Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 76

سورة النساء

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ الطَّاغُوۡتِ فَقَاتِلُوۡۤا اَوۡلِیَآءَ الشَّیۡطٰنِ ۚ اِنَّ کَیۡدَ الشَّیۡطٰنِ کَانَ ضَعِیۡفًا ﴿٪۷۶﴾  7

Those who believe fight in the cause of Allah , and those who disbelieve fight in the cause of Taghut. So fight against the allies of Satan. Indeed, the plot of Satan has ever been weak.

جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ تو اللہ تعالٰی کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر کیاہے ، وہ اللہ تعالٰی کے سوا اوروں کی راہ میں لڑتے ہیں ۔ پس تم شیطان کے دوستوں سے جنگ کرو ، یقین مانو کہ شیطانی حیلہ ( بالکل بُودا اور ) سخت کمزور ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِينَ امَنُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ ... Those who believe, fight in the cause of Allah, and those who disbelieve, fight in the cause of the Taghut. Therefore, the believers fight in obedience to Allah and to gain His pleasure, while the disbelievers fight in obedience to Shaytan. Allah then encourage... s the believers to fight His enemies, ... فَقَاتِلُواْ أَوْلِيَاء الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا So fight against the friends of Shaytan; ever feeble indeed is the plot of Shaytan.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

76۔ 1 مومن اور کافر، دونوں کو جنگوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن دونوں کے مقاصد جنگ میں عظیم فرق ہے، مومن اللہ کے لئے لڑتا ہے، محض طلب دنیا یا ہوس ملک گیری کی خاطر نہیں۔ جب کہ کافر کا مقصد یہی دنیا اور اس کے مفادات ہوتے ہیں۔ 76۔ 2 مومنوں کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ طاغوتی مقاصد کے لئے حیلے اور مکر کمزور ... ہوتے ہیں، ان کے ظاہری اسباب کی فروانی اور کثرت تعداد سے مت ڈرو تمہاری ایمانی قوت اور عزم جہاد کے مقابلے میں شیطان کے یہ حیلے نہیں ٹھہر سکتے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٥] وقتی اور سیاسی اتحاد شیطانی اتحاد ہے جس کی بنیاد کمزور ہوتی ہے :۔ یہاں طاغوت سے مراد سرداران قریش کی اپنی اپنی چودھراہٹیں اور اسی طرح یہودیوں اور دوسرے قبائل عرب کے سرداروں کی سرداریاں ہیں۔ جن کی بنا پر ان کا عوام پر تسلط قائم تھا۔ جوں جوں اسلام کو اللہ نے ترقی دی تو ان سرداروں کو اپنی سرداری... اں متزلزل اور ڈگمگاتی نظر آنے لگیں تو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی شروع کردی۔ گویا مسلمانوں کے خلاف تمام اسلام دشمن قومیں متحد ہو کر اسلام کو مٹانے پر آمادہ ہوجاتی تھیں اور اسلام کے مقابلہ میں کفر کا یہ اتحاد دراصل شیطانی اتحاد تھا اور یہ محض وقتی اور سیاسی اتحاد ہوتا تھا۔ ورنہ اس اتحاد میں شامل قوموں کے باہمی اختلافات بدستور موجود تھے لہذا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ اس شیطانی لشکر کا پوری ہمت اور جرات کے ساتھ مقابلہ کرو کیونکہ ان کے اتحاد کی بنیاد ہی کمزور ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ …. جہاد کی فرضیت اور ترغیب کے بعد اس آیت میں بتایا کہ جہاد کی ظاہری صورت کا اعتبار نہیں ہے، بلکہ جہاد اپنے مقصد کے اعتبار سے جہاد ہے، مومن ہمیشہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کرتا ہے اور کافر کسی طاغوتی طاقت کو بچانے یا مضبوط کرنے کے لیے لڑت... ے ہیں، لہٰذا تم ان سے خوب لڑو۔ شیطان خواہ اپنے دوستوں کو کتنے ہی مکر و فریب سمجھائے، مگر تمہارے خلاف وہ کامیاب نہیں ہوسکتے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Praying to Allah is the panacea for all hardships The words of prayer in verse 75: يَقُولُونَ رَ‌بَّنَا أَخْرِ‌جْنَا tell us that one of the reasons why the command to fight came was the prayer made by these weak Muslim men and women. Allah Almighty responded to their prayer and commanded Muslims to wage Jihad against their oppres¬sors and which put an end to their hardships immediately. The obje... ctives of war Verse 76 says that الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ :those who believe fight in the way of Allah and those who disbelieve fight in the way of Taghut.& This clearly shows that the purpose for which a believer strives is to see that the Divine Law becomes operative in this world and that the authority of Allah Almighty reigns supreme, because He is the master of all. He has created the universe in His infinite wisdom, and His Law is based on pure justice, and when the rule of justice is estab¬lished, there will be peace which sustains. In order that there be peace in the world, it is necessary that it is run under a law which is the Law of the Lord. So, when a true and perfect Muslim fights in a war, this is the purpose before him. But, in sharp contrast to him, disbelievers seek to spread the message of kufr, give it the widest possible currency, and work to bring about the ascendency of disbelief. They are all too eager to see that satanic powers rule the world so that everything that constitutes kufr and shirk can be enforced in the universal order giving it the sheen and glamour of something seemingly positive. Since kufr and shirk are the ways of the Satan, therefore, the disbelievers help the Satan in doing his job. The guile of Satan is feeble The last sentence of verse 76: إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا assures that the deceptive plans made by Satan are weak and insubstantial because of which he cannot harm or hurt true Muslims in any way whatsoever. So, Muslims should really not demur when it comes to fighting against the friends of Satan, that is, against the disbelievers. This is because their helper is none other but Allah Himself and, with Allah on their side, the game plan of the Satan is not going to work for them. And this is what happened at the battle of Badr. There was the Satan by the side of the disbelievers, dishing out his tall claims before them, telling them; لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ &this day, nobody is going to over-power you& - because: إِنِّي جَارٌ‌ لَّكُمْ I am your helper by your side. I shall be there with my armies to support you.) When the actual fighting began, he did advance with his army, but no sooner did he notice that angels have arrived to help Muslims, all plans he had made were frustrated and he took to his heels, saying to his disbelieving accomplices: إِنِّي بَرِ‌يءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَ‌ىٰ مَا لَا تَرَ‌وْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ ۚ وَاللَّـهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ I bear no responsibility for you. I see what you do not see. I fear Allah for Allah is severe when punishing.) (Mazhari) That the guile of Satan has been called &feeble& in this verse (76) is not an isolated statement. There emerge two conditions right from this verse which provide us with an exception. The first one is that the person against whom the Satan is trying his guile must be a Muslim. Then, the second one is that the effort being made by that Muslim must be for the pleasure of Allah alone. In other words, he may not have any selfish motive behind his effort. The first condition emerges from the words: الَّذِينَ آمَنُوا (those who believe) and the second from: فِي سَبِيلِ اللَّـهِ (fight in the way of Allah). If either of the two conditions stop existing, then, it is not necessary that the guile of the Satan remains &feeble& against him. Sayyidna Ibn Abbas (رض) has said: When you see Satan, do not think twice. Attack him.& After that, he recited this very verse: إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا (No doubt, the guile of Satan is feeble.) (al-Qurtub)   Show more

