واحد مذکر غائب۔ استعفاف (استفعال) مصدر۔ وہ بچتا رہے۔ یعنی یتیموں کے مال خود خرچ کرنے سے پرہیز کرے۔ بالمعروف۔ مناسب مقدار میں۔ حسیبا۔ حساب لینے والا۔ حساب کرنے والا۔ بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی یتیموں کا امتحان اور ان کی تربیت کرتے رہو جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ پہلے تھوڑا سامال دے کر ان کو کسی کام پر لگا کے دیکھو کہ آیا یہ اپنے مال کو بڑھاتے یا نہیں پھر جب وہ بالغ ہوجائیں اور ان میں رشد ہو تو با توقف مال ان کے حوالے کردو۔ رشد سے مراد عقلی اور ادینی صلاحیت ہے پس بالغ ہونے کے علاوہ مال کی سپرد داری کے لیے رشد بھی شرط ہے۔ اگر کسی شخص میں رشد نہیں ہے تو خواہ وہ بوڑھا ہی کیوں نہ ہوجائے متولی یا وصی و چاہیے کہ وہ مال اس کے حوالے نہ کرے (قرطبی۔ ابن کثیر)5 یعنی جس سے کم از کم ضرورت پوری ہوسکتے6 یتیم کے متولی یا وصی کو حکم ہے کہ گواہوں کے روبرو مال واپس کرے تاکہ کل کو اس پر کوئی الزام نہ آئے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی بالغ ہوجاویں کیونکہ نکاح کی پوری قابلیت بلوغ ہوتی ہے۔ 7۔ یعنی حفاظت و رعایت صالح مال کا سلیقہ اور انتظام ان میں پاو اور تمیز نہ ہونے کا سفہ کہتے ہیں جو مانع تفویض مال ہے خواہ سلیقہ نہ ہو خواہ سلیقہ ہو مگر اس سلیقہ سے کام نہ لینا ہو یعنی انتظام نہ کرتا ہو بلکہ مال کو اڑاتا ہو دونوں صورتوں میں مال بھی نہ دیا جائے گا۔8۔ یتیم کے حاجت مندوں کارکن کو بقدر حوائج ضرورت یہ صرف کرنا بوجہ اپنے حق الخدمت کے جائز ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” وابتلوا الیتمی حتی اذا بلغوا النکاح فان انستم منھم رشدا فادفعوا الیھم اموالھم ولا تاکلوھا اسرافا وبدارا ان یکبروا ومن کان غنیا فلیستعفف ومن کان فقیرا فلیاکل بالمعروف فاذا دفعتم الیھم اموالھم فاشھدوا علیھم وکفی باللہ حسیبا “۔ (٦) اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے یتیموں کو ان کی دولت حوالے کرنے کے سلسلے میں شریعت نے کس قدر سخت کاروائی کی ہے ۔ جب وہ بالغ ہوجائیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت بلوغ اور سیانے ہونے کے بعد جلد از جلد ان کی دولت انکے حوالے کرنے کیلئے کاروائی کرنے پر زور دیتی ہے ۔ یعنی جونہی وہ بالغ ہوں ‘ ان کی دولت ان کے حوالے کی جائے ۔ اور یہ دولت پوری کی پوری صحیح سالم ان کے حوالے کی جائے ۔ اور جب تک ولی کی حفاظت میں ہو اس کی حفاظت ایمانداری کے ساتھ کی جائے اور اسے بےدردی کے ساتھ خرچ نہ کیا جائے ۔ اس ڈر سے کہ یتیم بالغ ہونے والے ہیں اور یہ دولت انہیں لوٹانی ہوگی ۔ نیز شریعت کی پالیسی یہ ہے کہ اگر محافظ مالدار ہو تو وہ اس نگرانی اور حفاظت کا کوئی معاوضہ نہ لے اور اگر وہ نادار ہو تو اسے چاہئے کہ معروف طریقے کے مطابق کم سے کم ضرورت کی حد تک کھائے ۔ اور شریعت یہ بھی لازمی قرار دیتی ہے کہ جب کسی یتیم کو اس کا مال حوالے کیا جا رہا ہو تو اس پر شہادت ضرور قائم کی جائے ۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ کی شہادت تو ہر وقوعہ پر قائم ہے اور اللہ کے سامنے جو حساب ہوگا وہ آخری حساب ہوگا ۔ (آیت) ” وکفی باللہ حسیبا “۔ (٦) ”’ اور حساب لینے کیلئے اللہ کافی ہے ۔ “ یہ تمام تشدید وتاکید اور تمام تفصیلات وتشریحات اور یہ تمام تنبیہات وتذکیرات اس حقیقت کی مظہر ہیں کہ جس معاشرے میں اسلامی نظام نافذ ہوا ۔ اس میں ہر طرف ییتموں کی حق تلفی ہو رہی تھی ۔ یتیموں کے علاوہ دوسرے کمزوروں کے مال بھی کھائے جاتے تھے ۔ اس لئے کہ اس رسم و رواج کو ختم کرنے کیلئے اس قدر تاکید وتشدید کی ضرورت پیش آئی ۔ اور جزوی تفصیلات کو قرآن کریم کے اندر قلم بند کرنے کی ضرورت لاحق ہوئی ۔ تاکہ آئندہ لوگ قانونی حیلوں اور بہانوں سے کام لیکر قانون شکنی نہ کرسکیں اور قانون سے بچنے کی کوئی راہ کھلی نہ رہے ۔ اس طرح نظام حیات مسلمانوں کی فکری اور عملی دنیا سے جاہلیت کے ایک ایک نشان مٹاتا رہا اور اس کی جگہ اسلامی جھنڈے گاڑتا رہا ۔ جاہلیت کے آثار مٹائے جاتے رہے اور معاشرے کے چہرے کو ان بدنما داغوں سے صاف کیا جاتا رہا ۔ اور ان کی جگہ اسلام کے خوبصورت خدوخال ظاہر ہوتے رہے ۔ اور یوں ایک جدید معاشرہ ڈھلتا رہا ۔ جدید معاشرے کی رسوم اور روایات قائم ہوتی چلی گئیں ۔ اس کے اصول و ضوابط اور قوانین و احکام نازل ہوتے رہے ۔ اور یہ سب کچھ خدا خوفی کی فضا میں اور اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں ہوتا رہا ۔ اور اسلامی قانون اور اسلامی احکام کی آخری گارنٹی ذات باری کے خوف اور رضا مندی کو قرار دیا جاتا رہا حقیقت یہ ہے کہ خدا خوفی ‘ خدا کی رضا مندی اور اللہ کی نگرانی کے تصور کے سوا ‘ اس دنیا میں کسی بھی قانونی نظام کی استواری اور چلت کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔ اصل مدار اس پر ہے کہ (آیت) ” وکفی باللہ حسبیا “۔ ” اور حساب لینے کیلئے اللہ کافی ہے ۔ “ جاہلیت کی رسم یہ تھی کہ وہ لڑکیوں اور بچوں کو وراثت نہ دیتے تھے ۔ عام رواج یہی تھا ۔ البتہ بعض جگہوں پر اس کے خلاف بھی تھا مگر شاذ ۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ تھی کہ یہ لوگ گھوڑے پر سوار نہیں ہوتے تھے ۔ دشمن کے مقابلے میں شریک نہ ہوتے تھے ۔ گویا اصل مدار جنگ پر تھا ۔ اسلامی نظام قانون نے میراث کو قرابت کے اصول پر استوار کیا ۔ جو تقسیم میراث کا حقیقی سبب تھا ۔ ہاں جس طرح قرابت کے مختلف درجے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح اقرباء کے حصص اور فرائض میں بھی فرق ہے ۔ جیسا کہ بعد میں تفصیلات آرہی ہیں ۔ نظام میراث کو اسلام نے نظام قرابت پر اس لئے استوار کیا کہ اسلام اجتماعی تکافل کے نظام کی اکائی ایک خاندان کو قرار دیتا ہے ۔ وہ سب سے پہلے ایک خاندان کے افراد کے درمیان باہم کفالت کا نظام قائم کرتا ہے ۔ اور یہ خاندانی نظام بھی اجتماعی کفالتی نظام کے فریم ورک کے اندر ہوتا ہے ۔ نیز اس اصول کے تحت کہ حقوق ذمہ داریوں کی نسبت سے متعین ہوتے ہیں تو اس طرح قریبی رشتہ داروں پر خاندان کے کسی غریب فرد کی بابت اس کی قرابت کے اعتبار سے ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ مثلا قتل میں دیت کی ادائیگی بھی قرابت اور رشتہ داری کے اصول پر ہوتی ہے ۔ نیز زخموں کی مرہم پٹی کی ادائیگی بھی قرابت کے اصول پر ہوا کرتی ہے ۔ اس لئے پھر انصاف کا تقاضا ہے کہ اگر کوئی رشتہ دار فوت ہوجائے اور اس کا ترکہ رہ جائے تو اسے اصول قرابت پر تقسیم کیا جائے ، کیونکہ اسلامی نظام زندگی ایک مکمل اور باہم متناسق نظام ہے ۔ اور اس کی یہ ہمہ گیری اور ہم آہنگی اس وقت اچھی طرح ظاہر ہوتی ہے جب اس کے اندر حقوق وفرائض متعین ہوتے ہیں ۔ غرض میراث کی تقسیم میں شریعت نے عموما ان قریبی ذمہ داریون کو ملحوظ رکھا ہے ۔ بعض لوگ اس قانون کے اصول تقسیم پر نکتہ جہنیاں کرتے ہیں ‘ یہ حرکت وہ اس لئے کرتے ہیں کہ درحقیقت ذات باری کی شان میں گستاخی کیلئے تیار ہیں ۔ حالانکہ خود ان کا حال یہ ہے کہ وہ کود ات انسانی سے بھی اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ اور نہ وہ انسانی زندگی کے مختلف احوال کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے نظام میراث کی اساس جن اصولوں پر رکھی گئی ہے اگر یہ لوگ ان کا اچھی طرح ادراک کرلیں تو یہ ہر گز یہ جسارت نہ کریں۔ اسلامی نظام میراث کا اصل الاصول سوشل سیکورٹی ہے ۔ اس کفالتی نظام کو شریعت نے ان اصولوں پر استوار کیا ہے ۔ جو نہایت ہی مستحکم ہیں اور ان اصولوں کو وضع کرتے وقت اسلام نے نفس انسانی کے فطری رجحانات کو بھی مد نظر رکھا ہے ۔ اور یہ وہ رجحانات ہیں جن کا خالق اللہ ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے فطرت انسانی کے اندر ان رجحانات کو عبث طور پر پیدا نہیں کیا ہے ۔ یہ فطری میلانات انسانی زندگی کے ارتقاء وبقا میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ایک خاندان کے اندر قریبی یا دور کے رشتوں کے جو رابطے ہوتے ہیں ‘ وہ چونکہ فطری روابط ہوتے ہیں اور نہایت ہی حقیقی روابط ہوتے ہیں اور وہ ایسے رابطے ہوتے ہیں ‘ جن کی تخلیق کسی ایک نسل یا سوسائٹی نے نہیں کی ہے ۔ اور نہ ہی ان رابطوں کی تخلیق میں پوری انسانی نسلوں کے اتفاق کا کوئی دخل ہے ۔ اس لئے ان رابطوں کی حقیقت پسندی ‘ ان کی گہرائی انسانی زندگی کے بچاو اس کی ترقی اور اس کی سربلندی میں ان رابطوں کی اہمیت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ اور اگر کوئی ان حقیقی رابطوں کی اہمیت کا انکار کرتا ہے تو ان کلیہ انکار نظر انداز کرنے کا مستحق ہے ۔ اس لئے اسلام نے اپنے کفالتی نظام کی اکائی ایک خاندان کے کفالتی نظام کو قرار دیا ہے ۔ اور اس کفالتی یونٹ کو پھر اپنے اجتماعی اور ملکی کفالتی نظام کا سنگ میل قرار دیا ہے ۔ اسلام نے نظام میراث کو اس خاندانی کفالتی نظام کا ایک مظہر اور علامت قرار دیا ہے ۔ جبکہ اقتصادی اور اجتماعی نظام معیشت وسیاست میں اس کے اور مفید اثرات بھی اپنی جگہ مسلم ہیں ۔ اگر کسی شخص کے تکافل میں یہ پہلا قدم کامیاب نہیں ہوتا اور خاندان کسی شخص کی کفالت میں ناکام ہوجاتے ہے تو پھر مقامی مسلم سوسائٹی سامنے آتی ہے اور وہ اس شخص کی کفالت کرتی ہے ۔ اور اگر محلہ اور مقامی سوسائٹی بھی ناکام رہیں تو اس کے بعد اسلامی حکومت ان تمام لوگوں کی کفالت کی ذمہ دار ہے جو خود اپنا انتظام نہیں کرسکتے ۔ اس انتظام کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ تمام نادار لوگوں کا انتظام کرنا صرف حکومت کے نظم ونسق کے کاندھوں پر یکدم نہیں پڑتا ۔ یہ انتظام اس لئے کیا گیا ہے کہ ایک خاندان اور ایک محدود سوسائٹی کے اندر باہم تکافل کے انتظام کے نتیجے میں افراد معاشرہ کے دلوں میں باہم دگر محبت ‘ لطف وکرم اور رحم اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور ان جذبات کی وجہ سے لوگوں کے درمیان باہم تعاون اور ہمدردی کے فطری فضائل اخلاق پروان چڑھتے ہیں اور یہ بالکل حقیقی ہوتے ہیں ان میں کوئی بناوٹ نہیں ہوتی ۔ اس خاندانی کفالت کے علاوہ بھی رشتہ داروں کی امداد اور ہمدردی کے جذبات رکھنا ایک ایسا انسانی فعل ہے جسے ایک بدفطرت اور گٹھیا درجے کا خبیث شخص ہی نظر انداز کرسکتا ہے ۔ ایک خاندان کے اندر کفالت کرنا تو ایک ایسا فعل ہے جس کے انسانی فطرت اور مزاج پر بہت ہی مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ جو عین فطرت کے مطابق ہوتے ہیں ۔ ایک شخص کا یہ شعور کہ اس کی شخصی جدوجہد اس کے تمام رشتہ داروں کیلئے مفید عمل ہے ۔ خصوصا اس کی اپنی اولاد کیلئے تو اس شعور کی وجہ سے اس کی قوت عمل دو چند ہوجاتی ہے اسی طرح ایک شخص جدوجہد بالواسطہ پورے معاشرے کیلئے مفید ثابت ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ اسلامی نظام حیات میں فرد اور جماعت کے درمیان فاصلے نہیں رکھے جاتے ۔ (١) (تفصیلات کیلئے دیکھئے فصل ” فرد اور معاشرہ “ کتاب الانسان بین المادیتہ والسلام۔ مصنفہ محمد قطب اور مصنف کی کتاب العدالتہ الاجتماعیہ فی اسلام ‘ فصل اجتماعی تکافل اور مالی پالیسی اور میری کتاب ” دراسات اسلامیہ ۔ “ اس لئے کہ فرد کی تمام ملکیت بھی دراصل پورے معاشرے کی ملکیت ہوتی ہے ۔ اگر معاشرے کو اس کی ضرورت پڑے ۔ اس آخری اصول کی روشنی میں اسلامی نظام وراثت پر کئے جانے والے وہ تمام اعتراضات زائل ہوجاتے ہیں ‘ جن میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ نظام ان لوگوں کو بھی وارثت منتقل کردیتا ہے جنہوں نے اس کیلئے کوئی جدوجہد نہیں کی ہوتی ۔ اس لئے کہ یہ وارث درحقیقت موروث منہ کا تسلسل ہوتا ہے اور اگر یہی موروث منہ محتاج ہوتا اور یہ وارث مالدار ہوتا تو اپنے اسلامی اور معاشرتی فرائض کے تحت وہ اس کی کفالت کرتا ، اور ان امور کے بعد یہ قاعدہ اپنی جگہ مسلم ہے کہ یہ دولت جس کے پاس بھی ہو اور جس طرح بھی تقسیم ہو یہ پورے معاشرے کی اجتماعی دولت ہے اور اسے اجتماعی ضروریات کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ (٢) (تفصیلات کیلئے دیکھئے فصل ” فرد اور معاشرہ “ کتاب الانسان بین المادیتہ والسلام۔ مصنفہ محمد قطب اور مصنف کی کتاب العدالتہ الاجتماعیہ فی اسلام ‘ فصل اجتماعی تکافل اور مالی پالیسی اور میری کتاب ” دراسات اسلامیہ ۔ “ ان امور کے علاوہ وارث اور مورث کے درمیان جو رابطہ ہوتا ہے خصوصا مورث اور اس کی اولاد کے درمیان وہ صرف مالی رابطہ نہیں ہوتا ۔ اگر ہم وارث اور مورث کے درمیان مالی مفادات کو از روئے قانون کاٹ بھی دیں تو بھی ان کے درمیان جو خونی رشتے موجود ہیں اور جو دوسرے رشتے موجود ہیں وہ کاٹنے سے نہیں کٹتے ۔ آباو اجداد اور دوسرے رشتہ دار اپنے بچوں ‘ پوتوں اور رشتہ داروں کو صرف مالی وراثت ہی منتقل نہیں کرتے ‘ بلکہ وہ اپنی اچھی صلاحیتیں اچھی عادات ‘ بری عادات اور کمزوریاں بھی منتقل کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنے بچوں اور پوتوں کی طرف بعض موروثی بیماریاں بھی منتقل کرتے ہیں اور اگر وہ صحت مند ہیں تو اپنی صحت مندی بھی وارثت میں دیتے ہیں ۔ اسی طرح ایک شخص کے حسن اخلاق وبداخلاقی اس کی اچھائیاں اور برائیاں اور زکاوت اور غبی ہونا بھی وراثتا ‘ منتقل ہوتا ہے ۔ اور یہ تمام صفات وارثوں کی طرف منتقل ہو کر ہمیشہ کیلئے ان کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔ اور ان کے نتائج ان وارثوں کو بھگتنے پڑتے ہیں ۔ اس لئے انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ مورث کا مال اگر کوئی ہے تو وہ بھی وارثوں کی طرف منتقل ہو ۔ اس لئے کہ اگر ہم کسی شخص کا مال اس کے وارثوں کو نہیں دیتے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم وارثوں کو موروثی بیماریوں ‘ اخلاقی کمزوریوں ‘ بدعملی اور ذہنی اور جسمانی کمزوریوں سے بھی نجات دلائیں اور یہ اس وقت بھی ممکن نہیں جب ہم اپنے پورے وسائل اس کام میں لگا دیں ۔ انسانی زندگی کے ان فطری اور واقعاتی حقائق کی وجہ سے اور ان تمام دوسری حکمتوں کی وجہ سے جو شریعت الہیہ میں پوشیدہ ہوتی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے میراث کی تقسیم کا یہ موجودہ نظام وضع فرمایا ہے ۔ (٣) (تفصیلات کیلئے دیکھئے فصل ” فرد اور معاشرہ “ کتاب الانسان بین المادیتہ والسلام۔ مصنفہ محمد قطب اور مصنف کی کتاب العدالتہ الاجتماعیہ فی اسلام ‘ فصل اجتماعی تکافل اور مالی پالیسی اور میری کتاب ” دراسات اسلامیہ ۔ “ فرماتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یتیم بچوں کے مالوں کے بارے میں چند ہدایات ان دونوں آیتوں میں متعدد احکام ذکر فرمائے ہیں اول یہ فرمایا کہ بیوقوفوں کو اپنے مال نہ دے دو ، بیوقوفوں سے یتیم مراد ہیں، اول یہ حکم فرمایا تھا کہ یتیموں کو ان کے مال دے دو جب وہ بالغ ہوجائیں اور یہاں یہ فرمایا کہ باوجود بالغ ہوجانے کے ان کا مال ان کو نہ دو ، اگر ان کے اندر ہوش مندی اور سمجھداری نہ پائی جائے بالغ ہو کر بھی ان میں بچپن کی بیوقوفی موجود ہو جس سے اندیشہ ہو کہ مال کو برباد کردیں گے تو ان کے مال ان کے سپرد نہ کرو بلکہ اپنی تحویل میں حفاظت سے رکھو اور ان کے کھانے پینے پہننے کے اخراجات میں خرچ کرتے رہو اور جب وہ دلگیر ہوں، برا مانیں کہ ہمارا مال ہمارے قبضہ میں نہیں آیا تو ان کو سمجھا دو کہ تمہاری مصلحت کے لیے میں نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے، ذرا اور بڑے ہوجاؤ تمہارا مال ہے تم ہی کو ملے گا وغیرہ وغیرہ۔ یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ اَمْوَالَھُمْ نہیں فرمایا بلکہ اَمْوَالَکُمُ فرمایا اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ یتیموں کے مالوں کو خورد برد کرنے اور اپنے اوپر خرچ کرنے کے بارے میں تو ان کے مال کو اپنا مال نہ سمجھو لیکن حفاظت سے رکھنے کے بارے میں ایسا سمجھو جیسے تمہارا ہی مال ہے ان کے مال کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرو، اور اس طرف بھی اشارہ نکلتا ہے کہ تم میں سے جو کوئی شخص کسی یتیم کو مال ہبہ کرے تو اس مال کو بھی حفاظت سے رکھے اور ان کو اس وقت تک حوالہ نہ کرے جب تک کہ ان میں بالغ ہونے کے بعد ہوشمندی اور سمجھداری نہ دیکھ لے۔ نیز ایک بات اور بھی قابل ذکر ہے وہ یہ کہ مال کو قیامًا سے تعبیر فرمایا کہ اس میں یہ بتایا کہ مال کے ذریعہ انسان کی زندگی اچھی طرح سے گزرتی ہے اور مال انسانی زندگی کے صحیح طریقے پر قائم رہنے اور انسانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا ذریعہ ہے، اللہ کسی کو حلال مال دے تو اس کی قدر کرے اپنی جان پر اہل و عیال پر خرچ کرے مال کو ضائع نہ کرے فضول خرچی میں نہ اڑا دے۔ مال ضائع کرنا ہنر اور کمال نہیں بلکہ حرام ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ اللہ نے تم پر حرام فرمایا ہے ماؤں کو تکلیف دینا اور بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا (جیسے اہل عرب کرتے تھے) اور جس کا حق چاہیے اس کا حق روک دینا اور جس پر اپنا حق نہ ہو اس سے مانگنا اور اللہ نے اس کو پسند نہیں فرمایا کہ قیل وقال کی جائے، اور زیادہ سوال کیے جائیں اور مال ضائع کیا جائے۔ (رواہ البخاری صفحہ ٣٢٤: ج ١) دوسرا حکم یہ دیا کہ آزما لو جب وہ بالغ ہوجائیں تو دیکھو ان کے اندر سمجھداری اور ہوشمندی ہے یا نہیں، اگر ان کا مال ان کے سپرد کردیا جائے تو حفاظت سے رکھتے ہوئے سلیقہ سے اچھے چلن کے ساتھ زندگی گزارنے کا ذریعہ بنا سکیں گے یا نہیں۔ بےجا خرچ کر کے مال کو برباد تو نہ کردیں گے، جب تم یہ محسوس کرلو کہ مال ضائع نہیں کریں گے خوبی سے خرچ کریں گے تو ان کے مال ان کو دے دو اس صورت میں بالغ ہوجانے کے بعد ان کے مال ان کے سپرد کرنے میں دیر نہ لگاؤ۔ تیسرا حکم یہ ارشاد فرمایا کہ یتیموں کے مالوں کو فضول خرچی کر کے نہ کھا جاؤ اور اس ڈر سے نہ اڑا دو کہ یہ بڑا ہوجائے گا تو اپنا مال مانگ لے گا اور ضابطہ کے مطابق اس کو دینا پڑے گا یہ سوچ کر اس کے بالغ ہونے سے پہلے ہی اپنی ذات یا اپنی اولاد پر یا احباب و اصحاب پر خرچ نہ کر ڈالو۔ چوتھا حکم یہ بیان فرمایا کہ جو اولیاء یتیموں کے مالوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں ان میں جو لوگ صاحب حیثیت ہیں، وہ ان یتیموں کے مالوں میں سے نہ کھائیں اور جو لوگ محتاج و ضرورت مند ہوں وہ مناسب طریقے پر ان کے مال میں سے کھا سکتے ہیں، اس کے بارے میں علامہ آلوسی نے روح المعانی صفحہ ٢٠٨: ج ٤ میں تین قول لکھے ہیں اول یہ کہ پہلے ضرورت مند ولی کو یتیم کے مال سے کھانے کی اجازت تھی بعد میں آیت کریمہ (اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتَامٰی) (الآیۃ) (الآیۃ) نے اس کو منسوخ کردیا۔ یہ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یتیم کا ولی جو تنگدست ہو بطور قرض بقدر ضرورت اس کے مال سے کھا سکتا ہے جب مال ہاتھ میں آجائے تو ادائیگی کر دے۔ یہ حضرت سعید بن جبیر اور حضرت مجاہد اور حضرت ابو العالیہ اور حضرت عبیدہ سلمانی اور حضرت باقر رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ یتیم کا ولی جو ضرورت مند ہو اس کے مال کی نگرانی اور متعلقہ امور ضرور یہ کی مشغولیت کے عوض بطور اجرت اس میں سے کھا سکتا ہے، مگر یہ کھانا بالمعروف یعنی مناسب طریقہ پر ہو مثلاً ایک یتیم ہے اس کے باپ نے جائیداد چھوڑی ہے بہت دکانیں ہیں۔ مکان ہیں، کھیتیاں ہیں، باغات ہیں ان کی دیکھ بھال کرنے، کرائے وصول کرنے اور محکموں میں جانے، مزدوروں کسانوں کو تلاش کرنے میں کافی وقت صرف ہوتا ہے اس دوڑ دھوپ محنت و کوشش کے عوض وہ شخص کھا سکتا ہے جو ان کاموں میں لگا ہوا ہے اور یہ کھانا بھی بالمعروف یعنی مناسب طریقے پر ہو، اس میں یتیم کی ہمدردی کا پورا پورا لحاظ رہے مال اڑانے کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے، اس سے زیادہ نہ لے جتنا اور کسی شخص کو اس کی اجرت دینا گوارا ہوتا اور یہ بھی دیکھ لیں کہ ہم اپنے کام کے لیے کرتے تو کتنا خرچ ہوتا۔ ایسا نہ کریں کہ یتیم کے مال کی نگہداشت کرنے کے سلسلہ میں سفر میں جائیں تو بڑے بڑے ہوٹلوں میں ٹھہر کر بےتحاشا مال خرچ کردیں اور اپنی ضرورت سے اسی شہر میں جائیں تو معمولی سے کرائے کی جگہ لیں اور معمولی سا کھانا کھا کر گزار لیں۔ اصولی بات یہ ہے جو اپنے لیے پسند کریں وہی یتیم کے لیے پسند کریں۔ پانچواں حکم یہ ہے کہ جب یتیموں کو ان کے مال سپرد کرنے لگو تو گواہ بنا لیا کرو اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ بعد میں وہ یہ نہ کہہ سکیں گے ہم نے مال نہیں لیا، اور جتنا مال دیا ہوگا اس کی مقدار کا علم بھی رہے گا۔ اور کبھی کوئی بات مخالفت اور اعتراض کی پیش آگئی تو گواہوں کے ذریعہ فیصلہ ہو سکے گا۔ آخر میں فرمایا (وَ کَفٰی باللّٰہِ حَسِیْبًا) (اللہ تعالیٰ حساب لینے کے لیے کافی ہے) اس لفظ میں بہت جامعیت ہے جو بھی ولی یا وصی یتیم کے مال کی نگرانی کرے گا اور اس سلسلہ میں غلط طریقہ اختیار کرے گا مثلاً حساب غلط لکھے گا۔ کسی حاکم کو رشوت دے کر غلط فیصلہ کرائے گا، یا یتیم بالغ ہو کر مال لینے کے بعد وصول کرنے سے انکاری ہوجائے گا یا جتنا مال ملا ہے اس کی مقدار کم ظاہر کرے گا (غرض جس جانب سے بھی غبن یا خیانت ہو) تو وہ دنیا کی ظاہری کاغذی کاروائی کے ذریعہ مطمئن نہ ہوجائے اس کے پیش نظر رہے کہ یوم آخرت بھی سامنے ہے اللہ جل شانہٗ حساب لینے والا ہے وہ سب کچھ جانتا ہے وہاں کے حساب میں صحیح اترنا چاہیے۔ فائدہ : آیت بالا میں جو یہ فرمایا (حَتّآی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ) کہ یتیم بچے جب بالغ ہوجائیں تو سمجھداری محسوس ہونے پر ان کے مال ان کے حوالے کر دو اس میں بلوغ کا ذکر ہے۔ لڑکا بالغ جب ہوتا ہے جب احتلام ہوجائے یا انزال ہوجائے اور لڑکی اس وقت بالغ ہوتی ہے جب اسے حیض آجائے یا احتلام ہوجائے یا حاملہ ہوجائے اگر ان چیزوں میں سے کچھ نہ ہو تو لڑکا یا لڑکی جب بھی ہجری سال کے اعتبار سے پندرہ سال کا ہوجائے شرعاً بالغ سمجھا جائے گا۔ قول مفتی بہ یہی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور تم یتیموں کی آزمائش کرتے رہو اور ان کی عقل اور ان کے شعور کا جائزہ لیتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں اور بالغ ہوجائیں پھر اگر بالغ ہونے کے بعد تم ان میں صلاحیت و اہلیت اور سلیقہ وتمیز دیکھو اور ان میں رشدو ہوشیاری پائو تو ان کے اموال ان کے سپرد کردو اور دیکھو اس خیال سے کہ کہیں وہ یتیم بڑے نہ ہوجائیں اور بالغ نہ ہوجائیں ان کے مال جلدی جلدی فضول خرچی کرکے نہ کھا جائو اور خرچ نہ کرڈالو۔ اور یتامیٰ کے اولیاء میں سے جو شخص صاحب ثروت اور مستعفی ہو تو وہ یتیم کا مال کھانے سے اپنے کو بالکل بچائے اور محفوظ رکھے اور ان اولیاء میں سے جو شخص محتاج و حاجت مند ہو تو وہ دستور کے موافق بقدر حاجت حق خدمت کے طور پر کچھ لے لیا کرے اور کھالیا کرے اور دیکھو جب یتیم کے بالغ ہونے کے بعد اس کا مال اس کے سپرد کرنے لگو تو استحباباً اس سپردگی پر لوگوں میں سے گواہ بنا لیا کرو اور یوں تو حساب لینے اور حساب سمجھنے میں اللہ تعالیٰ کی ذات کافی ہے اور وہ سب کی دیانت و امانت اور خیانت سے باخبر ہے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی یتیم کا مال اپنے خرچ میں نہ لائو مگر اس کا رکھنے والا محتاج ہو تو خدمت کے درماہہ لیوے اور جس وقت باپ مرے تو پنچائیت کے روبرو یتیم کا مال امانت دار کو سونپ دیں جب یتیم بالغ ہو تو اس کے موافق حوالے کرے جو خرچ ہوا وہ سمجھا دے اور اس وقت بھی شاہدوں کو دکھا دے۔ (موضح القرآن) آیت کا مطلب یہ ہے کہ یتیموں کی دیکھ بھال رکھو اور ان کی معاملہ فہمی کا جائزہ لیتے رہو۔ کبھی دو چار پیسے کا سودا منگا لیا کبھی ان سے کچھ فرخت کرادیا اور اس قسم کی بیع اور شراجو دلی کی اجازت سے ہونا بالغ کی بھی نافذ ہوجاتی ہے اس لئے ان کو سدھارتے اور ان کی عقل کا جائزہ لیتے رہو۔ یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائیں۔ جس کی اصل علامت تو انزال اور حیض اور موئے زہار ہیں اور یا پھر لڑکے اور لڑکی کے لئے پندرہ سال کی عمر کا ہوجانا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک پندرہ سال مفتی بہ ہیں۔ بالغ ہونے کے بعد اگر تم ان میں رشد یعنی سمجھداری ، مال کی حفاظت کا سلیقہ لین دین کی تمیز دیکھو تو ان کے اموال ان کے سپرد کردو اور چونکہ بعض لوگوں کے قلوب میں بلاوجہ یہ جذبہ ہوتا ہے کہ یتیم کا مال کھا اڑا کے برابر کرو تاکہ بالغ ہونے کے وقت تک کچھ باقی نہ بچے جو اس کو دینا پڑے۔ محض حساب کے کاغذ دیکر یتیم کو چلتا کردیں اور یہ جذبہ کبھی تو حسد سے ہوتا ہے اور کبھی مال کی محبت اس کا سبب ہوتی ہے لوگ اس غلط جذبے کے ماتحت یتیم کا مال اس کے بالغ ہونے سے پہلے ہی برابر کردیا کرتے تھے اس برابر کرنے کی دو صورتیں ہوتی تھیں یا تو خود اس مال میں خورد برد کرکے اڑا دیتے تھے اور یا یتیم پر بلاضرورت صرف کر ڈالتے تھے اور ضرورت سے زیادہ کھانے اور کپڑے میں خرچ کرکے اس کا مال برابر کردیا کرتے تھے حق تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا کہ یتیم کا مال محض اس خطرے سے کہ کہیں بڑا نہ ہوجائے اس کے بڑے ہونے سے پیشتر ہی جلدی جلدی فضول خرچی کرکے نہ کھا جائو۔ اور چونکہ سرپرست کا خود کھا جانا اور بلا ضرورت یتیم پر خرچ کردینا ان دونوں باتوں کی ذمہ داری سرپرست ہی پر عائدہوتی ہے۔ اس لئے انہی کو مخاطب کرکے فرمایا۔ ولا تا کلوھا اسی رعایت سے ہم نے تیسیر میں کھانے کے ساتھ خرچ کر ڈالنے کا اضافہ کیا ہے اس ممانعت سے یتیم کے مال میں تصرف کا ایک ضابطہ بیان فرمادیا کہ سرپرستوں میں جو لوگ غنی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو کھانے کو دے رکھا ہے خواہ وہ صاحب نصاب نہ ہوں یعنی بہت بڑے مالدار اور صاحب نصاب نہ بھی ہوں مگر محتاج اور فقیر ہو تو پھر موافق دستور کے اس مال میں سے کچھ تھوڑا کھالے یعنی لے لے۔ دستور کے موافق کا مطلب یہ ہے کہ جس سے ضروری حاجت رفع ہوسکے اور یہ لینا حق الخدمت یا خدمت کی اجرت کے طور پر ہوگا۔ اس ضابطہ کے طور پر پھر مال سپرد کرنے کے وقت کے لئے ایک استحبابی حکم بیان کیا کہ جب یتیم بالغ ہوجائے اور اس میں کاروبار کا اور لین دین کا سلیقہ بھی دیکھو تو پھر اس کا مال اس کے حوالے کردو۔ لیکن مال حوالے کرتے وقت اور حساب سمجھاتے وقت اگر گواہ بھی بنالو تو اچھا ہے کیونکہ اگر کسی وقت باہمی نزاع ہوا تو یہ گواہ کام دیں گے۔ پھر آخر میں یہ بھی فرمادیا کہ یوں تو اللہ تعالیٰ حساب لینے والا کافی ہے وہ ہر شخص کی دیانت کو بھی جانتا ہے اور ہر شخص کی خیانت سے بھی واقف ہے اس موقعہ پر چند باتیں یاد رکھنی چاہئیں۔ (1) نابالغ کے تصرفات مثلاً بیع شراولی کی اجازت سے اگر ہوں تو نافذہوجاتے ہیں جیسا کہ ہم نے تسہیل میں اشارہ کردیا ہے۔ (2) سفیہ ایسے شخص کو کہتے ہیں جو مال کی حفاظت اور مال کو خرچ کرنے کا سلیقہ نہ رکھتاہو یا سلیقہ رکھتا ہو تو اس سلیقے کو بےپروائی سے اختیار نہ کرتاہو۔ (3) بلوغ کی اصل علامت تو وہی ہے کہ احتلام ہو یا عورت کو حیض آجائے یا موئے زیاد پیدا ہوجائیں لیکن اپنے ائمہ نے اس کے لئے پندرہ پندرہ سال کی عمر مقرر کردی ہے اور یہی حنفیہ کے نزدیک صحیح ہے۔ (4) رشد کے لئے امام ابوحنیفہ (رح) نے آخری عمر پچیس سال فرمائی اس عمر میں کچھ نہ کچھ سمجھ آہی جاتی ہے اور کچھ سلیقہ اور تمیز پیدا ہوجاتا ہے جو مال سپرد کردینے کو کافی ہے۔ البتہ شعبی اور ضحاک اور دوسرے اہل علم نے فرمایا ہے کہ جب تک کامل رشدنہ پیدا ہو اس کو مال حوالے نہ کیا جائے خواہ وہ بوڑھا ہوجائے یا اس کی عمر سو برس کی ہوجائے۔ (5) بالمعروف کا مطلب جمہور علما نے وہی بیان کیا ہے جو ہم عرض کرچکے ہیں حضرت عائشہ (رض) اور اکثر صحابہ (رض) اسی کے قائل ہیں لیکن حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عمر (رض) اور شعبی اور مجاہد اور مقاتل اور ابو دائل وغیرہ کا خیال یہ ہے کہ حاجت مند ولی یتیم کے مال سے قرض لے سکتا ہے جب میسر ہو ادا کرے لیکن ادا نہ کرنے کی نیت سے کچھ نہیں لے سکتا۔ (واللہ اعلم) (6) بعض حضرات نے دونوں اقوال کو اس طرح جمع کیا ہے کہ فقیر یتیم کے مال میں سے اجرت کے طور پر بقدر حاجت لے سکتا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ جب میسر آجائے اور حاجت نہ رہے تو جو فقیری کی حالت میں لیا تھا وہ واپس کردے تاکہ یتیم کو نقصان نہ پہنچے۔ صاحب ہدایہ نے حضرت عائشہ (رض) کا قول اختیار کیا ہے اور واپسی کی شرط نہیں لگائی ہے۔ نہ استحباباً اور نہ وجوباً (7) مال سپرد کرتے وقت گواہ بنانا مستحب ہے اب آگے زمانۂ جاہلیت کی ایک اور رسم کو رد فرماتے ہیں زمانۂ جاہلیت میں یتیم کو میراث کا مستحق نہیں سمجھتے تھے اس لئے آگے کی آیت میں اس کا بطلان مذکور ہے۔ (تسہیل)