Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 73

سورة النساء

وَ لَئِنۡ اَصَابَکُمۡ فَضۡلٌ مِّنَ اللّٰہِ لَیَقُوۡلَنَّ کَاَنۡ لَّمۡ تَکُنۡۢ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہٗ مَوَدَّۃٌ یّٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ مَعَہُمۡ فَاَفُوۡزَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۳﴾

But if bounty comes to you from Allah , he will surely say, as if there had never been between you and him any affection. "Oh, I wish I had been with them so I could have attained a great attainment."

اور اگر تمہیں اللہ تعالٰی کا کوئی فضل مل جائے تو اس طرح کہ گویا تم میں ان میں دوستی تھی ہی نہیں ، کہتے ہیں کاش! میں بھی ان کے ہمراہ ہوتا تو بڑی کامیابی کو پہنچتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَيِنْ أَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِّنَ الله ... But if a bounty comes to you from Allah, such as victory, triumph and booty. ... لَيَقُولَنَّ كَأَن لَّمْ تَكُن بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ مَوَدَّةٌ ... he would surely say - as if there had never been ties of affection between you and him, meaning, as if he was not a follower of your religion. ... يَا لَيتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا "Oh! I wish I had been with them; then I would have achieved a great success." by being assigned a share of the booty and taking possession of that share. This is his ultimate aim and objective. The Encouragement to Participation in Jihad Allah then said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

73۔ 1 یعنی جنگ میں فتح و غلبہ اور غنیمت۔ 73۔ 2 یعنی گویا وہ تمہارے اہل دین میں سے ہی نہیں بلکہ اجنبی ہیں۔ 73۔ 3 یعنی مال غنیمت سے حصہ حاصل کرنا جو اہل دنیا کا سب سے اہم مقصد ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٢] اور اگر مسلمانوں کو فتح اور خوشی نصیب ہو اور غنیمت کا مال ہاتھ لگے تو حسرت سے کہتے ہیں کہ اگر ہم بھی ان میں شامل ہوتے تو ہمارا بھی کام بن جاتا۔ اور یہ جملہ وہ اس انداز سے ادا کرتے ہیں جیسے پہلے ان کا اور مسلمانوں کا کوئی تعلق تھا ہی نہیں اور ان دونوں صورتوں میں انہیں محض دنیوی تکلیف اور دنیوی مفادات کا ہی احساس ہوتا ہے۔ اخروی زندگی یا رضائے الہی سے انہیں کبھی کوئی غرض نہیں ہوتی اور یہی ان کے منافق ہونے اور اللہ اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے کی دلیل ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَىِٕنْ اَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللہِ لَيَقُوْلَنَّ كَاَنْ لَّمْ تَكُنْۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَہٗ مَوَدَّۃٌ يّٰلَيْتَنِيْ كُنْتُ مَعَھُمْ فَاَفُوْزَ فَوْزًا عَظِيْمًا۝ ٧٣ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ودد الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] ( و د د ) الود ۔ کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔ ليت يقال : لَاتَهُ عن کذا يَلِيتُهُ : صرفه عنه، ونقصه حقّا له، لَيْتاً. قال تعالی: لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات/ 14] أي : لا ينقصکم من أعمالکم، لات وأَلَاتَ بمعنی نقص، وأصله : ردّ اللَّيْتِ ، أي : صفحة العنق . ولَيْتَ : طمع وتمنٍّ. قال تعالی: لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان/ 28] ، يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] ، يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان/ 27] ، وقول الشاعر : ولیلة ذات دجی سریت ... ولم يلتني عن سراها ليت «1» معناه : لم يصرفني عنه قولي : ليته کان کذا . وأعرب «ليت» هاهنا فجعله اسما، کقول الآخر :إنّ ليتا وإنّ لوّا عناء«2» وقیل : معناه : لم يلتني عن هواها لَائِتٌ. أي : صارف، فوضع المصدر موضع اسم الفاعل . ( ل ی ت ) لا تہ ( ض ) عن کذا لیتا ۔ کے معنی اسے کسی چیز سے پھیر دینا اور ہٹا دینا ہیں نیز لا تہ والا تہ کسی کا حق کم کرنا پوا را نہ دینا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات/ 14] تو خدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا ۔ اور اس کے اصلی معنی رد اللیت ۔ یعنی گر دن کے پہلو کو پھیر نے کے ہیں ۔ لیت یہ حرف طمع وتمنی ہے یعنی گذشتہ کوتاہی پر اظہار تاسف کے لئے آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان/ 28] کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] اور کافر کہے کا اے کاش میں مٹی ہوتا يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان/ 27] کہے گا اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رستہ اختیار کیا ہوتا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 406 ) ولیلۃ ذات وجی سریت ولم یلتنی عن ھوا ھا لیت بہت سی تاریک راتوں میں میں نے سفر کئے لیکن مجھے کوئی پر خطر مر حلہ بھی محبوب کی محبت سے دل بر داشت نہ کرسکا ( کہ میں کہتا کاش میں نے محبت نہ کی ہوتی ۔ یہاں لیت اسم معرب اور لم یلت کا فاعل ہے اور یہ قول لیتہ کان کذا کی تاویل میں سے جیسا کہ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( 403 ) ان لینا وان لوا عناء ۔ کہ لیت یا لو کہنا سرا سرباعث تکلف ہے بعض نے کہا ہے کہ پہلے شعر میں لیت صدر بمعنی لائت یعنی اس فاعلی ہے اور معنی یہ ہیں کہ مجھے اس کی محبت سے کوئی چیز نہ پھیر سکی ۔ فوز الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] ، ( ف و ز ) الفوز کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٣۔ ٧٤) اور اگر تمہیں کہیں فتح وغنیمت مل جاتی ہے تو ابن ابی منافق مال کے فوت ہونے پر افسوس کرکے کہتا تھا کہ میں ساتھ ہوتا تو مجھے بہت مال وغنیمت مل جاتی، اگر اسے غنیمت وغیرہ کی چیز کا شوق ہے تو اطاعت خداوندی میں ان لوگوں یعنی مومنین مخلصین سے جنہوں نے اس کو آخرت کے عوض خرید رکھا ہے مل کر جہاد کرے، نیز یہ معنی بیان کیے گئے ہیں اس آیت میں مومنین ہی کو کفار سے جہاد کرنے کی مزید تاکید کی گئی ہے، چناچہ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ ایسے حضرات کے ثواب کو بیان فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ کی راہ میں شہید ہوجائے یا وہ غالب آجائے دونوں صورتوں میں ہم جنت میں اسے اجر عظیم دیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٣ (وَلَءِنْ اَصَابَکُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللّٰہِ ) یعنی تمہیں فتح ہوجائے اور تم کامرانی کے ساتھ مال غنیمت لے کر واپس آؤ۔ (لَیَقُوْلَنَّ کَاَنْ لَّمْ تَکُنْم بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہٗ مَوَدَّۃٌ) (یّٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ مَعَہُمْ فَاَفُوْزَ فَوْزًا عَظِیْمًا ) یہ منافقین کا کردار تھا جس کا یہاں نقشہ کھینچ دیا گیا ہے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