اللہ تعالیٰ سے دعا تمام مصائب کا بہترین علاج ہے : آیت یقولون ربنا اخرجنا سے یہ بتلایا گیا کہ حکم قتال کا ایک سبب ان کمزور مسلمان مردوں اور عورتوں کی دعاء تھی جس کی قبولیت مسلمان کو حکم جہاد دے کر کی گئی اور ان کی مصائب کا فوری خاتمہ ہوگیا۔ جنگ تو سب کرتے ہیں مگر اس سے مومن اور کافر کے مقاصد الگ ال... گ ہیں :۔ الذین امنوا یقاتلون فی سبیل اللہ اس آیت میں بتلایا گیا کہ مؤمنین اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کافر شیطان کی راہ میں اس سے صاف ظاہر ہے کہ مومن کی جدوجہد کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ دنیا میں خدا کا قانون رائج ہو اور اللہ تعالیٰ کا حکم بلند ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا مالک ہے اور اس کا قانون خالص انصاف پر مبنی ہے اور جب انصاف کی حکوتم قائم ہوگی تو امن قائم رہے گا دنیا کے امن کے لئے یہ ضروری ہے کہ دنیا میں وہ قانون رائج ہو جو خدا کا قانون ہے، لہذا کامل مومن جب جنگ کرتا ہے تو اس کے سامنے یہی مقصد ہوتا ہے۔ لیکن اس کے مقابل ہمیں کفار کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ کفر کی ترویج ہو اور کفر کا غلبہ ہو اور طاغوتی قوتیں برسر اقتدار آئیں، تاکہ دنیا میں کفر و شرک خوب چمکے اور چونکہ کفر و شرک شیطان کی راہیں ہیں، اس لئے کافر شیطان کے کام میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ شیطان کی تدبیر ضعیف ہے :۔ ان کید الشیطن کان ضعیفاً اس آیت میں بتلایا گیا کہ شیطانی تدابیر لچر اور کمزور ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ مومنین کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، لہٰذا مسلمانوں کو شیطان کے دوستوں یعنی کافروں سے لڑنے میں کوئی تامل نہ ہونا چاہئے، اس لیے کہ ان کا مددگار اللہ تعالیٰ ہے اور کافروں کو شیطان کی تدبیرو کوئی فائدہ نہ دے گی۔ چنانچہ جنگ بدر میں ایسا ہی ہوا کہ پہلے شیطان کافروں کے سامنے لمبی ڈینگیں مارتا رہا اور اس نے کافروں کو مکمل یقین دلایا کہ :” لاغالب لکم الیوم “ آج کے دن تم لوگوں کو کوئی مغلوب نہیں کرسکتا اس لئے کہ ” انی جارلکم “ (میں تمہارا مددگار ہوں) میں اپنے تمام لاؤ لشکر کے ساتھ تمہاری مدد کو آؤں گا، جب تک جنگ شروع ہوئی تو وہ اپنے لشکر کے ساتھ اگرچہ آگے بڑھا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ مسلمانوں کی حمایت میں فرشتے آپہنچے ہیں تو اس نے اپنی تدبیر کو ناکام پا کر الٹے پاؤں بھاگنا شروع کردیا اور اپنے دوستوں یعنی کافروں سے کہا :” انی بری منکم، انی اری مالاترون انی اخاف اللہ، واللہ شدید العاقب ” میں تم لوگوں سے بری ہوں، اس لئے کہ میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جس کی تم کو خبر نہیں (یعنی فرشتوں کا لشکر) میں اللہ سے ڈرتا ہوں کیونکہ وہ سخت عذاب دینے والا ہے “ (مظہری) اس آیت میں شیطان کی تدبیر کو جو ضعیف کہا گیا ہے اس کے لئے اسی آیت سے دو شرطیں بھی مفہوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ وہ آدمی جس کے مقابلہ میں شیطان تدبیر کر رہا ہے مسلمان ہو اور دوسری یہ کہ اس کا کام محض اللہ ہی کے لئے ہو، کوئی دینی نفسانی غرض نہ ہو، پہلی شرط الذین امنوا سے اور دوسری یقاتلون فی سبیل اللہ سے معلوم ہوتی ہے، اگر ان دونوں شرطوں میں سے کوئی فوت ہوجائے تو پھر ضروری نہیں کہ شیطان کی تدبیر اس کے مقابل میں کمزور ہو۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ” جب تم شیطان کو دیکھو تو بغیر کسی خوف و خدشہ کے اس پر حملہ کردو۔ “ اس کے بعد آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ان کید الشیطن کان ضعیفاً (احکام القرآن للسیوطی)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝ ٠ۚ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِيَاۗءَ الشَّيْطٰنِ۝ ٠ۚ اِنَّ كَيْدَ الشَّيْطٰنِ كَانَ ضَعِيْفًا۝ ٧٦ۧ طَّاغُوتُ والطَّاغُوتُ عبارةٌ عن کلِّ متعدٍّ ، وكلِّ معبود من دون الله، ويستعمل في الوا... حد والجمع . قال تعالی: فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ [ البقرة/ 256] ، وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] ، أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ [ البقرة/ 257] ، يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء/ 60] ، فعبارة عن کلّ متعدّ ، ولما تقدّم سمّي السّاحر، والکاهن، والمارد من الجنّ ، والصارف عن طریق الخیر طاغوتا، ووزنه فيما قيل : فعلوت، نحو : جبروت وملکوت، وقیل : أصله : طَغَوُوتُ ، ولکن قلب لام الفعل نحو صاعقة وصاقعة، ثم قلب الواو ألفا لتحرّكه وانفتاح ما قبله . الطاغوت : سے مراد ہر وہ شخص ہے جو حدود شکن ہوا اور ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا پرستش کی جائے اسے طاغوت کہاجاتا ہے اور یہ واحد جمع دونوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ [ البقرة/ 256] جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے ۔ وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] اور جنہوں نے بتوں کی پوجا۔۔ اجتناب کیا ۔ أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ [ البقرة/ 257] ان کے دوست شیطان ہیں ۔ اور آیت کریمہ : يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ [ النساء/ 60] اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لے جاکر فیصلہ کرائیں ۔ میں طاغوت سے حدود شکن مراد ہے اور نافرمانی میں حد سے تجاوز کی بنا پر ساحر، کا ہن ، سرکش جن اور ہر وہ چیز طریق حق سے پھیرنے والی ہوا سے طاغوت کہاجاتا ہے بعض کے نزدیکی فعلوت کے وزن پر ہے جیسے جبروت ومنکوت اور بعض کے نزدیک اس کی اصل طاغوت ہے ۔ پھر صاعقۃ اور صاقعۃ کی طرح پہلے لام کلمہ میں قلب کیا گیا اور پھر واؤ کے متحرک اور ماقبل کے مفتوح ہونے کہ وجہ سے الف سے تبدیل کیا گیا ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو كيد الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] ( ک ی د ) الکید ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ ضعف والضَّعْفُ قد يكون في النّفس، وفي البدن، وفي الحال، وقیل : الضَّعْفُ والضُّعْفُ لغتان . قال تعالی: وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال/ 66] ( ض ع ف ) الضعف اور الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی اور اس میں ضعف اور ضعف ( ولغت ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال/ 66] اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزور ی ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (الذین امنوایقاتلون فی سبیل اللہ ، جو لوگ صاحب ایمان ہیں وہ اللہ کے راستے میں قتال کرتے ہیں) ایک قول کے مطابق (فی سبیل اللہ ) کے معنی ہیں اللہ کی اطاعت میں کیونکہ یہی اطاعت اللہ کی جنت میں جو اس نے اپنے دوستوں کے لیے تیارکررکھی ہے ثواب کا باعث بنے گی۔ ایک اور قول کے مطابق اس سے مراد اللہ...  کا دین ہے جو اس نے مقرر کیا ہے ، تاکہ یہ دین انہیں اللہ کے ثواب اور اس کی رحمت تک پہنچادے اس صورت میں عبارت کی ترتیب یوں ہوگی، فی نصرۃ دین اللہ تعالیٰ (اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت میں قتال کرتے ہیں۔ طاغوت کے بارے میں ایک قول ہے کہ یہ شیطان ہے یہ قول حسن اور شعبی کا ہے ، ابوالعالیہ کا قول ہے کہ اس سے مراد کاہن ہے یعنی غیب کی باتیں بتلانے والا، ایک قول ہے کہ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے سوا پرستش کی جائے۔ قول باری ہے (ان کید الشیطان کان ضعیفا) یقین جانوا کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں) کید اس کوشش اور دوڑ دھوپ کو کہتے ہیں کہ جو صورت حال کو بگاڑنے کے لیے حیلہ سازی کے ذریعے اور نقصان پہنچانے کی غرض سے کی جائے۔ حسن کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (ان کیدالشیطان کان ضعیفا) اس لیے فرمایا کہ شیطان نے ان کافروں سے کہا تھا کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں یہ غالب آئیں گے اس لیے یہ کمزور نصرت کے مقابلے میں اپنے دوستوں کے لیے اس کی نصرت بہت کمزور ہوتی ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٦) صحابہ کرام راہ اللہ میں جہاد کرتے ہیں اور ابوسفیان اور اس کے ساتھی شیطان کی اطاعت وپیروی میں لڑتے ہیں، لہذا شیطانی لشکر سے خوب خوب جہاد کرو، کیوں کہ شیطان تدابیر ذلت ورسوائی کی وجہ سے بیہودہ اور ناکام ہوتی ہیں، چناچہ بدر کے دن وہ ذلیل ورسوا ہوئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٦ (اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ج ) (وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ ) جنگ تو وہ بھی کر رہے ہیں ‘ جانیں وہ بھی دے رہے ہیں۔ ابوجہل بھی تو لشکر لے کر آیا تھا۔ ان کی ساری جدوجہد طاغوت کی راہ میں ہے۔ (فَقَاتِلُوْآ اَوْلِیَآء الشَّیْطٰ... نِ ج) تم شیطان کے حمایتیوں سے ‘ حزب الشیطان سے قتال کرو۔ (اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا ) شیطان کی چال بظاہر بڑی زوردار بڑی بارعب دکھائی دیتی ہے ‘ لیکن جب مرد مؤمن اس کے مقابل کھڑے ہوجائیں تو پھر معلوم ہوجاتا ہے کہ بڑی بودی اور پھسپھسی چال ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

105. This lays down a clear verdict of God. To fight in the cause of God in order that His religion be established on earth is the task of men of faith, and whoever truly believes can never shirk this duty. To fight in the cause of taghut (authority in defiance of God) in order that the world may be governed by rebels against God is the task of unbelievers in which no believer can engage himself. ...  106. Satan and his comrades-in-arms ostensibly undertake tremendous preparations and contrive all kinds of ingenious machinations. True men of faith, however, should not be intimidated either by such preparations or by machinations. For, no matter what they do, they are doomed to fail.  Show more

