Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 80

سورة النساء

مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۚ وَ مَنۡ تَوَلّٰی فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا ﴿ؕ۸۰﴾

He who obeys the Messenger has obeyed Allah ; but those who turn away - We have not sent you over them as a guardian.

اس رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالٰی کی فرمانبرداری کی اور جو منہ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Obeying the Messenger is Obeying Allah Allah says; مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ ... He who obeys the Messenger, has indeed obeyed Allah, Allah states that whoever obeys His servant and Messenger, Muhammad, obeys Allah; and whoever disobeys him, disobeys Allah. Verily, whatever the Messenger utters is not of his own desire, but a revelation inspired to him. ...  Ibn Abi Hatim recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللهَ وَمَنْ أَطَاعَ الاَْمِيرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي وَمَنْ عَصَى الاَْمِيرَ فَقَدْ عَصَانِي Whoever obeys me, obeys Allah; and whoever disobeys me, disobeys Allah. Whoever obeys the Amir (leader, ruler), obeys me; and whoever disobeys the Amir, disobeys me. This Hadith was recorded in the Two Sahihs. Allah's statement, ... وَمَن تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا But he who turns away, then We have not sent you as a watcher over them. means, do not worry about him. Your job is only to convey, and whoever obeys you, he will acquire happiness and success and you will gain a similar reward to that he earns. As for the one who turns away from you, he will gain failure and loss and you will not carry a burden because of what he does. A Hadith states, مَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ رَشَدَ وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّهُ لاَ يَضُرُّ إِلاَّ نَفْسَه Whoever obeys Allah and His Messenger, will acquire guidance; and whoever disobeys Allah and His Messenger, will only harm himself. The Foolishness of the Hypocrites Allah said,   Show more

ظاہر وباطن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطیع بنا لو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرے بندے اور رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تابعدار صحیح معنی میں میرا ہی اطاعت گزار ہے آپ کا نافرمان میرا نافرمان ہے ، اس لئے کہ آپ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے جو فرماتے ہیں وہ وہی ہوتا ہے جو میری طرف...  سے وحی کیا جاتا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری ماننے والا اللہ تعالیٰ کی ماننے والا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی بات نہ مانی جس نے امیر کی اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی یہ حدیث بخاری و مسلم میں ثابت ہے ، پھر فرماتا ہے جو بھی منہ موڑ کر بیٹھ جائے تو اس کا گناہ اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر نہیں آپ کا ذمہ تو طرف پہنچا دینا ہے ، جو نیک نصیب ہوں گے مان لیں گے نجات اور اجر حاصل کرلیں گے ہاں ان کی نیکیوں کا ثواب آپ کو بھی ہو گا کیونکہ دراصل اس راہ کا راہبر اس نیکی کے معلم آپ ہی ہیں ۔ اور جو نہ مانے نہ عمل کرے تو نقصان اٹھائے گا بدنصیب ہو گا اپنے بوجھ سے آپ مرے گا اس کا گناہ آپ پر نہیں اس لئے کہ آپ نے سمجھانے بجھانے اور راہ حق دکھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔ حدیث میں ہے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرنے ولا رشد وہدایت والا ہے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نافرمان اپنے ہی نفس کو ضرور نقصان پہنچانے والا ہے ، پھر منافقوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ ظاہری طور پر اطاعت کا اقرار کرتے ہیں موافقت کا اظہار کرتے ہیں لیکن جہاں نظروں سے دور ہوئے اپنی جگہ پر پہنچے تو ایسے ہوگئے گویا ان تلوں میں تیل ہی نہ تھا جو کچھ یہاں کہا تھا اس کے بالکل برعکس راتوں کو چھپ چھپ کر سازشیں کرنے بیٹھ گے حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کی ان پوشیدہ چالاکیوں اور چالوں کو بخوبی جانتا ہے اس کے مقرر کردہ زمین کے فرشتے ان کی سب کرتوتوں اور ان کی تمام باتوں کو اس کے حکم سے ان کے نامہ اعمال میں لکھ رہے ہیں پس انہیں ڈانٹا جا رہا ہے کہ یہ کیا بیہودہ حرکت ہے؟ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اس سے تمہاری کوئی بات چھپ سکتی ہے؟ تم کیوں ظاہر و باطن یکساں نہیں رکھتے ، ظاہر باطن کا جاننے والا تمہیں تمہاری اس بیہودہ حرکت پر سزا دے گا ایک اور آیت میں بھی منافقوں کی اس خصلت کا بیان ان الفاظ میں فرمایا ہے ( وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلّٰى فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ ۭ وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ ) 24 ۔ النور:47 ) پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ آپ ان سے درگزر کیجئے بردباری برتئے ، ان کی خطا معاف کیجئے ، ان کا حال ان کے نام سے دوسروں سے نہ کہئے ، ان سے بالکل بےخوف رہیے اللہ پر بھروسہ کیجئے جو اس پر بھروسہ کرے جو اس کی طرف رجوع کرے اسے وہی کافی ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٢] اس لیے کہ اللہ کے احکام کی اطاعت کا عملی نمونہ اللہ کا رسول ہی پیش کرسکتا ہے اور اس کے احکام کی حکمت اور منشا کو اس کا رسول ہی سب سے بہتر سمجھ سکتا ہے لہذا رسول کی اتباع اور اس کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہوگی۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی شخص رسول کے احکام سے اعراض کرتا ہے تو جبر واکراہ سے اطاعت ... کرانا رسول کی ذمہ داری نہیں ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ : چونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول اور مبلغ ہیں، اس لیے ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دوسرے شریعت کے احکام سب ایسے ہیں جنھیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توضیح کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں، لہٰذا قرآن مجید سمجھنے کے لیے کوئی شخص ... سنت سے بےنیاز نہیں ہوسکتا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ” الرسالۃ للشافعی “ رقم : ٥٧، ٥٨، ایضًا بحث البیان الرابع ] وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ : یعنی اس کے بعد بھی اگر لوگ گمراہ ہوتے ہیں تو اس کی ذمہ داری آپ پر نہیں، اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے۔ (رازی)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Previous to this, there was the affirmation of prophethood. Now comes the statement which establishes the right of prophethood - it calls for compulsory obedience. In case hostile people refuse to obey, there are words of comfort for the noble Prophet of Islam who has been absolved of any responsibility for their lack of obedience. The opening statement in the verse presents a very important prin... ciple bearing on the authority of the blessed Rasul of Allah. Here, the obedience to the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been equated with obedience to Allah. From this it follows that whoever disobeys the Prophet, invari¬ably disobeys the command of Allah. Since, obedience to Allah is oblig¬atory, even rationally - so, obedience to the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) also turns out to be equally obligatory. As for the person who, inspite of the truth being all too manifest, elects to turn his back and reject the message given by the Prophet, then, the Prophet has been asked not to worry about the callous behaviour of such people because Allah has not sent His Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to stand guard over their behaviour for which he is not responsible. It means that the Prophet of Allah is not duty-bound to see that they do not indulge in disbelief. He is simply not charged with the mission of stopping them from disbelieving. His mission is to deliver the Message. Once this is done, his duty as a Prophet stands fulfilled. After that, if they still go about disbelieving, it is their busi¬ness for which he is in no way accountable. (Maulana Ashraf Thanavi, Bayan al-Qura&n) 7  Show more

