Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 79

سورة النساء

مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ۫ وَ مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ ؕ وَ اَرۡسَلۡنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوۡلًا ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿۷۹﴾

What comes to you of good is from Allah , but what comes to you of evil, [O man], is from yourself. And We have sent you, [O Muhammad], to the people as a messenger, and sufficient is Allah as Witness.

تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور جو بُرائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے ، ہم نے تجھے تمام لوگوں کو پیغام پہنچانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالٰی گواہ کافی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّهِ ... Whatever of good reaches you, is from Allah, meaning, of Allah's bounty, favor, kindness and mercy. ... وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّيَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ ... But whatever of evil befalls you, is from yourself, meaning because of you and due to your actions. Similarly, Allah said, وَمَأ أَصَـبَكُمْ مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُواْ عَن كَثِيرٍ And whatever of misfortune befalls you, it is because of what your hands have earned. And He pardons much. (42:30) As-Suddi, Al-Hasan Al-Basri, Ibn Jurayj and Ibn Zayd said that, فَمِن نَّفْسِكَ (from yourself) means, because of your errors. Qatadah said that, فَمِن نَّفْسِكَ (From yourself) means, as punishment for you, O son of Adam, because of your sins. Allah said, ... وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولاً ... And We have sent you as a Messenger to mankind, so that you convey to them Allah's commandments, what He likes and is pleased with, and what He dislikes and refuses. ... وَكَفَى بِاللّهِ شَهِيدًا and Allah is sufficient as a Witness. that He has sent you. He is also Witness over you and them, having full knowledge in what you convey to them and the disbelief and rebellion with which they respond to the truth.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

79۔ 1 یعنی اس کے فضل و کرم سے ہے یعنی کسی نیکی یا اطاعت کا صلہ نہیں ہے، کیونکہ نیکی کی توفیق بھی دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ علاوہ ازیں اس کی نعمتیں اتنی بےپایاں ہیں کہ ایک انسان کی عبادت و اطاعت اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس لئے ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں جو بھی جائے گا، محض اللہ کی رحمت سے جائے گا اپنے عمل کی وجہ سے نہیں صحابہ اکرام رضوان اللہ علھیم اجمعین نے عرض کیا یارسول اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جائیں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ' ہاں جب تک اللہ مجھے بھی اپنے، دامان رحمت میں نہیں ڈھانک لے گا جنت میں نہیں جاؤں گا ' (صحیح بخاری) 79۔ 2۔ یہ برائی بھی اگرچہ اللہ کی مشیت سے ہی آتی ہے۔ جیسا کہ " کل من عند اللہ " سے واضح ہے لیکن یہ برائی کسی گناہ کی عقبیت یا اس کا صلہ ہوتی ہے۔ اس لئے فرمایا یہ تمہارے نفس سے ہے یعنی تمہاری غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کا نتیجہ ہے۔ جس طرح فرمایا تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے، وہ تمہارے اپنے عملوں کا نتیجہ ہے اور بہت سے گناہ تو معاف ہی فرما دیتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٠] اب اسی عقیدہ تقدیر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیے۔ اللہ کی مشیت کے علاوہ انسان کو قوت ارادہ اور اختیار بھی دیا گیا ہے اور خیر و شر کی دونوں راہیں بھی بتادی گئی ہیں۔ اسی لحاظ سے انسان کو اس کے اعمال کا بدلہ ملتا ہے۔ (اگر انسان اچھے اعمال کرے تو اسے اس کا اچھا بدلہ مل جائے تو یہ خالصتاً اللہ کا فضل و احسان ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انسان پر سابقہ احسانات ہی اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے شکریہ کے طور پر وہ جتنی بھی اطاعت و عبادت کرے ان احسانات کا عوض نہیں بن سکتی۔ اب اگر اللہ تعالیٰ اس عبادت و اطاعت کی مزید جزا بھی عطا فرما دے تو اس لحاظ سے یہ محض اس کا فضل و احسان ہوا۔ اور نافرمانی اور گناہ کے کام کرے گا تو یہ اللہ تعالیٰ کے سابقہ احسانات کی انتہائی ناشکری ہوگی اور اسے اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت میں واضح طور پر بیان فرما دیا ہے : (لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ ۝) 14 ۔ ابراھیم :7) اگر تم نے شکر ادا کیا، تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا اور اگر تم نے ناشکری کی تو (یاد رکھو) میرا عذاب بڑا سخت ہے۔ اس لحاظ سے اگر انسان کو کوئی دکھ یا مصیبت آئے تو بسا اوقات اس کی اپنی اسی شامت اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے اور خوشی اور فائدے کی بات تو محض اللہ کا فضل و احسان ہوتا ہے۔ [١١١] سب لوگوں سے مراد صرف دور نبوی کے لوگ ہی نہیں بلکہ تاقیامت آپ تمام اقوام عالم کے لیے رسول ہیں جیسا کہ بعض دوسری آیات سے بھی واضح ہوتا ہے۔ اگر تمام لوگ تا قیامت آپ ہی کی رسالت کی بات تسلیم نہ کریں تو بھی اس حقیقت پر اللہ کی شہادت بہت کافی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ ۔۔ : اس میں برائی اور بھلائی کا ایک قانون بیان فرما دیا ہے کہ بھلائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچتی ہے اس کا بھیجنے والا بھی گو اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے مگر اس کا سبب تمہارے گناہ ہوتے ہیں۔ [ دیکھیے الشوریٰ : ٣٠ ] اس لیے سلف صالحین کا عام قاعدہ تھا کہ جب کوئی اجتہادی رائے پیش کرتے تو کہتے، اگر یہ صحیح ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اسی کی توفیق سے ہے اور اگر غلط ہے تو ہماری طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہے۔ ( ابن کثیر) اوپر کی آیت میں پیدا کرنے اور وجود میں لانے کے اعتبار سے ” حسنہ “ اور ” سیۂ “ دونوں کو ” من عند اللہ “ ( اللہ کی طرف سے) قرار دیا ہے کہ دونوں چیزیں اسی نے پیدا کی ہیں، لیکن سبب اور کسب کی مناسبت سے برائی کی نسبت انسان کی طرف کردی ہے، لہٰذا کوئی تعارض نہیں ہے۔ (رازی) موضح میں ہے : ” بندہ کو چاہیے کہ نیکی اللہ کا فضل سمجھے اور تکلیف اپنی تقصیر سے۔ تقصیروں سے اللہ واقف ہے اور وہی خبر دیتا ہے۔ “ وَاَرْسَلْنٰكَ للنَّاسِ رَسُوْلًا ۭ ۔۔ : یعنی آپ کا اصل منصب رسالت اور تبلیغ ہے اور اللہ گواہ ہے کہ آپ نے اس امانت کے ادا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی اور وہ کافی گواہ ہے، پھر اس کے بعد بھی اگر کسی کو ہدایت نہیں ہوتی تو آپ کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ (رازی) نیز یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمومی رسالت کا بیان بھی ہے۔ کہ آپ تمام لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ (دیکھیے الأعراف : ١٥٨۔ سبا : ١٢٨ )

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Building secure houses is not against Tawakkul Let us now consider: وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُ‌وجٍ مُّشَيَّدَةٍ in verse 78. It says: &Wherever you will be Death will overtake you, even though you are in fortified castles.& This tells us that building a good and strong house to live with ensured security of person and things is not contrary to the dictates of tawakkul or trust in Allah and that it is not against the rules of Shari&ah either. (Qurtubi) A Blessing comes only by the grace of Allah In مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّـهِ (verse 79), translated as: &whatever good comes to you is from Allah,& the word, حَسَنَةٍ &hasanatin& means &blessing& (Mazhari). The verse points out to the fact that any blessing which reaches man, any good that comes to him, does not get to him as a matter of his right. This is, on the contrary, nothing but the grace of Allah Almighty, His فضل &fadl&, in common Islamic terminology. No matter how much, he devotes to the many acts of worship he is obligated with, man cannot claim to deserve that blessing on the basis of his deeds alone. The reason is simple, because the very ability to engage in acts of worship comes from none but Allah Himself, which is known as the Taufiq of Allah. Then the blessings of Allah are countless, how could they be &procured& by limited acts of worship and other expressions of obedience to His commands? Specially so, when whatever we do in the name of the worship of Allah is& hardly worthy of the supreme mastery and power of our Lord, the Lord of the universe of our experience and the Lord of universes beyond? This point has been made more succinctly in a hadith, where the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ; has been reported to have said: مَا اَحَد یدخل الجنۃ الا برحمۃ اللہ : ولا أنت ؟ و لا أنا &No one shall enter Paradise unless it be with the mercy of Allah.& The narrator asked: &Not you either?& He said, &Yes. Not me either.