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :105 یہ اللہ کا دو ٹوک فیصلہ ہے ۔ اللہ کی راہ میں اس غرض کے لیے لڑنا کہ زمین پر اللہ کا دین قائم ہو ، یہ اہل ایمان کا کام ہے اور جو واقعی مومن ہے وہ اس کام سے کبھی باز نہ رہے گا ۔ اور طاغوت کی راہ میں اس غرض کے لیے لڑنا کہ خدا کی زمین پر خدا کے باغیوں کا راج ہو ، یہ کا... فروں کا کام ہے اور کوئی ایمان رکھنے والا آدمی یہ کام نہیں کر سکتا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :106 یعنی بظاہر شیطان اور اس کے ساتھی بڑی تیاریوں سے اٹھتے ہیں اور بڑی زبردست چالیں چلتے ہیں ، لیکن اہل ایمان کو نہ ان کی تیاریوں سے خوف زدہ ہونا چاہیے اور نہ ان کی چالوں سے ۔ آخر کار ان کا انجام ناکامی ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:76) کید۔ تدبیر (خواہ اچھی ہو یا بری) چال۔ واؤ۔ کید (باب ضرب) مصدر بمعنی چال چلنا۔ تدبیر کرنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 جہاد کی فرضیت اور ترغیب کے بعد اس آیت میں بتایا کہ جہاد کی ظاہر صورت کا عتبار نہیں ہے بلکہ جہاد اپنے مقصد کے اعتبار سے جہاد ہے۔ مومن ہمیشہ اعلا کلمتہ اللہ کے لیے جہاد کرتا ہے اور کافر کسی طاغوتی طاقت کو بچانے یا مضبوط کرنے کے لیے لڑتے ہیں لہذاتم ان سے خوب لڑو شیطان خواہ اپنے دوستوں کے کتنے ہی مک... ر و فریب سمجھا دے مگر تمہارے خلاف و کامیابی نہیں ہوسکتی (رازی)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اوپر جہاد کا وجوب اور اس کے فضائل بیان کرکے اس کی ترغیب تھی آگے دوسرے طور پر اس کی ترغیب ہے یعنی جہاد میں بعض مسلمانوں کے مستعد نہ ہونے پر ان کی ایک لطف آمیز شکایت بھی ہے جس کی بنایہ ہوئی کہ مکہ میں کفار بہت ستاتے تھے اس وقت بعض اصحاب نے جہاد کی اجازت اصرار چاہی مگر اس وقت حکم تھا عفو وصلح کا بعد...  ہجرت کے جب جہاد کا حکم نازل ہوا تو طبعا بعض کو دشوار ہوا اس پر شکایت فرمائی گئی اور چونکہ بطور انکار یا اعتراض علی الحکم کے نہ تھا بلکہ محض تمنا تھی اور چندے اس حکم کے نہ آنے کی اس لیے توبیخ نہیں محض لطف آمیز شکایت ہے۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہاد فی سبیل اللہ اور لڑائی کا فرق بیان کیا گیا ہے۔ یہاں دو جماعتوں اور لشکروں کی محاذ آرائی اور باہمی جنگ و جدل کی وجوہات ‘ محرکات اور ان کے مشن کا فرق نمایاں کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ صاحب ایمان لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے جنگ و جدل کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں کفار طاغوت کے مشن کی ب... الا دستی کے لیے برسر پیکار ہوتے ہیں۔ تیسرے پارے میں وضاحت گزر چکی ہے کہ طاغوت سے مراد ہر وہ قوت جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف ہو یہ حکمرانوں یا سیاستدانوں کی شکل میں ہوں یا عام انسانوں کے روپ میں ‘ کفار ہوں یا اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کی صفوں میں گھسے ہوئے منافق گویا اللہ اور اس کے رسول کے مخالف کہ جس شکل و صورت میں ہوں۔ وہ طاغوت کے ساتھی تصور ہوں گے۔ پہلی آیت میں مظلوموں کی مدد کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ کفار کی اصل طاقت کا پول کھول دیا جائے تاکہ مجاہد کسی کمزوری اور گھبراہٹ کے بغیرآگے بڑھیں۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ کفار کا کروفر محض دکھاوا ہے اندر سے یہ کمزور اور کھوکھلے ہیں۔ پھر اس کی کمزوری کی وجہ بیان فرمائی کہ اپنے خالق کے باغی اور سچا مشن نہ ہونے کی وجہ سے ان کے دلوں میں جرأت اور ان کے قدموں میں استقامت پیدا نہیں ہوتی۔ مسلمان ایمان کی دولت اور اپنے وسائل کے مطابق مکمل تیاری ‘ باہمی اتحاد ‘ اور کلمۃ اللہ کی سربلندی کے لیے سینہ سپر ہوں تو دنیا کی کوئی قوت مسلمانوں کو سرنگوں نہیں کرسکتی کیونکہ یہی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ مجاہدو ! تم ہی غالب آؤ گے بشرطیکہ ایمان کامل کے اسلحہ سے لیس ہوجاؤ۔ مسلمانوں کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ مسلمان جب بھی ایمان ‘ اتحاد اور جہاد کے جذبہ سے سرشار ہو کر میدان کارزار میں اترے فتح و کامرانی نے ان کے قدم چومے اور اللہ کی مدد کالی گھٹا اور موسلا دھار بارش کی طرح مسلمانوں پر سایہ فگن رہی۔ کفار اور اشرار بالآخر ہر میدان میں منہ کی کھا کر واپس ہوئے۔ کیونکہ قوت و جبروت اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ مکرو فریب اور ضعف و کمزوری شیطان کے حصہ میں آئی ہے۔ مسائل ١۔ ایمان دار اللہ کے لیے لڑتے ہیں اور کافر شیطان کے لیے برسر پیکار ہیں۔ ٢۔ شیطان کے ساتھی اور ان کے حربے نہایت کمزور ہوا کرتے ہیں۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

“ اچانک تمام انسان ایک دورا ہے پر آکھڑے ہوتے ہیں ‘ اہداف ومقاصد متعین ہوجاتے ہیں ‘ خطوط واضح ہوجاتے ہیں اور لوگ دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں ‘ دو ممتاز جھنڈوں کے نیچے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ (آیت) ” الذین امنوا یقاتلون فی سبیل اللہ “۔ (٤ : ٧٦) ” جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے ‘ وہ اللہ کی راہ میں ... لڑتے ہیں ۔ “ (آیت) ” والذین کفروا یقاتلون فی سبیل الطاغوت “۔ (٤ : ٧٦) ” اور جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں ۔ “ اہل ایمان کی صف آرائی اللہ کی راہ میں ہے اور وہ اللہ کا نظام حیات نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ اللہ کی شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں ‘ وہ اللہ کے نام پر لوگوں کے درمیان قیام عدل چاہتے ہیں ‘ وہ اللہ کے سوال کسی اور نام اور عنوان سے بات نہیں کرتے ۔ وہ اس بات کا اعتراف کرچکے ہوتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی اور الہ نہیں ہے اس لئے وہی حاکم ہے ۔ اور اہل کفر طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں ‘ یہ مختلف قسم کے طاغوتی نظامہائے زندگی کے دلدادہ ہیں۔ اور یہ تمام طاغوتی نظام خدائی نظام زندگی کے متضاد ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ قانونی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں جو شریعت کے خلاف ہو ۔ وہ ایسی اقدار کو رائم کرنا چاہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے جائز نہ ہو ۔ وہ ایسے پیمانوں سے اقدار حیات کو ناپتے ہیں جو اللہ کی میزان میں کوئی وزن نہیں پاتے ۔ وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں وہ اللہ کی حمایت اور رعایت اور نگہبانی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ طاغوت سے مدد لیتے ہیں ۔ ان کا مددگار شیطان ہوتا ہے اور شیطان کے جھنڈے مختلف ہوتے ہیں ‘ طریقے مختلف ہوتے ہیں ۔ قوانین مختلف ہوتے ہیں ‘ اقدار اور پیمانے مختلف ہوتے ہیں ‘ ۔ یہ سب لوگ شیطان کے ساتھی ہوتے ہیں ۔ (آیت) ” فقاتلوا اولیاء الشیطن ان کیدا لشیطن کان ضعیفا “۔ (٤ : ٧٦) ”‘ پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں۔ “ یوں مسلمانوں کا موقف ایک پختہ جگہ پر ہوتا ہے اور ان کا تکیہ بھ مضبوط ہوتا ہے ۔ وہ مضبوط اساس پر کھڑے ہوتے ہیں اور ایک مضبوط سہارا لئے ہوئے ہوتے ہیں ۔ ان کا وجدان اور شعور پختہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں لڑ رہے ہیں ۔ وہ صرف اللہ کی جنگ ہے اور اس میں ان کا ذات کا کوئی حصہ بھی نہیں ہے ۔ نہ اس میں ان کا کوئی ذاتی مفاد مضمر ہے ۔ نہ اس میں ان کی قوم ‘ ان کی نسل ‘ ان کے رشتہ داروں اور ان کے خاندان کا کوئی مفاد ہے ۔ یہ صرف اللہ کے لئے ہے ‘ اس کے نظام کے لئے ہے اور اس کی شریعت کے لئے ہے ۔ پھر ان کا یہ شعور بھی پختہ ہوتا ہے ۔ کہ ان کا مقابلہ اہل باطل سے ہے ‘ اور ان کے مقابل باطل کو حق پر غالب کرنا چاہتے ہیں ‘ اس لئے کہ وہ انسانوں کے جاہلی معاشروں کے لئے لڑ ہے ہیں ۔ اور یہ کہ تمام انسانی نظام جاہلی نظام ہوتے ہیں ۔ صرف اللہ کی شریعت برحق نظام ہے ۔ جبکہ وہ شریعت کو مغلوب کرکے انسانی قانونی نظام رائج کرتے ہیں اور انسانی قانون کے مطابق فیصلے کرانا چاہتے ہیں ۔ ہر وہ فیصلہ ظلم ہے جو انسانی قانون کے مطابق ہو ۔ یہ اللہ کے قانون کے ساتھ ظلم ہے ‘ کیونکہ اللہ کا حکم تو یہ ہے کہ فیصلے اس کی شریعت کے مطابق ہوں ۔ یہ اہل ایمان جب میدان جنگ میں اترتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ اترتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا ساتھی اور مددگار رہے ۔ وہ یہ شعور رکھتے ہیں کہ وہ ایک ایسی قوت سے لڑنے جارہے ہیں جس کا مددگار شیطان ہے اور اس میں شک نہیں ہے کہ شیطان کی تمام چالیں بمقابلہ رحمان ضعیف ہوتی ہیں ۔ یہاں آکر ایک مومن کے احساس اور شعور میں اس معرکے کا فیصلہ ہوجاتا ہے اور اس کا انجام متعین ہوجاتا ہے تو اس کے بعد ایک مومن اس معرکے میں قدم رکھتا ہے ۔ اب اگر مومن اس معرکے میں شہید ہوجاتے ہے تو اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کا نتیجہ اچھا رہے گا اور اگر وہ نصرت پاتا ہے اور اس معرکے میں اسے غلبہ نصیب ہوتا ہے تو اسے پختہ یقین ہوتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ اجر عظیم سے نوازے گا ۔ اس مسئلے کے اس حقیقی فہم وادراک ہی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام کی جماعت کے ہاتھوں دو معجزات سرزد ہوئے جو اسلامی تاریخ کا حصہ ہیں اور صحابہ کرام کے بعد بھی مختلف نسلوں میں جابجا اس کے نمونے نظر آتے ہیں ۔ یہاں اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم ان کے کچھ نمونے پیش کریں ‘ کیونکہ یہ تو بہت ہی مشہور ہیں ۔ یہی تصور تھا جس کے نتیجے میں اسلام کو وہ حیران کن پھیلاؤ نصیب ہوا ‘ اور یہ پھیلاؤ تاریخ کے مختصر ترین عرصے کے اندر واقعہ ہوا ۔ یہ تصور اس برتری کا ایک پہلو تھا ‘ جو اسلامی نظام حیات کی وجہ سے امت مسلمہ کو نصیب ہوئی اور یہ برتری اسے اس وقت کے برسر پیکار دونوں بلاکوں کے مقابلے میں نصیب ہوئی اور اس برتری کی طرف ہم اس سے قبل اشارہ کرچکے ہیں ۔ اس تصور اور ادراک کی نشوونما اس مہم کا ایک حصہ تھا جو قرآن کریم کے پیش نظر تھی ۔ یہ مہم اہل ایمان کی نفسیاتی دنیا میں بھی جاری تھی اور ان دشمنوں کے ساتھ میدان جنگ میں بھی جاری تھی ‘ جس میں اہل ایمان ‘ اپنے مقابلے میں آنے والی فوجوں کی تعداد اور سازوسامان کے حوالے سے بہت ہی زیادہ قوت کے ساتھ برسرپیکار تھے ۔ دشمن کو اس عظیم تعداد اور سازوسامان کے باوجود شکست ہوئی ۔ اس لئے کہ وہ تصور حیات کے لحاظ سے تہی دامن تھا ۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ قرآن کریم نے اس تصور کی نشوونما اور اس کی پختگی کے لئے کس قدر جدوجہد کی ۔ یہ کام کوئی آسان کام نہ تھا ۔ یہ صرف ایک بات نہ تھی جو زبانی طور پر کہہ دی جاتی ۔ یہ توجہد مسلسل تھی ۔ اس میں انسان کی ذاتی تنگ دلی ‘ ہر قیمت پر زندی رہنے کی حرص اور نفع ونقصان کے بارے میں غلط تصورات کے خلاف مسلسل جدوجہد کی گئی ۔ اس سبق میں اس جہد مسلسل کے کچھ نمونے بھی ملاحظہ فرمائیں ۔ اس کے بعد سیاق کلام میں ‘ مسلمانوں کے کئی طبقات کے طرز عمل پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے ۔ (کہا گیا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ مہاجرین تھے) یہ لوگ جب مکہ میں تھے تو وہ کفار کے مقابلے کے لئے اپنے اندر جوش و خروش رکھتے تھے ‘ اس لئے کہ مکہ میں ان پر ناقابل برداشت مظالم ہو رہے تھے ۔ اس جوش و خروش کے نتیجے میں وہ مکہ میں جہاد و قتال کی اجازت چاہتے تھے ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجازت نہ تھی ۔ لیکن جب مدینہ میں اسلامی حکومت قائم ہوگئی اور ان پر جہاد و قتال من جانب اللہ فرض ہوگیا اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات کا علم تھا کہ اب ان کے لئے جہاد و قتال میں نہایت خیروبرکت ہے تو اب ان کی تصویر کشی قرآن نے ان الفاظ میں کی ” تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ تھا کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا کہ خدا سے ڈرنا چاہئے یا کچھ اس سے بڑھ کر ‘ کہتے ہیں خدایا یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا ؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی ؟ “ اور یہ لوگ وہ تھے کہ اگر ان کی کوئی بھلائی نصیب ہوتی تو کہتے یہ اللہ کی جانب سے ہے اور اگر کوئی مصیبت درپیش ہوتی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے کہ یہ آپ کی جانب سے ہے ۔ اور ان میں سے ایسے بھی تھے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہوتے تو جی ہاں کہتے ‘ لیکن جب آپ سے علیحدہ ہوتے تو یہ لوگ اپنی مجلسوں میں کچھ اور باتیں کرتے ۔ اور بعض ایسے تھے کہ اگر کوئی اطمینان بخش یا خوفناک بات سنتے تو اسے فورا پھیلا دیتے ۔ قرآن کریم ایسے لوگوں کے طرز عمل پر تعجب کا اظہار کرتا ہے اور یہ قرآن کریم کا اپنا مخصوص اسلوب اظہار ہے ‘ جس کے اندر انسان کی لطیف نفسیات کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔ ان اندرونی نفسیات کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ گویا چلتی پھرتی تصویریں نظر آتی ہیں ۔ ایسے لوگوں کی سوچ میں موت وحیات ‘ فضا وقدر ‘ خیر وشر ‘ نفع وضرر ‘ فائدے اور خسارے اقدار وپیمانوں کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں جو غلطی اور کجی تھی اسے درست کیا گیا ۔ اور قرآن کے مخصوص اور نہایت ہی موثر اور اشاراتی انداز اور اسلوب میں اسے بیان کیا گیا ۔ ذرا ملاحظہ ہو ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 جو لوگ اہل ایمان ہیں اور ایمان لا چکے ہیں اور کامل مئومن ہیں وہ تو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں یعنی ان کی جنگ کا مقصد اللہ کے دین کو بلند کرنا ہوتاے کیونکہ دنیا کا امن اللہ تعالیٰ ہی کے قانون سے ہوسکتا ہے اور جو لوگ اہل کفر ہیں اور کفر کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں وہ شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں یعنی ان...  کا مقصد کفر کا غلبہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اے مسلمانو ! تم شیطان کے دوستوں اور شیطان کے حمایتیوں سے جہاد کرو اور سا بات کو یقین رکھو کہ شیطان کی تدبیر کمزور اور سا کا دائو اوچھا اور بودا ہوتا ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ ایک طرف کامل اہل ایمان ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں خدا کا قانون رائج ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کا حکم بلند ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا مالک ہے اور اس کی قانون میں اتنی لچک اور رعایت ہے کہ تمام مخلوق کے ساتھ انصاف کیا جائے اور جب انصاف کی حکومت ہوگی تو امن قائم رہے گا دنیا کے امن کے لئے یہ ضروری ہے کہ دنیا میں وہ قانون رائج ہو جو خدا کا قانون ہے لہٰذا کامل مومن جب جنگ کرتا ہے تو اس کے سامنے یہی ایک مقصد ہوتا ہے لیکن اس کے مقابلے میں کفار کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ کفر کی ترویج ہو اور کفر کا غلبہ ہو اور طاغوتی قوتیں برسر اقتدار آئیں تاکہ دنیا میں کفر و شرک خوب چمکے اور چونکہ کفر و شرک شیطان کی راہیں ہیں اس لئے کافر شیطان کے کام اس کی مدد کرتے ہیں۔ لہٰذا اے مسلمانو ! تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ تم شیطان کے دوستوں اور مددگاروں سے جنگ کرو تاکہ دنیا میں شیطانی طاقت پنپنے نہ پائے اور اگر تم کو یہ خوف ہو کہ جب ہم کافروں سے لڑیں تو چونکہ وہ شیطان کے حمایتی ہیں اس لئے شیطان ان کو لڑنے کے دائوں گھات بتائے گا اور ان کو مختلف تدبیریں سکھائے گا اور … ان کو ایسے دائو پیچ بتائے گا جن کی وجہ سے ہم ان کے حمایتوں کو شکست نہ دے سکیں گے تو اسے مسلمانو ! اس قسم کا اندیشہ نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ تم کو یقین دلاتا ہے کہ شیطان کی تدبیر ضعیف اور کمزور ہے اور اس کا دائو اچھا دائو ہے، پھر یہ کہ تمہارے ساتھ میری اعانت اور سری نصرت ہے لہٰذا تم کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ قرآن کریم میں نصرت کا وعدہ بہت جگہ مذکور ہے اور ہم اوپر بتا بھی چکے ہیں کہ کامل مومن کے ایمان کا مقتضایہی ہے کہ اس کی مدد ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے مخلصین کو معاندین پر غلبہ دیتا ہے لیکن کبھی کسی مانع کی وجہ سے ایسا نہیں ہوتا اور وہ مقتضا پورا نہیں ہوتا خواہ وہ مانع حضرت حق کی جانب سے کوئی ابتلا اور امتحان ہو یا وہ مانع حضرت حق کی اطاعت میں کوتاہی ہو یا کوئی اور ایسی غلطی ہو جس کا علم ہم کو نہ ہو یا حق تعالیٰ کی کوئی اور مصلحت ہو (واللہ تعالیٰ اعلم) اب آگے پھر جہاد کی ترغیب ہے اور ایک نئے عنوان سے ہے جس میں دنیا کی بےثباتی اور موت کا لزوم وغیرہ بھی مذکور ہے اور مسلمانوں کی شکایت بھی ہے اگرچہ شکایت بھی تلطف آمیز ہے کیونکہ وہ لوگ بہرحال مہاجر مسلمان ہیں لیکن طبعاً ایسا ہوتا ہے کہ مصائب کے وقت طبیعت کا اقتضا اور ہوتا ہے اور اطمینان و راحت کے وقت طبیعت کا اقتضا دوسرا ہوتا ہے، بات یہ ہے کہ مکہ معظمہ میں جب کفار مسلمانوں کو ستاتے تھے اور طرح طرح سے فرائض اسلامی کے بجا لانے میں رکاوٹ ڈالتے تھے تو مسلمانوں کو جوش آتا تھا اور وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قتال اور جہاد کی اجازت مانگتے تھے لیکن اس وقت مسلمانوں کی ایسی حالت نہ تھی کہ ان کو جہاد کا حکم دیا جاتا اور جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ آگئے اور یہاں آزاد آب و ہوا میں سانس لینے کا موقعہ میسر آیا اور اطمینان نصیب ہوا تو طبیعت کا وہ جوش کم پڑگیا لیکن مدینہ میں آزاد حکومت کے قیام کی وجہ سے جہاد کی شرائط مستحق ہوگئیں اور اشاعت دین اور اعلاء کلمتہ اللہ اور مکہ کے قیدیوں کی رہائی اور کفار عرب کی بےجا مزاحمت اور اہل کتاب کی ساز باز۔ ان تمام امور کے پیش نظر جہاد کی فرضیت کا اعلان کیا گیا اور جہاد فرض کیا گیا تو وہی مسلمان جو مکہ میں جہاد کا تقاضا کیا کرتے تھے اس حکم کو سن کر سرد مہری دکھانے اور پس و پیش کرنے لگے اور بعض کو یہ خیال ہوا کہ ذرا ہم اور مضبوط ہوجاتے اس وقت یہ حکم ہوتا تو ہم اس کو اچھی طرح انجام دیتے آگے کی ان آیتوں میں اسی قسم کا تذکرہ ہے اور اسی واقعہ کی جانب اشارہ سے کچے لوگوں کو تنبیہ بھی ہے ولاسا اور تسلی بھی ہے جو کچھ انہوں نے کہا تھا اس کا جواب بھی ہے چناچہ ارشاد ہتا ہے۔ (تسہیل)  Show more