Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 61

سورة النساء

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا اِلٰی مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ وَ اِلَی الرَّسُوۡلِ رَاَیۡتَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡکَ صُدُوۡدًا ﴿ۚ۶۱﴾

And when it is said to them, "Come to what Allah has revealed and to the Messenger," you see the hypocrites turning away from you in aversion.

ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اللہ تعالٰی کے نازل کردہ کلام کی اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف آؤ تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے مُنہ پھیر کر رُکے جاتے ہیں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And when it is said to them: "Come to what Allah has sent down and to the Messenger," you see the hypocrites turn away from you with aversion. يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا (turn away from you with aversion) means, they turn away from you in arrogance, just as Allah described the polytheists, وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُواْ مَأ أَنزَلَ اللَّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَ... دْنَا عَلَيْهِ ءَابَأءَنَا When it is said to them: "Follow what Allah has sent down." They say: "Nay! We shall follow what we found our fathers following." (31:21) This is different from the conduct of the faithful believers, whom Allah describes as, إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُوْمِنِينَ إِذَا دُعُواْ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا The only saying of the faithful believers, when they are called to Allah and His Messenger, to judge between them, is that they say: "We hear and we obey." (24:51) Chastising the Hypocrites Chastising the hypocrites, Allah said,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61۔ 1 یہ آیات ایسے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئیں جو اپنا فیصلہ عدالت میں لے جانے کی بجائے سرداران یہود یا سرداران قریش کی طرف لے جانا چاہتے تھے تاہم اس کا حکم عام ہے اس میں تمام وہ لوگ شامل ہیں جو کتاب و سنت سے اعراض کرتے ہیں اور اپنے فیصلوں کے لئے ان دونوں کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف جاتے ہیں۔ ورنہ مس... لمانوں کا تو یہ حال ہوتا ہے (اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا) 024:051 کہ جب انہیں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو وہ کہتے ہیں کہ سَمِنَا وَ اَطَعْنَا ایسے لوگوں کے بارے میں آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَ اوْلَئِکَ ھُمُ المُفْلِحُوْنَ ) 024:051 یہی لوگ کامیاب ہیں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٣] سیدنا عمر کا منافق کے حق میں فیصلہ :۔ ہوا یہ تھا کہ ایک یہودی اور ایک منافق (مسلمان) کا کسی معاملہ میں جھگڑا ہوگیا۔ یہودی چونکہ حق بجانب تھا لہذا اس نے منافق سے کہا کہ چلو اس کا فیصلہ تمہارے رسول سے کرا لیتے ہیں (یعنی یہودیوں کا بھی یہ ایمان ضرور تھا کہ یہ نبی حق ہی کا ساتھ دیتا ہے) مگر منافق ... اس سے پس و پیش کرنے لگا۔ اسے بھی یہ خطرہ تھا کہ آپ حق کا ساتھ دیں گے اور فیصلہ میرے خلاف ہوجائے گا لہذا وہ لیت و لعل کرنے لگا اور کہنے لگا کہ یہ مقدمہ تمہارے سردار کعب بن اشرف کے پاس لے چلتے ہیں جہاں اس منافق کو توقع تھی کہ مکر و فریب اور رشوت سے فیصلہ میرے حق میں ہوسکتا ہے۔ مگر یہودی یہ بات نہ مانا کیونکہ اسے بھی اپنے اس سردار کے کردار کا پتہ تھا اور منافق چونکہ کھل کر یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ میں رسول اللہ کے پاس نہ جاؤں گا اس لیے بالآخر یہی طے پایا کہ فیصلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرایا جائے۔ آپ نے فریقین کی بات سن کر یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا تو اب منافق کہنے لگا کہ چلو اب یہ مقدمہ سیدنا عمر (رض) ابن خطاب کے پاس لے جا کر ان کا بھی فیصلہ لیتے ہیں۔ سیدنا عمر (رض) ان دنوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت سے اور ان کے نائب کی حیثیت سے مدینہ میں مقدمات کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ منافق کا یہ خیال تھا کہ چونکہ سیدنا عمر (رض) میں اسلامی حمیت بہت ہے لہذا وہ میرے حق میں فیصلہ دے دیں گے۔ چناچہ یہودی اور منافق دونوں نے سیدنا عمر (رض) کے ہاں جا کر اس مقدمہ کا فیصلہ چاہا۔ پھر اپنے اپنے بیان دیے۔ یہودی نے اپنا بیان دینے کے بعد یہ بھی کہہ دیا کہ ہم یہ مقدمہ تمہارے نبی کے پاس لے گئے تھے اور انہوں نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے یہ سنتے ہی سیدنا عمر (رض) اندر گئے اور تلوار نکال لائے اور آتے ہی اس منافق کا سر قلم کردیا اور فرمایا کہ جو شخص نبی کے فیصلہ کو تسلیم نہ کرے اس کے لیے میرے پاس یہی فیصلہ ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The second verse (61) tells us that turning away from the decision of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، given under the dictates of the Shari’ ah in matters relating to mutual quarrels and disputes, can never be the response of a Muslim. One who does it has to be a munafiq (hypocrite). Thus, when the disbelief of this hypocrite was practically exposed through his dissatisfaction with t... he decision of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، his being killed by Sayyidna ` Umar (رض) became all the more justified, because he no more remained a munafiq (hypocrite) and, in fact, became an open Kafir (or apostate). Therefore, it was said; And when it is said to them, |"Come to what Allah has revealed, and to the Messenger,|" you will see the hypocrites turning away from you in aversion.&  Show more

دوسری آیت میں بتلا دیا کہ باہمی خصوصیت اور جھگڑے کے وقت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شرعی فیصلہ سے اعراض کرنا کسی مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا ایسا کام کرنے والا منافق ہی ہوسکتا ہے اور جب اس منافق کا کفر عملاً اس طرح کھل گیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ پر راضی نہ ہوا تو فارو... ق اعظم کا اس کو قتل کرنا صحیح ہوگیا، کیونکہ اب وہ منافق نہ رہا بلکہ کھلا کافر ہوگیا، اس لئے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ ایسے ہیں کہ جب ان سے کہا جائے کہ آجاؤ اس حکم کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے اور اس کے رسول کی طرف، تو یہ منافقیت آپ کی طرف آنے سے رک جاتے ہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنٰفِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا۝ ٦١ۚ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إ... ذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) تَعالَ قيل : أصله أن يدعی الإنسان إلى مکان مرتفع، ثم جعل للدّعاء إلى كلّ مکان، قال بعضهم : أصله من العلوّ ، وهو ارتفاع المنزلة، فكأنه دعا إلى ما فيه رفعة، کقولک : افعل کذا غير صاغر تشریفا للمقول له . وعلی ذلک قال : فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا[ آل عمران/ 61] ، تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ [ آل عمران/ 64] ، تَعالَوْا إِلى ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ النساء/ 61] ، أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل/ 31] ، تَعالَوْا أَتْلُ [ الأنعام/ 151] . وتَعَلَّى: ذهب صعدا . يقال : عَلَيْتُهُ فتَعَلَّى تعالٰی ۔ اس کے اصل معنی کسی کو بلند جگہ کی طرف بلانے کے ہیں پھر عام بلانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے بعض کہتے ہیں کہ کہ یہ اصل میں علو ہے جس کے معنی بلند مر تبہ کے ہیں لہذا جب کوئی شخص دوسرے کو تعال کہہ کر بلاتا ہے تو گویا وہ کسی رفعت کے حصول کی طرف وعورت دیتا ہے جیسا کہ مخاطب کا شرف ظاہر کرنے کے لئے افعل کذا غیر صاغر کہا جاتا ہے چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا[ آل عمران/ 61] تو ان سے کہنا کہ آ ؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں ۔ تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ [ آل عمران/ 64] تعالو ا الیٰ کلمۃ ( جو ) بات ( یکساں تسلیم کی گئی ہے اس کی ) طرف آؤ تَعالَوْا إِلى ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ النساء/ 61] جو حکم خدا نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف رجوع کرو ) اور آؤ أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل/ 31] مجھ سے سر کشی نہ کرو ۔ تَعالَوْا أَتْلُ [ الأنعام/ 151] کہہ کہ ( لوگو) آؤ میں ( تمہیں ) پڑھ کر سناؤں ۔ تعلیٰ بلندی پر چڑھا گیا ۔ دور چلا گیا ۔ کہا جاتا ہے علیتہ متعلٰی میں نے اسے بلند کیا ۔ چناچہ وہ بلند ہوگیا إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس نِّفَاقُ ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة/ 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦١) یہ آیت بشر نامی منافق شخص کے بارے میں نازل ہوئی، اس کا ایک یہودی سے جھگڑا تھا اور حضرت عمر فاروق (رض) نے اس کو قتل کردیا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦١ (وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ ) اپنے مقدمات کے فیصلے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کراؤ۔ (رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا ) صَدَّ یَصُدُّ کے بارے میں عرض کرچکا ہوں کہ یہ رکنے کے معنی میں بھی آتا ہے اور روک... نے کے معنی میں بھی۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

92. This shows that the hypocrites were inclined to refer to the Prophet (peace be on him) those cases in which they expected a favourable decision. When they feared an adverse judgement they refused to refer to the Prophet (peace be on him). This continues to be the practice of many hypocrites even now. Whenever they feel that Islamic Law would further their interests they turn to it but when the... y feel it would militate against them they refer their disputes to whichever legal systems and courts of law, customs and usages they anticipate most likely to give them a favourable decision.  Show more