46: مطلب یہ ہے کہ یوں تو وہ زبان سے مسلمانوں سے دوستی کا دم بھرتے ہیں، لیکن جنگ میں شرکت سے متعلق ان کے خیالات تمام تر خود غرضی پر مبنی ہوتے ہیں۔ خود توجنگ میں شریک ہوتے نہیں، اور جب مسلمانوں کو جنگ میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے توان کو افسوس نہیں ہوتا بلکہ وہ خوش ہوتے ہیں کہ ہم اس تکلیف سے بچ گئے، اور اگر مسلمانوں کو فتح ہوتی ہے، اور مالِ غنیمت حاصل ہوتا ہے تو یہ خوش ہونے کے بجائے حسرت کرتے ہیں کہ ہم اس مالِ غنیمت سے محروم رہ گئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:73) لیقولن۔ مضارع بلام تاکید نون ثقلیہ واحد مذکر غائب۔ تو ضرور کہہ اٹھے۔ فعل بافاعل یلیتنی ۔۔ عظیما۔ مفعول۔ کان لم تکن ۔۔ مودۃ۔ لیقولن اور یلیتنی کے درمیان جملہ معترضہ ہے یعنی جیسے تمہارے اور اس کے درمیان دوستی یا باہمی محبت کا کوئی رشتہ تھا ہی نہیں۔ اور اسے محض اپنی خود غرضی ملحوظ ہے مومنوں سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ مودۃ۔ مصدر۔ دوستی۔ محبت ۔ دلی رغبت۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 مراد منافقین ہیں اور ان کو ظاہری اختلاط اعتبار سے منکم کہہ دیا ہے مگر مفسرین کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ ان سے مراد ضعیف الا یمان ہیں پس منکم اپنے معنوں میں ہے۔ (رازی) یعنی ان کو تمہاری فتح کی خوشی ہے ارونہ تمہیں نقصان پہنچنے کا غم انہیں تو صرف مطلب سے مطلب ہے۔ فتح اوشکست دونوں حالتوں میں اس قسم کا وطیرہ اختیار کرتے ہیں کہ جیسے بالکل اجنبی ہوتے ہیں اور تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے پر آیت کان لم تکن بینکم وبینہ مودۃ جملہ معترضہ ہے اور یا لیتنی الخ لیقولن کا مقولہ ہے (رازی ) اوپر کی آیتوں میں جہاد سے مبطین اور پیچھے رہنے والے اور دوسروں کو روکنے ولے) کی مذمت کے بعد اب مخلصین کو ترغیب دی جارہی ہے (رازی) شریٰ یشری کے معنی بیچنا اور خرید نا دونوں آتے ہیں یہاں ترجمہ بیچنا کا کیا گیا ہے اور اکثر مفسرین نے اسی کو ترجیح دی ہے لیکن اگر اسے خرید نے کے معنی میں لیا جائے تو ّآیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جو منافق گھر میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے آخرت کے بدلے دنیا خرید کر رہے ہیں ان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کو نکلیں۔ (فتح القدیر۔ ابن جریر) ف

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی جہاد میں جانا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور اگر اے مسلمانو ! تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے تم پر کوئی انعام ہوگیا یعنی فتح ہوگئی اور غنیمت مل گئی تو یہ خود غرض منافق اس طور پر کہ گویا تم میں اور اس میں کوئی دوستانہ تعلق ہی نہ تھا یوں کہتا ہے اے کاش ! یعنی کیا اچھا ہوتا کہ میں بھی ان مجاہدین کے ہمراہ ہوتا اور ان کے شریک حال رہتا تو مجھ کو بھی بڑی کامیابی حاصل ہوتی اور میں بھی بڑا کامیاب ہوتا۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جب تم کو خدا کا فضل پہنچ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ تم کو فتح و غنیمت عطا کرتا ہے تو یہی جہاد سے بیٹھ رہنے والا اور جہاد میں جانے سے تاخیر کرنے والا حسرت سے کہتا ہے اور کہتا بھی اس طور پر ہے کہ گویا تم میں اور سا میں بالکل کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور کوئی دوستی ہی نہیں ہے۔ اے کاش ! میں بھی ان لوگوں کے ہمراہ ہوتا تو میں بھی بڑا کامیاب ہوتا۔ یعنی مجھے بھی خوب مال ملتا۔ غرض ! مسلمانوں سے کوئی واسطہ نہیں بجائے اس کے کہ مسلمانوں کی کامیابی پر خوش ہوتا اور اس خبر پر مسرت ہوتی اپنے مال نہ ملنے پر افسوس کرتا ہے اور اس سے بڑھ کر خود غرضی اور اجنبیت اور بیگانگت کیا ہوسکتی ہے۔ مودۃ تو منافقوں کے قلوب میں ہوتی ہی نہ تھی اس لئے محض تہکماً فرمایا یا یہ مطلب ہے کہ ظاہری طور پر جس مودت کا اظہار کیا کرتا تھا اس کا بھی اس موقعہ پر خیال نہیں کرتا اور ایسی باتیں کرتا ہے جیسے تم میں اور اس میں کوئی تعلق نہیں ہے بعض لوگوں نے کان لم تکن کو شھیدا کے متعلق کہا ہے۔ (واللہ اعلم) اس آیت میں شکست کو مصیبت فرمایا، یہ ظاہری اعتبار سے عام لوگوں کے خیال کے مطابق فرمایا ہے۔ ورنہ مسلمانوں کی شکست بھی اپنے دامن میں ہزارہا خوبیاں اور بھلائیاں رکھتی ہیں۔ حضر ت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی ایسا شخص منافق ہے کہ خدا کے حکم پر نہیں دوڑتا بلکہ نفع دینا تکتا ہے۔ اگر لوگوں کو اس کام میں تکلیف پہنچی تو اپنے الگ رہنے پر ریجھتا ہے اور اگر لوگوں کو فائدہ پہنچا تو پچتاتا ہے اور دشمنوں کی طرح حسد کرتا ہے۔ (موضح القرآن) حسد یہی کہ ہائے مسلمانوں کو مل گیا اور میں خالی ہاتھ رہ گیا اب آگے پھر جہاد کی ترغیب ہے۔ (تسہیل)