Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 83

سورة النساء

وَ اِذَا جَآءَہُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَوۡفِ اَذَاعُوۡا بِہٖ ؕ وَ لَوۡ رَدُّوۡہُ اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ مِنۡہُمۡ ؕ وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ لَاتَّبَعۡتُمُ الشَّیۡطٰنَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۸۳﴾

And when there comes to them information about [public] security or fear, they spread it around. But if they had referred it back to the Messenger or to those of authority among them, then the ones who [can] draw correct conclusions from it would have known about it. And if not for the favor of Allah upon you and His mercy, you would have followed Satan, except for a few.

جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کر دیا حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے ، تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالٰی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا جَاءهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الاَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِهِ ... When there comes to them some matter touching (public) safety or fear, they make it known (among the people); chastising those who indulge in things before being sure of their truth, disclosing them, making them known and spreading their news, even though such news might not be true at all. In the introduction to his Sahih, Imam Muslim recorded that Abu Hurayrah said that the Prophet said, كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِع Narrating everything one hears is sufficient to make a person a liar. This is the same narration collected by Abu Dawud in the section of Adab (manners) in his Sunan. In the Two Sahihs, it is recorded that Al-Mughirah bin Shu`bah said that the Messenger of Allah prohibited, "It was said," and, "So-and-so said." This Hadith refers to those who often convey the speech that people utter without investigating the reliability and truth of what he is disclosing. The Sahih also records, مَنْ حَدَّثَ بِحَدِيثٍ وَهُوَ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبَيْن Whoever narrates a Hadith while knowing it is false, then he is one of the two liars (who invents and who spreads the lie). We should mention here the Hadith of Umar bin Al-Khattab collected in the Two Sahihs. When Umar was informed that the Messenger of Allah divorced his wives, he came from his house, entered the Masjid and found the people talking about this news. He could not wait and went to the Prophet to ask him about what had truly happened, asking him, "Have you divorced your wives?" The Prophet said, "No." Umar said, "I said, Allahu Akbar..." and mentioned the rest of the Hadith. In the narration that Muslim collected, Umar said, "I asked, `Have you divorced them?' He said, `No.' So, I stood by the door of the Masjid and shouted with the loudest voice, `The Messenger of Allah did not divorce his wives.' Then, this Ayah was revealed, وَإِذَا جَاءهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الاَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُوْلِي الاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ... When there comes to them some matter touching (public) safety or fear, they make it known (among the people), if only they had referred it to the Messenger or to those charged with authority among them, the proper investigators would have understood it from them (directly). So I properly investigated that matter." This Ayah refers to proper investigation, or extraction of matters from their proper resources. Allah's statement, ... وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ ... Had it not been for the grace and mercy of Allah upon you, ... لااَتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلااَّ قَلِيلاً you would have followed Shaytan except a few of you. Ali bin Abi Talhah reported from Ibn Abbas, refers to the believers.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

83۔ 1 یہ بعض کمزور اور جلدباز مسلمانوں کا رویہ، ان کی اصلاح کی غرض سے بیان کیا جا رہا ہے۔ امن کی خبر سے مراد مسلمانوں کی کامیابی اور دشمن کی ہلاکت و شکست کی خبر ہے۔ (جس کو سن کر امن اور اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ہے اور جس کے نتیجے میں بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ پر اعتمادی پیدا ہوتی ہے جو نقصان کا باعث بن سکتی ہے) اور خوف کی خبر سے مراد مسلمانوں کی شکست اور ان کے قتل و ہلاکت کی خبر ہے (جس سے مسلمانوں میں افسردگی پھیلنے اور ان کے حوصلے پست ہونے کا امکان ہوتا ہے) اس لئے انہیں کہا جا رہا ہے کہ اس قسم کی خبریں، چاہے امن کی ہوں یا خوف کی انہیں سن کر عام لوگوں میں پھیلانے کے بجائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا دو یا اہل علم و تحقیق میں انہیں پہنچا دو تاکہ وہ دیکھیں کہ یہ خبر صحیح ہے یا غلط ؟ اگر صحیح ہے تو اس وقت اس سے مسلمانوں کا باخبر ہونا مفید ہے یا بیخبر رہنا یہ اصول ویسے تو عام حالات میں بھی بڑا اہم ہے لیکن حالت جنگ میں تو اس کی اہمیت و افادیت بہت ہی زیادہ ہے۔ استنباط کا مادہ نبط ہے نبط اس پانی کو کہتے ہیں جو کنواں کھودتے وقت سب سے پہلے نکلتا ہے۔ اسی لیے استنباط تحقیق اور بات کی تہہ تک پہنچنے کو کہا جاتا ہے۔ (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٥] افواہوں کی تخلیق کا حکم :۔ غزوہ احد اور غزوہ خندق کا درمیانی دور مسلمانوں کے لیے ابتلا کا دور تھا جبکہ غزوہ احد میں ایک دفعہ مسلمانوں کی شکست کی وجہ سے یہودیوں، مشرکوں، قریش مکہ اور قبائل عرب، غرض سب اسلام دشمن طاقتوں کے حوصلے بڑھے ہوئے تھے اور مدینہ پر ہر طرف ایک ہنگامی قسم کی فضا چھائی ہوئی تھی اس صورتحال سے اسلام دشمن لوگ خوب فائدہ اٹھاتے اور کبھی تو مسلمانوں کو مرعوب اور دہشت زدہ بنانے کے لیے ایسی افواہیں پھیلا دیتے کہ فلاں مقام پر مسلمانوں کے خلاف بڑا بھاری لشکر جمع ہوچکا ہے اور عنقریب وہ مدینہ پر چڑھائی کرنے والا ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا کہ خطرہ کی بات فی الواقع موجود ہوتی لیکن غلط بیانی اور افواہوں کی بنا پر مسلمانوں کو غافل رکھا جاتا۔ اور یہ بات صرف منافقوں یا یہودیوں تک ہی محدود نہ تھی۔ یا اس کی وجہ محض اسلام دشمنی ہی نہ ہوتی تھی بلکہ بعض لوگ ازراہ دلچسپی ایسی افواہوں کے پھیلانے میں حصہ دار بن جاتے تھے۔ اسی سلسلہ میں مسلمانوں کو تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ وہ ایسی افواہوں میں ہرگز حصہ دار نہ بنیں بلکہ اگر کوئی افواہیں سن پائیں تو اسے حکام بالا تک پہنچا دیں تاکہ وہ صورتحال کی تحقیق کرسکیں۔ ربط مضمون کے لحاظ سے اگرچہ اس آیت کی وہی تشریح مناسب معلوم ہوتی ہے جو اوپر کردی گئی ہے۔ تاہم اس کا حکم عام ہے اور ہر موقعہ پر افواہوں کے بارے میں یہی رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ چناچہ سیدنا عمر (رض) اس آیت کا شان نزول بالکل الگ بیان کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ لوگ مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے اور جب میں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر اس کی تحقیق کی تو آپ نے بتایا کہ آپ نے طلاق نہیں دی۔ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی۔ & (مسلم، کتاب الطلاق۔ باب فی الایلاء نیز آپ نے فرمایا & کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کی یہی دلیل کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کر دے & (مسلم، مقدمہ، باب النھی عن الحدیث بکل ماسمع [١١٦] یعنی اگر اللہ تعالیٰ تمہیں ایسی ہدایات وقت پر نہ دیتا تو تم افواہوں کی رو میں بہہ جاتے اور دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے نقصان اٹھاتے۔ ضمناً اس سے یہ معلوم ہوا کہ افواہوں کی تحقیق کیے بغیر انہیں آگے بیان کردینا شیطان کی اطاعت ہے جس سے طرح طرح کے فتنے رونما ہوسکتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ ۔۔ : امن کی خبر یہ کہ مسلمانوں کو فتح ہوئی، یا دشمن کا لشکر واپس چلا گیا، جس سے مسلمان بےفکر ہو کر تیاری کم کردیں وغیرہ اور خوف کی خبر یہ کہ فلاں مقام پر مسلمانوں کو شکست ہوئی، یا دشمن بہت بڑی تعداد میں حملہ آور ہونے والا ہے، جس سے مسلمانوں میں خوف و ھر اس پھیلے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کے مختلف سرایا (جنگی دستے) لڑائی کے لیے بھیجتے رہتے تھے، اس لیے اس قسم کی افواہیں مدینہ میں اکثر پہنچتی رہتی تھیں، لیکن منافقین اور بےاحتیاط قسم کے مسلمان بجائے اس کے کہ انھیں سب سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے دار اصحاب تک پہنچائیں، از خود ان افواہوں کی تشہیر شروع کردیتے، ان کے اسی طرز عمل کی یہاں مذمت کی جا رہی ہے۔ (فتح القدیر۔ قرطبی) 2 یستنبطونہ : اس کا مادہ ” نَبْطٌ“ ہے۔ ” نَبْطٌ“ وہ پانی ہے جو کنواں کھودتے وقت سب سے پہلے نکلتا ہے، اس لیے ” استنباط “ تحقیق اور بات کی تہ تک پہنچنے کو کہا جاتا ہے، اسی طرح مخفی بات کی حقیقت معلوم اور ظاہر کرنے کو بھی ” نَبْطٌ“ اور ” اِسْتِنْبَاطٌ“ کہا جاتا ہے۔ کان کی گہرائی سے کوئی معدن نکالنے کو بھی ” اِسْتِنْبَاطٌ“ کہتے ہیں۔ ( لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ ) مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر امن یا خوف کی وہ خبر بلاتحقیق پھیلانے کے بجائے اللہ کے رسول اور مسلمانوں کے امراء کو پہنچاتے تو سب سے پہلے وہ غور و خوض اور تحقیق کر کے معلوم کرتے کہ خبر صحیح بھی ہے یا غلط، کیونکہ بلا تحقیق آگے بات کرنے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جھوٹ قرار دیا ہے، چناچہ فرمایا : (کَفٰی بالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَّا سَمِعَ ) [ مسلم، المقدمۃ، باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع : ٥ ]” آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جو کچھ سنے ( بلا تحقیق) آگے بیان کر دے۔ “ پھر وہ ذمے دار حضرات فیصلہ کرتے کہ اس خبر کی اشاعت کرنی چاہیے یا نہیں، اس کے بعد اگر وہ قابل اشاعت ہوتی تو اسے نشر کرتے، ورنہ روک دیتے۔ انفرادی زندگی میں عموماً اور اجتماعی زندگی میں خصوصاً اس ہدایت پر عمل نہایت ضروری ہے، ورنہ اس بےاحتیاطی کے بیحد نقصانات ہوسکتے ہیں، بالخصوص جنگ کے ایام میں، جب جبکہ خبریں اور افواہیں فوجی کاروائیوں سے بڑھ کر تاثیر رکھتی ہیں، خبروں کے محاذ کو بھی جنگ کا زبردست محاذ سمجھ کر اس کے مطابق معاملہ کرنا چاہیے۔ 3 اِلَّا قَلِيْلًا شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ یہ جو فرمایا : ” اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا تو شیطان کے پیچھے چلتے مگر تھوڑے “ یعنی ہر وقت احکام تربیت کے نہ پہنچتے رہیں تو کم لوگ ہدایت پر قائم رہیں۔ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The Background of Revelation According to Sayyidna Ibn ` Abbas, Dahhak and Abu Mu&adh (رض) the verse: وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ‌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ (And when there comes to them a matter about peace or fear, they spread it) was revealed about the hypocrites; and, according to Sayyidna Hasan and many others, this verse was revealed about weak Muslims (Ruh a1-Ma` ani). After having reported events relating to this verse, the famous commentator, Ibn Kathir (رح) has stressed on the importance of referring to the hadith of Sayyidna ` Umar ibn al-Khattab (رض) ، while consid¬ering the background in which this verse was revealed. According to this, when Sayyidna ` Umar (رض) heard that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has divorced his wives, he left his house heading for the Masjid. While still at its door steps, he heard that people inside there were also talking about the matter. Seeing this, he said that this was something which must first be investigated. So, he went to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and asked him if he had divorced his wives. He said, |"No.|" Sayyidna ` Umar (رض) says, |"After having found out the truth of the matter, I returned to the Masjid and, standing on the door, I made an announcement that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has not divorced his wives. Whatever you are saying is wrong.|" Thereupon, the verse: وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ‌ was revealed (Tafsir Ibn Kathir). To spread rumours, without verification This verse tells us that hearsay should not be repeated without prior investigation into its credibility. Thus, in a hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: کَفَی بالمرء کذبا أن یحدث بکل ماسمع & It means that &for a man to be a liar, it is enough that he repeats everything he hears without first verifying its truth&. In another hadith, he said: مَن حَدَثَ بحدیث و ھو یری انہ کذب فھو احد الکاذبین . It means: &Whoever relates something he thinks is a lie, then, he too is one of the two liars (Tafsir Ibn Kathir). Who are |"those in authority&? Let us now determine the meaning of two expressions appearing in the sentence: وَلَوْ رَ‌دُّوهُ إِلَى الرَّ‌سُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ‌ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ; which has been translated as: &and had they referred it to the Messenger and to those in authority among them, those of them who were to investigate it would have certainly known it (the truth of the matter).& Literally, the later word,إستنباط |"istinbat|" here refers to the act of drawing out water from the depth of a well. When a well is dug, the water that oozes out first is called mustambat water. But, the usage in this context means to get to the bottom of something and find out the truth of the matter. (Qurtubi) As for the correct signification of the expression: اولو الامر (those in authority), positions taken by scholars vary. Sayyidna Hasan, Qatadah and Ibn Abi Laila, may Allah have mercy on them, say that this refers to Muslim scholars and jurists (علماء و فقھاء). Al-Suddi says that it means rulers and officials (اُمراء و حُکام). After reporting both these statements, Abu Bakr al-Jassas takes a general view and maintains that the expression means both, which is the correct approach, because أُولِي الْأَمْرِ‌ applies to all of them. However, some scholars doubt the possibility that أُولِي الْأَمْرِ‌ could refer to Muslim jurists فُقھاء) ) because أُولِي الْأَمْرِ‌ in its literal sense, means people whose orders are carried out administra¬tively. Obviously, this is not what the Muslim jurists فُقھاء) ) do. Let us look at the reality of the thing. The implementation of authority takes two forms. Firstly, it can be done by using force, coercion and oppres¬sion. This is something which can only be done by those in authority. The second from of obedience to authority comes from reliance and trust, and that stands reposed in revered Muslim jurists (فُقھاء) only, a demonstration of which has been all too visible in the lives of Muslims-in general in all ages where the general body of Muslims have been, by their own free will and choice, taking the decision and authority of religious scholars (عُلَمَاء ) as the mandatory mode of action in all matters of religion. Then, according to the percepts of the Shari’ ah, obedience to rules set by them is obligatory (wajib) on them as such. So, given this reason, the application of the term أُولِي الْأَمْرِ (those in authority) to them as well is correct. (al-Ahkam a1-Qur&an by al Jassas) Details on this subject have already appeared under the commentary on verse: أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ (Say, |"Obey Allah and obey the Messenger and those in authority among you - 4:59). Qiyas and Ijtihad in modern problems From this verse, we find out that rulings on problems not specifi¬cally mentioned in the authoritative texts (technically, nass) of the Holy Qur&an or Sunnah will be deduced in the light of the Qur&an using the principle of Ijtihad and Qiyas because this verse carries the command to turn to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) for the resolution of any new problems - if he is present at that time. And if he is not present, the command is to turn to religious scholars and jurists of the Muslim community (عُلَمَاء وفُقَھَاء), because they have the required ability to extract and formulate religious injunctions from the authoritative texts of the Qur&an and Hadith. Points of guidance, which emerge from the statement made above are: 1. In the absence of nass, explicit textual authority from the Qur&an and Hadith, the course of action is to turn to Fuqaha, and ` Ulama& (Muslim jurists and scholars) 2. The injunctions given by Allah are of two kinds. Some of them are there in the form of explicit textual imperatives (mansus and sarih). Then, there are some others which are not explicit and carry meanings which are hidden in the depths of the verses as willed by Allah in his infinite wisdom 3. It is the duty of the ` Ulama& (religious scholars) to extract and formulate such meanings through the established methodology of Ijtihad and Qiyas. 4. For the great masses of Muslims, it is necessary that they should follow the guidance given by the ` Ulama& in such problems. (Ahkam al-Qur&an by al-Jasas) The Prophetic function of deducing injunctions The statement: مِنھُم لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ : those of them who were to investigate it would have certainly known it (the truth of the matter), shows that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) too was obligated to the percept of extracting formulating and reasoning out with proofs all injections that needed to be so handled. This is so because earlier in the verse the command was to turn towards two sources. Firstly, it was to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and secondly, to those in authority ( ( أُولِي الْأَمْرِ‌. After that it was said: لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ.(those of them who were to investigate it would have certainly known it.) And this injunction is general which covers both of the two parties cited above. So, it proves that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was also obligated with the function of deducing injunctions. (Ahkam al-Qur&an by al-Jassas) An important note If this verse makes someone suspect or assume that it has no rela¬tion with deducing injunctions of Shari’ ah, it does not say anymore than give an instruction to people that they should not indulge in rumour-mongering in situations of peace and fear when faced with an enemy, instead of which, one should turn to the knowledgeable and trustworthy and act in accordance with the advice they give after due deliberation and that it has no connection with juristic or new legal problems. In order to answer this doubt, it can he said that the sentence: وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ‌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ ; (And when there comes to them a matter about peace or fear) in this verse makes no mention of an enemy. So, the state of peace and fear is universal. The way it relates to an enemy, so it does with day to day problems as well. This is so because the appearance of a problem before a commoner, a problem about which no textual authority relating to its being lawful or unlawful exists, throws him into a fix and he cannot decide which side to take as both sides hold the probability of gain and loss. The smartest way out devised by the Shari’ ah of Islam in this impasse is that one should turn to those capable of extracting and formulating injunctions and act in accordance with the via media laid out by them. (Abridged from 4km al Qur&n by al-Jassas) The outcome of Ijtihad The legal ruling extracted by Muslim jurists (فُقَھَا) from the texts through Istinbat (and Ijtihad) cannot categorically be declared as being the absolute truth in the sight of Allah. Instead of that, the probability always exists that this ruling might as well turn out to be not true. But, of course, what one gains out of it is positive, overwhelming and weightier opinion about its being true and correct, something which is to act upon. (al-ahkam al-Qur&in by al-Jassas and Tafsir Kabir)

خلاصہ تفسیر اور جب ان کو کسی امر (جدید) کی خبر پہنچتی ہے خواہ (وہ امر موجب) امن ہو یا (موجب) خوف (مثلاً کوئی لشکر مسلمانوں کا کسی جگہ جہاد کے لئے گیا، اور ان کے غالب ہونے کی خبر آئی، یہ امن کی خبر ہوئی، یا انکے مغلوب ہونے کی خبر آئی یہ خوف کی خبر ہے) تو اس (خبر) کو فوراً مشہور کردیتے ہیں (حالانکہ بعض اوقات وہ غلطی نکلتی ہے اور اگر صحیح بھی ہوئی تب بھی بعض اوقات اس کا مشہور کرنا مصلحت انتظامیہ کے خلاف ہوتا ہے اور اگر (بجائے خود مشہور کرنے کے) یہ لوگ اس (خبر) کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور جو (حضرات اکابر صحابہ) ان میں ایسے امور کو سمجھتے ہیں ان (کی رائے) کے اوپر حوالہ رکھتے (اور خود کچھ دخل نہ دیتے) تو اس (خبر کی صحت و غلط اور قابل تشہیر ہونے نہ ہونے) کو وہ حضرات تو پہچان ہی لیتے جو ان میں اس کی تحقیق کرلیا کرتے ہیں (جیسا ہمیشہ پہچان ہی لیتے ہیں پھر جیسا یہ حضرات عمل درآمد کرتے ویسا ہی ان خبر اڑانے والوں کو کرنا چاہئے تھا، ان کو دخل دینے کی کیا ضرورت ہوئی، اور نہ دخل دیتے تو کونسا کام اٹک رہا تھا ؟ آگے احکام مذکورہ سنانے کے بعد جو سر تا سر متضمن مصالح دنیویہ واخرویہ ہیں بطور منت کے مسلمانوں کو ارشاد ہے) اور اگر تم لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا (یہ خاص) فضل اور رحمت (کہ تم کو قرآن دیا اپنا پیغمبر بھیجا یہ اگر) نہ ہوتا تو تم سب کے سب) ضرر دنیوی و اخروی اختیار کر کے) شیطان کے پیرو ہوجاتے بجز تھوڑے سے آدمیوں کے (جو بدولت عقل سلیم خدا داد کے کہ وہ بھی ایک خاص فضل و رحمت ہے اس سے محفوظ رہتے ورنہ زیادہ تباہی ہی میں پڑتے، پس تم کو ایسے پیغمبر اور ایسے قرآن کو جن کی معرفت ایسے مصالح کے احکام آتے ہیں برخلاف مذکورہ منافقین کے بہت غنیمت سمجھنا چاہئے اور پوری اطاعت کرنا چاہئے۔ ) معارف و مسائل شان نزول :۔ واذا جآءھم امرمن الامن اوالخوف اذاعوابہ، ابن عباس، ضحاک اور ابو معاذ (رض) کے نزدیک یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی اور حضرت حسن اور دوسرے اکثر حضرات کے نزدیک یہ آیت ضعیف اور کمزور مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے (روح المعانی) علامہ ابن کثیر نے اس آیت سے متعلق واقعات نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اس آیت کے شان نزول میں حضرت عمر بن خطاب کی حدیث کو ذکر کرنا چاہئے، وہ یہ کہ حضرت عمر (رض) کو یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے تو وہ اپنے گھر سے مسجد کی طرف آئے جب دروازہ پر پہنچے تو آپ نے سنا کہ مسجد کے اندر لوگوں میں بھی یہی ذکر ہو رہا ہے، یہ دیکھ کر آپ نے کہا کہ اس خبر کی تحقیق کرنی چاہئے، چناچہ آپ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دی ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں حضرت عمر فرماتے ہیں کہ یہ تحقیق کرنے کے بعد میں مسجد کی طرف واپس آیا اور دروازہ پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو طلاق نہیں دی، جو آپ لوگ کہہ رہے ہیں غلط ہے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی : واذا جآءھم امر الخ (تفسیر ابن کثیر) بے تحقیق باتوں کا اڑانا گناہ اور بڑا فتنہ ہے :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے بیان نہیں کرنا چاہئے، چناچہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں فرمایا : کفی بالمرء کذباً ان یحدث بکل ماسمع، ” یعنی کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنی ہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے بیان کر دے۔ “ ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا : من حدث بحدیث وھویری انہ کذب فھوا احد الکاذبین۔” یعنی جو آدمی کوئی ایسی بات بیان کرے جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ یہ جھوٹی ہے تو دو جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا وہ بھی ہے۔ “ (تفسیر ابن کثیر) ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامرمنھم لعلمہ کہتے ہیں، کنواں کھودنے میں جو پانی پہلی مرتبہ نکلتا ہے اس کو ماء مستنبط کہتے ہیں، مگر یہاں مراد یہ ہے کہ کسی بات کی تہہ تک پہنچ کر اس کی صحیح حقیقت معلوم کرنا (قرطبی) اول الامر کی تعیین میں متعدد اقوال ہیں، حضرت حسن، قتادہ اور ابن ابی لیلی رحمہم اللہ کے نزدیک علماء اور فقہاء مراد ہیں، حضرت سدی (رح) فرماتے ہیں کہ امراء اور حکام مراد ہیں، ابوبکر حصاص ان دونوں اقوال کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ دونوں مراد ہیں، اس لئے کہ اولی الامر کا اطلاق ان سب پر ہوتا ہے، البتہ اس پر بعض لوگ یہ شبہ کرتے ہیں کہ اولی الامر سے مراد فقہاء نہیں ہو سکتے، کیونکہ اولی الامر اپنے لفظی معنی کے اعتبار سے وہ لوگ ہیں جن کا حکم چلتا ہو اور ظاہر ہے کہ فقہاء کا یہ کام نہیں حقیقت یہ ہے کہ حکم چلنے کی دو صورتیں ہیں ایک جبر و تشدد سے وہ تو صرف اہل حکومت ہی کرسکتے ہیں دوسری صورت اعتقاد و اعتماد کی وجہ سے حکم ماننے کی ہے، وہ حضرات فقہاء ہی کو حاصل ہے جس کا مشاہدہ عام مسلمانوں کے حالات سے ہر دور میں ہوتا رہا ہے کہ دین کے معاملات میں ام مسلمان اپنے اختیار سے علماء ہی کے حکم کو واجب العمل قرار دیتے ہیں اور ازروئے شروع ان پر ان کے احکام کی اطاعت واجب بھی ہے، لہٰذا اس وجہ سے ان پر بھی اولی الامر کا اطلاق صحیح ہے (احکام القرآن للحصاص) اس بحث کی مزید تفصیل آیت اطیعواللہ واطیعوالرسول واولی الامر منکم کے تحت بھی گذر چکی ہے۔ مسائل جدیدہ میں قیاس و اجتہاد عوام کے لئے تقلید ائمہ کا ثبوت ہے :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جن مسائل میں کوئی نصف نہ ہو ان کے احکام اجتہاد قیاس کے اصول پر قرآنی حیثیت سے نکالے جائیں، کیونکہ اس آیت میں اس بات کا حکم دیا گیا کہ مسائل جدیدہ کے حل میں اگر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں تو ان کی جانب رجوع کرو، اور اگر وہ موجود نہ ہوں تو علماء اور فقہاء کی طرف رجوع کرو، کیونکہ وہ احکام کو مستنبط کرنے کی صلاحیت تام رکھتے ہیں۔ اس بیان سے چند امور مستفاد ہوئے ہیں : ایک یہ کہ فقہاء اور علماء کی جانب عدم نص کی صورت میں رجوع کیا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ احکام اللہ کی دو قسمیں ہیں : بعض وہ ہیں جو منصوص اور صریح ہیں اور بعض وہ ہیں جو غیر صریح اور مبہم ہیں جن کو آیات کی گہرائیوں میں اللہ تعالیٰ نے ودیعت کر رکھا ہے۔ تیسرے یہ کہ علماء کا یہ فریضہ ہے کہ وہ ایسے معانی کو اجتہاد اور قیاس کے ذریعے استنباط کریں۔ چھٹے یہ کہ عوام کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان مسائل میں علماء کی تقلید کریں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی استنباط و استدلال کے مکلف تھے :۔ لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم، اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی دلائل کے ذریعہ احکام کے استنباط کے مکلف تھے، اس لئے کہ پہلی آیت میں دو آدمیوں کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا، ایک رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اور دوسرے اولوالامر کی طرف، اس کے بعد فرمایا لعلمہ الذین یستنبطونہ اور یہ حکم عام ہے، جس میں مذکورہ فریقین میں سے کسی کی تخصیص نہیں ہے، لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ آپ کی ذات بھی استنباط احکام کی مکلف تھی۔ (احکام القرآن للخصاص) فوائد مہمہ :۔ اگر کسی کو یہ شبہ ہو کہ اس آیت سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ دشمن سے امن اور خوف کے بارے میں تم خود بخود خبریں نہ اڑاؤ، بلکہ جو اہل علم اور ذی رائے ہیں ان کی طرف رجوع کرو، پھر و غور و فکر کر کے جو بات بتلائیں اس پر عمل کرو، ظاہر ہے کہ مسائل حوادث سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ تو جواب یہ ہے کہ آیت واذا جآءھم امرمن الامن اوالخوف میں دشمن کا کوئی ذکر نہیں ہے، لہٰذا امن اور خوف عام ہے، جس طرح ان کا تعلق دشمن سے ہے، اسی طرح مسائل حوادث سے بھی ہے، کیونکہ جب کوئی جدید مسئلہ عامی کے سامنے آتا ہے جس کی حلت اور حرمت کے بارے میں کوئی نص نہیں ہے، تو وہ فکر میں پڑجاتا ہے کہ کونسا پہلو اختیار کرے اور دونوں صورتوں میں نفع، نقصان کا احتمال رہتا ہے تو اس کا بہترین حل شریعت نے یہ نکالا کہ تم اہل استنباط کی طرف رجوع کرو، وہ جو بات بتلائیں اس پر عمل کرو۔ (احکام القرآن للحصاص ملخصاً ) اجتہاد و استنباط غلبہ ظن کا فائدہ دیتا ہے علم یقینی کا نہیں :۔ ٢۔ استنباط سے جو حکم فقہاء نکالیں گے اس کے بارے میں قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ کے نزدیک قطعی طور پر یہی حق ہے، بلکہ اس حکم کے خطاء ہونے کا بھی احتمال باقی رہتا ہے، ہاں اس کے صحیح ہونے کا ظن غالب حاصل ہوجاتا ہے، جو عمل کے لئے کافی ہے۔ (احکام القرآن للحصاص و تفسیر کبیری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ۝ ٠ۭ وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ۝ ٠ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُہٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا۝ ٨٣ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ أمن أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ } ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ (أذاعوا) ، فيه إعلال بالقلب أصله أذيعوا نقلت الحرکة إلى الذال قبل الیاء فقلبت ألفا لتحرک الیاء في الأصل . اذاعوا بہ۔ وہ مشہور کردیتے ہیں ۔ اس کا تذکرہ عام کردیتے ہیں۔ اس کو شہرت دیدتے ہیں اشاعت کردیتے ہیں۔ افشا کردیتے ہیں۔ اذاعوا۔ اذاعۃ سے بمعنی شہرت دینا۔ خبر پھیلانا۔ راز ظاہر کرنا۔ ذیع مادہ۔ نبط قال تعالی: وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ [ النساء/ 83] أي : يستخرجونه منهم وهو استفعال من : أَنْبَطْتُ كذا، والنَّبْطُ : الماء المُسْتَنْبَطُ ، وفرس أَنْبَطُ : أبيض تحت الإبط، ومنه النَّبْطُ المعروفون . ( ن ب ط ) الا ستنباط کے معنی استخراج کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ [ النساء/ 83] اور اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہچاتے تو مخحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کرلیتے اور یہ انبطت کذا اسے استفعال کا صیغہ ہے جس کے اصل معنی پانی نکالنے کے ہیں اور کنواں کھودنے کے بعد جو پہلی دفعہ پانی نکالا جاتا ہے اسے نبط کہا جاتا ہے ۔ فرس انبط اسپ سفید بغل اسی سے نبط ایک مشہور قوم کا نام ہے ۔ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ولوکان من عندغیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا۔ اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو لوگ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے) اختلاف کی تین صورتیں ہیں تناقض ، کی صورت میں اختلاف جس میں ایک چیز کا ثبوت دوسری چیز کے فساد کو لازم کردے۔ تفاوت کی صورت میں اختلاف جس میں ایک حصہ توفصاحت و بلاغت کی بلندیوں کو چھورہا ہو اور دوسرا حصہ انتہائی گھٹیا اور پست ہو۔ اختلاف کی یہ دونوں صورتیں قرآن سے منفی ہیں ، اور یہ چیز اس کے اعجاز کے دلائل سے ایک دلیل ہے۔ کیونکہ جب فصحاء اور بلغاء کا کوئی کلام طویل ہوتاجائے جس طرح قرآن کی طویل سورتیں ہیں تو ایسی صورت میں اس طویل کلام میں فصاحت اور بلاغت کا یکساں معیار برقرار نہیں رہتا، اور اس میں عدم یکسانیت کی بنا پر وہ تفاوت پیدا ہوجاتا ہے جس کا ہم نے ابھی ابھی ذکر کیا ہے تلاوم کی صورت میں اختلاف جس میں پورے کا پورے کلام لفظی اور معنی حسن کے لحاظ سے ایک دوسرے کے متناسب ہو۔ مثلا ق راتوں اور آیات کی مقداروں کے لحاظ سے اختلاف نیز ناسخ اور منسوخ کے احکام میں اختلاف ، اس آیت میں استدلال بالقرآن پر ابھارا گیا ہے اور اس کی ترغیب دی گئی ہے کیونکہ اس میں اس حق پر مختلف پیرایوں میں دلائل موجود ہیں جس کا اعتقاد رکھنا اور جس پر عمل کرنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ مسائل پر اجتہاد واستنباط۔ قول باری ہے (ولوردوہ الی الرسول والی اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم، اگر یہ اس خبر کو رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائیں ، جوان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں) ۔ حسن اور قتادہ اور ابن ابی لیلی کا قول ہے کہ اولوالامر سے مراد اہل علم وفقہ ہیں سدی کا قول ہے کہ اس سے مراد مراء وعمال ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس سے دونوں مذکورہ بالاگروہ مراد لینا درست ہے کیونکہ اولوالامر کا اسم ان دونوں پر واقع ہوتا ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ اولوالامر تو وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں لوگوں کے معاملات کو سنبھالنے اور انہیں درست رکھنے کے اختیارات ہوتے ہیں اہل علم کے ہاتھوں میں اس قسم کے اختیارات نہیں ہوتے تو ان کا شمار اولوالامر میں کیسے ہوسکے گا۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اولوالامر وہ لوگ ہیں جو لوگوں پر اختیارات رکھنے کی بنا پر ان کے معاملات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ فقہاء کو بھی اولوالامر کہا جاسکتا ہے کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کا علم ہوتا ہے اور دوسروں پر ان کے قول کو تسلیم کرنا لازم ہوتا ہے اس بنا پر انہیں اولوالامر کے نام سے موسوم کرنا درست ہے۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہے (لیتفقھوا فی الدین ۔۔۔ تا۔۔۔۔ یحذرون۔ تاکہ باقی لوگ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے رہیں اور تاکہ اپنی قوم والوں کو جب وہ ان کے پاس واپس آئیں ڈراتے رہیں عجیب کیا کہ وہ محتاط رہیں) ۔ اللہ تعالیٰ نے فقہاء کے انذار پر محتاط رویہ اختیار کرنا لازم قرار دیا ہے اور جنہیں انذار کیا جارہا ہے ان پر ان کے قول کو قبول کرنا ضروری قرار دیا اس بنا پر ان حضرات پر اولوالامر کے اسم کا اطلاق درست ہوگیا۔ امراء اور اعیان سلطنت کو بھی اولوالامر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اس لیے کہ یہ ان لوگوں پر اپنے احکامات نافذ کرنے کے اختیارات رکھتے ہیں جن پر انہیں بالادستی اور حکومت حاصل ہوتی ہے۔ قول باری ہے (لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم، استنباط استخراج کو کہتے ہیں ، اسی سے استنباط المیاہ والعیون (پانی نکالنا چشمے کھودنا) ماخوذ ہے اس لیے استنباط کا اسم ہراس چیز پر محمول ہوتا ہے جو کہیں سے اس طرح نکالی جائے کہ آنکھوں سے نظر آجائے یا دلوں میں اس کی معرفت حاصل ہوجائے۔ شریعت میں استنباط استدلال اور استعلام کی نظیر ہے ، اس آیت کے اندر حوادث یعنی پیش آنے والے نئے امور کے احکامات معلوم کرنے کے لیے قیاس سے کام لینے اور اپنی رائے اور اجتہاد کو بروئے کار لانے کے وجوب پر دلالت موجود ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں پیش آمدہ واقعات کو حضور کی زندگی اور صحابہ کرام کی موجودگی میں آپ کی طرف لوٹانے کا اور آپ کی وفات کے بعد یا صحابہ کرام کی آپ سے دوری کی صورت میں علماء کی طرف لوٹانے کا حکم دیا۔ لوٹانے کا یہ حکم لامحالہ ان امور سے تعلق رکھتا ہے جو منصوص نہیں ہیں کیونکہ منصوص احکامات اور امور میں کسی استنباط کی ضرورت اور حاجت پیش نہیں آتی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ کے احکامات میں سے کچھ تو وہ ہیں جو منصوص طریقے سے بیان ہوئے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو نصوص کے اندر موجود ہیں اور ہمیں اس بات کا مکلف بنایا گیا ہے کہ ہم استدلال واستنباط کے ذریعے ان احکامات کے علم تک رسائی حاصل کریں۔ اس طرح اس آیت میں کئی معانی اور احکامات موجود ہیں ، ایک یہ کہ پیش امدہ مسائل میں سے بہت سے ایسے ہوت ہیں جن کے احکام منصوص صورتوں میں موجود ہوتے ہیں اور بہت سے مسائل کے احکامات مدلول یعنی دلالت کی صورتوں میں ہوتے ہیں۔ دوم یہ کہ علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ جس مسئلے کا حکم منصوص نہ ہوا سے اس کے نظائر کی طرف لوٹا کر جومنصوص ہوں حکم کا استنباط کریں اور اس کی معرفت تک رسائی حاصل کریں۔ سوم یہ کہ عوام الناس پر یہ لازم ہے کہ پیش آمدہ مسائل کے احکام کے سلسلے میں علماء کی تقلید کریں۔ چہارم یہ کہ حضور احکام کے استنباط اور ان کے دلائل سے استدلال کے مکلف تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے معاملات کو آپ کی طرف نیز اولوالامر کی طرف لوٹانے کا حکم دیا، پھر فرمایا (لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم) اس میں استنباط واستدلال کے حکم کے ساتھ صرف اولوالامر کو مخصوص نہیں کیا بلکہ حضور کی ذات اقدس بھی اس حکم میں شامل تھی ، اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ استنباط کرنے اور استدلال کے ذریعے احکام کی معرفت تک رسائی حاصل کرنے کا کام سب کے ذمے لگایا گیا تھا۔ اگریہ کہاجائے کہ آیت میں استنباط کے سلسلے میں دیا گیا حکم پیش آمدہ مسائل کے احکام کے استنباط سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کا تعلق صرف دشمن سے خوف اور امن کے معاملے تک محدود ہے کیونکہ قول باری ہے۔ واذاجاء ھم امر من الامن اوالخوف۔۔۔ تا۔۔۔۔۔ منھم۔ اس کا تعلق صرف ان افواہوں سے ہے جو منافقین پھیلایا کرتے تھے۔ اللہ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان افواہوں پر کان نہ دھریں اور انہیں حضور اور سمجھدار لوگوں تک پہنچادیں تاکہ خوف وہراس کی افواہوں کی صورت میں یہ افواہیں مسلمانوں کے اعصاب پر سوار ہوجائیں اور امن وسکون کی افواہوں کی صورت میں مسلمان مطمئن ہوکربیٹھ نہ رہیں اور جہاد کی تیاری نیز کافروں سے ہوشیار رہنے کے عمل کو ترک نہ کردیں۔ اس لیے آیت میں احکام حوادث کے استنباط کے جواز کے سلسلے میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے اس اعتراض کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ قول باری (واذاجاء ھم امر من الامن اوالخوف) صرف دشمنوں کے معاملے تک محدود نہیں ہے۔ کیونکہ امن اور خوف کا تعلق ان احکامات سے بھی ہوسکتا ہے جن پر مسلمان عمل پیرا ہوتے ہیں کہ ان میں مباحات کیا ہیں اور ممانعت کیا ہیں اور ان میں جائز کون کون سے احکامات ہیں اور ناجائز کون سے ہیں۔ ان تمام باتوں کا امن اور خوف سے تعلق ہے اور آیت مٰں امن اور خوف کے ذکر سے یہ دلالت حاصل نہیں ہوتی کہ ان کا دائرہ صرف ان افواہوں تک محدود ہے جو دشمن کی طرف سے امن اور خوف کے سلسلے میں اڑائی جاتی تھیں، بلکہ ان کا تمام معاملات سے تعلق ہونا درست ہے ، اس حکم کے ذریعے عوام الناس پر پابندی لگادی گئی کہ وہ پیش آمدہ مسائل کے احکام کے سلسلے میں اپنی طرف سے اباحت یا ممانعت یا ایجاب یانفی وغیرہ کی کوئی بات نہ کریں ، بلکہ ان پر ان امور کو اللہ کے رسول اور اولوالامر کی طرف لوٹا دینالازم کردیا گیا ہے تاکہ وہ منصوص احکام کے نظائر کے ذریعے استدلال کرکے ان امور کے احکامات مستنبط کرلیں۔ ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں اگر ہم معترض کی یہ بات تسلیم کرلیں کہ آیت کا نزول دشمن سے تعلق رکھنے والے امن اور خوف کے معاملے تک محدود ہے پھر بھی ہماری ذکر کردہ بات پر اس کی دلالت قائم رہے گی۔ وہ اس طرح جب جہاد کے لیے نیز دشمن کی چالوں کی توڑ کے لیے حکمت عملی استنباط کرنے کا جواز ہے کہ حالات کے مطابق کبھی صرف احتیاطی تدابیر اختیار کرلی جائیں کبھی حملہ کرنے میں پہل کرلی جائے اور کبھی پیچھے ہٹ کردفاعی مورچوں کو مضبوط بنالیاجائے اور یہ ساری کاروائیاں اس بناپر کی جائیں کہ اللہ نے ہمیں ان کا حکم دیا ہے اور اس سلسلے میں سوچ بچار کا معاملہ اولوالامر کی آراء سے اور اجتہاد کے حوالے کردیا ہے ۔ تو اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ان معاملات کے احکام ومعلوم کرنے کے لیے اجتہاد سے کام لیاجانا بھی واجب ہے جو جنگی تدبیروں ، کافروں کے خلاف جنگی کاروائیوں اور دشمن کی چالوں کے توڑ کے سلسلے میں پیش آسکتی ہیں۔ ان احکامات کے سلسلے میں اجتہاد اور عبادات نیز فروعی مسائل کے سلسلے میں پیش آمدہ واقعات کے احکام معلوم کرنے کے لیے اجتہاد اور نظائر سے استدلال میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ان تمام کا اللہ کے احکام سے تعلق ہے۔ البتہ اجتہاد واستنباط کی ممانعت اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ مثلا ایک شخص صرف بیع وشراء کے مسائل میں اجتہاد واستنباط سے کام لینے کو تومباح سمجھتا ہو لیکن نکاح وطلاق کے مسائل میں اس کے جواز کا قئل نہ ہو نماز کے مسائل میں اس کا قائل ہو اورحج ومناسک کے مسائل میں اس سے کام لینادرست نہ سمجھتاہو اصطلاح میں اسے خلف القول کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اور کوئی یہ کہے کہ استنباط کا دائرہ صرف قیاس اور اجتہاد رائے تک محدود نہیں بلکہ اس میں اس دلیل سے استدلال بھی داخل ہے جس میں لغت کے لحاظ سے صرف ایک معنی کا احتمال ہو، اس کے جواب میں کہاجائیگا کہ جو دلیل ایسی ہو جس میں لغت کے لحاظ سے صرف ایک معنی کا احتمال ہو، اس کے بارے میں اہل لغت کے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوسکتا کیونکہ صرف لفظ کے ذریعے اس کا مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے اس لیے یہ استنباط کے ذیل میں نہیں آتی بلکہ یہ شریعت کے خطاب سے سمجھ میں آجانے والی بات اور مفہوم کے ضمن میں آتی ہے۔ ہم بھی اسے تسلیم کرتے ہیں ، مثلا قول باری (ولاتقل لھمااف، ماں باپ کو اف تک بھی نہ کہو) اس میں ماں باپ کو مار پیٹ کرنے، برابھلا کہنے اور ان کی جان لینے ، وغیرہ کی نہی پر دلالت موجود ہے ، یہ صورت ایسی ہے کہ اس میں کوئی اختلاف رائے پیدا نہیں ہوسکتا۔ اگرمعترض کے نزدیک صرف ایک معنی کی عامل دلیل سے مراد اس قسم کے دلائل کطاب مراد ہیں تو ایسی دلیل میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی اسمیں استنباط کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اگر دلیل سے معترض کی مراد یہ ہو کہ ایک چیز کا خصوصیت کے ساتھ جب ذکر ہوجائے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ اس چیز کے ماسوا دوسری تمام چیزوں کا حکم مذکورہ حکم ہے مختلف ہوگاتوا سے ہم دلیل تسلیم نہیں ہم نے اصول فقہ میں اس بحث پر پوری روشنی ڈالی ہے۔ اگر مذکورہ بالاصورت میں دلیل نام کی کوئی چیز ہوتی تو صحابہ کرام کی نظروں سے یہ پوشیدہ نہ رہتی اور پیش آمدہ واقعات کے احکام معلوم کرنے کے سلسلے میں اس سے ضرور استدلال کیا جاتا اگر صحابہ کرام ، یہ طریق کار اختیار کرتے تو ان سے یہ چیز بکثرت منقول ہوتی اور اس میں کوئی خفا باقی نہ رہتا۔ لیکن چونکہ صحابہ کرام سے اس سلسلے میں کوئی بات منقول نہیں ہے اس لیے یہ چیز معترض کے قول کے بطلان اور سقوط پر دلالت کرتی ہے۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھیے اگر معترض کی ذکر کردہ صورت استدلال کی کوئی صورت ہوتی تو بھی یہ ان احکامات میں استنباط کے ایجاب سے مانع نہ ہوتی جن تک رسائی کا ذریعہ صرف رائے اور قیاس ہے۔ کیونکہ یہ واقعہ اور پیش آمدہ مسئلہ کے اندرمعترض کی بیان کردہ دلالت کا جود نہیں ہوتا جبکہ ہمیں ایسے تمام واقعات اور مسائل کے احکامات معلوم کرنے کا حکم دیا گیا ہے جن کے بارے میں نص موجود نہیں ہوتی اس لیے جن حوادث یعنی پیش آمدہ واقعات میں ہم معترض کی بیان کردہ دلیل کی صورت نہیں پائیں گے ہم پر قیاس اور اجتہاد کے ذریعے ان کے احکامات معلوم کرنا لازم ہوگا کیونکہ ہمیں ان احکامات تک رسائی کا قیاس اور اجتہاد کے سوا اور کوئی ذریعہ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اگریہ اعتراض کیا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمادیا (لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم) اور دوسری دلیل قیاس اپنے مدلول کے علم تک ہمیں نہیں پہنچاسکتی کیونکہ قیاس کرنے والااپنے بارے میں غلطی اور خطا کے جواز کو تسلیم کرتا ہے اور قطعی علم کے حصول کا قائل نہیں ہوتا کہ جو حکم اس نے اپنے قیاس اور اجتہاد کے ذریعے اخذ کیا ہے اللہ کے نزدیک بھی وہی حق ہے۔ تو اس پورے بیان سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آیت میں جس استنباط کا ذکر ہے وہ قیاس اور اجتہاد کے ذریعے کیا جانے والااستنباط نہیں ہے اس اعتراض کا یہ جواب دیاجائے گا کہ معترض کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ قیاس کرنے والے کو اس بات کی قطعیت حاصل نہیں ہوتی کہ اس کا قیا س عنداللہ حق ہے ہم اس کے قائل نہیں ہیں۔ اس کی یہ وجہ کہ جس حکم تک رسائی کا ذریعہ اجتہاد ہو اس کے متعلق مجتہد کی قطعی رائے یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اجتہاد کے نتیجے میں جس حکم تک پہنچا ہے اللہ کے نزدیک بھی وہی حق ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ مجتہد کے علم میں یہ بات ہوتی ہے کہ اجتہاد کے ذریعے حکم تک رسائی کا فرمان اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے۔ اس لیے پیش آمدہ واقعات کے احکامات کے استنباط کا یہ طریق کار اس علم کا موجب ہے کہ وہ اپنے اجتہاد کے ذریعے جس نیتجے پر پہنچتا ہے اور جو حکم لازم ہوا ہے وہ درست ہے۔ یہ آیت امامت کا عقیدہ رکھنے والوں کے مذہب کے بطلان پر بھی دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ دین کا ہر حکم منصوص ہوتا تو امام معصوم اس سے آگاہ ہوتا اور استنباط کی ضرورت ہی ختم ہوجاتی اور معاملات کو اولوالامر کی طرف لوٹانے کی بات بھی ساقط ہوجاتی بلکہ ان معاملات کو امام کی طرف لوٹانا واجب ہوتا جو نص کی بنا پر ان کی صحت اور عدم صحت کی پرکھ کرلیتا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٣) اور ان منافقین کی خیانت اور بددیانتی کا یہ حال ہے کہ جب کسی لشکر کی کامیابی اور غنیمت ملنے کی ان کو اطلاع ملتی ہے تو حسد میں اسے چھپا لیتے ہیں اور اگر مجاہدین کے لشکر کے بارے میں کسی پریشان مثلا شکست کھاجانے وغیرہ کی خبران کو پہنچتی ہے تو سب جگہ اس کی تشہیر کرتے پھرتے ہیں۔ اور اگر یہ اس لشکر کی خبر کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) وغیرہ کے حوالے کردیتے ہیں، جو ایسی باتوں کو پوری گہرائی کے ساتھ سمجھتے ہیں تو اس خبر کے غلط و صحیح ہونے کو وہ حضرات پہچان ہی لیتے ہیں جو ان اہل ایمان میں ان امور کی تحقیق کرلیا کرتے ہیں تو پھر صحیح خبر ان لوگوں کو بھی معلوم ہوجاتی اور اگر اللہ کی طرف سے یہ توفیق خاص نہ ملی ہوتی تو چند لوگوں کے سوا سب ہی اس فتنہ میں گرفتار ہوجاتے۔ شان نزول : (آیت) ” واذا جآء ھم “۔ (الخ) امام مسلم (رح) نے حضرت عمر فاروق (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج مطہرات سے علیحدگی اختیار فرمائی تو میں مسجد نبوی میں گیا، وہاں صحابہ کرام (رض) کو دیکھا کہ وہ کنکریوں سے کھیل رہے ہیں (یہ اضطراب اور پریشانی کے اظہار کا ایک اضطراری طریقہ ہے) اور یہ کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی، چناچہ میں نے مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہو کر بہت باآواز بلند کہا کہ آپ نے اپنی ازواج کو طلاق نہیں دی اور تب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور جب ان لوگوں کو کسی امر کی خبر پہنچتی ہو، خواہ امن ہو یا خوف تو اسے مشہور کردیتے ہیں، عمر فاروق (رض) فرماتے ہیں اہل ایمان کو میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے اس راز کو پہچانا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٣ ( وَاِذَا جَآءَ ہُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ ط) منافقین کی ایک روش یہ بھی تھی کہ جوں ہی کوئی اطمینان بخش یا خطرناک خبر سن پاتے اسے لے کر پھیلا دیتے۔ کہیں سے خبر آگئی کہ فلاں قبیلہ چڑھائی کرنے کی تیاری کر رہا ہے ‘ اس کی طرف سے حملے کا اندیشہ ہے تو وہ فوراً اسے عام کردیتے ‘ تاکہ لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہوجائے۔ اِذَاعَۃکا لفظ آج کل نشریاتی (broadcasting) اداروں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور مِذْیَاعریڈیو سیٹ کو کہا جاتا ہے۔ (وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلآی اولی الْاَمْرِ مِنْہُمْ ) (لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْہُمْ ط) اگر یہ لوگ ایسی خبروں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک یا ذمہ دار اصحاب تک پہنچاتے ‘ مثلاً اوس کے سردار سعد بن عبادہ (رض) اور خزرج کے سردار سعد بن معاذ (رض) ‘ تو یہ ان کی تحقیق کرلیتے کہ بات کس حد تک درست ہے اور اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے اور پھر جائزہ لیتے کہ ہمیں اس ضمن میں کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ لیکن ان کی روش یہ تھی کہ محض سنسنی پھیلانے اور سراسیمگی پیدا کرنے کے لیے ایسی خبریں لوگوں میں عام کردیتے۔ (وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ ) اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

112. This was a period of turbulence and upheaval and rumour was rife. Occasionally, baseless and exaggerated reports circulated and seized the whole of Madina and its outlying areas with alarm and consternation. At other times some cunning enemy tried to conceal the dangers threatening the Muslims by spreading soothing reports. A specially keen interest in rumours was taken by those who simply relished anything out of the ordinary, and who did not consider this life-and-death struggle between Islam and Ignorance to be a matter of crucial importance, and who were not aware of the far-reaching consequences of rumour-mongering. As soon as they heard something, they ran about spreading it everywhere. This rebuke is addressed to such people. They are warned against spreading rumours and are directed to convey every report they receive to responsible quarters.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :112 وہ چونکہ ہنگامہ کا موقعہ تھا اس لیے ہر طرف افواہیں اڑ رہی تھیں ۔ کبھی خطرے کی بے بنیاد مبالغہ آمیز اطلاعیں آتیں اور ان سے یکایک مدینہ اور اس کے اطراف میں پریشانی پھیل جاتی ۔ کبھی کوئی چالاک دشمن کسی واقعی خطرے کو چھپانے کے لیے اطمینان بخش خبریں بھیج دیتا اور لوگ انہیں سن کر غفلت میں مبتلا ہوجاتے ۔ ان افواہوں میں وہ لوگ بڑی دلچسپی لیتے تھے جو محض ہنگامہ پسند تھے ، جن کے لیے اسلام اور جاہلیت کا یہ معرکہ کوئی سنجیدہ معاملہ نہ تھا ، جنہیں کچھ خبر نہ تھی کہ اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ افواہیں پھیلانے کے نتائج کس قدر دور رس ہوتے ہیں ۔ ان کے کان میں جہاں کوئی بھنک پڑجاتی ہے اسے لے کر جگہ جگہ پھونکتے پھرتے تھے ۔ انہی لوگوں کو اس آیت میں سرزنش کی گئی ہے اور انہیں سختی کے ساتھ متنبہ فرمایا گیا ہے کہ افواہیں پھیلانے سے باز رہیں اور ہر خبر جو ان کو پہنچے اسے ذمہ دار لوگوں تک پہنچا کر خاموش ہو جائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

50: بعض لوگ مدینہ منورہ میں بلا تحقیق افواہیں پھیلادیا کرتے تھے جس سے معاشرہ میں بڑا نقصان ہوتا تھا یہ آیت ایسی بے تحقیق افواہوں پر یقین کرلینے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی ممانعت کررہی ہے

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

صحیح مسلم میں حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواج مطہرات سے کنارہ کشی اختیار کی تھی تو لوگوں نے مدینہ میں چرچا کردیا کہ آنحضرت نے سب ازواج کو طلاق دے دی میں اس چرچا کی برداشت نہ کرسکا اور میں نے جا کر حضرت سے پوچھا کہ کیا آپ نے سب بی بیوں کو طلاق دے دی آپ نے فرمایا نہیں پھر حضرت عمر (رض) نے مسجد نبوی کے دروازہ پر کھڑے ہو کر بآواز یہ پکاردیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ١۔ مفسرین نے یہ جو کہا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت کی لڑائیوں کی خبریں فتح و شکست اوپری طور پر سن کر اس کو لوگ مشہور کردیا کرتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ٢۔ اس غرض ان مفسروں کی یہ ہے کہ اس مطلب پر بھی آیت کا مضمون صادق آتا ہے ورنہ صحیح شان نزول وہی ہے جو صحیح مسلم کی روایت میں ہے مگر اولیٰ یہی ہے کہ ان سب قصوں کے مجموعہ کو شان نزول قرار دیا جائے تاکہ اس آیت کو پچھلی جہاد کی آیتوں سے تعلق پیدا ہوجائے۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ اگر یہ کچے مسلمان آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور واقف کار صحابہ سے اس خبر کی حقیقت دریافت کرکے اس کو شائع کرتے تو یہ غلط چرچا نہ کیا جاتا آئندہ کسی خبر کو بغیر سوچے سمجھے اور سمجھ داروں سے صلاح لینے کے شائع نہ کرنا چاہیے۔ علماء نے اس آٍیت کو قیاس کے جائز ہونے کی دلیل قرار دیا ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ زمانہ اللہ کے فضل اور رحمت کا ہے کہ اللہ کے رسول تم لوگوں میں موجود ہیں ہر روز قرآن کی آیتوں کے ذریعہ سے ہر طرح کی غلطی کی اصلاح ہو کر ہر طرح کی آئندہ کی ہدایت ہوتی رہتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شیطان بہت سے لوگوں کو بےاصل باتوں میں اپنا تابع کرلیتا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:83) امر۔ کے معنی حکم کے ہیں لیکن یہ جملہ اقوال و افعال کے لئے بھی عام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ والیہ یرجع الامر کلہ (11:123) اور تمام امور کا رجوع اسی کی طرف ہے ۔ امر ۔ یعنی کوئی بات ، کوئی معاملہ۔ اس کی جمع امور ہے۔ واذا جاء ہم امر من الامن۔ اس کا مطلب ہے کہ جب بھی ان کے پاس کوئی خبر۔ کوئی امر ۔ کوئی معاملہ (خواہ وہ امن کے متعلق ہو یا خوف کے متعلق) پہنچتا ہے اذاعوا بہ۔ وہ مشہور کردیتے ہیں ۔ اس کا تذکرہ عام کردیتے ہیں۔ اس کو شہرت دیدتے ہیں اشاعت کردیتے ہیں۔ افشا کردیتے ہیں۔ اذاعوا۔ اذاعۃ سے بمعنی شہرت دینا۔ خبر پھیلانا۔ راز ظاہر کرنا۔ ذیع مادہ۔ اولی الامر۔ صاحب الامر۔ غاکم با اقتدار۔ ذمہ دار۔ حاکم ۔ اہل عقل و بصیرت۔ اہل الرائے۔ وہم کبار الصحابۃ کا بی بکر و عمر و عثمان و علی۔ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔ یعنی صحابہ کبار جیسے حضرت ابوبکر۔ حضرت عمر۔ حضرت عثمان۔ حضرت علی (رض) لعلم الذین۔ لام تاکید کے لئے ہے۔ تو ضرور جان لیتے اس بات کو وہ جو ان میں سے استنباط کرنے والے ہیں۔ علم کا فاعل الذین ہے۔ فاعل جب اسم ظاہر ہو تو فعل کو واحد لاتے ہیں ۔ یستبطونہ۔ استنباط (استفعال) مصدر۔ جو اس کی تحقیق کرتے ہیں۔ جو غوروخوض کرکے نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ تو گویا اس صورت میں متعلقہ خبر اپنے صحیح اور اصلی روپ میں سامنے آجاتی اور امن و خوف کی غلط کیفیت جو بغیر سوچے سمجھے لوگ خبروں سے اخذ کرلیتے ہیں۔ پیدا نہ ہوتی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 امن کی خبر یہ کہ مسلمانوں کی فتح ہوئی ارخوف کی خوف کی خبر یہ کہ فلاں مقام پر مسلمانوں کو شکست ہوگئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کے مختلف سراپا تھے۔ لڑائی کے لیے بھیجتے رہتے تھے، اس لیے اس قسم کی افواہیں مدینہ میں اکثر پہنچتی رہتی تھیں لیکن منافقین اور بےاحتیاط قسم کو مسلمان بجائے اسکے کہ انہیں سب سے پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں از خودان افواہوں کی تشہیر شروع کردیتے۔ ان کے اسی شرط حمل کی یہاں مذمت کی جار ہی ہے۔ (شوکانی۔ قرطبی)4 تعلمہ الذینیستنبطو نہ منھم کا دوسر اترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے تو اسے وہ لوگ جان لیتے جو ان میں سے یعنی مسلمانوں سے) تحقیق کی صلا حیت رکھتے ہیں حافظ ابن کثیر شوکانی اور دسرے اکثر مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ خبر سن کر از خود اس کی تشیہر کرنے کی بجائے اسے آنحضرت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچادیتے تو وہ اس پر غور وخوض کرکے پہلے یہ فیصلہ کرتے کہ آیا یہ صحیح ہے یا غلط اور آیا اس کی اشاعت کرنی چاہیے یا نہیں ؟ اس کے بعد اگر وہ قابل اشاعت ہوتی تو اسے نشر کرتے ورنہ روک دیتے۔ اجتماعی زندگی میں اس ہدایت پر عمل نہا یت ضروری ہے ورنہ جماعتی زندگی بےحد نقصانات پہنچ سکتے ہیں۔5 شاہ صاحب لکھتے ہیں یہ جو فرمایا اگر اللہ کا فضل تم پر نہ ہوتا تو شیطان کے پیچھے چلتے مگر تھوڑے یعنی ہر وقت احکام تربیت کے نہ پہنچتے ہیں تو کم لوگ ہدایت پر قائم رہیں ، ( موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 83-84 لغات القرآن : اذاعوا، انہوں نے مشہور کردیا۔ یستنبطونہ، وہ اس کی تحقیق کرلیتے۔ لاتکلف، جنہیں ذمہ دار نہیں بنایا جائے گا۔ حرض، آمادہ کیجئے، رغبت دلائیے۔ ان یکف، یہ کہ وہ روک دے۔ اشدباس، لڑائی میں بہت سخت۔ اشد تنکیلا، سزا دینے میں سخت۔ تشریح : جھوٹی سچی خبریں پھیلانا نفس کی کمزوری ہے اور جنگ و جہاد کے دنوں میں دشمن کے ہاتھ میں غلط افواہیں پھیلانے کا خاص ہتھیار ہوتا ہے ۔ وہ اپنے مطلب کے لائق طرح طرح کی خبریں اڑاتا بھی ہے اور اڑواتا بھی ہے۔ منافقین اور کمزور عقل مسلمان ان خبروں کو لے کر بلکہ نمک مرچ لگا کر جگہ جگہ پھونکتے پھرتے ہیں۔ جھوٹا اطمینان دلاتے ہیں یا جھوٹا خوف پھیلاتے ہیں۔ ان آیات میں منافقین کو اور کمزور ایمان والے مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دشمن کے ہاتھ میں نہ کھیلیں اور جھوٹی سچی خبروں کے اڑانے کے گناہ میں ملوث نہ ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ عام مسلمانوں کو بھی بتا دیا گیا ہے کہ ان خبروں کا کوئی اعتبار نہ کریں جو ذمہ دار حلقوں کی طرف سے نہ آئیں۔ اگر کوئی خبر کہیں سے کسی کو ملے تو وہ فوراً نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ذمہ دار صحابہ (رض) تک پہنچا دیں تاکہ وہ تحقیقات کرلیں اور جس حد تک ضروری سمجھیں لوگوں کو بتائیں۔ ان آیات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہے کہ اگر کوئی بھی ساتھ نہ دے تو آپ اکیلے ہی دشمن سے ٹکر لے لیں۔ لیکن جماعت بنانے کی کوشش ضرور کریں اور اس کے لئے مسلمانوں کو جہاد و قتال کی زوردار ترغیب دیں۔ خواہ آپ کی جماعت چھوٹی ہو یا بڑی، آپ کی مدد کے لئے اللہ کافی ہے۔ وہ آپ کا رعب دشمنوں کے دل میں ڈال دے گا۔ دشمن خود میدان میں انے کی ہمت نہ کرے گا۔ جہاں تک کافروں کا تعلق ہے اللہ جنگ میں بہت زور آور ہے۔ جہاں تک منافقوں کا تعلق ہے اللہ انہیں سزا دینے میں بڑی طاقت و قوت رکھتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافق اپنی دوغلی پالیسی اور فکر کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی دوغلے پن سے دوچار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ افواہوں اور جھوٹی خبروں کے ذریعے مسلمانوں میں دھڑے بندی کردی جائے۔ مدینہ کے یہودیوں اور منافقوں نے دشمنان اسلام کے ساتھ مل کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشان کرنے اور مسلمانوں کے اعصاب توڑنے کے لیے افواہ سازی اور جھوٹی خبروں کا ایک سلسلہ قائم کر رکھا تھا۔ یہ لوگ اہل مکہ کی معمولی سرگرمیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تاکہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں۔ کبھی کفار کی طاقت کا معمولی تأثر دیتے کہ مسلمان جوابی کاروائی کرنے میں غفلت کا مظاہرہ کریں۔ بسا اوقات معمولی معاشرتی واقعہ کو ایسے رنگ میں پیش کرتے کہ مسلمانوں کے اخلاقی نظام کی بنیادیں کھوکھلی ہوجائیں۔ انہی افواہوں کا شاخسانہ تھا کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ایک سفر کے دوران رات کے وقت قضائے حاجت کے لیے اپنے خیمے سے نکل کر باہر تشریف لے گئیں وہاں ان کا ہار گم ہوگیا۔ اس کی تلاش میں واپس لوٹنے میں تاخیر ہوئی جب اپنی جائے قیام پر واپس تشریف لائیں تو قافلہ کوچ کرچکا تھا۔ آپ دوسرے صحابی کی سواری پر سوار ہو کر قافلے کے ساتھ شامل ہوئیں۔ اس دوران وہ صحابی اونٹ کی مہار تھامے پیدل چلتا رہا اور آپ دوپہر کے وقت قافلے سے آملیں۔[ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، لولا إذسمعتموہ ظن المومنون والمومنات بأنفسھم خیرا ] اتنے سے واقعہ کو منافقین نے ایسا رنگ دیا کہ جس نے کچھ دنوں کے بعد ایک تہمت اور مہم کی شکل اختیار کرلی جس کی تفصیل اور برأت سورة نور میں بیان ہوئی ہے۔ اس قسم کے واقعات کی تحقیق اور افواہوں کے منفی اثرات ختم کرنے اور ان کی روک تھام کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اصول اور طریقۂ کار عطا فرمایا ہے کہ افواہ اچھی ہو یا خوفزدہ کرنے والی بالخصوص جنگ کے دوران اس کی چھان بین اور تجزیہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ورنہ ملک وملت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایسی خبروں کو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ذمہ دار لوگوں کے سامنے پیش کرنا لازم ہے تاکہ وہ اس کی تحقیق اور اس کے نفع و نقصان اور حسن و قبح پر غور کرسکیں۔ لہٰذا عوام الناس کا فرض ہے کہ ایسی باتوں کو آگے پھیلانے کے بجائے متعلقہ اور ذمہ دار لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ جس معاشرے اور قوم میں اس قسم کا نظام قائم نہ ہو اسے کسی وقت بھی معاشرتی، سیاسی اور حربی نقصان ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نقصان سے بچانے کے لیے سورة نور میں مسلمانوں کو تین مرتبہ فرمایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو دنیا و آخرت میں تم عذاب عظیم میں مبتلا کیے جاتے اور چند لوگوں کے سوا باقی شیطان کے پیچھے چل پڑتے ‘ دوسرے لفظوں میں افواہ سازی اور اس پر یقین کرنا شیطانی کام ہے۔ آج یہ شیطانی دھندہ سائنسی شکل اختیار کرچکا ہے۔ کروڑوں ڈالر ایجنسیوں، اداروں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر لگائے جارہے ہیں تاکہ مسلمانوں کو اسلام کے بارے میں متزلزل اور ان کے اخلاق کو بگاڑا جاسکے۔ افسوس ! کہ مسلمانوں کے پاس کوئی ایسا نظام نہیں جو ایسے اداروں کا مؤثر جواب دے سکے۔ جب کہ قرآن مطالبہ کر رہا ہے کہ اس قسم کی خبروں، افواہوں اور پروپیگنڈہ کے توڑ کے لیے افراد ہونے چاہییں جو منفی اثرات سے مسلمانوں کو بچاسکیں۔ یہاں اسلامی صحافت کے لیے بھی رہنمائی ملتی ہے کہ وہ ہر خبر کی بلا تحقیق اشاعت کرنے سے پرہیز کرے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (کَفٰی بالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ ) [ رواہ مسلم : کتاب المقدمۃ، باب النھی عن الحدیث ....] ” آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کردے۔ “ مسائل ١۔ منافق اور غیر ذمہ دار لوگ مسلمانوں میں افواہیں پھیلاتے ہیں۔ ٢۔ افواہیں پھیلانے کے بجائے معاملہ کتاب و سنت اور صاحب علم لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر آدمی ہر وقت گمراہ ہوسکتا ہے۔ ٤۔ شیطان آدمی کو ہر وقت گمراہ کرنے کے درپے رہتا ہے۔ تفسیر بالقرآن افواہیں اڑاناجرم ہے : ١۔ بلا تحقیق بات کرنا ندامت کا باعث بنتا ہے۔ (الحجرات : ٦) ٢۔ منافق افواہیں پھیلاتے ہیں۔ (النساء : ٨٣) ٣۔ بےبنیاد افواہوں اور جھوٹے الزمات لگانے کی سزا۔ (النور : ٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب سیاق کلام ذرا آگے بڑھتا ہے اور ایک دوسرے گروہ کو لیا جاتا ہے جو اسلامی معاشرے میں پایا جاتا ہے ۔ (آیت) ” واذا جاء ھم امر من الامن اوالخوف اذا عوا بہ ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر منھم لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم ولو لا فضل اللہ علیکم ورحمتہ لاتبعتم الشیطن الا قلیلا (٨٣) ” یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اسے لے کر پھیلا دیتے ہیں ‘ حالانکہ اگر یہ اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں ‘ تم لوگوں پر اللہ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو (تمہاری کمزوریاں ایسی تھیں کہ) معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے ۔ “ یہاں جس گروہ کے بارے میں کہا گیا ہے یہ بھی اسلامی کیمپ میں موجود ایک گروہ ہے لیکن یہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو ابھی تک اسلامی نظام کے راہ ورسم سے اچھی طرح واقف نہیں ہے ۔ اور اس گروہ کو ابھی تک اس بات کی سمجھ نہ تھی کہ اسلامی کیمپ میں بےچینی پھیلنے کے نتائج کس قدر خطرناک اور کس قدر تباہ کن ہو سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ افواہیں افواہیں ہوتی ہیں ‘ واقعات نہیں ہوتے ۔ حالات بعض اوقات ایسے سنجیدہ ہوتے ہیں کہ ایک سرسری بات کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔ کسی ایک شخص کے بارے میں ‘ کسی گروہ یا جماعت کے بارے میں بعض ایسے نتائج رونما ہوتے ہیں کہ سرسری ریمارک پاس کرنیو الا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ اگر یہ واقعات ونتائج برآمد ہوجائیں تو پھر ان کا تدارک اور تلافی کسی صورت میں بھی نہیں کی جاسکتی اور یہ لوگ یہ باتیں اس لئے کرتے ہیں کہ اسلامی کیمپ کے افراد کے اندر پیدا ہونے والی اخوت اور بھائی چارے کا تصور ابھی تک ان کے ذہن میں واضح نہ تھا ۔ یہ لوگ اس بات کو اہمیت نہ دیتے تھے کہ آخر کار ایسی غیر ذمہ دارانہ گفتگوؤں کے کیا نتائج نکلنے والے ہیں اور ایسی باتوں کی اشاعت سے نقصان کیا ہوتا ہے کہ جب یہ باتیں ایک منہ سے دوسرے منہ میں چلتی رہتی ہیں ‘ چاہے یہ باتیں امن کے حالات سے متعلق ہوں یا بےچینی اور خوف کے حالات سے متعلق ہوں ۔ دونوں حالات کے اندر بعض خبروں کا پھیل جانا نہایت ہی مہلک اور فساد انگیز ہوتا ہے ۔ مثلا ایک چوکنے ‘ تیار اور محتاط کیمپ کے اندر دشمن کی سرگرمیوں کو کم کرکے دکھانا غفلت کا باعث ہو سکتا ہے اور اس میں دشمن متحرک ہوسکتا ہے ۔ ایسے حالات میں امن کے بارے میں لوگوں کو مطمئن کردینا لوگوں کو غافل اور سست بنا سکتا ہے اگرچہ متعلقہ ذمہ داران کی طرف سے بار بار احتیاط کی تنبیہ کی جاتی رہے ۔ اس لئے کہ اگر خطرہ سروں پر ہو تو ایک انسان کا دشمن کے مقابلے میں چوکنا ہوجانا ‘ ایسی صورت حال سے بالکل مختلف ہوتا ہے کہ محض ذمہ داران کے احکام کی اساس پر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں ۔ اس قسم کی سستی اور لاپرواہی بعض اوقات معاملے کا حتمی فیصلہ کردیتی ہے ۔ اسی طرح اگر ایک کیمپ اپنی قوت پر مطمئن ہو اور اپنے اطمینان کی وجہ سے ثابت قدم ہو اس کے اندر خوف پھیلایا جائے ‘ تو ایسے کیمپ میں خوفناک خبروں کی اشاعت سے بےچینی افراتفری پیدا ہوتی ہے اور لوگ ایسی حرکات کرتے ہیں جن کی ضرورت نہیں ہوتی اور جن کی وجہ سے لوگوں میں خواہ مخواہ خوف وہراس پیدا ہوتا ہے اور بعض اوقات ایسی چیزیں نہایت ہی برے نتائج پیدا کردیتی ہیں ۔ بہرحال یہ ایک ایسے کیمپ کی خصوصیت ہے جس کا نظم ونسق ابھی تک مکمل نہیں ہوا یا اس کیمپ کے افراد کے اندر اپنی قیادت کے ساتھ وفاداری ابھی تک مکمل نہیں ہوئی ‘ یا یہ دونوں کمزوریاں پائی جاتی ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اسلامی معاشرے میں یہ دونون باتیں پائی جاتی تھیں اس لئے کہ اس ابتدائی دور میں اسلامی معاشرے میں ایمان کے اعتبار سے مختلف سطح کے لوگ موجود تھے ۔ مختلف فہم وادراک کے حامل لوگ موجود تھے اور محبت ووفاداری میں بھی یہ لوگ مختلف سطحوں اور درجوں کے تھے ۔ غرض اس قسم کی افراتفری اور بےچینی کو قرآن کریم اپنے خالص ربانی منہاج کے مطابق دور کر رہا تھا ۔ (آیت) ” ولو ردوہ الی الرسول والی اولی الامر منھم “ (٤ : ٨٣) (اگر یہ اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کریں) یعنی اگر یہ لوگ امن اور خوف کی خبریں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گوش گزار کرتے ‘ اس دور میں جب حضور موجود تھے ‘ یا اہل ایمان میں سے ذمہ دار اصحاب تک پہنچاتے ‘ جبکہ حضور موجود نہ تھے ‘ تو ان خبروں کی حقیقت یہ لوگ معلوم کرلیتے کیونکہ یہ ایسی چیزوں کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان متضاد خبروں کے درمیان سے وہ حقیقت کو اخذ کرلیتے ہیں یا مختلف قسم کے حالات سے وہ بات سمجھ لیتے ہیں ۔ ایک مسلم سپاہی کا فریضہ یہ ہے کہ اگر وہ کوئی ایسی خبر سنے تو وہ اسے اپنے افسر تک پہنچا دے بشرطیکہ وہ بھی صحیح افسر ہو ‘ وہ اس خبر کو اپنی نبی تک پہنچائے اگر وہ موجود ہے اور اگر نبی کا دور ختم ہے تو اپنے اوپر تک پہنچائے ۔ یہ رویہ درست نہ ہوگا کہ وہ یہ خبر صرف اپنے ساتھیوں کے اندر پھیلاتا پھرے یا ایسے لوگوں کے درمیان پھیلائے جن پر اسلامی جماعت کی ذمہ داری نہیں ہے اس لئے کہ اسلامی قیادت ہوتی ہی وہ ہے جو حقیقت کو سمجھ سکے ۔ اور کسی خبر کی نشر کرنے کے صحیح موقع کو بھی سمجھے ۔ یہاں تک کہ اگر ثابت بھی ہوجائے تو بھی بعض اوقات کسی خبر کا نشر کرنا مناسب نہیں ہوتا اور اس کا نشر نہ کرنا ہی اچھا ہوتا ہے ۔ یہ تھی قرآن کی تربیت ‘ قرآن کریم مسلمانوں کے دلوں میں ایمان کی پختگی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی قیادت کے ساتھ وفاداری بھی پیدا کر رہا تھا ۔ قرآن نے صرف ایک آیت میں اسلامی فوجی نظام کے تمام اصول جمع کردیئے بلکہ آیت کے بھی صرف ایک ٹکڑے میں ۔ یہ آیت یہ سکھلاتی ہے کہ ایک فوجی مسلسل امن اور خطرے کی خبریں لیتا ہے اور اپنے افسران بالا تک پہنچاتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔ اس ایک آیت کی ابتداء میں ایک ایسے فوجی کی تصویر کشی کی گئی ہے جو خبریں لیتا ہے ‘ امن کی بھی اور خوف کی بھی ‘ اور وہ اسے مسلسل شائع کر رہا ہے بغیر سنجیدگی کے اور بغیر کسی تحقیق کے اور بغیر اس کے کہ اپنی قیادت کے سامنے پیش کرکے ہدایات لے لے ۔ آیت کے وسطی حصے میں ایک فوجی کو یہ ہدایت دی جاتی ہے اور آخری حصے میں فوجیوں کے دلی تعلق کو اللہ سے جوڑ دیا جاتا ہے ۔ اللہ کے فضل کا ذکر کیا جاتا ہے اور اسے آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ اللہ کا شکر بجا لائے ۔ اسے شیطان کی اطاعت سے ڈرایا جاتا ہے ‘ جو گھات میں بیٹھا ہوا ہے اور اگر اللہ کا فضل وکرم نہ ہو تو وہ فورا دلوں کے اندر فساد پیدا کر دے ۔ (آیت) ” ولو لا فضل اللہ علیکم ورحمتہ لاتبعتم الشیطن الا قلیلا (٤ : ٨٣) (اگر تم لوگوں پر اللہ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے) یہ ایک آیت ہے اور اس کے اندر علم ومعرفت کی وافر مقدار ثبت کردی گئی ہے ۔ اس قضیہ کے تمام پہلوؤں کا ذکر کردیا گیا ‘ یہ آیت ضمیر کے خفیہ ترین گوشوں تک اتر گئی اور دلوں کے اندر ہدایت اور علم بھر دیا گیا ۔ یہ اس لئے کہ یہ کتاب اللہ کی جانب سے ہے ۔ اور اگر یہ اللہ کی جانب سے نہ ہوتی ۔ (آیت) ” لوجدوافیہ اختلافا کثیرا “۔ (یہ لوگ اس میں بہت کچھ خلاف بیانیاں پاتے) جب بات یہاں تک پہنچ جاتی ہے تو اسلامی صفوں کی کمزوریوں کی نشاندہی کردی جاتی ہے ‘ ایسی کمزوریاں جو اسلامی معاشرے کی زندگی پر اور عمل جہاد پر اثر انداز ہو سکتی ہیں یہ غلطیاں اور ان کی درستی کا کام اس سبق کے آغاز ہی سے چل رہا ہے ۔ اب مسلمانوں کو جہاد و قتال پر ابھارا جاتا ہے جس کا ذکر اس سبق میں ہوتا رہا ہے ۔ یہاں آکر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذاتی طور پر قتال فی سبیل اللہ کا مکلف بنایا جاتا ہے ۔ اب اس ذاتی ذمہ داری کے بعد کوئی شخص اس سے پیچھے نہیں رہ سکتا ۔ نہ اسلامی جماعت میں پائے جانے والے کسی خلل اور نقص کی وجہ سے نہ راستے کی مشکلات کی وجہ سے ۔ اس لئے کہ خطاب صرف ذات رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے کہ آپ اٹھیں اور لڑیں اگرچہ اکیلے ہوں اس لئے کہ جہاد ہر شخص پر ذاتی طور پر فرض ہے ۔ آپ بھی اپنی ذات کے ذمہ دار ہیں ‘ ہاں اپنی ذات کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل ایمان کو بھی قتال پر ابھاریں ۔ اللہ تعالیٰ یہاں اہل ایمان اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح ونصرت کی امید دلاتے ہیں اس لئے کہ یہ معرکہ خود اللہ کا معرکہ ہے اور اللہ تعالیٰ بہت ہی زبردست ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

غیر محقق بات کو پھیلانے کی مذمت اور خبروں کو اہل علم تک پہنچانے کی اہمیت صحیح مسلم صفحہ ٤٨٠: ج ١ میں ایک تفصیلی واقعہ ذکر کیا ہے جو حضرت عمر (رض) سے مروی ہے۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (طلاق دیے بغیر کچھ عرصہ کے لیے) ازواج مطہرات سے علیحدگی اختیار فرمائی تھی اس بات کی خبر لوگوں کو پہنچی تو اس کو طلاق پر محمول کرکے آگے بڑھانا شروع کردیا اور یہ مشہور ہوگیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے بار گاہ رسالت میں حاضری کی اجازت چاہی اجازت مل جانے پر خدمت عالی میں حاضر ہوئے اور سوال کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں ! عرض کیا کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو وہاں لوگ جمع تھے وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی آپ کی اجازت ہو تو میں ان کو بتادوں کہ آپ نے طلاق نہیں دی آپ نے فرمایا اگر چاہو تو بتادو میں مسجد کے دروازے پر کھڑا ہوا اور بلند آواز میں پکار کر اعلان کردیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو طلاق نہیں دی ہے۔ اور یہ آیت نازل ہوئی (جس کا اوپر ترجمہ کیا گیا) لہٰذا میں ان لوگوں میں ہوں جنہوں نے اس امر کا کھوج لگایا اور تحقیق کی کہ آپ نے واقعی طلاق دی ہے یا طلاق کی بات غلط مشہور ہوگئی۔ منافقین کی عادت بد کا تذکرہ : علامہ بغوی (رح) معالم التنزیل صفحہ ٤٥٦: ج ١ میں لکھتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مختلف علاقوں میں فوجی دستے بھیجا کرتے تھے۔ جب وہاں سے واپس ہوتے تو منافقین جلدی سے آگے بڑھ کر ان سے پوچھتے تھے کہ نتیجہ کیا ہوا آپ لوگ غالب ہوئے یا مغلوب ہوئے وہ حضرات باخبر کردیتے تو یہ لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک بات پہنچنے سے پہلے اس خبر کو پھیلا دیتے تھے (اگر شکست و ہزیمت کی خبر ہوتی تو اس سے نقصان پہنچتا تھا کیونکہ) اس سے مومنین کے قلوب میں ضعف پیدا ہوجاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے یہ آیت نازل فرمائی اور فرمایا کہ جب ان کے پاس کوئی خبر امن کی (یعنی فتح اور غنیمت کی) یا کوئی خبر خوف کی (یعنی قتل اور شکست کی) پہنچ جاتی ہے تو اسے شہرت دے دیتے ہیں اور اگر خبر کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے جاتے اور ان لوگوں کے پاس لے جاتے جو صحابہ (رض) میں صاحب رائے حضرات ہیں تو ان میں جو اہل علم ہیں جو باتوں کو سمجھتے ہیں اونچ نیچ کو جانتے ہیں اس کی گہرائی میں اترتے ہیں وہ اس کو سمجھتے اور اپنے علم کے مطابق عمل کرتے جو چیز چھپانے کی تھی پھیلانے کی نہ تھی اسے آگے نہ بڑھاتے اور جو چیز آگے بڑھانے کی تھی اس کو آگے بڑھاتے اور پھیلا دیتے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اصحاب علم اور اصحاب رائے صحابہ (رض) تک پہنچانے سے پہلے ہی خبر کو اڑا دینے سے مسلمانوں کو نقصان ہونے کا اندیشہ تھا لیکن چونکہ منافقین کو مسلمانوں کی خیریت مطلوب ہی نہ تھی اس لیے ذرا احتیاط نہ کرتے تھے ادھر بات کو سنا ادھر اس کو پھیلادیا۔ بات کا نشیب و فراز کیا ہے اس طرف ذرا بھی دھیان نہ دیا۔ لفظ یَسْتَنْبِطُوْنَ استنباط سے مضارع کا صیغہ ہے استنباط لغت میں زمین کے اندر سے پانی نکالنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، یہاں بات کی تحقیق کرنے اور ان کی اونچ نیچ کو سمجھنے اور اس کی گہرائی میں اترنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اللہ کا فضل اور رحمت : پھر فرمایا (وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًا) (اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم شیطان کے پیرو ہوجاتے سوائے چند آدمیوں کے) اللہ تعالیٰ نے دین اسلام بھیجا جو اس کا فضل ہے اور قرآن نازل فرمایا جو اس کی رحمت ہے ارشاد ہے کہ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم سب لوگ شیطان کے پیچھے لگ لیتے بجز چند افراد کے۔ یہ چند افراد وہ ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری اور نزول قرآن سے پہلے دین فطرت پر تھے اور توحید اختیار کیے ہوئے تھے شرک سے متنفر تھے جیسا کہ زید بن عمرو بن نفیل اور ورقہ بن نوفل وغیر ہما مشرکین کے ماحول میں رہتے ہوئے عقل کی راہنمائی سے توحید اختیار کرنا بھی اللہ ہی کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے لیکن چونکہ رسول کا بھیجنا اور کتاب کا نازل فرمانا خاص فضل اور خاص رحمت ہے اس لیے یوں فرمایا کہ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم سب شیطان کا اتباع کرلیتے بجز چند لوگوں کے۔ (از معالم التنزیل صفحہ ٤٥٦: ج ١) فائدہ : (١) آیت شریفہ کے ترجمہ اور سبب نزول سے معلوم ہوا کہ جب کوئی بات سننے میں آئے تو اس کی تحقیق کی جائے۔ سنتے ہی اس کو آگے بڑھانا شروع نہ کر دے کیونکہ غلط ہونے کا امکان ہے، ہر سنی ہوئی بات صحیح نہیں ہوتی اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا (کَفٰی بالْمَرْءِ کَذِبًا اَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ ) (کہ انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ جو بات سنے اسے آگے بیان کر دے) (رواہ المسلم فی مقدمۃ) آج کل نہ صرف یہ کہ سنی ہوئی باتوں کے نقل کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں بلکہ خود خبریں گھڑی جاتی ہیں اور ان کو شائع کیا جاتا ہے اور جھوٹی خبروں کے ذریعہ پیسے کمائے جاتے ہیں۔ جماعتیں اور حکومتیں ایسے افراد مہیا کرتی ہیں جنہیں پیسے دے کر جھوٹی خبریں بنانے اور پھیلانے کے کام پر لگایا جاتا ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ جو قرآن مجید سے بالتصریح معلوم ہوئی کہ جو خبر سچی بھی ہو اس کے پھیلانے اور آگے بڑھانے میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ سچی خبر کے پھیلانے سے بھی بعض مرتبہ نقصان پہنچ جاتا ہے۔ منافقین جنگ سے واپس آنے والے حضرات سے فتح اور شکست کی صورت حال معلوم کرکے پھیلا دیتے تھے۔ اس پر ان کو عتاب ہوا اور فرمایا کہ اگر اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اصحاب رائے تک پہنچا دیتے تو وہ اس کی اونچ نیچ اور نشیب و فراز کو سمجھ لیتے پھر اس کو پھیلانا مناسب ہوتا تو پھیلا دیتے اور اس میں جو سمجھنے کی بات ہوتی تو اس کی تہہ تک پہنچ جاتے، بہر حال سننے میں پھر تحقیق کرنے میں پھر بات کے آگے بڑھانے میں احتیاط کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ فائدہ : (٢) علامہ بغوی (رح) معالم التنزیل صفحہ ٤٥٦: ج ١ میں لکھتے ہیں : وفی الایۃ دلیل علی جواز القیاس فان من العلم مایدرک بالتلاوۃ والروایۃ وھو النص ومنہ مایدرک بالا ستنباط وھو القیاس علی المعانی المودعۃ فی النصوص۔ یعنی آیت بالا میں قیاس (فقہی) کے جواز کی دلیل ہے۔ کیونکہ علم کا ایک حصہ وہ ہے جو تلاوت اور روایت کے ذریعہ حاصل ہوجاتا ہے اور یہ وہ چیزیں ہیں جو نص (مریح) سے معلوم ہوتی ہیں اور علم کا ایک حصہ وہ ہے جو استنباط کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اور یہ استنباط قیاس ہے جس کا معنی یہ ہے کہ جو معانی نصوص میں موجود ہیں ان معانی پر غیر منصوص چیزوں کو قیاس کرلیا جائے، جو امور منصوصہ ہیں ان کے بارے میں اجتہاد و استنباط کی ضرورت نہیں اور نصوص کے ہوتے ہوئے قیاس جائز بھی نہیں۔ البتہ جو حکم نصوص شریعہ میں نہ ملے اور امت کو ان کا حکم جاننے کی ضرورت ہو اس کے بارے میں اجتہاد، استنباط اور قیاس سے کام لیا جاتا رہا ہے۔ حضرات ائمہ مجتہدین (رح) استنباط فرماتے تھے اور مقیس مقیس علیہ میں جو کوئی چیز جامع ہوتی تھی اس کو دیکھ کر قیاس کرلیتے تھے۔ جن لوگوں کو قرآن و حدیث کا بھر پور علم ہے اور اجتہاد کے لیے جن علوم کی ضرورت ہے اس سے بھی مالا مال ہیں ایسے حضرات حوادث اور نوازل میں آج بھی اجتہاد کرلیتے ہیں لیکن ان کو یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین نے اس قسم کے معاملات اور حالات میں کیا رخ اختیار کیا۔ اگر ائمہ سلف کو نہ دیکھیں گے تو بےراہ ہوجائیں گے جیسا کہ بہت سے گروہ اجتہاد کے مدعی ہو کر راہ صواب سے ہٹ چکے ہیں ان لوگوں کا یہ عالم ہے کہ ان کے اندر نہ تقویٰ ہے نہ انہیں پورے قرآن مجید پر عبور ہے نہ صرف، نحو اور علم اشتقاق سے واقف ہیں نہ احادیث شریفہ کا ذخیرہ ان کے پیش نظر ہے مگر دعویٰ اجتہاد ہے ایسے لوگوں کے اجتہاد سے دور رہنا لازم ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

59 یہ شکوہ منافقین کی دوسری وجہ ہے کہ وہ ان خبروں اور رازوں کا افشا کرتے ہیں اور ان کو مشہور کرتے ہیں جن کا پوشیدہ رکھنا ہی اسلام اور مسلمانوں کے لیے مفید ہے ان کا تعلق خواہ امن سے ہو یا خوف سے حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاد پر جو لشکر بھیجتے جب وہ غالب یا مغلوب ہو کر واپس آتے تو منافقین ان کی خبریں غلط انداز میں پھیلا دیتے۔ ان الرسول کان اذا بعث سریۃ من السرایافغلبت او غلبت تحدثوا بذالک وانشوہ ولم یصبروا الخ (بحر ج 3 ص 305) لَعَلِمَہٗ کی ضمیر منصوب اَمْرٌ کی طرف راجع ہے۔ 60 اس کے دو معنی ہیں اول یہ کہ اَلَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنہ سے وہ لوگ مراد ہیں جو اس قسم کی خبر کو معلوم کرنے کے درپے اور اس کے علم کے متلاشی تھے اور منھم کی ضمیر رسول اور اولی الامر کی طرف راجع ہے اور جار مجرور عَلِمَہٗ کے متعلق ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ ان خبروں کو مشہور نہ کرتے اور جن لوگوں کو یہ خبریں معلوم کرنے کا شوق تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اولی الامر یعنی صحابہ میں جو لوگ صاحب مشورہ اور صاحب تدبر تھے ان سے معلوم کرلیتے دوم یہ کہ مِنْھُم میں من بیانیہ ہے اور ھم ضمیر اولی الامر کی طرف راجع ہے اور اَلَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَ سے وہ لوگ مراد ہیں جو اولی الامر میں صاحب بصیرت و استنباط تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور ان لوگوں کو جب کوئی اطلاع موصول ہوتی ہے اور جب ان کو کوئی خبر پہنچتی ہے خواہ وہ اطلاع امن کی ہو جیسے فتح اور سلامتی خواہ وہ خبرخوف کی ہو جیسے ہزیمت اور ارتداد وغیرہ تو یہ اسی خبر کو مشہور کردیتے ہیں اور ہر ایک سے کہتے پھرتے ہیں اور اگر یہ لوگ اس خبر کو مشہور کرنے اور اس اطلاع کو جا بجا کہتے پھرنے سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا ان لوگوں تک پہونچا دیتے جو ان میں سے ذمہ دار اور ذی رائے اور اہل بصیرت ہیں تو اس خبر کی صحیح حقیقت کو ان میں سے وہ ذمہ دار اور اہل الرائے حضرات سمجھ لیتے جو بات کی تہ میں سے بات کا نتیجہ صحیح اخذ کرلیا کرتے ہیں اور وہ اس خبر کو پہچان لیتے جو ان میں سے خبر کی تحقیق کرلیا کرتے ہیں اور تحقیق کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کا تم پر خصوصی فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقینا چند آدمیوں کے سوا تم سب کے سب شیطان کے پیچھے ہو لئے ہوتے اور تم سب کے سب شیطان کے پیرو ہوجاتے مگر تھوڑے سے وہ لوگ بچ جاتے جن کو عقل سلیم سے بہرہ ملا ہے ۔ (تیسیر) اس آیت میں یا تو انہی منافقین کا ذکر ہے جن کا ذکر اوپر سے چلا آ رہا ہے۔ یا کمزور مسلمانوں کا ذکر ہے بہرحال ! منافقین کا ذکر ہو تو منھم فرمانے کا یہ مطلب ہوگا کہ منافقوں کے ظاہری حال کے اعتبار سے منافقوں کو مسلمانوں میں شامل کرتے ہوئے منھم فرما دیا اور اگر کمزور مسلمان ہوں تب اس توجیہہ کی ضرورت نہیں۔ اذاعت کے معنی ہیں افشا اور اظہار ہم نے محاورے کا ترجمہ کردیا ہے ایک ایک سے کہتے پھرنا رد کے معنی تو لوٹانے کے ہیں یہاں مطلب یہ ہے کہ رسول یا اولی الامر کے سپرد کردیتے اور شائع کرنے سے پہلے اس خبر کو ان لوگوں کے حوالے کردیتے۔ استنباط ، اصل میں کنویں کی تہ میں سے پانی نکالنے کو کہتے ہیں کنواں کھودنے میں پہلی مرتبہ جو پانی سوت سے نکلتا ہے اس کو مار مستنبط کہتے ہیں۔ مگر یہاں مراد یہ ہے کسی بات کو سن کر اس کی حقیقت جان لینا اور اس کی تہ تک پہنچ کر صحیح چیز معلوم کرلینا شان نزول میں بھی مختلف قول ہیں ہوسکتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عورتوں کے طلاق کا قصہ ہو جیسا کہ مسلم نے حضرت عمر سے روایت کیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ واقعہ ہو جو شاہ صاحب نے بیان کیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی کہیں سے کچھ خبر آوے تو اول پہنچائے سردار تک اور اس کے نائبوں تک جب وہ صحیح کرلیں اور اس پر بنا رکھیں تب اس پر عمل کرے۔ حضرت نے ایک شخص کو بھیجا ایک قوم کی زکوۃ لینے کو وہ نکلے استقبال کو اس نے سمجھ نکلے ہیں میرے مارنے کو الٹا پھر آیا اور شہر مدینے میں مشہور کیا کہ فلاں قوم مرتد ہوئی ۔ ہنوز حضرت کو خبر نہ پہنچی کہ شہر میں شہرہ ہوا اسی قسم سے ہر خبر بےتحقیق اور بغیر خبر سردار کے مشہور کرنے لگے وہ خبر آخر غلط نکلی۔ فائدہ۔ یہ جو فرمایا کہ اگر اللہ کا فضل تم پر ہو نہ ہوتا تو شیطان کے پیچھے چلتے مگر تھوڑے یعنی ہر وقت احکام تربیت کے نہ پہنچتے رہیں تو کم لوگ ہدایت پر قائم رہیں۔ (موضح القرآن) بہرحال ! شان نزول کچھ ہو آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ان مذکورہ لوگوں کی یہ حالت ہے کہ جب کوئی خبر ان کو موصول ہوتی ہے خواہ اچھی ہو یا بری ہو، فتح کی ہو یا شکست کی ہو یہ اس کو فوراً مشہور کردیتے ہیں اور اتنا نہیں سوچتے کہ سیاسی نقطہ نگاہ سے اس تشہیر کا کیا اثر ہوگا اگر یہ لوگ اس خبر کو شہرت دینے سے پہلے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا دیں یا اور جو لوگ ان میں صاحب امر ہوں جیسے جلیل القدر اور ذی رائے صحابہ اگر کسی لشکر میں ہوں جو لشکر کا سردار ہو اس تک اس خبر کو پہنچا دیں اور بطور خود مشہور نہ کریں تو مذکورہ لوگوں میں سے وہ لوگ تو یقینا اس خبر کی حقیقت کو پہچان ہی لیتے جو اہل بصیرت اور ذی رائے ہیں جو ہر خبر کی تحقیق کرلیا کرتے ہیں اور ہر خبر کی تہ میں صحیح نتیجہ نکال لیتے ہیں یعنی پیغمبر اور جلیل القدر صحابہ اگر ان تک اس خبر کو پہنچا دیتے تو وہ اس کے غلط اور صحیح ہونے اور قابل اشاعت ہونے نہ ہونے کو پہچان لیتے پھر جب حضرت حکم دیتے یا عمل کرتے ویسا ہی یہ لوگ کرتے اور اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی فضل اور رحمت نہ ہوتی۔ یعنی یہ پیغمبر کا بھیجنا اور قرآن کا نازل ہونا اور مختلف احکام اور قوانین کی تعلیم، غرض ! جو مہربانی اس نے تم پر فرمائی ہے یہ نہ ہوتی تو تم میں سوائے چند آدمیوں کے سب ہی شیطان کے سپرد ہوتے اور چند آدمی ہی ہوتے جو عقل سلیم سے کام لیتے۔ جیسے بعض وہ لوگ جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے قبل شرک اور شراب وغیرہ سے اجتناب کرتے تھے۔ مثلاً زید بن عمرو بن نفیل یا ورقہ بن نوفل یا حضرت ابوبکر صدیق اگرچہ کہا جاسکتا ہے کہ عقل سلیم سے صحیح فائدہ اٹھانا بھی اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت ہے لیکن ہم نے خصوصی کی قید لگا کر اس شبہ کا جواب دے دیا ہے کیونکہ اس خاص فضل سے جو ہدایت میسر آئی وہ عقل صالح اور عقل سلیم کو بدون نبوت اور قرآن کی روشنی کے کہاں میسر آسکتی تھی۔ بعض حضرات نے یوں تفسیر کی ہے۔ لاتبعتم الشیطان الا اتباعا قلیلا بعضوں نے الا قلیلا کو اذا عوابہ سے استثنا قرار دیا ہے بعض حضرات نے یستنبطونہ منھم الا قلیلا کے ساتھ ترکیب کی ہے لیکن راجح قول وہی ہے جو ہم نے عرض کیا ہے۔ (واللہ اعلم) شاید یاد ہوگا کہ اوپر سے جہاد کا ذکر ہو رہا ہے۔ بیچ میں بعض منافقین یا بعض بزدل مسلمانوں کا ذکر فرمایا تھا اب پھر جہاد کا ذکر فرماتے ہیں اور خاص طور پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیتے ہیں کہ جو منافق یا بزدل مسلمان جہاد سے کتراتے ہیں ان کو چھوڑیئے آپ خود اس فریضہ کو انجام دیجیے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)