خلاصہ تفسیر جس شخص نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، (اور جس نے آپ کی نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اللہ کی اطاعت عقلاً بھی واجب ہے، پس آپ کی اطاعت بھی واجب ہوئی) اور جو شخص (آپ کی اطاعت سے) روگردانی کرے سو (آپ کچھ غم نہ کیجئے کیونکہ ہم...  نے) آپ کو (بطور ذمہ داری کے) ان کا نگران کر کے نہیں بھیجا (کہ آپ ان کو کفر نہ کرنے دیں، بلکہ آپ کا فرض پیغام پہنچا دینے سے پورا ہوجاتا ہے، اگر اس کے بعد بھی وہ کفر کریں تو آپ پر کسی باز پرس کا اندیشہ نہیں، آپ بےفکر رہیں۔ )   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہ۝ ٠ۚ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْہِمْ حَفِيْظًا۝ ٨٠ۭ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والط... َّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ حفظ الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] ( ح ف ظ ) الحفظ کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٠) اور جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ (آیت) ” وما ارسلنا من رسول “۔ (الخ) یعنی ہم نے ہر ایک رسول کو اسی لیے بھیجا ہے کہ بحکم الہی اس کی اطاعت کی جائے تو عبداللہ بن ابی منافق نے اپنے دیرینہ بغض کی بنا پر کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بجائے ان...  کی اطاعت کریں تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جس نے احکام میں رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت کی کیوں کہ رسول بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کے کسی چیز کا حکم نہیں دیتے۔ حاشیہ (وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی (النجم آیت ٣، ٤) (اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کام بھی فرماتے ہیں وہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کی وحی کے مطابق فرماتے ہیں) (مترجم)  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٠ (مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ ج) ۔ یہ ٹکڑا بہت اہم ہے۔ اس لیے کہ یہ دو ٹوک انداز میں واضح کر رہا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے یہ حدیث ملاحظہ کیجیے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ ... وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ ‘ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ ‘ وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ ‘ وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ ) (١) جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے میرے (مقرر کردہ) امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے (مقرر کردہ) امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ساری جدوجہد جماعتی نظم کے تحت ہو رہی تھی۔ جہاد و قتال کے لیے فوج تیارہوتی تو اس میں اوپر سے نیچے تک سمع وطاعت کی ایک زنجیر بنتی چلی جاتی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کمانڈر انچیف تھے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لشکر کے میمنہ ‘ میسرہ ‘ قلب اور عقب وغیرہ پر ‘ ہراول دستے پر الگ الگ کمانڈر مقرر فرماتے۔ ان امراء کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی ‘ اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا ) اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے آپ کو ان پر داروغہ مقرر نہیں کیا۔ اپنے طرز عمل کے یہ خود ذمہ دار اور جواب دہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو کر یہ اس کے محاسبے کا خود سامنا کرلیں گے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

