Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 82

سورة النساء

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ وَ لَوۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ غَیۡرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوۡا فِیۡہِ اخۡتِلَافًا کَثِیۡرًا ﴿۸۲﴾

Then do they not reflect upon the Qur'an? If it had been from [any] other than Allah , they would have found within it much contradiction.

کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Qur'an is True Allah says; أَفَلَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْانَ ... Do they not then consider the Qur'an carefully! Allah commands them to contemplate about the Qur'an and forbids them from ignoring it, or ignoring its wise meanings and eloquent words. Allah states that there are no inconsistencies, contradictions, conflicting statements or discrepancies in the Qur'an, because it is a revelation from the Most-Wise, Worthy of all praise. Therefore, the Qur'an is the truth coming from the Truth, Allah. This is why Allah said in another Ayah, أَفَلَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْانَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا Do they not then think deeply in the Qur'an, or are their hearts locked up (from understanding it). (47:24) Allah then said, ... وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ ... Had it been from other than Allah, meaning, had it been fraudulent and made up, as the ignorant idolators and hypocrites assert in their hearts. ... لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلَفًا ... they would surely, have found therein contradictions, discrepancies and inconsistencies ... كَثِيرًا in abundance. However, this Qur'an is free of shortcomings, and therefore, it is from Allah. Similarly, Allah describes those who are firmly grounded in knowledge, ءَامَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا We believe in it, all of it is from our Lord. (3:7) meaning, the Muhkam sections (entirely clear) and the Mutashabih sections (not entirely clear) of the Qur'an are all true. So they understand the not entirely clear from the clear, and thus gain guidance. As for those in whose heart is the disease of hypocrisy, they understand the Muhkam from the Mutashabih; thus only gaining misguidance. Allah praised those who have knowledge and criticized the wicked. Imam Ahmad recorded that `Amr bin Shu`ayb said that his father said that his grandfather said, "I and my brother were present in a gathering, which is more precious to me than red camels. My brother and I came and found that some of the leaders of the Companions of the Messenger of Allah were sitting close to a door of his. We did not like the idea of being separate from them, so we sat near the room. They then mentioned an Ayah and began disputing until they raised their voices. The Messenger of Allah was so angry that when he went out his face was red. He threw sand on them and said to them, مَهْلً يَا قَوْمِ بِهَذَا أُهْلِكَتِ الاُْمَمُ مِنْ قَبْلِكُمْ بِاخْتِلَفِهِمْ عَلى أَنْبِيَايِهِمْ وَضَرْبِهِمِ الْكُتُبَ بَعْضَهَا بِبَعْضٍ إِنَّ الْقُرْانَ لَمْ يَنْزِلْ يُكَذِّبُ بَعْضُهُ بَعْضًا إِنَّمَا يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا فَمَا عَرَفْتُمْ مِنْهُ فَاعْمَلُوا بِهِ وَمَا جَهِلْتُمْ مِنْهُ فَرُدُّوهُ إِلى عَالِمِه Behold, O people! This is how the nations before you were destroyed, because of their disputing with their Prophets and their contradicting parts of the Books with other parts. The Qur'an does not contradict itself. Rather, it testifies to the truth of itself. Therefore, whatever of it you have knowledge in, then implement it, and whatever you do not know of it, then refer it to those who have knowledge in it." Ahmad recorded that Abdullah bin `Amr said, "I went to the Messenger of Allah one day. When we were sitting, two men disputed about an Ayah, and their voices became loud. The Prophet said, إِنَّمَا هَلَكَتِ الاُْمَمُ قَبْلَكُمْ بِاخْتِلَفِهِمْ فِي الْكِتَاب Verily, the nations before you were destroyed because of their disagreements over the Book. Muslim and An-Nasa'i recorded this Hadith. The Prohibition of Disclosing Unreliable and Uninvestigated News Allah said,

کتاب اللہ میں اختلاف نہیں ہمارے دماغ میں فتور ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ قرآن کو غور و فکر تامل و تدبر سے پڑھیں اس سے تغافل نہ برتیں ، بےپرواہی نہ کریں اس کے مستحکم مضامین اس کے حکمت بھرے احکام اس کے فصیح و بلیغ الفاظ پر غور کریں ، ساتھ یہ خبر دیتا ہے کہ یہ پاک کتاب اختلاف ، اضطراب ، تعارض اور تضاد سے پاک ہے اس لئے کہ حکم و حمید اللہ کا کلام ہے وہ خود حق ہے اور اسی طرح اس کا کلام بھی سراسر حق ہے ، چنانچہ اور جگہ فرمایا ( اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا ) 47 ۔ محمد:24 ) یہ لوگ کیوں قرآن میں غور و خوض نہیں کرتے؟ کیا ان کے دلوں پر سنگین قفل لگ گئے ہیں ، پھر فرماتا ہے اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہ ہوتا جیسے کہ مشرکین اور منافقین کا زعم ہے یہ اگر یہ فی الحقیقت کسی کا اپنی طرف سے وضع کیا ہوا ہوتا یا کوئی اور اس کا کہنے والا ہوتا تو ضروری بات ًتھی کہ اس میں انسانی طبائع کے مطابق اختلاف ملتا ، یعنی ناممکن ہے کہ انسانی اضطراب و تضاد سے مبرا ہو لازماً یہ ہوتا کہ کہیں کچھ کہا جاتا اور کہیں کچھ اور یہاں ایک بات کہی تو آگے جا کر اس کے خلاف بھی کہہ گئے ۔ چنانچہ عالموں کا قول بیان کیا گیا ہے کہ وہ کہے ہیں ہم اس پر ایمان لائے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں یعنی محکم اور متشابہ کو محکم کی طرف لوٹا دیتے ہیں اور ہدایت پالیتے ہیں اور جن کے دلوں میں کجی ہے بد نیتی ہے وہ محکم متشابہ کی طرف موڑ توڑ کر کے گمراہ ہو جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پہلے صحیح مزاج والوں کی تعریف کی اور دوسری قسم کے لوگوں کی برائی بیان فرمائی عمرو بن شعیب سے مروی ہے عن ابیہ عن جدہ والی حدیث میں ہے کہ میں ہے کہ میں اور میرے بھائی ایک ایسی مجلس میں شامل ہوئے کہ اس کے مقابلہ میں سرخ اونٹوں کا مل جانا بھی اس کے پاسنگ برابر بھی قیمت نہیں رکھتا ہم دونوں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر چند بزرگ صحابہ کھڑے ہوئے ہیں ہم ادب کے ساتھ ایک طرف بیٹھ گئے ان میں قرآن کریم کی کسی آیت کی بابت مذاکرہ ہو رہا تھاجس میں اختلافی مسائل بھی تھے آخر بات بڑھ گئی اور زور زور سے آپس میں بات چیت ہونے لگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سن کر سخت غضبناک ہو کرباہر تشریف لائے چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا ان پر مٹی ڈالتے ہوئے فرمانے لگے خاموش رہو تم سے اگلی امتیں اسی باعث تباہ و برباد ہو گئیں ، کہ انہوں نے اپنے انبیاء سے اختلاف کیا اور کتاب اللہ کی ایک آیت کو دوسری آیت کے خلاف سمجھایاد رکھو قرآن کی کوئی آیت دوسری آیت کے خلاف اسے جھٹلانے والی نہیں بلکہ قرآن کی ایک ایک آیت ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہے تم جسے جان لو عمل کرو جسے نہ معلوم کر سکو اس کے جاننے والے کے لئے چھوڑ دو ۔ دوسری آیت میں ہے کہ صحابہ تقدیر کے بارے میں مباحثہ کر رہے تھے ، راہی کہتے ہیں کہ کاش کہ میں اس مجلس میں نہ بیٹھتا ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دوپہر کے وقت حاضر حضور ہوا تو بیٹھا ہی تھا کہ ایک آیت کے بارے میں دو شخصوں کے درمیان اختلاف ہوا ان کی آوازیں اونچی ہوئیں تو آپ نے فرمایا تم سے پہلی امتوں کی ہلاکت کا باعث صرف ان کا کتاب اللہ کا اختلاف کرنا ہی تھا ( مسند احمد ) ۔ پھر ان جلد باز لوگوں کو روکا جا رہا ہے جو کسی امن یا خوف کی خبر پاتے ہی بےتحقیق بات ادھر سے ادھر تک پہنچا دیتے ہیں حالانکہ ممکن ہے وہ بالکل ہی غلط ہو ، صحیح مسلم شریف میں ہے جو شخص کوئی بات بیان کرے اور وہ گمان کرتا ہو کہ یہ غلط ہے وہ بھی جھوٹوں میں کا ایک جھوٹا ہے ، یہاں پر ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی روایت کا ذکر کرنا بھی مناسب سمجھتے ہیں کہ جب انہیں یہ خبری پہنچا کہ حضور علیہ السلام نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تو آپ اپنے گھر سے چلے مسجد میں آئے یہاں بھی لوگوں کو یہی کہتے سنا تو بذات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے اور خود آپ سے دریافت کیا کہ کیا یہ سچ ہے؟ کہ آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی؟ آپ نے فرمایا غلط ہے چنانچہ فاروق اعظم نے اللہ کی بڑائی بیان کی ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ پھر مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر بہ آواز بلند فرمایا لوگو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق نہیں دی ۔ اسی پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ پس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ ہیں جنہوں نے اس معاملہ کی تحقیق کی ۔ علمی اصطلاح میں استنباط کہتے ہیں کسی چیز کو اس کے منبع اور مخزن سے نکالنا مثلاً جب کوئی شخص کسی کان کو کھود کر اس کے نیجے سے کوئی چیز نکالے تو عرب کہتے ہیں استنبط الرجل پھر فرماتا ہے اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و رحم تم پر نہ ہوتا تو تم سب کے سب سوائے چند کامل ایمان والوں کے شیطان کے تابعدار بن جاتے ایسے موقعوں پر محاورۃ معنی ہوتے ہیں کہ تم کل کے کل شامل ہو چنانچہ عرب کے ایسے شعر بھی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

82۔ 1 قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اس میں غور و تدبر کی تاکید کی جا رہی ہے اور اس کی صداقت جانچنے کے لئے ایک معیار بھی بتلایا گیا کہ اگر یہ کسی انسان کا بنایا ہوا کلام ہوتا (جیسا کہ کفار کا خیال ہے) اس کے مضامین اور بیان کردہ واقعات میں تعارض و تناقص ہوتا۔ کیونکہ ایک تو یہ کوئی چھوٹی سی کتاب نہیں ہے۔ ایک ضخیم اور مفصل کتاب ہے، جس کا ہر حصہ اعجاز و بلاغت میں ممتاز ہے۔ حالانکہ انسان کی بنائی ہوئی بڑی تصنیف میں زبان کا معیار اور اس کی فصاحت و بلاغت قائم ہی نہیں رہتی، دوسرے، اس میں پچھلی قوموں کے واقعات بھی بیان کئے گئے ہیں۔ جنہیں اللہ علام الغیوب کے سواء کوئی اور بیان نہیں کرسکتا۔ تیسرے ان حکایات و قصص میں نہ باہمی تعارض و تضاد ہے اور نہ ان کا چھوٹے سے چھوٹا کوئی جزئیہ قرآن کی کسی اصل سے ٹکراتا ہے۔ حالانکہ ایک انسان گزشتہ واقعات بیان کرے تو تسلسل کی کڑیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور ان کی تفصیلات میں تعارض و تضاد واقع ہوتا ہے۔ قرآن کریم کے ان تمام انسانی کوتاہیوں سے مبراء ہونے کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ یقینا کلام الٰہی ہے اس نے فرشتے کے ذریعے سے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٤] قرآن میں اختلاف نہ ہونا ہی منزل من اللہ ہونے کی دلیل ہے :۔ منافقوں کی جن باتوں پر انہیں تنبیہ کی گئی ہے ان کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں قرآن کے منزل من اللہ ہونے میں بھی شک تھا۔ اس آیت میں اس شک کو دور کرنے کی عقلی دلیل پیش کی گئی ہے جو یہ ہے، کہ انسان کی حالت یہ ہے کہ بچپن میں اس کی عقل ناپختہ ہوتی ہے۔ جوانی میں قدرے ترقی کر جاتی ہے اور پختہ عمر میں عقل بھی پختہ ہوجاتی ہے اور اس کے ان تینوں ادوار کے کلام میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ پھر زندگی بھر اس کے نظریات بدلتے رہتے ہیں۔ بچپن میں خیالات و نظریات اور طرح کے ہوتے ہیں، جوانی میں اور طرح کے اور بڑھاپے میں اور طرح کے۔ پھر انسان جس شہر یا ملک میں جاتا ہے تو وہاں کے معاشرتی ماحول کا اثر قبول کرلیتا ہے۔ پھر کبھی انسان غصہ کی حالت میں ہوتا ہے تو سب مخاطبوں کو دہشت زدہ بنا دیتا ہے۔ یہی افراط وتفریط کی کیفیت اس کے ہر قسم کے جذبات میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہے۔ گویا اگر کسی بھی ایک انسان کے زندگی بھر کے کلام کا مجموعہ تیار کیا جائے تو اس میں سینکڑوں اختلافات اور تضادات آپ کو مل جائیں گے اس کے برعکس اب اللہ کے کلام پر نظر ڈالیے جو ٢٣ سال تک مختلف اوقات اور مختلف پس مناظر اور مختلف مواقع پر نازل ہوتا رہا۔ جو آخر میں ترتیب پا کر ایک مجموعہ بن گیا۔ اب دیکھیے ادبی لحاظ سے اس کی فصاحت و بلاغت میں کہیں کوئی فرق ہے ؟ یا اس کے نظریات میں، اس کی اخلاقی اقدار کی تعیین میں کوئی اختلاف آپ دیکھتے ہیں ؟ یا ایسی صورت ہے کہ مثلاً اگر یہود پر عتاب نازل ہوا ہو تو سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا گیا ہو۔ اور اس میں سے ان کے اچھے لوگوں کو مستثنیٰ نہ کیا گیا ہو۔ اور ان کی خوبیاں الگ بیان نہ کردی گئی ہوں ؟ غرض جتنے بھی پہلو آپ سامنے لائیں گے آپ اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ انسان کا کلام نہیں ہوسکتا اور اس کو نازل کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہوسکتا ہے۔ سرسری نظر دیکھنے سے اگرچہ قرآن میں کچھ اختلافات نظر آتے ہیں لیکن اس کی وجہ عدم رسوخ یا قرآن کے جملہ مضامین پر پوری طرح مطلع نہ ہونا ہوتا ہے اور اس قسم کے اختلافات کا جواب بھی قرآن ہی سے مل جاتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے : قرآن میں اختلاف معلوم ہو تو اس کی وجہ نافہمی ہے۔ سعید بن جبیر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص سیدنا ابن عباس (رض) کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں تو قرآن میں کئی اختلافات کی باتیں پاتا ہوں۔ مثلاً ١۔ ایک آیت میں ہے (فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ ١٠١۔ ) 23 ۔ المؤمنون :101) (قیامت کے دن ان میں کوئی رشتہ حائل نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے) اور دوسرے مقام پر ہے ( وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَاۗءَلُوْنَ 27 ؀) 37 ۔ الصافات :27) ان میں سے کچھ ان کے سامنے آ کر ایک دوسرے سے سوال کریں گے) ٢۔ ایک آیت میں ہے (وَلَا يَكْتُمُوْنَ اللّٰهَ حَدِيْثًا 42؀ ) 4 ۔ النسآء :42) (وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے) اور دوسری آیت میں ہے کہ قیامت کے دن مشرکین کہیں گے (وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ 23؀) 6 ۔ الانعام :23) (اللہ کی قسم ! ہم شرک نہیں کیا کرتے تھے) گویا وہ اصل بات چھپائیں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا ( ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ ۭ بَنٰىهَا 27؀۪) 79 ۔ النازعات :27) تک۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کی پیدائش زمین سے پہلے ہوئی اور سورة حٰم السجدہ میں فرمایا ( قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَهٗٓ اَنْدَادًا ۭذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ۝ۚ ) 41 ۔ فصلت :9) ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ زمین آسمان سے پہلے پیدا ہوئی۔ ٤۔ نیز فرمایا (وَکَان اللّٰہُ غَفُوْراً رَّحِیْماً ۔۔ عَزِیْزاً حَکِیْماً ۔۔ سَمِیْعاً بَصِیْراً ) ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان صفات سے زمانہ ماضی میں موصوف تھا مگر اب نہیں۔ سیدنا ابن عباس (رض) نے ان سوالوں کے جواب میں فرمایا : ١۔ (فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ ١٠١۔ ) 23 ۔ المؤمنون :101) میں اس وقت کا ذکر ہے جب پہلی دفعہ صور پھونکا جائے گا اور آسمان و زمین والے سب بےہوش ہوجائیں گے اس وقت نہ کوئی رشتہ ناطہ رہے گا اور نہ ایک دوسرے سے کچھ بھی پوچھنے کا ہوش ہوگا۔ اور دوسری آیت میں جو ایک دوسرے سے سوال کرنے کا ذکر ہے یہ دوسرے نفخہ ئصور کے بعد ہوگا۔ ٢۔ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ اخلاص والوں (موحدین) کے گناہ بخش دے گا تو مشرک آپس میں صلاح کریں گے کہ چلو ہم بھی جا کر کہہ دیتے ہیں کہ & ہم مشرک نہیں تھے & تو اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ اور پاؤں بولنا شروع کردیں گے اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ سے کوئی بات چھپائی نہیں جاسکتی۔ یہی وہ وقت ہوگا کہ جب کافر یہ آرزو کریں گے کہ کاش وہ (دنیا میں) مسلمان ہوتے۔ ٣ آسمان اور زمین کی تخلیق میں ترتیب :۔ اللہ تعالیٰ نے (پہلے) زمین کو دو دن میں پیدا کیا۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو اگلے دو دنوں میں ان کو (سات آسمان) بنایا۔ اس کے بعد زمین کو پھیلایا اور زمین کا پھیلانا یہ ہے کہ اس سے پانی نکالا، گھاس، چارہ پیدا کیا۔ پہاڑ، جانور اور ٹیلے وغیرہ اگلے دو دنوں میں بنائے۔ اس طرح زمین و آسمان کی پیدائش چھ دنوں میں مکمل ہوئی اور چار دن (دو ابتدائی، دو آخری) زمین کی پیدائش اور اسے سنوارنے میں لگے۔ ٤۔ & کَانَ & کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفات ازلی ہیں اور یہ سب اس کے نام ہیں یعنی وہ ہمیشہ سے ان صفات کا ملک ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ جو چاہے وہ کرسکتا ہے۔۔ گویا اب کوئی اختلاف نہ رہا۔ اور ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ یہ سارا قرآن اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے (بخاری، کتاب التفسیر سورة حٰم السجدہ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭ۔ : منافقین کے مکر و فریب اور مذموم خصائل کے ضمن میں قرآن کی حقانیت کے اثبات کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ منافقین یہ سب مکر و فریب اور سازشیں اس بنا پر کر رہے تھے کہ وہ آپ کو سچا نبی نہیں سمجھتے تھے، لہٰذا یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق نبوت پر بطور دلیل کے قرآن کو پیش کیا اور قرآن حکیم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق نبوت کی تین وجہوں سے دلیل بنتا ہے، اول اپنی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے۔ [ دیکھیے البقرۃ : ٢٣ ] دوم امور غیب کی خبروں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اور سوم اختلاف و تناقض سے پاک اور مبرا ہونے کی بنا پر۔ یہاں اسی تیسری چیز کو بیان فرمایا ہے۔ (رازی) مطلب یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں کہ ایک انسان برس ہا برس تک مختلف حالتوں میں مختلف موضات پر، خصوصاً امور غیب سے متعلق اس قدر تفصیل سے گفتگو کرتا رہے اور اس کی ایک بات بھی دوسری سے متصادم نہ ہو۔ یہ خصوصیت صرف قرآن میں پائی جاتی ہے، جو غور و فکر کرنے والے کے لیے اس کے کلام الٰہی ہونے کی دلیل ہے۔ (شوکانی) اختلاف سے پاک ہونا درجۂ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ کوئی انسان خواہ کتنا ہی فصیح و بلیغ کیوں نہ ہو، جب اتنی بڑی کتاب لکھے گا تو اس کے کلام میں قدرے تفاوت ضرور ہوگا اور ساری کتاب بلاغت میں یکساں مرتبہ کی نہیں ہوگی۔ پھر یہ منافقین خفیہ طور پر سازشیں کرتے رہتے ہیں اور وحی کے ذریعے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے بھید من و عن بتا دیے جاتے ہیں اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ کسی راز کے افشا کرنے میں قرآن نے تھوڑی بہت بھی غلطی کی ہو اور یہی اس کے کلام الٰہی ہونے کی دلیل ہے۔ (رازی) معلوم ہوا کہ قرآن پاک میں تدبر کے بغیر انسان کے شکوک و شبہات دور نہیں ہوسکتے اور نہ قرآن صحیح طور پر سمجھ میں آسکتا ہے۔ قرآن کریم اگر غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو اس میں اختلاف کثیر ہوتا، اب یہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس لیے اختلاف کثیر کجا، سرے سے اس میں اختلاف ہے ہی نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Deliberation in the Qur&an Verse 82 begins with: أَفَلَا يَتَدَبَّرُ‌ونَ الْقُرْ‌آنَ (Do they not, then, ponder in the Qur&an?) Through this verse, Allah Almighty invites people to delib¬erate in the Qur&an. Noteworthy here are a few points. First of all, the words used are: أَفَلَا يَتَدَبَّرُ‌ونَ (Do they not, then, ponder ...) and not اَفَلَا یقرؤُنَ (Do they not, then, recite.) Obviously, there is a delicate hint being given through this verse which is suggesting that if they were to look at the Qur&an deeply, they would find no discrepancy in its words and meanings. This sense can come only through the use of the word, تَدَبُّر &tadabbur& which means to ponder or deliberate. A plain recitation which is devoid of deliberation and deep thinking may lead one to start seeing contradictions which really do not exist there. The second point which emerges from this verse is that the Qur&an itself demands that every human being should ponder over its mean¬ings. Therefore, to suppose that pondering in the Qur&an is the exclu¬sive domain of its highest and the ablest exponents (the Imams and Mujtahids) is not correct. However, it is also true that the levels of deliberation will be different in terms of the different levels of knowl¬edge and understanding. The deliberation of the great exponents will deduce the solution of thousands of problems from every single verse, while the deliberation of a common scholar will reach only as far as the very comprehension of such problems and their solutions. When common people recite the Qur&an and deliberate in its meanings through the medium of its translation and explanation in their own language, this will impress upon their hearts the greatness of Allah Almighty, develop love for Him and implant there a concern for the life-to-come, the Akhirah. This is the master key to success. However, in order that common people stay safe from falling into doubts and misunderstandings, it is better that they should study the Qur&an, lesson by lesson, under the guidance of an عَالِم ` alim. If this cannot be done, take to the study of some authentic and reliable tafsir (commentary, exegesis). Should some doubt arise during the course of such study, the wiser course is not to go for a solution on the basis of personal opinion, instead of which, one should consult expert scholars. No group or individual holds monopoly on the exegesis and explication of Qur&an and Sunnah, but there are conditions for it The verse under reference tells us that everyone has the right to ponder in the Qur&an. But, as we have said earlier, the levels of تَدَبُر &tadabbur& (deliberation) are different. Each one is governed by a separate rule. Let us take the serious deliberation of a great exponent, the &tadabbur& of a master mujtahid. Through this methodology, solutions to problems are deduced from the Holy Qur&an at the highest level. For this purpose, it is necessary that one who is pondering in the Qur&an, should first acquaint himself with the basic rules employed in such deduction in order that the results he achieves are correct and sound. In case, he fails to arm himself with the basic postulates to begin with, or in case, his education and training in this discipline remain faulty; and in case, he does not ultimately possess the qualifi¬cations and conditions that must be found in a mujtahid exponent, then, it is obvious that he would come up with the wrong set of results. Now, this is a situation in which better-equipped scholars may chal¬lenge and contradict them, something they would be doing rightfully. Think of a person who has never even walked the corridors of a medical college, yet he starts objecting as to why only trained doctors have been allowed to hold a monopoly of all medical treatment in the country, and why is it that he as a human being has not been allowed to exercise the right of treating patients? Or, there may be a person who gags his reason and starts chal¬lenging as to why all contracts to build canals, bridges and dams are given to expert engineers only? Since, he is a citizen of the country, therefore, he too is fully deserving of discharging this service! Or, there may be that person, devoid of reason who stands up raising an objection as to why legal experts alone have been allowed to hold monopoly over the interpretation and application of the law of the land, while he too, being sane and adult, can do the same job? Obvi¬ously, to that person, it would be said that, no doubt he has a right to do all such things as a citizen of the country, but it is also true that one has to undergo the difficult stages of education, training and expe¬rience for years and years together in order to imbibe the ability to accomplish such tasks. This is not what one can do all by himself. One has to assimilate an enormous body of arts and sciences under expert teachers on his way to established degrees and subsequent recognition in the field. If this person is ready to first go through this grind, and come out successful therefrom, then, he too could certainly become an arm of law in these fields. But, when this analogy is applied to the interpretation and appli¬cation of Qur&an and Sunnah, a highly intricate and very delicate job indeed, we come across a barrage of taunts and accusations that the ` ulama (religious scholars) hold a monopoly over the job! Is it that the interpretation and application of Qur&an and Sunnah requires no ability, no qualification? Are we saying that, in this wide world of ours, the knowledge of the Qur&an and Sunnah alone has come to be so orphaned, so heirless that everyone can start getting away with his own interpretation and application as a matter of right, even though the claimant has not spent even a few months devoted to learning the great discipline of Qur&an and Sunnah? This is terrible. The proof of Qiyas It is from this verse that we also come to know an important rule, that is, when we do not find an explicit statement in the Qur&an and Sunnah about a certain problem, we should make the best of efforts to find a solution by a serious deliberation within these. This method is technically known as Qiyas or analogical deduction (Qurtubi). |"A great deal of contradiction|" The last sentence of verse 82: وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ‌ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرً‌ا translated as &Had it been from someone other than Allah, they would have found in it a great deal of contradiction& needs some explanation. Here, &a great deal of contradiction& means: Had there been a contradiction in one subject, the contradiction in many subjects would obviously have become a great deal of contradiction (Bayan a1-Qura&n). But, the truth of the matter is that there is just no contradiction anywhere in the Qur&an. So, this is the word of Allah Almighty. This perfect uniformity cannot be found in the word of man. Then there is its unmatched eloquence which never tapers. It talks about the Oneness of Allah and the disbelief of men and lays down rules for the lawful and the unlawful, yet there is no inconsistency, no discrepancy in the process. It offers information about the unseen but there is not one bit of infor¬mation which does not match with reality. Then there is the very order of the Qur&an which retains the quality of its diction all along, never ever touching a pitch which is low. The speech or writing of man is affected by circumstances. It varies with peace and distraction and happiness and sorrow. But, Qur&an is free of all sorts of incongruities and contradictions - actually, it is beyond any such thing. And this is a clear proof of its being the word of God.

تدبر قرآن : افلایتدبرون القرآن، اس آیت سے اللہ تعالیٰ قرآن میں غور و فکر کرنے کی دعت دیتے ہیں، اس میں چند چیزیں قابل غور ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے افلایتدبرون فرمایا افلایقرؤن نہیں فرمایا اس سے بظاہر ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت سے یہ بات سمجھائی جا رہی ہے کہ وہ اگر گہری نظر سے قرآن کو دیکھیں تو ان کو اس کے معانی و مضامین میں کوئی اختلاف نظر نہیں آئے گا اور یہ مفہوم تدبر کے عنوان سے ہی ادا ہوسکتا ہے، صرف تلاوت اور قرات جس میں تدبر اور غور و فکر نہ ہو اس سے بہت سے اختلافات نظر آنے لگتے ہیں، جو حقیقت کے خلاف ہے۔ دوسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ قرآن کا مطالبہ ہے کہ ہر انسان اس کے مطالب میں غور کرے لہٰذا یہ سمجھنا کہ قرآن میں تدبر کرنا صرف اماموں اور مجتہدوں ہی کے لئے ہے صحیح نہیں ہے، البتہ تدبر اور تفکر کے درجات علم و فہم کے درجات کی طرح مختلف ہوں گے، ائمہ مجتہدین کا تفکر ایک ایک آیت سے ہزاروں مسائل نکالے گا عام علماء کا تفکر ان مسائل کے سمجھنے تک پہنچے گا، عوام اگر قرآن کا ترجمہ اور تفسیر اپنی زبان میں پڑھ کر تدبر کریں تو اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور آخرت کی فکر پیدا ہوگی، جو کلید کامیابی ہے، البتہ عوام کے لئے غلط فہمی اور مغالطوں سے بچنے کے لئے بہتر یہ ہے کہ کسی عالم سے قرآن کو سبقاً سبقاً پڑھیں، یہ نہ ہو سکے تو کوئی مستند و معتبر تفسیر کا مطالعہ کریں اور جہاں کوئی شبہ پیش آئے اپنی رائے سے فیصلہ نہ کریں اور ہر علماء سے رجوع کریں۔ قرآن و سنت کی تفسیر و تشریح پر کسی جماعت یا فرد کی اجارہ داری نہیں ہے لیکن اس کے لئے شرائط ہیں :۔ آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کو یہ حق ہے کہ وہ قرآن میں تدبر و تفکر کرے، لیکن جیسا کہ ہم نے کہا ہی کہ تدبر کے درجات متفاوت اور ہر ایک کا حکم الگ ہے مجتہدانہ تدبر جس کے ذریعہ قرآن حکیم سے دوسرے مسائل کا استخراج کیا جاتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کی مبادیات کو حاصل کرے تاکہ وہ نتائج کا استخراج صحیح کرسکے اور اگر اس نے مقدمات کو بالکل حاصل نہ کیا یا اس نے ناقص حاصل کیا، جن اوصاف و شرائط کی ایک مجتہد کو ضرورت ہوتی ہے وہ اس کے پاس نہیں ہیں تو ظاہر ہے وہ نتائج غلط نکالے گا، اب اگر علماء اس پر نکیر کریں تو حق ہے۔ اگر ایک شخص جس نے کبھی کسی میڈیکل کالج کی شکل تک نہ دیکھی ہو یہ اعتراض کرنے لگے کہ ملک میں علاج و معالجہ پر سند یافتہ ڈاکٹروں کی اجارہ داری کیوں قائم کردی گئی ہے ؟ مجھے بھی بحیثیت ایک انسان کے یہ حق ملنا چاہئے۔ یا کوئی عقل سے کو را انسان یہ کہنے لگے کہ ملک میں نہریں، پل اور بند تعمیر کرنے کا ٹھیکہ صرف ماہر انجینئروں ہی کو کیوں دیا جاتا ہے ؟ میں بھی بحیثیت شہری کے یہ خدمت انجام دینے کا حق دار ہوں۔ یا کوئی عقل سے معذور آدمی یہ اعتراض اٹھانے لگے کہ قانون ملک کی تشریح و تعبیر پر صرف ماہرین قانون ہی کی اجارہ داری کیوں قائم کردی گئی ہے ؟ میں بھی عاقل و بالغ ہونے کی حیثیت سے یہ کام کرسکتا ہوں، اس آدمی سے یہی کہا جاتا ہے کہ بلاشبہ بحیثیت شہری کے تمہیں ان تمام کاموں کا حق حاصل ہے، لیکن ان کاموں کی اہلیت پیدا کرنے کے لئے سالہا سال دیدہ ریزی کرنی پڑتی ہے، ماہر اساتذہ سے ان علوم و فنون کو سیکھنا پڑتا ہے، اس کے لئے ڈگریاں حاصل کرنی پڑتی ہیں، پہلے یہ زحمت تو اٹھاؤ، پھر بلاشبہ تم بھی یہ تمام خدمتیں انجام دے سکتے ہو، لیکن یہی بات اگر قرآن و سنت کی تشریح کے دقیق اور نازک کام کے لئے کہی جائے تو اس پر علماء کی اجارہ داری کے آوازے کسے جاتے ہیں ؟ کیا قرآن و سنت کی تشریح و تعبیر کرنے کے لئے کوئی اہلیت اور کوئی قابلیت درکار نہیں ؟ کیا پوری دنیا میں ایک قرآن و سنت ہی کا علم ایسا لاوارث رہ گیا ہے کہ اس کے معاملہ میں ہر شخص کو اپنی تشریح و تعبیر کرنے کا حق حاصل ہے خواہ اس نے قرآن و سنت کا علم حاصل کرنے کے لئے چند مہینے بھی خرچ نہ کئے ہوں۔ قیاس کا ثبوت :۔ اس آیت سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر کسی مسئلہ کی تصریح قرآن و سنت میں نہ ملے تو انہی میں غور فکر کر کے اس کا حل نکالنے کی کوشش کی جائے اور اسی عمل کو اصطلاح میں قیاس کہتے ہیں۔ (قرطبی) اختلاف کثیر کی تشریح :۔ لوکان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیراً اختلاف کثیرہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک مضمون میں اختلاف ہوتا تو مضامین کثیرہ کا اختلاف بھی کثیر ہوجاتا ہے بشر کے کلام میں یہ یکسانیت کہاں، نہ کسی جگہ فصاحت و بلاغت میں کمی، نہ توحید و کفر اور حلال و حرام کے بیان میں تناقص اور تفاوت، پھر غیب کی اطلاعات میں بھی نہ کوئی خبر ایسی ہے جو واقع کے مطابق نہ ہو، نہ نظم قرآن میں کہیں یہ فرق کہ بعض فصیح ہو اور بعض رکیک، ہر بشر کی تقریر و تحریر پر ماحول کا اثر ہوتا ہے، اطمینان کے وقت کلام اور طرح کا ہوتا ہے پریشانی کے وقت دوسری طرح کا ہے، مسرت کے وقت اور رنگ ہوتا ہے اور رنج کے وقت دوسرا، لیکن قرآن ہر قسم کے تفاوت اور تناقض سے پاک ہے، اور بالاتر ہے اور یہی کلام الٰہی ہونے کی واضح دلیل ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ۝ ٠ۭ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللہِ لَوَجَدُوْا فِيْہِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا۝ ٨٢ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے الاختلافُ والمخالفة والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ كثر الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] ( ک ث ر ) کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة/ 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (الذین امنوایقاتلون فی سبیل اللہ ، جو لوگ صاحب ایمان ہیں وہ اللہ کے راستے میں قتال کرتے ہیں) ایک قول کے مطابق (فی سبیل اللہ ) کے معنی ہیں اللہ کی اطاعت میں کیونکہ یہی اطاعت اللہ کی جنت میں جو اس نے اپنے دوستوں کے لیے تیارکررکھی ہے ثواب کا باعث بنے گی۔ ایک اور قول کے مطابق اس سے مراد اللہ کا دین ہے جو اس نے مقرر کیا ہے ، تاکہ یہ دین انہیں اللہ کے ثواب اور اس کی رحمت تک پہنچادے اس صورت میں عبارت کی ترتیب یوں ہوگی، فی نصرۃ دین اللہ تعالیٰ (اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت میں قتال کرتے ہیں۔ طاغوت کے بارے میں ایک قول ہے کہ یہ شیطان ہے یہ قول حسن اور شعبی کا ہے ، ابوالعالیہ کا قول ہے کہ اس سے مراد کاہن ہے یعنی غیب کی باتیں بتلانے والا، ایک قول ہے کہ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے سوا پرستش کی جائے۔ قول باری ہے (ان کید الشیطان کان ضعیفا) یقین جانوا کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں) کید اس کوشش اور دوڑ دھوپ کو کہتے ہیں کہ جو صورت حال کو بگاڑنے کے لیے حیلہ سازی کے ذریعے اور نقصان پہنچانے کی غرض سے کی جائے۔ حسن کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (ان کیدالشیطان کان ضعیفا) اس لیے فرمایا کہ شیطان نے ان کافروں سے کہا تھا کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں یہ غالب آئیں گے اس لیے یہ کمزور نصرت کے مقابلے میں اپنے دوستوں کے لیے اس کی نصرت بہت کمزور ہوتی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٢) کیا یہ لوگ قرآن کریم میں غور نہیں کرتے کہ بعض احکام بعض کے مشابہ ہیں اور بعض بعض کی تصدیق کرتے ہیں اور جن باتوں کا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حکم دیتے ہیں وہ قرآن کریم میں موجود ہیں۔ اور اگر یہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت تضاد اور ٹکراؤ ہوتا اور بعض احکام کا بعض کے ساتھ کوئی تناسب نہ ہوتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٢ (اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ط) یہ قرآن پڑھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں ‘ لیکن اس پر غور و فکر نہیں کرتے۔ نمازیں تو وہ پڑھتے تھے۔ اس وقت جو بھی منافق تھا اسے نماز تو پڑھنی پڑتی تھی ‘ ورنہ اس کو مسلمان نہ مانا جاتا۔ آج تو مسلمان مانے جانے کے لیے نماز ضروری نہیں ہے ‘ اس وقت تو ضروری تھی۔ بلکہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی تو پہلی صف میں ہوتا تھا اور جمعہ کے روز تو خاص طور پر خطبے سے پہلے کھڑے ہو کر اعلان کرتا تھا کہ لوگو ان کی بات توجہ سے سنو ‘ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ گویا اپنی چودھراہٹ کے اظہار کے لیے یہ انداز اختیار کرتا۔ تو وہ نمازیں پڑھتے تھے ‘ قرآن سنتے تھے ‘ لیکن قرآن پر تدبر نہیں کرتے تھے۔ قرآن ان کے سروں کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ یا ان کے ایک کان سے داخل ہو کر دوسرے کان سے نکل جاتا تھا۔ (وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفًا کَثِیْرًا ) ۔ اس پر غور کرو ‘ یہ بہت مربوط کلام ہے۔ اس کا پورا فلسفہ منطقی طور پر بہت مربوط ہے ‘ اس کے اندر کہیں کوئی تضاد نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

111. The main reason for the attitude of the hypocrites and lukewarm believers was their lack of conviction that the Qur'an came from God. They did not believe that the Prophet (peace be on him) had received the messages and directives that he preached from God Himself. Hence, when they are censured for their hypocritical conduct, they are told that they do not reflect upon the Qur'an. For the Qur'an itself is a strong, persuasive testimony to its divine origin. It is inconceivable that any human being should compose discourses on different subjects under different circumstances and on different occasions, and that the collection of those discourses should then grow into a coherent, homogeneous and integrated work, no component of which is discordant with the others. It is also inconceivable that such a work would be permeated through and through with a uniform outlook and attitude, a work reflecting a remarkable consistency in the mood and spirit of its Author, and a work too mature ever to need revision.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :111 منافق اور ضعیف الایمان لوگوں کی جس روش پر اوپر کی آیتوں میں تنبیہہ کی گئی ہے اس کی بڑی اور اصلی وجہ یہ تھی کہ انہیں قرآن کے منجانب اللہ ہونے میں شک تھا ۔ انہیں یقین نہ آتا تھا کہ رسول پر واقعی وحی اترتی ہے اور یہ جو کچھ ہدایات آرہی ہیں ۔ اسی لیے ان کی منافقانہ روش پر ملامت کرنے کے بعد اب فرمایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ قرآن پر غور ہی نہیں کرتے ورنہ یہ کلام تو خود شہادت دے رہا ہے کہ یہ خدا کے سوا کسی دوسرے کا کلام ہو نہیں سکتا ۔ کوئی انسان اس بات پر قادر نہیں ہے کہ سالہا سال تک وہ مختلف حالات میں ، مختلف مواقع پر ، مختلف مضامین پر تقریریں کرتا رہے اور اول سے آخر تک اس کی ساری تقریریں ایسا ہموار ، یک رنگ ، متناسب مجموعہ بن جائیں جس کا کوئی جز دوسرے جز سے متصادم نہ ہو ، جس میں تبدیلی رائے کا کہیں نشان تک نہ ملے ، جس میں متکلم کے نفس کی مختلف کیفیات اپنے مختلف رنگ نہ دکھائیں ، اور جس پر کبھی نظر ثانی تک کی ضرورت نہ پیش آئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

49: یوں تو انسان کی کوئی کاوش کمزوریوں سے پاک نہیں ہوتی لہذا انسان کی کتابوں میں تضاد اور اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص اپنی کسی کتاب کے بارے میں یہ جھوٹا دعویٰ کرے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے تو اس میں یقیناً تضادات اور اختلافات ہوں گے۔ جن لوگوں نے پچھلے انبیائے کرام کی کتابوں میں تحریفات کی ہیں۔ ان کی وجہ سے ان کتابوں میں جو تضادات پیدا ہوئے ہیں، وہ اس بات کی واضح دلیل ہیں۔ ان کی تفصیل دیکھنی ہو تو حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی کتاب ’’ اظہار الحق‘‘ کا مطالعہ کیا جائے۔ اس کا اردو ترجمہ ’’ بائبل سے قرآن تک‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:82) لو کان ۔ ای لوکان ھذا القران۔ اگر یہ قرآن ہوتا (اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ابتدائے ہجرت میں منافقین کی حرکتوں سے چشم پوشی کا حکم تھا اس کے بعد آیت جاھد الکفار والمنا فقین ( کہ کفار اور منافقین سے جہاد کرو) سے یہ حکم منسوخ ہوگیا ہے منافقین سے جہاد کے یہی معنی ہیں کہ ان کو زجرو و ملامت کی جائے اور ان کی حرکتوں چشم پوشی نہ کی جائے تفصیل کے لیے دیکھئے التوبہ آیت 3) مگر امام رازی اس نسخ پر راضی نہیں ہیں (کبیر) 2 منافقین کے مکر و فریب اور مذموم خصائل کے ضمن میں قرآن کی حقانیت کے اثبات کی ضرورت ہے اس لیے پیش آئی کہ منافقین یہ سب مکرو فریب اور سازشیں اس بنا پر کررہے تھے کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سچا نبی نہیں سمجھتے تھے۔ لہذا یہاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدق نبوت پر بطور دلیل کے قرآن کو پیش کیا اور قرآن حکیم آنحضرت کے صدق نبوت کے تین وجوہ سے دلیل بنتا ہے اول اپنی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے۔ (دیکھئے سورت بقرہ آیت 23) دوم امور غیب کی خبروں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے سوم اختلاف وتناقض سے پاک اور مبرا ہونے کی بنا پر یہاں اسی تیسری چیز کو بیان فرمایا ہے (رازی) مطلب یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں کہ ایک انسان برس ہابرس تک مختلف حالتوں میں مختلف موضوعوں پر خصاصا امور غیب سے متعلق۔ اس قدر تفصیل سے گفتگوکر تا رہے مگر اس کی ایک بات بھی دوسری سے متصادم نہ وہ یہ خصوصیت صرف قرآن میں پائی جاتی ہے جو غور و فکر کرنے والے کے لیے اس کے کلام الہی ہونے کی دلیل ہے۔ (شوکانی) اختلاف سے پاک ہونا درجہ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی ہوسکتا ہے کیونکہ کوئی انسان خواہ کتنا ہی فصیح وبلیغ کیوں نہ ہو جب اتنی بڑی کتاب لکھے گا تو اس کے کلام میں قدرے تفاوت ضررور ہوگا اور ساری کتاب بلاغت میں یکساں مرتبہ کی نہیں ہوگی اور پھر یہ منافقین خفیہ طور پر در نہیں کرتے۔ ہیں اور وحی کے ذریعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان کے بھید من وعن بتادیئے جاتے ہیں اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ کسی راز کے افشار میں قرآن نے تھوڑی بہت بھی غلطی یو ہو۔ یہی اس کے کلام الہی ہونے کی دیلیل ہے۔ ( کبیر) فائدہ معلوم ہوا کہ قرآن پاک میں تدبر کے بغیر انسان کے شکوک و شبہات دور نہیں ہوسکتے اور نہ قرآن صحیح طور پر سمجھ میں آسکتا ہے (م۔ ع )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ تاکہ اس کا کلام الہی ہوناواضح ہوجائے۔ 7۔ پس لامحالہ یہ غیرا للہ کا کلام نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ کلام اللہ کے وجوہ اعجاز میں سے اس کی فصاحت و بلاغت کا بےمثل ہونا اور اس کے اخبارات کا جن پر مطلع ہونے کا رسول اللہ کے پاس کوئی ذریعہ نہ تھا بالکل صحیح و مطابق واقع کے ہونا ہے پس معلوم ہوا کہ یہ کلام خالق تعالیٰ کا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اگر آدمی قرآن مجید کے نصائح اور فرمودات پر غور کرے تو اس کے قول و فعل میں تضاد نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ قرآن تضادات کے بجائے سیدھی اور صاف بات کہتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید پر آدمی مخلصانہ طریقہ پر غور اور عمل کرے تو وہ منافقت اور قول و فعل کے تضاد سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید کا یہ اسلوب ہے کہ وہ کسی حقیقت کو منوانے کے لیے تحکم کی بجائے سوچ و بچار اور غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ توحید کی دعوت دی تو زمین و آسمان کی تخلیق، رات اور دن کی گردش، سمندر کی لہروں اور تہوں گویا کہ بحروبر کی تمام نشانیوں کو پیش فرمایا یہاں تک کہ انسان کو اپنے آپ پر غور کرنے کا حکم دیا اور یہی دعوت قرآن مجید کے بارے میں دی ہے۔ یہاں منافقوں اور قرآن کے منکروں کے اس الزام اور شبہ کی تردید کے لیے خود قرآن ہی کو ان کے سامنے پیش فرمایا کہ آؤ قرآن کا ایک ایک لفظ پرکھو اور اس پر غور کرو۔ اگر تمہارے زعم کے مطابق یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی بجائے کسی اور کا کلام ہوسکتا ہے تو اس میں کسی قسم کے اختلاف، انحطاط اور تضاد کا ثبوت پیش کرو۔ لیکن تم کبھی ایسا نہیں کرسکو گے۔ ہاں یہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں ضرور سینکڑوں اختلافات اور تضادات ہوتے۔ کیونکہ دنیا میں کوئی تحریک اور شخصیت ایسی نہیں جس کے مختلف ادوار اور خطابات و بیانات کو سامنے رکھا جائے تو وہ اونچ نیچ اور تضاد فکری سے خالی ہو۔ کسی لائق سے لائق انسان کی پوری زندگی کا کلام اخلاقی قدروں، علمی بنیادوں اور فکری ارتقاء کے لحاظ سے یکساں نہیں ہوا کرتا۔ جبکہ قرآن مجید کا ایک ایک لفظ انگوٹھی کے نگینے کی طرح موزونیت لیے ہوئے ہے اس میں شہد جیسی مٹھاس، گلاب کے پھول سے بڑھ کر دلربائی ‘ چنبیلی کی خوشبو سے زیادہ کشش، دریا کے طوفان سے زیادہ جوش و خروش اور بجلی کے کڑکے سے زیادہ رعب پایا جاتا ہے۔ قرآن کے بیان کردہ واقعات تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو اس کا ہر لفظ صداقت کا آئینہ دار اور حق کی گواہی دے رہا ہے۔ اس کی پیشگوئیوں کا ایک ایک حرف ٹھیک ثابت ہوا اور ہوتا رہے گا۔ اس کے بتلائے ہوئے معاشی، سیاسی اور سائنسی اصول و حقائق اپنی جگہ پر ہر دور میں مسلمہ رہے ہیں اور رہیں گے۔ ” یہ کتاب تیئس سال کے عرصۂ دراز میں وقفہ وقفہ سے نازل ہوئی۔ اس میں تضاد و اختلاف کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ یہ وہ ہنگامہ خیز اور پُر آشوب عرصہ ہے جس میں داعی اسلام، اس کے ماننے والوں اور خود اس دعوت کو شدید قسم کے مختلف مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ ظلم و ستم کے پہاڑ بھی توڑے گئے اور عقیدت و محبت کے پھول بھی برسائے گے۔ ایسے حالات بھی رونما ہوئے کہ ظاہر بیں نگاہوں کو یقین ہونے لگا کہ چراغ حق ابھی بجھا چاہتا ہے۔ ایسا دور بھی آیا کہ اس چراغ کو پھونکیں مار مار کر بجھانے والے وحشیوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑے۔ صلح بھی اور جنگ بھی، فتح بھی اور پسپائی بھی، خوف بھی اور امن بھی ہر قسم کے حالات روپذیر ہوئے۔ گوناگوں اور بو قلموں ادوار میں یہ کتاب نازل ہوتی رہی اور اس میں ایک بھی ایسی آیت کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی جس سے اسلام کے اصولوں میں تضاد کا شائبہ تک ہو۔ علامہ بیضاوی (رح) نے ایک جملہ میں سب کچھ بیان کر کے رکھ دیا۔ (من تناقض المعنی و تفاوت النظم) یعنی اس کی کوئی آیت نہ معنوی لحاظ سے دوسری آیت کے خلاف ہے نہ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے کوئی حصہ دوسرے حصہ سے فروتر ہے۔ یہ معانی و حقائق کا سمندر ہے جس کی لہروں میں آویزش نہیں اور جس کی ہر موج اور ہر قطرہ گل کا رنگ و بُولیے ہوئے ہے۔ اس سے بڑھ کر اس کے کلام الہٰی ہونے کی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے ؟ [ ضیاء القرآن ] تد بّرِ قرآن کی اہمیت قرآن مجید کی تلاوت کے جو آداب اور تقاضے مقرر کیے گئے ہیں ان میں ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ تلاوت کے دوران قرآن مجید کے الفاظ، انداز اور اس کے فرمان پر غور و خوض کیا جائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارکہ تھی کہ تہجد میں تلاوت کے دوران قرآن مجید کے احکامات پر غور کرتے اور عذاب کی آیات پر اللہ تعالیٰ سے پناہ اور معافی طلب کرتے اور زاروقطار روتے۔ جب بشارت کی آیات پڑھتے تو اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے حصول کے طلب گار ہوتے۔ قرآن مجید میں تدبّرو تفکّر کرنا حسب لیاقت ہر آدمی پر فرض ہے۔ تدبّرکے اصول قرآن مجید کے تدبر کے بارے میں بنیادی اصول یہ ہے کہ اس کا معنی اور مفہوم وہی متعین کرنا چاہیے جو قرآن مجید کے الفاظ کے سیاق وسباق اور دعوت قرآن کے مطابق ہو۔ جہاں مفہوم سمجھنے میں مشکل پیش آئے تو حدیث رسول کے ذریعے اس کا مفہوم متعین کرنا چاہیے۔ اگر قرآن و حدیث کے حوالے سے بھی بات سمجھنے میں دقّت محسوس ہو۔ جس کی گنجائش بہت کم ہے تو صحابہ کرام (رض) کے اقوال کے مطابق قرآن کا مفہوم لینا ہوگا۔ کیونکہ صحابہ (رض) براہ راست قرآن کے مخاطب تھے اور انہوں نے بلاو اسطہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن پڑھا، سنا اور سمجھا تھا۔ محض عربی لغت اور ادبی محاورات کی بنیاد پر قرآن مجید کا معنی و مفہوم متعین کرنا قطعاً جائز نہیں۔ اس لیے علماء نے قرآن مجید سے مسائل اخذ کرنے اور اس کی تفسیر کے لیے کچھ اصول مقرر کیے ہیں۔ جب تک ان اصولوں کا خیال نہ رکھا جائے۔ آدمی نہ صرف خود بھٹک سکتا ہے بلکہ دوسروں کی گمراہی کا سبب ثابت ہوگا۔ بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ دین اور قرآن پر علماء کی اجارہ داری چہ معنیٰ دارد ؟ ہر کسی کو قرآن و سنت سے مسائل کے استنباط کا حق ہونا چاہیے۔ اس مغالطہ کی عام طور پر دو وجوہات ہوتی ہیں۔ اکثر لوگ اپنی سادگی اور اخلاص کی بنیاد پر جبکہ دوسرے اس زعم میں مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم علماء سے زیادہ سمجھدار اور پڑھے لکھے ہیں۔ ذرا غور سے سوچاجائے تو دونوں قسم کے حضرات کا مطالبہ اور موقف دنیا کے مسلَّمہ اصولوں پر پورا نہیں اترتا۔ دنیا میں کونسا ایسا فن ہے جسے مستقل اختیار کرنے کے لیے استاد اور تجربہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیا حکمت اور ڈاکٹری نہ جاننے والا مریض کا باقاعدہ علاج کرسکتا ہے ؟ اسے مریض کی جان کے ساتھ کھیلنے کی اجازت ہونی چاہیے ؟ کوئی معمولی عقل والا جان بوجھ کر اناڑی ڈرائیور کے ساتھ سفر کرنے کے لیے آمادہ ہوگا ؟ دور نہ جائیں ایک اَن پڑھ اور دیہاتی نے اپنا مکان بنانا ہو تو وہ کسی ناتجربہ کار کاریگر سے کچا مکان بنانے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔ آپ دنیا میں کوئی ایسا تعلیمی ادارہ دکھا سکیں گے جس میں ریاضی کے ٹیچر کو اردو پڑھانے کے لیے اور انگلش جاننے والے کو عربی کا سبجیکٹ دیا جاتا ہو ؟ کیا ایسی اجازت دینے والے ادارہ کا سربراہ دانشور تسلیم کیا جائے گا ؟ نہیں ! تو پھر دین کا معاملہ اتنا عارضی اور ہلکا ہے کہ اس کی باقاعدہ تبلیغ و تدریس اور مسائل کے استدلال کے لیے ہر کسی کو اجازت دے دی جائے۔ اس کا یہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ غیر عالم قرآن سمجھنے یا کسی کو مسئلہ بتلانے کی کوشش نہ کرے۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی باقاعدہ تدریس و تبلیغ اور قرآن و سنت سے مسائل مستنبط کرنا چاہتا ہے تو اسے باضابطہ طور پر عربی جاننا اور قرآن و حدیث کا علم سیکھنا چاہیے ورنہ وہ گمراہی کا سبب بنے گا جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوٹوک الفاظ میں منع فرمایا ہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم ] دیہاتی کی غلط فہمی اور مفکر اسلام حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا جواب بسا اوقات اپنی کم فہمی اور علمی کم مائیگی کی بنیاد پر آدمی قرآن مجید میں تضادات محسوس کرتا ہے۔ ایسا ہی تأثر اس اعرابی کا تھا جس نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے سامنے یہ اعتراضات کئے کہ دیکھئے اس مقام پر قرآن مجید میں تضادات پائے جاتے ہیں۔ اسے کیا خبر تھی کہ میں جس شخصیت کے سامنے یہ اعتراضات رکھ رہا ہوں اسے تو سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فہم دین کی دعا دی تھی جس کی برکت سے وہ مفکر اسلام ہوئے۔ چناچہ جب حضرت ابن عباس (رض) نے ایک ایک کر کے تسلی بخش جواب دیے تو اعرابی پکار اٹھا کہ واقعی قرآن مجید میں کسی قسم کے تضاد اور اختلاف کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کے انشراح صدر اور دلچسپی کے لیے من و عن اس مکالمے کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے ایک آدمی نے کہا کہ قرآن میں کئی آیات ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں۔ پھر اس نے قرآنی آیات کا اختلاف پیش کیا کہ ایک آیت میں ہے کہ قیامت کے دن لوگ ایک دوسرے سے سوال نہیں کریں گے دوسری آیت میں ہے کہ وہ آمنے سامنے آکر ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ ایسے ہی ایک آیت میں ہے کہ کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے کچھ چھپا نہیں سکے گا۔ دوسرے مقام میں ہے کہ مشرک کہیں گے کہ ہمارے رب ہم نے شرک نہیں کیا۔ پھر ایک آیت میں آسمان کی پیدائش زمین سے پہلے ذکر کی گئی ہے۔ جبکہ دوسری آیت میں زمین کی پیدائش کا آسمان سے پہلے ذکر ہوا ہے۔ ایک اور مقام میں ہے اللہ تعالیٰ بخشنے اور رحم کرنے والا غالب، حکمت والا، سننے والا اور جاننے والا تھا گویا کہ اب نہیں۔ ان اعتراضات کا جواب عبداللہ بن عباس (رض) نے اس طرح دیا کہ جس آیت میں ہے کہ لوگ آپس میں سوال نہیں کریں گے۔ وہ پہلے نفخہ کا ذکر ہے اور جس آیت میں ایک دوسرے سے سوال کرنے کا تذکرہ ہے وہ دوسرے نفخہ کے بعد ہوگا۔ وہ جو کہیں گے کہ ہمارے مالک ہم مشرک نہیں تھے۔ تو یہ اس وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ مومنوں کو بخش دیں گے تو مشرک آپس میں کہیں گے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کو کہتے ہیں کہ ہم نے شرک نہیں کیا تھا۔ اس وقت ان کے مونہوں پر مہریں لگا دی جائیں گی پھر ان کے ہاتھ اور پاؤں بولیں گے۔ جب مجرم جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کو چھپایا نہیں جاسکتا تب کافر کہیں گے کاش ہم بھی مسلمان ہوتے ! ! ! زمین و آسمان کی پیدائش میں اختلاف کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے زمین کو دو دنوں میں پیدا فرما کر پھر آسمان کو پیدا کیا آسمان کو دو دنوں میں برابر کر کے زمین کو پھیلایا اس میں سے پانی ‘ پہاڑ ‘ ٹیلے اور جو کچھ آسمان و زمین کے درمیان ہے دو دنوں میں بنایا لہٰذا زمین اور اس کی تمام اشیاء چار دن اور آسمان دو دنوں میں پیدا کیا گیا۔ آخری اعتراض تھا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات ماضی میں تھیں اب نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ازل سے ہی یہ اللہ کی صفات ہیں اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کر دکھاتا ہے۔ یہ سارا قرآن اللہ کی طرف سے ہے تجھے اس میں اختلاف محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب قولہ ونفخ فی الصور .....] مسائل ١۔ قرآن مجید میں تدبر و تفکّر کرنا چاہیے۔ ٢۔ قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے اس میں تعارض نہیں پایا جاتا۔ ٣۔ قرآن مجید اگر اللہ تعالیٰ کا کلام نہ ہوتا تو اس میں بیشمار اختلافات پائے جاتے۔ تفسیر بالقرآن قرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے : ١۔ قرآن کے بارے میں کفار کا الزام۔ (الفرقان : ٤) ٢۔ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ (الشعراء : ١٩٢) ٣۔ قرآن کسی کاہن و شاعر کا کلام نہیں۔ (الحاقہ : ٤١، ٤٢) ٤۔ یہ شیطان کی شیطنت سے پاک ہے۔ (التکویر : ٢٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” افلا یتدبرون القران ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا (٤ : ٨٢) ” کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ کی سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی ۔ اس بیان اور ہدایت کے اندر انسانیت کے لئے انتہائی عزوشرف کا مقام پوشیدہ ہے ۔ اس میں انسان کے ادراک پر مکمل بھروسہ کیا گیا ہے ۔ اور اس کی شخصیت کو بہت ہی اہمیت دی گئی ہے ۔ نیز اس میں عدالت عقل میں فیصلہ لے جانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور یہ بھی ایک ایسے مظہر میں جس کا سمجھنا انسانی عقل کے لئے زیادہ دشوار نہیں ہے ۔ قرآن کے اندر پائی جانے والی مکمل ‘ جامع اور بےقید ہم آہنگی ایک ایسا مظہر ہے جو اس شخص کی نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتا جو اس کتاب پر تدبر کرے ۔ اس مظہر کی سطح اور اس کا دائرہ مختلف لوگوں کی فہم کے مطابق وسیع اور تنگ ہو سکتا ہے ۔ مختلف نسلوں اور مختلف قسم کے ذہین لوگوں کے نتائج فکر مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ہر عقل اور ہر نسل اور ہر دور کے لوگوں کو اپنی بساط کے مطابق اس سے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے اور یہ کمی بیشی لوگوں کے فہم ان کی عقل اور ان کے علم و ثقافت کے اعتبار سے ہو سکتی ہے ۔ اس سلسلے میں مختلف لوگوں کا نتیجہ فکر ان کے تجربے صلاحیت اور تقوی کے مطابق محدود یا لامحدود ہو سکتا ہے ۔ یہ وجہ ہے کہ ہر شخص اس آیت کا مخاطب ہے ‘ ہر نسل اس کی مخاطب ہے ‘ اور درست منہاج فکر و تدبر کے مطابق وہ اس مظہر کا ادراک کرسکتا ہے ۔ یعنی یہ وصف کہ قرآن کے اندر خلاف بیانی نہیں ہے اور اس کے اندر مکمل ہم آہنگی اور تناسق پایا جاتا ہے ۔ البتہ جس طرح ہم نے کہا یہ فہم انسان کی صلاحیت اس کے علمی مقام تجربے اور تقوی کے حدود کے اندر رہتا ہے ۔ یہ گروہ ‘ جسے اس وقت کی موجودہ نسل کی صورت میں مخاطب کیا گیا تھا ‘ ایک ایسے کلام سے مخاطب کیا جارہا تھا جسے وہ خوب سمجھتا تھا ۔ اور اپنے فہم وادراک کے ذریعے وہ اسے عمل میں لاتا تھا ‘ جس قدر اس کی طاقت کے حدود میں ہوتا تھا ۔ یہ مظہر اور یہ صفت یعنی مکمل اتحاد فکر اور ہم آہنگی کی صفت کا اظہار سب سے پہلے قرآن کریم کے انداز تعبیر میں ہوتا ہے ۔ قرآن کی طرز ادا اور فنی طریقہ اظہار مدعا کے اندر مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ انسانی کلام ہمارے سامنے ہیں ‘ بڑے سے بڑے ادب پاروں میں نشیب و فراز بھی ہوتے ہیں ‘ ہم آہنگی بھی ہوتی ہے اور لغزش کلام بھی ہوتی ہے ۔ ایک حصہ اگر پر زور ہوتا ہے تو دوسرے میں جھول ہوتی ہے ۔ ایک میں اگر فکری تخلیق ہے تو دوسرے حصہ میں پیش پا افتادہ ہوتا ہے ‘ ایک حصہ اگر رواں ہوتا ہے تو دوسرا نہایت ہی گنجلک ہوتا ہے ۔ ایک اگر نہایت ہی روشن ہے تو دوسرا حصہ تاریک ہے غرض کلام کی فصاحت وبلاغت اور نقص کے سلسلے میں جو اوصاف ہوتے ہیں ان کے اعتبار سے انسانی کلام میں نشیب و فراز ہوتا ہے ۔ نقائص کلام میں سے اہم نقص کلام کے اندر روانی اور ہم آہنگی کا فقدان ہوتا ہے جس میں بات جلدی جلدی ایک معیار سے گرتی ہے یا گرے ہوئے معیار سے اوپر کو اٹھتی ہے ۔ ہر انسانی کلام کے اندر یہ مظہر قدم قدم پر سامنے آتا ہے ‘ کسی ایک ادیب کے اگر ادبی کردار کو لیں ‘ یا اس کے انکار کو لیں ‘ یا کسی ایک ہی ادیب کے فن پاروں کو لیں یا کسی ایک سیاست دان کی پالیسیوں کو لیں یا کسی ایک جرنیل کی جنگی چالوں ‘ یا کسی ایک شخص کی صنعت کاری کو لیں ‘ اس میں معیار کا یہ تفاوت قدم قدم پر نظر آئے گا ۔ معیار تعبیر کے اندر زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا ۔ قرآن کریم کے اندر یہ صفت نہایت ہی واضح ہیں اور پوری طرح منعکس ہے ‘ یعنی کلام میں پختگی اور ہم آہنگی ۔ پورے قرآن کے اندر یہ صفت ملحوظ رکھی گئی ہے ۔ ہم یہاں جو بات کر رہے ہیں وہ صرف لفظی اور تعبیر کی ہم آہنگی کے ذاویے سے ہے ۔ اس پوری کتاب کے اندر کلام اور اسلوب اظہار کا ایک ہی میعار ہے ‘ اسی وجہ سے یہ کتاب معجزانہ شان لئے ہوئے ہے ۔ یہ کتاب جن موضوعات پر کلام کرتی ہے ‘ مضمون کے اعتبار سے اس کے رنگ مختلف ضرور ہوتے ہیں لیکن فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے اس کا معیار ایک ہی رہتا ہے ۔ اسلوب ادا میں اس کا کمال قائم رہتا ہے ۔ اور کسی جگہ کلام اپنی معیاری سطح سے گرنے نہیں پاتا ۔ کسی جگہ اس کی حالت ایسی نہیں ہوتی جس طرح انسانی کلام کی حالت ہوتی ہے کہ کبھی میعار کچھ ہوتا ہے اور کبھی کچھ ۔ یہ کتاب اللہ کی شان کاریگری لئے ہوئے ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بات کے کہنے والا متغیر نہیں ہے اور وہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف متغیر نہیں ہوتا ۔ اور نہ اس پر ایک حال کے بعد دوسرا حال طاری ہوتا ہے ۔ (دیکھئے ‘ التصویر الفنی فی القرآن) اس کے فنی اسلوب کے بعد پھر یہ عدم اختلاف کی صفت اور مکمل ہم آہنگی اور عام وحدت فکر اس نظام کے اندر بھی پائی جاتی ہے جس کا اظہار وبیان قرآن کریم کی ان عبارات کے اندر کیا گیا ہے اور جس کا مفہوم ان ہم آہنگ عبارتوں کی اندر بیان ہوا ہے ۔ یعنی وہ نظام فکر جس کی اوپر نفس انسانی کی تربیت کی گئی ہے یا انسانی معاشرے کی تربیت کی گئی ہے ۔ نیز اس نظام زندگی کے تمام اجزاء اور اس کے تمام پہلوؤں کے اندر مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ اسی طرح ایک فرد کی زندگی کی تمام سرگرمیوں اور پھر ایک معاشرے کے اندر فرد کی تمام سرگرمیوں اور نسلا بعد نسل ایک فرد اور معاشرے کی زندگی کے اندر جو تغیر وتبدل ہوتا ہے اس کے تمام پہلوؤں کے اندر مکمل توافق اور توازن پایا جاتا ہے ۔ پھر انسان کی قوت مدرکہ کے لئے ایک منہاج اور تقویم ہے ‘ جس کے کئی پہلو ہیں اور انسان کے فہم وادراک کی کئی قوتیں اور عمل ادراک میں کام آنے والی مختلف قوتیں ۔ پھر خود حضرت انسان کی ذات اور اس کے تمام معاشروں ‘ تمام نسلوں اور تمام سطحوں کے اندر بھی ایک مکمل ہم آہنگی رکھی گئی ہے ۔ انسان اور اس کائنات کے اندر بھی مکمل آہنگی ہے جس کے اندر یہ انسان زندگی بسر کرتا ہے ۔ پھر انسان کی دنیاوی زندگی اور آخروی زندگی کے اندر بھی مکمل توافق اور ہم آہنگی ہے ۔ پھر اس کتاب نے اس انسان اور اس پوری کائنات کے اندر اس کی زندگی بسر کرنے میں بھی پوری ہم آہنگی رکھی ہے ۔ جب ایک انسان اور اللہ کی کاریگری کے اندر باعتبار اسلوب کلام اور لفظی تعبیر فرق ہے تو فکری نظریاتی اور قانون سازی کی میدانوں میں بھی ‘ ظاہر ہے کہ انسانی کام اور ربانی کام کے اندر نہایت ہی واضح فرق و امتیاز ہوگا ۔ تمام انسانی نظریات ‘ تمام انسانی مذاہب ومکاتب کے اوپر انسانی چھاپ بالکل واضح نظر آتی ہے ۔ اور نقطہ نظر کے اندر جزئی اور انفرادی پن واضح طور پر نظر آتا ہے ۔ ان تمام پہلوؤں کے اندر وقتی حالات اور مشکلات سے انسان متاثر نظر آتا ہے ۔ اور انسان اس بات کا ادراک نہیں کرسکتا کہ اس کے نظریے ‘ اس کے مذھب ومکتب کے اندر اور اس کے منصوبوں کے اندر کوئی نہ کوئی تناقض موجود ہوتا ہے جو اس نظام فکر وعمل کے اندر کشمکش شروع کردیتا ہے اور یہ کشمکش یا تو بہت جلد شروع ہوجاتی ہے یا کچھ عرصے کے بعد شروع ہوتی ہے ۔ پھر یہ انسانی مکاتب فکر وعمل انسان کی بعض خصوصیات کو بالکل دبا دیتے ہیں جبکہ خود انسان کو ان کا نہ علم ہوتا ہے اور نہ انسان انہیں پیش نظر رکھ سکتا ہے ۔ یہ پھر بعض شخصیات کے اندر ایسے اوصاف ہوتے ہیں جن کے بارے میں انسان سوچ ہی نہیں سکتا ۔ خود انسانی ادراک کے اندر ہزاروں کمزوریاں اپنی جگہ ہوتی ہیں اور جس کا دائرہ عمل نہایت ہی محدود ہوتا ہے ۔ چونکہ انسانی ادراک کا دائرہ محدود ہوتا ہے اس لئے وہ اپنے بنائے ہوئے منصوبے سے آگے نہیں دیکھ سکتا بلکہ وہ خود اپنے موجود منصوبے کے (مالہ وما علیہ) سے بھی اچھی طرح واقف نہیں ہوتا ۔ اس کے برعکس قرآنی منصوبہ چونکہ علیم وخبیر کا بنایا ہوا ہوتا ہے اس لئے قرآنی مندرجات ومفہومات ان تمام نقائص سے پاک ہوتے ہیں ۔ یہ مفہومات اور منصوبے مستقل ہوتے ہیں اور پوری کائنات کے اندر مروج نوامیس فطرت کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہوتے ہیں ۔ یہ نوامیس فطرت مستقل اور ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ مسلسل حرکت میں بھی ہوتے ہیں ۔ اسی طرح قرآنی نظریات بیک وقت متحرک بھی ہوتے ہیں ۔ اور ثابت بھی ہوتے ہیں۔ ان آفاق وحدود کے اندر قرآن کریم کی اس صفت پر غور وفکر سے بعض اوقات انسانی ادراک اس کے پورے آفاق کو نہیں پا سکتا اور نہ ہی بعض اوقات ایک پوری نسل اس کا مکمل ادراک کرسکتی ہے بلکہ تمام نسلوں کے ادراک میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوگا ۔ اس لئے کہ قرآن کریم سے ہر نسل اپنا حصہ پاتی ہے اور آنے والی ترقی یافتہ نسلوں کے لئے بھی کچھ نہ کچھ آفاق رہتے ہیں ۔ بہر حال اس صفت کے ادراک میں مختلف درجات کے اعلی انسانوں سے کچھ نہ کچھ ضرور باقی رہ جاتا ہے جس طرح دوسری چیزوں کے اندر کسی نہ کسی حد تک اختلاف موجود ہوتا ہے ۔ اور اس باقی آفاق سے اگلی نسلیں بھی اپنا حصہ حاصل کرتی رہتی ہیں اس لئے کہ اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں اور انسان کی بنائی ہوئی چیزوں میں فرق ہے ۔ اور اللہ کی بنائی ہوئی چیز میں نہ کوئی اختلاف ہوتا ہے اور نہ تفاوت اور فرق ۔ اس میں مکمل اتحاد اور تناسق ہوتا ہے ۔ ہاں لوگوں کی فہم وادراک کے حدود میں ضرور فرق ہوتا ہے اور بعض لوگ اس تناسق کو بہت ہی اچھی طرح سمجھتے ہیں اور بعض ذرا کم سمجھتے ہیں ۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے التصور الاسلامی خصائصہ ومقوماتہ ۔ نحو مجتمع اسلامی ‘ الاسلام ومشکلات الحضارہ اور ھذ الدین وغیرہ) لیکن جس قدر ایک عام انسان سمجھ سکتا ہے یا ایک گروہ سمجھ سکتا ہے یا ایک متعین نسل سمجھ سکتی ہے ‘ اللہ تعالیٰ لوگوں کے فہم وادراک کے سامنے ‘ جس قدر ان کو حاصل ہے ‘ قرآن کریم کو پیش کرتے ہیں اور ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سوچیں کہ یہ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے اور اگر غیر اللہ کا کلام ہوتا تو لوگ اس میں بہت کچھ اختلافات پاتے ۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک مختصر سا توقف کریں اور یہ متعین کرلیں کہ اس مخصوص معاملے میں یا پورے دین کے معاملے میں انسانی ادراک کی حدود کار کیا ہیں ؟ کوئی انسان اس بات سے غرے میں مبتلا نہ ہوجائے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ معاملہ خود انسانی ادراک کے سامنے فیصلے کے لئے پیش کیا ہے اس لئے گویا انسانی ادراک کوئی بہت ہی بڑی شئی ہے ۔ انسانی غور وفکر اور ادراک کو بھی اپنی محفوظ حدود کے اندر رہنا چاہئے کہیں وہ اپنے محدود محفوظ دائرے سے باہر بھول بھلیاں میں پھنس نہ جائے ۔ قرآن کریم کی ان ہدایات کو اچھی طرح نہیں سمجھا گیا اور نہ ہی ان کی حدود کو اچھی طرح سمجھا گیا ہے ۔ از منہ قدیمہ اور دور جدید دونوں میں ایسے اسلامی اہل فکر رہے ہیں جنہوں نے عقل و قیاس کو شریعت کے مساوی درجہ دیا ہے بلکہ یہ لوگ عقل وادراک کو شریعت کا پاسبان بناتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن حقیقت ایسی نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فہم وادراک کا یہ آلہ بہرحال انسانی قوت مدرکہ ہے اگرچہ اپنی جگہ یہ نہایت ہی اہم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے کلام الہی ہونے کے مسئلے کو بارگاہ عقل و تدبر میں پیش کیا ہے لیکن عقل کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کا ادراک کرے کہ یہ قرآن اور اس کے اندر وضع کردہ پورے کا پورا دین من جانب اللہ ہے ۔ اس لئے کہ قرآن کے اندر ایسے اوصاف ومظاہر ہیں جنہیں عقل بشری بڑی سہولت سے سمجھ سکتی ہے ۔ اور وہ مظاہر اور علامات اس بات کے ادراک کے لئے کافی ہیں کہ یہ دین من جانب اللہ ہے ۔ جب یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ یہ دین من جانب اللہ ہے تو اس ادراک کا منطقی نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ اد دین کے اندر جو احکام ہیں انہیں انسان تسلیم کرے چاہے ان کی حکمت انسان کی سمجھ میں آرہی ہو یا نہ آرہی ہو ‘ اس لئے کہ جب ہم نے یہ بات تسلیم کرلی کہ یہ دین اور قرآن من جانب اللہ ہے تو یہ بات ازخود تسلیم ہوجاتی ہے کہ اس کے اندر حکمت موجود ہے پھر یہ بات اہم نہیں رہتی کہ حالات حاضرہ کے اندر لوگوں کی مصلحت اس دین سے پوری ہوتی ہے یا نہیں ہوتی ۔ جب دین اللہ کی طرف سے ہے تو گویا مصلحت اس کے اندر موجود اور متحقق ہے ۔ ا نسانی عقل شریعت کے مساوی نہیں ہوتی چہ جائیکہ کہ وہ شریعت پر حاکم اور مقتدر ہوجائے ۔ اس لئے کہ خود شریعت کی حکمتوں کا ادراک ہر عقل نہایت ہی محدود پیمانے پر کر پاتی ہے ۔ اور یہ بات محال ہے کہ عقل شریعت کے تمام زاویوں اور تمام مصلحتوں کا احاطہ کرسکے ۔ نہ ایک لحظہ میں نہ پوری انسانی تاریخ میں ۔ جبکہ اللہ کی شریعت کی نظر ایک ایک لمحے کی مصلحتوں پر بھی ہوتی ہے اور زمان ومکان کے مصالح پر بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ شریعت کا کوئی ثابت شدہ حکم صرف انسانی عقل و قیاس کے حوالے کردیا جائے ۔ اس سلسلے میں عقل انسانی کا کام صرف یہ ہے کہ وہ نصوص شرعیہ کے ادراک اور ان نصوص کی دلالت اور مفہومات کے اخذ پر غور کرے ۔ یہ اجازت عقل کو نہیں دی جاسکتی کہ وہ احکام کی مصلحتوں پر بھی کلام کرے ۔ اس لئے کہ جب اللہ کی جانب سے کوئی آیت نازل ہوتی ہے تو اس میں لازما کوئی مصلحت ہوتی ہے تب ہی تو وہ آتی ہے ۔ عقل کا کام تو ان مسائل میں ہوتا ہے جن میں کوئی نص نہ ہو ‘ جدید مسائل ہوں ۔ ایسے مسائل کے بارے میں جو طریقہ کار اختیار کیا جائے گا اس کے بارے میں ہم اس سے پہلے کہہ آئے ہیں کہ ایسے مسائل کو اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دیا جائے گا ۔ اور یہی وہ دائرہ کار ہے جو حقیقی اجتہاد کے لئے کھلا چھوڑا گیا ہے جبکہ نصوص قرآنی کا فہم وادراک بہر حال ہر وقت عقل ہی کے ذریعے ہوگا ۔ جب کسی نص کا مفہوم سمجھ لیا جائے تو بس اب وہاں توقف ہی بہتر ہوتا ہے اور عقل کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ فیصلہ دے کہ آیا اس مفہوم میں مصلحت ہے یا نہیں ہے ۔ عقل انسانی کا اصل دائرہ کار کائنات کے قوانین قدرت ہیں اور یہ نہایت ہی وسیع دائرہ کار ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم عقل انسانی کو اسی قدر مقام ومنزلت دیں جو اسے اللہ نے دیا ہے اور جو اس کے لئے مناسب ہے اور اس دائرے کے اندر اسے رکھا جائے جو اللہ نے عقل کے لئے رکھا ہے ۔ اس دائرے کے حدود سے تجاوز نہ کیا جائے تاکہ وہ بھول بھلیاں میں جا کر پھنس نہ جائے اور اسے کوئی رہبر کامل نہ ملے ۔ اور اگر کوئی رہبر ملے بھی تو وہ ایسے راستوں پر پڑجائے جن کا اسے خود علم نہ ہو ۔ یہ صورت حال ایک ایسے انسان کے لئے زیادہ خطرناک ہے جو صراط مستقیم کا متلاشی ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قرآن میں تدبر کرنے ترغیب : پھر فرمایا (اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ) (الآیۃ) کیا یہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے اگر قرآن میں غور و فکر کریں تو ان کو یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ یہ قرآن اللہ ہی کی طرف سے ہے اور یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول ہیں جن کے رسول ہونے کی گواہی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں دی ہے۔ (وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا) اور اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ اور کہیں سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت اختلاف پاتے۔ اس کی خبروں میں بھی تعارض ہوتا، اس کی نظم و بلاغت میں تفاوت ہوتا، بعض خبریں صحیح ہوتیں اور بعض غلط ہوتیں، کہیں معنی فاسد ہوتا کہیں صحیح ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہے اس کے الفاظ، معانی اور اخبار میں کہیں کچھ کہنے اور انگلی رکھنے کی جگہ نہیں ہے۔ قرآن نے مقابلے میں ایک آیت لانے کا چیلنج کیا جو اب تک قرآن میں موجود ہے اور اب بھی سارے انسانوں کو چیلنج ہے، کوئی بھی اس کے مقابل نہ لاسکا اور نہ اس پر کوئی اعتراض کرسکا، اور اپنی بد فہمی سے جس کسی نے کوئی اعتراض کیا اس کا جواب اس کو قرآن ہی میں مل گیا۔ یا اہل دانش نے اس کا جواب دے دیا۔ (روح المعانی صفحہ ٩٢۔ ٩٣: ج ٥) قرآن میں تدبر کرنے کے اہل کون ہیں ؟ آیت بالا میں تدبر قرآن کی دعوت دی گئی ہے جن لوگوں کو اللہ نے علم و فہم دیا ہے وہ قرآن میں تدبر کریں، ہر شخص اپنی اپنی فہم اور استعداد کے مطابق تدبر کرسکتا ہے اور جہاں کہیں کچھ سمجھ میں نہ آئے یا کوئی اشکال ہو تو اہل علم سے رجوع کرے۔ اہل فہم کے درجات مختلف ہیں اور تدبر کی صورتیں بھی مختلف ہیں معانی میں تدبر، حقائق و معارف کی تلاش، احکام و مسائل کا استنباط، فصاحت و بلاغت کی گہرائی میں اترنا، اسلوب وبیان کو دیکھنا یہ سب تدبر میں آتا ہے۔ حضرات آئمہ مجتہدین (رح) نے خوب تدبر کیا مسائل کا استنباط کیا معارف و حقائق کو سمجھا۔ ان کے بعد دوسرے علماء بھی تدبر کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے بھی قرآن سے مسائل کا استنباط اور اثبات کیا ہے۔ تدبر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ذرا بہت عربی اردو پڑھے ہوئے لوگ جنہیں نہ صیغوں کی پہچان نہ علم الصرف کا علم نہ وجوہ اعراب کا پتہ نہ مشتق و مشتق منہ کی خبر نہ حروف اصلیہ اور زائدہ کا علم ان جیسے لوگ تدبر کرنے لگیں اور اپنے آپ کو علماء راسخین کے برابر سمجھ کر جو اپنی سمجھ میں آئے اسی کو قرآن کا مطلب بتانے لگیں یہ تو ان کی جہالت ہوگی۔ تفسیر بالرائے کی قباحت : لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن پر مولویوں کی ہی اجارہ داری کیوں ہے ہم اہل فہم ہیں اور اہل علم ہیں ہم بھی قرآن کا مطلب بتا دیتے ہیں، ان میں سے بعض جاہلوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو درمیان سے نکال دیا اور کہنے لگے کہ قرآن اللہ نے ہمارے پاس بھیجا ہے۔ ہم خود سمجھ لیں گے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان کی ضرورت نہیں (العیاذ باللہ) جو شخص قرآن لانے والے سے قرآن نہ سمجھے گا اور قرآن لانے والے کے شاگردوں کو درمیان سے نکال دے گا وہ تفسیر بالرائے کرے گا، تفسیر بالرائے گمراہی ہے بہت سے لوگ علم کے بغیر قرآن کی تفسیر لکھنے بیٹھے تو گمراہ ہوگئے اور اپنے اتباع و اذناب کو گمراہی میں ڈال گئے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا من قال فی القراٰن برایہ فلیتبوأ مقعدہ من النار (کہ جس شخص نے قرآن کے بارے میں اپنی رائے سے کچھ کہا وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ بنا لے) اور حضرت جندب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا من قال فی القراٰن برایہ فاصاب فقد اخطاء کہ جس نے قرآن کے بارے میں اپنی رائے سے کچھ کہا اور ٹھیک کہا تب بھی اس نے غلط کام کیا۔ (رواہما الترمذی کما فی المشکوٰۃ صفحہ ٣٥) معلوم ہوا کہ اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کرنا ممنوع ہے، اگر کوئی بات ٹھیک بھی کہہ دی تب بھی خطا کی کیونکہ جو منصب اس کا نہیں تھا اس نے اس کو اختیار کرلیا، قرآن میں تدبر کریں تو تدبر کے قابل بنیں۔ رہی یہ بات کہ قرآن پر مولویوں کی اجارہ داری کیوں ہے تو یہ جاہلانہ سوال ہے جب علاج پر ڈاکٹروں کا قبضہ ہے اور قانون سازی پر قانون دانوں کا قبضہ ہے اور انجینئرنگ کے کاموں پر انجینئروں کا قبضہ ہے تو قرآن کے معافی اور مفاہیم بتانے کے لیے قرآن کے عالم کا قبضہ کیوں نہ ہوگا ؟ شاید کسی کے دل میں یہ خطرہ بھی گزرے کے قرآن حکیم میں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے قرآن کو آسان کردیا پھر اس کا تدبر اور سمجھنا سب کے لیے آسان کیوں نہیں ؟ اس وسوسے کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ قرآن آسان ہے مگر اصول و قواعد کے ساتھ آسان ہے کوئی بھی آسان چیز اپنے قاعدوں اور اصولوں کے بغیر آسان نہیں ہوتی، مثلاً سب سے آسان کام حلوہ کا لقمہ نگل لینا ہے اور اسے آسانی کی مثالوں میں بیان کیا جاتا ہے مگر نگلنے سے پہلے چینی، سوجی، گھی وغیرہ کا انتظام کرنا بنانے اور پکانے کا طریقہ جاننا پھر قاعدے کے مطابق اسے تیار کرنا پھر لقمہ اٹھا کر منہ تک لے جانا تو بہر حال ضروری ہے، قرآن آسان تو ہے مگر عربی میں ہے، عربی سمجھنے کے لیے جن علوم کی ضرورت ہے ان کے بغیر قرآن سمجھنے کا ارادہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص نہ حلوہ بنانے کی چیزوں سے واقف ہو نہ حلوہ بنائے نہ منہ تک لے جائے مگر حلوہ کا لقمہ نگلنے کی مجنونانہ حرکت کرنے لگے، قرآن مجید کے او امر و نواہی کا سمجھ لینا اور حرام و حلال جان لینا تو اس قدر آسان ہے کہ جس نے قرآن نہ پڑھا اس کے سامنے بیان کردیے جائیں تو وہ بھی سمجھ لے گا لیکن اول سے آخر تک پورے قرآن مجید کی تفسیر جاننا اور معارف و دقائق کا نکالنا، مجمل و مبہم کی تعیین کرنا، مشترک الفاظ کے معانی میں سے کسی ایک کو سیاق وسباق دیکھ کر طے کرنا اس کے لیے بہر حال عربیت کا بھرپور علم ہونا ضروری ہے۔ اس زمانہ کے جہلاء اپنی طرف سے قرآن کا مطلب بتانے میں ذرا بھی نہیں جھجکتے اور جن کی عمریں قرآن فہمی میں ختم ہوگئیں، وہ لب کھولتے ہوئے لرزتے ہیں۔ حضرت صدیق اکبر (رض) کی احتیاط : حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے زیادہ قرآن سے واقفیت رکھنے والا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کون ہوسکتا ہے جب ان سے سورة عبس کی آیت (وَ فَاکِھَۃً وَّابًّا) کا مطلب پوچھا گیا تو فرمایا کہ اَیُّ سَمَاءٍ تُظِلُّنِیْ اَوْ اَیُّ اَرْضٍ تُقِلَّنِیْ اِنْ قُلْتُ فِی کِتَاب اللّٰہِ مَا لاَ اَعْلَمُ (تاریخ الخلفاء) مجھے کون سا آسمان سایہ دے گا اور کون سی زمین مجھے اٹھائے گی اگر میں اللہ کی کتاب کے بارے میں وہ بات کہہ دوں جس کا مجھے علم نہیں۔ مفسر کی ذمہ داریاں : مفسر کے لیے ضروری ہے کہ اولاً قرآن کی تفسیر خود قرآن شریف ہی میں تلاش کرے کیونکہ قرآن شریف میں اکثر ایسا ہے کہ ایک آیت کی توضیح و تفسیر دوسری آیات میں مل جاتی ہے، اگر کسی جگہ کی تفسیر قرآن شریف میں نہ ملے تو آنحضرت کے ارشادات میں تلاش کرے کیونکہ سنت نبوی علی صاحبھا الصلاۃ والتحیۃ قرآن شریف کی مستند اور معتمد مفسر اور بہترین شارح ہے، ظاہر ہے کہ جس ذات گرامی پر قرآن کا نزول ہوا اس نے جو قرآن کی تفسیر کی ہو وہ سراسر حق ہوگی اور اس کے خلاف جو بھی شخص تشریح کرے گا وہ اور اس کی تفسیر مردود ہوگی۔ قال اللہ تعالیٰ (اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتَاب بالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بَمَآ اَرَاک اللّٰہُ ) ۔ اگر کسی آیت کی تفسیر حدیث شریف میں بھی نہ ملے تو حضرات صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے اقوال کی طرف رجوع کرے کیونکہ یہ حضرات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد قرآن شریف کے سب سے زیادہ عالم تھے۔ حضرات صحابہ (رض) نزول قرآن کے وقت موجود تھے اور ان قرائن و احوال سے باخبر تھے جو نزول قرآن کے وقت سامنے آتے رہتے تھے۔ پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت کی برکت سے فہم کامل، علم صحیح اور عمل صالح کی دولت سے مالا مال تھے۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا کہ اپنے صحابہ کو قرآن شریف کے الفاظ سکھاتے تھے اسی طرح قرآن شریف کے معافی بھی بیان فرماتے تھے۔ ابو عبدالرحمن سلمی (رض) نے بیان کیا کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) وغیر ہم نے فرمایا کہ جب ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دس آیات سیکھتے تھے تو جب تک ان سے متعلقہ علم و عمل کو نہ جان لیتے تھے (دوسرے سبق کے لیے) آگے نہ بڑھتے تھے، قرآن اور قرآن کا علم و عمل ہم نے سب ساتھ ساتھ سیکھا ہے۔ بے پڑھے مفسرین کو تنبیہ : یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ جو بھی آدمی کسی فن کی کتاب پڑھتا ہے (مثلاً حساب یا طب کی کتاب) تو ضرور بالضرور اس کے معانی اور مطالب کو اچھی طرح سمجھنے اور جاننے اور یاد رکھنے کی کوشش کرتا ہے، کیا یہ ہوسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام (رض) نے اللہ کی مقدس کتاب کے معانی اور مطالب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معلوم نہ کیے ہوں، حالانکہ قرآن کو نجات کا ذریعہ اور دونوں عالم کی صلاح و فلاح کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ قرآن و حدیث اور تفسیر صحابہ پر جسے عبور نہ ہو ایسا شخص محض عربی دانی کے زور پر جو قرآن کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرے گا ضرور گمراہ ہوگا، اور امت کو گمراہ کرے گا، قرآن کے صحیح واضح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ عقیدہ اور عمل درست ہو، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو جن عقائد و اعمال پر ڈالا تھا ان کا پابند ہو، فسق و فجور اور الحادو زندقہ سے پاک ہو، قرآن پر چلنے کا ارادہ رکھتا ہو، اس کی نیت قرآن کو اپنے نظریہ اور خود ساختہ معانی پر چپکانے کی نہ ہو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

58 اختلاف کا مطلب یہ ہے کہ اس میں بیان کردہ امور وحقائق نفس الامر اور واقع سے مختلف ہوتے اور بیان کا نفس الامر سے مختلف ہونا جھوٹ اور کذب ہوتا ہے تو حاصل یہ نکلا کہ اگر قرآن خدا کا کلام نہ ہوتا بلکہ انسان کا خود ساختہ ہوتا تو اس کے کئی بیانات نفس الامر کے خلاف اور جھوٹے ہوتے لیکن اگر قرآن کے بیان کردہ امور و حقائق کو بنظر انصاف دیکھا جائے اور ان میں غور و فکر کیا جائے تو اس میں ایک بات بھی خلاف واقع نہیں مل سکے گی بان یکون بعض اخباراتہ الغیبیۃ کا لاخبار عما یسرہ المنافقون غیر مطابق للواقع الخ (روح ج 5 ص 92 و خازن ج 1 ص 470) حضرت شیخ (رح) کے نزدیک یہی راجح ہے یا اختلاف سے عام اختلاف مراد ہے خواہ باہمی تناقض ہو یا نفس الامر سے مخالفت یا اسلوب بیان اور فصاحت و بلاغت میں اختلاف وغیرہ کما فی القرطبی ج 5 ص 290 وغیرہ )

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 کیا یہ لوگ قرآن کی فصاحت و بلاغت اور اس کے اعجاز میں غور اور تدبر سے کام نہیں لیتے اور اگر یہ قرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی جانب سے ہوتا اور خدا کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں یہ لوگ بکثرت تفاوت پاتے جیسا کہ عام طور سے دوسرے کے کلام میں ہوا کرتا ہے۔ (تیسیر) حضر ت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی مخلوق ہر حال میں اس حال کے موافق بولتا ہے غصے میں مہربانی والوں کی طرف دھیان نہیں رہتا اور مہربانی میں غصے والوں کی طرف دنیا کے بیان میں آخرت یاد نہ آوے اور آخرت کے بیان میں دنیا بےپروائی میں عنایت کا ذکر نہیں اور عنایت میں بےپروائی کا تو اس حال کا کلام سنے دوسرے حال سے مخالف نظر آوے اور قرآن شریف جو خالق کا کلام ہے یہاں ہر بیان میں دوسری جانب بھی نظر ہوتی ہے۔ غور کرنے سے معلوم ہوا کہ ہر چیز کا بیان ہر مقام میں ایک راہ پر ہے یہاں منافقوں کا مذکور تھا۔ اس میں بھی ہر بات پر الزام اسی قدر ہے جتنا چاہئے اور جماعت میں سے انہی پر الزام ہے جو لائق الزام ہیں اسی واسطے فرمایا کہ بعضے ان میں سے یوں کرتے ہیں۔ (موضح القرآن) اختلاف کثیرہ کا یہ مطلب ہے کہ ایک ایک مضمون میں اگر اختلاف ہوتا صدہا مضامین تھے ان سب کا اختلاف کثیر اختلاف بن جاتا لیکن یہاں کسی ایک مضمون میں بھی اختلاف نہیں لہٰذا یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے بشر کے کلام میں یہ یکسانیت کہاں نہ کسی جگہ فصاحت و بلاغت کی کمی، نہ توحید و تشریک حلال و حرام کے بیان میں کہیں تناقض اور تفاوت پھر غیب کی اطلاعات میں نہ کوئی خبر ایسی جو واقع کے مطابق نہ ہو، نہ نظم قرآنی میں کہیں یہ فرق کہ بعض فصیح ہو اور بعض رکیک ہر بشر کی تقریر و تحریر میں ماحول کا اثر ہوتا ہے اطمینان کا اور انداز پریشانی کا اور انداز مسرت کے وقت اور رنگ اور رنج کے وقت اور رنگ، قرآن ہر قسم کے تفاوت اور تناقض سے پاک اور بالاتر ہے اور یہی کلام ہونے کی واضح دلیل ہے۔ حضرت شاہ صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے وہ بہت صاف ہے اگرچہ اردوپرانی ہے لیکن مطلب واضح اور صاف ہے۔ پھر شاہ صاحب نے ربط کے سلسلے میں بھی ایک بات بہت خوب فرمائی کہ دیکھو منافقین کا ذکر ہی اس موقع پر قرآن کا انضباط ملاحظہ ہو کہ مخالفین کے ذکر میں بھی جو قابل الزام تھے ان کا ہی ذکر کیا سب کو برا نہ کہا اور یہ نہیں فرمایا کہ سب لوگ راتوں کو الٹا مشورہ کرتے ہیں بلکہ طائفۃ کہہ کر ان سرداروں اور بڑے لوگوں کی خیانت کا اظہار فرمایا اور اسی مناسبت سے یہاں قرآن کی حقانیت کا ذکر فرمایا۔ اب آگے اسی قسم کے لوگوں کی بعض اور حرکات کا ذکر ہے جو علاوہ دینی نقصان کے انتظاماً اور سیاستہ بھی نقصان دہ ہیں اور ان کا ذکر کرتے ہوئے اس کا صحیح طریقہ بھی تعلیم فرمایا چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)