& Calamities are the result of misdeeds In وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ (verse 79), translated as: &and whatever evil visits you, it comes from your own selves,& the word, سَيِّئَةٍ &sayyi` atun& mean., مُصِیبَہ &musibah&, evil, hardship, (misfortune, calamity, disaster) according to Mazhari. Although, calamities are created by Allah, yet their cause lies nowhere else but in the very misdeeds of man himself. Now if this man is a disbeliever, a Kafir, the evil that hits him in this mortal world is only an ordinary sample of the ultimate punishment, the punishment of the world-to-come, which is much much more than the worldly punishment. And if this man is a believer, a mu&min, all his misfor¬tunes become an expiation (kaffarah) of his sins in that case, and thereby become the very cause of his salvation in the Hereafter. Thus, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said in a hadith: ما من مصیبۃ تصیب المسلم الا کَفَر اللہ بھا عنہ حتی الشوکۃ یشاکھا |"No evil ever touches a Muslim, but it becomes a source of forgiveness for him - even the pinch of a thorn in his feet.|" (Mazhari from Tirmidhi) In another hadith, reported by Abu Musa (رض) عنہ he said: عن ابی موسیٰ ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال لا تصیب عبدا نکبۃ فما فوقھا وما دونھا الا بذنب وما یعفو اکثر |"No hardship befalls a servant of Allah, be it light or tough, but it is always due to his sin - and the sins Allah forgives (without afflicting with a calamity) are much more.|" (Mazhari from Tirmidhi) The Prophet of Islam: His Prophethood is Universal The words: وَأَرْ‌سَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَ‌سُولًا ; (And We have sent you to be a Messenger for the people) appearing at the end of verse 79 prove that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been sent as a Messenger of Allah (Rasul) for all peoples of the world. He was not simply a Messenger for Arabs alone. In fact, his prophethood is universal, open to all human beings of this entire universe, whether they&are present at this point of time, or may come to be there right through the Qiyamah, the fateful Last Day of this universe of ours. (Mazhari)

پختہ مضبوط گھر تعمیر کرنا توکل کے خلاف نہیں : ولوکنتم فی بروج مشیدة اس آیت میں کہا گیا کہ موت تم کو بہرکیف پہنچ کر رہے گی، اگرچہ تم مضبوط محلوں میں ہی کیوں نہ ہو اس سے معلوم ہوا کہ رہنے سہنے اور مال و اسباب کی حفاظت کے لئے مضبوط و عمدہ گھر تعمیر کرنا نہ خلاف توکل ہے اور نہ خلاف شرع ہے۔ (قرطبی) انسان کو نعمت محض اللہ کے فضل سے ملتی ہے :۔ ما اصابک من حسنة فمن اللہ یہاں حسنتہ سے مراد نعمت ہے۔ (مظہری) اس آیت سے اشارہ اس بات کی طرف کردیا کہ انسان کو جو نعمت ملتی ہے وہ کوئی اس کا حق نہیں ہوتا، بلکہ محض اللہ کا فضل ہوتا ہے، انسان خواہ کتنی ہی عبادت کرے، اس سے وہ نعمت کا مستحق نہیں ہوسکتا اس لئے عبادت کی توفیق بھی تو اللہ ہی کی جانب سے ہوتی ہے پھر اللہ کی نعمتیں تو بےحساب ہیں، ان کو محدود عبادات اور اطاعات سے کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے ؟ خصوصاً جب کہ ہماری عبادت بھی رب العلمین کی بادشاہت کے شایان شان نہ ہو۔ چنانچہ ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں : ” یعنی سوائے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے کوئی شخص جنت میں نہیں جائے گا، راوی نے عرض کیا آپ بھی نہیں جائیں گے ؟ فرمایا ہاں میں بھی نہیں۔ “ مصیبت انسان کے شامت اعمال کا نتیجہ ہے :۔ وما اصابک من سیئة فمن نفسک یہاں سیئة سے مراد مصیبت ہے (مظہری) مصیبت کی تخلیق اگرچہ اللہ ہی کرتا ہے، لیکن اس کا سبب خود انسان کے اعمال بد ہوتے ہیں، اب اگر یہ انسان کافر ہے تو اس کے لئے دنیا میں جو مصیبت پیش آتی ہے یہ اس کے لئے اس عذاب کا ایک معمولی سا نمونہ ہوتا ہے اور آخرت کا عذاب اس سے کہیں زیادہ ہے اور اگر وہ مومن ہے تو اس کے لئے مصائب و تکالیف اس کے گناہوں کا کفارہ ہو کر نجات آخرت کا سبب ہوجاتی ہیں، چناچہ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا : ” یعنی کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو کسی مسلمان کو پہنچے، مگر وہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے یہاں تک کہ کانٹا جو اس کے پاؤں میں چبھتا ہے۔ “ ” حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بندے کو جو کوئی ہلکی یا سخت مصیبت پیش آتی ہے تو وہ اس کے گناہ کا نتیجہ ہوتی ہے، اور بہت گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ “ آپ کی رسالت تمام عالم کے لئے عام ہے :۔ وارسلنک للناس رسولاً اس سے ثابت ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے، آپ محض عربوں کے لئے ہی رسول نہیں تھے، بلکہ آپ کی رسالت پورے عالم کے انسانوں کے لئے عام ہے۔ خواہ اس وقت موجود ہوں یا آئندہ تاقیامت پیدا ہوں (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَـنَۃٍ فَمِنَ اللہِ۝ ٠ۡوَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ۝ ٠ۭ وَاَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا۝ ٠ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۝ ٧٩ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس كفى الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل . ( ک ف ی ) الکفایۃ وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔ شَّهِيدُ وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٩) اور یہ بھی معنی بیان کیے گئے کہ فتح وغنیمت اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اور ہزیمت اور قتل وغیرہ یہ اپنی غلطیوں اور مورچہ کو چھوڑنے کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ احد کے دن صحابہ کرام (رض) نے ایک غلط فہمی کی بنا پر مورچہ چھوڑ دیا تھا ، اور یہ بھی معنی بیان کیے گئے ہیں کہ نیکی کا جو کام ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مدد کی وجہ سے ہوتا ہے اور برائی نفس کی ترغیبات اور اس کی اطاعت کی وجہ سے ہوتی ہے اور آپ صرف ان مخاطبین کی جانب ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے تمام جن وانس کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ان منافقین کی بات پر کہ خیر منجانب اللہ اور العیاذ باللہ برائی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کی طرف سے ہے، گواہ کافی ہے یعنی روز قیامت اس کا فیصلہ فرمائیں گے اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ یہ یہودی کہتے تھے کہ اپنے رسول ہونے پر کوئی گواہ لاؤ، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٩ (مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِز وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّءَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ ط) اس آیت کے بارے میں مفسرین نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں۔ میرے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ یہاں تحویل خطاب ہے۔ پہلی آیت میں خطاب ان مسلمانوں کو جن کی طرف سے کمزوری یا نفاق کا اظہار ہو رہا تھا ‘ لیکن اس آیت میں بحیثیت مجموعی خطاب ہے کہ دیکھو اے مسلمانو ! جو بھی کوئی خیر تمہیں ملتا ہے اس پر تمہیں یہی کہنا چاہیے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور کوئی شر پہنچ جائے تو اسے اپنے کسب و عمل کا نتیجہ سمجھنا چاہیے۔ اگرچہ ہمارا ایمان ہے کہ خیر بھی اللہ کی طرف سے ہے اور شر بھی۔ ایمان مفصل “ میں الفاظ آتے ہیں : وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی “ لیکن ایک مسلمان کے لیے صحیح طرز عمل یہ ہے کہ خیر ملے تو اسے اللہ کا فضل سمجھے۔ اور اگر کوئی خرابی ہوجائے تو سمجھے کہ یہ میری کسی غلطی کے سبب ہوئی ہے ‘ مجھ سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے ‘ جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی تادیب فرمانی چاہی ہے۔ (وَاَرْسَلْنٰکَ للنَّاسِ رَسُوْلاً ط) ۔ اس مقام کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ درمیانی ٹکڑے میں بھی خطاب تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی سے ہے ‘ لیکن استعجاب کے انداز میں کہ اچھا ! جو کچھ انہیں خیر مل جائے وہ تو اللہ کی طرف سے ہے اور جو کوئی برائی آجائے تو وہ آپ کی طرف سے ہے ! یعنی کیا بات یہ کہہ رہے ہیں ! جبکہ اللہ نے تو آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اس کی یہ دو تعبیریں ہیں۔ میرے نزدیک پہلی تعبیر راجح ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

48: ان آیتوں میں دو حقیقتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اﷲ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے حکم سے ہوتا ہے۔ کسی کو کوئی فائدہ پہنچے تو وہ بھی اللہ کے حکم سے پہنچتا ہے، اور نقصان پہنچے تو وہ بھی اسی کے حکم سے ہوتا ہے۔ دوسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کا حکم اﷲ تعالیٰ کب اور کس بنا پر دیتے ہیں۔ اس کے بارے میں آیت : ۹۷ نے یہ بتایا ہے کہ جہاں تک کسی کو فائدہ پہنچنے کا تعلق ہے اس کا حقیقی سبب صرف اﷲ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے، کیونکہ کسی بھی مخلوق کا اﷲ تعالیٰ پر کوئی اجارہ نہیں آتا کہ وہ اسے ضرور فائدہ پہنچائے، اور اگر اس فائدے کا کوئی ظاہری سبب اس شخص کا کوئی عمل نظر آتا بھی ہو تو اس عمل کی توفیق اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، اس لئے وہ اﷲ تعالیٰ کا فضل ہی فضل ہے، اور اس شخص کا کوئی ذاتی استحقاق نہیں ہے۔ دوسری طرف اگر اِنسان کو کوئی نقصان پہنچے تواگرچہ وہ بھی اﷲ تعالیٰ کے حکم ہی سے ہوتا ہے، لیکن اﷲ تعالیٰ یہ حکم اسی وقت فرماتے ہیں جب اس شخص نے اپنے اختیاری عمل سے کوئی غلطی کی ہو۔ اب منافقین کا معاملہ یہ تھا کہ جب انہیں کوئی فائدہ پہنچتا تو اس کو تو اﷲ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے، لیکن کوئی نقصان ہوجاتا تو اسے آنحضرتﷺ کے ذمے لگادیتے تھے۔ اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جو نقصان کی ذمہ داری آنحضرتﷺ پر عائد کررہے ہیں، اگر اس سے مراد یہ ہے کہ یہ نقصان آنحضرت کے حکم سے ہوا ہے، تو یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ اس کائنات میں تمام کام اللہ ہی کے حکم سے ہوتے ہیں، کسی اور حکم سے نہیں، اور اگر ان کا مطلب یہ ہے کہ (معاذاللہ) آنحضرتﷺ کی کوئی غلطی اس کا سبب بنی ہے تو یہ بات بھی غلط ہے، ہراِنسان کو خود اس کے اپنے کسی عمل کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے۔ آنحضرتﷺ کو تو رسول بناکر بھیجا گیا ہے۔ لہٰذا نہ تو کائنات میں واقع ہونے والے کسی تکوینی واقعے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے، اور نہ آپ فرائضِ رسالت میں کسی کوتاہی کے مرتکب ہوسکتے ہیں، جس کا خمیازہ آپ کی اُمت کو بھگتنا پڑے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 اس میں برائی اور بھلائی کا ایک قانون بیان فرمادیا ہے کہ بھلائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور جو برائی پہنچتی ہے اس کا بھیجنے والا بھی گو اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے مگر اس کا سبب تمہارے اپنے گناہ ہوتے ہیں۔ (دیکھئے سورت شوریٰ آیت 3) اس لیے سلف صالحین کا خام قاعدہ تھا کہ جن کوئی اجتہادی رائے ئ پیش کرتے تو کہتے کہ اگر یہ صحیح ہے تو اللہ تعالیٰ کے طرف سے اور اسی کی توفیق سے اور اگر غلط ہے تو ہماری طرف سے اور شیطان کی طرف سے (ابن کثیر) اوپر کی آیت میں خلق وایجاد کے اعتبار سے حسنتہ اور سیئہ دونوں کو من عند اللہ قرار دیا ہے اور اس آیت میں باعتبار کسب وسبب کے سیئہ کو انسان کی طرف منسوب کردیا ہے لہذا تعارض نہیں ہے۔ کذافی الکبیر) موضح میں ہے بندہ کو چاہیے نیکی اللہ کا فضل سمجھے اور تکلیف اپنی تصصیر سے۔ تصصیروں سے اللہ تعالیٰ واقف ہے اور وہی خبر دیتا ہے۔9 یعنی آپ کا اصل منصب رسالت اور تبلیغ ہے اور اللہ گواہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس امانت کے ادا کرنے میں کسی قسم کی تقصیر نہیں کی پھر اس کے بعد بھی اگر کسی کو ہدایت نہیں ہوتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ (کبیر) نیز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمومی رسالت کا بیان ہے (دیکھیے اعراف 58 اسبا 128)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ تمام لوگوں میں جن اور انسان دونوں آگئے پس اس میں بیان ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت عامہ کا جو قرآن و حدیث میں اور جگہ بی مذکور ومنصوص اور عقیدہ قطعی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نقصان پہنچنے پر منافق رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کو ذمہ دار ٹھہراتے اس ہرزہ سرائی کا جواب دیتے ہوئے اصل حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ نفع و نقصان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ لیکن انسان کو پہنچنے والے نقصان کا بنیادی سبب اس کے ذاتی کسب و عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ پہلی آیت میں یہ فرمایا ہے کہ نفع ہو یا نقصان ہر ایک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ کیونکہ وہی مختار کل اور نفع و نقصان کا مالک ہے۔ اس آیت میں اس کی یوں تشریح فرمائی ہے کہ انسان کو پہنچنے والی اچھائی اور فائدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے۔ جہاں تک برائی اور نقصان کا معاملہ ہے یہ انسان کی اپنی کوتاہی اور بےتدبیری کا صلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو دنیا میں کسی کی غلطی سے درگزر فرمائے نہ چاہے تو کوتاہی کے بدلے سرزنش یا سزا کے طور پر آدمی کی گرفت فرمائے۔ یہی بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو توحید سمجھاتے ہوئے بیان فرمائی تھی کہ شفاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور بیماری اپنی طرف سے ہوتی ہے۔ [ الشعراء : ٨٠] یہاں یہ اصول سمجھانے کے بعد فرمایا اے رسول مکرم ! آپ کو دل چھوٹا کرنے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آپ خود لوگوں کے سامنے کھڑے نہیں ہوئے یہ تو ہم نے آپ کو پوری انسانیت کی طرف اپنا پیغام دینے والا بنا کر بھیجا اور کھڑا کیا ہے۔ لوگ تمہاری رسالت کی گواہی دیں تو یہ ان کی خوش نصیبی ہے اگر یہ انکار کردیں تو تمہیں بھیجنے والا اللہ شہادت دیتا ہے کہ آپ اس کے سچے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی شہادت تمام شہادتوں سے بڑھ کر ہے کوئی گواہی اس کی گواہی سے بہتر اور معتبر نہیں ہوسکتی۔ اس کی گواہی کے بعد کسی گواہی کی ضرورت نہیں رہتی۔ در اصل لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ آپ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ جس نے آپ کی اطاعت کی حقیقتاً اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تمہیں ہم نے ان پر نگہبان اور دربان بنا کر نہیں بھیجا اور نہ ہی آپ سے سوال ہوگا کہ آپ کے ہوتے ہوئے یہ لوگ کافر و مشرک کیوں رہے ؟ آپ کا کام تو بات سمجھانا اور پہنچانا ہے یہ فرض آپ کما حقہٗ پورا کر رہے ہیں۔ نفع و نقصان کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عقیدہ اور فرمان : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا فَقَالَ یَاغُلَامُ إِنِّيْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ اِحْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ إِذَ ا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلآی أَنْ یَّنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَّمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلآی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَّمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سوار تھا آپ نے فرمایا : بچے ! میں تجھے چند کلمات سکھاتا ہوں تو اللہ کے احکامات کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا تو اللہ کو یاد کر تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر، جب مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کرنا اور یقین رکھ کہ اگر تمام لوگ تجھے کچھ نفع دینے کے لیے جمع ہوجائیں۔ وہ اتنا ہی نفع دے سکتے ہیں جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان دینے پہ تل جائیں۔ تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیرے حق میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔ “ مسائل ١۔ اچھائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور نقصان انسان کی کوتاہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نفع و نقصان کا مالک نہیں بنایا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی پر گواہ ہے۔ ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت حقیقت میں اللہ کی اطاعت ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ تفسیر بالقرآن عالمگیر نبوت : ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری دنیا کے رسول ہیں۔ (الاعراف : ١٥٨) ٢۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کے رسول ہیں۔ (سباء : ٢٨) ٣۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبشر اور نذیر ہیں۔ (الاحزاب : ٤٥) ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمت عالم ہیں۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب : ٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَ مَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّءَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ ) (جو کچھ تجھے اچھی حالت پہنچ جائے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو کچھ تجھے بد حالی پہنچ جائے وہ تیری طرف سے ہے) یہ خطاب ہر انسان کو ہے اور اس میں اچھی بری حالت پیش آنے کا قانون بنا دیا اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ پر کسی کا کوئی حق واجب نہیں جو بھی نعمت اور اچھی حالت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل جائے وہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے نیک اعمال کرنے سے بھی اللہ پر کسی کا کچھ حق واجب نہیں ہوتا۔ نیک اعمال پر جو نعمتوں اور برکتوں کے وعدے ہیں وہ سب اس کا فضل ہے اور جو کوئی نقمت یا مصیبت بد حالی انسان کو پہنچ جائے وہ انسان کے اپنے برے اعمال کی وجہ سے ہے۔ سورة شوریٰ میں فرمایا (وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیْرٍ ) (جو کچھ تم کو دکھ تکلیف پہنچ جائے سو وہ تمہارے اپنے کیے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ بہت سے اعمال بد سے در گزر فرما دیتے ہیں) مصیبتیں آتی ہیں تو انسانوں کے اعمال کی وجہ سے لیکن اس میں مومن بندوں کو یہ فائدہ ہوجاتا ہے کہ ان کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ آخر میں فرمایا (وَ اَرْسَلْنٰکَ للنَّاسِ رَسُوْلًا وَ کَفٰی باللّٰہِ شَھِیْدًا) اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منصب عظیم یعنی رسالت کا بیان ہے، لفظ للناس میں اس بات کی تصریح ہے کہ آپ تمام انسانوں کے لیے رسول ہیں اور (وَ کَفٰی بِا للّٰہِ شَھِیْداً ) یہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص آپ کی رسالت کا منکر ہو تو اس کے انکار سے آپ کے منصب رسالت میں کوئی فرق نہیں آتا، منکرین کی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں، آپ کی رسالت پر اللہ کا گواہ ہونا کافی ہے۔ بعض حضرات نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر گواہ ہے سب کے اعمال خیر و شر سے باخبر ہے وہ سب کا بدلہ دے دے گا۔ (روح المعانی صفحہ ٩٠۔ ٩١: ج ٥) یہ مطلب لینا بھی مضمون سابق کے مناسب ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

55 یہ بھی منافقین اور یہود کے مذکورہ بالا قول باطل کا جواب ہے بلکہ اس جواب کی تفصیل ہے اس میں بظاہر خطاب تو حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے لیکن مراد عام ہے اور یہ خطاب ہر مخاطب کو شامل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کو جو فائدہ اور بھلائی پہنچتی ہے وہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے اور جو اسے نقصان یا برائی پہنچتی ہے خالق اگرچہ اس کا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن اس کا سبب انسان کی اپنی ہی بد عملی اور کوتاہی ہوتی ہے جیسا کہ ایک جگہ ارشاد ہے۔ وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ (شوری رکوع 4) ۔ یہود مدینہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے اگر خوشحال تھے تو یہ محض اللہ کا احسان تھا اور آپ کی آمد کے بعد اگر ان پر تنگدستی آگئی تو یہ ان کی اپنی بد عملی کا نتیجہ تھا۔ جب انہوں نے خدا کے پیغمبر کی تکذیب کی تو اللہ تعالیٰ نے بطور تنبیہ ان پر تنگی کردی۔ والضمیر للیھودوالمنافقین روی انہ کان قد بسط علیھم الرزق فلما قدم النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) المدینۃ فدعاھم الی الایمان فکفروا مما امسک عنھم بعض الامساک (ابو السعود ج 3 ص 394) ۔ 56 یہاں سے فَمَاَاَرْسَلْنَاکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے یعنی ان کو چاہئے تھا کہ ایسی باتیں کرنے بجائے آپ کی اطاعت کرتے کیونکہ آپ کی اطاعت عین اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن اگر وہ آپ کی دعوت کو قبول نہیں کرتے اور آپ کی فرمانبرداری سے اعراض کرتے ہیں تو آپ فکر مند اور غمگین نہ ہوں کیونکہ آپ نے اپنا فرض ادا کرلیا ہے آپ کا فرض صرف تبلیغ ہے جو آپ نے پورا کردیا۔ وَکَفٰی بِاللہِ شَھِیْداً سے تخویف اخروی کی طرف اشارہ فرما دیا کہ ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کوئی عمل ہم سے پوشیدہ نہیں انہیں اپنے اعمال کی پوری پوری سزا ملے گی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اے انسان جو بھلائی اور خوش حالی تجھ کو پیش آتی ہے اور جو راحت تجھ کو میسر ہوتی ہے وہ اللہ کی جانب سے ہوتی ہے یعنی محض اس کے فضل سے ہوتی ہے اور اے انسان جو بدحالی اور برائی تجھ کو پیش آتی ہے وہ خود تیری بدولت اور تیرے سبب سے ہوتی یعنی تیرے اعمال بد کے نتیجے میں پیش آتی ہے اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور آپ کی رسالت و نبوت پر گواہی دینے کو اللہ تعالیٰ کافی ہے اور اللہ تعالیٰ سب چیزوں کو اپنے روبرو دیکھنے کو کافی اور بس ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں بندہ کو چاہئے نیکی کو اللہ کا فضل سمجھے اور تکلیف اپنی تقصیر سے اور رسول پر الزام نہ رکھے تقصیروں سے اللہ واقف ہے اور وہی جزا دیتا ہے۔ (موضح القرآن) بعض حضرات نے ما اصابک کا مخاطب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرار دیا ہے لیکن عام مفسرین کی رائے یہی ہے کہ خطاب عام ہے اور ہم نے اسی کو اختیار کیا ہے مطلب یہ ہے کہ رسول پر الزام عائد کرنا صحیح نہیں ہے رسول کو کسی راحت و مصیبت میں کوئی دخل نہیں ہے بلکہ خود اپنے نفع اور ضرر کا بھی اختیار نہیں ہے چہ جائے کہ اس کو دوسروں کی بھلائی اور برائی کا کوئی اختیار ہو یہ سب باتیں تو خدا ہی کی جانب سے ہوا کرتی ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ جو بھلائی خوش حالی اور مسرت وغیرہ اے مخاطب تجھ کو پہنچتی ہے وہ تو محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی مہربانی سے پہونچتی ہے اور جو تکلیف اور بدحالی اور پریشانی وغیرہ تجھ کو پہنچتی ہے وہ تیرے ہی اعمال کی شامت ہوتی ہے اور تیری ہی کوتاہیوں کے باعث نصیب ہوتی ہے اور اے پیغمبر ! ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے یعنی آپ کا کام تمام بنی نوع انسان کو اپنی رسالت کی تبلیغ کرنا اور ہمارے احکام کا پہنچانا ہے کسی کی برائی یا بھلائی سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ شہید کے معنی بعض حضرات نے گواہ کئے ہیں اور بعض حضرات نے حضار اور موجود ہونا کئے ہیں ہم نے تیسیر میں دونوں کا لحاظ رکھا ہے یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کی رسالت اور آپ کے رسول برحق ہونے پر اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر شخص کی حالت اور اس کے اعمال پر اللہ تعالیٰ کی حضوری اور اس کی موجودگی اور سب کاموں کو اپنے سامنے ہوتا ہوا دیکھنا کافی ہے غالباً یاد ہوگا ہم نے پہلے عرض کیا تھا کہ جس طرح عام بدپرہیزی اور بےاحتیاطی کا اثر انسان کے جسم پر پڑتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی عام مخالفت کا اثر انسان کی روح پر پڑتا ہے یہ وہ اثرات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مختلف اشیاء میں رکھے ہیں اور ایک چیز کو دوسری چیز کا مصلح مقرر کیا ہے جس طرح یہ تمام اثرات اور ان کی اصلاح کو طبیب خوب سمجھتے ہیں اسی طرح روحانی بدپر ہیزیوں کے اور گناہوں کے اثرات ہیں اور عبادات ان اثرات کو زائل کرنے والی اور ان کی مصلح ہیں لیکن یہ تمام اثرات چونکہ حضرت حق جل سجدہ کے تابع ہیں اور وہی ان کے خلاق اور موجد ہیں اس لئے ان کی طرف ان اثرات کو منسوب کیا جاتا ہے اور قل کل من عند اللہ کا یہی مطلب ہے کہ جب کوئی بندہ مقویات یا مضرات کا استعمال کرتا ہے تو ہم ان چیزوں کے اچھے اور برے اثرات کو اس پر مرتب کردیتے ہیں اور چونکہ عام طور سے ہم بندوں کے معاملے میں فضل و کرم کا برتائو کرتے رہتے ہیں اس لئے نفع تو محض فضل ہی سے پہنچا دیتے ہیں اور ضرر بدپرہیزی ہی سے پہنچاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ باوجود نیکیوں کی قلت بلکہ کبھی نہ ہونے پر فضل مرتب ہوجاتا ہے اور دینی و دنیوی سود و بہبود سے متمتع فرماتے ہیں۔ ہاں تکلیف پہنچانے میں نافرمانی اور خطا کو دخل ہے اسی کو فرمایا، ما اصابک من حسنۃ فمن اللہ وما اسابک من سیئۃ فمن نفسک یہ عام معاملات اور عام حالات کے متعلق ہم نے عرض کیا ہے باقی سخت منافق اور پرلے درجے کے کافر کو بھلائی پہنچانا اور اہل اللہ اور اولیاء اللہ کو مصائب میں مبتلا رکھنا یہ دوسری بات ہے جس کو ہم وقتاً فوقتاً عرض کرتے رہے ہیں اور آگے بھی کہیں کہیں عرض کرتے رہیں گے یہاں اس کی تفصیل کا موقعہ نہیں ہے۔ حق تعالیٰ نے سورة شوریٰ میں فرمایا ہے وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعف عن کثیر یعنی تم پر جوب مصیبت واقع ہوتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی سے واقع ہوتی ہے اور بہت سی باتیں تو اللہ تعالیٰ بلا کسی مواخذے کے معاف فرما دیتا ہے۔ سدی اور حضرت حسن بصری وغیرہ نے فمن نفسک کی تشریح فمن ذنبک سے کی ہے قتادہ نے کہا عقوبۃ لک یا ابن ادم بذنبک یعنی اے ابن آدم تیری پکڑ اور تجھ پر عقوبت تیرے گناہ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کسی شخص کو کوئی معمولی سے معمولی مصیبت بھی نہیں پہونچتی خواہ وہ کوئی غم ہو یا کوئی پریشانی ہو یا کوئی اور مشقت میں ڈالنے والی کوئی چیز ہو حتی کہ کوئی کانٹا بھی نہیں چبھتا مگر قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ تکلیف اس شخص کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس معمولی سی تکلیف سے اس کی خطائیں معاف کردیتا ہے۔ بہرحال جو کچھ آیت زیر بحث میں ہے وہ صرف اسی قدر ہے کہ بھلائی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے اور تکلیف انسان کی بد اعمالی کے سبب ہے اگرچہ اس سبب پر اثر کا مرتب کرنا یہ حضرت حق کے ہی حکم سے ہوتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب نے کل من عند اللہ کی ایک بہت اچھی توجیہہ فرمائی ہے کہ رسول کی تدبیر بھی اللہ تعالیٰ کے الہام سے ہوتی ہے اس لئے رسول پر الزام لگانا بےجا ہے بلکہ اس عالم تکوین میں جو انقلاب ہوتا ہے وہ حضرت حق تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہوتا ہے اور بھلائی کی حلات میں اس کا فضل ہوتا ہے اور مصیبت کی حالت میں اس کا عدل ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے اس موقعہ پر خلق اعمال کی بحث چھیڑی ہے اور کسب اور خلق کا تذکرہ کیا ہے اور معتزلہ اور اہل سنت کے اختلاف پر تقریر کی ہے۔ ہمارے خیال میں یہاں اس کی ضرورت نہ تھی وہ مسئلہ اپنی جگہ ہے جہاں اس کا موقعہ ہوگا ہم عرض کریں گے۔ اس مسئلے کی نوعیت صرف اس قدر ہے کہ اہل سنت کے نزدیک بندے کو ارادہ اور قوت کسب حاصل ہے ۔ لیکن اتنی بات ایجاد فعل کے لئے کافی نہیں اللہ تعالیٰ کا یہ معمول اور دستور ہے کہ جب بندہ کسی فعل کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس فعل کو پیدا کردیتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کو خالق افعال اور بندے کو کا سب افعال کہا جاتا ہے اور اسی کسب پر بندے سے مواخذہ کیا جاتا ہے اس کی مثال اپنے اکابر اس طرح دیا کرتے ہیں۔ کہ فرض کرو کسی بادشاہ کے ہاں ایک بہت بڑا پتھر ہے جسے کوئی شخص نہ ہلا سکتا ہے نہ اٹھا سکتا ہے لیکن اگر بادشاہ اس پتھر کو اٹھانا چاہے تو وہ اٹھ جاتا ہے بادشاہ نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ دیکھو اس پتھر کا اٹھانا ہمارے قانون میں سخت جرم ہے لیکن ہمارا یہ دستور ہے کہ جو شخص اس پتھر کو اٹھانے کے ارادے سے اس کے قریب جائے گا اور سا کو ہاتھ لگائے گا تو یہ پتھر ہمارے حکم سے اٹھ جائے گا اور وہ شخص اس کا مجرم قرار دیا جائے گا کیونکہ نہ وہ اس پتھر کے اٹھانے کا ارادہ کرتا اور نہ وہ اس کے قریب جاتا اور نہ یہ پتھر اٹھتا اگرچہ یہ پتھر اس مقررہ دستور کے موافق ہی اٹھا لیکن جب ہم نے یہ دستور بتا رکھا ہے کہ جو اس کو اٹھانے کا ارادہ کرے گا اور اس کو ہاتھ لگائے گئے تو دیکھو یہ پتھر اٹھ جائے گا اور وہ شخص اس پتھر کو اٹھانے کا مجرم قرار دیا جائے گا اس مثال سے خلق اور کسب کا فرق ہر سمجھدار آدمی کی سمجھ میں آسکتا ہے اب جو شخص بھی کسی فعل کا ارادہ کرتا ہے اور اس ممنوعہ پتھر کو اٹھانے کا ارادہ کرتا ہے اور اس کو اٹھانے پر آمادہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے مقررہ دستور کے مطابق اس پتھر کو اٹھا دیتا ہے یعنی اس فعل کو جس کے ارتکاب کا بندے نے پختہ ارادہ کرلیا ہے اللہ تعالیٰ اس کو پیدا کردیتا ہے۔ معتزلہ افعال عباد کا خلاق بھی عباد ہی کو مانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو افعال کا خلاق قرار نہیں دیتے یہ وہ اختلاف ہے جس کو یہاں بعض حضرات نے بیان کیا ہے اور کل من عند اللہ سے اہل سنت کے مذہب کو ثابت کیا ہے لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ یہاں اس کی ضرورت نہ تھی یہاں تو صرف اتنی ہ بات بتانی مقصود تھی جو ہم نے تسہیل میں عرض کردی۔ بہرحال ! اب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عام رسالت اور اپنی شہادت کا اعلان کرنے کے بعد پیغمبر کی اطاعت کا ذکر فرماتے ہیں کیونکہ جب یہ اعلان ہوگیا کہ آپ ہمارے بھیجے ہوئے اور تمام بنی نوع انسان بلکہ جنتا کے بھی آپ ہی پیغمبر ہیں اور حضرت حق نے اس پیغمبری پر اپنی شادت بھی ثبت فرما دی تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرستادے کا حکم نہ مانا جائے کیونکہ جب وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے تو اب وہ جو کچھ کہے گا وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کا فرمان ہوگا اور اس کی اطاعت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہوگی اور اس اعلان اطاعت کے ساتھ آپ کو تسلی بھی دی گئی ہے اور پھر منافقین کا ذکر شروع ہوگیا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)