110. Such people are responsible for their own conduct. It is they rather than the Prophet (peace be on him) who will be censured. The task entrusted to the Prophet (peace be on him) was merely to communicate to them the ordinances and directives of God and he acquitted himself of it very well. It was not his duty to compel them to follow the right way, so that if they failed to follow the teachin... gs communicated to them by the Prophet (peace be on him) the responsibility was entirely theirs. The Prophet (peace be on him) would not be questioned as to why they disobeyed.  Show more

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :110 یعنی اپنے عمل کے یہ خود ذمہ دار ہیں ۔ ان کے اعمال کی باز پرس تم سے نہ ہوگی ۔ تمہارے سپرد جو کام کیا گیا ہے وہ تو صرف یہ ہے کہ اللہ کے احکام و ہدایات ان تک پہنچا دو ۔ یہ کام تم نے بخوبی انجام دے دیا ۔ اب یہ تمہارا کام نہیں ہے کہ ہاتھ پکڑ کر انہیں زبردستی راہ راست...  پر چلاؤ ۔ اگر یہ اس ہدایت کی پیروی نہ کریں جو تمہارے ذریعہ سے پہنچ رہی ہے ، تو اس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ۔ تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ لوگ کیوں نافرمانی کرتے تھے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(80 ۔ 82) ۔ اوپر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کی گواہی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچا نبی ہونے کا ذکر فرمایا تھا اب ان آیتوں میں فرمایا کہ جب یہ نبی اللہ کے رسول ہیں اور لوگوں کو جو حکم کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فرمانے کے موافق کرتے ہیں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے تو ان کی فرمانبرداری...  عین اللہ کی فرمانبرداری ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری فرمانبرداری عین اللہ کی فرمانبرداری ہے۔ میری نافرمانی عین اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے ٢۔ یہ حدیث اس آیت کی پوری تفسیر ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو ارشاد فرماتا ہے کو جو کوئی اس فرمابنرداری میں گوتاہی کرے تو اے رسول اللہ کے ہم نے ایسے لوگوں کو تمہیں نگہبان نہیں ٹھہرایا اور پھر فرمانبرداری میں کوتاہی کرنے والوں منافقوں کی مذمت فرمائی کہ اے رسول کے وہ لوگ تمہارے روبرو تو فرمانبرداری کا اقرار کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے ہاتھ سے ان کی جان ان کے مال کو کوئی صدمہ نہ پہنچ جائے۔ لیکن تمہارے سامنے سے جب یہ لوگ ہٹ کر اپنے گھروں کو جاتے ہیں تو اپنے اقرار کے برخلاف راتوں کو مشورے کرتے ہیں۔ اور اللہ کے دفتر میں ان کی یہ سب کرتوت لکھے جاتے ہیں۔ دنیا میں اے رسول اللہ کے تم ان کو ان کے حال پر چھوڑدو وقت مقررہ پر اللہ ان سے خود بھگت لے گا۔ پھر فرمایا کہ اگر یہ لوگ قرآن کی فصاحت پر اس کی غیب کی خبروں پر اور ان خبروں کے بغیر کسی اختلاف کے آئندہ کے ظہور پر غور کرتے تو ان کو اچھی طرح یقین آجاتا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور جن پر یہ نازل ہوا وہ اللہ کے رسول ہیں مگر اللہ کے علم ازلی میں جن لوگوں کا نفاق کی حالت میں دنیا سے اٹھنا قرار پاچکا ہے وہ اس راستہ پر کبھی نہ آئیں گے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:80) حفیظا۔ نگہبان۔ حفاظت کرنے والا۔ حفظ سے بروزن فعیل بمعنی فاعل۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ اللہ کے رسول اور مبلغ ہیں اس لیے ان کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دیگر احکام شریعت ایسے ہیں جن کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توضیح کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں ہے لہذا قرآن کے لیے کوئی شخص سنت سے بےنیاز نہیں ہوسکتا۔ ... جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طاعت عین طاعت الہیٰ ہے۔ (تفصیل کے لیے ملا حظہ ہو الرسالتہ للشافع رقم 57 ۔ 85 (الربع)11 یعنی اس کے بعد بھی اگر لوگ گمراہ ہوتے ہیں تو اس کی ذمہ داری آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نہیں ہے اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے۔ (کبیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اور جس نے آپ کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہے اس آیت کریمہ میں فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری اللہ ہی کی فرمانبرداری ہے۔ معالم التنزیل (صفحہ ٤٥٥: ج ١) میں اس کا سبب نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ ارشاد فرمایا کہ من اطاعنی فقد اطاع اللّٰ... ہ و من اجبّنی فقد احب اللّٰہ (جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی) تو بعض منافقین نے کہا کہ بس جی یہ آدمی تو یہ چاہتا ہے کہ ہم اسے رب ہی بنا لیں۔ جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو رب بنایا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت بالا نازل فرمائی۔ جس میں یہ بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری اللہ تعالیٰ کی ہی فرمانبرداری ہے کیونکہ آپ جو کچھ دیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ پیغام پہنچانے والے واسطہ سے جو پیغام پہنچے اور اس پر عمل کیا جائے وہ پیغام بھیجنے والے کے ہی حکم پر عمل کرنا ہوتا ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ پیغام لانے والا رب ہوجائے۔ نصاریٰ نے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت و رسالت کے درجہ سے آگے بڑھا دیا ان کو خدا کا بیٹا بتادیا اور ان کو الوہیت کا درجہ دے دیا۔ کہاں نصاریٰ کی جہالت اور حماقت اور کہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ فتنہ انکار حدیث پر ایک نظر : دور حاضر میں جن لوگوں نے انکار حدیث کا فتنہ اٹھا رکھا ہے آیت شریفہ میں ان کا بھی جواب ہے یہ لوگ عوام کو طرح طرح کی باتیں کر کے بہکاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ قول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجت نہیں (العباذ باللہ) قرآن مجید میں جگہ جگہ اطاعت رسول اور اتباع رسول کا حکم دیا گیا ہے۔ اور آپ کو مقتدا بتایا ہے اور فرمایا ہے (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ) اور آپ کے بارے میں فرمایا ہے (یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیّبَاتِ وُ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبَآءِثَ ) (وہ حلال قرار دیتے ہیں ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو اور خبیث چیزوں کو ان پر حرام قرار دیتے ہیں) قرآن مجید مجمل ہے تفصیلی احکام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتائے ہیں جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال و افعال کو شرعی حجت نہ مانے وہ درحقیقت قرآن کا بھی منکر ہے۔ منکریں حدیث نے اہل قرآن ہونے کا لیبل تو لگا لیا اور حقیقت میں قرآن و حدیث دونوں کے منکر ہیں جو قرآن ماننے کا دعویدار ہے وہ قرآن کی اس بات کو کیوں نہیں مانتا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور اتباع اوراقتداء فرض ہے اور آپ کے اتباع کو اللہ کا محبوب بننے کا ذریعہ بتایا ہے (قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ) آپ کا کام صرف ابلاغ ہے : پھر فرمایا کہ (وَ مَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا) ( جو شخص روگرانی کرے آپ کی ہدایت قبول نہ کرے راہ حق اختیار نہ کرے تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آپ کے ذمہ پہنچا دینا ہے زبردستی عمل کروانا آپ کے ذمہ نہیں ہے) اگر کوئی شخص ایمان قبول نہ کرے تو آپ سے کسی قسم کی باز پرس نہیں۔ کما قال تعالیٰ (فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظاً و کما قال تعالیٰ فَذَکِّرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ لَّسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ ) ۔ صاحب معالم التنزیل اور صاحب در منثور نے بعض علماء کا قول نقل کیا ہے کہ یہ جہاد فرض ہونے سے پہلے کی بات ہے جب کہ آپ کی بعثت کا ابتدائی زمانہ تھا بعد میں جہاد کا اور سختی کرنے کا حکم نازل ہوا۔ اور جن آیات میں قتال کا حکم ہے وہ اس مضمون کے لیے ناسخ ہوگئیں۔ نسخ کی بات اسی صورت میں صحیح ہے جبکہ آیت کا مضمون یہ ہو کہ ابھی جہاد و قتال نہ کرو اور اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا مقصود ہو کہ آپ ہدایت قبول نہ کرنے والوں کی طرف سے فکر مند نہ ہوں کیونکہ آپ کے ذمہ صرف پہنچانا ہے قبول کرانا نہیں ہے تو منسوخ کہتے کی کوئی وجہ نہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi