Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 72

سورة النساء

وَ اِنَّ مِنۡکُمۡ لَمَنۡ لَّیُبَطِّئَنَّ ۚ فَاِنۡ اَصَابَتۡکُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ قَالَ قَدۡ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیَّ اِذۡ لَمۡ اَکُنۡ مَّعَہُمۡ شَہِیۡدًا ﴿۷۲﴾

And indeed, there is among you he who lingers behind; and if disaster strikes you, he says, " Allah has favored me in that I was not present with them."

اور یقیناً تم میں بعض وہ بھی ہیں جو پس و پیش کرتے ہیں ، پھر اگر تمہیں کوئی نقصان ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان کے ساتھ موجود نہ تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِنَّ مِنكُمْ لَمَن لَّيُبَطِّيَنَّ ... There is certainly among you he who would linger behind. Mujahid and others said, "this Ayah was revealed about the hypocrites." Muqatil bin Hayyan said that, لَّيُبَطِّيَنَّ (linger behind) means, stays behind and does not join Jihad. It is also possible that this person himself lingers behind, while luring others away from joining Jihad. For instance, Abdullah bin Ubayy bin Salul, may Allah curse him, used to linger behind and lure other people to do the same and refrain from joining Jihad, as Ibn Jurayj and Ibn Jarir stated. This is why Allah said about the hypocrite, that when he lingers behind from Jihad, then: ... فَإِنْ أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ ... If a misfortune befalls you, death, martyrdom, or - by Allah's wisdom - being defeated by the enemy. ... قَالَ قَدْ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيَّ إِذْ لَمْ أَكُن مَّعَهُمْ شَهِيدًا he says, "Indeed Allah has favored me that I was not present among them." meaning, since I did not join them in battle. Because he considers this one of Allah's favors on him, unaware of the reward that he might have gained from enduring war or martyrdom, if he was killed.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 یہ منافقین کا ذکر ہے۔ پس و پیش کا مطلب، جہاد میں جانے سے گریز کرتے اور پیچھے رہ جاتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠١] یہ خطاب منافقوں کے لیے ہے اور جنگ کے دوران ان کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو دیدہ دانستہ اور حیلوں بہانوں سے جہاد پر نکلنے میں دیر کرتے اور پیچھے رہ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر اگر اس سفر جہاد میں مسلمانوں کو کچھ تکلیف پہنچے تو بڑے خوش ہوتے اور کہتے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ میں پیچھے رہ گیا۔ ورنہ مجھے بھی وہی دکھ اٹھانا پڑتا جو دوسرے مسلمانوں نے اٹھایا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یہ مسلمانوں میں منافقوں کے کردار کا تذکرہ ہے، یعنی ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو دیدہ و دانستہ اور حیلوں بہانوں سے جہاد پر نکلنے میں دیر کرتے ہیں اور پیچھے رہ جانے کی کوشش کرتے ہیں، پھر اگر اس سفر جہاد میں مسلمانوں کو کچھ تکلیف پہنچے تو بڑے خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ میں پیچھے رہ گیا، ورنہ مجھے بھی وہ دکھ اٹھانا پڑتا جو دوسرے مسلمانوں نے اٹھایا ہے اور اگر مسلمانوں کو فتح و خوشی نصیب ہو اور غنیمت کا مال ہاتھ لگے تو حسرت سے کہتے ہیں کہ اگر ہم بھی ان میں شامل ہوتے تو ہمارا بھی کام بن جاتا۔ یہ جملہ وہ اس انداز سے ادا کرتے جیسے پہلے ان کا اور مسلمانوں کا کوئی تعلق تھا ہی نہیں۔ ان دونوں صورتوں میں انھیں محض دنیاوی تکلیف اور دنیاوی مفادات ہی کا احساس ہوتا ہے، اخروی زندگی یا رضائے الٰہی سے انھیں کبھی غرض نہیں ہوتی اور یہی ان کے منافق ہونے اور اللہ اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے کی دلیل ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

2. Seen outwardly, the words of the verse 72 (... وَإِنَّ مِنكُمْ ) seem to suggest that this too is addressed to the believers, although the char¬acteristics described later on cannot be taken to be those of the believers. Therefore, al-Qurtubi says that they signify hypocrites. Since, they were the ones who used to claim being Muslims, at least outwardly. This is why they have been identified as a group from among the believers.

٢۔ وان منکم الخ اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی خطاب مؤمنین سے ہے، حالانکہ آگے جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ مؤمنین کی نہیں ہو سکتیں، اس لئے علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد منافقین ہیں، وہ چونکہ ظاہراً مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اس لئے خطاب میں ان کو مؤمنین کی ایک جماعت کہا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَّيُبَطِّئَنَّ۝ ٠ۚ فَاِنْ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَۃٌ قَالَ قَدْ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيَّ اِذْ لَمْ اَكُنْ مَّعَھُمْ شَہِيْدًا۝ ٧٢ بطؤ البُطْءُ : تأخر الانبعاث في السیر، يقال : بَطُؤَ وتَبَاطَأَ واستبطأ وأَبْطَأَ ، فَبَطُؤَ إذا تخصص بالبطء، وتَبَاطَأَ تحرّى وتكلّف ذلك، واستبطأ : طلبه، وأَبْطَأَ : صار ذا بطء ويقال : بَطَّأَهُ وأَبْطَأَهُ ، وقوله تعالی: وَإِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَيُبَطِّئَنَّ [ النساء/ 72] أي : يثبّط غيره . وقیل : يكثر هو التثبط في نفسه، والمقصد من ذلک أنّ منکم من يتأخر ويؤخّر غيره . ( ب ط ء ) البطوء ( ک) کے معنی چلنے میں دیر لگانے اور سستی کرنے کے ہیں اور یہ باب کرم وتفاعل واستفعال وافعال سے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن بطوء ( ک ) کے معنی اس وقت بولتے ہیں جب دیر لگانے کا عادی ہوجائے اور تباطاء کے معنی میں بتکلف دیر کرنا اور اسنقعال میں طلب کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ ائطاء ( افعال ) سست رفتاری کے ساتھ متصف ہونا ۔ نیز بطاءہ وابطاہ ( متعدی ) موخر کرنا اور آیت کریمہ : وَإِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَيُبَطِّئَنَّ [ النساء/ 72] اور تم ہیں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو ( عمدا ) دیر لگاتے ہیں ۔ میں لیبطئن کے معنی دوسروں سے دیر لگوانا کسے ہیں اور بعض نے اس کے معنی بہت زیادہ سستی کرنا بھی لکھے ہیں حاصل یہ ہے حاصل یہ ہے کہ بعض تم میں سے خود بھی دیر لگاتے ہیں اور دوسروں سے بھی دیر لگواتے ہیں ۔ ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٢) نیزاہل ایمان کے اندر عبداللہ بن ابی منافق جیساشخص بھی ہے، جس کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکلنا بہت مشکل ہے اور وہ تمہاری پریشانیوں کا ہر وقت منتظر رہتا ہے، اگر مسلمانوں کے لشکر کو کوئی حادثہ اور شکست وغیرہ پیش آتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اللہ کی طرف سے مجھ پر بڑا احسان ہوا کہ میں اس لشکر میں شریک نہیں تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٢ (وَاِنَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَّیُبَطِّءَنَّ ج) حکم ہوگیا ہے کہ جہاد کے لیے نکلنا ہے ‘ فلاں وقت کوچ ہوگا ‘ لیکن وہ تیاری میں ڈھیل برت رہے ہیں اور پھر بہانہ بنا دیں گے کہ بس ہم تو تیاری کر ہی رہے تھے اب نکلنے ہی والے تھے۔ اور وہ منتظر رہتے ہیں کہ جنگ کا فیصلہ ہوجائے تو اس وقت ہم کہیں گے کہ ہم بس نکلنے ہی والے تھے کہ یہ فیصلہ ہم کو پہنچ گیا۔ (فَاِنْ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ) اگر جنگ کے لیے نکلنے والے مسلمانوں کو کوئی تکلیف پیش آجائے ‘ کوئی گزند پہنچ جائے ‘ وقتی طور پر کوئی ہزیمت ہوجائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

102. Another meaning could be that such persons not only shirk the risks of fighting themselves but also go about spreading demoralization to discourage others from fighting in the name of God.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :102 ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ خود تو جی چراتا ہے ، دوسروں کی بھی ہمتیں پست کرتا ہے اور ان کو جہاد سے روکنے کے لیے ایسی باتیں کرتا ہے کہ وہ بھی اسی کی طرح بیٹھ رہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:72) لیبطئن۔ مضارع بلال تاکید ونون ثقلیہ۔ بطایبطیٔ تبطیٔ (تفعیل) بطأ مادہ۔ لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ البطؤ۔ چلنے میں دیر لگانا اور سستی کرنا۔ جملہ کے معنی یہ ہیں۔ اور تم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو خود بھی دیر لگاتے ہیں اور دوسروں سے بھی دیر لگواتے ہیں۔ شھیداً ۔ سے یہاں مراد موجود ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقوں کا طرز عمل : اس کے بعد منافقوں کے طرز عمل کا تذکرہ فرمایا، چونکہ منافقین مسلمانوں میں مل جل کر رہتے تھے اس لیے فرمایا کہ تم میں بعض وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے جہاد میں جانے کی بات آتی ہے تو چونکہ اندر ایمان نہیں ہے، اس لیے ان پر جہادشاق گزرتا ہے دل سے شرکت کرنا نہیں چاہتے اس لیے بددلی کے ساتھ نکلتے ہیں۔ لَیُبَطِّءَنَّ باب تفعیل سے ہے اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنی جانوں کو روکتے ہیں اور جہاد کی شرکت سے پیچھے رہ جانے اور نکلنے میں دیر لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دوسروں کو جہاد کی شرکت سے روکتے ہیں جیسا کہ غزوہ احد میں منافقین نے کیا تھا۔ چونکہ یہ لوگ صرف صاحب دنیا ہیں باہر سے مسلمانوں میں شریک ہیں اور اندر سے ان کے دشمن ہیں اس لیے ان کی زبانوں پر وہ باتیں آجاتی ہیں جو ان کے نفاق اور دل کی مرض کو ظاہر کردیتی ہیں۔ جب مسلمانوں کو کوئی تکلیف پہنچ جائے تو کہتے ہیں کہ اچھا ہی ہوا کہ اللہ نے مجھے گھر میں بیٹھنے کے انعام سے نوازا اور میں ان لوگوں کے ساتھ حاضر نہ ہوا جہاں ان لوگوں کو مصیبت پہنچی۔ اور جب مسلمانوں کو اللہ کا فضل شامل حال ہوجائے فتح یابی نصیب ہوجائے یا مال غنیمت مل جاء تو ایسے طور پر خود غرضی کے ساتھ کہ گویا مسلمانوں سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ یوں کہتا ہے کہ ہائے کیا خوب ہوتا جو میں بھی ان لوگوں کے ساتھ ہوتا اور مجھے بھی بڑی کامیابی حاصل ہوتی مجھے بھی مال و دولت مل جاتا۔ چونکہ منافق دل سے مسلمانوں کا ساتھی نہیں اس لیے ان پر جو اللہ کا فضل ہوا اس فضل پر اسے خوشی نہیں بلکہ اسے اس کا افسوس ہے کہ میں ساتھ نہ ہوا اور مال غنیمت سے محروم رہ گیا۔ جو لوگ دل سے مسلمان ہیں وہ اگر کسی وجہ سے جہاد میں نہ گئے اور مسلمانوں کو کامیابی ہوگئی تو وہ اس پر ایسی ہی خوشی مناتے ہیں جیسا کہ ان کے ساتھ جاتے اور فتح یابی میں شریک ہوتے، منافق دنیا دار مال کا لالچی اس غم میں ڈوب رہا ہے کہ ہائے میں ان کے ساتھ نہ ہوا، اور اس کے نزدیک مال ہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے نزدیک اعلائے کلمۃ اللہ اور کفر اور اہل کفر کی شکست سب سے بڑی کامیابی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖف 50 یہ زجر اور شکوی ہے ان منافقین کے لیے جو مسلمانوں میں موجود تھے ان کی اپنی ہمتیں تو پست تھیں ہی ساتھ ساتھ وہ مسلمانوں کو بھی بد دل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ المراد منہ المنافقون کانوا یثبطون الناس عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (کبیر ج 3 ص 384) ۔ لَیْبَطِّئَنَّ لازم اور متعدی دونوں طرح آتا ہے یعنی وہ خود پیچھے ہٹتے تھے یا لوگوں کو ہٹاتے تھے۔ فَاِنْ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبۃٌ الخ ان منافقوں کا حال یہ تھا کہ اگر خدا نخواستہ مسلمانوں کو شکست ہوجاتی تو کہتے یہ تو ہم پر خدا کا بڑا احسان ہوا کہ ہم ان کے ساتھ جنگ میں شریک نہیں تھے ورنہ ہم بھی ان کے ساتھ پس جاتے۔ وَلَئِنْ اَصَابَکُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللہِ الخ اور اگر مسلمانوں کی فتح ہوجاتی اور مال غنیمت انبار در انبار ان کے ہاتھ آجائے تو منافقین حسرت و افسوس سے انگلیاں کاٹنے لگتے اور کہتے کاش ! ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے تو مال غنیمت سے کثیر دولت ہاتھ آتی اور مالا مال ہوجاتے۔ لَیَقُوْلَنَّ کا مقولہ یٰلَیْتَنِی سے شروع ہوتا ہے۔ اور کَاَنْ لَّمْ تَکُنْ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَہٗ مَوَدَّۃٌ درمیان میں جملہ معترضہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ منافقین ایسی باتیں اس لئے کہتے ہیں گویا تمہارے اور ان کے درمیان کسی قسم کا دینی رشتہ اور تعلق موجود نہیں اور منافقوں کی دوستی جو مسلمانوں کے ساتھ تھی وہ محض ظاہری تھی ان کے دل میں وہی بغض و عداوت تھی۔ کذا فی المدارک والخازن و ابی السعود والکبیر وغیرہا۔ یا یہ مطلب ہے کہ وہ بطور خوشامد ایسی باتیں کرتے ہیں گویا ظاہر کرتے ہیں کہ پہلے میرا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اگر ان کے ساتھ کچھ دوستی کا تعلق ہوتا تو وہ بھی ان کے ساتھ ضرور جہاد میں شریک ہوتا اور فوز عظیم حاصل کرلیتا۔ حضرت شیخ کے نزدیک یہ معنی راجح ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور بخدا تم میں سے کوئی شخص ایسا بھی ہے کہ جو جہاد میں شریک ہونے سے تاخیر کرتا ہے اور مجاہدین کے ہمراہ نکلنے میں ٹال مٹول کرتا ہے اور شریک نہیں ہوتا پھر اگر تم کو سوء اتفاق سے کوئی حادثہ پیش آگیا اور تم پر کوئی مصیبت آ پڑی تو یہ اپنی عدم شرکت پر خوش ہو کر کہتا ہے کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑا ہی فضل کہا کہ میں ان مجاہدین کے ہمراہ اس معرکہ کار زار میں موجود نہیں تھا ورنہ میں بھی اس پیش آمدہ مصیبت میں مبتلا ہوجاتا۔ (تیسیر) چونکہ یہ منافق مسلمانوں میں ملا جلا ہوتا ہے اس لئے منکم فرمایا ورنہ ظاہر ہے کہ منافق مسلمانوں میں سے نہیں ہے۔ یہاں منکم سے مسلمانوں اور منافقوں کا مجموعہ مراد ہے۔ لیبطئن کے لازمی اور متعدی دونوں معنی کئے ہیں یعنی خود سستی کرتا ہے اور جہاد میں شرکت سے بچتا اور دیر لگاتا ہے اور یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ دوسروں کو شرکت سے روکتا ہے بہرحال فتح و شکست تو جنگ کے ساتھ لازمی چیز ہے اس لئے اگر کبھی مسلمانوں کو شکست ہوگئی تب تو قد انعم اللہ علی اذلم اکن معھم شھیداً کہتا ہے اور اگر حسن اتفاق سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کو فتح ہوگئی تو اس وقت اس کے الفاظ کا بیان آگے آتا ہے۔ (تسہیل)