Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 70

سورة النساء

ذٰلِکَ الۡفَضۡلُ مِنَ اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیۡمًا ﴿۷۰﴾٪  6

That is the bounty from Allah , and sufficient is Allah as Knower.

یہ فضل اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور کافی ہے اللہ تعالٰی جاننے والا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّهِ ... Such is the bounty from Allah, meaning, from Allah by His mercy, for it is He who made them suitable for this, not their good deeds. ... وَكَفَى بِاللّهِ عَلِيمًا and Allah is sufficient as All-Knower, He knows those who deserve guidance and success.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللہِ۝ ٠ۭ وَكَفٰى بِاللہِ عَلِــيْمًا۝ ٧٠ۧ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر ...  فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ كفى الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل . ( ک ف ی ) الکفایۃ وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٠ (ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِ ط) ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے ان پر کہ جنہیں آخرت میں انبیاء کرام ‘ صدیقین عظام ‘ شہداء اور صالحین کی معیت حاصل ہوجائے۔ اس کے لیے دعا کرنی چاہیے : وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ اے اللہ ہمیں موت دیجیو اپنے وفادار ونیکوکار بندوں کے ساتھ ! (وَکَفٰی باللّٰہِ ع... َلِیْمًا ) یعنی کون کس استعداد کا حامل ہے اور کس قدر و منزلت کا مستحق ہے ‘ اللہ خوب جانتا ہے۔ حقیقت جاننے کے لیے بس اللہ ہی کا علم کافی ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

45: یعنی وہ کسی کو یہ فضیلت معاذ اللہ بے خبری کے ساتھ نہیں دیتا بلکہ ہر شخص کے عملی حالات سے باخبر ہو کر دیتاہے

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی اطاعت واخلاص پر رفاقت کا درجہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل و کرم ہے اور لوگوں کی حالت معلوم ہے (رازی) اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا حکم فرمایا اور اس کی ترغیب کے سلسلہ میں یہ بھی بتایا کہ اطاعت سے انبیا صدیقین شہدا اور صالحین کی رفاقت حاصل ہو... گی اب اس آیت میں جہاد کا حکم فرمایا ہے جو سب سے مشکل طاعت ہے اور منافقین کے بارے میں محتاط رہنے کا حکم دیا ہے۔ (رازی )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ اب احکام جہاد کا ذکر شروع ہوتا ہے یہاں سے چھ رکوع تک اسی مضمون کے متعلقات چلے گئے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِ کہ یہ مہربانی اللہ کی طرف سے ہے کہ اس نے اپنی اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی توفیق دے دی اور اسی میں لگائے رکھا۔ یہاں تک کہ آخرت میں ان حضرات کا ساتھ نصیب ہوا جو اللہ کے مقرب بندے ہیں۔ آخر میں فرمایا (وَ کَفٰی باللّٰہِ عَلِیْمًا) یعنی ال... لہ تعالیٰ جاننے والا کافی ہے، اسے ہر عمل کا پتہ ہے اور وہ عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کے مطابق جزا و سزا دے گا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور جب یہ ایسا کرتے تو اس وقت ہم آخرت میں اپنی خاص رحمت سے ان کو بہت بڑا اجر عطا کرتے اور یقینا ہم صحیح راستے پر ان کو چلاتے اور ان کو سیدھا راستہ بتا دیتے جو جنت اور جناب قدس تک پہنچتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اور اللہ و رسول کا حکم مانے گا تو یہ لوگ جنت میں ان ح... ضرات کے ہمراہ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل اور کامل انعام فرمایا یہ حضرات انعم اللہ علیہم انبیاء ہیں اور صدیقین ہیں اور شہدا ہیں اور صلحاء یعنی نیک لوگ ہیں اور یہ حضرات مذکورہ جس کے رفیق ہوں تو بہت اچھے اور بڑے خوب رفیق ہیں، یہ ان حضرات کی معیت ورفاقت کا میسرآجانا اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک خاص فضل ہے اور اللہ تعالیٰ بندوں کے احوال کو جاننے والا اور خبر رکھنے والا کافی ہے۔ (تیسیر) اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ ولانا کتبنا علیھم میں عام لوگ مراد لئے جائیں تو زیادہ مناسب ہے اگرچہ ہم نے دونوں باتوں کی رعایت رکھی ہے، ترجمہ میں علیہم کا ترجمہ منافق کیا ہے اور تیسیر میں لوگوں کیا ہے اور یہ ہم نے محض مفسرین کے دونوں اقوال کی رعایت سے کیا ہے اگر علیہم کا مرجع منافقین ہوں تب تو وہی شرح ہوگی جو حضرت شاہ صاحب نے فرمائی ہے اور الا قلیل منھم کا مطلب یہ ہوگا کہ ان میں سے بہت تھوڑے لوگ مسلمان ہو کر ان احکام کی پابندی کرتے اور اگر علیہم کا مرجع عام لوگ ہوں۔ جیسا کہ ہم نے تیسیر میں اختیار کیا ہے تو مطلب اس طرح ہوگا اگر ہم لوگوں پر اس قسم کے احکام فرض کردیتے تو سوائے چند مومنین کاملین کے اور کوئی ان میں سے ان احکام کی تعمیل نہ کرتا اس صورت میں یہ ایک درمیانی جملہ ہوگا۔ بہرحال ! ولوانھم کا مرجع بالاتفاق منافقین ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اگر یہ منافقین ان باتوں کی پابندی کرتے جن کی ان کو نصیحت کی جا رہی ہے اور اس پر عمل کرتے عمل کی برکت سے ان کو بہتری اور تثبیت قلب میسر ہوجاتی جو کامل اطاعت کا ثمر ہ ہے تو ہم ان کو علاوہ ان کے اعمال کے خاص اپنے پاس سے اجر عظیم عطا فرماتے اور سیدھی راہ پر ان کو چلاتے اور جنت میں ان کو پہنچا دیتے اور جنت میں پہنچانے کے لئے ان کی رہنمائی کرتے۔ خلاصہ یہ کہ کامل اطاعت و فرمانبرداری کی برکت سے دنیا میں خیر و تثبیت حاصل ہوتی اور آخرت میں ان کو اپنے فضل خاص سے نوازا جاتا اور ان کو جنت میں داخل کیا جاتا۔ ان منافقین کی اصلاح کا طریقہ اور ان کے نفاق کا علاج بیان فرمانے کے بعد عام مسلمانوں کو عمل صالح اور اللہ و رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کی ترغیب فرمائی اور یہ بتایا کہ اگر کسی کو کمال اطاعت میسر نہ بھی ہو لیکن احکام ضروریہ کی بجا آور ی میں کوتاہی نہ کرتا ہو اور لالہ و رسول کی اطاعت بجا لاتا ہو تو اس کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے یہ مرتبہ عنایت فرمائیں گے کہ بڑے لوگوں کی اس کو مغیت ورفاقت میسر ہوجائے گی اور یہ بڑے لوگ جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنا انعام کیا ہے، انبیاء اور صدیق اور شہداء اور صلحاء ہیں اور یہی وہ حضرات ہیں جن کو سورة فاتحہ میں صراط الذین انعمت علیھم فرمایا تھا اگرچہ صدیق اور صالح نبی سے عام ہے لیکن جب ابنیاء کا ذکر بھی آگیا تو معلوم ہوا صدیقین اور صالحین سے مراد غیر انبیاء ہیں یعنی نبی اور وہ لوگ جو نبی تو نہیں ہیں مگر صدیق ہیں شہد ہں یا صالح اور نیک فطرت لوگ ہیں ان کی معیت ورفاقت ان اہل طاعت کی میسر ہوگی جو ان سے کم درجے کے ہوں گے اور چونکہ ان کے اعمال ان لوگوں کے ہم پلہ نہ ہوں گے ورنہ یہ بھی ان چاروں قسموں میں سے کسی قسم میں داخل ہوجاتے۔ اس لئے فرمایا ذلک و الفضل من اللہ کہ اگرچہ ان کے اعمال انعم اللہ علیہم جیسے نہ ہوں گے تب بھی اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل خاص اور اپنی مہربانی سے ان بزرگوں کی معیت ورفاقت نصیب کر دے گا اور یہ لوگ با اعتبار رفاقت و معیت بڑے اچھے لوگ ہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں نبی وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آوے یعنی فرشتہ ظاہر میں پیغام کہہ جاوے اور صدیق وہ کہ جو وحی میں آوے ان کا جی آپ ہی اس پر گواہی دے اور شہید وہ جن کو پیغمبر کے حکم پر ایسا صدق آیا کہ اس پر جان دیتے ہیں اور نیک بخت وہ جن کی طبیعت نیکی ہی پر پیدا ہوئی ہے تو جو لوگ ایسے نہیں لیکن حکم برداری میں لگ جاتے ہیں اللہ ان کو بھی ان کے ساتھ گنے گا۔ (موضح القرآن) ابن ابی حاتم نے مسروق سے مرسلاً روایت کی ہے کہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کو آپ کی جدائی بن نہیں آتی لیکن جب آپ کی وفات ہوجائے گی تو آپ کسی اور مقام پر ہوں گے اور ہم کسی اور مقام پر ہوں گے تو جنت میں ہمارے اور آپ کے درمیان جدائی ہوجائے گی۔ سعید بن جبیر کی روایت میں ہے کہ ایک انصاری حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ کچھ غمگین تھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے دریافت فرمایا کہ تو غمگین کیوں ہے اس نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے ایک ہی غم کھائے جاتا ہے یہاں ہم آپ کی خدمت میں آتے ہیں آپ کی صورت دیکھتے ہیں آپ کے پاس بیٹھتے ہیں آپ کل انبیاء (علیہم السلام) کے ہمراہ ہوں گے اور ہم آپ کے دیدار سے محروم ہوجائیں گے مجھ کو یہ غم مارے ڈالتا ہے۔ اسی قسم کے اور بہت سے واقعات ہیں جو کتب احادیث میں مفصلاً مذکور ہیں اسی میں ربیعہ بن کعب کا واقعہ ہے حضرت ثوبان کا واقعہ اور بات یہ ہے کہ ایسا کون سا مسلمان ہوگا جس کی یہ تمنا نہ ہوگی کہ اس کو ان لوگوں کی رفاقت میسر نہ ہو، لہٰذا بہ کثرت لوگوں نے اس قسم کی آرزو کا اظہار کیا ہوگا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس آیت کے نزول سے مسلمانوں میں ایک خاص قسم کی مسرت کا اظہار کیا گیا اسی سلسلے میں وہ مشوہر روایت بھی ہے جس کو ابن کثیر نے روایت کیا ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک شخص ایک قوم کو دوست رکھتا ہے مگر اس قوم کے مانند اس کے اعمال نہیں ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا المرمع من احب یعنی آدمی جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ہمراہ ہوگا۔ آیت میں جس معیت کا اظہار کیا گیا ہے اس سے مراد ان درجات کا حصول نہیں ہے جو انعم اللہ علیہم کو حاصل ہوں گے ورنہ فاضل اور مفضول میں مساوات لازم آجائے گی بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بڑے لوگ اپنے مقامات سے اتر کر ان کے پاس آیا کریں گے اور جنت کے باغوں میں ان کے پاس بیٹھیں گے جیسا کہ ابن جریر نے نقل کیا ہے کہ اس آیت کو سن کر رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اوپر والے اور بلند مرتبہ والے لوگ نیچے والوں کے پاس آیا کریں گے اور جنت میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر کیا کریں گے اور اس کی تعریف کریں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نیچے والوں کو ان کی خدمت میں حاضر ہونے ان کے پاس بیٹھنے اور ان کی زیارت سے مشر ہونے کی اجازت ہو۔ (واللہ اعلم) بہرحال ! صورت وہاں جو کچھ بھی ہو جن لوگوں کو جدائی اور ترک رفاقت کا خطرہ تھا ان کا خطرہ اس آیت نے دور کردیا اور یہ بات معلوم ہوگئی کہ جو لوگ اللہ اور رسول کی پوری پوری اطاعت نہیں کرتے مگر اطاعت و فرماں برداری کی دھن میں لگے رہتے ہیں اور نیک بندوں سے محبت رکھتے ہیں وہ بھی نیک لوگوں کی رفاقت سے محروم نہ رہیں گے گو اس مرتبہ کے نہ ہوں۔ و کفی باللہ علیما کا یہ مطلب ہے کہ کون اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہے اور کون کسی سے سچی اور واقعی محبت کرتا ہے اور کون کسی کے نقش قدم پر چلتا یا چلنے کی کوشش کرتا ہے اس بات کا جاننے والا اللہ تعالیٰ کافی اور بس ہے اس کو سب کی حالت کا علم ہے اور وہ با اعتبار علیم ہونے کے کافی ہے یہاں تک مختلف لوگوں کا اور مختلف اعمال کا بیان تھا۔ اب آگے اعمال کے سلسلے میں جہاد کا بیان ہوتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب علیما پر حاشیہ لکھتے ہیں آگے سے ذکر ہے جہاد کا (موضح القرآن) (تسہیل)  Show more