Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 77

سورة النساء

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ قِیۡلَ لَہُمۡ کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ۚ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقِتَالُ اِذَا فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ یَخۡشَوۡنَ النَّاسَ کَخَشۡیَۃِ اللّٰہِ اَوۡ اَشَدَّ خَشۡیَۃً ۚ وَ قَالُوۡا رَبَّنَا لِمَ کَتَبۡتَ عَلَیۡنَا الۡقِتَالَ ۚ لَوۡ لَاۤ اَخَّرۡتَنَاۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ؕ قُلۡ مَتَاعُ الدُّنۡیَا قَلِیۡلٌ ۚ وَ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لِّمَنِ اتَّقٰی ۟ وَ لَا تُظۡلَمُوۡنَ فَتِیۡلًا ﴿۷۷﴾

Have you not seen those who were told, "Restrain your hands [from fighting] and establish prayer and give zakah"? But then when fighting was ordained for them, at once a party of them feared men as they fear Allah or with [even] greater fear. They said, "Our Lord, why have You decreed upon us fighting? If only You had postponed [it for] us for a short time." Say, The enjoyment of this world is little, and the Hereafter is better for he who fears Allah . And injustice will not be done to you, [even] as much as a thread [inside a date seed]."

کیا تم نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور نمازیں پڑھتے رہو اور زکوۃ ادا کرتے رہو ۔ پھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالٰی کا ڈر ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اور کہنے لگے اے ہمارے رب! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا ؟کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دی ؟ آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی سِتَم روانہ رکھا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Wish that the Order for Jihad be Delayed Allah says; أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّواْ أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُواْ الصَّلَةَ وَاتُواْ الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ... Have you not seen those who were told to hold back their hands (from fighting) and perform Salah and give Zakah, but when the fighting was ordained for them, behold! a section of them fear men as they fear Allah or even more. In the beginning of Islam, Muslims in Makkah were commanded to perform the prayer and pay some charity, so as to comfort the poor among them. They were also commanded to be forgiving and forbearing with the idolators and to observe patience with them at the time. However, they were eager and anticipating the time when they would be allowed to fight, so that they could punish their enemies. The situation at that time did not permit armed conflict for many reasons. For instance, Muslims were few at the time, compared to their numerous enemies. The Muslims' city was a sacred one and the most honored area on the earth, and this is why the command to fight was not revealed in Makkah. Later on when the Muslims controlled a town of their own, Al-Madinah, and had strength, power and support, Jihad was then legislated. Yet, when the command to fight was revealed, just as Muslims wished, some of them became weary and were very fearful of facing the idolators in battle. ... وَقَالُواْ رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلا أَخَّرْتَنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ ... They say: "Our Lord! Why have You ordained for us fighting Would that You had granted us respite for a short period!" meaning, we wish that Jihad was delayed until a later time, because it means bloodshed, orphans and widows. In a similar Ayah, Allah said, وَيَقُولُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ لَوْلاَ نُزِّلَتْ سُورَةٌ فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ Those who believe say: "Why is not a Surah sent down (for us) But when a decisive is sent down, and fighting is mentioned. (47:20) Ibn Abi Hatim recorded that Ibn Abbas said that; Abdur-Rahman bin Awf and several of his companions came to the Prophet while in Makkah and said, "O Allah's Prophet! We were mighty when we were pagans, but when we embraced the faith, we became weak." The Prophet said, إِنِّي أُمِرْتُ بِالْعَفْوِ فَلَ تُقَاتِلُوا الْقَوْم I was commanded to pardon the people, so do not fight them. When Allah transferred the Prophet to Al-Madinah, He commanded him to fight (the idolators), but they (some Muslims) held back. So, Allah revealed the Ayah; أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّواْ أَيْدِيَكُمْ (Have you not seen those who were told to hold back their hands). This Hadith was collected by An-Nasa'i and Al-Hakim. Allah's statement, ... قُلْ مَتَاعُ الدَّنْيَا قَلِيلٌ وَالاخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَى ... Say: "Short is the enjoyment of this world. The Hereafter is (far) better for him who fears Allah, means, the destination of the one who with Taqwa is better for him than this life. ... وَلاَ تُظْلَمُونَ فَتِيلً and you shall not be dealt with unjustly even equal to the Fatil. for your good deeds. Rather, you will earn your full rewards for them. This promise directs the focus of believers away from this life and makes them eager for the Hereafter, all the while encouraging them to fight in Jihad. There is No Escaping Death Allah said,

اولین درس صبر و ضبط واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ ابتدائے اسلام میں جب مکہ شریف میں تھے کمزور تھے حرمت والے شہر میں تھے کفار کا غلبہ تھا یہ انہی کے شہر میں تھے وہ بکثرت تھے جنگی اسباب میں ہر طرح فوقیت رکھتے ہیں ، اس لئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد و قتال کا حکم نہیں دیا تھا ، بلکہ ان سے فرمایا تھا کہ کافروں کی ایذائیں سہتے چلے جائیں ان کی مخالفت برداشت کریں ، ان کے ظلم و ستم برداشت کریں ، جو احکام اللہ نازل ہو چکے ہیں ان پر عامل رہیں نماز ادا کرتے رہیں زکوٰۃ دیتے رہا کریں ، گو ان میں عموماً مال کی زیادتی بھی نہ تھی لیکن تاہم مسکینوں اور محتاجوں کے کام آنے کا اور ان کی ہمدردی کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا مصلحت الٰہی کا تقاضہ یہ تھا کہ سردست یہ کفار سے نہ لڑیں بلکہ صبر و ضبط سے کام لیں ادھر کافی بڑی دلیری سے ان پر ستم کے پہاڑ توڑ رہے تھے ہر چھوٹے بڑے کو سخت سے سخت سزائیں دے رہے تھے ، مسلمانوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا اس لئے ان کے دل میں رہ رہ کر جوش اٹھتا تھا اور زبان سے الفاظ نکل جاتے تھے کہ اس روز مرہ کی مصیبتوں سے تو یہی بہتر ہے کہ ایک مرتبہ دل کی بھڑاس نکل جائے ، دو دو ہاتھ میدان میں ہو لیں کاش کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جہاں کا حکم دے دے ، لیکن اب تک حکم نہیں ملا تھا ، جب انہیں ہجرت کی اجازت ملی اور مسلمان اپنی زمین ، زر ، رشتہ ، کنبے ، اللہ عزوجل کے نام پر قربان کر کے اپنا دین لے کر مکہ سے ہجرت کر کے مدینے پہنچے یہاں انہیں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی سہولت دی امن کی جگہ دی امداد کے لئے انصار مدینہ دئیے ، تعداد میں کثرت ہو گئی قوت و طاقت قدر بڑھ گئی تو اب اللہ حاکم مطلق کی طرف سے اجازت ملی کہ اپنے لڑنے والوں سے لڑو ، جہاد کا حکم اترتے ہی بعض لوگ سٹ پٹائے ، خوف زدہ ہوئے جہاد کا تصور کر کے میدان میں قتل کئے جانے کا تصور عورتوں کے رنڈاپے کا خیال ، بچوں کی یتیمی کا منظر آنکھوں کے سامنے آگیا گھبراہٹ میں کہہ اٹھے کہ اے اللہ ابھی سے جہاد کیوں فرض کر دیا کچھ تو مہلت دی ہوتی ۔ اسی مضمون کو دوسری آیتوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ ( وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُوْرَةٌ ۚ فَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَّذُكِرَ فِيْهَا الْقِتَالُ ) 47 ۔ محمد:20 ) مختصر مطلب یہ ہے کہ ایماندار کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی جاتی جب کوئی سورت اتاری جاتی ہے اور اس میں جہاد کا ذکر ہوتا ہے تو بیمار دل لوگ چیخ اٹھتے ہیں ٹیڑھے تیوروں سے تجھے گھورتے ہیں اور موت کی غشی والوں کی طرح اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہی ان پر افسوس ہے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھی مکہ شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں اے نبی اللہ ہم کفر کی حالت میں منع کرتے ہیں جن سے کفار کی جرأت بڑھ گئی ہے ۔ اور وہ ہمیں ذلیل کرنے لگے ہیں تو آپ ہمیں مقابلہ کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟ ) لیکن آپ نے جواب دیا مجھے اللہ کا حکم یہی ہے کہ ہم درگزر کریں کافروں سے جنگ نہ کریں ۔ پھر جب مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی اور جہاد کے احکام نازل ہوئے تو لوگ ہچکچانے لگے اس پر یہ آیت اتری ( نسائی حاکم ابن مردویہ ) سدی فرماتے ہیں صرف صلوۃ و زکوٰۃ کا حکم ہی تھا تو تمنائیں کرتے تھے کہ جہاد فرض ہو جب فریضہ جہاد نازل ہوا تو کمزور دل لوگ انسانوں سے ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرنا چاہیے بلکہ اس سے بھی زیادہ کہنے لگے اے رب تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کیا کیوں ہمیں اپنی موت کے صحیح وقت تک فائدہ نہ اٹھانے دیا ۔ انہیں جواب ملتا ہے کہ دنیوی نفع بالکل ناپائیدار اور بہت ہی کم ہے ہاں متقیوں کے لئے آخرت دنیا سے بہتر اور پاکیزہ تر ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ آیت یہودیوں کے بارے میں اتری ہے ، جواباً کہا گیا کہ پرہیزگاروں کا انجام آغاز سے بہت ہی اچھا ہے ۔ تمہیں تمہارے اعمال پورے پورے دیئے جائیں گے کامل اجر ملے گا ایک بھی نیک عمل غارت نہ کیا جائے گا ناممکن ہے کہ ایک بال برابر ظلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر کیا جائے ۔ اس جملے میں انہیں دنیا سے بےرغبتی دلائی جا رہی ہے آخرت کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے جہاد کی رغبت دی جا رہی ہے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں اللہ اس بندے پر رحم کرے جو دنیا کے ساتھ ایسا ہی رہے ساری دنیا اول سے آخرت تک اس طرح ہے جیسے کوئی سویا ہوا شخص اپنے خواب میں اپنی پسندیدہ چیز کو دیکھے لیکن آنکھ کھلتے ہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کچھ نہ تھا ۔ حضرت ابو مصہر کا یہ کلام کتنا پیارا ہے ولا خیر فی الدنیا لمن لم یکن لہ من اللہ فی دار المقام نصیب فان تعجب الدنیا رجالا فانھا متاع قلیل والزوال قریب یعنی اس شخص کے لئے دنیا بھلائی سے یکسر خالی ہے جسے کل آخرت کا کوئی حصہ ملنے والا نہیں ۔ گو دنیا کو دیکھ دیکھ کر بعض لوگ ریجھ رہے ہیں لیکن دراصل یہ یونہی سا فائدہ ہے اور وہ بھی جلد فنا ہو جانے والا ۔ پھر ارشاد باری ہے کہ آخرش موت کا مزا ہر ایک چکھنا ہی ہے کوئی ذریعہ کسی کو اس سے بچا نہیں سکتا ، جسے فرمان ہے ( كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ) 55 ۔ الرحمن:26 ) جتنے یہاں ہیں سب فانی ہیں ، اور جگہ ارشاد ہے ( كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ) 3 ۔ آل عمران:185 ) ہر ہر جاندار مرنے والا ہے فرماتا ہے ( وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ) 21 ۔ الانبیآء:34 ) تجھ سے اگلے لوگوں میں سے بھی کسی کے لئے ہم نے ہمیشہ کی زندگی مقرر نہیں کی ۔ مقصد یہ ہے کہ خواہ جہاد کر لے یا نہ کرے ذات اللہ کے سوا موت کا مزا تو ایک نہ ایک روز ہر کسی کو چکھنا ہی پڑے گا ۔ ہر ایک کا ایک وقت مقرر ہے اور ہر ایک کی موت کی جگہ معین ہے ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قوت جبکہ آپ بستر مرگ پر ہیں فرماتے ہیں اللہ کی قسم فلاں جگہ فلاں جگہ غرض بیسیوں لڑائیوں میں سینکڑوں معرکوں میں گیا ثابت قدمی پامردی کے ساتھ دلیرانہ جہاد کئے آؤ دیکھ لو میرے جسم کا کوئی عضو ایسا نہ پاؤ گے جہاں کوئی نہ کوئی نشان نیزے یا برچھے یا تیر یا بھالے کا تلوار اور ہتھیار کا نہ ہو لیکن چونکہ میدان جنگ میں موت نہ لکھی تھی اب دیکھو اپنے بسترے پر اپنی موت کے پنجے سے بلند و بالا مضبوط اور مضبوظ قلعے اور محل بھی بچا نہیں سکتے ۔ بعض نے کہا مراد اس سے آسمان کے برج ہیں ، لیکن یہ قول ضعیف ہے صحیح یہی ہے کہ مراد محفوظ مقامات ہیں یعنی کتنی ہی حفاظت موت سے کی جائے ۔ لیکن وہ اپنے وقت سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتی زہیر کا شعر ہے کہ موت سے بھاگنے والا گو زینہ لگا کر اسباب آسمانی بھی جمع کر لے تو بھی اسے کوئی نفع نہیں پہنچ سکتا ، ایک قول ہے مشیدہ بہ تشدید مشید بغیر تشدید ایک ہی معنی میں ہیں اور بعض ان دونوں میں فرق کے قائل ہیں کہتے ہیں کہ اول کا معنی مطول دوسرے کا معنی مزین یعنی چونے سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں اس موقعہ پر ایک مطول قصہ بزبان حضرت مجاہد مروی ہے کہ اگلے زمانے میں ایک عورت حاملہ تھی جب اسے درد ہونے لگے اور بچی تولد ہوئی تو اس نے اپنے ملازم سے کہا کہ جاؤ کہیں سے آگ لے آؤ وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ دروازے پر ایک شخص کھڑا ہے پوچھتا ہے کہ کیا ہوا لڑکی یا لڑکا ؟ اس نے کہا لڑکی ہوئی ہے کہا سن یہ لڑکی ایک سو آدمیوں سے زنا کرائے گی پھر اس کے ہاں اب جو شخص ملازم ہے اسی سے اس کا نکاح ہوگا اور ایک مکڑی اس کی موت کا باعث بنے گی ۔ یہ شخص یہیں سے پلٹ آیا اور آتے ہی ایک تیز چھری لے کر اس لڑکی کے پیٹ کو چیر ڈالا اور اسے مردہ سمجھ کر وہاں سے بھاگ نکلا اس کی ماں نے یہ حال دیکھ کر اپنی بچی کے پیٹ کو ٹانکے دئیے اور علاج معالجہ شروع کیا جس سے اس کا زخم بھر گیا اب ایک زمانہ گزر گیا ادھر یہ لڑکی بلوغت کو پہنچ گئی اور تھی بھی اچھی شکل و صورت کی بدچلنی میں پڑگئی ادھر ملازم سمندر کے راستے کہیں چلا گیا کام کاج شروع کیا اور بہت رقم پیدا کی کل مال سمیٹ کر بہت مدت بعد یہ پھر اسی اپنے گاؤں میں آ گیا ایک بڑھیا عورت کو بلا کر کہا کہ میں نکاح کرنا چاہتا ہوں گاؤں میں جو بہت خوبصورت عورت ہو اس سے میرا نکاح کرا دو ، یہ عورت گئی اور چونکہ شہر بھر میں اس لڑکی سے زیادہ خوش شکل کوئی عورت نہ تھی یہیں پیغام بھیجا ، منظور ہو گیا ، نکاح بھی ہو گیا اور وداع ہو کر یہ اس کے ہاں آ بھی گئی دونوں میاں بیوی میں بہت محبت ہو گئی ، ایک دن ذکر اذکار میں اس عورت نے اس سے پوچھا آپ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں یہاں کیسے آ گئے؟ وغیرہ اس نے اپنا تمام ماجرا بیان کر دیا کہ میں یہاں ایک عورت کے ہاں ملازم تھا اور وہاں سے اس کی لڑکی کے ساتھ یہ حرکت کرکے بھاگ گیا تھا اب اتنے برسوں کے بعد یہاں آیا ہوں تو اس لڑکی نے کہا جس کا پیٹ چیر کر تم بھاگے تھے میں وہی ہوں یہ کہہ کر اپنے اس زخم کا نشان بھی اسے دکھایا تب تو اسے یقین ہو گیا اور کہنے لگا جب تو وہی ہے تو ایک بات تیری نسبت مجھے اور بھی معلوم ہے وہ یہ کہ تو ایک سو آدمیوں سے مجھ سے پہلے مل چکی ہے اس نے کہا ٹھیک ہے یہ کام تو مجھ سے ہوا ہے لیکن گنتی یاد نہیں ۔ اس نے کہاکہ مجھے تیری نسبت ایک اور بات بھی معلوم ہے وہ یہ کہ تیری موت کا سبب ایک مکڑی بنے گی ، خیر چونکہ مجھے تجھ سے بہت زیادہ محبت ہے میں تیرے لئے ایک بلند وبالا پختہ اور اعلیٰ محل تعمیر کرادیتا ہوں اسی میں تو رہ تاکہ وہاں تک ایسے کیڑے مکوڑے پہنچ ہی نہ سکیں چنانچہ ایسا ہی محل تیار ہوا اور یہ وہاں رہنے لگی ، ایک مدت کے بعد ایک روز دونوں میاں بیوی بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک چھت پر ایک مکڑی دکھائی دی اسے دیکھتے ہیں اس شخص نے کہادیکھو آج یہاں مکڑی دکھائی دی عورت بولی اچھا یہ میری جان لیوا ہے ؟ تو میں اس کی جان لوں گی غلاموں کو حکم دیا کہ اسے زندہ پکڑ کر میرے سامنے لاؤ نوکر پکڑ کر لے آئے اس نے زمین پر رکھ کر اپنے پیر کے انگوٹھے سے اسے مل ڈالا اس کی جان نکل گئی لیکن اس میں سے پیپ کا ایک آدھ قطرہ اس کے انگوٹھے کے ناخن اور گوشت کے درمیان اڑ کر چپک گیا اس کا زہر چڑھا پیر سیاہ پڑ گیا اور اسی میں آخر مر گئی ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جب باغی چڑھ دوڑے تو آپ نے امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیر خواہی اور ان کے اتفاق کی دعا کے بعد دو شعر پڑھے جن کا مطلب بھی یہی ہے کہ موت کو ٹالنے والی کوئی چیز اور کوئی حیلہ کوئی قوت اور کوئی چالاکی نہیں ، حضر کے بادشاہ ساطرون کو کسرفی شاپور ذوالا کناف نے جس طرح قتل کیا وہ واقعہ بھی ہم یہاں لکھتے ہیں ، ابن ہشام میں ہے جب شاہ پور عراق میں تھا تو اس کے علاقہ یر ساطرون نے چڑھائی کی تھی اس کے بدلے میں جب اس نے چڑھائی کی تو یہ قلعہ بند ہو گیا دو سال تک محاصرہ رہا لیکن قلعہ فتح نہ ہو سکا ایک روز ساطرون کی بیٹی نضیرہ اپنے باپ کے قلعہ کا گشت لگا رہی تھی اچانک اس کی نظر شاہ پور پر پڑھ گئی یہ اس وقت شاہانہ پر تکلف ریشمی لباس میں تاج شاہی سر پر رکھے ہوئے تھا نضیرہ کے دل میں آیا کہ اس سے میری شادی ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہو؟ چنانچہ اس نے خفیہ پیغام بھیجنے شروع کیے اور وعدہ ہو گیا کہ اگر یہ لڑکی اس قلعہ پر شاہ پور کا قبضہ کرا دے تو شاہ پور اس سے نکاح کر لیگا اس کا باپ ساطرون بڑا شرابی تھا اس کی ساری رات نشہ میں کٹتی تھی اس کی لڑکی نے موقعہ پا کر رات کو اپنے باپ کو نشہ میں مد ہوش دیکھ کر اس کے سرہانے سے قلعہ کے دروازے کی کنجیاں چپکے سے نکال لیں اور اپنے ایک با اعتماد غلام کے ہاتھ ساطرون تک پہنچا دیں جس سے اس نے دروازہ کھول لیا اور شہر میں قتل عام کرایا اور قابض ہو گیا یہ بھی کہا گیا کہ اس قلعہ میں ایک جادو تھا جب تک اس طلسم کو توڑا نہ جائے قلعہ کا فتح ہونا ناممکن تھا اس لڑکی نے اس کے توڑنے کا گر اسے بتا دیا کہ ایک چت کبرا کبوتر لے کر اس کے پاؤں کسی باکرہ کے پہلے حیض کے خون سے رنگ لو پھر اس کبوتر کو چھوڑو وہ جا کر قلعہ کی دیوار پر بیٹھے تو فوراً وہ طلسم ٹوٹ جائے گا اور قلعہ کا پھاٹک کھل جائے گا چنانچہ شاہ پور نے یہی کیا اور قلعہ فتح کر کے ساطرون کو قتل کر ڈالا تمام لوگوں کو تیغ کیا اور تمام شہر کو اجاڑ دیا اور اس لڑکی کو اپنے ہمراہ لے گیا اور اس سے نکاح کر لیا ۔ ایک رات جبکہ لڑکی نضیرہ اپنے بسترے پر لیٹی ہوئی تھی اسنے نیند نہ آ رہی تھی سلملا رہی تھی اور بےچینی سے کروٹیں بدل رہی تھی تو شاہ پور نے پوچھا کیا بات ہے اس نے کہا میرے بستر میں کچھ ہے جس سے مجھے نید نہیں آ رہی ، شمع جلائی گئی بستر ٹٹولا گیا تو گل آس کی ایک بتی نکلی شاہ پور اس نزاکت پر حیران رہ گیا کہ ایک اتنی چھوٹی سی بتی بستر میں ہونے پر اسے نیند نہیں آئی؟ پوچھا تیرے والد کے ہاں تیرے لئے کیا ہوتا تھا ؟ اس نے کہا نرم ریشم کا بسترا تھا صرف باریک نرم ریشمی لباس تھا صرف نلیوں کا گودا کھایا کرتی تھی اور صرف انگوری خالص شراب پیتی تھی ۔ یہ انتظام میرے باپ نے میرے لئے کر رکھا تھا ۔ یہ تھی بھی ایسی کہ اس کی پنڈلی کا گودا تک باہر سے نظر آتا تھا ۔ ان باتوں سے شاہ پور پر ایک اور رنگ چڑھا دیا اور اس نے کہا جس باپ نے تجھے اس طرح پالا پوسا اس کے ساتھ تو نے یہ سلوک کیا کہ میرے ہاتھوں اسے قتل کرایا اس کے مالک کو تاخت و تاراج کرایا پھر مجھے تجھ سے کیا امید رکھنی چاہیے؟ اللہ جانے میرے ساتھ تو کیا کرے؟ اسی وقت حکم دیا کہ اس کے سر کے بال گھوڑے سے باندھ دیئے جائیں اور گھوڑے کو بےلگام چھوڑ دیا جائے ، چنانچہ یہی ہوا گھوڑا بد کا بھاگا اچھلنے کودنے لگا اور اس کی ٹاپوں سے زمین پر پچھاڑیں کھاتے ہوئے اس کے جسم کا چورا چورا ہوگیا ۔ چنانچہ اس واقعہ کو عرب شعراء نے نظم بھی کیا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر انہیں خوش حالی پھلواری اولاد و کھیتی ہاتھ لگے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر قحط سالی پڑے تنگ روزی ہو موت ہونے کا یہ پھل ہے صاحب ایمان بننے کا ، فرعونی بھی اسی طرح برائیوں کو حضرت موسیٰ اور مسلمانوں سے منسوب بد شگونی لیا کرتے تھے جیسے کہ قرآن نے اس کا ذکر کیا ہے ایک آیت میں ہے ( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِهٖ ۚ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْهِهٖ ڗ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةَ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ ) 22 ۔ الحج:11 ) یعنی بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ایک کنارے کھڑے رہ کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں یعنی اگر بھلائی ملی تو باچھیں کھل جاتی ہیں اور اگر برائی پہنچے تو الٹے پیروں پلٹ جاتے ہیں ۔ یہ ہیں جو دونوں جہان میں برباد ہوں گے پس یہاں بھی ان منافقوں کی جو بظاہر مسلمان ہیں اور دل کے کھوٹے ہیں برائی بیان ہو رہی ہے ۔ کہ جہاں کچھ نقصان ہوا اور بہک گئے کہ اسلام لانے کی وجہ سے ہمیں نقصان ہوا ۔ سدی فرماتے ہیں کہ حسنہ سے مراد یہاں بارشوں کا ہونا جانوروں میں زیادتی ہونا بال بچے بہ کثرت ہونا خوشحالی میسر آنا وغیرہ ہے اگر یہ ہوا تو کہتے کہ یہ سب من جانب اللہ ہے اور اگر اس کے خلاف ہو تو اس بےبرکتی کا باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتاتے اور کہتے یہ سب تیری وجہ سے ہے یعنی ہم نے اپنے بڑوں کی راہ چھوڑ دی اور اس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تابعداری اختیار کی اس لئے اس مصیبت میں پھنس گئے اور اس بلا میں گرفتار ہوئے پس پروردگار ان کے ناپاک قول اور اس پلید عقیدے کی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے ، اس کی قضا و قدر ہر بھلے برے فاسق فاجر نیک بد مومن کافر پر جاری ہے ، بھلائی برائی سب اس کی طرف سے ہے پھر ان کے اس قول کی جو محض شک و شبہ کم علمی بےوقوفی جہالت اور ظلم کی بنا پر ہے تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ انہیں کیا ہو گیا ہے؟ بات سمجھنے کی قابلیت بھی ان سے جاتی رہی ۔ ایک غریب حدیث جو ( آیت کل من عند اللہ ) کے متعلق ہے اسے بھی سنئے بزار میں ہے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے کہ کچھ لوگوں کے ہمراہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے ان دونوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب آ کر دونوں صاحب بیٹھ گئے توحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت کیا کہ بلند آواز گفتگو کیا ہو رہی تھی؟ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو کہہ رہے تھے ؟ حضرت عمر نے کہا میں کہہ رہا تھا کہ دونوں باتیں اللہ جل شانہ کی طرف سے ہیں آپ نے فرمایا یہی بحث اول اول حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل وہی کہتے تھے جو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم کہ رہے ہو ۔ پس آسمان والوں میں جب اختلاف ہوا تو زمین والوں میں تو ہونا لازمی تھا ، آخر حضرت اسرافیل کی طرف فیصلہ گیا اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ حسنات اور سیات دونوں اللہ مختار کل کی طرف سے ہیں ، پھر آپ نے دونوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا میرا فیصلہ سنو اور یاد رکھو اگر اللہ تعالیٰ اپنی نافرمانی کے عمل کو نہ چاہتا تو ابلیس کو پیدا ہی نہ کرتا ، لیکن شیخ الاسلام امام تقی الدین ابو العباس حضرت ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث موضوع ہے اور تمام ان محدثین کا جو حدیث کی پرکھ رکھتے ہیں اتفاق ہے کہ یہ روایت گھڑی ہوئی ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب فرماتے ہیں جس سے مراد عموم ہے یعنی سب سے ہی خطاب ہے کہ تمہیں جو بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ کا فضل لطف رحمت اور جو برائی پہنچتی ہے وہ خود تمہاری طرف سے تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے ، جیسے اور آیت میں ہے ( وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ ) 42 ۔ الشوری:30 ) یعنی جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے ۔ وہ تمہارے بعض اعمال کی وجہ سے اور بھی تو اللہ تعالیٰ بہت سی بد اعمالیوں سے دو گزر فرماتا رہتا ہے ( مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ۡ وَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ ۭوَاَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا ۭ وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًا ) 4 ۔ النسآء:79 ) میں فَمِنْ نَّفْسِكَ سے مراد بسبب گناہ ہے یعنی شامت اعمال آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص کا ذرا سا جسم کسی لکڑی سے جل جائے یا اس کا قدم پھسل جائے یا اسے ذرا سی محنت کرنی پڑے جس سے پسینہ آ جائے تو وہ بھی کسی نہ کسی گناہ پر ہوتا ہے اور ابھی تک تو اللہ تعالیٰ جن گناہوں سے چشم پوشی فرماتا ہے جنہیں معاف کر دیتا ہے وہ بہت سارے ہیں ، اس مرسل حدیث کا مضمون ایک متصل حدیث میں بھی ہے حضور فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ایمان دار کو رنج یا جو بھی تکلیف و مشقت پہنچتی ہے یہاں تک کہ جو کانٹا بھی لگتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کا کفارہ بنا دیتا ہے ، ابو صالح فرماتے ہیں مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ جو برائی تجھے پہنچتی ہے اس کا باعث تیرا گناہ ہے ہاں اسے مقدر کرنے والا اللہ تعالیٰ آپ ہے ، حضرت مطرف بن عبداللہ فرماتے ہیں تم تقدیر کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ کیا تمہیں سورہ نساء کی یہ آیت کافی نہیں ، پھر اس آیت کو پڑھ کر فرماتے ہیں اللہ سبحانہ کی قسم لوگ اللہ سبحانہ کی طرف سونپ نہیں دئیے گئے انہیں حکم دیئے گئے ہیں اور اسی کی طرف وہ لوٹتے ہیں یہ قول بہت قوی اور مضبوط ہے قدریہ اور جبریہ کی پوری تردید کرتا ہے ، تفسیر اس بحث کا موضوع نہیں ، پھر فرماتا ہے کہ تیرا کام اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شریعت کی تبلیغ کرنا ہے اس کی رضامندی اور ناراضگی کے کام کو اس کے احکام اور اس کی ممانعت کو لوگوں تک پہنچا دینا ہے ، اللہ کی گواہی کافی ہے کہ اس نے تجھے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنا کر بھیجا ہے ، اسی طرح کی گواہی اس امر پر بھی کافی ہے کہ تو نے تبلیغ کر دی تیرے ان کے درمیان جو ہو رہا ہے کہ اسے بھی وہ مشاہدہ کر رہا ہے یہ جس طرح کفار عناد اور تکبر تیرے ساتھ برتتے ہیں اسے بھی وہ دیکھ رہا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

77۔ 1 مکہ میں مسلمان چونکہ تعداد اور وسائل کے اعتبار سے لڑنے کے قابل نہیں تھے اس لئے مسلمانوں کی خواہش کے باوجود انہیں قتال سے روکے رکھا گیا اور دو باتوں کی تاکید کی جاتی رہی، ایک یہ کہ کافروں کے ظالمانہ رویے کو صبر اور حوصلے سے برداشت کریں اور عفو و درگزر سے کام لیں۔ دوسرے یہ کہ نماز، زکوٰۃ اور دیگر عبادات وتعلیمات پر عمل کا اہتمام کریں تاکہ اللہ تعالیٰ سے ربط وتعلق مضبوط بنیادوں پر استوار ہوجائے۔ لیکن ہجرت کے بعد جب مدینہ میں مسمانوں کی طاقت مجتمع ہوگئی تو پھر انہیں قتال کی اجازت دے دی گئی اور جب اجازت دے دی گئی تو بعض لوگوں نے کمزوری اور پست ہمتی کا اظہار کیا۔ اس پر آیت میں مکی دور کی ان کی آرزو یاد دلا کر کہا جا رہا ہے کہ اب یہ مسلمان حکم جہاد سن کر خوف زدہ کیوں ہو رہے ہیں جب کہ یہ حکم جہاد خود ان کی اپنی خوہش کے مطاپق ہے۔ آیات قرآن میں تحریف : آیت کا پہلا حصہ جس میں کف ایدی (لڑائی سے ہاتھ روکے رکھنے) کا حکم ہے۔ 77۔ 2 اس کا دوسرا ترجمہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس حکم کو کچھ اور مدت کے لئے مؤخر کیوں نہ کردیا یعنی اجلٍ قَریبٍ سے مراد موت یا فرض جہاد کی مدت ہے (ابن کثیر) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٦] مکہ میں جہاد پر بندش :۔ مکہ میں مسلمانوں پر قریش مکہ نے جو ظلم و ستم ڈھائے تھے ان کا نشانہ صرف غلام مسلمان ہی نہ تھے، بلکہ آزاد اور معزز قسم کے مسلمانوں کا بھی ان لوگوں نے طرح طرح سے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ حتیٰ کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان لوگوں کے ہاتھوں متعدد بار ایذائیں پہنچیں۔ اس وقت بعض جرأت مند مسلمانوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی اجازت چاہی، تو آپ نے فرمایا کہ ابھی مجھے جنگ کی اجازت نہیں دی گئی۔ لہذا تم بھی ان مصائب کو صبر سے برداشت کیے جاؤ اور اپنی تمام تر توجہ نماز کے قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی پر صرف کرو۔ چناچہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف (رض) جو السابقون الاولون میں سے تھے انہی لوگوں میں سے تھے جو جنگ کی اجازت چاہ رہے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے : سیدنا ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف (رض) اور ان کے ساتھی مکہ میں نبی اکرم کے پاس آئے اور کہا & اللہ کے رسول ! ہم عزت والے تھے جبکہ ہم مشرک تھے پھر جب ایمان لائے تو ذلیل ہوگئے & آپ نے فرمایا (& ابھی) مجھے درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے لہذا جنگ نہ کرو۔ & پھر جب اللہ نے ہمیں مدینہ منتقل کردیا تو ہمیں جنگ کا حکم دیا گیا اور بعض لوگ جنگ سے رک گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (نسائی۔ کتاب الجہاد، باب وجوب الجہاد) یہاں چند امور کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ سورة نساء مدنی دور میں غزوہ احد اور غزوہ احزاب کے درمیانی عرصہ میں نازل ہوئی تھی اور اس آیت کے الفاظ (قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ 77؀) 4 ۔ النسآء :77) سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مکی دور میں مسلمانوں کو ہاتھ اٹھانے سے روک دیا گیا تھا۔ حالانکہ قرآن کی مکی سورتوں میں ایسا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ اب دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی خفی کوئی ایسا حکم ملا ہو جس کی بعد میں مدنی دور میں اس آیت کے ذریعہ توثیق کردی گئی۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ یہ آپ کا ذاتی اجتہاد ہو کہ اس انقلابی تحریک کے آغاز میں مسلمانوں کو قطعاً ہاتھ نہ اٹھانا چاہئے۔ آپ کے اس اجتہاد پر چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نکیر وارد نہیں ہوئی لہذا یہ اجتہاد وحی تقریری کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ وحی تمام تر قرآن میں محصور ہے اور وحی خفی یا وحی تقریری کی کچھ حیثیت نہیں سمجھتے۔ اور دوسرے یہ بھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات بھی ویسے ہی واجب الاتباع ہیں جیسے قرآن کے احکام۔ مکی دور میں ہاتھ نہ اٹھانے یا عدم تشدد کے فوائد :۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس تیرہ سالہ طویل دور میں، جبکہ مسلمانوں پر کفار انتہائی شدید قسم کے مظالم ڈھا رہے تھے مسلمانوں کو ہاتھ اٹھانے یا مدافعت کرنے سے کیوں روک دیا گیا تھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام ایک انقلابی تحریک ہے۔ عرب کے تمام تر معاشرتی، سیاسی اور تمدنی نظام کی بنیاد بت پرستی پر قائم تھی۔ اور اسلام نے اسی بت پرستی کے خلاف ہی سب سے پہلے آواز بلند کی۔ تو اس باطل نظام میں جو لوگ معاشی، تمدنی یا سیاسی فائدے اٹھا رہے تھے وہ سب اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بن گئے۔ اور ان پر سختیاں شروع کردیں۔ اس مرحلہ پر مسلمانوں کو تاکیدی حکم یہ دیا گیا کہ اپنی مدافعت میں ہاتھ تک نہ اٹھائیں بلکہ جیسے بھی ظلم و ستم ان پر ہو رہے ہیں وہ برداشت کرتے جائیں۔ اس عدم تشدد کے حکم یا پالیسی سے تین قسم کے فوائد حاصل ہوئے۔ پہلا یہ کہ اگر مسلمان اس مرحلہ پر مقابلہ شروع کردیتے تو مشرکین کو جو قوت، قدرت میں مسلمانوں سے بدرجہا بڑھ کر تھے اس تحریک کو شدت کے ساتھ کچل دینے کا اخلاقی جواز ہاتھ آجاتا۔ اس عدم تشدد کی پالیسی کی وجہ سے تبلیغ کا کام جاری رہا اور یہ اسی صورت میں ممکن تھا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو مصائب برداشت کرنے اور قائد تحریک نبی اکرم کا ہر حال میں حکم ماننے کی تربیت دی جارہی تھی۔ اور تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ غیر جانبدار قسم کے لوگوں کی خاموش اکثریت کی ہمدردیاں مسلمانوں سے وابستہ ہوگئیں۔ کیونکہ ہر انسان ناروا ظلم سے طبعاً نفرت کرتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ گھبرائے ہوئے گھر آئے تو سیدہ خدیجہ آپ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے ہاں لے گئیں جنہوں نے تمام ماجرا سن کر کہا :& کاش ! میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکال دے گی & ورقہ کی یہ بات سن کر آپ کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جو قوم آج تک مجھے اپنی آنکھوں کا تارا سمجھتی ہے وہ کل کو مجھے مکہ سے نکال دے گی ؟ چناچہ آپ نے نہایت تعجب سے ورقہ سے یہی سوال کیا تو اس نے کہا کہ جو نبی بھی ایسی دعوت لے کر آیا، اس کی قوم نے اس سے ایسا ہی سلوک کیا، (بخاری۔ کتاب الوحی) ورقہ کی اس اطلاع کا آپ پر یہ اثر ہوا کہ آپ نے اپنی دعوت کو ناکامی سے بچانے کی خاطر اپنی دعوت کا آغاز نہایت خفیہ طریق سے اور اپنے گھر سے کیا اور گھر کے درج ذیل افراد فوراً آپ پر ایمان لے آئے : (١) آغازوحی کے وقت اسلام لانے والے :۔ آپ کی جان نثار بیوی سیدہ خدیجۃ جن کی عمر اس وقت ٥٥ سال تھی۔ (٢) آپ کے غلام زید بن حارثہ جو فی الحقیقت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کے غلام تھے۔ لیکن انہوں نے اسے آپ کو دے دیا تھا۔ (٣) سیدنا علی (رض) بن ابی طالب جو آپ کے چچا ابو طالب کے بیٹے تھے۔ آپ کے زیر کفالت اور آپ ہی کے گھر میں رہتے تھے۔ اس وقت ان کی عمر ایک روایت کے مطابق ٨ سال اور دوسری کے مطابق ١٠ سال تھی۔ بہرحال اس وقت وہ ایسا شعور ضرور رکھتے تھے۔ آپ کی اولاد میں سے ایسا کوئی بھی نہ تھا جو اس وقت آپ پر ایمان لاتا۔ آپ کی پہلونٹی کی بیٹی سیدہ زینب (رض) تھیں جن کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے ہوچکا تھا۔ سیدہ زینب تو بعد میں جلد ہی ایمان لے آئیں مگر ابو العاص فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تاہم ابو العاص کے سیدہ زینب اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے اور اپنے داماد سے خوش رہے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب ذکر اصہار النبی) دوسرے نمبر پر آپ کے بیٹے سیدنا قاسم تھے۔ اسی نام کی بنا پر آپ کی کنیت ابو القاسم تھی۔ یہ بعثت سے پہلے وفات پاچکے تھے۔ تیسرے نمبر پر آپ کی بیٹی رقیہ تھیں۔ بعثت نبوی کے وقت ان کی عمر صرف چھ سات برس تھی۔ بعد میں ان کا نکاح سیدنا عثمان (رض) سے ہوا اور جس دن مسلمانوں کو مدینہ میں فتح بدر کی خوشخبری ملی اسی دن آپ نے وفات پائی۔ چوتھے نمبر پر ام کلثوم تھیں۔ سیدہ رقیہ کی وفات کے بعد ان کا سیدنا عثمان (رض) سے نکاح ہوا۔ پانچویں نمبر پر آپ کے بیٹے عبداللہ تھے جنہیں طیب اور طاہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سن بلوغ کو پہنچنے سے قبل ہی فوت ہوگئے۔ چھٹے نمبر پر آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی سیدہ فاطمہ تھیں جن کی عمر اس وقت صرف ایک سال تھی۔ پندرہ برس کی عمر میں آپ کا سیدنا علی (رض) سے نکاح ہوا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے وقت آپ کی اولاد میں سے صرف یہی زندہ تھیں۔ چھ ماہ بعد یہ بھی فوت ہوگئیں۔ گھر کے باہر کے لوگوں میں سے سب سے پہلے سیدنا ابوبکر (رض) ایمان لائے۔ آپ ماہر انساب، صاحب الرائے، دولت مند اور فیاض انسان تھے۔ آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دلی دوست، آپ کے اخلاق سے متاثر اور بعثت نبوی سے پہلے ہی شرکیہ اعمال و عقائد سے متنفر تھے۔ مکہ میں آپ کا خاصا اثر و رسوخ تھا۔ آپ ہی کی درپردہ کوششوں سے سیدنا عثمان بن عفان (رض) عبدالرحمن بن عوف (رض) ، سعد بن ابی وقاص (رض) زبیر بن العوام (رض) اور طلحہ (رض) ایمان لائے۔ پھر ان سب حضرات کی مشترکہ کوششوں اور رازدارانہ تبلیغ سے درج ذیل حضرات ایمان لائے : سیدنا عمار بن یاسر (رض) ۔ پھر ان کی تبلیغ سے ان کے والد یاسر (رض) اور والدہ سمیہ (رض) بھی اسلام لے آئے یہ لوگ ابو جہل کے قبیلہ بنو مخزوم کے غلام تھے۔ سیدنا بلال بن رباح (رض) جو امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سفارش پر سیدنا ابوبکر (رض) نے خرید کر آزاد کردیا۔ سیدنا خباب (رض) بن ارت، سیدنا ارقم، سیدنا سعید (رض) بن زید (سیدنا عمر (رض) کے بہنوئی) عبداللہ بن مسعود (رض) ، عثمان بن مظعون (رض) ، ابو عبیدہ بن جراح (رض) ، صہیب رومی (رض) ہیں۔ خفیہ تبلیغ کے تین سال :۔ ابتدائی تین سال تبلیغ یونہی سینہ بہ سینہ ہوتی رہی حتیٰ کہ مسلمانوں کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی۔ یہ اصحاب عبادت بھی چھپ چھپا کر کرتے تھے اور دارارقم کو مرکز بنا لیا گیا تھا۔ اسی دور میں قائد تحریک حضور اکرم کو کفار نے اپنی طنز، تشنیع اور تضحیک کا نشانہ بنایا تھا۔ کبھی وہ آپ کو کاہن کہتے، کبھی شاعر، کبھی دیوانہ، کبھی اللہ کی آیات کا تمسخر اڑاتے اور کبھی آنکھوں ہی آنکھوں میں آپ کو مرعوب بنا کر آپ کے عزم اور ہمت کو شکست دینا چاہتے تھے۔ اس دور میں مشرکین مکہ کا مسلمانوں پر دباؤ کتنا تھا اور کسی کا اسلام لانا کس قدر کٹھن اور جان جوکھوں کا کام تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے جسے سیدنا ابو ذرغفاری (رض) نے اپنے اسلام لانے سے متعلق خود بیان کیا ہے اور جسے ہم نے صحیح بخاری سے سورة انفال کے حاشیہ نمبر ٢٦ میں درج کیا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ صحیح مسلم میں مذکور ہے۔ سیدنا عمرو بن عبسہ (رض) نے بھی انہی ایام میں اسلام قبول کیا تھا۔ عمرو ایام جاہلیت میں ہی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ تمام لوگ مشرک اور گمراہ ہیں۔ جب انہوں نے سنا کہ مکہ میں ایک شخص آسمانی خبریں بیان کرتا ہے تو فوراً سوار ہو کر آپ کی خدمت میں پہنچے اور فوراً اسلام لے آئے۔ آپ نے انہیں ضروری احکام کی تعلیم دی اور مشورہ دیا کہ فی الحال اپنے وطن واپس چلے جاؤ اور جب تم سنو کہ اسلام کو غلبہ ہوگیا ہے تو پھر تم میرے پاس چلے آنا۔ (مسلم۔ کتاب الصلٰوۃ۔ باب الاسلام عمرو بن عبسہ) اور یہ وہی مشورہ تھا جو اس سے پہلے آپ نے سیدنا ابوذر غفاری (رض) کو بھی دیا تھا اور یہ مشورہ آپ ان نو مسلموں سے ہمدردی کی خاطر دیتے تھے مکہ میں تو یہ حال تھا کہ جس شخص کے متعلق پتہ چل جاتا کہ وہ مسلمان ہوگیا ہے، اس کی شامت آجاتی تھی۔ پھر ان سب مسلمانوں کو جتنا دکھ پہنچتا تھا، اکیلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اتنا دکھ پہنچ جاتا تھا۔ کیونکہ آپ رحمۃ للعالمین تھے اور دردمند دل رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں معاشی مسئلہ بھی پیدا ہوجاتا تھا جس کے حل کرنے پر اس وقت مسلمان کچھ قدرت نہ رکھتے تھے۔ نبوت کے پہلے تین سال تبلیغ کا یہی انداز رہا پھر جب ( وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ٢١٤؀ۙ ) 26 ۔ الشعراء :214) & اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ & کا فرمان باری نازل ہوا تو آپ نے یکے بعد دیگرے تین بار اپنے قبیلہ والوں کو اکٹھا کیا اور ان پر اسلام پیش کیا۔ مگر ہر بار ابو لہب ہی آڑے آتا اور مخالفت میں پیش پیش رہتا تھا جس کا تفصیلی ذکر اسی مندرجہ آیت کے تحت اور سورة لہب میں آئے گا اس کے بعد اب پہلا سا خفیہ طریقہ تبلیغ نہ رہا اور مشرکین کو کسی نہ کسی حد تک یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ کون کون شخص اسلام لا چکا ہے۔ لہذا انہوں نے اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو سختی سے کچل ڈالنے کے مشن کو پہلے سے تیز تر کردیا۔ جو منصوبے پیغمبر اسلام کو ختم کرنے کے لئے بنائے گئے اور سازشیں کی گئیں ان کا ذکر تو (وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ 67؀) 5 ۔ المآئدہ :67) کے تحت سورة مائدہ کے حاشیہ نمبر ١١٣ میں آئے گا۔ یہاں ہم صرف ان مظالم کا اجمالاً ذکر کریں گے جو اس دور میں مسلمانوں پر ڈھائے گئے۔ عرب معاشرہ میں غلاموں کا طبقہ بھی معاشرہ کا ایک معتدبہ حصہ تھا۔ جنہیں انسان سمجھا ہی نہیں جاتا تھا۔ مالک اپنے غلام پر جتنا بھی ظلم روا رکھے، حتیٰ کہ جان سے بھی مار ڈالے تو اسے کوئی پوچھنے والا نہ تھا بلکہ آزاد معاشرہ کو اسی کی تائید و حمایت حاصل تھی اور غلاموں میں اپنے مالک کے سامنے نہ چوں و چرا کرنے کی ہمت تھی اور نہ بھاگ جانے کی۔ لہذا زیادہ تشدد کا یہی طبقہ شکار ہوا۔ ابو جہل کے آل یاسر پر مظالم :۔ ابو جہل کا مسلمانوں پر جبر و ستم ڈھانے کا طریقہ کار یہ تھا کہ اگر اسلام لانے والا کوئی آزاد، معزز اور طاقتور آدمی ہوتا تو اسے برا بھلا کہنے، ذلیل و رسوا کرنے اور اس کے مال و جاہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا اور عرب کے قبائلی نظام میں وہ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہ سکتا تھا۔ اور اگر اسلام لانے والا کوئی غلام یا کمزور آدمی ہوتا تو اسے خود بھی مارتا اور دوسروں کو بھی ایذا رسانی پر اکساتا رہتا۔ اور اس معاملہ میں نہایت سنگدل واقع ہوا تھا۔ آل یاسر یعنی سیدنا عمار (رض) ، ان کے والد یاسر اور والدہ سمیہ اسلام لاچکے تھے۔ یہ قبیلہ بنومخزوم (یعنی ابو جہل کے اپنے قبیلے کے) غلام تھے۔ ان پر ابو جہل نے خوب مشق ظلم و ستم کی اور اس قدر مظالم ڈھائے کہ یاسر ان کی تاب نہ لا کر راہی ملک عدم ہوئے۔ ان کی بیوی سمیہ کو اس بدبخت نے شرمگاہ میں نیزہ مار کر ہلاک کردیا۔ اسلام میں یہ پہلی شہیدہ ہیں جو اس بیدردی اور بےرحمی سے شہید کی گئیں۔ رہے عمار (رض) خود تو انہیں کبھی کڑکتی دوپہر میں پتھریلی زمین پر ننگا لٹا کر اوپر سرخ اور وزنی پتھر رکھ دیا جاتا اور کبھی پانی میں غوطے دیئے جاتے۔ ایک دفعہ آپ کو ننگے بدن دوپہر کو پتھریلی زمین پر لٹا کر اذیتیں دی جارہی تھیں کہ ادھر سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ہوا۔ وہ ہستی جو سارے جہان کے لئے رحمت بن کر مبعوث ہوئی تھی، یہ نظارہ دیکھ کر آپ کے دل پر جو بیتی ہوگی وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ صبر و استقامت کے عظیم پیکر بھی تھے۔ پھر بھی آپ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور انہیں دلاسا دیتے ہوئے فرمایا : (اصبروا ال یاسر فان موعد کم الجنۃ) & آل یاسر ! صبر پر قائم رہنا، تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے & امیہ بن خلف کے سیدنا بلال (رض) پر مظالم : سیدنا بلال بن رباح (رض) (حبشی) امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ امیہ سیدنا بلال (رض) کے گلے میں رسی ڈال کر انہیں گلی محلے کے اوباش لڑکوں کے حوالے کردیتا اور وہ انہیں مکہ کے پہاڑوں کی وادیوں میں گھسیٹتے پھرتے جس سے بدن زخمی ہوجاتا اور گلے میں رسی کا نشان پڑجاتا۔ خود امیہ انہیں رسی سے باندھ کر ڈنڈے مارا کرتا۔ کبھی چلچلاتی دھوپ میں بٹھائے رکھتا اور کھانے پینے کو کچھ نہ دیتا اور سینہ پر بھاری پتھر رکھ دیتا۔ پھر کہتا : اللہ کی قسم ! تو اسی طرح پڑا رہے گا تاآنکہ تو مرجائے یا پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر کرے۔ لیکن ایمان کا مزا بھی کچھ عجیب ہی قسم کا ہوتا ہے۔ آپ (رض) یہ سب تکلیفیں برداشت کرتے مگر زبان سے احد احد ہی پکارتے تھے۔ (سیرۃ النبی ج ١ ص ٢٣٢) ایک دن آپ (رض) کو ایسی ہی اذیتیں دی جارہی تھیں کہ ادھر سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ہوا۔ آپ سیدنا بلال (رض) پر یہ ظلم برداشت نہ کرسکے۔ لہذا سیدنا ابوبکر (رض) سے کہا کہ وہ بلال (رض) کو اس مصیبت سے نجات دلائیں۔ چناچہ سیدنا ابوبکر (رض) نے امیہ بن خلف کو سیدنا بلال (رض) کی منہ مانگی قیمت ادا کرکے خریدا، پھر آزاد کردیا۔ ایک روایت کے مطابق یہ قیمت ایک کلو سے زائد چاندی تھی۔ (ابن ہشام ٩: ٣١٧-٣١٨ رحمۃ للعالمین ١: ٥٧) سیدنا بلال (رض) کے ذریعہ امیہ بن خلف کی دردناک موت :۔ اب حالات نے یوں پلٹا کھایا کہ جنگ بدر میں میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ جاہلیت کے دور میں امیہ بن خلف اور عبدالرحمن بن عوف (رض) میں دوستی تھی۔ جب مسلمان کافروں کو گرفتار کر رہے اور مال غنیمت اکٹھا کر رہے تھے اس وقت سیدنا عبدالرحمن بن عوف (رض) چند زرہیں سنبھالے جارہے تھے۔ امیہ نے انہیں دیکھ لیا اور پکار کر کہا : تمہیں میری ضرورت ہے ؟ میں تمہاری ان زر ہوں سے بہتر ہوں۔ امیہ کا مطلب یہ تھا کہ اگر عبدالرحمن بن عوف مجھے قیدی بنا کر اپنی پناہ میں لے لیں تو میں کم از کم جان سے تو بچ جاؤں گا اور اگر زندہ رہا تو انہیں اس کام کا اتنا معاوضہ دوں گا جو ان زر ہوں سے کہیں بہتر ہوگا۔ عبدالرحمن بن عوف (رض) خود فرماتے ہیں کہ میں امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے علی دونوں کو گرفتار کرکے آگے بڑھا ہی تھا کہ اتفاق سے سیدنا بلال (رض) کی نظر امیہ بن خلف پر پڑگئی۔ امیہ کو دیکھتے ہی انہیں وہ زمانہ یاد آگیا جب امیہ ان پر مشق ستم کیا کرتا تھا۔ وہ فوراً پکار اٹھے & اوہ ! کفر کا سر ! امیہ بن خلف ! آج یا میں زندہ رہوں گا یا یہ زندہ رہے گا & میں نے سیدنا بلال (رض) کو بہتیرا سمجھایا کہ یہ میرا قیدی ہے مگر وہ کسی صورت نہ مانے اور انصار کو بلا کر وہی بات کہی کہ & آج یا میں زندہ رہوں گا یا یہ کفر کا سر & چناچہ ان لوگوں نے ہمیں گھیرے میں لے لیا۔ میں ان کا بچاؤ کر رہا تھا بلکہ اپنے آپ کو امیہ پر ڈال رہا تھا۔ مگر ہجوم کے سامنے میری کچھ پیش نہ گئی۔ ان لوگوں نے امیہ کو میرے نیچے سے نکال کر باپ اور بیٹے دونوں کو بیدردی سے قتل کردیا۔ مرنے سے پہلے امیہ نے ایسی دردناک چیخ ماری جیسی میں نے پہلے کبھی نہ سنی تھی۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف (رض) کہا کرتے تھے اللہ تعالیٰ بلال (رض) پر رحم فرمائے۔ جنگ بدر کے دن میری زرہیں بھی گئیں اور میرے قیدی کے بارے میں مجھے تڑپا بھی دیا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد باب دعاء النبی علی المشرکین) ابو فکیہہ پر امیہ کے مظالم :۔ سیدنا ابو فکیہہص، صفوان بن امیہ کے غلام تھے۔ سیدنا بلال (رض) کے ساتھ اسلام لائے۔ امیہ کو جب یہ معلوم ہوا تو ان کے پاؤں میں رسی باندھی اور لوگوں سے کہا : اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں اور تپتی ہوئی زمین پر لٹا دیں۔ ایک & گبریلا & راہ میں جارہا تھا۔ امیہ نے ان سے کہا۔ کیا یہی تو تیرا خدا نہیں ؟ ابو فکیہہ نے جواب دیا :& میرا اور تمہارا دونوں کا خدا اللہ تعالیٰ ہے & اس پر امیہ نے اس زور سے ان کا گلا گھونٹا کہ لوگ سمجھے کہ دم نکل گیا۔ ایک دفعہ ان کے سینے پر اتنا بھاری پتھر رکھ دیا کہ زبان باہر نکل آئی۔ (سیرۃ النبی، ج ١ ص ٢٣٤) خباب بن ارت پر مظالم :۔ سیدنا خباب صبن ارت نہایت شریف الطبع انسان تھے اور قبیلہ بنو خزاعہ کی ایک عورت ام انمار کے غلام تھے۔ مشرکین ان کے سر کے بال نوچتے۔ سختی سے گردن مروڑتے۔ ایک دفعہ دہکتے کوئلوں پر آپ (رض) کو چت لٹا دیا گیا اور ایک شخص چھاتی پر پاؤں رکھے کھڑا رہا۔ تاکہ کروٹ نہ بدل سکیں۔ یہاں تک کہ پشت کے نیچے کے کوئلے ٹھنڈے پڑگئے۔ خباب (رض) نے مدتوں بعد یہ واقعہ سیدنا عمر (رض) کے سامنے بیان کیا اور پیٹھ کھول کر دکھائی جو برص کے داغ کی طرح سفید ہوگئی تھی۔ (سیرۃ النبی، ج ١ ص ٢٣٢) کنیزوں پر مظالم :۔ عورتیں بھی ایسے مظالم سے بچ نہ سکیں۔ سیدہ لبینہ ایک کنیز تھیں۔ سیدنا عمر (رض) اسے مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ میں نے تمہیں رحم کھا کر نہیں بلکہ اس لئے چھوڑا ہے کہ میں تھک گیا ہوں اور ذرا دم لے لوں & وہ نہایت استقلال سے جواب دیتیں کہ اگر تم اسلام نہ لاؤ گے تو اللہ اس کا انتقام لے گا۔ (حوالہ ایضاً ) سیدہ زنیرہ سیدنا عمر (رض) کے گھرانے کی کنیز تھیں۔ اس وجہ سے وہ اسے بہت تکلیفیں پہنچاتے تھے۔ ابو جہل نے انہیں اس قدر مارا کہ ان کی آنکھیں جاتی رہیں۔ اسی طرح نہدیہ اور ام عبیس دونوں کنیزیں تھیں اور اسلام لانے کے جرم میں سخت مصیبتیں جھیلتی رہیں۔ (سیرۃ النبی، ج ١ ص ٢٣٢) سیدنا ابوبکر صدیق (رض) پر مظالم :۔ اگرچہ مسلمانوں پر مشرکین کے مظالم و شدائد کا اصل ہدف لونڈی غلام قسم کے لوگ تھے تاہم آزاد اور معزز مسلمانوں پر مظالم کی فہرست بھی خاصی طویل ہے۔ سب سے زیادہ مظالم تو انبیاء پر ہی ڈھائے جاتے ہیں۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مظالم کا قصہ دوسرے کئی مقامات پر مذکور ہے۔ یہاں ہم صحابہ پر مظالم کے چند واقعات مختصراً ذکر کریں گے۔ ان میں سرفہرست تو سیدنا ابوبکر (رض) کو لیجئے۔ آپ کا جس قدر مکہ میں اثر و رسوخ تھا اس کا کچھ ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ آپ نے کئی مسلمان غلاموں اور لونڈیوں کو خرید کر انہیں مشرکین کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔ سیدنا بلال (رض)، عامر بن فہیرہ (رض) (جو ہجرت نبوی کے موقعہ پر آپ کے ساتھ تھے) لبینہ، زنیرہ، نہدیہ اور ام عبیس کو آپ نے مالکوں کی منہ مانگی قیمت دے کر آزاد کردیا تھا۔ اور ان ایام میں آپ کے آزاد کردہ لونڈی، غلاموں کی تعداد سترہ تک پہنچ گئی تھی لیکن ان کا اپنا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ قریش نے آپ کو بری طرح مارا۔ عتبہ بن ربیعہ نے آپ کو دو پیوند لگے جوتوں سے اس قدر مارا کہ چہرہ اور ناک کا پتا نہیں چلتا تھا۔ ان کے قبیلے بنوتمیم کے لوگ انہیں کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے گئے ان کا یہی خیال تھا کہ اب زندہ نہ بچیں گے۔ کچھ دیر بعد انہیں ہوش آیا تو پہلی بات جو آپ نے زبان سے نکالی یہ تھی کہ اللہ کے رسول کس حال میں ہیں ؟ اور جب تک انہیں ان کی خیریت معلوم نہ ہوئی انہوں نے کھانے پینے سے بھی انکار کردیا اور اپنی ماں کو اس بات پر مجبور کردیا کہ جیسے بھی بن پڑے وہ آپ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں لے چلے۔ چناچہ ان کی ماں انہیں آپ کے پاس لے گئیں اور جب ان کو معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول بخیرو عافیت ہیں، تب جاکر انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ (البدایہ والنہایہ، ٣: ٣٠) قریش مکہ کی ایسی ہی سختیوں سے تنگ آکر آپ بھی حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور برک غماد تک جا بھی پہنچے تھے کہ قبیلہ قارہ کا سردار ابن دغنہ انہیں اپنی پناہ میں لے کر واپس مکہ لے آیا۔ (بخاری۔ کتاب احادیث الانبیاء۔ باب ہجرۃ النبی ) سیدنا عمر کا گھر میں محصور ہونا :۔ سیدنا عمر (رض) جیسے بہادر شخص کا یہ حال تھا کہ جب مشرکوں میں ان کے ایمان کی خبر پھیل گئی تو انہوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور آپ کو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوگیا اور آپ اپنے ہی گھر میں محصور ہوگئے۔ آخر عاص بن وائل سہمی نے، جو آپ کے قبیلہ کا حلیف تھا، سیدنا عمر (رض) کو اپنی پناہ میں لے کر ہجوم کو منتشر کردیا۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب اسلام عمر بن الخطاب) سیدنا عثمان غنی بن عفان (رض) صاحب عزوجاہ تھے مگر جب اسلام لائے تو ان کے چچا نے انہیں باندھ کر مارا تھا۔ (طبقات ترجمہ عثمان بن عفان) سیدنا سعید بن زید بن عمرو بن نفیل سیدنا عمر (رض) کے چچازاد بھائی بھی تھے اور بہنوئی بھی۔ بہن اور بہنوئی دونوں اسلام لے آئے تو سیدنا عمر (رض) جو ان کے بہت بعد اسلام لائے، ان دونوں کو رسیوں سے باندھ کر مارا کرتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب اسلام سعید بن زیدص) دوسرے آزاد مسلمانوں پر اکفر کے مظالم :۔ سیدنا ابو ذرغفاری (رض) نے اسلام لانے کے بعد کعبہ میں کلمہ شہادت پکارا تو اس جرم میں ان کی دو بار پٹائی ہوئی۔ سیدنا عباس انہیں مشرکوں سے چھڑاتے رہے ان کا قصہ تفصیل سے سورة انفال کے حاشیہ نمبر ٢٦ میں مذکور ہے۔ سیدنا زبیر بن عوام کا مسلمان ہونے والوں میں پانچواں نمبر تھا۔ جب اسلام لائے تو ان کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر ان کی ناک میں دھواں دیتے تھے۔ (سیرۃ النبی، ج ١ ص ٢٣٥) سیدنا مصعب بن عمیر (رض) اسلام لائے تو انکی ماں نے ان کا دانہ پانی بند کردیا اور گھر سے باہر نکال دیا۔ (رحمۃ للعالمین ١: ٥٨) سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) اسلام لائے تو آپ نے ارادہ کیا کہ کعبہ میں جاکر قرآن کریم بلند آواز سے پڑھیں۔ لوگوں نے منع کیا۔ لیکن آپ (رض) باز نہ آئے اور مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کر بلند آواز سے سورة الرحمن کی تلاوت شروع کردی۔ قریش رحمان کے لفظ سے ہی چڑ گئے۔ ہر طرف سے آپ پر پل پڑے اور آپ کے منہ پر طمانچے مارنا شروع کردئے۔ آپ مار کھاتے رہے لیکن جہاں تک پڑھنا چاہتے تھے پڑھ کر دم لیا۔ (طبری، ج ٣ ص ١١٨٨) حبشہ کی طرف ہجرت :۔ غرض کوئی بھی مسلمان خواہ وہ کیسے عزوجاہ کا مالک تھا، مشرکین مکہ کے جورو ستم سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اس طرح جب مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تو آپ نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ چناچہ پہلی دفعہ سیدنا عثمان (رض) کی سر کردگی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے ہجرت کی۔ عورتوں میں سیدنا عثمان (رض) کی بیوی یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی رقیہ بھی موجود تھیں۔ اس موقعہ پر آپ نے فرمایا : سیدنا ابراہیم کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے جو اللہ کی راہ میں ہجرت کے لئے نکلا۔ (رحمۃ للعالمین، ج ٢ باب بنات النبی) ہجرت حبشہ کا ذکر سورة مائدہ کے حاشیہ نمبر ١٣٩ میں تفصیل سے مذکور ہے۔ ہجرت حبشہ کے بعد بھی کفار کے تشدد کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ بلکہ کفار کی طرف سے تشدد اور مسلمانوں کی طرف سے صبر و برداشت اور ہاتھ نہ اٹھانے کا یہ مرحلہ پورے مکی دور میں یعنی تیرہ سال پر محیط ہے۔ جس میں مسلمانوں کو نماز اور زکوٰۃ کے ذریعہ اپنے نفوس کا تزکیہ کرنے، مصائب پر صبر کرنے، اپنے قائد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل طور پر اطاعت کرنے کی تربیت دی جارہی تھی۔ کئی مسلمانوں نے جان کا نذرانہ پیش کردیا مگر نہ زبان سے کسی کو برا بھلا کہا اور نہ ہاتھ اٹھائے۔ حالانکہ موت کے وقت تو آقائی اور غلامی کے سب امتیازات اٹھ جاتے ہیں اور مرنے والا یہ چاہتا ہے کہ اسے مرنا ہی ہے تو دو چار کو مار کر مرے۔ بلکہ بلی بھی جب عاجز ہوتی ہے تو شیر پر حملہ کردیتی ہے۔ یہ بس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تربیت اور مسلمانوں کی طرف سے مکمل اطاعت کا ہی اثر تھا کہ اسلام کی انقلابی تحریک ناکام ہونے سے محفوظ رہی اور ترقی کے مراحل طے کرتی گئی۔ پھر جب مسلمانوں کو مدینہ میں آزاد فضا میسر ہوگئی تو ہاتھ اٹھانے کی اجازت بھی مل گئی۔[١٠٧] اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بات کہنے والے معاذ اللہ منافق تھے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہر قسم کے معاشرہ میں تمام لوگ ایک ہی جیسے جرأت والے نہیں ہوتے، کچھ ناتواں اور کم ہمت ہوتے ہیں اور پورے مومن ہونے کے باوجود ہر ایک کی استعداد الگ ہوتی ہے۔ کوئی کسی کام کے لیے زیادہ موزوں ہوتا ہے اور کوئی دوسرا کسی اور کام کے لیے۔ لہذا جن کمزور دل لوگوں نے یہ بات کہی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کی ڈھارس بندھاتے ہوئے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو بھی پامردی دکھانا چاہیے کیونکہ یہ دنیا کی زندگی اور اس کے مفادات تو چند روزہ ہیں لہذا انہیں آخرت پر نظر رکھنی چاہیے جو ہر لحاظ سے بہتر ہے اور اگر ان کا عمل تھوڑا بھی ہوا تب بھی انہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَھُمْ ۔۔ : یعنی جب تک مسلمان مکہ میں تھے اور کافر انھیں ایذا دیتے تھے اللہ تعالیٰ نے انھیں لڑنے سے روکے رکھا اور صبر کا حکم فرمایا، اب جو ( مدینہ منورہ) میں لڑائی کا حکم آیا ہے تو ان کو سمجھنا چاہیے کہ ہماری مراد ملی، لیکن کچے مسلمان کنارہ کرتے ہیں اور موت سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے برابر آدمیوں سے خطرہ کرتے ہیں۔ (موضح) متعدد روایات میں ہے کہ مسلمانوں نے مکی زندگی میں کئی دفعہ چاہا کہ ظالموں سے دو بدو نمٹیں مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو حکم ہوتا کہ ابھی نماز اور زکوٰۃ (مال خرچ کرنے) کا جو تمہیں حکم ہوا ہے اس کی خوب عادت ڈالو، تاکہ تمہاری تربیت ہوجائے، مدینہ منورہ میں بھی ہجرت کے ابتدائی برسوں میں مسلمانوں کی خواہش یہی تھی، لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے لڑائی کی اجازت آگئی تو اب بعض خام قسم کے مسلمان اس سے ہچکچانے لگے، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر۔ قرطبی) لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ ۭ : شاہ عبد القادر (رض) کا ترجمہ یہ ہے : ” کیوں نہ جینے دیا ہم کو تھوڑی سی عمر “ جو اب آگے ہے۔ بعض نے ترجمہ کیا ہے : ” قتال کی فرضیت کا یہ حکم نازل کرنے میں تو نے ہمیں کچھ مہلت کیوں نہ دی ؟ “ قُلْ مَتَاع الدُّنْيَا قَلِيْلٌ ۚ : لڑائی سے ہچکچانے والے کمزور ایمان والوں اور منافقین کا حوصلہ دو باتوں سے بلند فرمایا ہے، پہلی تو یہ کہ دنیا کی بےثباتی کا ذکر کر کے جہاد کی ترغیب دی ہے، دنیا جتنی بھی ہو فانی ہے اور فانی جتنی بھی ہو قلیل (بہت تھوڑی) ہے۔ فانی اور باقی کا مقابلہ ہی کیا ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس طرح کوئی شخص سمندر میں انگلی ڈبو کر نکالے اور اس کی انگلی میں تھوڑی سی نمی رہ جائے، ایسی ہی مثال دنیا اور آخرت کی ہے۔ “ [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمہا، باب قتاء الدنیا ۔۔ : ٢٨٥٨، عن المستورد الفھری ] اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میری اور دنیا کی مثال ایک مسافر کی سی ہے، جو ایک درخت کے سائے میں آرام کرتا ہے اور پھر اسے چھوڑ کر روانہ ہوجاتا ہے۔ “ [ ترمذی، الزھد، باب منہ حدیث ” ما الدنیا۔۔ الخ “ : ٢٣٧٧، عن ابن مسعود ] اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ : ” بروج “ یہ ” بُرْجٌ“ کی جمع ہے، مضبوط عمارت، قلعہ۔ ” مشیدۃ “ جو ” اَلشِّیْدُ “ یعنی چونے سے بنے ہوئے ہوں۔ یہ جہاد کے لیے حوصلہ بڑھانے والی دوسری بات ہے کہ جب موت سے تمہیں کسی حال میں چھٹکارا نہیں تو پھر اللہ کی راہ میں جہاد سے کیوں ہچکچاتے ہو۔ اس مطلب کی آیات قرآن کریم میں بہت ہیں، چناچہ فرمایا : ( قُلْ لَّنْ يَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ ) [ الأحزاب : ١٦] ” کہہ دے تمہیں بھاگنا ہرگز نفع نہ دے گا اگر تم مرنے یا قتل ہونے سے بھاگو۔ “ اور فرمایا : ( قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِيْ تَفِرُّوْنَ مِنْهُ فَاِنَّهٗ مُلٰقِيْكُمْ ) [ الجمعۃ : ٨ ] ” کہہ دے بلاشبہ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو سو یقیناً وہ تم سے ملنے والی ہے۔ “ اور فرمایا : (كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ) [ آل عمران : ١٨٥ ] ” ہر جان موت کو چکنے والی ہے۔ “ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَيِّئَةٌ ۔۔ : اوپر منافقین کی دو مذموم خصلتیں بتائیں، ایک جہاد سے جی چرانا دوسری موت سے ڈرنا، اب یہاں ان کی ایک اور مذموم خصلت کا ذکر فرمایا جو پہلی دونوں سے بری ہے، یعنی نحوست کی نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کرنا۔ یہاں ” حسنۃ “ (بھلائی) سے مراد فتح، نصرت، غلبہ اور خوش حالی وغیرہ ہے اور ” سیءۃ “ سے مراد لڑائی میں نقصان، مصیبت، قتل اور ہزیمت وغیرہ ہے۔ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭ : یہ ان کے کلام کا جواب ہے کہ برائی اور بھلائی دونوں اسی کی طرف سے اور اسی کے حکم سے ہیں، ہر چیز کا پیدا کرنے والا وہی ہے، بلا اور مصیبت کو کسی کی نحوست قرار دینا قطعی غلط اور پہلے کافروں کا طریقہ ہے، جیسا کہ قوم ثمود کا کہنا : ( قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَّعَكَ ۭ ) [ النمل : ٤٧ ]” انھوں نے کہا ہم نے تیرے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جو تیرے ہمراہ ہیں، بد شگونی پکڑی ہے۔ “ اور سورة یٰسٓ میں ہے : ” اور اگر انھیں کوئی تکلیف پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں کے ساتھ نحوست پکڑتے۔ “ اور فرعون کی قوم کے بدلے میں ہے : ( وَاِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗ ۭ ) [ الأعراف : ١٣١ ] ( ا اِنَّا تَــطَيَّرْنَا بِكُمْ ۚ ) [ یٰسٓ : ١٨ ] ” بیشک ہم نے تمہیں منحوس پایا ہے۔ “ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” یہ منافقوں کا ذکر ہے کہ اگر تدبیر جنگ درست آئی اور فتح اور غنیمت ملی تو کہتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے ہوئی، یعنی اتفاقاً بن گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تدبیر کے قائل نہ ہوتے تھے اور اگر بگڑ گئی تو الزام رکھتے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تدبیر پر۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سب اللہ کی طرف سے ہے، یعنی پیغمبر کی تدبیر اللہ کا الہام ہے، غلط نہیں اور اگر بگڑی تو اس کو بگڑا نہ بوجھو، یہ اللہ تم کو سدھاتا ہے تمہاری تقصیر پر۔ اگلی آیت میں کھول کر بیان فرما دیا۔ (موضح) فَمَالِ هٰٓؤُلَاۗءِ الْقَوْمِ ۔۔ : یعنی تعجب ہے کہ کسی غور و فکر کے بغیر سمجھ میں آنے والی حقیقت بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ (رازی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The Background of Revelation Verse 77 beginning with the words: أَلَمْ تَرَ‌ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ (Have you not seen those to whom it was said, |"Hold your hands { from fighting)...) was revealed in a particular background. Before their migration from Makkah, Muslims were regularly persecuted by disbe¬lievers. Harassed Muslims used to visit the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) complaining to him about the high-handed treatment meted out to them and asking for his permission to fight back in self-defence and put an end to the Kafir reign of terror. He advised patience holding them back from direct confrontation on the plea that he has not been commanded to fight, in fact, he told them, he has been commanded to stay patient, forgo and forgive. He also told them to continue observing the instructions of salah and zakah, already given to them, consis¬tently and devotedly. He impressed upon them the virtues of the present pattern of their behaviour, even though the odds were against them, for the simple reason that, unless man is conditioned to fight against his own evil desires in obedience to the command of Allah and is also used to bearing physical pain and financial sacrifice, he finds joining Jihad and sacrificing his life very difficult a proposition. This was an advice Muslims had accepted. But when they migrated from Makkah to Madinah, and Jihad was enjoined upon them, they should have been pleased with it, as it was something that had answered their own prayers. But, there were some infirm Muslims around who started fearing the prospects of a fight against the disbelievers as one would fear the punishment of Allah, rather more than this. Caught in that peevish state of mind, they started pining for a little more respite, a possible postponement of the command to fight to some later day which may have given them more time to live and to enjoy. Thereupon, these verses were revealed. (Ruh al-Ma` ani) Why did the Muslims wish for the postponement of Jihad The wish for respite expressed by Muslims following the command to fight was not an objection to the command of Jihad. It was, rather, a benign and subtle complaint. The reason may lie in the usual pattern of human psyche in such situations. When hurt and harassed to the extreme, one is very likely to flare up and go for a revenge. But, once man is used to a life of physical comfort and peace, he does not feel like going out to fight. This is no more than a simple human reaction. So, these Muslims, while they were in Makkah, all fed up with pains inflicted on them by the disbelievers at that time, were naturally looking forward most eagerly for the command of Jihad to come. But, when they reached Madinah, they found peace and comfort which they had missed for long. Now the command to fight, when it came in that state of theirs, found them no more moved by their old fire, therefore, they simply wished that it would have been better if the call for Jihad was just not there at that point of time. Now, to take this &wish& as an &objection& and to attribute an act of sin to those Muslims is not correct. However, this explanation is limited to the assumption that they had pronounced this complaint verbally. But, if they said nothing verbally, and it was simply a thought which crossed their mind, then, thoughts in the mind and doubts in the heart are happenings which the Shari’ ah of Islam simply does not count as sins. Here, both probabil¬ities exist. Then, the word, قَالُوا |"Qalu|" (They say) in the verse should not lead one to presume that they had said this verbally, for it may be taken to mean that they may have said it within their hearts. (Abridged from Bayan al-Qur&an by Maulana Thanavi). According to some commentators, in which case, no explanation is, called for. (Tafsir Kabir). Self-correction should precede collective reform In وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ (verse 77), Allah Almighty has first mentioned the command to establish the prescribed prayers and pay the fixed zakah which are the medium of self-correction. The command of Jihad comes after that, which is the medium of political and collective correc¬tion, that is, through it the forces of coercion and injustice are elimi¬nated as a result of which peace prevails in the country. From here we learn that, well before worrying about correcting others, one should start correcting himself. So, seen from the angle of a relative degree of importance, the first command is an absolute individual obligation (fard al-&ayn) while the second is an obligation which, if performed by some, will absolve others (fard al-kifayah). This highlights the importance of self-correction and makes its precedence obvious enough (Mazhari). The difference between the blessings of the present world and those of the Hereafter In this verse, the blessings of the Hereafter have been declared to be more bountiful and certainly better as compared with the blessings of the present world of our experience. Some reasons why this is so are given below: 1. The blessings of the present world are few, while the blessings of the Hereafter are many. 2. The blessings of dunya (the present world) are perishable, while the blessings of Akhirah (Hereafter) are eternal. 3. The blessings of dunya are laced with all sorts of botherations, while the blessings of Akhirah are free of such impurities. 4. The acquisition of the blessings of dunya is not certain, while the blessings of Akhirah will most certainly reach everyone who is God fearing (Muttagi: the observer of Taqwa). (al-Tafslr al-Kablr) و لا خیر فی الدُّنیا لِمَ لَم یَکُن لَّہ مِنَ اللہِ فی دَارِ المقَامِ نَصِیبُ فَاِن تعجِبُ الدُّنیا رِجَالاً فَاِنَّا مَتَاعُ قلیلُ وَ الزَّوالُ قَرِیبُ There is no gain in dunya for the one who has no share in the eternal abode from Allah. Still, if dunya does attract some people, then (beware) it is a short-lived enjoyment and its decline is near (that is, once eyes closes in death, the Akhirah is there to see).

خلاصہ تفسیر (اے مخاطب) کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا (قبل نزول حکم جہاد تو جنگ کرنے کا ایسا تقاضا تھا کہ) ان کو (منع کرنے کے لئے) یہ کہا گیا تھا کہ (ابھی) اپنے ہاتھوں کو (لڑنے سے) روکے رہو اور (جو حکم تم کو ہوچکے ہیں اس میں لگے رہو مثلاً ) نمازوں کی پابندی رکھو اور زکوة دیتے رہو (یا تو یہ حالت تھی اور یا) پھر ان پر جہاد کرنا فرض کردیا گیا تو کیا حال ہوا کہ ان میں سے بعض بعض آدمی (مخالف) لوگوں سے (طبعا) ایسا ڈرنے لگے (کہ ہم کو قتل کردیں گے) جیسا (کوئی) اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ ڈرنا (زیادہ ڈرنے کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ اکثر اللہ تعالیٰ سے ڈرنا عقلاً ہوتا ہے اور دشمن کا ڈر طبعی ہے اور قاعدہ ہے کہ طبعی حالت عقلی حالت سے شدید ہوتی ہے، دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ سے جیسا خوف ہے ویسی امید رحمت بھی تو ہے اور کافر دشمن سے تو ضرر کا خوف ہی خوف ہے اور چونکہ یہ خوف طبعی تھا اس لئے گناہ نہیں ہوا) اور (یا حکم قتال کو ملتوی کرنے کی تمنا میں) یوں کہنے لگے (خواہ زبان سے یا دل سے اور اللہ تعالیٰ کے علم میں قول نفسی قول لسانی کے برابر ہے) کہ اے ہمارے پروردگار آپ نے (ابھی سے) ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا ہم کو (اپنی عنایت سے) اور تھوڑی مدت مہلت دے دیہوتی (ذرا بےفکری سے اپنی ضروریات پوری کرلیتے اور چونکہ یہ عرض کرنا بطور اعتراض یا انکار کے نہیں تھا اس لئے گناہ نہیں ہوا، آگے جواب ارشاد ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیجئے کہ دنیا سے فائدہ اٹھانا (جس کے لئے تم مہلت کی تمنا کرتے ہو) محض چند روزہ ہے اور آخرت (جس کے حصول کا اعلی ذریعہ جہاد ہے) ہر طرح سے بہتر ہے (مگر وہ) اس شخص کے لئے (ہے) جو اللہ تعالیٰ کی مخالفت سے بچے (کیونکہ اگر کفر کے طور پر مخالفت کی تب تو اس کے لئے سامان آخرت کچھ بھی نہیں اور اگر معصیت کا مرتکب ہوا تو اعلی درجہ سے محروم رہے گا) اور تم پر ذرا بھی ظلم نہ کیا جائے گا (یعنی جتنے اعمال ہوں گے ان کا پورا پورا ثواب ملے گا، پھر جہاد جیسے عمل کے ثواب سے کیونکہ خالی رہتے ہو اور اگر جہاد بھی نہ کیا تو وقت معین پر موت سے بچ جاؤ گے ؟ ہرگز نہیں، کیونکہ موت کی تو یہ حالت ہے کہ) تم چاہے کہیں بھی ہو وہاں موت آ دبائے گی اگرچہ پختہ مضبوط قلعوں ہی میں (کیوں نہ) ہو (غرض جب موت اپنے وقت پر ضرور آئے گی اور مر کر دنیا کو چھوڑنا ہی پڑے گا تو آخرت میں خالی ہاتھ کیوں جاؤ بلکہ عقل کی بات یہ ہے کہ ” چند روزے جہد کن باقی بخند۔ “ ) اور اگر ان (منافقین) کو کوئی اچھی حالت پیش آتی ہے (جیسے فتح و کامیابی) تو کہتے ہی کہ یہ منجانب اللہ (اتفاقاً ) ہوگئی (ورنہ مسلمانوں کی بےتدبیری میں تو کوئی کسر تھی ہی نہیں) اور اگر ان کی کوئی بری حالت پیش آتی ہے (جیسے جہاد میں موت و قتل) تو (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نعوذ باللہ آپ کی نسبت) کہتے ہیں کہ یہ آپ (کی اور مسلمانوں کی بےتدبیری) کے سبب سے ہے (ورنہ چین سے گھروں میں بیٹھے رہتے تو کیوں اس مصیبت میں پڑتے) آپ فرما دیجئے کہ (میرا تو اس میں ذرا بھی دخل نہیں بلکہ) سب کچھ (نعمت و نقمت) اللہ ہی کی طرف سے ہے (گو ایک بلاواسطہ اور ایک بواسطہ جیسا کہ عنقریب اس کی تفصیل آتی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ نعمت تو محض اللہ کے فضل سے بلاواسطہ اعمال ہے اور نقمت یعنی مصیبت اللہ کے عدل سے بواسطہ اعمال سینہ عباد کے ہے پس تم جو مصیبت میں میرا دخل سمجھتے ہو واقع میں اعمال سیہ کا اس میں دخل ہے، جیسا احد میں شکست کے اسباب گزر چکے ہیں اور یہ بات نہایت ہی ظاہر ہے، اگر آدمی ذرا بھی غور کرے تو خوش حالی کے قبل کوئی نیک عمل اس درجہ کا نہ پاوے گا محض فضل ہی ثابت ہوا اور بدحالی کے قبل ضرور کوئی عمل بدپائے گا، جس کی سزا اس سے زیادہ ہوتی جب یہ ایسی ظاہر بات ہے) تو ان (حماقت شعار) لوگوں کو کیا ہوا کہ بات سمجھنے کے پاس کو بھی نہیں نکلتے (اور سمجھیں گے تو کیا اور وہ تفصیل اس اجمالی جواب مذکور کی یہ ہے کہ) اے انسان تجھ کو جو کوئی خوش حالی پیش آتی ہے وہ محض اللہ تعالیٰ کی جانب سے (فضل) ہے، اور جو کوئی بدحالی پیش آوے وہ تیرے ہی (اعمال بد کے) سبب سے ہے (پس اس بدحالی کو شریعت کے احکام پر عمل کرنے کا نتیجہ کہنا یا شارع کی طرف اس کی نسبت کرنا پوری جہالت ہے، جیسا منافقین جہاد اور امام الجہاد کی طرف اس کی نسبت کرتے تھے) اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور (اگر کوئی منافق، کافر انکار کرے تو اس کے انکار سے نفی نبوت کی کب ہو سکتی ہے، کیونکہ) اللہ تعالیٰ (آپ کی رسالت کے) گواہ کافی ہیں (جنہوں نے قولی اور فعلی شہادت دی ہے، قولی تو مثلاً یہی کلمہ وارسلنک اور فعلی یہ کہ معجزات جو دلیل اثبات نبوت میں آپ کو عطا فرمائے۔ ) معارف ومسائل شان نزول :۔ الم ترا الی الذین قیل لھم کو فوا ایدیکم الخ مکہ میں ہجرت کرنے سے پہلے کافر مسلمانوں کو بہت ستایا کرتے تھے، مسلمان آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر شکایت کرتے اور رخصت مانگتے کہ ہم کفار سے مقاتلہ کریں اور ان سے ظلم کا بدلہ لیں، آپ مسلمانوں کو لڑائی سے روکتے تھے کہ مجھ کو مقاتلہ کا حکم نہیں، بلکہ صبر اور در گزر کرنے کا حکم ہے اور فرماتے کہ نماز اور زکوة کا جو حکم تم کو ہوچکا ہے اس کو برابر کئے جاؤ کیونکہ جب تک آدمی اطاعت خداوندی میں اپنے نفس پر جہاد کرنے کا اور تکالیف جسمانی کا خوگر نہ ہو اور اپنے مال خرچ کرنے کا عادی نہ ہو تو اس کو جہاد کرنا اور اپنی جان دینا بہت دشوار ہوتا ہے، اس بات کو مسلمانوں نے قبول کرلیا تھا، پھر ہجرت کے بعد جب مسلمانوں کو جہاد کا حکم ہوا تو ان کو خوش ہونا چاہئے تھا کہ ہماری درخواست قبول ہوئی، مگر بعضے کچے مسلمان کافروں کے مقاتلہ سے ایسے ڈرنے لگے جیسا کہ اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے، یا اس سے بھی زیادہ اور آرزو کرنے لگے کہ تھوڑی مدت اور بھی قتال کا حکم نہ آتا اور ہم زندہ رہتے تو خوب ہوتا، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ حکم جہاد نازل ہونے پر مسلمانوں کی طرف سے التواء حکم کی تمنا کس وجہ سے ہوئی :۔ حکم جہاد پر مسلمانوں کی طرف سے مہلت کی تمنا درحقیقت کوئی اعتراض نہ تھا، بلکہ ایک لطف آمیز شکایت تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ عادة ہوتا یہ ہے کہ جب آدمی کو اتنہائی تنگی و تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں، اس لئے ایسے وقت میں انتقام لینا زیادہ آسان ہوتا ہے، لیکن آرام و راحت کے وقت اس کی طبیعت لڑائی کی طرف آمادہ نہیں ہوتی، یہ ایک بشری تقاضا ہے، چناچہ یہ تھے لیکن مدینہ میں آ کر جب ان کو سکون و آرام نصیب ہوا تو ایسی صورت میں جب قتال کا حکم ہوا تو اس وقت ان کا پرانا جذبہ کم ہوچکا تھا اور ان کے دلوں میں وہ جوش و خروش باقی نہیں رہا تھا، اس لئے انہوں نے محض ایک تمنا کی کہ اگر اس وقت جہاد کا حکم نہ ہوتا تو بہتر تھا، اس تمنا کو اعتراض پر محمول کر کے ان مسلمانوں کی طرف معصیت کی نسبت کرنا صحیح نہیں ہے، یہ تقریر اس صورت میں ہے جب کہ انہوں نے شکایت کا اظہار زبان سے بھی کیا ہو، لیکن اگر زبان سے نہیں کیا محض ان کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا ہو تو وساوس قلبی کو شریعت نے معصیت ہی شمار نہیں کیا، یہاں یہ دونوں احتمال ہیں اور آیت کے لفظ قالوا سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ انہوں نے زبان سے اظہار کردیا تھا، کیونکہ اس کے یہ معنی ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دل میں کہا ہو (بیان القرآن ملخصاً ) بعض مفسرین کے نزدیک آیات کا تعلق مؤمنین سے نہیں ہے بلکہ منافقین سے ہے، اس صورت میں کسی قسم کا اشکال نہیں (تفسیر کبیر) اصلاح ملک سے اصلاح نفس مقدم ہے :۔ اقیموا الصلوة واتوالزکوة، اللہ تعالیٰ نے پہلے نماز اور زکوة کے احکام کو بیان فرمایا جو اصلاح نفس کا سبب ہیں اور اس کے بعد جہاد کا حکم دیا جو اصلاح ملک کا سبب ہے یعنی اس کے ذریعہ سے ظلم و ستم کا استیصال کیا جاتا ہے اور ملک میں امن وامان قائم ہوتا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کو دوسروں کی اصلاح سے پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہئے، چناچہ درجہ کے اعتبار سے بھی قسم اول کا حکم فرض عین ہے اور ثانی کا فرض کفایہ ہے جس سے اصلاح نفس کی اہمیت اور اس کا مقدم ہونا ظاہر ہے (مظہری) دنیا اور آخرت کی نعمتوں میں فرق :۔ آیت میں دنیا کی نعمتوں کے مقابلہ میں آخرت کی نعمتوں کو افضل اور بہتر کہا گیا ہے، اس کی مندرجہ ذیل چند وجوہ ہیں۔ ١۔ دنیا کی نعمتیں قلیل ہیں اور آخرت کی نعمتیں کثیر ہیں۔ ٢۔ دنیا کی نعمتیں ختم ہونے والی ہیں اور آخرت کی باقی رہنے والی ہیں۔ ٣۔ دنیا کی نعمتوں کے ساتھ طرح طرح کی پریشانیاں بھی ہیں اور آخرت کی نعمتیں ان کدورتوں سے پاک ہیں۔ ٤۔ دنیا کی نعمتوں کا حصول یقینی نہیں ہے اور آخرت کی نعمتیں ہر متقی کو یقیناً ملیں گی (تفسیر کبیر) من اللہ فی دارالقمام نصیب متاع قلیل و لازوال قریب ” یعنی اس ناپائیدار دنیا میں ایسے شخص کے لئے کچھ بھلائی نہیں ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پائیدار گھر یعنی آخرت میں کوئی جگہ نہ ہو، پھر اگر دنیا کچھ لوگوں کو فریفتہ کرے تو آگاہ رہیں کہ یہ دنیا تو متاع قلیل ہے اور اس کا زوال و ناپید ہونا بہت قریب ہے، یعنی ادھر آنکھ بند ہوئی اور ادھر آخرت سامنے آئی۔ “

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَھُمْ كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ۝ ٠ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْـيَۃِ اللہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَۃً۝ ٠ۚ وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ۝ ٠ۚ لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ۝ ٠ۭ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ۝ ٠ۚ وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى۝ ٠ۣ وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا۝ ٧٧ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے کفوا ۔ امر ۔ جمع مذکر حاضر۔ اصل میں اکففوا بروزن انصروا۔ تھا ۔ تم روکو۔ کیف یکف۔ کفوا ایدکم ( عن القتال) امام قرطبی (رح) عنہ کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت عبد الرحمن بن عوف الزہری۔ المقداد بن الاسود الکندی۔ قدامہ بن مظعون ۔ سعد بن ابی وقاص (رض) اور دیگر صحابہ کی ایک جماعت کے متعلق نازل ہوئی۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ اقامت والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة/ 43] الاقامتہ ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی زكا أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة . يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] ( زک و ) الزکاۃ : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ كتب ( فرض) ويعبّر عن الإثبات والتّقدیر والإيجاب والفرض والعزم بِالْكِتَابَةِ ، ووجه ذلك أن الشیء يراد، ثم يقال، ثم يُكْتَبُ ، فالإرادة مبدأ، والکِتَابَةُ منتهى. ثم يعبّر عن المراد الذي هو المبدأ إذا أريد توكيده بالکتابة التي هي المنتهى، قال : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي [ المجادلة/ 21] ، وقال تعالی: قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة/ 51] ، لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] نیز کسی چیز کے ثابت کردینے اندازہ کرنے ، فرض یا واجب کردینے اور عزم کرنے کو کتابہ سے تعبیر کرلیتے ہیں اس لئے کہ پہلے پہل تو کسی چیز کے متعلق دل میں خیال پیدا ہوتا ہے پھر زبان سے ادا کی جاتی ہے اور آخر میں لکھ جاتی ہے لہذا ارادہ کی حیثیت مبداء اور کتابت کی حیثیت منتھیٰ کی ہے پھر جس چیز کا ابھی ارادہ کیا گیا ہو تاکید کے طورپر اسے کتب س تعبیر کرلیتے ہیں جو کہ دراصل ارادہ کا منتہیٰ ہے ۔۔۔ چناچہ فرمایا : كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي[ المجادلة/ 21] خدا کا حکم ناطق ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ضرور غالب رہیں گے ۔ قُلْ لَنْ يُصِيبَنا إِلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا [ التوبة/ 51] کہہ دو کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی بجز اس کے کہ جو خدا نے ہمارے لئے مقدر کردی ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران/ 154] تو جن کی تقدیر میں مار جانا لکھا تھا ۔ وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرو ر نکل آتے ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) فریق والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین، قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ( ف ر ق ) الفریق اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ خشی الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ( خ ش ی ) الخشیۃ ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ خشی الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ( خ ش ی ) الخشیۃ ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ أخر ( تاخیر) والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة/ 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح/ 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم/ 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم/ 44] ( اخ ر ) اخر التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ { بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ } ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ { مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ } ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ { إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ } ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ { رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ } ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر أجل الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر/ 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص/ 28] . ( ا ج ل ) الاجل ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ { وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى } [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة/ 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء/ 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء/ 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران/ 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین/ 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة/ 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف/ 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ/ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف/ 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة/ 186] وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة/ 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة ( ق ر ب ) القرب القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء/ 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء/ 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران/ 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین/ 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة/ 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف/ 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ/ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف/ 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة/ 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ متع ( سامان) وكلّ ما ينتفع به علی وجه ما فهو مَتَاعٌ ومُتْعَةٌ ، وعلی هذا قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] أي : طعامهم، فسمّاه مَتَاعاً ، وقیل : وعاء هم، وکلاهما متاع، وهما متلازمان، فإنّ الطّعام کان في الوعاء . ( م ت ع ) المتوع ہر وہ چیز جس سے کسی قسم کا نفع حاصل کیا جائے اسے متاع ومتعۃ کہا جاتا ہے اس معنی کے لحاظ آیت کریمہ : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ میں غلہ کو متاع کہا ہے اور بعض نے غلہ کے تھیلے بابور یاں مراد لئے ہیں اور یہ دونوں متاع میں داخل اور باہم متلا زم ہیں کیونکہ غلہ ہمیشہ تھیلوں ہی میں ڈالا جاتا ہے قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٧) یہاں سے اللہ تعالیٰ جہاد کے مشکل گزرنے اور بدر صغری میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلنے کو گراں گزرنے کا ذکر فرماتے ہیں، چناچہ عبدالرحمن بن عوف (رض) سعدبن ابی وقاص (رض) زبیر (رض) قدامۃ بن مظعون (رض) ، مقداد بن اسود کندی (رض) طلحۃ بن عبید اللہ (رض) وغیرہ جب یہ حضرات مکہ مکرمہ میں کفار کی تکالیف سے پریشان ہورہے تھے تو ان سے کہا گیا تھا کہ ابھی لڑنے سے رکے رہو، کیوں کہ مجھے (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابھی اللہ کی طرف سے جہاد کا حکم نہیں ہوا اور ایسے حالات میں مکہ مکرمہ کے ان مظلوم مسلمانوں کو یہ تلقین کی جارہی ہے کہ وہ پانچوں نمازوں کو اوقات کی پابندی کے ساتھ رکوع و سجود کے ساتھ ادا کرتے رہیں، نیز زکوٰۃ بھی دیتے رہیں۔ اور جب مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد اللہ کی طرف ان پر جہاد فرض ہوگیا تو طلحۃ بن عبیداللہ والی جماعت اہل مکہ سے ڈرنے لگی جیسے کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اور دل میں کہنے لگے اے اللہ ابھی جہاد فرض کردیا (یعنی ہم کمزور اور کم تعداد میں ہیں) موت تک ذرا عافیت و اطمینان کے ساتھ رہ لیتے۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے کہ دنیاوی منافع آخرت کے بےپایاں اجر اعتبار سے بہت کم ہے اور آخرت کے منافع اس شخص کے لیے ہیں جو کفر وشرک اور فحش چیزوں سے بچے ایسی چیزوں سے گریز وبچاؤ ہر اعتبار سے بہتر ہے۔ اور وہاں اللہ کے پاس تمہاری نیکیوں میں دھاگے کے برابر بھی کمی نہیں کی جائے گی، فتیل گٹھلی کے بیچ میں جو لکیر ہوتی ہے یا یہ کہ انگلیوں کے جوڑوں میں جو میل کی لکیر سی ہوجاتی ہے کو کہتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” الم تر الی الذین قیل۔ (الخ) امام نسائی اور حاکم نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اور ان کے ساتھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ہم جب شرک کرتے تھے تو ظاہرا عزت دار تھے اور جب ہم ایمان لے آئے تو مختلف دینی پابندیوں کے سبب کفار کے ہاتھوں ذلیل ہوگئے ، (لہذا جہاد کا حکم دیجیے) آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اللہ کی طرف سے ابھی معاف اور درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا اپنی قوم سے مت لڑو، چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو مدینہ منورہ منتقل کردیا، تب جہاد کا حکم دیا تو بعض کو دشوار محسوس ہوا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ ان کو یہ کہا گیا تھا الخ۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٧ (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَہُمْ کُفُّوْآ اَیْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ج) مکہ مکرمہ میں بارہ برس تک مسلمانوں کو یہی حکم تھا کہ اپنے ہاتھ بندھے رکھو۔ اس دور میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے ‘ انہیں بہت بری طرح ستایا جا رہا تھا ‘ تشدد و تعذیب کی نئی تاریخ رقم کی جا رہی تھی۔ اس پر مسلمانوں کا خون کھولتا تھا اور بہت سے مسلمان یہ چاہتے تھے کہ ہمیں اجازت دی جائے تو ہم اپنے بھائیوں پر ہونے والے اس ظلم و ستم کا بدلہ لین ‘ آخر ہم نامرد نہیں ہیں ‘ بےغیرت نہیں ہیں ‘ بزدل نہیں ہیں۔ لیکن انہیں ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ منہج انقلاب نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صبر محضکا مرحلہ تھا اس وقت حکم یہ تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو۔ ؂ نغمہ ہے بلبل شوریدہ تیرا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی ایک وقت آئے گا کہ تمہارے ہاتھ کھول دیے جائیں گے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ (اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَہُمْ کُفُّوْآ اَیْدِیَکُمْ ) فعل مجہول ہے۔ یہ کہا کس نے تھا ؟ مکی قرآن میں تو کُفُّوْآ اَیْدِیَکُمْکا حکم موجود نہیں ہے۔ یہ حکم تھا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل ایمان کو ہاتھ اٹھانے سے روکا تھا۔ یہ آیت سورة النساء میں نازل ہو رہی ہے جو مدنی ہے۔ کہ اس وقت بھی وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم تھا ‘ جس کو اللہ نے اپنا حکم قرار دیا۔ گویا یہ اللہ ہی کی طرف سے تھا۔ وحی جلی تو یہ قرآن ہے۔ اس کے علاوہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی خفی بھی نازل ہوتی تھی۔ تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکی دور میں وحی خفی کے ذریعے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا ہو جو یہاں نقل ہوا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا اجتہاد ہو جسے اللہ نے برقرار رکھا ہو ‘ اسے قبول (own) کیا ہو۔ اب یہ بات یہاں محذوف ہے کہ اس وقت تو کچھ لوگ بڑے جوش و جذبہ سے اور بڑے زور شور سے کہتے تھے کہ ہمیں اجازت ہونی چاہیے کہ ہم جنگ کریں ‘ لیکن اب کیا حال ہوا : (فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَۃً ج) تو ان میں سے ایک فریق کا حل یہ ہے کہ وہ لوگوں سے اس طرح ڈر رہے ہیں جیسے اللہ سے ڈرنا چاہیے ‘ بلکہ اس سے بھی زیادہ ڈر رہے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ مکہ کے مہاجرین نہیں تھے ‘ بلکہ یہ حال منافقین مدینہ کا تھا ‘ لیکن فرق و تفاوت واضح کرنے کے لیے مکی دور کی کیفیت سے تقابل کیا گیا کہ اصل ایمان تو وہ تھا ‘ اور یہ جو صورت حال ہے یہ کمزور ایمان اور نفاق کی علامت ہے۔ (وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَج ) (لَوْلَآ اَخَّرْتَنَآ اِلآی اَجَلٍ قَرِیْبٍ ط) اس حکم کو کچھ دیر کے لیے مزید مؤخر کیوں نہ کیا ؟ (قُلْ مَتَاع الدُّنْیَا قَلِیْلٌ ج) (وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰیقف) (وَلاَ تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً ) تمہاری حق تلفی قطعاً نہیں ہوگی اور تمہارے جو بھی اعمال ہیں ‘ انفاق ہے ‘ قتال ہے ‘ اللہ کی راہ میں ایثار ہے ‘ اس کا تمہیں بھرپور اجرو ثواب دے دیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

107. This verse .can be interpreted in three ways, and each meaning is equally valid: First, that those who now shirked to fight in the cause of God were themselves initially eager to fight. They often approached the Prophet (peace be on him), saying that they were being wronged, beaten, persecuted and abused, that' their patience was exhausted, and that they wanted permission to fight. They had then been told to be patient and continue to purify their souls by observing Prayers and dispensing Zakah. At that time they had felt disconcerted by this counsel of patience. Later on, some of those very same people were to tremble at the first sight of the enemy and the dangers of warfare. Second, that they remained highly 'religious' as long as they were asked merely to pray and pay Zakah, which entailed no risk to their lives. But as soon as that phase was over and they were asked to expose themselves to danger, they began to shiver with fear. Third, that in the former times the same people had unsheathed their swords for trivial causes. They had fought for loot and plunder, and engaged in feuds motivated by animal impulses, so much so that feuding had almost become their national pastime. At that time they had been told to abstain from bloodshed and to reform themselves by observing Prayers and dispensing Zakah. When, later on, the same people were told that the time had come for them to fight in the cause of God, those who had shown themselves to be lions while fighting for their own selfish causes turned out to be as meek as lambs. The strong hands which had wielded the sword so firmly, and had used it so fiercely for the sake of either personal or tribal honour, or for Satan's sake, became almost paralysed. Each of these three meanings applies to a different kind of person, but the actual words of the verse seem to apply equally to all who shirked fighting in the cause of God. 108. Were they to serve the religion of God and spend their energy in that cause, they would surely be rewarded by Him.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :107 اس آیت کے تین مفہوم ہیں اور تینوں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں: ایک مفہوم یہ ہے کہ پہلے یہ لوگ خود جنگ کے لیے بے تاب تھے ۔ بار بار کہتے تھے کہ صاحب ہم پر ظلم کیا جا رہا ہے ، ہمیں ستایا جاتا ہے ، مارا جاتا ہے ، گالیاں دی جاتی ہیں ، آخر ہم کب تک صبر کریں ، ہمیں مقابلہ کی اجازت دی جائے ۔ اس وقت ان سے کہا جاتا تھا کہ صبر کرو اور نماز و زکوٰۃ سے ابھی اپنے نفس کی اصلاح کرتے رہو ، تو یہ صبر و برداشت کا حکم ان پر شاق گزرتا تھا ۔ مگر اب جو لڑائی کا حکم دے دیا گیا تو انہی تقاضا کرنے والوں میں سے ایک گروہ دشمنوں کا ہجوم اور جنگ کے خطرات دیکھ دیکھ کر سہما جا رہا ہے ۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب تک مطالبہ نماز اور زکوٰۃ اور ایسے ہی بے خطر کاموں کا تھا اور جانیں لڑانے کا کوئی سوال درمیان میں نہ آیا تھا یہ لوگ پکے دیندار تھے ۔ مگر اب جو حق کی خاطر جان جوکھوں کا کام شروع ہوا تو ان پر لرزہ طاری ہونے لگا ۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ پہلے تو لوٹ کھسوٹ اور نفسانی لڑائیوں کے لیے ان کی تلوار ہر وقت نیام سے نکلی پڑتی تھی اور رات دن کا مشغلہ ہی جنگ و پیکار تھا ۔ اس وقت انہیں خونریزی سے ہاتھ روکنے اور نماز و زکوٰۃ سے نفس کی اصلاح کرنے کے لیے کہا گیا تھا ۔ اب جو خدا کے لیے تلوار اٹھانے کا حکم دیا گیا تو وہ لوگ جو نفس کی خاطر لڑنے میں شیر دل تھے ، خدا کی خاطر لڑنے میں بزدل بنے جاتے ہیں ۔ وہ دست شمشیر زن جو نفس اور شیطان کی راہ میں بڑی تیزی دکھاتا تھا اب خدا کی راہ میں شل ہوا جاتا ہے ۔ یہ تینوں مفہوم مختلف قسم کے لوگوں پر چسپاں ہوتے ہیں اور آیت کے الفاظ ایسے جامع ہیں کہ تینوں پر یکساں دلالت کرتے ہیں ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :108 یعنی اگر تم خدا کے دین کی خدمت بجا لاؤ اور اس کی راہ میں جانفشانی دکھاؤ تو یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا کے ہاں تمہارا اجر ضائع ہو جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

47: مکہ مکرَّمہ میں جب مسلمان کفار کے سخت ظلم وستم کا سامنا کررہے تھے، اس وقت بہت سے حضرات کے دِل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ ان کافروں سے انتقام لینے کے لئے جنگ کریں، لیکن اُس وقت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جہاد کا حکم نہیں آیا تھا، اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کی مصلحت اس میں تھی کہ وہ صبر وضبط کی بھٹی سے گذر کر اعلی اخلاق سے آراستہ ہوں، اور پھر جہاد کریں تو وہ محض ذاتی انتقام کے جذبے سے نہ ہو بلکہ اللہ کی رضا کی خاطر ہو۔ لہٰذا اس وقت جب کچھ مسلمان جہاد کی تمنا کرتے ان سے یہی کہا جاتا تھا کہ ابھی اپنے ہاتھ روک کر رکھو اور جہاد کے بجائے نماز اور زکوٰۃوغیرہ کے احکام پر عمل کرتے رہو۔ بعد میں جب یہ حضرات ہجرت کرکے مدینہ منوّرہ آئے توجہاد فرض ہوا۔ اُس وقت چونکہ ان کی پرانی تمنا پوری ہوگئی تھی، اس لئے انہیں خوش ہونا چاہئے تھا، لیکن ان میں سے بعض حضرات کے دِل میں یہ خیال آیا کہ تقریبا تیرہ سال کی صبر آزما تکلیفوں کے بعد اب ذرا سکون اور عافیت کی زندگی میسر آئی ہے اس لئے جہاد کا حکم کچھ مزید موخر ہوجاتا تو اچھا تھا۔ ان کی یہ خواہش اﷲ تعالیٰ کے حکم پر کوئی اعتراض نہیں تھا، بلکہ بشریت کا ایک تقاضا تھا ،لیکن اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں اس پر تنبیہ فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ کے برگزیدہ صحابہ کا مقام اس بات سے بلند ہونا چاہئے کہ وہ کسی وقت دُنیاوی راحت وآرام کو اتنی اہمیت دیں کہ اس کے خاطر آخرت کے فوائد کو کچھ عرصے کے لئے ہی سہی موخر کرنے کی آرزو کرنے لگیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(77 ۔ 79) ۔ اوپرجہاد کا ذکر تھا یہ آیتیں بھی اسی ذکر سے متعلق ہیں۔ معتبر سند سے نسائی، حاکم، ابن ابی حاتم وغیرہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے اس آیت کی شان نزول جو بیان کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ میں جب مسلمان کمزور تھے تو مشرک لوگ مسلمانوں کو طرح طرح کی تکلفیں دیتے تھے ایک روز ان تکلیفوں سے تنگ آکر عبد الرحمن بن عوف (رض) اور مقداد بن اسود (رض) اور قدامہ بن مظعون (رض) اور سعد بن ابی وقاص (رض) اور چند صحابہ نے حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرکین کی ایذا دہی کی شکایت پیش کی۔ اور لڑائی کی اجازت چاہی۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابھی لڑائی کی اجازت نہیں ہے اس لئے بالفعل لڑائی سے ہاتھ روکنا اور فقط نماز اور زکوٰۃ پر قائم رہنا چاہیے مدینہ میں آنے کے بعد لڑائی کا حکم آیا اور بدر اور احد کی لڑائی ہوئی اور بعض مسلمانوں کے دل میں مشرکوں سے لڑائی کا وہ جوش نہیں پایا گیا۔ جو لڑائی کے حکم سے پہلے مکہ میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اولاہنا دینے کو یہ آیات نازل فرمائیں ١۔ اس شان نزول کی چند روایتیں ہیں جن کے سبب سے ایک رویت کو دوسری روایت سے تقویت ہوجاتی ہے۔ اس مکی آیت میں زکوٰۃ کا جو ذکر ہے اس سے ان علماء کے قول کی تائید ہوتی ہے جو مکہ میں زکوٰۃ کے فرض ہونے کے قائل ہیں۔ لیکن بعض علماء کا یہ قول ہے کہ ہجرت سے پہلے جب مسلمان مکہ میں تھے تو ان کو محتاج لوگوں کے ساتھ مقدور کے موافق کچھ سلوک کرنے کا حکم تھا اسی کو ان آیتوں میں زکوٰۃ فرمایا ہے۔ جہاد کا حکم نازل ہونے کے بعد کچے مسلمان دو طرح کی باتیں کرتے تھے ایک تو لڑائی پر جانے میں موت کے اندیشہ سے یہ کہتے تھے کہ جہاد کا حکم تھوڑی مدت تک ٹل جاتا تو اچھا تھا۔ اس کا جواب تو اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ لڑائی پر جانے سے کچھ وقت مقرر سے پہلے موت نہیں آتی۔ موت کا تو ایک خاص وقت مقرر ہے۔ اور جب وقت آجائے گا تو لڑائی کے میدان پر کیا موقوف ہے یہ لوگ اگر مضبوط قلعہ میں بھی ہوں تو موت ان کو ہرگز نہ چھوڑے گی۔ پھر جب یہ بات ہے کہ دنیا کے عیش و آرام دنیا کی زندگی چند روزہ ہے تو ایسے عارضی عیش و آرام ایسی عارضی زندگی کے پیچھے عقبیٰ کا ہمیشہ عیش و آرام ہمیشہ کی زندگی کے حاصل کرنے کی ہمت نہ باندھنا کسی صاحب عقل کا کام نہیں ہے کیونکہ عقبیٰ میں پرہیزگاروں کے لئے جو عیش و آرام اللہ تعالیٰ نے ان کے ذ رہ ذرہ سے عمل کی جزا میں رکھے ہیں دنیا کے عیش و آرام ان کے آگے کچھ اصل نہیں ہے۔ صحیح مسلم میں مستور دن شداد (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جس طرح کوئی شخص دریا میں انگلی ڈبو کر نکال اور اس کی انگلی میں پانی کی ذرا سی نمی رہ جائے دنیا اور عقبیٰ کی بالکل ایسی مثال ہے ١ کہ عقبیٰ کا عیش و آرام ایک دریا ہے اور اس کے مقابلہ میں دنیا کا عیش و آرام مثل اس نمی کے ہے جو کسی شخص کی انگلی کو لگ کر رہ گئی تھی۔ دوسری باتیں یہ کچے مسلمان اور ان کے ملنے جلنے والے یہود مل کر جو کرتے تھے وہ یہ تھیں کہ مثلاً جب بدر کی لڑائی میں مسلمانوں کو فتح ہوئی تو اس فتح کو اللہ کی قدرت سے ایک اتفاقی فتح کہتے تھے اس بات کے قائل نہیں تھے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی مدد فرمائی۔ اس لئے یہ فتح ہوئی۔ اسی طرح جب احد یک لڑائی میں معاملہ برعکس ہوا اور مدینہ کے کچھ لوگ اس میں کام آئے تو اس معاملہ کو آنحضرت کے مدینہ میں آنے کو ایک بد فالی خیال کر کے یوں کہتے تھے کہ نہ یہ نبی مدینہ میں آن کر اس طرح کی بےانتظامی کی لڑائی لڑتے نہ یوں مفت ہماری بستی کے لوگوں کی جانیں جاتیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ ان لوگوں کی نادانی ہے جو یہ ایسی باتیں کرتے ہیں دنیا میں فتح و شکست اور رنج خوشی کی باتیں اللہ کے حکم سے ہوتی ہیں کسی بد فالی کا اس میں کچھ دخل نہیں رہی لشکر اسلام کی کبھی کبھی کی ناکامیابی اور اس ناکامی کا صدمہ وہ انسان کی شامت اعمال سے ہے جیسے تیر اندازوں کے گروہ نے پہاڑ کا ناکہ چھوڑ کر احد کی لڑائی میں ناکامی اٹھائی اور اس دنیا کے صدمہ میں عین اللہ کی مصلحت یہ ہے کہ مسلمانوں کے گناہوں کا کفارہ یہیں دنیا میں ہوجاتا ہے۔ عقبیٰ کامواخذہ باقی نہیں رہتا۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابو سعید خدری (رض) اور ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایمان دار آدمی کو دنیا میں ایک کانٹا چبھنے کا صدمہ بھی پہنچے تو اس کا حساب بھی اس کے گناہوں کے کفارے میں لگایا جائے گا ١۔ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے ہم نے تو اپنا نائب اور رسول بنا کر تم کو دنیا میں بھیجا ہے تاکہ یہ لوگ تم سے دین کے احکام سیکھیں اور ان پر عمل کریں۔ جس سے ان کی نجات ہو اور اللہ کی گواہی تمہارے رسول ہونے پر ایک کافی بشارت ہے باوجود اس کے یہ لوگ جو تم کو بد فالی کا سبب ٹھہراتے ہیں یہ ان کی کمال نادانی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:77) کفوا۔ امر ۔ جمع مذکر حاضر۔ اصل میں اکففوا بروزن انصروا۔ تھا ۔ تم روکو۔ کیف یکف۔ کفوا ایدکم (عن القتال) امام قرطبی (رح) عنہ کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت عبد الرحمن بن عوف الزہری۔ المقداد بن الاسود الکندی۔ قدامہ بن مظعون ۔ سعد بن ابی وقاص (رض) اور دیگر صحابہ کی ایک جماعت کے متعلق نازل ہوئی۔ ان حضرات کا تقاضا تھا کہ مکہ میں طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں اب جب کہ ان کی حالت بہتر ہوگئی ہے تو ان کو اپنے موذی دشمنوں کے ساتھ مقاتلہ کی اجازت دی جائے۔ لیکن چونکہ ابھی جہاد کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو نماز اور روزہ پر زیادہ توجہ دینے کے لئے فرمایا کرتے تھے جو فرض کئے جا چکے تھے اور قتال سے منع فرماتے تھے۔ کتب علیہم القتال۔ جب ان پر جہاد فرض کیا گیا۔ اور مشرکین سے قتال کا حکم ہوا اور بدر کے میدان کی طرف نکلنے کا حکم ہوا ۔ فریق منھم۔ ان میں سے ایک فریق۔ ایک گروہ۔ سارے نہیں بلکہ ان میں سے ایک گروہ جو ایمان میں پختہ نہ تھے۔ یخشون الناس۔ یخشون مضارع جمع مذکر غائب خشیۃ مصدر (باب سمع) سے لوگوں سے ڈرنے لگے۔ یعنی مشرکین سے مقاتلہ سے خوف کھانے لگے۔ فریقا لفظاً واحد ہے لیکن معنی جمع ہے۔ لولا۔ کیوں نہ۔ اخرتنا۔ تو نے ہمیں مہلت دی۔ اجل قریب۔ اجل مدت مقررہ کو کہتے ہیں موت کو اجل بھی اسی لئے کہتے ہیں کہ اس کا وقت مقرر ہے الی اجل قریب کچھ مدت تک۔ تھوڑا عرصہ اور۔ فتیلا کھجور کی گٹھلی کے ریشے برابر۔ ملاحظہ ہو 4:49 ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی جب تک مسلمان مکہ میں تھے اور کافر ایذا دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو لڑنے سے روکے رکھا اور صبر کا حکم دیا فرمایا اب جو (مدینہ منورہ) میں لڑائی کا حکم آیا ہے تو ان کو سمجھنا چاہیے کہ ہماری مراد ملی لیکن کچے مسلمان کنارہ کرتے رہیں اور موت سے ڈرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے برابر آدمیوں سے خطرہ کرتے ہیں۔ (موضح) روایات میں ہے مسلمانوں نے مکی زندگی میں کئی دفعہ چاہا کہ ظالموں سے دو بدو نمٹیں مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو حکم ہوتا کہ ابھی نماز اور زکوٰۃ (نفاق مال) کا جو تم کو حکم ہوا ہے اس کی خوب عادت ڈالو تاکہ تمہاری تربیت ہوجائے۔ مدینہ منورہ میں بھی ہجرت کے ابتدائے برسوں میں مسلمانوں کی خواہش یہی تھی لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے لڑائی کی اجازت آگئی تو اب بعض خام قسم کے مسلمان اس سے ہچکیمانے لگے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر۔ قرطبی)2 شاہ صاحب کر ترجمہ یہ ہے کہ کیوں نہ جینے دیا ہم کو تھوڑی سی عمر جواب آگے ہے۔3 دنیا کی بےثباتی کا ذکر کے کر جہاد کی ترغیب دی ہے۔ صحیح مسلم میں اور اس کی انگلی میں تھوڑی سی نمی رہ جائے ایسی ہی مثال دنیا ارآخرت کی ہے۔ نیز فرمایا کہ میری اور دنیا کی مثال ایک مسافر کی ہے جو ایک درخت کے نیچے دوپہر کو آرام کرتا ہے اور پھر ورانہ ہوجاتا ہے۔ (معالم، قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

اسرار و معارف آیات نمبر 77 تا 78 ۔ اے مخاطب ذرا ان لوگوں کو دیکھ جن کو روکنا مشکل ہورہا تھا اور یہ حکم دیا جاتا تھا کہ نماز روزہ کی پابندی کرو زکوۃ دو یعنی ارکان اسلام پر عمل کرو اسلام کو خود اپنے اوپر نافذ کرو تب یہ جہاد اور قتال کے لیے بیقرار تھے کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے اللہ کا حکم ہو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لائے ہوں اور لوگ مانیں نہیں وہ خواہ اہل مکہ ہوں یا کوئی بھی اور ہم ان سے نزور شمشیر منوائیں گے تو ارشاد ہوتا تھا ٹھہرجاؤ ذرا اپنے ہاتھوں کو روک کر رکھو یہ در اصل منافقین کا کردار تھا جب مسلمان ہجرت کرکے آئے تو جو منافقین ان کی صفوں میں شامل ہوگئے یہ ان کی باتیں ہیں جو بعض حضرات نے مومنین کی طرف منسوب کرکے بڑا معذرت خواہانہ سا ترجمہ کیا ہے مگر اکثر مفسرین اس طرف نہیں گئے کہ فوراً بعد منافقین ہی کا تو ذکر آ رہا ہے پھر مومنین کی زندگی بڑی سادہ تھی بات سنی اور تسلیم کرلی ختم یہ مطالبے اور ظاہر داری خود منافقت ہی کا تو اظہار ہے سو فرمایا جب جہاد فرض کردیا گیا تو اب دیکھو ان کا خون خشک ہورہا ہے اور یہ کافروں سے اس طرح خوفزدہ ہیں کہ اتنا تو اللہ سے ڈرنا چاہیے تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ اور یہ قانون ہے کہ جو لوگ مخلص ہوتے ہیں اور اپنے وجود پر اپنے ضمیر پر اپنے آپ پر اسلام نافذ کرتے ہیں وہ دوسروں پر بھی کرسکتے ہیں مگر جو خود کو اسلام سے نا آشنا رکھتے ہیں وہ محض منافقت سے اسلام کے نام کو زینہ بنا کر اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور بس صحابہ نے خلوص دل سے دین اپنایا تو وہ اسے روئے زمین پر پھیلانے کا سبب بنے آج کے مدی ایم این اے ہاسٹل میں شرابیں پیتے اور رنڈیوں کے ڈانس دیکھتے ہیں اور نفاذ اسلام پر بحث بھی ہوتی آپ اہل اللہ کی زندگیوں کو دیکھئے کیا ہوتا ہے ان بوریا نشینوں کے پاس صرف خلوص جو لاکھوں دلوں کو گرما جاتا ہے اور حکمرانوں کے پاس اختیارات تو ہوتے ہیں مگر خلوص نہیں اس لیے کچھ کر نہیں پاتے سو اول اپنی اصلاح ضروری ہے ورنہ پھر کافروں سے ڈر آتا ہے اور اتنا شدید کہ خوف خدا سے زیادہ کافروں کا خوف دل پہ چھا جاتا ہے کہ اللہ سے کوئی ڈرتا ہے تو امید رحمت بھی رکھتا ہے مگر وہاں سوائے ایذا کے کسی شے کی امید نہیں ہوتی اب یہ اسی دلی خوف کو چھاپنے کے لیے کہتے ہیں خدایا کچھ تھوڑی سی مہلت دے دی ہوتی ہم ذرا سنبھل جاتے مکہ والوں کو تو تیرہ برس مکہ میں مل گئے جہاد فرض نہیں ۃوا اور یہاں مدینہ میں اتنی جلدی فرمایا میرے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو سمجھا تو کتنا کریم ہے رد نہیں فرماتا جھڑک نہیں رہا بلکہ پھر بھی سمجھانے کا حکم دے رہا ہے یا ر کیا کروگے دنیا کو اول تو ساری دنیا کبھی کسی کو ملتی نہیں جو تھوڑی بہت ملتی ہے ساتھ ضرور تکلیفیں بھی لاتی ہے اور پھر سب سے بڑی بات کہ آخر چھوڑ کر جانا ہے اور جو لوگ اللہ سے دوستی کر لتیے ہیں دل کی گہرائیوں سے دوستی ، ان کے لیے آخرت بہت بڑی دولت ہے جسے کبھی زوال نہیں جو کم از کم اتنی ملتی ہے کہ آدمی بس بس کرنے لگتا ہے جس کے ساتھ کوئی دکھ نہیں اور جو کبھی چھینی نہیں جائے گی مگر اللہ سے دل کو جوڑ لو ایسا کہ اس کی نافرمانی پہ تڑپ جائے موت آسان معلوم ہو اور گناہ مشکل دو تو یاد رکھو تمہارا کچھ رائیگاں نہیں جائے گا کوئی چھوٹی سے چھوٹی نیکی ضائع نہیں ہوگی ایک تار برابر زیادتی نہیں کی جائے گی اب رہی بات جینے اور مرنے کی تو بھئی موت کو تو آنا ہے آ کر رہے گی تم کسی مضبوط قلعے میں چھپ جاؤ کسی پوشیدہ ترین جگہ میں چلے جاؤ جب موت کا وقت آجائے گا تو تمہیں مرنا ہوگا اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں لیکن اگر تم جہاد کا حکم خلوص دل سے قبول کرلو تو زیادہ سے زیادہ میدان جنگ میں موت ہی آئیگی مگر نہیں تلوار کی دھار تمہیں وہ زندگی دے گی جو موت کو شکست دے دیگی مگر یہ منافق ایسے بد نصیب ہیں کہ فتح ہو تو کہتے ہیں اللہ نے اتفاقاً دے دی ورنہ یہاں کس کو سمجھ تھی منصوبہ بندی کی اور اگر شکست یا مصیبت آجائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طعنہ دیتے ہیں کہ مصیبتیں تو آپ کی وجہ سے ہمیں دیکھنا پڑیں فرمائیے سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے اور کتنی گئی گذر قوم ہے منافقین کی کہ ان کے پلے ہی کچھ نہیں پڑتا ہدایت کے اسباب میں سے آخری انتہائی موثر سب سے اعلی اللہ کا کلام اور اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو ان کے ظہور کے بعد بھی نہیں سمجھتا اس کی جہالت بھی انتہا درجے کی ہے اور انہیں یہ بھی بتا دیجئے کہ نعمت محض اللہ کی طرف سے ملتی ہے ہم اگر عبادت اور نیکی بھی کریں تو جو کچھ پہلے حاصل کرچکے ہیں صرف اس کا شکر ادا نہیں ہوتا وجود شکل عقل اعضاء آنکھیں سوچ شعور اور کیا کچھ نعمتیں جو ہم لے چکے ہیں سو مزید جو کچھ ملتا ہے محض اس کی عطا ہے اور جو دکھ پہنچتا ہے وہ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہے کافر پر مصیبت اخروی عذابوں کا ادنے سا نمونہ ہوتی ہے اور دنیا میں بطور سزا جسے از قسم عقوبات کہتے ہیں۔ مومن پر مصیبت اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اسے تلافی مافات کہتے ہیں اور بعض کہتے ہیں اور بعض اوقات مزید ترقی کا سبب بن جاتی ہے جو خاصان خدا پر آتی ہے اسے ترقی درجات کا نام دیا جاتا ہے۔ رہی آپ کی بات تو آپ تو ہمارے اور ہمارے بندوں کے درمیان سب سے اعلی واسطہ ہیں کہ بندہ بھی اپنی درخواست سنا سکتا ہے اپنا دکھ بتا سکتا ہے اور اللہ کا حکم بھی آپ سے لے سکتا ہے برکات و انوارات سے جھولی بھر سکتا ہے میرے حبیب صرف آپ کی ذات ہی بندوں پہ میرا کتنا بڑا احسان ہے اور آپ کی رسالت کا گواہ تو اللہ خود کافی ہے کسی دوسرے کی ضرورت ہی نہیں جب اللہ نے گواہی دی تو کتنی شاندار دی کہ بچپن معجزہ لڑکپن معجزہ جوانی معجزہ بعثت معجزہ ہجرت معجزہ حیات مدنی معجزہ حیات ابدی معجزہ پھر کسی اور گواہی کی کیا ضرورت ہے آپ کی تو کتاب تک معجزہ ہے ۔ بلکہ جس نے آپ کی غلامی کرلی اس نے اللہ کی غلامی کرلی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لب مبارک جب بھی کسی حکم کے لیے کھلتے ہیں تو وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے اب اس سے بڑھ کر خوش نصیبی کیا ہوگی ہاں ایمان شرط ہے اللہ سے ایمان اس کی عظمت دل میں ہو اس کی بات سننے کو دل تڑپے اس کی بات ماننے کو جی بیقرار ہو تو یہ مسئلہ تو حل ہوگیا کہ جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا مجھ ہی سے سنا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم مانا تو میرا ہی مانا اور جو اس سعادت سے محروم رہا من تولی یعنی اپنی مرضی سے بھاگ گیا ایسے بد نصیب کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذمہ دار نہیں ہیں آپ کا کام ان کی نگہبانی فرمانا نہیں کہ ہر انسان کو پسند کا حق خود میں نے دے دیا ہے خواہ وہ اس حق کو میرے ہی خلاف استعمال کرے زبردستی نہیں روکوں گا ہاں نتیجہ سے خبردار کردیا ہے اور بار بار بتا دیا ہے کہ یہ راستہ تباہی کو جاتا ہے۔ منافقین کا حال تو یہ ہے کہ اطاعت کا اقرار بھی کرتے ہیں اور جب راتوں کو اپنے گھروں میں جمع ہوتے ہیں تو آپ کے خلاف یا آپ کے احکام و فرمودات کے خلاف مشورے کرتے ہیں اور یہ جو کچھ بھی کرتے ہیں جتنا بھی چھپ کر کرتے ہیں الہ کریم لکھتے جاتے ہیں یعنی ان کا نامہ اعمال تو بن رہا ہے۔ سو میرے حبیب ان کی پرواہ مت کیجیے یا ٹھہرئیے میں بھی ترجمے کا حق ادا نہیں کرپایا ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے ان سے صرف نظر فرمائیے اس میں دونوں پہلو ہیں ایک تو امور دنیا میں امور سلطنت میں ان کی پرواہ مت کیجئے کہ کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے دوسرے انہیں رسوا مت کیجیے لوگوں میں ان کا بھید کھول کر یا انہیں اپنی تعلیمات کی محافل سے محروم فرما کر بلکہ آپ درگذر فرمائیے اور اللہ ہی پر بھروسہ رکھیے وہی بہترین کار ساز ہے۔ اتنا کرم تو منافق کے ساتھ بھی ہے کہ جھڑک دینے سے تو بالکل محروم ہوجائے گا ساتھ رہنے سے اصلاح کی امید تو ہے ورنہ ایمان سے تو پہلے خالی ہے اور کیا بگڑے گا سو علما کا بھی حق بنتا ہے کہ ایسے لوگوں کو جو عملاً اسلامی تعلیمات اور اعمال سے دور ہیں قریب لائیں اور انہیں نفرت کا نشانہ نہ بنائیں ہوسکے تو محبت دیں کہ مخلوق کی اصلاح مطلوب ہے لوگوں کو سزا دلوانا مقصد نہیں ہے وہ تو کسی کے عمل پر از خود مرتب ہو ہی جائے گی۔ اور یہ بظاہر مسلمان اور دلوں میں شبہات پالنے والے لوگ بھی عجیب ہیں کیا یہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے غور نہیں کرتے کبھی نہیں سوچتے کہ نہ صرف پوری کائنات کے مسائل ان کے اسباب ان کا حل بلکہ دونوں جہانوں کی زندگی اور دونوں زندگیوں کی ضرورتیں اور حاجات پھر ان کے اسباب و علل اور پورا کرنے کے طریقے یا محرومی کے اسباب کس حسن ترتیب اور حسن ربط سے ارشاد فرمائے ہیں اب یہ کلام اللہ کے سوا کسی بھی اور کا ہوتا تو پہلی بات تو ہے کہ دنیا کی زندگی کے علاوہ اس سے پہلے کیا کچھ تھا یا بعد میں کیا ہوگا یہ کبھی کسی فلسفی کی نہ سمجھ میں آیا نہ اس پر کسی نے بات کی یعنی بڑا حصہ جو آخرت ہے جو ابدی ہے اس کی تو خبر ہی نہیں رکھتے اور تھوڑے سے حصے کو جو زندگی کا مختصر ترین وقفہ ہے زیر بحث لاتے ہیں پھر اس میں بھی نہ صرف یہ کہ سب کی رائیں متفق نہیں ہوپاتیں خود اپنی باتوں کی تردید کرتے رہتے ہیں کہ پہلے جو بات تجربہ میں آئی وہ غلط تھی اور درست بات یہ ہے تو یہی حال قرآن کا ہوتا اس میں بیشمار اختلافات ہوتے مگر اس کی آرا ایسی ٹھوس کہ جو خبر دی کبھی تبدیل ہوئی نہ ہوگی اور احکامقوموں کے مزاج ، وقت کے تقاضوں اور سب سے بڑی بات کہ لوگوں کی قسمتوں کے مطابق بدلتے رہے مگر ٹھوس اور بغیر کسی ادنی شک کے اب رہی بات قرآن حکیم میں تدبر کی تو اس کی دعوت عام ہے ہر شخص کے لیے مگر یہ یاد رہے کہ جس طرح الفاظ قرآن اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائے ہیں اسی طرح ان کے معانی متعین فرمانا یہ منصب نبوت ہے اب اس کے اندر رہتے ہوئے قرآن حکیم اور حدیث پاک کو سمجھنے کے لیے نیز احادیث مبارکہ کو پرکھنے کے لیے جن علوم اور جس معیار کی ضرورت ہے اگر وہ کسی کے پاس ہو تو وہ شوق سے کتاب اللہ میں فکر کرے ، غور کرے ، اجتہاد کرے۔ لفظ اجتہاد میں نے عمداً استعمال کیا ہے کہ آجکل لوگوں کو اجتہاد کا بہت شوق ہورہا ہے تو اس کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ میرے خیال میں تو متقدمین ائمہ کرام نے اس کی ضرورت باقی نہیں چھوڑی ، ہر سوال جو پیدا ہوتا ہے اس کا جواب ان کے ہاں مل جاتا ہے پھر ہر شخص کی فکر کا درجہ اس کے اپنے علم ادراک اور فہم کے مطابق ہوگا مگر کسی کا اجتہادبھی ان حدود کو عبور نہیں کرسکتا جو سنت نبوی سے معین ہوچکی ہیں۔ سو ہمارے جدید مجتہدین کا مقصد پھر بھی حل نہ ہوگا کہ ان کا خیال اجتہاد کے نام پر قرآن کے نئے معنی مقرر کرنا ہے۔ جو بہرحال صرف منصب نبوت ہے کہ قرآن کی تعیین کرے کون کون سے الفاظ کون کون سی ٓیات قرٓن ہیں اور ان کے معانی معین و مقرر فرمائے جس کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حق ادا فرما دیا کہ نہ صرف زبانی تفسیر ارشاد فرمائی بلکہ ایسے لوگ معاشرہ ایسی حکوتم اور ایک ایسا ملک بنا سنوار کر دنیا کے روبرو کردیا جس کا ہر کام کتاب الہی کی تفسیر تھا اب اگر کسی کو اجتہاد کرنا ہے تو اس کا اجتہاد یہ ہے کہ اس میں سے اپنے مسئلے کا حل تلاش کرے یا کوئی اس جیسی مثال تلاش کرکے اس پر قیاس کرلے یہی اجتہاد ہے اور یہی قیاس اور یہ کبھی کسی زمانے میں منع نہیں ہے۔ منافقین کی ایک بات اور بھی بڑی تکلیف دہ ہے کہ بات سنتے ہیں وہ بھلائی کی ہو امن کی ہو یا خوف کی ، فتح کی خبر ہو یا کسی جگہ مسلمانوں کی شہادت فوراً پھیلا دیتے ہیں۔ حالانکہ حق یہ تھا کہ جب انہوں نے بات سنی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت عالیہ میں عرض کرتے یا پھر متعلقہ حاکم کو اطلاع کرتے تاکہ اس خبر کی تحقیق ہو اگر فتح کی خبر تھی تو بھی سچ سچ پہنچ پاتی اگر کہیں دشمن سے نقصان پہنچنے کی اطلاع تھی تو وہ بھی درست ہوتی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا متعلقہ امیر اس کی تحقیق فرماتے (اولو الامر پہ بات پہلے گذر چکی ہے اگر چاہیں تو ٓیہ اولی الامر منہم میں دیکھ لیں) استنباط ہوتا ہے۔ تحقیق کرکے خبر کی تہ سے حقیقت کو پا لینا اور یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی حکم دیا جا رہا ہے اسی کے ساتھ اولی الامر کو بھی یعنی یہ منصب رسالت بھی ہے کہ اخبار کی تحقیق فرمائی جائے اور علما فقہا اور حکام کا فرض بھی ہے کہ دین کے احکام میں تحقیق سے کام لیں اور ہر کس و ناکس کی بات پہ عمل کرے اسی کو تقلید کہتے ہیں۔ حکام کو اللہ نے اختیار دیا ہے وہ عام ٓدمی سے حکماً اور جبراً بات منوا سکتے ہیں اور جو بات حاکم منوانا چاہے اسے قانون کہا جاتا ہے خواہ وہ کتنا ظالمانہ ہو انہیں بھی چاہیے اللہ کا خوف کریں اور اللہ کی مخلوق سے وہ بات منوائیں جو ان کا رب اور اس کا رسول منونا چاہتا ہے مگر یہ تو اسلام ہے بھلا منافق یہ سب کچھ کیوں کریں گے۔ وہ تو الٹی سیدھی باتیں بنا کر یا آج کے دور میں نعرے لگا کر جلسے کرکے لوگوں کو پیچھے لگا لیتے ہیں۔ مگر اس دور میں ایسا نہیں ہوتا تھا کہ اللہ فرماتے ہیں۔ لولا فضل اللہ علیکم ورحمۃ۔ اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم بھی شاید شیطان کی بات مان لیتے یعنی ان منافقوں کی نعرہ بازیوں کا شکار ہوجاتے مگر اللہ کے ساتھ خلوص ، اس کے نبی کے ساتھ خلوص تمہیں ضائع نہیں ہونے دیتا بلکہ تم میں تو پھر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی حال میں بھی ان شیاطین کے ورغلانے میں نہیں ٓتے کچھ تو ایسے ہیں جن کا اپنا کچھ ہے ہی نہیں ، نہ دل نہ سوچ نہ آرزو سب بک چکا ہے اب ان سے شیطان بھی کیا لے گا۔ خواہ نسبتاً ایسے لوگ تھوڑے سہی مگر تھے ضرور کہ جنہوں نے محبت کی انتہا اور عشق کا آخر بتا دیا کہ کوئی انسان کسی انسان سے محبت کی راہ میں کہاں تک جاسکتا ہے جہاں وہ خود بھی گم ہوجائے۔ اندیشہ سود و زیاں سے بالا تر ہوجائے۔ جب کچھ پاس نہ ہو اور کسی طرح کی طلب ہی نہ رہے تو سود کیسا اور زیاں کسے کہتے ہیں۔ اور صحابہ میں ہی ایسے لوگ بھی تھے جن کا نہ دل بچا تھا کہ آرزو کرتے نہ سر بچا کہ کچھ سوچتے بس سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دید ان کی زندگی ، آپ کی اطاعت ان کی دولت اور آپ کی غلامی ان کا سرمایہ حیات تھا۔ سو آپ افواہوں کی پرواہ مت کریں اگرچہ آج بھی اسے جنگ میں بہت موثر تھیار کے طور پر استعمال کرنا ایک جنگی قاعدہ ہے یعنی مخالف کیمپ میں بددلی پھیلانے والی باتیں پھیلا دینا ففتھ کالم ک نام سے یہ جنگ کا حصہ ہے اور مسلمانوں کی نوزائیدہ ریاست جو صرف مدینہ منورہ اور اس کے قرب و جوار پر محیط تھی اس میں ایسی خبریں اڑانا جبکہ دشمن واقعی زور آور اور تربیت یافتہ ہتھیاروں سے لیس اور افرادی قوت میں بھی بہت زیادہ برتری کا حامل ہو تو ایسی حالت میں تو یہ بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتی تھیں۔ جبکہ ارشاد ہوا کہ اے میرے حضبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی راہ میں لڑو۔ فرمایا۔ فقاتل۔ یعنی جان توڑ کر لڑو۔ کہ تم اپنی ذات کے لیے جوابدہ ہو دوسرے خود اپنی اپنی ذات کے لیے جواب دیں گے۔ ہاں ایمان والوں کو جنگ کی تاکید ضرور کریں دیکھیں ضرورت جہاد کو فرض کردیتی ہے اور جو جسقدر ذمہ دار ہوتا ہے اسی قدر اس پہ فرض بھی آتا ہے جیسے یہاں ضرورت ہے۔ کفار مکہ للکار کر گئے میدان احد میں کہ زیقعدہ میں بدر میں دوبارہ ملیں گے اب نہ جانا تو ان کا حوصلہ بڑھانے والی بات ہوئی۔ مگر منافقین بری بری خبریں اڑا رہے ہیں کہ در پردہ انہیں کے آدمی تھے۔ ساتھ کبھی کہتے یار ابھی تو احد کے زخمی بھی اچھے نہیں ہوئے کبھی کہتے مکہ والوں نے بہت بڑی تیاری کی ہے تو اللہ نے حکم دیا میرے حبیب آپ پیچھے مت ہٹیے اگر خدانخواستہ کوئی بھی ساتھ نہ دے تو اکیلے اترئیے میدان جنگ میں کہ آپ اپنی جان کے مکل ہیں وہ پیش کردیں یعنی اب سے پہلے پیر صاحب کو جہاد کے لیے جانا چاہیے اور ان کے ساتھ علما کو کوئی جائے نہ جائے مگر انہیں یہ ضرور دیکھنا ہے کہ جانشین کس کے ہیں۔ ہاں آپ مومنین سے ناامید مت ہوئیے۔ انہیں جہاد کی ترغیب بلکہ تاکید فرمائیے چناچہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ستر صحابہ کو حکم دیا تو وہ تیار ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر تشریف لے گئے اسے بدر صغری کہتے ہیں۔ اب آگے کیا ہوا فرمایا اللہ قادر ہے چاہے تو کافر کو جنگ ہی سے روک دے کہ کافر اللہ سے تو نہیں لڑ سکتا۔ اللہ بہت زبردست بھی ہے اور بہت سخت سزا دینے والا بھی اگر وہ چاہے تو کافر کو قتل کی سزا دے یا مومن کو شہادت کا انعام اور چاہے تو جنگ ہی روک دے اور یہی ہوا کہ اہل مکہ کے دلوں پہ ہیبت طاری ہوگئی اور وہ نہ آسکے۔ اب جس نے تو بہتر رائے دی اچھی سفارش کی اس کے لیے اس میں ثواب ہے اور جس نے غلط رائے دی یا غلط سفارش کی وہ اس کی سزا میں سے حصہ پا لے گا۔ جیسے منافقین نے لوگوں کو جہاد سے روکنے کی کوشش کی اب وہ رکے یا نہیں یہ الگ بات ہے یہ اپنے کیے کی سزا کے حقدار قرار پائے۔ ایسے ہی مومنین جنہوں نے رائے بھی درست دی اور جن کو حکم ملا تعمیل ارشاد میں چل دئیے اب جنگ ہوئی یا نہ یہ لوگ اپنے اس کام کا ثواب ضرور پائیں گے۔ یہی قانون بن گیا سفارش کے لیے کہ اللہ کریم نے اسے دو حصوں میں بانٹ دیا ایک آدمی مستحق ہے مگر اپنا حق بھی نہیں مانگ سکتا۔ غریب ہے اس کی شنوائی نہیں ہوتی تو آپ اس کے حق کے لیے کہہ سکتے ہیں تو ضرور کہہ دیں۔ یہ شفاعتِ حسنہ ہوگی۔ اب اس کا کام تو متعلقہ حاکم نے کرنا ہے مگر آپ نے بات پہنچا کر حق ادا کردیا۔ اب زبردستی منوانا ضروری نہیں آپ ثوا کے مستحق ہوگئے اور اگر ناحق سفارش کی یا اثر و رسوخ استعمال کرکے کسی کو ایسی چیز دلوا دی جو اس کا حق نہ تھا یا اس کیلئے آپ نے کوشش کرلی اسے مل گئی یا نہ ملی آپ کا حصہ گناہ میں شامل ہوگیا۔ جسے ہم کبھی پیسے کے لیے یا بدلے میں اور کوئی ذاتی فائدہ حاصل کرکے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے کسی ایسے آدمی کا وہ کام کروانے کی سعی کرتے ہیں جو اس کا حق نہیں تو کام ہو یا نہ ہو ہمارا حصہ گناہ میں ضرور ہوجاتا ہے اور آجکل تو سب سے زیادہ ظلم ووٹ اور انتخاب میں ہوتا ہے ۔ ہر اس آدمی کے لیے کوشش کی جاتی ہے جو کسی بھی اس منصب کا اہل نہیں ہوتا۔ اللہ کریم ہمیں معاف فرمائیں اور ہدایت نصیب فرمائیں کہ ہم ہر کام کے لیے اللہ کی عظمت کو پیش نظر کھیں اس لیے کہ وہی ہر چیز پہ قدرت رکھنے والا ہے۔ روزی دینے کا کام ہو ، عہدہ عطا فرمانا ہو ، عزت و آبرو ہو یا عیش و آرام ، دنیا ہو یا آخرت سب کچھ وہی دے سکتا ہے کہ وہ قادر مطلق ہے۔ اور ہاں اگر کوئی چھا کلمہ کہے دعا دے یا کلمہ خیر کہے تو اسے اس کے الفاظ سے بہتر الفاظ میں جواب دیا کرو یا پھر کم از کم اس کے الفاظ تو اسے لوٹا دیا کرو۔ اسلام نے اس دعا کو شروع کردیا کہ دنیا کی تمام مہذب اقوام میں ملتے بچھڑتے وقت کچھ الفاظ دعائیہ یا ایسے جن سے اظہار شکر ہوتا ہو یا اظہار محبت ہوتا ہو ضرور کہتے جاتے ہیں۔ عربوں میں بھی قبل اسلام دعائیہ الفاظ رائج تھے مثلا حیاک اللہ یا انعم صباحا وغیرہ۔ مگر اسلام نے اللہ کریم کے مبارک نام ، سلام کو جو ہر ہر طرح کی سلامتی کو محیط ہے اور ہر جگہ ہر زمانے میں محیط ہے۔ اپنی دعا کا مرکزبنایا اور عند الملاقات یہ حکم رائج فرمایا السلام علیکم۔ یہ ایک جامع دعا بھی ہے نہ صرف زندہ رہنے کی دعا بلکہ دنیا کی ہر تکلیف سے بچنے کی دعا نہ صرف صحتمند رہنے کی دعا بلکہ نیک اور صالح بھی رہنے کی دعا نہ صرف نیک انجام کی دعا بلکہ موت بعد الموت قبر اور حشر تک سلامتی ہی سلامتی تمہیں نصیب ہوتی چلی جائے۔ کتنی عجیب دعا ہے کاش یہ دوسرے کے لیے ہمارے دل سے نکلے پھر اس کا کم از کم اثر یہ ہے جو ہر آفت سے محفوظ رہنے کی دعا دے رہا ہے وہ خود تو اس کے لیے آٖت بننا پسند نہیں کرے گا۔ یعنی یہ ضمانت ہے کہ تمہاری جان و مال ، آبرو مجھ سے محفوظ ہے۔ اسے کوئی خطرہ نہیں اور اللہ فرماتے ہیں جواب بہتر الفاظ میں دو تو زیادہ مناسب ہے۔ سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی نے آ کر السلام علیکم عرض کیا تو فرمایا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ۔ کسی دوسرے نے آ کر عرض کیا تو اس نے ساتھ رحمت بھی شامل کرلی تو آپ نے وبرکاتہ بڑھا دیا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ پھر جو حاضر ہوا اس نے یہی پورا سلام عرض کیا تو فرمایا وعلیک۔ اس نے عرض کیا حضور آپ نے سب کو بڑھا کر جواب دیا تھا۔ فرمایا تو نے میرے لیے باقی نہیں رہنے دیا یعنی سب دعائیں جمع کردیں میں نے تجھ پر لوٹا دیں تو محققین فرماتے ہیں کہ تین دعاؤں سے بڑھنا بھی درست نہیں بس یہاں تک ہی سنت سے ثابت ہے۔ حدیث شریف میں سلام کرنے کی شرائط بھی ارشاد ہوئیں۔ مثلا کچھ لوگ بیٹھے ہیں تو گذرنے والے کو چاہئے سلام کرے۔ کچھ لوگ تعداد میں کم ہوں تو جو زیادہ ہیں ان کو سلام کہیں۔ ایسے ہی سوار پیدل کو سلام کرے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی قبروں پر گذر ہو تو بھی مسنون سلام ضرور کرے اور سلام کرنا مسنون ہے۔ مگر اس کا جواب دینا واجب ہے۔ ہاں بعض حالتوں میں سلام نہیں دیا جائے گا جیسے کوئی نماز پڑھ رہا ہے یا تلاوت کررہا ہے یا اذکار میں مصروف ہے۔ اگر کوئی دے تو جواب دینے کی ضرورت نہیں اور ایک شخص بار بار ملے تو ہر بار سلام دیا جائے گا۔ بلکہ حدیث شریف میں بہت زیادہ تاکید آئی ہے کہ سلام کو مسلمانوں میں عام کیا جائے کہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور مصائب کم ہوتے ہیں۔ اور اللہ کریم ہی ہر چیز کا حساب کرنے والے ہیں کہ کس نے زبان سے کیا کہا اور دل میں کیا سوچا یا ارادہ کیا تھا۔ الہ ہی ایسی ہستی ہے جس کے سوا کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس کی عبادت یعنی مکمل اطاعت کی جائے اور اس بات میں بھی رائی برابر شبہ نہیں ہے کہ تمہیں یوم حشر جمع فرمائے گا یہ اتنی سچی بات ہے کہ اللہ کی بات سے بڑھ کر تو کسی سچائی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 77-80 لغات القرآن : کفوا، روک لو۔ یخشون، ڈرتے ہیں۔ لم کتبت، تو نے کیوں لکھ دیا۔ کیوں فرض کردیا۔ اخرتنا، ہم سے تاخیر کردیتا۔ اجل قریب، قریبی مدت۔ یدرک، تمہیں پالے گا۔ بروج، برج، قلعہ۔ مشیدۃ، مضبوط۔ تشریح : اسلامی تحریک کے ہر قائد کا فرض ہے کہ اپنی صفوں کے اندر کالی بھیڑوں کو پہچان لے۔ یہاں پر نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جا رہا ہے کہ ایسے لوگوں کی پہچان صاف ہے۔ ویسے تو وہ منافق نفسانی جذبات کے لئے لڑنے مرنے کو بیتاب رہتے تھے لیکن جب یہ حکم دیا گیا کہ مت لڑو بلکہ نماز روزہ وغیرہ کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرو تو یہ حکم ان پر شاق گزرا۔ اب جو انہیں نفس کی راہ میں نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں لڑنے کو کہا جا رہا ہے تو پھر چیخ رہے ہیں کہ اے اللہ ! تو نے قتال کیوں فرض کردیا۔ ابھی کچھ دنوں اور ہم مال و جان کی خیر منا لیتے۔ فرمایا ان کی پہچان یہ ہے کہ یہ دشمن سے اس قدر ڈر رہے ہیں کہ اللہ سے بھی نہیں ڈرتے۔ حالانکہ موت ان کو وقت پر آکر رہے گی خواہ یہ مضبوط قلعوں کے سہارے ہی کیوں نہ لے لیں۔ منافقین کے مقابلے میں مومنین وہ ہیں جو اپنا فائدہ دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں ڈھونڈتے ہیں۔ دنیا کی نعمتیں قلیل ہیں۔ ان کا یہ مزہ کم ہے۔ ان کا فائدہ چند دنوں کے لئے ہے لیکن آخرت کی نعمتیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہیں۔ ان کا لطف و مزہ بھی زیادہ ہے ان کے حصول میں کوئی محنت نہیں ہے۔ ان کے ساتھ کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ان کے ساتھ کوئی گندگی یا تلخی نہیں ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کوئی ہزار محنت کرے دنیا کی نعمتوں کا ملنا ضروری نہیں ہے۔ آگ پانی زلزلہ لڑائی بیماری چوری اور دیگر بہت سے واقعات ہوتے ہی رہتے ہیں۔ لیکن آخرت کی نعمت اگر اللہ چاہے گا تو ہر صاحب ایمان، صاحب عمل صاحب تقویٰ کو ملنا لازم ہے اور اس کی گمشدگی یا تباہی یا زوال کا کوئی خطرہ نہیں۔ جنگ احد میں جو نقصان پہنچا تھا بعض ان لوگوں کی غفلت سے ہوا جو مال غنیمت لوٹنے کی خاطر یا جذبہ جہاد سے بےتاب ہوکر درہ کی حفاظت کو چھوڑ کر جنگ میں شریک ہوگئے حالانکہ حضور پر نور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صریح حکم تھا کہ خواہ کچھ ہوجائے درہ کی حفاظت ضرور کی جائے گی۔ بعضوں نے اس حکم کی تعمیل میں اجتہادی غلطی کی اس لئے یہ عظیم نقصان ہوکر رہا۔ ان آیات میں صاف صاف کہہ دیا گیا ہے کہ جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم مانا اس نے اللہ کا حکم مانا۔ بالفاظ دیگر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے منہ موڑنا اللہ کے عذاب میں گرفتار ہونا ہے ۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی بتا دیا گیا ہے کہ آپ کا کام پیغام الٰہی پہنچا دینا ہے۔ جو مانتا ہے مانے جو نہیں مانتا ہے اسکا معاملہ اللہ کے حوالہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ ان صاحبوں کا یہ تمنائی قول اگر زبان سے تھا تب تو اس کی توجیہ معصیت نہ ہونے کی معلوم ہوگئی اور اگر دل میں بطور حدیث النفس اور وسوسے کے تھا تو وسوسہ کا معصیت نہ ہونا قرآن و حدیث میں وارد ہے کوئی تردد ہی نہ رہا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کمزور مسلمانوں کو جنگ میں پہل کرنے کی بجائے اپنے آپ کو منظم اور اخلاق و ایمان کے لحاظ سے مضبوط کرنا چاہیے۔ مفسرین نے اس آیت کی متضاد مفہوم اخذ کیے ہیں۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ یہ آیت مظلوم مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے مظالم سے تنگ آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مطالبہ کیا کہ ہمیں لڑنے کی اجازت عنایت فرمائی جائے۔ امام نسائی (رح) نے کتاب الجہاد میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اور ان کے ساتھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے کہ اللہ کے رسول ! ہم مشرک ہونے کے باوجود معزز اور باوقار لوگ تھے اب ایمان لانے کے بعد ہم ذلیل ہو رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں لڑنے کی اجازت دیں۔ آپ نے جواباً ارشاد فرمایا ابھی تک اللہ تعالیٰ نے مجھے جنگ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم مدینہ پہنچے تو ہمیں قتال کا حکم ہوا لیکن بعض لوگوں نے لڑنے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا ‘ جس پر یہ فرمان نازل ہوا۔ جبکہ دوسرے مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت مسلمانوں کے بجائے منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جہاد کا حکم آنے سے پہلے وہ ڈینگیں مارتے تھے کہ ہمیں مشرکوں کے مقابلے میں کٹ مرنا چاہیے۔ جس سے ان کا مطلب مصنوعی اخلاص کا اظہار تھا۔ یا پھر منافق چاہتے تھے کہ مسلمان طاقتور اور منظم ہونے سے پہلے کفار کے ساتھ ٹکرا جائیں تاکہ مسلمانوں کی طاقت ابتداء ہی میں پاش پاش ہوجائے۔ لہٰذا مسلمانوں کو سمجھایا اور روکا جارہا ہے کہ ابھی میدان جہاد میں اترنے کا وقت نہیں آیا۔ کیونکہ تم تعداد میں تھوڑے اور تربیت کے لحاظ سے ناپختہ اور غیر منظم ہو۔ اس لیے پہلے زکوٰۃ کی ادائیگی کی صورت میں مالی قربانی کا جذبہ پیدا کرو۔ اخلاقی، روحانی اور تنظیمی تربیت کے لیے نماز پڑھتے رہو۔ جب تم ایک امام کی اتباع میں قیام اور رکوع و سجود کرو گے تو تمہیں ہر حال میں نظم و ضبط قائم رکھنے کا سلیقہ آئے گا۔ جہاد میں مال بھی خرچ ہوتا ہے اور نظم بھی ضروری ہوتا ہے جو زکوٰۃ اور نماز کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن جب جہاد فرض ہوا تو وہ اس طرح ڈر رہے تھے جیسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ خوف زدہ ہو کر کہتے تھے کہ ہمارے رب نے ہم پر قتال کیوں فرض کیا ہے ؟ کاش کہ ہمیں مزید مہلت دی جاتی۔ ان کے جواب میں فرمایا گیا کہ اے رسول ! انہیں سمجھاؤ تم تھوڑی سی مہلت مانگتے ہو یہ دنیا تو بذات خود قلیل اور اس میں رہنے کی مدّت انتہائی تھوڑی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں آخرت کی نعمتیں بیش بہا، دائمی اور اخروی زندگی ہمیشہ رہنے والی ہے۔ وہاں کسی پر کھجور کی گٹھلی کے دھاگے کے برابر بھی زیادتی نہ ہوگی۔ بلکہ ہر کسی کو پورا پورا اجر دیا جائے گا۔ کھجور کی گٹھلی کے درمیان لکیر میں جو دھاگہ نما پردہ ہوتا ہے۔ اسے عربی میں ” فتیل “ کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (لَاتَمَنَّوْا لِقَآءَ الْعَدُوِّ وَسَلُوا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ فَإِذَا لَقِیْتُمُوْھُمْ فَاصْبِرُوْا) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر، باب لاتمنوا لقاء العدو ] ” دشمن سے ملنے کی آرزونہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو، جب تمہارا ٹکراؤ دشمن سے ہوجائے تو پھر حوصلہ رکھو۔ “ مسائل ١۔ جنگ کی خواہش کرنے کے بجائے نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے اپنا کردار مضبوط بنانا چاہیے۔ ٢۔ جہاد فرض ہوجائے تو ڈرنے کے بجائے ڈٹ جانا چاہیے۔ ٣۔ بنی اسرائیل پہلے جہاد کا مطالبہ کرتے اور پھر اس سے راہ فرار اختیار کیا کرتے تھے۔ ٤۔ دنیا کا مال و متاع آخرت کے مقابلے میں نہایت ہی تھوڑا ہے۔ ٥۔ صاحب تقویٰ لوگوں کے لیے آخرت بہتر ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٧٧ تا ٨٣۔ آیات کے ان چار پیروں میں ایسے ہی لوگوں کے بارے میں نشاندہی کی گئی ہے اور ممکن ہے کہ یہ وہی لوگ ہوں جن کے بارے میں اس سبق کے سابقہ پیراگراف میں یہ کہا گیا تھا ۔ (آیت) ” وان منکم لمن لیبطئن “۔ (٤ : ٧٢) اور یہ لوگ مناق تھے اور ممکن ہے کہ یہ تمام ریمارکس ان منافقین کے بارے میں ہوں ‘ جن سے یہ افعال سرزد ہوتے تھے اور وہ ایسی باتیں بھی کیا کرتے تھے ۔ ہم اسی تفسیر کو ترجیح دیتے ہیں ‘ اس لئے کہ ان آیات میں جن لوگوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ ان میں نفاق کے خدوخال زیادہ نظر آتے ہیں ۔ مسلمانوں کی صفوں میں منافق موجود تھے اور ایسے افعال اور اس قسم کے اقوال صرف منافقین ہی سے صادر ہونا تو قریب الفہم ہے جو انکے مزاج اور سابقہ کردار کے مطابق ہے ۔ اگرچہ ان پیراگرافوں کے انداز بیان باہم دگر گڈمڈ ہے ۔۔۔۔۔ تاہم ان میں سے پہلا پیرا گراف جس میں کہا گیا ہے ۔ (آیت) ” قیل لھم کفوا ایدیکم واقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ فلما کتب علیھم القتال “۔ (٤ : ٧٧) ہمیں تردد میں ڈال دیتا ہے کہ آیا یہ تمام پیرا گراف صرف منافقین کے بارے میں ہیں ۔ اگرچہ منافقین کے اندر بھی یہ صفات موجود تھیں اور اس کے باوجود کہ یہ آیات دوسری آیات سے ملی جلی ہیں اور طرز ادا بھی ایک ہی نظر آتا ہے ۔ تاہم میرا میلان اس طرف ہے کہ یہ پیراگراف مہاجرین کے ایک ایسے گروہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو منافق تو نہ تھا مگر ضعیف الایمان تھا ۔ اور ضعف ایمانی کا آخری درجہ بہرحال نفاق کے قریب ہوجاتا ہے ۔ رہے دوسرے تین پیراگراف تو غالب یہی ہے کہ ان میں منافقین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ یہ لوگ اسلامی صفوں کے اندر گھسے ہوئے تھے ‘ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تمام پیراگراف منافقین ہی کے بارے میں ہوں جو ایسے کام اور ایسی باتیں کیا کرتے تھے ۔ ہم نے یہ موقف کیوں اختیار کیا ہے کہ ان آیات کے پہلے پیراگراف سے مراد یا تو ضعیف الایمان مہاجرین ہیں اور یا ایسے لوگ ہیں جو ایمان کے اعتبار سے پختہ کار نہ تھے اور انکے دلوں کے اندر ایمان کے نشانات اچھی طرح واضح اور پختہ نہ ہوئے تھے ؟ اور ان کی ایمانی فکر مضبوط نہ ہوئی تھی ؟ اس موقف کی وجہ یہ ہے کہ مہاجرین کے بعض گروہ مکہ مکرمہ میں لڑنے کے لئے نہایت ہی پر جوش تھے اور اس وقت لڑائی کی اجازت نہ تھی اور حکم یہ تھا ۔ (آیت) ” کفوا ایدیکم واقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ “۔ (٤ : ٧٧) بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر جن ٢٧ افرد نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیش کش کردی تھی کہ اگر آپ چاہیں تو ہم آج میں منی میں موجود کفار پر ٹوٹ پڑیں ۔ اس پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی جواب دیا تھا کہ : ” مجھے ابھی تک جنگ کی اجازت نہیں دی گئی ۔ “ اس واقعہ کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو پھر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پہلے پیراگراف سے جو لوگ مراد ہیں وہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اگلے تین پیرا گراف آتے ہیں یعنی منافقین ۔ کیا یہ بیت عقبہ ثانیہ والے لوگ ضعیف الاایمان ہو سکتے ہیں ‘ جیسا کہ پہلا پیرا بیان کر رہا ہے ؟ ہر گز نہیں اس لئے کہ ان سابقین انصار سے بھی اسلامی تاریخ میں کسی کمزوری کا صدور منقول نہیں ہے ۔ نہ کمزوری ‘ نہ نفاق اس لئے کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا تھا ۔ اس لئے اقرب الی الذہن یہی ہے کہ اس پہلے مجموعہ سے مراد ضعیف مہاجرین ہی ہیں ۔ یہ لوگ مدینہ جا کر پرامن زندگی کے خوگر ہوگئے تھے ۔ ان سے مشکلات دور ہوگئی تھیں اور جب جہاد و قتال فرض ہوگئے تو وہ ان مشکلات کے برداشت میں کمزوری دکھانے لگے ۔ اور یہ بات بھی اقرب الی لذہن ہے کہ دوسرے تین پیراگرافوں کے اندر بیان کردہ اوصاف ان کمزور اہل ایمان مہاجرین کے نہ ہوں بلکہ وہ منافقین کے اوصاف ہوں ۔ اس لئے کہ اگرچہ انسان بشری کمزوریوں سے پاک نہیں ہوتا پھر بھی ہمارے لئے یہ مشکل ہے کہ ہم کسی مہاجر مومن کی طرف یہ بات منسوب کریں کہ وہ اگر مشکلات سے دو چار ہوں تو ان کو حضرت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب منسوب کرے اور بھلائی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب نہ کرے اور یہ کہ کوئی مہاجر مومن منہ پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا دم بھرے اور گھر جاکر سازشیں کرے ۔ ہاں اگرچہ یہ ممکن تھا کہ کوئی نافہمی کی وجہ سے اچھی اور بری خبر کو پھیلا دے لیکن اس سے بھی اس بات کا اظہار ہوگا کہ یہ لوگ نظام جماعت کو اچھی طرح نہیں سمجھے ‘ لیکن اشاعت پر بھی کسی کو منافق نہیں کہا جاسکتا ۔ بہرحال ان آیات پر غور کرنے سے حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان آیات کی تفسیر میں جو روایات وارد ہیں ان میں بھی کوئی حتمی بات نہیں کہی گئی حتی کہ پہلے پیراگراف کے بارے میں بھی کوئی حتمی رائے وارد نہیں ہے ۔ بعض روایات میں ہے کہ اس سے مہاجرین کا ایک گروہ مراد ہے ۔ اور بعض میں ہے کہ اس سے مراد بھی منافقین تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان کے بارے میں محتاط موقف اختیار کرتے ہیں اس لئے کہ ہم مہاجرین کو جنگ میں پہلو تہی کرنے اور مسلمانوں کو پہنچنے والے مصائب سے دامن بچانے کے اوصاف سے متصف نہیں کرسکتے جس طرح ان پیراگرافوں سے سابق آیات میں آیا ہے ۔ نیزہم ان پر یہ الزام بھی عائد نہیں کرسکتے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف برائی کی نسبت کرسکتے ہیں ‘ اور بھلائی کی نسبت وہ اللہ کی طرف کرتے ہیں اور یہ کہ وہ رات کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کوئی مشورہ کرسکتے ہیں ‘ اگرچہ سیاق کلام اور قرآن کریم کے عمومی انداز بیان سے کسی واقف شخص کے لئے ان پیراگرافوں کا انداز سے تجزیہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ یہ تجزیہ وہی شخص کرسکتا ہے جس کے ایک عرصے تک قرآن کریم پر غور وخوص کیا ہو ۔ اور قرآن کریم کے اسلوب بیان سے خوب واقف ہو۔ (آیت) ” الم ترالی الذین قیل لھم کفوا ایدیکم واقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ فلما کتب علیھم القتال اذا فریق منھم یخشون الناس کخشیۃ اللہ اواشد خشیۃ وقالوا ربنا لم کتبت علینا القتال لولا اخرتنا الی اجل قریب قل متاع الدنیا قلیل والاخرۃ خیر لمن اتقی ولا تظلمون فتیلا (٧٧) این ما تکونوا یدرککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ (٤ : ٧٧۔ ٧٨) ” تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دو ؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہئے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر ‘ کہتے ہیں خدایا ‘ یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا ؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی ؟ ان سے کہو ‘ دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے ‘ اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لئے زیادہ بہتر ہے ‘ اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر بھی نہ کیا جائے گا ۔ رہی موت تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو۔ “ ان لوگوں کے حال پر اللہ تعالیٰ تعجب کا اظہار فرماتے ہیں ۔ یہ لوگ جب مکہ میں تھے تو لڑنے کے لئے پرجوش تھے ‘ وہ بہت جلد جہاد شروع کرنے والے تھے ۔ اس وقت مشرکین کی طرف سے ان کے خلاف مظالم ڈھائے جا رہے تھے ‘ وہ فتنوں میں گھرے ہوئے تھے اور اس وقت اللہ تعالیٰ نے انکو انکی مصلحت کی خاطر جہاد کی اجازت نہ دی تھی ۔ لیکن جب مناسب وقت آگیا ‘ جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقرر کیا ہوا تھا اور حالات سازگار ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر جہاد فرض کردیا ۔ (اور جہ جہاد فی سبیل اللہ تھا) تو ان میں سے ایک فریق جزع وفزع کرنے لگا اور یہ فریق ان لوگوں سے ڈرنے لگا جن کے ساتھ انہیں لڑنے کا حکم دیا گیا تھا ‘ حالانکہ وہ لوگ بھی انہی جیسے انسان تھے اور یہ ڈر اس قدر شدید تھا جس طرح اللہ تعالیٰ کا ڈر شدید ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ شدید ڈر تھا ‘ حالانکہ اللہ جیسا شدید عذاب کوئی نہیں دے سکتا ۔ اور نہ اللہ کی پکڑ جیسی اور کسی کی پکڑ ہو سکتی ہے ۔ ایسے لوگ نہایت ہی حسرت آمیز الفاظ میں اور سخت جزع وفزع کی حالت میں یہ کہتے ہیں ۔ (آیت) ” ربنا لم کتبت علینا القتال “۔ (٤ : ٧٧) (اے ہمارے رب تو نے ہم پر قتال کیوں فرض کردیا ؟ ) ایک مومن کی جانب سے یہ سوال عجیب و غریب لگ رہا ہے ۔ اس سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فریق کے نقطہ نظر میں اس دین کے فرائض وواجبات کی نوعیت پوری طرح واضح نہ تھی اور یہ فریق اس سوال کے بعد جس خواہش کا اظہار کرتا ہے وہ نہایت ہی حقیر اور فقیرانہ خواہش ہے ۔ (آیت) ” لولا اخرتنا الی اجل قریب “۔ (٤ : ٧٧) (کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی) ہمیں تھوڑا سا وقت اور مل جاتا ۔ اور ہم اس خوفناک اور بھاری فریضہ سے دوچار نہ ہوتے ۔ بعض اوقات اس طرح ہوتا ہے کہ بہادری اور تہور اور تیزی سے کسی معاملے کے اندر گھس جانے والے لوگ نہایت تیزی سے جزع وفزع اور خوف وہراس میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ ان کی یہ حالت اس وقت ہوجاتی ہے جب وہ واقعات کے اندر گھس جاتے ہیں اور معاملہ اپنی حقیقی شکل میں سامنے آتا ہے بلکہ یہ صورت حال عموما قاعدہ کلیہ کی شکل میں پیش آتی رہتی ہے ۔ اور یہ اس وجہ سے کہ یہ جوش اور جرات اور تہور اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ ایسے شخص نے مصیبتوں اور مشکلات کا حقیقی اندازہ نہیں لگایا ہوتا ۔ یہ جوش و خروش حقیقی بہادری ‘ مشکلات کے انگیز کرنے اور ثابت قدمی کی وجہ سے نہیں ہوتا ۔ کبھی یہ اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ مشکلات تنگی اور تکالیف کے واقع ہونے کے احتمالات کم ہوتے ہیں اور ایسے شخص کو شکست اور ہزیمت نظر نہیں آتی ۔ اس وجہ سے ایسے لوگوں کے اندر جوش و خروش زیادہ ہوجاتا ہے اور وہ آگے بڑھتے ہیں ‘ جلدی حرکت میں آتے ہیں اور ہر قیمت پر فتح حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنی اس حرکت ‘ اقدام اور فتح کی راہ میں حائل مشکلات کا اچھی طرح اندازہ نہیں لگایا ہوتا ۔ چناچہ جب ان کا سامنا ان تکالیف سے ہوتا ہے تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ان کے اندازوں سے زیادہ مشکل ہیں۔ وہ ان کے تصور سے زیادہ شدید ہوتی ہیں تو وہ الٹے پاؤں پھر نے والوں اور جزع وفزع کرنے والوں کی پہلی صف میں ہوتے ہیں وہ ان مشکلات کے لئے قبل از وقت تیاری کرتے ہیں ۔ حرکت اور اقدام کی مشکلات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ ان کے نفوس ان مشکلات کو کہاں تک برداشت کرسکتے ہیں ۔ یہ لوگ صبر وثبات سے کام لیتے ہیں اور کسی معرکے میں تیاری کے بعد کودتے ہیں یہ پرجوش ‘ سرتیز اور آگے بڑھنے والے ایسے لوگوں کو کمزور سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کی سنجیدگی اور متوازن شخصیت ان کو متاثر نہیں کرتی لیکن حقیقی معرکے کے وقت یہ بات نظر آتی ہے کہ ان میں سے کون زیادہ مشکلات کو انگیز کرسکتا ہے اور کون ہے جس کی نظر دور رس ہے ۔ میرا خیال یہ ہے کہ ان آیات میں جس کا فریق کا ذکر ہے ‘ وہ اس قسم لوگوں پر مشتمل تھا ‘ کہ جن کو مکہ میں مشکلات اور اذیت کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ یہ لوگ ان مشکلات پر صبر نہ کرسکتے تھے اور یہ لوگ اپنی توہین بھی برداشت نہ کرسکتے تھے ‘ اس لئے کہ یہ شریف لوگ تھے ‘ اس وجہ سے وہاں یہ لوگ جوش میں آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ اجازت طلب کرتے تھے کہ آپ ان کو ان اذیتوں پر مدافعت کرنے کی اجازت دیں تاکہ وہ اپنی عزت وآبرو کے بچانے کے لئے کوئی اقدام کریں ۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ان لوگوں کو مشورہ دیتے تھے کہ وہ ذرا انتظار کریں ‘ ہر کام اپنے وقت پر ہوگا ۔ ہر کام کے لئے تربیت اور تیاری کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر اقدام وقت پر کیا جاتا ہے اور وقت آنے کا انتظار کیا جاتا ہے ۔ اس قسم کے لوگ مدینہ میں امن وامان سے رہنے لگے ‘ نہ وہاں ان کی تذلیل ہوتی اور نہ ہی وہاں اذیت ہوتی اور یہ حالت ان ذاتی اور شخصی نیش زینوں کے بعد انہیں نصیب ہوئی تھی جو مکہ میں معمول تھا ‘ اس لئے ایسے لوگ جنگ میں دلچسپی نہ رکھتے تھے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی جواز پاتے تھے ‘ یا کم از کم یہ لوگ چاہتے تھے کہ اس بارے میں کسی شتابی کی ضرورت نہیں ہے ۔ (آیت) ” فلما کتب علیھم القتال اذا فریق منھم یخشون الناس کخشیۃ اللہ اواشد خشیۃ وقالوا ربنا لم کتبت علینا القتال لولا اخرتنا الی اجل قریب “۔ (٤ : ٧٧) ” اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہئے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر ‘ کہتے ہیں خدایا ‘ یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا ؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی ؟ ۔ یہ فریق غالبا مومنین تھے ۔ اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ یہ لوگ نہایت ہی عاجزی سے اور غمگین انداز میں اللہ کی طرف رجوع کر رہے ہیں ۔ ان کی اس عاجزی اور غم اندوز لہجے کو ہمیں مدنظر رکھنا چاہئے ۔ لیکن ان لوگوں کا ایمان ابھی پختہ معلوم نہیں ہوتا ۔ اور ان کے تصور حیات کے نشانات ابھی تک واضح نہ تھے ۔ یہ مقاصد چند لوگوں کی ذات کو بچانے یا کسی قوم کو بچانے اور یا کسی وطن کو بچانے سے زیادہ بڑے اور اونچے تھے ۔ اسلامی نظام حیات کے مقاصد کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اس پورے کرہ ارض پر اسلامی نظام حیات کو قائم اور غالب کیا جائے اس کا بنیادی مقصد اس پورے کرہ ارض پر ایک عادلانہ نظام کا قیام اور ایک ایسی سلطنت کا قیام ہے جو پوری قوت سے ان رکاوٹوں کو دور کرسکتی ہو ‘ جو دعوت اسلامی کے پھیلاؤ کی را ہمیں کھڑی ہیں اور جو لوگوں کو اس بات سے روکتی ہیں کہ دعوت اسلامی کی طرف کان دھریں ۔ یہ حکومت اپنے اندر اتنی طاقت بھی رکھتی ہو کہ دنیا میں اگر کوئی اپنی خوشی اور اپنے اختیار سے کوئی عقیدہ اپنا لے تو ہو اسے ہر قسم کے تشدد اور دباؤ سے بچا سکے ۔ چاہے یہ تشدد کسی قسم کا بھی ہو ۔ مثلا یہ کہ کسی کو محنت و مزدوری سے نہ محروم کیا جائے اور معاشرے کے اندر اپنی مرضی کی تگ ودو سے محروم نہ کیا جائے ۔ غرض یہ وہ اونچے مقاصد ہیں جو کسی کو ذاتی اور شخصی طور پر اذیت پہنچانے یا نہ پہنچانے کے مقابلے میں بہت زیادہ اہم ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مدینہ میں نصیب ہونے والا امن و سکون (اگر فرض کرلیا جائے کہ وہ کسی وقت تھا) اس قدر اہم نہ تھا کہ مسلمانوں کو اس مہم اور تحریک جہاد سے مزید کچھ عرصے کے لئے محروم رکھا جاتا ۔ ابھی تک اس فریق کا ایمان اس قدر پختہ نہ ہوا تھا کہ وہ اپنی ذات کو بیچ میں سے نکال دیں ۔ وہ اللہ کے احکام کو سنیں اور انہی احکام کو علت ومعلول اور اسباب واثرات قرار دیں ۔ ان کو قول فیصل قرار دیں ‘ چاہے کوئی اور گہری حکمت ان کی سمجھ میں نہ آئے ‘ لیکن ابھی تک اس فریق کا تصور دین اس قدر پختہ نہ ہوا تھا کہ یہ لوگ اس دین کی اصل مہم اور مقصد کو سمجھ سکتے ۔ مومن بحیثیت مومن اللہ کا دست قدرت ہے اور اللہ تعالیٰ اس دنیا کے انسانوں کی زندگی میں اس کے ذریعے جو رسم و رواج چاہتا ہے ‘ نافذ کرا دیتا ہے ۔ چناچہ سیاق کلام سے ایسے لوگوں کے موقف کی تصویر کشی کی جاتی ہے اور ان کے اس موقف پر تعجب کا اظہار کیا جاتا ہے اور اسے ناپسند کیا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ میں اہل اسلام کو ‘ ان پر ہونے والے مظالم کے انتقام کی اجازت کیوں نہ دی ؟ انہوں نے اس دست درازی کو کیوں برداشت کیا اور قوت کے استعمال کی وجہ سے انہوں نے ان نیش زنیوں کا علاج کیوں نہ کیا حالانکہ مسلمانوں میں سے اکثر لوگ ایسا کرسکتے تھے ۔ کیونکہ تمام لوگ نہ تو کمزور تھے اور نہ بزدل ۔ وہ تو اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتے تھے اور نہ مسلمان مکہ میں قلت قلیلہ تھے ۔ وہ اس انتقام سے باز رہنے اور صرف اقامت صلوۃ ‘ ادائیگی زکوۃ اور صبر و برداشت پر اکتفاء کیوں کرتے تھے ۔ حالانکہ بعض مسلمانوں پر ایسا تشدد ہو رہا تھا جو ناقابل برداشت تھا ۔ بعض ایسے تھے جو برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے اپنے دین کے بارے میں فتنے میں پڑجاتے تھے ۔ اور بعض ایسے بھی تھے جو ان تکالیف کی وجہ سے جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تھے ۔ اس کی کیا حکمت تھی ؟ تو حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہم کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتے کیونکہ جو حکمت ہم بیان کریں گے اسے گویا ہم اللہ کی طرف منسوب کریں گے جبکہ اللہ نے خود وہ حکمت بیان نہیں کی ۔ اس طرح ہم اللہ کے احکام وفرائض کے وہ اسباب وعلل بھی بیان کرسکتے ہیں جو درحقیقت ان احکام کے اسباب نہیں ہیں ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے بیان کردہ اسباب بھی وہی ہوں لیکن ان کے علاوہ اور اسباب اور حکمتیں بھی ہوں ‘ جن کا علم اللہ تعالیٰ نے ہمیں نہیں دیا ۔ اسی میں ہمارے لئے خیر اور بھلائی تھی کہ ہمیں اس کا علم نہ ہو ۔ یہ ہے ایک مومنانہ موقف جو کوئی اللہ کے احکام اور شریعت کے قوانین کے سامنے اختیار کرسکتا ہے ‘ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے متعین اور مخصوص حکمت اور علت خود حتمی طور پر بیان نہیں کی ‘ چاہے ہمارے ہمارے ذہن میں اس کی جو علت بھی آئے اور جو حکمت بھی ظاہری طور پر نظر آئے ۔ چاہے کسی حکم کی جو کیفیت تنقیذ بھی ہمارے ذہن میں آئے یا اس فرض کی ادائیگی کا جو طریقہ بھی ہمارے فہم میں آئے جہاں تک عقل اس کا ادراک کرسکتی ہو ‘ لیکن اچھا موقف یہی ہے کہ انسان مختلف احتمالات میں سے اسے ایک احتمال ہی سمجھے اور بالجزم یہ نہ کہے کہ یہی ہے وہ حکمت جو اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تھی اور اس کے سوا کوئی اور حکمت نہیں ہے ۔ اگرچہ کسی کو اپنے علم و خرد پر پورا پورا اعتماد ہو اور اگرچہ اس نے احکام الہی میں نہایت ہی گہرا غور وخوض کیا ہو ‘ اس لئے کہ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے پیش نظر ہونے والی حکمتوں کا احاطہ کرلیا ہے ۔ یہ محتاط انداز جس کو ہم تجویز کر رہے ہیں بارگاہ ایزدی کے آداب سے زیادہ قریب ہے ۔ اور احتیاط کا بھی تقاضا ہے کہ اللہ کے علم اور انسان کے علم کے درمیان طبیعت اور حقیقت کا امتیاز رہے ۔ بارگاہ ایزدی کے ان آداب کا خیال رکھتے ہوئے ‘ میں اس موضوع پر اب بات کرتا ہوں کہ مکہ مکرمہ میں جہاد کیوں فرض نہ ہوا اور مدینہ میں جا کر کیوں فرض ہوا ؟ اس موضوع پر میں وہ باتیں بیان کروں گا جو ہمیں نظر آتی ہیں کہ شاید یہی سبب اور حکمت ہو ‘ لیکن یہ سبب و حکمت دونوں بطور احتمال بیان کئے جارہے ہیں اور اصل حقیقت کیا ہے اسے ہم اللہ پر چھوڑتے ہیں ۔ ہم اپنی جانب سے اللہ کی احکام کے لئے اسباب اور حکمتیں فرض نہیں کرتے ۔ اصل حقیقت کا علم صرف اللہ جل شانہ کو ہے اور اس نے نص صریح کے ذریعے اس کی اطلاع ہمیں نہیں دی ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اسباب جو ہم بیان کر رہے ہیں محض اجتہادی ہیں ‘ ان میں صحت کا بھی احتمال ہے ‘ اور غلطی کا بھی ۔ زیادہ بھی ہو سکتے ہیں اور ان میں کمی بھی ہو سکتی ہے ۔ یہاں ان اسباب کے ذکر سے صرف یہ مقصد ہے کہ ہم اللہ کی آیات میں تدبر کریں اور یہ سمجھیں کہ ہمارے دور میں غور وفکر کے بعد ہم پر یہ اسباب واضح ہوئے ۔ (الف) یہ سبب بھی ہو سکتا ہے کہ مکہ زمانہ تربیت اور تیاری کا زمانہ تھا ۔ یہ تیاری ایک متعین خاندان میں ‘ ایک مخصوص قوم میں اور متعین ظروف واحوال میں ہو رہی تھی ۔ اس تربیت اور تیاری کے اہداف یہ تھے کہ ایک عرب کی شخصیت کو ایسے حالات میں صبر کرنے پر تیار کیا جائے جن میں وہ کبھی صبر نہ کرسکتا تھا ۔ مثلا یہ کہ اس کی ذات یا اس کے زیر کفالت لوگوں پر زد پڑے اور وہ اس پر صبر کرے ۔ تاکہ وہ عرب شخصیت اپنی قبائلی شناخت اور اپنی ـذات کو بھول جائے اور اس کی زندگی کا محور اس کی ذات اور اس کے زیر کفالت لوگ ہی نہ ہوں اور وہ اپنی زندگی صرف اپنی ذات کے لئے متحرک نہ کرے ۔ نیز ایک عرب مزاج کو یہ تربیت دینا مقصود تھا کہ وہ اپنے اعصاب پر قابو پاسکے ۔ یہ نہ ہو کہ پہلے تاثر پر ہی وہ جوش میں آجائے اور پہلی ہیجان انگیز حرکت پر ہی آپے سے باہر نہ ہوجائے اس کی حرکت اور اس کے مزاج کے اندر اعتدال پیدا ہوجائے ۔ اس کو یہ تربیت بھی دینا مقصود تھا کہ وہ ایک منظم سوسائٹی کا فرد ہو اور اس کی ایک قیادت ہو جس کی طرف وہ اپنی زندگی کے تمام امور میں رجوع کرنے کا عادی ہوجائے اور وہ کوئی کام بھی نہ کرے مگر اس قیادت کے اشارے کے مطابق اگرچہ یہ اوامر اس کی عادی زندگی کے خلاف اور متضاد ہوں ۔ ایک عرب شخصیت کی تربیت کے باب میں یہ نہایت ہی بنیادی باتیں تھیں ۔ اس سے ایک اسلامی سوسائٹی کی تشکیل مقصود تھی جو ایک قیادت کے تابع ہو جو ترقی پذیر اور مہذب سوسائٹی ہو اور قبائلی اور غیر مہذب (BArbAriAn) سوسائٹی نہ ہو ۔ (ب) اس کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قریش کے ماحول میں پرامن دعوت زیادہ موثر ہو سکتی تھی ‘ اس لئے کہ یہ سوسائٹی شرفاء کی سوسائٹی تھی اور اگر سوسائٹی کے اندر مسلمان جنگ شروع کردیتے تو اس کی وجہ سے یہ لوگ بغض وعناد میں اور تیز ہوجاتے ۔ ایسے حالات میں جو مکہ میں اس وقت تھے ‘ خونریز لڑائیاں شروع ہوجاتیں اور جنگ داحس ‘ جنگ بسوس ‘ اور جنگ غبراء کی طرح قتل ومقاتلے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا ۔ یہ جنگیں عربوں کی مشہور جنگیں تھیں اور سالہا سال تک مسلسل لڑی جاتی رہی ۔ اس جدید جنگ کا تعلق اسلام سے ہوتا اور تمام واقعات اسلام کے حوالے سے یاد کئے جاتے ۔ ان جنگوں کا کبھی خاتمہ نہ ہوتا اور اسلام بجائے اس کے کہ ایک دعوت ہوتی ‘ وہ جنگ وجدال کی طویل داستان ہوتا اور ان داستانوں کے نتیجے میں اسلام کی اصل دعوت پس منظر میں چلی جاتی ۔ اس دعوت کا یہ حال ابتدائی مرحلے ہی میں ہوجاتا اور کچھ عرصے کے بعد یہ ختم ہی ہوجاتی ۔ (ج) یہ اس لئے بھی تھا کہ اگر مکہ میں جہاد کی اجازت دی جاتی تو گھر گھر میں جنگ شروع ہوجاتی ۔ اس لئے کہ مکہ مکرمہ کے اندر کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی جو لوگوں پر کنٹرول کرسکتی ۔ نیز وہاں کوئی ایسی حکومت نہ تھی جو مسلمانوں کو تکلیفات دیتی تھی ‘ بلکہ مسلمانوں کو جو اذیتیں دی جاتی تھیں وہ ہر مسلمان کے اپنے رشتہ داروں ہی کے ذریعے دی جاتی تھیں ، خود رشتہ دار ہی مسلمان ہونے والے لوگوں پر تشدد کرتے ‘ انہیں اذیت دیتے اور اپنے خیال کے مطابق ان کی تربیت کرتے ۔ اگر مکہ میں جنگ کی اجازت دے دی جاتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ گھر گھر میں جنگ شروع ہوجاتی اور لوگ کہتے دیکھو یہ ہے اسلام ‘ حالانکہ اسلام پر فتنہ ڈالنے کا الزام اس وقت بھی لگایا گیا تھا جب مسلمانوں کو حکم یہ تھا کہ ہاتھ روکے رکھو ۔ لیکن قریش حج اور عمرہ کے لئے آنے والوں اور تجارتی بازاروں کے اندر اسلام کے خلاف یہی پروپیگنڈا تو کرتے رہتے تھے ۔ وہ کہتے کہ محمد باپ بیٹے کے درمیان اور ایک شخص اور اس کے قبیلے کے درمیان عداوت ڈال دیتے ہیں ۔ اگر اسلام لڑکوں اور غلاموں کو یہ اجازت دے دیتا کہ وہ والدین کو اور اپنے آقاؤں اور اپنے سرپرستوں کو قتل کردیں اور ہر گھر اور محلہ میں یہ جنگ شروع ہوجاتی تو قریش کے پروپیگنڈے کا عالم کیا ہوتا ؟ (د) اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جو لوگ اپنی اولاد پر بوجہ اسلام مظالم ڈھا رہے تھے ‘ جو لوگ اپنے غلاموں کو اذیت دیتے تھے اور جو لوگ اپنے زیر سرپرستی لوگوں پر تشدد کرتے تھے ‘ اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ یہ لوگ آگے جاکر اسلام کے حق میں عظیم خدمات سرانجام دینے والے ہیں ‘ یہ اسلام کے سپاہی ہوں گے ‘ مخلصین اور قائدین بنیں گے ۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ حضرت عمر (رض) بھی ایسے ہی لوگوں میں سے تھے ۔ (ھ) ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عربوں کی خودداری اور شرافت کا تقاضہ تھا کہ یہ لوگ ہمیشہ مظلوم کے حق میں آواز اٹھاتے تھے ۔ ایسا مظلوم جس پر ناحق تشدد کیا جا رہا ہو لیکن وہ اپنی بات کا اس قدر پکا ہو کہ وہ کسی قیمت پر بھی باز نہ آرہا ہو ۔ خصوصا اس صورت میں جبکہ نہایت ہی شریف لوگوں تشدد ہو رہا ہو اور ایسے کئی واقعات ہوئے جن سے اس نظریے کی صحت کا ثبوت ملتا ہیں ۔ ابن الدغنہ اس کے لئے تیار نہ ہوئے کہ وہ حضرت ابوبکر (رض) کا ساتھ چھوڑ دیں اور وہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کریں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات عربوں کے لئے نہایت ہی شرم کی بات ہے ۔ انہوں نے حضرت ابوبکر (رض) کو پیشکش کی کہ وہ ان کی حمایت کریں گے ۔ اس کی ایک دوسری مثال شعب ابی طالب میں بنی ہاشم کا محاصرہ ہے ۔ یہ محاصرہ اس قدر طویل ہوگیا کہ لوگ بھوک سے مرنے لگے اور ان پر سخت مصائب ٹوٹ پڑے ۔ اگر قدیم زمانوں کی اور سوسائٹیوں میں یہ واقعہ ہوا ہوتا تو لوگ مظلوموں کو حقیر سمجھتے اور ان کے ساتھ مذاق کرتے اور ظالموں کو عزت اور وقار کی نظروں سے دیکھا جاتا (لیکن وہاں جو کچھ ہو اوہ تاریخ عرب کی زریں مثال ہے) (و) اس کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مکہ میں مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم تھی ‘ اور وہ مکہ مکرمہ ہی میں زندہ رہ سکتے تھے ۔ اس لئے کہ جزیرۃ العرب کے دوسرے علاقوں تک دعوت پہنچی ہی نہ تھی ۔ اگر پہنچی تھی تو اس کے بارے میں کچی پکی خبریں ہی جا بجا پہنچی تھیں ۔ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ تحریک اسلامی اور قریش کے اندر بعض لوگوں کے درمیان داخلی اختلافات ہیں اور اگر جنگ شروع ہوگئی ہوتی تو وہ غیر جانبدار ہوتے اور دیکھتے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔ ایسے حالات میں ممکن تھا کہ یہ معرکہ مسلمانوں کی اس قلیل تعداد کے مارے جانے کے بعد ختم ہی ہوجاتا ۔ اگرچہ یہ قلیل تعداد اپنے مقابلے میں دوگنا کفار کو قتل کردیتی ‘ لیکن ان کے ختم ہونے کے بعد شرک اپنی جگہ مزید مضبوط ہوجاتا اور اسلام کی یہ مختصر فوج صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ۔ اسلامی نظام حیات دنیا میں حقیقی روپ اختیار نہ کرسکتا حالانکہ اسلام ایک ایسا دین تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ دنیا میں بطور نظام زندگی قائم ہو اور عملا لوگوں کی زندگیوں میں نافذ ہو۔ (ز) ان تمام امور کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مکی دور میں اس بات کی حقیقی ضرورت تھی ہی نہیں کہ مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی جائے کہ وہ مقاتلہ کرکے تشدد کی مدافعت کریں ۔ اس لئے کہ دعوت اسلامی کا بنیادی کام ہو رہا تھا اور دعوت مسلسل جارہی تھی ۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات بابرکات موجود تھی اور بنی ہاشم کی تلواریں آپ کی حفاظت کے لئے ہر وقت بےنیام تھیں اگر کوئی شخص آپ پر ہاتھ اٹھاتا تو اسے یہ خطرہ لاحق تھا کہ اس کا ہاتھ کٹ جائے گا اور اس وقت کا قبائلی نظام موجود تھا جس میں ہر قبیلہ اس بات سے ڈرتا تھا کہ کہیں وہ خواہ مخواہ بنی ہاشم کے ساتھ لڑائی میں الجھ نہ جائے اور یہ خطرہ ہر اس صورت میں بالکل موجود تھا اگر کسی قبیلے کا کوئی فرد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہاتھ اٹھاتا ۔ چونکہ داعی کی شخصیت محفوظ تھی اور اس کی حفاظت ہو رہی تھی ‘ اور داعی بنی ہاشم کی امداد سے اور اس وقت کے موجودہ قبائلی نظام کے رسم و رواج کے مطابق شب وروز دعوت دے رہا تھا ۔ داعی نہ دعوت کو خفیہ رکھ رہا تھا اور نہ اپنی بات کسی سے چھپاتا تھا مکہ میں کسی شخص میں یہ جرات نہ تھی کہ وہ آپ کی دعوت پھیلانے سے روک سکے ۔ آپ قریش کی مجالس میں ‘ خانہ کعبہ میں ‘ جبل صفا پر اور عمومی اجتماعات میں دعوت اسلامی کا کام کر رہے تھے اور کسی شخص کی یہ جرات نہ تھی کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ پر ہاتھ رکھ سکے ۔ کوئی شخص یہ جرات نہ کرسکتا تھا کہ آپ کو اغواء کرسکے ‘ آپ کو قید کرسکے ‘ اور آپ کو قتل کرسکے ‘ اور کوئی آپ کو اس کی مرضی کی بات کہنے پر مجبور نہ کرسکتا تھا کہ آپ اپنے دین کی بعض باتیں کہہ سکتے اور بعض باتوں پر خاموش رہتے ۔ ایک بار جب انہوں نے آپ کو یہ پیشکش کی کہ وہ ان کے خداؤں اور الہوں کو برا بھلا نہ کہیں اور ان کی بدگوئی نہ کریں تو آپ نے انکی اس پیشکش کو مسترد کردیا ۔ نیز جب انہوں نے یہ پیشکش کی کہ کچھ نرمی وہ کریں اور کچھ نرمی قریش کریں گے تو آپ نے اس کو بھی رد کردیا ۔ یعنی کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اپنانے سے انکار کردیا ۔ پیشکش یہ تھی کہ بعض باتیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی مان لیں اور بعض باتیں وہ اسلام کی مان لیں گے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا بھی انکار کردیا ۔ غرض دولت اسلامی کا وجود قائم تھا ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود تھے اور بنی ہاشم بطور محافظ کام کر رہے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر شکل و صورت میں اور تمام ذرائع سے اپنی دعوت پھیلانے میں آزاد تھے ۔ ایسے حالات میں جنگ اور جہاد کی فلا الواقعہ کوئی حقیقی ضرورت بھی نہ تھی کہ قبل از وقت جہاد و قتال شروع کردیا جائے اور سب سے اہم وجہ یہی تھی کہ قریش کا خاندان اس دعوت کے لئے ساز گار تھا اور اس کے اچھے نتائج نکلنے والے تھے ۔ یہ تمام پہلو ‘ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں ‘ اس حکمت کے بعض پہلو ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے مکہ میں جہاد و قتال کا آغاز نہ ہوا اور وہاں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ہاتھ روکے رکھیں ‘ نماز قائم کریں ‘ زکوۃ ادا کریں ۔ ان کاموں کی وجہ سے ان کی تیاری اور تربیت مکمل ہوجائے گی اور دعوت اسلامی کا مکہ منصوبہ بھی اپنے اختتام تک پہنچ جائے گا ۔ مسلمان اپنی قیادت کے احکام کا انتظار کریں گے اور جب وقت آئے گا تو اپنے آپ کو اس فریضہ سے عہدہ برآ کرسکیں گے اس لئے کہ اس فرض کی ادائیگی میں اب ان کی کوئی ذاتی غرض وغایت نہ ہوگی اور ان کا جہاد و قتال اب صرف اللہ کے لئے ہوگا فی سبیل اللہ ہوگا اور فی الوقت دعوت اپنی رفتار سے بہرحال جاری تھی ‘ اس کی حمایت ہو رہی تھی ۔ اور اس سے محبت کرنے والے موجود تھے اور نگہبان تھے ۔ اس منصوبے کی جو حکمت بھی ہو بہرحال اس وقت ایسے پرجوش لوگ موجود تھے جو بظاہر اس گھڑی کا بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے کہ انہیں جنگ کی اجازت دی جائے ۔ (آیت) ” فلما کتب علیھم القتال اذا فریق منھم یخشون الناس کخشیۃ اللہ اواشد خشیۃ وقالوا ربنا لم کتبت علینا القتال لولا اخرتنا الی اجل قریب “۔ (٤ : ٧٧) ” اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہئے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر ‘ کہتے ہیں خدایا ‘ یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا ؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی ؟ ۔ اسلامی صفوں میں ایک ایسے گروہ کی موجودگی جو جہاد و قتال سے کتراتا ہو ‘ ایک قسم کی بےچینی پیدا کرتی تھی اس طرح اسلامی صفوف میں ایک طرف یہ گروہ تھا جو جزع وفزع کرتا تھا ۔ دوسری طرف سچے اور کامل مومنین تھے جو پورے طور پر ثابت قدم تھے اور اپنے نصب العین پر مطمئن تھے اور راہ حق میں آنے والی بےچینیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے تھے اور اس راہ کی مشقتوں کو برداشت کرتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ ان دو گروہوں کے اندر ہم آہنگی پیدا نہ ہو سکتی تھی ۔ اس فریق مومن کے اندر بھی سچائی کے لئے جوش و خروش پایا جاتا تھا ‘ یہ عزم اور ارادے والے تھے ‘ انہیں یقین وثبات حاصل تھا ‘ مگر یہ لوگ ہر جذبے کا اظہار اپنی جگہ کیا کرتے تھے ۔ اس لئے کہ جب جنگ شروع ہی نہ ہوئی ہو اور اس کے احکامات ہی نہ دیئے گئے ہو تو وہ محض تہور اور خالی نعرہ بازی ہوگی اور جب حقیقی خطرکا سامنا ہو تو یہ بخار ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے ۔ ایسی صورت حال کا علاج قرآن کریم نے اپنے انداز میں کیا : (آیت) ” قل متاع الدنیا قلیل والاخرۃ خیر لمن اتقی ولا تظلمون فتیلا (٧٧) این ما تکونوا یدرککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ (٧٨) (٤ : ٧٧۔ ٧٨) ” کہو دنیا کا سرمایہ زندگی تھوڑا ہے ‘ اور آخرت ایک خدا ترس انسان کے لئے زیادہ بہتر ہے ‘ اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر بھی نہ کیا جائے گا ۔ رہی موت تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو۔ یہ لوگ موت سے ڈرتے ہیں ‘ اور زندگی چاہتے ہیں اور نہایت ہی عاجزانہ حسرت کے انداز میں تمنا کرتے ہیں کہ انہیں کچھ مزید مہلت مل جاتی اور ان کے سرمایہ میں کچھ مزید اضافہ ہوجاتا ۔ قرآن کریم کا کمال یہ ہے کہ ایسے جذبات جہاں سے پیدا ہوتے ہیں ‘ وہیں سے ان کی جڑ کاٹ دیتا ہے اور موت اور زندگی کی حقیقت واضح کردیتا ہے ۔ (آیت) ” قل متاع الدنیا قلیل “۔ (٤ : ٧٧) (کہہ دو زندگی کا سرمایہ تو بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے) زندگی کا تمام سروسامان ‘ بلکہ پوری زندگی کی حقیقت کیا ہے ‘ چند دن ‘ چند ہفتے ‘ چند مہینے یا چند سال ؟ اگر قدرے مہلت مل بھی جائے تو اس کی حقیقت کیا ہے ؟ اگر پوری زندگی ہی ایک مختصر وقت ہے تو اس مختصر وقت میں وہ کیا سازوسامان جمع کریں گے ۔ اس لئے کہ زندگی تو دونوں ‘ ہفتوں اور مہینوں اور سالوں ہی کے اندر محدود ہے ۔ اس لئے اس مختصر زندگی کا طول بھی مختصر ہے ۔ (آیت) ” والاخرۃ خیرلمن اتقی “۔ (٤ : ٧٧) (اور آخرت ہی ایک خدا ترس انسان کے لئے بہتر ہے) ایک تو اس لئے کہ معاملہ دنیا ہی میں ختم نہیں ہوجاتا ۔ یہ دنیا اس انسانی سفر کی آخری منزل نہیں ہے ۔ یہ تو ایک مرحلہ ہے اس مرحلے کے بعد آخرت ہے اور سرمایہ وہی ہے جو آخرت کے لئے جمع ہو ۔ پھر یہ کہ آخرت کا دور طویل ہے اور لاانتہا ہے ‘ اور اس کا سرمایہ خیر ہے اور بہتر ہے ۔ جو لوگ خدا ترس ہوں وہ اسے بہتر سمجھتے ہیں ۔ یہاں بات خوف اور ڈر کی ہو رہی تھی ۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے تقوی کا ذکر کیا جو اگرچہ ڈر ہی ہے لیکن خدا کا ڈر ۔ یعنی اگر کوئی ڈرتا ہے تو اسے اللہ سے ڈرنا چاہئے ‘ انسان سے کیا ڈرنا ؟ لیکن ایک گروہ مسلمانوں کے اندر ایسا موجود ہے جو لوگوں سے اس طرح ڈرتا ہے جس طرح اللہ سے ڈرنا چاہئے ۔ ہاں جو خدا سے ڈرتا ہے تو پھر وہ لوگوں سے نہیں ڈرتا ۔ جس کے دل میں خوف خدا بس جائے پھر اس دل میں کسی اور کے خوف کے لئے جگہ ہی نہیں رہتی ۔ اس لئے کہ اگر اللہ نہ چاہے تو اس کا کوئی بھی کچھ بگاڑ ہی نہیں سکتا ۔ (آیت) ” ولا تظلمون فتیلا “۔ (٤ : ٧٧) (اور تم پر شمہ برابر بھی ظلم نہ کیا جائے گا) تمہارے اجر میں کوئی غبن نہ ہوگا ‘ کوئی نقصان نہ ہوگا اور کوئی کمی نہ کی جائے گی ۔ اگر دنیا میں ان سے کوئی چیز رہ گئی تو دار آخرت تو آنے ہی والا ہے وہاں وہ کمی پوری کردی جائے گی جہاں کوئی ظلم نہ ہوگا اور حساب و کتاب میں کوئی کمی نہ ہوگی اور دنیا وآخرت کا فائنل بل مل جائے گا ۔ اس حقائق کے باوجود بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے نفوس کے اندر یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ ان کو اسی زمین پر کچھ دن اور مہلت مل جائے اس کے باوجود کہ یہ لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور آخرت میں جزائے خیر کے بھی امیداوار ہیں ‘ تاہم وہ ایسی خواہش دل میں رکھتے ہیں ‘ خصاصا وہ لوگ جو ایمان کے ایسے درجے میں ہوں جس میں یہ فریق زیر بحث تھا ۔ یہاں اب بات کو ایک آخری جھلکی میں دوبارہ پیش کیا جاتا ہے اور ایک ہی فقرے میں غلط تصور اور غلط سوچ کو درست کردیا جاتا ہے ۔ موت وحیات اور تقدیر اور اجل کے بارے میں سوچ کر درست کردیا جاتا ہے ، نیز جہاد و قتال کے زوایے سے موت وحیات کو ایک ٹچ دیا جاتا ہے ۔ اس فریق کا یہ جزع وفزع اسی لئے تو تھا کہ یہ سمجھتے تھے کہ موت قتال کے نتیجے میں آتی ہے حالانکہ (آیت) ” این ما تکونوا یدرککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ (٤ : ٧٨) (موت تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو) ۔ موت تو ایک مقرر وقت پر آتی ہے ۔ اس کا تعلق قتال اور امن سے نہیں ہے ۔ اس کا تعلق جائے رہائش کی پختگی اور ناپختگی سے بھی نہیں ہے ۔ نیز کوئی فریضہ جنگ سے پہلو تہی کرے تو بھی موت مؤخر نہیں ہو سکتی اور نہ فرائض جنگ اور جہاد کی وجہ سے موت وقت سے پہلے آتی ہے ۔ موت کا ایک وقت مقرر ہے اور یہ معاملات اس سے بالکل جدا ہیں ۔ ان کے درمیان کوئی تعلق سبب ومسبب نہیں ہے ۔ بلکہ موت کا ایک وقت مقرر ہے اور جب وہ وقت پہنچ جائے تو سبب کوئی بھی فراہم ہوجاتا ہے ۔ وقت کے سوا اور کوئی سبب مرگ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ یہ کہ یہ تمنا کرنا کہ قتال کا فرض ہونا اگر قدرے مؤخر ہوجاتا ایک لغو تمنا ہے ۔ نیز قتال اور غیر قتال کے حالات میں اللہ کے سوا کسی اور سے ڈرنے کے بھی کچھ معانی نہیں ہیں ۔ قرآن کریم ایک لطیف ٹچ کے ساتھ دل کی بدل دیتا ہے ۔ موت وحیات کے بارے میں ایک انسان کی سوچ ہی بدل جاتی ہے ۔ اور انسان کی سوچ اور شعور میں جو خوف وہراس ہوتا ہے وہ یک لخت دور ہوجاتا ہے ۔ لیکن اس کے معنی یہ بھی نہیں ہیں کہ انسان احتیاطی تدابیر اختیار ہی نہ کرے اور اس کے دائرہ اختیار میں بچاؤ اور نگہداشت کے لئے جو تدابیر ہیں ۔ انہیں کام میں نہ لائے ۔ ابھی ابھی یہ بات گزری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ۔ (آیت) ” خذوا حذرکم “۔ تم بہت ہی محتاط رہو ۔ اور صلوۃ الخوف کے مسائل کے بیان کے موقعہ پر بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ۔ ایک دوسری جگہ (آیت) ” واعدوا “۔ کا حکم دیا گیا کہ خوب تیاریاں کرو۔ یہ تمام احکام اپنی جگہ درست ہیں ‘ البتہ ان تیاریوں کے ساتھ موت وحیات کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ احتیاطی تدابیر اور جنگی سازوسامان کی فراہمی کی اپنی جگہ پر ایک حکمت ہے اور ان احکام کی پیروی ضروری ہے ۔ یہ اللہ کی تدابیر ہیں جن کا اللہ نے حکم دیا ہے ۔ لیکن موت بہرحال اپنے مقررہ وقت پر آتی ہے اور یہ بالکل ایک دوسرا عقیدہ اور حکم ہے اور اس پر یقین رکھنا بھی فرض ہے ۔ اگرچہ احتیاطی تدابیر بھی فرض ہیں اور جنگی تیاریوں کی بھی ظاہری اور باطنی حکمتیں ہیں لہذا دونوں احکام کی پیروی ضروری ہے ‘ پورے توازن اور پورے اعتدال کے ساتھ ۔ تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔ یہ ہیں اسلام کی ہدایات اور صحیح اسلامی پالیسیاں ۔ افراد اور جماعت کی تربیت کا یہ اسلامی منہاج ہے ۔ غالبا یہاں آکر مہاجرین کے اس گروہ کی بات ختم ہوجاتی ہے اور اب اسلامی صفوں میں پھیلے ہوئے ایک دوسرے عنصر کی بات شروع ہوتی ہے ۔ اس دور میں اسلامی سوسائٹی کا دوسرا عناصر کے ساتھ یہ بھی ایک موجود عنصر ترکیبی تھا ۔ اگرچہ سابقہ بات کے اندر انقطاع اور نئی بات کا آغاز یہاں نظر نہیں آتا نہ کوئی فصل ہے ‘ نہ کوئی وقف ہے ‘ جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ آنے والی بات ایک دوسرے عنصر کے بارے میں ہے ۔ الا یہ کہ پہلے فریق کی بات ختم ہوگئی ہے لیکن اس بارے میں اس سے قبل ہم جو نکات بیان کر آئے ہیں اور ہمارے پیش نظر ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قتال سے پہلو تہی کرنے والوں کا تذکرہ لباب النقول ٧٤ میں بحوالہ نسائی اور مستدرک حاکم حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ عبدالرحمن بن عوف (رض) اور ان کے بعض ساتھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ (یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے) اور انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی ہم جب مشرک تھے تو عزت میں تھے پھر جب ہم ایمان لے آئے تو ذلت والے ہوگئے۔ (لہٰذا ہمیں دشمنان دین سے جنگ کرنا چاہیے) آپ نے فرمایا کہ مجھے معاف اور در گزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لہٰذا جنگ نہ کرو پھر جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ پہنچا دیا تو قتال کا حکم دیا اس وقت لوگ جنگ کرنے سے بچنے لگے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت بالا نازل فرمائی۔ مطلب یہ ہے کہ پہلے تو جہاد اور قتال کا شوق رکھتے تھے اور اس کی اجازت چاہتے تھے۔ اس وقت ان سے کہا گیا تھا کہ ابھی قتال نہ کرو نمازیں پڑھتے رہو اور زکوٰتیں دیتے رہو لیکن جب قتال کا حکم آگیا اور قتال فرض قرار دے دیا گیا تو وہی لوگ جو قتال کی خواہش کرتے تھے ان پر بزدلی سوار ہوگئی اور بزدلی بھی معمول نہیں ان میں سے ایک جماعت لوگوں سے خوف کھانے لگی جیسے اللہ سے ڈرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ڈرنے لگے اور کہنے لگے کہ اے ہمارے رب آپ نے ابھی سے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا۔ ہمیں تھوڑی سی مہلت اور مل جاتی تو اچھا ہوتا۔ یہاں یہ اشکال ہوتا ہے کہ پہلے سے جہاد کا مطالبہ کیا ہو یا نہ کیا ہو، ہر حال میں یہ الفاظ تو اعتراض کے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرنا مومن کی شان نہیں عام مومنین بھی ایسی بات نہیں کہتے چہ جائیکہ حضرات صحابہ (رض) ایسا کہیں۔ اس کے جواب میں علامہ بغوی معالم التنزیل صفحہ ٤٥٢: ج ١ میں لکھتے ہیں کہ یہ الفاظ منافقین نے کہے تھے (یہ بات جب صحیح ہوسکتی ہے جبکہ مدینہ منورہ میں بھی فرضیت جہاد سے پہلے جہاد کی اجازت طلب کی گئی ہو اور ایسا ممکن ہے کہ ہجرت سے پہلے بھی جہاد کا مطالبہ کیا گیا ہو اور ہجرت کے بعد بھی اور قرینہ اس کا یہ ہے کہ اس کے جواب میں اقامت صلوٰۃ کے ساتھ ادائے زکوٰۃ کا حکم ہے اور یہ معلوم ہے کہ زکوٰۃ مدینہ منورہ میں فرض ہوئی) علامہ بغوی نے دوسرا قول یہ لکھا ہے کہ یہ قول ایسے مسلمانوں سے سر زد ہوا جو علم میں راسخ نہ تھے خوف اور بزدلی کی وجہ سے ان کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے بطور اعتقاد ایسا نہ تھا پھر بعد میں انہوں نے توبہ بھی کرلی، اور تیسرا قول یہ لکھا ہے کہ جن لوگوں نے یہ بات کہی پہلے مومن تھے جب قتال فرض ہوا تو بزدلی کی وجہ سے منافق ہوگئے اور جہاد سے پیچھے رہ گئے۔ حب دنیا بزدلی کا سبب ہے : بہر حال جو بھی صورت ہو (اعتراض ہو یا صورت اعتراض) اس کا باعث بزدلی تھا اور بزدلی انسان پر حب دنیا کی وجہ سے طاری ہوجاتی ہے اگر آخرت کی محبت ہو (جو باقی رہنے والی ہے) اور حقیر دنیا سے بےرغبتی ہو تو لڑنا مرنا اور اللہ کے لیے جان دینا سب آسان ہوجاتا ہے۔ اسی لیے ان کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا (قُلْ مَتَاع الدُّنْیَا قَلِیْلٌ) کہ آپ فرما دیجیے دنیا کا فائدہ ذرا سا ہے دنیا اول تو پہلے ہی تھوڑی ہے پھر اس تھوڑی میں سے بھی جس کو ملی ہے تھوڑی سی ملی ہے۔ اس ذرا سی دنیا کی وجہ سے آخرت کی رغبت نہ کرنا ناسمجھی ہے مزید فرمایا (وَ الْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰی) (آخرت بہتر ہے اس شخص کے لیے جو تقویٰ اختیار کرے) تقویٰ اختیار کرنے میں کفر و شرک سے بچنا اور صغیرہ کبیرہ گناہوں سے بچنا سب کچھ داخل ہے۔ اہل تقویٰ کے لیے آخرت ہی بہتر ہے اور دنیا (خواہ کتنی ہی زیادہ ہو) آخرت کی ذرا سی نعمت کے سامنے ہیچ ہے۔ پھر دنیا فانی ہے اسے ختم ہونا ہی ہے اور اس کے ختم ہونے سے پہلے دنیا والے ختم ہوجائیں گے اور آخرت ابدالآ باد تک ہے۔ باقی کا فانی سے اعلیٰ اور افضل ہونا ظاہر ہے۔ پھر فرمایا (وَ لَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا) کہ تم لوگوں پر (فتیل کے برابر یعنی) ذرا سا بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔ ہر عمل خیر پر پورا پورا بدلہ ملے گا جس قدر عمل کیا چند در چند کر کے اس پر اجر عظیم عطا کیا جائے گا، پہلے ہم لکھ چکے ہیں کہ فتیل کھجور کی گٹھلی کے گڑھے میں جوتا گا ہوتا ہے اسے کہا جاتا اور اہل عرب اسے حقیر چیز کے لیے بطور مثال پیش کیا کرتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

53 یہ منافقین کے لیے زجر ہے ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو مشرکین کے ہاتھوں بڑی بڑی تکلیفیں اور ایذائیں پہنچتیں تو وہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی شکایت کرتے اور آپ سے جہاد کی اجازت چاہتے۔ آپ فرماتے ابھی مجھے جہاد کا حکم نہیں ملا۔ جو احکام تم پر فرض ہوچکے ہیں نماز اور زکوۃ وغیرہ ابھی ان پر ہی عمل کرو۔ پھر ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں جہاد کا حکم نازل ہوا تو ایک فریق (یعنی منافقین) اس حکم سے گھبرا اٹھے اور کہنے لگا کہ اے اللہ تو نے ہم پر قتال کیوں فرض کیا۔ یہ لوگ قتال سے سخت خوفزدہ ہوئے ظاہر ہے ان کا خوف محض موت اور قتل کی وجہ سے تھا تو اس کے جواب میں فرمایا۔ اَیْنَ مَاتَکُوْنُوْا یُدْرِکُکُّمُ الْمَوْتُ الخ موت سے مت ڈرو اور اس سے مت بھاگو۔ موت کوئی صرف میدان جنگ میں لڑنے والوں ہی کو نہیں آتی موت ہر صورت میں آئیگی اگر تم موت سے بچنے کے لیے اونچے اور بہت مضبوط قلعے بنا لو اور ان میں اپنے آپ کو محفوظ کرلو تو موت وہاں بھی آئے گی اور تمہیں ہرگز نہیں چھوڑے گی۔ جب موت سے چھٹکارا نہیں تو بہتر یہی ہے کہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہوئے مارے جاؤ تاکہ درجہ شہادت پاؤ اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عنایات مخصوصہ اور اس کے انعامات خاصہ حاصل کرسکو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اے مخاطب ! کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو یہ حکم دیا گیا کہ تم ابھی اپنے ہاتھوں کو روکے رہو یعنی جو لوگ مکہ میں جہاد کا تقاضا کر رہے تھے اور جہاد کی اجازت مانگ رہے تھے ان سے کہا گیا کہ ابھی گیا اور مدینہ میں ان کو قتال کا حکم دیا گیا تو ان کی یہ حلات ہوئی کہ اسی وقت ان میں سے کچھ لوگ کافروں اور دین حق کے مخالف لوگوں سے ایسا ڈرنے لگے جیسے کوئی خدا سے ڈرتا ہو یا خدا کے ڈر سے بھی زیادہ ڈرنا اور یہ ڈرنے والے لوگ یوں کہنے لگے۔ اے ہمارے پروردگار ! تو نے ابھی ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا اور تھوڑی مدت تک کے لئے تو نے ہم کو اور مہلت کیوں نہ دے دی۔ اے پیغمبر ! آپ ان لوگوں سے کہہ دیجیے کہ دنیا کا فائدہ اور یہاں کا تمتع بہت تھوڑا اور محض چند روزہ ہے اور آخرت ہر اعتبار سے اس شخص کے لئے بہتر ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا اور اس کی عدول حکمی سے بچتا ہے اور یہ یاد رکھو کہ ایک دھاگے کے برابر بھی تمہاری حق تلفی نہ کی جائے گی۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں جب تک مسلمان مکہ میں تھے اور کافر ایذ دیتے تھے اللہ تعالیٰ ان کو لڑنے سے تھامتا تھا اور صبر کا ذکر فرماتا تھا جب حکم لڑائی کا آیا تو سمجھے کہ ہماری مراد ملی لیکن بعضے کچے مسلمان کنارہ کرتے ہیں اور موت سے ڈرتے ہیں اور لالہ کے برابر آدمیوں سے خطرہ کرتے ہیں۔ (موضح القرآن) حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف اور ا ن کے ساتھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں ں نے عرض کیا یا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ہم مشرک تھے تو اپنی قوم میں ہماری بڑی عزت تھی اب مسلمان ہونے کے بعد لوگ ہم کو ذلیل کرتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا مجھ کو اللہ تعالیٰ نے در گزر کرنے کا حکم دیا ہے تم لوگ اپنے مخالفوں سے قتال نہ کرو پھر جب اللہ تعالیٰ حضور کو مدینے میں لے آیا اور جہاد فرض ہوا تو یہی لوگ جہاد سے بچنے لگے۔ (ابن ابی حاتم نسائی) سدی نے کہا مکہ میں صرف نماز اور زکوۃ فرض تھی مگر لوگ اللہ سے قتال مانگتے تھے جب قتال فرض ہوا تو ایک فریق لوگوں سے ڈرنے لگا بہرحال ! آیت کا مطلب یہ ہے کہ مکہ میں مسلمان ناتواں تھے ان کو صرف نماز کا اور جو مالدار ہوں ان کو نماز کے ساتھ زکوۃ ادا کرنے کا حکم تھا کہ اس وقت یہ چاہتے تھے کہ جہاد کا بھی حکم ہوجائے چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جہاد کا تقاضا کرتے تھے اللہ تعالیٰ کا حکم تھا کہ ابھی کسی نے لڑائی جھگڑا نہ کرو اور کسی پر مدافعانہ یا جارحانہ ہاتھ نہ اٹھائو۔ پھر جب مدینہ میں جہاد فرض ہوا تو ان پر دہشت طاری ہوگئی اور طبعاً کافروں سے ڈرنے لگے جو حققیتاً موت کا ڈر تھا کیونکہ کافروں کے مقابلے کرنے سے ڈرنا موت کے ڈر کو مستلزم ہے جیسا کہ ان کے قول لو لا اخرتنا الی اجل قریب سے مفہوم ہوتا ہے اور اسی بنا پر جواب میں وہی پہلو اختیار کیا گیا اور موت کے آنے کو زیادہ واضح فرمایا اور جیسا کہ ہم نے ربط کی تقریر میں عرض کیا تھا کہ یہ تنبیہہ اور شکایت لطف آمیز ہے کیونکہ یہ لوگ مہاجر اور مخلص مسلمان تھے اور انہوں نے جہاد کے حکم پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا بلکہ ایک تمنا تھی کہ چندے اور مہلت مل جاتی تاکہ ہم زیادہ منظم اور مضبوط ہو کر اپنے مخالفوں کا مقابلہ کرتے پھر اس تمنا میں بھی دو احتمال ہیں کہ صرف دل میں کہا یا زبان سے کہا اگر دل میں اس قسم کا وسوسہ آیا تب تو کوئی مواخذہ ہی نہیں اور اگر زبان سے ہی تمنا کی تب بھی یہ تمنا مضبوط اور منظم ہونے کی غرض سے تھی کوئی معترضانہ نہ تھی اس لئے معصیت نہ تھی اور صرف معمولی سی تنبیہہ یا شکایت کا انداز اختیار کیا گیا اور یہ جو فرمایا کہ مخالف لوگوں سے ڈرنے لگے جیسی خدا سے ڈرتے ہیں یا اس سے بھی زیادہ تو یہ ڈرنا طبعاً تھا اور مجازاً ایسا فرمایا گیا اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جس طرح بندہ ڈرتا ہے اسی طرح اس کی رحمت اور فضل کا بھی امیدوار ہوتا ہے اس لئے اس کا خوف رحمت آلود ہوتا ہے اور کافروں کے خوف میں صرف ایک ہی جہ ت ہوتی ہے وہاں رحم کا کوئی سوال اور خیال نہیں ہوتا اس لئے اس کو مجازاً اشد فرمایا۔ اور یہ مطلب نہیں ہے کہ جب طبعاً کسی شخص کے قلب پر غیر اللہ کے خوف کا غلبہ ہوتا ہے تو اس وقت خدا کا خوف دل میں نہیں رہتا یا خدا کے خوف سے دل یکسر خالی ہوجاتا ہے یا خدا کے خوف سے بندہ بےنیاز ہوجاتا ہے کیونکہ خدا کے خوف سے بےپروا ہوجاتا تو کفر ہے اور یہی وہ فرق ہے جس کو خوارج نے نہیں سمجھا اور کبیرہ کے ارتکاب پر کفر کا حکم جاری کردیا۔ بعض مفسرین نے اواشد خشیۃ کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ بعض تو کافروں سے ایسا ڈرنے لگے جیسے کوئی خدا سے ڈرتا ہے اور بعض خدا کے ڈرنے سے بھی زیادہ ڈرنے لگے اور یہ مطل ببھی ہوسکتا ہے کہ ان کے ڈرنے کو ایسا ڈرنا سمجھو جیسے خدا سے ڈرنا تو بھی صحیح ہے اور خدا کے ڈر سے بھی اگر زیادہ کہو تو بھی صحیح ہے۔ بہرحال ہم نے ابھی عرض کیا تھا کہاد و قتال میں ڈرنے کی وجہ اصل موت سے ڈرنا ہے اور موت سے ڈرنا چونکہ دنیا کے لگائو اور دنیا کی محبت سے ہوتا ہے اس لئے دنیا کی بےثباتی اور پرہیز گاروں کے لئے آخرت کی بھلائی اور بہتری کا ذکر فرمایا اور آخر میں ظلم کی نفی فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ اجر میں کمی نہ کی جائے گی اور سزا میں زیادتی نہ ہوگی۔ لہٰذا جس قدر ہو سکے نیکیاں بڑھائو اور جہاد کر کے اجر حاصل کرو اور گناہ گھٹائو اور احکام الٰہی کے بجا لانے میں سستی اور کمزوری نہ کرو۔ آگے موت کی ہمہ گیری کا ذکر ہے اور اسی سلسلے میں بعض منافقین کے اعتراضات کا جواب ہے۔ چناچہ ارشاد ہتا ہے۔ (تسہیل)