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :92 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ منافقین کی عام روش تھی کہ جس مقدمہ میں اندیشہ ہوتا تھا کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا اس کو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آتے تھے اور جس مقدمہ میں اندیشہ ہوتا تھا کہ فیصلہ ان کے خلاف ہو گا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لانے سے انکار کر ... دیتے تھے ۔ یہی حال اب بھی منافقوں کا ہے کہ اگر شریعت کا فیصلہ ان کے حق میں ہو تو سر آنکھوں پر ورنہ ہر اس قانون ، ہر اس رسم و رواج اور ہر اس عدالت کے دامن میں جا پناہ لیں گے جس سے انہیں اپنے منشاء کے مطابق فیصلہ حاصل ہونے کی توقع ہو ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:61) تعالوا۔ تعالیٰ (تفاعل) جس کے معنی بلند ہونے اور آنے کے ہیں۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اصل میں تعال کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو بلند مقام کی طرف بلایا جائے ۔ پھر ہر جگہ بلانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ بعض علماء کے نزدیک یہ علو سے ماخوذ ہے جس کے معنی رفعت منزل کے ہیں گو یا تعالوا میں رفعت منزل کے ... حصول کی دعوت ہے قرآن مجید میں جہاں تعلوا کا استعمال ہوا ہے وہاں یہ چیز موجود ہے۔ اہل لغت نے تعال کو مطلقاً علم (چلے آؤ۔ آؤ) کے معنی میں لیا ہے۔ یصدون عنک صدودا۔ صد۔ مصدر بمعنی رکنا۔ باز رہنا۔ روک دینا۔ باز رکھنا ۔ فعل لازم و متعدی ہر دو صورت میں استعمال ہوتا ہے۔ صد یصد (نصر) بواسطہ عن منہ پھیرلینا اعراض کرنا۔ روک دینا ۔ پھیر دینا۔ صدید مصدر (نصر ۔ ضرب) رونا پیٹنا۔ چیخنا۔ تصدید مصدر (تفعیل) تالی بجانا۔ صدودا۔ آخر میں تاکید کے لئے ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بشر منافق کا جو واقعہ پیش آیا اس کو الفاظ کے عموم میں اس طرح بیان فرمایا (وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا) کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس حکم کی طرف آؤ جو اللہ نے نازل کیا اور اللہ کے رسول کی طرف آؤ...  تو منافقین رسول کے پاس آنے سے بچتے ہیں اور کٹتے ہیں، مسلمان ہونے کے دعوے تو بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں لیکن فیصلے کرانے کے لیے کسی دوسرے کا منہ دیکھتے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم بنانے کی بجائے دوسروں سے فیصلہ چاہتے ہیں، اس طرح کے لوگ بشر کے علاوہ بھی پائے جاتے ہیں اس لیے آیت شریفہ میں عام الفاظ استعمال فرمائے تاکہ سب کو تنبیہ ہوجائے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا آپ نے ان لوگوں کو ملاحظہ نہیں کیا جو اپنی زبانوں سے تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ پر نازل ہوا ہے وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں یعنی قرآن پر ہمارا ایمان ہے اور وہ ان کتابوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آپ سے پہلے نازل کی گئی ہیں یعنی توریت و انجیل پر بھی ہمار... ا اعتقاد ہے لیکن ان دعاویٰ اور اس کہنے کے باوجود ان کا حال یہ ہے کہ وہ لوگ اپنے مقدمات کا شیطان سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں اور اپنے مقدمات شیطان کے پاس لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ ان کو یہ حکم دیا جا چکا ہے کہ وہ شیطان کو نہ مانیں اور اس شیطان پر اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان کی خواہش تو یہ ہے اور وہ تو یہ چاہتا ہے کہ ان کو گمراہ کر کے اور بھٹکا کے صحیح راہ سے دور لیجا ڈالے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون کی طرف آئو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آئو کہ وہ اس قانون کے موافق تمہارا فیصلہ کردیں تو آپ ان منافقین کو ملاحظہ کرتے ہیں کہ وہ آپ سے بالکل پہلو تہی اور انتہائی اعراض کرتے ہیں۔ (تیسیر) شان نزول کے سلسلے میں کئی باتیں بیان کی جاتی ہیں ایک تو وہی مشہور واقعہ ہے جو حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ کسی منافق کا ایک یہودی کے ساتھ کچھ جھگڑا تھا یہودی کی خواہش تھی کہ مقدمہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ منافق کہتا تھا کعب بن اشرف جو بڑا معتصب اور یہود میں رئیس تھا یہ مقدمہ اس کے پاس لے جایا جائے چونکہ کعب بن اشرف بڑا راشی تھا سا لئے منافق سمجھتا تھا کہ وہاں کچھ دے دلا کر اپنے حق میں فیصلہ کرا لوں گا۔ یہودی جانتا تھا کہ صحیح انصاف نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں ہوگا اس لئے وہ زور دیتا تھا منافق نے خیال کیا اگر میں انکار کروں گا تو میرا بھانڈا پھوٹ جائیگا کیونکہ مجھ کو مسلمان سمجھا جاتا ہے۔ بالآخر معاملہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش ہوا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودی کے حق میں فیصلہ کردیا منافق نے باہر نکل کر کہا میں تو اس فیصلے کو نہیں مانتا میں تو حضرت عمر (رض) سے فیصلہ کر ائوں گا۔ چنانچہ دونوں حضرت عمر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت عمر کو تمام واقعہ سنایا حضرت عمر (رض) نے فرمایا ٹھہر جائو میں فیصلہ کرتا ہوں یہ کہہ کر اندر گئے اور تلوار لا کر منافق کا سراڑا دیا اور فرمایا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو فیصلہ نہ مانے اس کا یہی فیصلہ ہے۔ اس واقعہ کے بعد حضرت عمر (رض) کا لقب فاروق رکھا گیا اس منافق کے رشتہ دار حضرت عمر کے اس فعل پر بہت چراغ پا ہوئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں قصاص کا مطالبہ کرتے ہوئے آئے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اس منافق کا نام بشر بتایا جاتا ہے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ابو برزہ اسلمی ایک کاہن تھا جس کو یہودی حکم بنایا کرتے تھے بعض مسلمان بھی اس کا ہن کو حکم بنانے کے لئے آمادہ ہوگئے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ حضرت ابن عباس کا ایک قول یہ ہے کہ حلاس بن صامت اور معتب بن قشیر اور رافع بن زید اور بشر یہ سب لوگ اسلام کے مدعی تھے ایک جھگڑے میں جو یہود کے ساتھ پیش آیا یہود یہ چاہتے تھے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیصلہ کرائیں اور یہ مدعیان اسلام کہتے تھے کہ کاہن کے پاس چلو ہم ان احکام سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں جو زمانہ جاہلیت سے حکام چلے آتے ہیں۔ اسی طرح اور بھی بعض واقعات کو نزول کا سبب قرار دیا گیا ہے اور یہ ہوسکتا ہے کہ یہ تمام واقعات ان آیات کے نزول کا سبب ہوں۔ طاغوت کی تحقیق ہم اوپر کئی دفعہ بیان کرچکے ہیں یہاں شیطان ترجمہ کیا ہے ہر شخص جو نافرمان اور سرکش ہو اس کو طاغوت کہا جاتا یہاں مراد وہ شخص ہے جو اسلامی قانون کے خلاف فیصلہ کرے خواہ وہ کعب بن اشرف ہو یا ابو برزہ کاہن ہو یا کسی طاغوتی حکومت کا اور کوئی حاکم ہو جو خلاف ما انزل اللہ فیصلہ کرے وہ طاغوت ہے طاغوت کو حکم بنانا یا اس کے پاس مقدمات لے جانے کو دو وجہ سے منع فرمایا ایک تو یہ کہ طاغوت یعنی شیطان کے نہ ماننے کا حکم دیا گیا ہے اور جب اس کے نہ ماننے کا حکم ہے تو ہر اعتبار سے اس کی مخالفت کرنی چاہئے۔ دوسرے یہ کہ شیطان تمہارا دشمن ہے تم کو راہ حق سے گمراہ کر کے دور پھینکنا چاہتا ہے یعنی ایسا گمراہ کرنا چاہتا ہے اور سیدھی راہ سے ہٹا کر اتنی دور لے جانا چاہتا ہے کہ پھر راہ حق ڈھونڈنے سے بھی نہ پائو لہٰذا ایسے دشمن سے پرہیز کرنا چاہئے چہ جائے کہ تم اس کو فصل خصوصیات کا حق دیتے ہو اور اپنے کو مسلمان کہتے ہو یہ تو کھلا ہوا نفاق ہے۔ آگے ان کی پہلوتہی کو صراحتۃ ذکر فرمایا کہ جب ان کو قرآن اور رسول کی طرف آنے کی طرف آنے کی دعوت دی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ما انزل اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب آئو تو آپ اس وقت منافقوں کو دیکھتے ہوں گے کہ وہ اس دعوت پر نہ صرف بےالتفاقی کرتے ہیں بلکہ آپ سے اعراض اور پہلو بچانے کی کوشش کرتے ہیں صد اور صدودا دونوں کے معنی اعراض کرنے اور پہلو بچانے کے ہیں۔ آگے اس مقتول منافق کے اولیاء کے آنے کا اور عذر معذرت کا ذکر فرماتے ہیں۔ (تسہیل)  Show more