Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 64

سورة النساء

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ جَآءُوۡکَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰہَ وَ اسۡتَغۡفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾

And We did not send any messenger except to be obeyed by permission of Allah . And if, when they wronged themselves, they had come to you, [O Muhammad], and asked forgiveness of Allah and the Messenger had asked forgiveness for them, they would have found Allah Accepting of repentance and Merciful.

ہم نے ہر رسول کو صرف اس لئے بھیجا کہ اللہ تعالٰی کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا تیرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالٰی سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لئے استغفار کرتے ، تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالٰی کو معاف کرنے والا مہربان پاتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Necessity of Obeying the Messenger Allah said, وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ ... We sent no Messenger, but to be obeyed, meaning, obeying the Prophet was ordained for those to whom Allah sends the Prophet. Allah's statement, ... بِإِذْنِ اللّهِ ... by Allah's leave, According to Mujahid, means, "None shall obey, except by My leave," This Ayah indicates that the Prophets are only obeyed by whomever Allah directs to obedience. In another Ayah, Allah said, وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ And Allah did indeed fulfill His promise to you when you were killing them (your enemy) with His permission. (3:152) meaning, by His command, decree, will and because He granted you superiority over them. Allah's statement, ... وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَأوُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ ... If they (hypocrites), when they had been unjust to themselves, had come to you and begged Allah's forgiveness, and the Messenger had begged forgiveness for them, directs the sinners and evildoers, when they commit errors and mistakes, to come to the Messenger, so that they ask Allah for forgiveness in his presence and ask him to supplicate to Allah to forgive them. If they do this, Allah will forgive them and award them His mercy and pardon. This is why Allah said, ... لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا indeed, they would have found Allah All-Forgiving (One Who forgives and accepts repentance), Most Merciful. One Does not Become a Believer Unless He Refers to the Messenger for Judgment and Submits to his Decisions Allah said,

اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ضامن نجات ہے مطلب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے رسول کی تابعداری اس کی امت پر اللہ کی طرف سے فرض ہوتی ہے منصب رسالت یہی ہے کہ اس کے سبھی احکامات کو اللہ کے احکام سمجھا جائے ، حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں باذن اللہ سے یہ مراد ہے کہ اس کی توفیق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہے اس کی قدرت و مشیت پر موقوف ہے ، جیسے اور آیت میں ہے ( وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِھٖ ۚ حَتّٰى اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَآ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ) 3 ۔ آل عمران:152 ) یہاں بھی اذن سے مراد امر قدرت اور مشیت ہے یعنی اس نے تمہیں ان پر غلبہ دیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ عاصی اور خطاکاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور خود رسول سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لئے دعائیں کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقینا اللہ ان کی طرف رجوع کرے گا انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا ابو منصور صباغ نے اپنی کتاب میں جس میں مشہور قصے لکھے ہیں لکھا ہے کہ عتبی کا بیان ہے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربت کے پاس بیٹھا ہوا تھا جبکہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا اسلام علیکم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے قرآن کریم کی اس آیت کو سنا اور آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ کے سامنے اپنے گناہوں کا استغفار کروں اور آپ کی شفاعت طلب کروں پھر اس نے یہ اشعار پڑھی باخیر من دفنت بالقاع اعظمہ فطاب من طیبھن القاع والا کم نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ فیہ لعاف وفیہ الجودو الکرم جن جن کی ہڈیاں میدانوں میں دفن کی گئی ہیں اور ان کی خوشبو سے وہ میدان ٹیلے مہک اٹھے ہیں اے ان تمام میں سے بہترین ہستی ، میری جان اس قبر پر سے صدقے ہو جس کا ساکن تو ہے جس میں پارسائی سخاوت اور کرم ہے ، پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے نیند آ گئی خواب میں کیا دیکھتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے فرما رہے ہیں جا اس اعرابی کو خوش خبری سنا اللہ نے اس کے گناہ معاف فرما دئیے ( یہ خیال رہے کہ نہ تو یہ کسی حدیث کی کتاب کا واقعہ ہے نہ اس کی کوئی صحیح سند ہے ، بلکہ آیت کا یہ حکم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہی تھا وصال کے بعد نہیں جیسے کہ جاء و ک کا لفظ بتلا رہا ہے اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ ہر انسان کا ہر عمل اس کی موت کے ساتھ منقطع ہو جاتا ہے واللہ اعلم ۔ مترجم ) پھر اللہ تعالیٰ اپنی بزرگ اور مقدس ذات کی قسم کھا کر فرماتے ہے کہ کوئی شخص ایمان کی حدود میں نہیں آ سکتا جب تک کہ تمام امور میں اللہ کے اس آخر الزمان افضل تر رسول کو اپنا سچا حاکم نہ مان لے اور آپ کے ہر حکم ہر فیصلے ہر سنت اور ہر حدیث کو قابل قبول اور حق صریح تسلیم نہ کرنے لگے ، دل کو اور جسم کو یکسر تابع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ بنا دے ۔ غرض جو بھی ظاہر و باطن چھوٹے بڑے کل امور میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اصل اصول سمجھے وہی مومن ہے ۔ پس فرمان ہے کہ تیرے احکام کو یہ کشادہ دلی سے تسلیم کرلیا کریں اپنے دل میں پسندیدگی نہ لائیں تسلیم کلی تمام احادیث کے ساتھ رہے ، نہ تو احادیث کے ماننے سے رکیں نہ انہیں بے اثر کرنے کے اسباب ڈھونڈیں نہ ان کے مرتبہ کی کسی اور چیز کو سمجھیں نہ ان کی تردید کریں نہ ان کا مقابلہ کریں نہ ان کے تسلیم کرنے میں جھگڑیں جیسے فرمان رسول ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے تم میں سے کوئی صاحب ایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنی خواہش کو اس چیز کا تابع نہ بنا دے جسے میں لایا ہوں ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کسی شخص سے نالیوں سے باغ میں پانی لینے کے بارے میں جھگڑا ہو پڑا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم پانی پلا لو اس کے بعد پانی کو انصاری کے باغ میں جانے دو اس پر انصاری نے کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ تو آپ کے پھوپھی کے لڑکے ہیں یہ سن کر آپ کا چہرہ متغیر ہو سکتا ہے اور فرمایا زبیر تم پانی پلا لو پھر پانی کو روکے رکھو یہاں تک کہ باغ کی دیواروں تک پہنچ جائے پھر اپنے پڑوسی کی طرف چھوڑ دو پہلے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسی صورت نکالی تھی کہ جس میں حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تکلیف نہ ہو اور انصاری کشادگی ہو جائے لیکن جب انصاری نے اسے اپنے حق میں بہتر نہ سمجھا تو آپ نے حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کا پورا حق دلوایا حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جہاں تک میرا خیال ہے یہ ( فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا ) 4 ۔ النسآء:65 ) اسی بارے میں نازل ہوئی ہے ، مسند احمد کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ یہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بدری تھے اور روایت میں ہے دونوں میں جھگڑا یہ تھا کہ پانی کی نہر سے پہلے حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کھجوروں کا باغ پڑتا تھا پھر اس انصاری کا انصاری کہتے تھے کہ پانی دونوں باغوں میں ایک ساتھ آئے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ دونوں دعویدار حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حاطب بن ابو بلتہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے آپ کا فیصلہ ان میں یہ ہوا کہ پہلے اونچے والا پانی پلا لے پھر نیچے والا ۔ دوسری ایک زیادہ غریب روایت میں شان نزول یہ مروی ہے کہ دو شخص اپنا جھگڑا لے کر دربار محمد میں آئے آپ نے فیصلہ کر دیا لیکن جس کے خلاف فیصلہ تھا اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دیجئے آپ نے فرمایا بہت اچھا ان کے پاس چلے جاؤ جب یہاں آئے تو جس کے موافق فیصلہ ہوا تھا اس نے ساراہی واقعہ کہہ سنایا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دوسرے سے پوچھا کیا یہ سچ ہے؟ اس نے اقرار کیا آپ نے فرمایا اچھا تم دونوں یہاں ٹھہرو میں آتا ہوں اور فیصلہ کر دیتا ہوں تھوڑی دیر میں تلوار تانے آ گئے اور اس شخص کی جس نے کہا تھا کہ حضرت ہمیں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دیجئے گردن اڑا دی دوسرا شخص یہ دیکھتے ہی دوڑا بھاگا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور اگر میں بھی جان بچا کر بھاگ کر نہ آتا تو میری بھی خیر نہ تھی ، آپ نے فرمایا میں عمر کو ایسا نہیں جانتا تھا کہ وہ اس جرات کے ساتھ ایک مومن کا خون بہا دے گا اس پر یہ آیت اتری اور اس کا خون برباد گیا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بری کر دیا ، لیکن یہ طریقہ لوگوں میں اس کے بعد بھی جاری نہ ہو جائے اس لئے اس کے بعد ہی یہ آیت اتری ( وَلَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِيَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِيْلٌ مِّنْھُمْ ) 4 ۔ النسآء:66 ) جو آگے آتی ہے ( ابن ابی حاتم ) ابن مردویہ میں بھی یہ روایت ہے جو غریب اور مرسل ہے اور ابن لہیعہ راوی ضعیف ہے واللہ اعلم ۔ دوسری سند سے مروی ہے دو شخص رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اپنا جھگڑا لائے آپ نے حق والے کے حق میں ڈگری دے دی لیکن جس کے خلاف ہوا تھا اس نے کہا میں راضی نہیں ہوں آپ نے پوچھا تو کیا چاہتا ہے؟ کہا یہ کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلیں دونوں وہاں پہنچے جب یہ واقعہ جناب صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنا تو فرمایا تمہارا فیصلہ وہی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا وہ اب بھی خوش نہ ہوا اور کہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلو وہاں گئے پھر وہ ہوا جو آپ نے اوپر پڑھا ( تفسیر حافظ ابو اسحاق )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

64۔ 1 مغفرت کے لئے بارگاہ الٰہی میں ہی توبہ استغفار ضروری اور کافی ہے۔ لیکن یہاں ان کو کہا گیا اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور تو بھی ان کے لئے مغفرت کرتا۔ یہ اس لئے کہ چونکہ انہوں نے فصل خصومات (جھگڑوں کے فیصلے) کے لئے دوسروں کی طرف رجوع کرکے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استخفاف کیا تھا۔ اس لئے اس کے ازالے کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے کی تاکید کی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The fifth verse (64) begins by stating a universal Divine principle: And We did not send any Messenger but to be obeyed by the leave of Allah.& It means that any Messenger who was sent by Allah was sent so that everyone obeys the rules set by him in accordance with the will and command of Allah Almighty. In that case, the inevitable consequence will be that anyone who opposes the rules set by the Messenger will be dealt with in the manner disbelievers are dealt with. Therefore, whatever Sayyidna ` Umar (رض) did turned out to be correct. Following this appears an advice in the best interest of the hypocrites indicating that they would have done better if, rather than indulge in false oaths and interpretations, they would have confessed their error and presented themselves before him seeking forgiveness from Allah, and the Messenger too prayed for their forgiveness, then, Allah Almighty would have certainly accepted their repentance. At this place, for the repentance to be acceptable, two things have been made binding: That they present themselves before the Holy Prophet ~..L ..1L ! t and that he then prays for their forgiveness. Perhaps, the first reason is that they violated the great station of prophethood bestowed by Allah Almighty on His noble Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and caused him undue pain by disregarding the decision given by him. So, in order that their repentance: over their crime becomes acceptable, the condition that they present themselves before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and that he prays for their forgiveness was imposed on them. Although, this verse (64) was revealed in the background of a particular incident relating to the hypocrites, yet its words yield a general ruling which stipulates that anyone who presents himself before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and he prays for his forgiveness he will definitely be forgiven. And &the presence before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as it would have been during his blessed life in this mortal world, holds the same effect even today as the visit to the sacred precincts of the Mosque of the Prophet and the act of &presenting& oneself before the blessed resident of the sanctified mausoleum falls within the jurisdiction of this rule. Sayyidna Ali (رض) said: |"Three days after we all had finished with the burial of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) a villager came and fell down close to the blessed grave. Weeping bitterly, he referred to this particular verse of the Qur&an and addressing himself to the blessed grave, he said: &Allah Almighty has promised in this verse that a sinner, if he presented himself before the Rasul of Allah, and the Rasul elects to pray for his forgiveness, then he will be forgiven. Therefore, here I am, presenting myself before you so that I may be blessed with your prayer for my forgiveness.& People personally present there at that time say that, in response to the pleading of the villager, a voice coming out from the sanctified mauso¬leum rang around with the words: قَد غُفِرَ لَکَ meaning: You have been forgiven. (al-Bahr al-Muhit)

پانچویں آیت میں اول تو ایک عام ضابطہ بتلایا کہ ہم نے جو رسول بھیجا وہ اسی لئے بھیجا کہ سب لوگ فرمان خداوندی کے موافق اس کے احکام کی اطاعت کریں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ جو شخص رسول کے احکام کی مخالفت کرے اس کے ساتھ کفار جیسا معاملہ کیا جائے گا اس لئے حضرت عمر نے جو عمل کیا وہ صحیح ہوا۔ اس کے بعد ان کو خیر خواہاہ مشورہ دیا گیا ہے کہ یہ لوگ تاویلات باطلہ اور جھوٹی قسموں کے بجائے اپنے قصور کا اعتراف کرلیتے اور آپ کے پاس حاضر ہو کر خود بھی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کی مغفرت کی دعاء کرتے تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی توبہ قبول فرما لیتے۔ اس جگہ قبول توبہ کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہونے اور پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعاء مغفرت کرنے کی شرط غالباً اس لئے ہے کہ ان لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منصب نبوت پر حملہ کیا اور آپ کے فیصلہ کو نظر انداز کر کے آپ کو ایذا پہونچائی، اس لئے ان کے جرم کی توبہ کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضری اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے استغفار کو شرط کردیا گیا۔ یہ آیت اگرچہ خاص واقعہ منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے، لیکن اس کے الفاظ سے ایک عام ضابطہ نکل آیا کہ جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوجائے اور آپ اس کے لئے دعا مغفرت کردیں اس کی مغفرت ضرور ہوجائے گی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضری جیسے آپ کی دنیوی حیات کے زمانہ میں ہو سکتی تھی اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضر اسی حکم میں ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ جب ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دفن کر کے فارغ ہوئے تو اس کے تین روز بعد ایک گاؤں والا آیا اور قبر شریف کے پاس آ کر گرگیا اور زارو زار روتے ہوئے آیت مذکورہ کا حوالہ دے کر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں وعدہ فرمایا ہے کہ اگر گنہگار رسول کی خدمت میں حاضر ہوجائے اور رسول اس کے لئے دعائے مغفرت کردیں تو اس کی مفرت ہوجائے گی، اس لئے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ میرے لئے مغفرت کی دعا کریں اس وقت جو لوگ حاضر تھا ان کا بیان ہے کہ اس کے جواب میں روضہ اقدس کے اندر رستے آواز آئی قدغفرلک یعنی مغفرت کردی گئی۔ (بحر محیط)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ۝ ٠ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا۝ ٦٤ رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس لام اللَّامُ التي هي للأداة علی أوجه : الأول : الجارّة، وذلک أضرب : ضرب لتعدية الفعل ولا يجوز حذفه . نحو : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] . وضرب للتّعدية لکن قدیحذف . کقوله : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] ، فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] فأثبت في موضع وحذف في موضع . الثاني : للملک والاستحقاق، ولیس نعني بالملک ملک العین بل قد يكون ملکا لبعض المنافع، أو لضرب من التّصرّف . فملک العین نحو : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] ، وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] . وملک التّصرّف کقولک لمن يأخذ معک خشبا : خذ طرفک لآخذ طرفي، وقولهم : لله كذا . نحو : لله درّك، فقد قيل : إن القصد أنّ هذا الشیء لشرفه لا يستحقّ ملكه غير الله، وقیل : القصد به أن ينسب إليه إيجاده . أي : هو الذي أوجده إبداعا، لأنّ الموجودات ضربان : ضرب أوجده بسبب طبیعيّ أو صنعة آدميّ. وضرب أوجده إبداعا کالفلک والسماء ونحو ذلك، وهذا الضرب أشرف وأعلی فيما قيل . ولَامُ الاستحقاق نحو قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] وهذا کالأول لکن الأول لما قد حصل في الملک وثبت، وهذا لما لم يحصل بعد ولکن هو في حکم الحاصل من حيثما قد استحقّ. وقال بعض النحويين : اللَّامُ في قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ [ الرعد/ 25] بمعنی «علی» «1» أي : عليهم اللّعنة، وفي قوله : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ولیس ذلک بشیء، وقیل : قد تکون اللَّامُ بمعنی «إلى» في قوله : بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] ولیس کذلک، لأنّ الوحي للنّحل جعل ذلک له بالتّسخیر والإلهام، ولیس ذلک کالوحي الموحی إلى الأنبیاء، فنبّه باللام علی جعل ذلک الشیء له بالتّسخیر . وقوله : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] معناه : لا تخاصم الناس لأجل الخائنين، ومعناه کمعنی قوله : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] ولیست اللام هاهنا کاللام في قولک : لا تکن لله خصیما، لأنّ اللام هاهنا داخل علی المفعول، ومعناه : لا تکن خصیم اللہ . الثالث : لَامُ الابتداء . نحو : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] ، لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] ، لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] . الرابع : الداخل في باب إنّ ، إما في اسمه إذا تأخّر . نحو : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] أو في خبره . نحو : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] ، إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] أو فيما يتّصل بالخبر إذا تقدّم علی الخبر . نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] فإنّ تقدیره : ليعمهون في سکرتهم . الخامس : الداخل في إن المخفّفة فرقا بينه وبین إن النافية نحو : وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] . السادس : لَامُ القسم، وذلک يدخل علی الاسم . نحو قوله : يَدْعُوا لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ [ الحج/ 13] ويدخل علی الفعل الماضي . نحو : لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111] وفي المستقبل يلزمه إحدی النّونین نحو : لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] وقوله : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] فَاللَّامُ في «لمّا» جواب «إن» وفي «ليوفّينّهم» للقسم . السابع : اللَّامُ في خبر لو : نحو : وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] ، لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] ، وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] «1» ، وربما حذفت هذه اللام نحو : لو جئتني أکرمتک أي : لأکرمتک . الثامن : لَامُ المدعوّ ، ويكون مفتوحا، نحو : يا لزید . ولام المدعوّ إليه يكون مکسورا، نحو يا لزید . التاسع : لَامُ الأمر، وتکون مکسورة إذا ابتدئ به نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] ، لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] ، ويسكّن إذا دخله واو أو فاء نحو : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] ، وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] ، وقوله : فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] ، وقرئ : ( فلتفرحوا) وإذا دخله ثم، فقد يسكّن ويحرّك نحو : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] . ( اللام ) حرف ) یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ اول حروف جارہ اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔ (1) تعدیہ کے لئے اس وقت بعض اوقات تو اس کا حذف کرنا جائز نہیں ہوتا جیسے فرمایا : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] اور باپ نے بیٹے کو پٹ پڑی کے بل لٹا دیا ۔ اور کبھی حذف کرنا جائز ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] خدا چاہتا ہے کہ تم سے کھول کھول کر بیان فرمادے۔ میں لام مذکور ہے اور آیت : فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے ۔ میں اسے حذف کردیا ہے ( یعنی اصل میں لا یھدیہ ولان یضلہ ہے ۔ ( یعنی اصل میں الان یھدی ولان یضلہ ہے (2) ملک اور استحقاق کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور ملک سے ہمیشہ ملک عین ہی مراد نہیں ہوتا ۔ بلکہ ملکہ منافع اور ملک تصرف سب کو عام ہے چناچہ فرمایا : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] اور آسمانوں اورز مینوں کی بادشاہت خدا ہی کی ہے ۔ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں ۔ اور ملک تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی اٹھاتے وقت تم اس سے یہ کہو ۔ خذ طرفک لاخذنی کہ تم ا اپنی جانپ سے پکڑ لوتا کہ میں اپنی جانب پکڑوں ۔ اور للہ درک کی طرح جب للہ کذا کہا جاتا ہے تو اس میں تو اس میں بعض نے لام تملیک مانا ہی یعنی یہ چیز بلحاظ شرف و منزلت کے اتنی بلند ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سو اسی پر کسی کا ملک نہیں ہوناچاہیے اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں لام ایجاد کے لے ے سے یعنی اللہ نے نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ اللہ نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ موجودات دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اسباب طبعی یا صنعت انسانی کے واسطہ سے ایجاد کیا ہے ۔ اورد وم وہ جنہیں بغیر کسی واسطہ کے پیدا کیا ہے جیسے افلاک اور آسمان وغیرہ اور یہ دوسری قسم پہلی کی نسبت اشرف اور اعلیٰ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کے لئے لعنت اور برا گھر ہے ۔ اور وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے کئے خرابی ہے ۔ میں لا م استحقاق کے معنی دیتا ہے یعنی یہ لوگ لعنت اور ویل کے مستحق ہیں ۔ اور یہ سلام بھی لام ملک کی طرح ہے لیکن لام پال اسی چیز پر داخل ہوتا ہے جو ملک میں حاصل ہوچکی ہو اور لام استحقاق اس پر جو تا حال حاصل تو نہ ہوگی ہو نگر اس پر ستحقاق اس پر جوتا جال حاصل تو نہ ہوئی ہونگر اس پر استحقاق ثابت ہونے کے لحاظ سے حاصل شدہ چیز کی طرح ہو بعض وعلمائے نحو کہا ہے کہ آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ میں لام بمعنی علی ہے ۔ ای علیھم اللعنۃ ( یعنی ان پر لعنت ہے ) اسی طرح آیت کریمہ : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ان میں جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اسکے لئے اتنا ہی وبال ہے ۔ میں بھی لام بمعنی علی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کبھی لام بمعنی الیٰ بھی آتا ہے جیسا کہ آیت بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کا حکم بھیجا ہوگا ۔ میں ہے یعنی اوحی الیھا مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں تو وحی تسخیری ہونے پر متنبہ کیا گیا ہے اور یہ اس وحی کی طرح نہیں ہوتی جو انبیاء (علیہ السلام) کی طرف بھیجی جاتی ہے لہذا لام بمعنی الی ٰ نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] اور ( دیکھو ) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ لام اجل ہے اور سبب اور جانب کے معنی دیتا ہے یعنی تم ان کی حمایت میں مت بحث کرو جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا ۔ اور یہ لا تکن للہ خصیما کے لام کی طرح نہیں ہے کیونکہ یہاں لام مفعول پر داخل ہوا ہے اور معنی یہ ہیں ۔ لاتکن خصیم اللہ کہ تم اللہ کے خصیم یعنی فریق مخالف مت بنو ۔ (3) لا ابتداء جیسے فرمایا : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں ۔۔۔ بڑھ کر ہے ۔ (4) چہارم وہ لام جو ان کے بعد آتا ہے ۔ یہ کبھی تو ان کے اسم پر داخل ہوتا ہے اور کبھی ان کی خبر اور کبھی متعلق خبر پر چناچہ جب اسم خبر سے متاخرہو تو اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] اس میں بڑی عبرت ہے ۔ اور خبر پر داخل ہونے کی مثال جیسے فرمایا :إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] بیشک تمہارا پروردگار تاک میں ہے : إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور یہ لام متعلق خبر پر اس وقت آتا ہے جب متعلق خبر ان کی خبر پر مقدم ہو جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مد ہوش ( ہو رہے ) تھے ۔ ( 5 ) وہ لام جوان مخففہ کے ساتھ آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے ۔ ( 5 ) لام قسم ۔ یہ کبھی اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111]( بلکہ ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ قریب ہے ۔ اور کبھی فعل ماضی پر آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] ( 12 ) ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ۔ اگر یہ لام فعل مستقبل پر آئے تو اس کے ساتھ نون تاکید ثقیلہ یا خفیفہ کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا : ۔ تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کر نا ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] اور تمہارا پروردگار ان سب کو قیامت کے دن ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا ۔ میں لما کالام ان کے جواب میں واقع ہوا ہے ۔ اور لیوفینھم کا لام قسم کا ہے ۔ ( 7 ) وہ لام جو لو کی خبر پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا ۔ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم ۔۔۔۔۔۔ عذاب دیتے ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور آپ کو متوجہ کرنے کے لئے ۔۔۔۔ راعنا کی جگہ انظرنا کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۔ اور کبھی لو کے جواب میں لام محزوف ہوتا ہے جیسے ہے ۔ ( 8 ) وہ لام جو مدعا یا مدعو الیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے مدعو کے لئے یہ مفعوح ہوتا ہے ۔ جیسے یا لذید ۔ اور مدعوالیہ آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے یالذید ۔ ( 9 ) لام امر یہ ابتدا میں آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] مومنوں تمہارے غلام لونڈیاں تم سے اجازت لیا کریں ۔ لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] تمہارا پروردگار ہمیں موت دے دے ۔ اور اگر اس پر داؤ یا فا آجائے تو ساکن ہوجاتا ہے جیسے فرمایا : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] اور فائدہ اٹھائیں ( سو خیر ) عنقریب ان کو معلوم ہوجائیگا ۔ وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے ۔ فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] اور جب اس پر ثم داخل ہو تو اسے ساکن اور متحرک دونوں طرح پڑھنا جائز ہوتا ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں ۔ اور خانہ قدیم یعنی بیت اللہ کا طواف کریں ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے وأَذِنَ : استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق/ 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة/ 279] . ( اذ ن) الاذن اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ { وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ } ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ { فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ استغفار الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ تَّوَّاب والتَّوَّاب : العبد الکثير التوبة، وذلک بترکه كلّ وقت بعض الذنوب علی الترتیب حتی يصير تارکا لجمیعه، وقد يقال ذلک لله تعالیٰ لکثرة قبوله توبة العباد «2» حالا بعد حال . وقوله : وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان/ 71] ، أي : التوبة التامة، وهو الجمع بين ترک القبیح وتحري الجمیل . عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ [ الرعد/ 30] ، إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة/ 54] . التواب یہ بھی اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ جب بندے کی صعنت ہو تو اس کے معنی کثرت سے توبہ کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ یعنی وہ شخص جو یکے بعد دیگرے گناہ چھوڑتے چھوڑتے بالکل گناہ کو ترک کردے اور جب ثواب کا لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو ا س کے معنی ہوں گے وہ ذات جو کثرت سے بار بار بندوں کی تو بہ قبول فرماتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [ البقرة/ 54] بیشک وہ بار بار توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَنْ تابَ وَعَمِلَ صالِحاً فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتاباً [ الفرقان/ 71] کے معنی یہ ہیں کہ گناہ ترک کرکے عمل صالح کا نام ہی مکمل توبہ ہے ۔ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتابِ [ الرعد/ 30] میں اس پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٤) یعنی بحکم خداوندی اس رسول کی اطاعت کی جائے اور اس کے حکم پر ناراضگی کا اظہار نہ ہو۔ مسجد ضرار والے، جنہوں نے مسجد ضرار بنائی اور آپ کے حکم پر منہ بنایا اگر یہ توبہ کے لیے حاضر ہو کر اپنے کاموں سے توبہ کرتے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لیے معافی کی دعا کرتے تو اللہ تعالیٰ توبہ کے بعد ان کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

94.This is to impress upon us that Prophets are not sent so that people may pay lip-service to their Prophethood, and then obey whoever they wish. The purpose of sending Prophets is that people should follow the laws of God as brought and expounded by them rather than laws devised by man, and that they should obey the commands of God as revealed to the Prophets to the exclusion of the commands of others.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :94 یعنی خدا کی طرف سے رسول اس لیے نہیں آتا ہے کہ بس اس کی رسالت پر ایمان لے آؤ اور پھر اطاعت جس کی چاہو کرتے رہو ۔ بلکہ رسول کے آنے کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ زندگی کا جو قانون وہ لے کر آیا ہے ، تمام قوانین کو چھوڑ کر صرف اسی کی پیروی کی جائے اور خدا کی طرف سے جو احکام وہ دیتا ہے ، تمام احکام کو چھوڑ کر صرف انہی پر عمل کیا جائے ۔ اگر کسی نے یہی نہ کیا تو پھر اس کا محض رسول کو رسول مان لینا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اوپر اس منافق کا ذکر تھا جو اپنے مقدمہ کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشی میں لانے پر رضامند نہیں تھا۔ بلکہ اس کو اصرار تھا کہ اس کا مقدمہ کعب بن اشرف کی پیشی میں فیصل ہو۔ اسی ذکر کو پورا کرنے کے لئے اس آیت میں اس زمانے کے عام منافقوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمائی کہ کچھ اس زمانہ پر منحصر نہیں ہے۔ نوح (علیہ السلام) پہلے صاحب شریعت رسول سے لے کر آخر الرسل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک اللہ تعالیٰ نے جتنے رسول بھیجے ہیں ان سب کے حق میں اللہ کا یہی ایک حکم تھا کہ ہر وقت کی امت پر اللہ کے رسول کی فرمانبرداری فرض ہے اس لئے جتنی پچھلی امتوں نے رسولوں کی نافرمانی کی ان پر اللہ کا عذاب آیا۔ اور وہ لوگ طرح طرح کے عذابوں میں گرفتار ہو کر غارت ہوگئے اس واسطے حال کے منافقوں میں سے جس کسی سے ایسی چوک ہوجائے جس کا ذکر اوپر کی آیتوں میں ہے تو ایسے شخص کو اللہ کے رسول کے پاس آن کر خود بھی خالص دل سے توبہ استغفار کرنی چاہیے اور اللہ کے رسول سے بھی اپنے حق میں مغفرت کی دعا کرانی چاہیے تاکہ اپنے رسول کی دعا کی برکت سے اللہ ان پر مہربان ہو کر ان کے گناہ معاف کر دیوے۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے میری فرمانبرداری کی اس نے اللہ کی فرمانبرداری کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی ١۔ یہ حدیث آیت کی ویسی ہی تفسیر ہے جیسے آیت ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ اس آیت کی تفسیر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:64) اذ ظلموا انفسھم۔ جب وہ ظلم کر بیٹھے تھے اپنی جانوں پر جاء وک تمہارے پاس آجاتے۔ فاستغفروا اللہ۔ اللہ سے بخشش طلب کرتے۔ واستغفرلہم الرسول اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لئے بخشش طلب کرتے۔ لوجدوا ۔۔ رحیما۔ جواب شرط۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 اطاعت رسول کی دوبارہ ترغیب دی ہے (رازی) یعنی اللہ کے رسول دنیا میں اس لیے آتے ہیں کہ جمیع امور میں اللہ تعالیٰ کی توفیق واعانت سے ان کی اطاعت کی جائے معلوم ہوا کہ ہر رسول صاحب شریعت ہوتا ہے۔ (ابن کثیر، رازی ) 6 جب ان لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے سے انحراف کر کے معصیت کا ارتکاب کیا ہے تو ان کو چاہیے تھا کہ بجائے حیلہ بازیوں اور سخن سازیوں کے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے اور رسول اللہ ْْﷺ سے بھی اپنے لیے مغفرت کی دعا کر واتے اگر ایسا کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرماتا اور ان پر رحم کرتا (تنبیہ) اس جگہ حافظ ابن کثیر نے ایک بدوی کی حکایت نقل کردی ہے جس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روضئہ مبارک کے پاس آکر یہ آیت پڑھتے ہوئے کہا کہ یا حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سفیع بناتا ہوں اس پر قبر انور کے پاس بیٹھنے والے ایک شخص نے کہا۔ خواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا ہے کہ اس بدوی کو بخش دیا گیا لیکن یہ ایک حکایت ہے جو آیت کی مناسبت سے درج کردی ہے یہ آیت کی تفسیر یا حدیث نہیں ہے الصارم المنکی (ص 238) میں لکھا ہے کہ اس حکایت کی سند نہایت کمزور ہے آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دعائے مغفرت کرائی جاسکتی تھی مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد قبر مبارک سے استشفاع پر استدلال ککسی طرح صحیح نہیں ہے۔ (ترجمان نواب)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ خلاصہ یہ ہوا کہ نفاق چھوڑ کر ایمان لے آئیں چونکہ استغفار موقوف تھا ایمان پر اس لیے ذکر اس کو مستلزم ہوگیا اس کی تصریح کی حاجت نہیں پس ایک شرط تو اس قبول توبہ کی یہ ہے اور دو شرطیں اور بھی آیت میں مذکور ہیں ایک تو حاضری خدمت نبوی دوسرے آپ کا بھی استغفار کرنا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : خطاب کا تسلسل جاری ہے۔ اس میں منافقوں کو توبہ کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے رسول کا مرتبہ اور مقام بیان کرنے کے ساتھ اپنی شفقت و مہربانی کا ذکر فرمایا ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں فرمایا کہ اس کی شان اور مقام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اس میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ملمع سازی یا محض دعو وں کی بنیاد پر رسول کی ذات کو خوش کرلیا جائے تو اس سے کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ جب تک حقیقتاً قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق آپ کی اطاعت نہ کی جائے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی لاتعداد رحمتوں کا تعلق ہے وہ اس قدر بےکنار ہیں کہ جب بھی کوئی شخص خواہ اس کا ماضی کتنا ہی گھناؤنا اور منافقانہ کیوں نہ ہو۔ اخلاص نیت کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ کے رسول کے تابع کرکے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا تو وہ اپنے رب کو شفیق و مہربان پائے گا۔ یہی بات منافقوں کو کہی گئی کہ کتنا ہی بہتر ہوتا کہ وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے اپنی بخشش کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی درخواست کرتے۔ بلا شبہ اللہ کو اپنے بارے میں معاف کرنے والا اور انتہائی مہربان پاتے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مفسر نے اپنے عقائد کی حمایت میں قرطبی کے حوالے سے ایک واقعہ ذکر کیا ہے جو نہ صرف قرآن و سنت کے نقطۂ نظر کے خلاف ہے بلکہ تاریخی حقائق بھی اس کی تائید نہیں کرتے وہ لکھتے ہیں : ” سیدنا حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے تین روز بعد ایک اعرابی ہمارے پاس آیا اور فرط رنج و غم سے مزار پرانوار پر گرپڑا اور خاک پاک کو اپنے سر پر ڈالا اور عرض کرنے لگا۔ اے اللہ کے رسول ! جو آپ نے فرمایا ہم نے سنا جو آپ نے اپنے رب سے سیکھا وہ ہم نے آپ سے سیکھا۔ اسی میں یہ آیت بھی ہے ” وَلَوْأَنَّھُمْ إِذْظَّلَمُوْا “ الخ میں نے اپنی جان پر بڑے بڑے ستم کیے ہیں اب آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں۔ اے سراپائے شفقت و رحمت ! میری مغفرت کے لیے دعا فرمایئے۔ فَنُوْدِیَ مِنَ الْقَبْرِ أَنَّہٗ قَدْ غُفِرَلَکَ ۔ ” تو مرقد منور سے آواز آئی تجھے بخش دیا گیا۔ “ قرآن مجیدنے دو ٹوک انداز میں فرمایا ہے وَمَا یَسْتَوِی الْأَحْیَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّہَ یُسْمِعُ مَنْ یَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُور[ فاطر :22] کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی قبر والوں کو سنا نہیں سکتے چہ جائیکہ ایک اعرابی آپ کو آکر کوئی فریاد سنائے اور آپ جواب دیں۔ اگر یہ عقیدہ کسی لحاظ سے بھی ثابت ہوتا یا اس کی ذرّہ برابر گنجائش ہوتی تو آپ کی وفات کے وقت جب آپ کا جسدِ مُبارک موجود تھا تو صحابہ میں تین بڑے اختلافات ابھر کر سامنے آئے۔ آپ کو کہاں دفن کیا جائے ؟ خلافت کے لیے کون سی شخصیت زیادہ موزوں ہے ؟ یہاں تک کہ آپ کے فوت ہونے پر بھی دو نقطۂ نظر تھے۔ حضرت عمر (رض) کی رائے تھی کہ ابھی مدینہ میں منافق موجود ہیں اور اسلام کا غلبہ بھی پوری طرح نہیں ہوا لہٰذا آپ کو موت نہیں آئی۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے حضرت عمر (رض) کے موقف کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوچکے ہیں پھر انہوں نے اپنے خطبہ میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے : (مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْمَاتَ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُاللّٰہَ فَإِنَّ اللّٰہَ حَيٌّ لَایَمُوْتُ ) ” تم میں سے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا یقینًا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پاگئے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو یقینًا اللہ تعالیٰ زندہ ہے اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ “ پھر اس آیت کی تلاوت کی : (وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّرَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُالخ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب الدخول علی میت الخ ] ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ایک رسول ہیں ان سے پہلے بھی رسول گزر گئے۔ “ یاد رہے کسی صحابی نے یہ بات نہیں فرمائی کہ بھائیو کیوں جھگڑتے ہو چلو آپ کے جسد اطہر سے عرض کرتے ہیں۔ حالانکہ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسد اطہر ابھی قبر سے باہرجلوہ نما تھا۔ مسائل ١۔ رسول کی بعثت کا مقصد اس کی اطاعت کرنا ہے۔ ٢۔ لوگوں کو ہر دم اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرتے رہنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نہایت ہی مہربان اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش کی دعوت : ١۔ منافق اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگنے سے انحراف کرتے ہیں۔ (المنافقون : ٥) ٢۔ گناہ اللہ ہی بخشتا ہے۔ (آل عمران : ١٣٥) ٣۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر : ٥٣) ٤۔ انبیاء کی دعوت اللہ سے بخشش مانگنا ہے۔ (نوح : ١٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ کا اعلان کہ میں بخشنے والا ہوں۔ (الحجر : ٤٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جائوک فاستغفروا اللہ واستغفرلھم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما “۔ ” (انہیں بتاؤ کہ) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لئے بھیجا ہے کہ اذن خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے ۔ اگر انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب وہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تو تمہارے پاس آجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لئے معافی کی درخواست کرتا ‘ تویقینا اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے ۔ (٤ : ٦٤) یہ ایک وزن دار حقیقت ہے ۔ رسول محض واعظ نہیں ہوتا کہ وہ ایک تقریر کرے اور چلا جائے اور اس کی تقریر ہوا میں تحلیل ہوجائے ۔ اس کی بات کے اندر اور اس کی پشت پر کوئی قوت نافذہ نہ ہو جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں جو اس دین کے مزاج اور رسالت کے مزاج کو دھوکے سے بدلنا چاہتے ہیں یا جس طرح ان لوگوں کی رائے ہے جو سرے سے الدین کے لفظ کا مفہوم تک ہی نہیں جانتے ۔ بیشک دین نظام حیات کا نام ہے ‘ واقعی اور عملی نظام حیات کا نام جس کی اپنی انتظامی عملی اور قانونی ہیئت ہوتی ہے اور جس کے اپنے انداز اور اپنی اقدار ہوتی ہیں ۔ اس کے اپنے اخلاق وآداب ہوتے ہیں اور اس کے اندر مراسم عبودیت اور دینی شعائر ہوتے ہیں ۔ یہ تمام باتیں یہ تقاضا کرتی ہیں کہ رسالت کے ساتھ حاکمیت بھی ہو ۔ ایک نظام مملکت بھی ہو جو اس نظام اور دین کو نافذ کرے اور عوام الناس اس حکومت کے مطیع فرمان ہوں جن کے اندر یہ نظام نافذ ہو۔ یہ اللہ کا وہ نظام اور دین کو نافذ کرے اور عوام الناس اس حکومت کے مطیع فرماں ہوں جن کے اندر یہ نظام نافذ ہو ۔ یہ اللہ کا وہ نظام ہے جس کے تصرف میں اللہ نے پوری زندگی دینے کا ارادہ کیا ہے اس لئے کہ اللہ نے جتنے رسول بھی بھیجے ہیں صرف اس لئے بھیجے ہیں کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے پس ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت شمار ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو اس لئے نہیں بھیجا کہ لوگ ان سے کچھ وجدانی تاثرات لیں اور بعض امور کا عقیدہ رکھیں یا ان سے کچھ مراسم عبودیت سیکھ لیں اور بس ، فہم دین کے بارے میں یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے ۔ دین کا یہ فہم اس حکمت کے مطابق نہیں ہے جس کے مطابق اللہ نے رسولوں کو بھیجا ہے اور وہ حکمت اور مقصد صرف یہ ہے کہ واقعی اور عملی زندگی کے اندر اسلامی نظام نافذ کیا جائے ۔ ورنہ وہ ” دین “ تو کس قدر آسان دین ہے جس میں رسولوں کے فرائض صرف اس قدر ہوں کہ وہ اسٹیج پر کھڑے ہو کر تقریر کریں اور چلے جائیں ۔ جس سے مذاق کرنے والے مذاق کریں اور حقیر سمجھنے والے حقارت کی نظر سے دیکھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ اس حکمت کا مظہر رہی ہے ۔ اس میں دعوت وتبلیغ تھی ‘ وہ نظام زندگی اور اسلامی حکومت تھی ‘ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد تاریخ خلافت تھی ۔ یہ خلافت شریعت کی قوت اور نظام کے بل بوتے پر قائم تھی اور اس نظام کا قیام مقصد اصلی تھا اور شریعت کا نفاذ اس خلافت کا مقصد تھا تاکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت دائما ہوتی رہے اور اللہ کا وہ ارادہ پورا ہو جس کے لئے اس نے رسول مبعوث فرمائے ۔ اس کے سوا کوئی اور صورت حال نہیں ہے جسے ہم اسلام کہہ سکیں یا اسے ہم دین کہہ سکیں ۔ اگر اسلام اور دین ہوگا تو اس میں رسول کی اطاعت بشکل نظام زندگی ہوگی ‘ چاہے اس اطاعت کی صورتیں قدرے مختلف کیوں نہ ہوجائیں لیکن اصلیت ایک ہونا چاہئے ۔ اس کے بغیر اسلام اور دین کی حقیقت نہیں بائی جاسکتی ۔ اسلامی نظام کی اطاعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نظام کو بروئے کار لانے ‘ اللہ کی شریعت کے مطابق عدالت کرنے اور رسول اللہ نے اللہ کی جانب سے جس چیز کی تبلیغ کی اس کی اطاعت کرنے اور صرف اللہ وحدہ کو حکم سمجھنے مطابق مفہوم ۔ (لا الہ الا اللہ) اللہ کے سوا کسی اور کو حاکمیت میں اللہ کا شریک نہ کرنے میں ہے جس میں قانون سازی کا حق اہم ترین حق ہے ۔ پھر طاغوت کی عدالت میں مقدمات نہ لے جانا چائیں خواہ معمولی مقدمہ ہو یا بڑا ہو ‘ اور جن مسائل میں کوئی نقص نہ ہو ‘ ان میں اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رجوع کرنا ۔ خصوصا ایسے حالات میں جو دور جدید میں نئے نئے درپیش ہوں اور ان میں اختلاف رائے ہو ۔ جن لوگوں نے طاغوت کے پاس جا کر اپنے مقدمات کے فیصلے کرانے کی سعی کی ہے اور اسلامی منہاج سے دور ہوگئے ہیں ‘ ان کیلئے اب بھی موقع ہے کہ وہ واپس آجائیں جس طرح حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں منافقین کے لئے موقع تھا اور ان کو اللہ تعالیٰ ترغیب دے رہے تھے ۔ (آیت) ” ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جآء وک فاستغفروا اللہ واستغفرلھم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما (٤ : ٦٤) ” اگر انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب وہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تو تمہارے پاس آجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لئے معافی کی درخواست کرتا ‘ تو یقینا اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے ۔ “ کوئی جس وقت بھی توبہ کرے اللہ بخشنے والا ہے ‘ کوئی کسی وقت بھی لوٹے اللہ رحیم وکریم ہے ۔ یہ صفات اللہ تعالیٰ اپنے لئے ذکر کرتے ہیں ‘ جو لوگ اس کی بارگاہ تک واپس آجاتے ہیں ‘ اس سے معافی مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرتے ہیں اور ان پر رحمت فرماتے ہیں ۔ ابتداء میں اس آیت کا اطلاق جن لوگوں پر تھا ‘ ان کو رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے طلب مغفرت کے مواقع حاصل تھے ۔ اگرچہ اب یہ مواقع نہیں ہیں لیکن اللہ کی جانب سے توبہ ومغفرت کا دروازہ اب بھی کھلا ہے۔ اللہ کا وعدہ قائم ہے ۔ اللہ کبھی اپنے وعدے کو نہیں توڑتے ۔ پس جس شخص کا ارادہ ہو وہ آگے بڑھے ‘ جس کا عزم ہے وہ آگے آئے ۔ اب آخری اور فیصلہ کن انداز کی بات آتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ قسم اٹھاتے ہیں ‘ اپنی ذات کی قسم کہ کوئی مومن اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اپنے مقدمات فیصلے کے لئے نہیں لے جاتا ۔ اس کے بعد جب رسول فیصلہ کر دے تو وہ اس فیصلے کو تسلیم کر کے اس پر دل سے راضی نہیں ہوجاتا اور اس کی حالت یہ نہیں ہوجاتی کہ اس کے دل میں نہ تو کوئی تلخی ہے اور نہ اس کے دل میں کوئی تردد ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول کی رسالت اطاعت ہی کے لیے ہے : جن لوگوں نے اپنے عمل کی تاویلیں پیش کیں اور جھوٹے عذر سامنے لاکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوش کرنے لگے، ان کے لیے مزید تنبیہ فرمائی اور توبہ و استغفار کی طرف متوجہ فرمایا۔ ارشاد فرمایا (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ ) کہ ہم نے جو بھی کوئی رسول بھیجا اسی لیے بھیجا کہ بحکم خداوندی اس کی اطاعت کی جائے۔ رسول کا کام اللہ کے احکام پہنچانا ہے اور رسول کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہے اور رسول کی نافرمانی اللہ ہی کی نافرمانی ہے۔ جن لوگوں نے طاغوت کی طرف مقدمہ لے جانے کا ارادہ ظاہر کیا اور پھر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرما دیا اس سے راضی نہ ہوئے اور حضرت عمر (رض) کے پاس پھر سے مقدمہ پیش کرنے کی ضد کی اس میں سراسر اللہ کے رسول کی اور اللہ کی نافرمانی ہے۔ نافرمانی کے باعث بشر منافق تو مقتول ہوگیا لیکن اس کے متعلقین نے جو اس کے عمل کی تاویل کی اور عمل شرکو عمل خیر بنانے کی کوشش کی ان لوگوں نے بھی اللہ کی نافرمانی کی۔ ان کو چاہیے تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور آپ بھی ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا فرماتے تو اس طرح ان کی مغفرت اور بخشش کی صورت بن جاتی۔ توبہ صحیح کے بعد اللہ تعالیٰ مغفرت فرما دیتا ہے۔ خواہ تنہائی میں توبہ کی جائے یا مجمع میں۔ لیکن خاص طور سے ان لوگوں کے لیے یہ فرمانا کہ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اللہ سے استغفار کرتے اور آپ بھی ان کے لیے استغفار کرتے تو اللہ کو تو اب اور رحیم پالیتے۔ اس سے جو خدمت عالی میں حاضر ہونے کی شرط مفہوم ہو رہی ہے اس کے بارے میں بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ چونکہ انہوں نے آپ کے منصب نبوت پر حملہ کیا اور آپ کے فیصلے کو نظر انداز کرنے کا تاویلوں کے ذریعہ جواز نکالا اور آپ کو دکھ پہنچایا اس لیے ان کے جرم کی توبہ کے لیے یہ شرط لگائی گئی کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے توبہ کریں اور یہ بھی کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں۔ پوشیدہ گناہ کی توبہ پوشیدہ طریقے پر اور اعلانیہ گناہ کی توبہ اعلانیہ طور پر ہو یہ توبہ کا اصول ہے۔ ان کی حرکت معروف و مشہور ہوگئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان سے دکھ پہنچ گیا لہٰذا یہ ضروری ہوا کہ بار گاہ عالی میں حاضر ہو کر اللہ کے حضور توبہ کریں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46 رسولوں کے بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے مگر یہ منافقین اطاعت کے بجائے نافرمانی پر تلے ہوئے ہیں۔ وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ جَآءُوْکَ جونہی ان سے یہ گناہ صادر ہوا تھا کہ انہوں نے پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ سے اعراض کیا اگر اسی وقت وہ اس پر نادم ہوجاتے اور پیغمبر (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہو کر توبہ کرتے اور اللہ تعالیٰ سے اس گناہ کی معافی مانگتے اور آپ بھی ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے قبولیت توبہ اور معافی کی سفارش فرماتے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما لیتا اور ان کا گناہ معاف کردیتا۔ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمُ الرَّسُوْل وسئل اللہ تعالیٰ ان یقبل توبتھم و یغفر ذنوبھم (روح ج 5 ص 70) ۔ اس آیت کا تعلقحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے اسی واقعہ سے ہے اور آپ کی قبر سے استمداد و استشفاع جائز نہیں جیسا کہ حضرت مولا شاہ محمد اسحاق نے شاہ عبدالحق محدث دہلوی ایک عبارت سے پیدا ہونیوالی غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :۔” حق آنست کہ انکار فقہاء عام است از آنکہ استمداد از قبور انبیاء کنند یا از قبو رغیر ایشاں ہمہ جائز نیست چناچہ از عبارت دیگر کتب فقہاء کہ دریں جواب ایرادہ کردہ می شود واضح خواہد گردید (مسائل اربعین مسئلہ 40 ص 43) ”۔ ترجمہ : اور حق یہ ہے کہ فقہاء کا انکار عام ہے۔ استمداد خواہ انبیاء (علیہم السلام) کی قبروں سے ہو خواہ غیر انبیاء کی قبروں سے سب ناجائز ہے جیسا کہ فقہاء کرام کی دوسری کتابوں کے حوالوں سے جو ہم اسی سوال کے جواب میں ذکر کریں گے واضح ہوجائے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi