Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 86

سورة النساء

وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ اَوۡ رُدُّوۡہَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَسِیۡبًا ﴿۸۶﴾ النصف

And when you are greeted with a greeting, greet [in return] with one better than it or [at least] return it [in a like manner]. Indeed, Allah is ever, over all things, an Accountant.

اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا ، دو بے شُبہ اللہ تعالٰی ہرچیز کا حساب لینے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا حُيِّيْتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ... When you are greeted with a greeting, greet in return with what is better than it, or (at least) return it equally. meaning, if the Muslim greets you with the Salam, then return the greeting with a better Salam, or at least equal to the Salam that was given. Therefore, the better ... Salam is recommended, while returning it equally is an obligation. Imam Ahmad recorded that Abu Raja Al-Utaridi said that; Imran bin Husayn said that a man came to the Messenger of Allah and said, "As-Salamu Alaykum". The Prophet returned the greeting, and after the man sat down he said, "Ten." Another man came and said, "As-Salamu Alaykum wa Rahmatullah, O Allah's Messenger." The Prophet returned the greeting, and after the man sat down he said, "Twenty." Then another man came and said, "As-Salamu Alaykum wa Rahmatullah wa Barakatuh." The Prophet returned the greeting, and after the man sat down he said, "Thirty." This is the narration recorded by Abu Dawud. At-Tirmidhi, An-Nasa'i and Al-Bazzar also recorded it. At-Tirmidhi said, "Hasan Gharib". There are several other Hadiths on this subject from Abu Sa`id, Ali, and Sahl bin Hanif. When the Muslim is greeted with the full form of Salam, he is obliged to return the greeting equally. As for Ahl Adh-Dhimmah the Salam should not be initiated nor should the greeting be added to when returning their greeting. Rather, as recorded in the Two Sahihs their greeting is returned to them equally. Ibn Umar narrated that the Messenger of Allah said, إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمُ الْيَهُودُ فَإِنَّمَا يَقُولُ أَحَدُهُمْ السَّامُ عَلَيْكَ فَقُلْ وَعَلَيْك When the Jews greet you, one of them would say, `As-Samu `Alayka (death be unto you).' Therefore, say, `Wa `Alayka (and the same to you).') In his Sahih, Muslim recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, لاَا تَبْدَأُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى بِالسَّلَامِ وَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فِي طَرِيقٍ فَاضْطَرُّوهُمْ إِلى أَضْيَقِه Do not initiate greeting the Jews and Christians with the Salam, and when you pass by them on a road, force them to its narrowest path. Abu Dawud recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَا تَدْخُلُوا الْجَنَّـةَ حَتَّى تُوْمِنُوا وَلاَا تُوْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا أَفَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى أَمْرٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُم By He in Whose Hand is my soul! You will not enter Paradise until you believe, and you will not believe until you love each other. Should I direct you to an action that would direct you to love each other! Spread the Salam among yourselves. ... إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا Certainly, Allah is Ever a Careful Account Taker of all things. Allah said,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

86۔ 1 تحیۃ اصل میں تحیۃ (تفعلۃ) ہے یا کے یا میں ادغام کے بعد تحیۃ ہوگیا۔ اس کے معنی ہیں۔ درازی عمر کی دعا (الدعاء بالحیاۃ) یہاں یہ سالم کرنے کے معنی میں ہے۔ (فتح القدیر) زیادہ اچھا جواب دینے کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ السلام علیکم کے جواب میں و رحمتہ اللہ کا اضافہ اور السلام علیکم و رحمتہ ال... لہ کے جواب میں وبرکاتہ کا اضافہ کردیا جائے۔ لیکن کوئی السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہے تو پھر اضافے کے بغیر انہی الفاظ میں جواب دیا جائے، ایک اور حدیث میں ہے کہ صرف السلام علیکم کہنے سے دس نیکیاں اور اس کے ساتھ و رحمتہ اللہ کہنے سے بیس نیکیاں اور برکاتہ کہنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ (مسند احمد، جلد 4 ص 439، 440) یاد رہے کہ یہ حکم مسلمانوں کے لیے ہے، یعنی ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کو سلام کرے۔ لیکن اہل ذمہ یعنی یہود و نصاریٰ کو سلام کرنا ہو تو ایک تو ان کو سلام کرنے میں پہل نہ کی جائے۔ دوسرے اضافہ نہ کیا جائے بلکہ صرف وعلیکم کے ساتھ جواب دیا جائے (صحیح بخاری کتاب الاستیذان۔ مسلم، کتاب السلام)  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٩] جب کوئی شخص دوسرے کو سلام کہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے حق میں اللہ تعالیٰ سے سلامتی کی دعا کرتا ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے آپس میں سلام کہنا نہایت پسندیدہ عمل ہے کیونکہ اس سے اسلامی معاشرہ میں اخوت پیدا ہوتی ہے۔ چناچہ اس بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو (رض)...  کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ && بہتر اسلام کونسا ہے ؟ && آپ نے فرمایا && یہ کہ تم (دوسروں کو) کھانا کھلاؤ اور اسے بھی سلام کرو جسے تم جانتے ہو اور اسے بھی جسے تم نہیں جانتے && (بخاری، کتاب الایمان، باب اطعام الطعام من الاسلام۔ الاستیذان، باب السلام للمعرفۃ و غیر المعرفۃ) ٢۔ سلام کے آداب :۔ سیدنا عمران (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور کہا && السلام علیکم && تو آپ نے فرمایا && دس && (یعنی اس کے لیے دس نیکیاں ہیں) پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا && السلام علیکم و رحمۃ اللہ && تو آپ نے فرمایا && بیس && پھر ایک اور آدمی آیا اس نے کہا && السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ && آپ نے فرمایا && تیس && (ترمذی۔ ابو اب الاستیذان، باب فضل السلام) ٣۔ آپ نے فرمایا && جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو ملے تو اسے سلام کہے۔ پھر اگر ان دونوں کے درمیان کوئی درخت، دیوار یا پتھر آجائے۔ پھر اس سے ملاقات کرے تو پھر سلام کہے۔ && (ابو داؤد، کتاب الادب۔ باب فی الرجل یفارق الرجل ثم یلقاہ ایسلم علیہ) ٤۔ آپ نے فرمایا && چھوٹا بڑے کو سلام کرے، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔ تھوڑے آدمی زیادہ کو سلام کریں۔ سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے اور چلنے والا کھڑے کو سلام کرے۔ && (بخاری، کتاب الاستیذان باب تسلیم الصغیر علی الکبیر۔۔ مسلم، کتاب السلام، باب یسلم الراکب علی الماشی۔۔ ترمذی، ابو اب الاستیذان) ٥۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ چند یہودی آپ کے پاس آئے اور کہا && السام علیک && (تجھے موت آئے) میں سمجھ گئی وہ کیا کہہ رہے ہیں، تو میں نے کہا && علیکم السام واللعنہ && آپ نے فرمایا && ٹھہرو عائشہ (رض) ! اللہ ہر کام میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ && میں نے جواب دیا && یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے سنا نہیں وہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ && آپ نے فرمایا && میں نے وعلیکم تو کہہ دیا تھا && (بخاری، کتاب الاستیذان، باب کیف الرد علی اھل الذمۃ السلام۔ مسلم، کتاب السلام، باب النہی عن ابتداء اہل الکتاب بالسلام و کیف یردعلیھم) ٦۔ آپ نے فرمایا && لوگوں میں سے اللہ سے زیادہ قریب وہ ہے جو ان میں سے پہلے سلام کرتا ہے۔ && (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فضل من بدأ بالسلام) ٧۔ آپ نے فرمایا && جب کوئی مجلس میں آئے تو سلام کہے اور جب جانے لگے تو بھی سلام کہے اور یہ دونوں سلام ایک ہی جیسے ضروری ہیں && (ابو داؤد، کتاب الادب۔ باب فی السلام اذاقام من المجلس   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

جہاد کا حکم دینے کے بعد اب صلح کے بعض احکام بیان فرمائے چناچہ فرمایا کہ اگر کفار کی طرف سے جنگ ختم کرنے اور صلح کرنے کی کوئی پیش کش کی جاتی ہے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا کم از کم اتنی پیش کش ضرور قبول کرو۔ دوسری جگہ فرمایا : ( وَاِنْ جَنَحُوْا للسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ) [...  الأنفال : ٦١ ] ” اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تو بھی اس کی طرف مائل ہوجا اور اللہ پر بھروسہ کر۔ “ ایک مصداق اس آیت کا یہ ہے کہ جہاد کے سفر کے دوران کوئی شخص اگر اطاعت کے اظہار کے لیے یا اسلام قبول کرنے کے اظہار کے لیے سلام کہے تو یہ کہہ کر اسے قتل مت کرو کہ تم مومن نہیں۔ (النساء : ٩٤) اور ایک مصداق وہ ہے جو آیت کے صریح الفاظ سے واضح ہو رہا ہے کہ جب کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو اسے اس سے بہتر الفاظ میں جواب دو ۔ تحیۃ۔ حیاۃ میں سے باب تفعیل کا مصدر ہے۔ زندگی کی یا سلامتی کی دعا دینا مراد سلام ہے۔ بہتر جواب دینے کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ ” اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ “ کے جواب میں ” وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ “ کا اضافہ اور ” السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ “ کے جواب میں ” وَ بَرَکَاتُہٗ “ کا اضافہ کردیا جائے، لیکن اگر کوئی شخص یہ سارے الفاظ بول دے تو انھی کے ساتھ جواب دیا جائے۔ ” ومغفرتہ یا ورضوانہ “ وغیرہ کا اضافہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ ہر لفظ کے اضافے کے ساتھ دس نیکیاں زیادہ ہوتی جائیں گی۔ [ أحمد : ٤؍٤٣٩، ٤٤٠، ١٩٩٧٠ ] گویا کوئی شخص جتنا سلام کہے اتنا جواب دینا فرض ہے، زائد مستحب ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Salam and Islam : The Bliss of Muslim Greeting In verse 86 which begins with the words: وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا Allah Almighty tells us the etiquette of offering and returning greet¬ings known as Salam among Muslims. Lexically, تَحَیَّۃ &Tahiyyah& means sayings حَیَّکَ اللہ :&Hayyakallah&, that is, &may Allah keep you alive&. In pre-Isla... m Arabia, when people met, they used to greet each other by saying &Hayyakallah& or An` amallahu bika ` aynan& or ` An` im sabahan& or other expression of this nature. When Islam came, it changed this style of greeting and replaced it with a standard form of greeting which is السلام علیکم &As-Salamu Alaikum` Commonly, though incompletely, translated in English as &peace be on you&, the greeting means: &May you remain safe from every pain, sorrow and distress.& In Ahkam al-Qur&an, Ibn ` Arabi says: The word Salam is one of the good names of Allah Almighty and السلام علیکم As-Salamu Alaikum& means ; that is, Allah Almighty is your guardian and caretaker. The Islamic greeting is unique All civilized people around the world have the custom of saying something to express mutual familiarity or affection when they meet each other. If compared with these broadmindedly, the Islamic form of greeting will stand out significantly for its comprehensiveness because it does not simply restrict itself to an expression of affection alone. It rather combines it with the fulfillment of the demands of love and affection. It means that we pray to Allah that He keep you safe against all calamities and sorrows. Then, this is no bland prayer for long life alone as was the way with pre-Islam Arabs. Instead of that, here we have a prayer for good life, that is, a life which is secure against all calamities and sorrows. Along with it, the Islamic salam is an expression of the reality of our relation with Allah Almighty - that we, the greeter and the greeted, are all dependent on Allah Almighty needing Him all the time and no one can bring any benefit to someone else without His will and leave. Taken in this sense, this form of greeting is an act of worship in its own right and, quite functionally indeed, a medium of reminding a brother-in-faith of Allah Almighty, the object of his obedience and love. Staying with this line of presentation, let us imagine a person praying to Allah that his acquaintance remain safe against all calami¬ties and sorrows. When doing so, is it not that he is sort of making a promise as well that the person being greeted is safe against his own hands and tongue. In other words, he is saying that he, in his place, is the guardian and protector of the person&s life, property and honour. In Ahkam al-Qur&an, Ibn al ` Arabi has reported the following saying of Imam Ibn ` Uyaynah: اَتَدری ما السلام ؟ یقول اَنتَ اٰمِن مِّنِّی Do you know what salam Is? The greeter by sal am says: &You are safe from me.& To sum up, it can be said that this Islamic form of greeting has a universal comprehensiveness as it is a medium of the remembrance of Allah while reminding the person greeted of Him. It is a vehicle of expressing love and affection for a brother-in-faith and, in fact, a wonderful prayer for him. Then, it also carries a commitment that the greeted will in no way face harm or discomfort from the greeter as it appears is a sound hadith where the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: اَلمُسلِمُ مَن سَلِمَ المُسلِمونَ مِن لِّسَانِہِ و یَدِہِ A Muslim is the one from whom all Muslims remain safe - (safe) from his tongue and (safe) from his hands. (Tirmidhi, Kitabul-&Iman) At this point one may fondly wish that Muslims would not utter the words of this greeting as some sort of habitual custom which commonly prevails among other people of the world. How beneficial it would be if this greeting is offered out of a full understanding of its reality which, perhaps, may turn out to be enough for the reform of whole community. This is the reason why the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) laid great emphasis on popularizing the practice of Muslims in greeting each other with salam, and he identified it as the best of deeds and took time to explain its merits, graces, blessings and rewards. In a hadith of Sahih Muslim narrated by Sayyidna Abu Hurairah (رض) ، the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم has been reported to have said: &&You cannot enter Paradise until you are a believer and your belief cannot be complete until you love each other. I tell you something which, if you put it in practice, will establish bonds of love among you all, and that is: Make salam a common practice among you which should include every Muslim, whether an acquaintance or a stranger.|" Sayyidna ` Abdullah ibn ` Umar رضی اللہ تعالیٰ عنہما ، says that someone asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : &Out of the practices of Islam which is the worthiest?& He said: &Feed people and spread the practice of salam, whether you know or do not know a person.& (Bukhari and Muslim) The Musnad of Ahmad, Tirmidhi and Abu Dawud report from Sayy¬idna Abu Umamah (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &Nearest to Allah is the person who is the first one to offer salam.& A hadith from Sayyidna ` Abdullah ibn Masud (رض) عنہما appearing in Musnad al-Bazzar and al-Mu&jim al-Kabir of al-Tabarani reports that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &Salam is one of the names of Allah Almighty with which He has blessed the people of the earth. So, make salam a common practice among you because, when a Muslim goes to a gathering of people and offers his salam to them, he is blessed with a station of distinction in the sight of Allah Almighty as he reminded everyone of Salam, that is, reminded everyone of Allah Almighty. If people in the gathering do not return his greeting, others will respond who are better than the people of this gathering, that is, the angels of Allah Almighty.& In another hadith from Sayyidna Abu Hurairah (رض) the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم is reported to have said: &A big miser is the man who acts miserly in offering salam. (Tabarani, al-Mu` jim al-Kabir) The effect that those teachings of the Holy Prophets had on his noble Companions can be gauged from a narration about Sayyidna ` Abdullah ibn ` Umar (رض) ، who would frequently go to the bazaar just for the single purpose of having a chance to meet any Muslim there in the hope of offering salam to him and thus become deserving of the reward of an act of worship. Incidentally, he never intended to buy or sell anything while there. This narration from Sayyidna Tufayl ibn Ubayy ibn Ka&b (رض) appears in Mu&atta& of Imam Malik (رح) . Verse 4:86 of the Holy Qur&an which says: &And when you are greeted with a salutation, greet with one better than it, or return the same&, was explained by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) through his own action in the following manner. Once someone came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and said: &As-Salam, u Alaikum Ya Rasulallah& (peace be on you, 0 Messenger of Allah). While returning the greeting, he added a word and said: &Wa Alaikumus-Salam wa Rahmatulah (And peace be on you, and the mercy of Allah). Then someone else came and offered his salam using the following words: &As-Salamu Alaika Ya Rasulallah wa Rahmatullah.& In response, he added yet another word and said: &Wa Alaikumus-Salem wa Rahmatullahi wa Barakatuh (And peace be on you too, and the mercy of Allah, and His blessings). Then came a third person. He combined all three saluta-tions in his initial salam and greeted him by saying the whole thing, that is: &As-Sala-mu Alaik Ye Rasulallah wa Rahmatullahi wa Barakatuh.& In response, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said only one word &Wa Alaik& (and on you). Disappointed in his heart, he said: &Ya Rasu¬lallah, ransomed be my parents for you, you said many words of prayer while returning the greeting of those who came before me. But, when I greeted you with all those words, you limited your response to &wa &alaik& (and on you).& He said: &You left nothing for me to add in the response! Since you used up all those words in your initial salam, I found it sufficient to return your greeting on the principle of like for like in accordance with the teaching of the Qur&an.& This narration has been reported by Ibn Jarir and Ibn Abi Hatim (رض) with different chains of authorities. There are three things we find out from this hadith: Words appearing in the verse under comment mean that a salam offered should be returned by adding more words to it. If someone says As¬salamu Alaikum (peace be on you), you respond by saying Wa Alaikumus-Salam wa Rahmatullah (And peace be on you, and the mercy of Allah). If he says As-Sala-mu Alaikum wa Rahmatullah (peace be on you, and the mercy of Allah), then, in response, you say Wa Alaikumus-Salam wa Rahmatullahi wa Barakatuh (And peace be on you, and the mercy of Allah, and His blessings). 2. This addition of words is restricted to three words only as a masnun act, that is, conforming to the blessed practice of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Going beyond that is not masnun. The logic behind it is obvious. The occasion for salam requires that the verbal exchange be brief. Any excess in this connection which interferes with ongoing business or which becomes heavy on the listener is not appro¬priate. Therefore, when the person visiting the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) combined all three words in his very initial salam, he elected to abstain from any further addition of words. This was further explained by Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) by saying that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) stopped the man who went beyond the limit of the three words with the following statement اِنِّ السَّلَامَ قَدِ انتَھٰی اِلَی البَرَکَۃِ (Mazhari from al-Baghawi). It means that salam ends at the word, barakah. Saying anything beyond that was not the practice of the blessed Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . (Ibn Kathir) 3. If someone makes his salam with three words spoken at the same time, returning it with only one word will be correct. That too comes under the principle of like for like and is sufficient in obedience to the Qur&anic command أَوْ رُ‌دُّوهَا (or return the same) as the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has, in this hadith, considered a one-word response as sufficient. (Tafsir Mazhari) In summation, we can say that it is obligatory on a Muslim to return the salam offered to him. If he fails to do so without any valid excuse admitted by the Shari’ ah of Islam, he will become a sinner. However, he has the option to choose the mode. He can either respond with words better than those used in offering the salam; or, the response could be in identical words. It will be noticed that this verse very clearly states that returning a salam is obligatory but it is not explicit on the nature of offering a salam initially. However, in the Qur&anic expression إِذَا حُيِّيتُم (And when you are greeted .. ) there does lie a hint pointing towards this rule of conduct. That this statement is in the passive voice without identifying the subject precisely could be suggestive of salam being something all Muslims already do habitually and commonly. The Musnad of Ahmad, al-Tirmidhi and Abu Dawud report that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &Nearest to Allah is the person who is the first to offer salam.& So, from the emphasis on salam and its many merits you have learnt from the teachings of the Holy Prophet cited earlier, we get to understand that offering the initial salam has also been empha¬sized as part of the practice of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . According to Tafsir al-Bahr al-Muhit, the initial salam is actually a sunnah mu&akkadah (emphasized practice of the Prophet of Islam) as held by the majority of ` Ulama. And Hasan al-Basri (رح) said: السلام تطوع والرد فریضہ ، that is, &the initial salam is voluntary while returning it is an obligation.& Some more detailed explanations of this Qur&anic injunctions about salam and its answer have been given by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) which the reader may wish to know briefly. According to a hadith in al-Bukhari and Muslim, the person riding should himself offer salam to the person walking; and the person walking should offer salam to the person sitting; and a small group of persons walking near a larger group should be the first to offer salam. According to a hadith in Tirmidhi, when a person enters his house, he should offer salam to the members of his family as this act of grace will bring blessings for him as well as for his family. According to a hadith in Abu Dawud, when one meets a Muslim more than once, he should offer salam every time; and the way offering salam is masnun (a requirement of sunnah) at the time of the initial meeting, so it is at the time of seeking leave when offering salam is in line with the practice of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and a source of reward as well. This rule of guidance appears in Tirmidhi and Abu Dawud as narrated by Sayyidna Qatadah and Abu Hurairah (رض) . Now a note of caution about the rule: It is obligatory to answer salam - however, there are certain exceptions to it. For instance, if someone says salam to a person who is offering salah, an answer is not obligatory. Indeed, it is a spoiler of salah. Similarly, a person may be delivering a religious sermon, or is busy in reciting the Holy Qur&an, or is calling the adhan or iqamah, or is teaching religious texts, or is busy with his human compulsions - in all such conditions, even offering the initial salam is not permissible, and he is not responsible for answering it as a matter of obligation either. Towards the end of verse .86, it was said: إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا (Surely, Allah is the Reckoner over everything). It means that with Allah rests the reckoning of everything which includes all human and Islamic rights such as salam and its answer. These too will have to be accounted for before Allah Almighty.  Show more

سلام اور اسلام واذا حییتم بتحیة فحیوا باحسن منھا الخ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سلام اور اس کے جواب کے آداب بتلائے ہیں : لفظ تحیہ کی تشریح اور اس کا تاریخی پہلو :۔ تحیہ کے لفظی معنی ہیں کسی کو ” حیاک اللہ “ کہنا، یعنی ” اللہ تم کو زندہ رکھے قبل از اسلام عرب کی عادت تھی کہ جب آپس میں ملتے تو ایک دو... سرے کو ” حیاک اللہ “ یا انعم اللہ بک عینا یا ” انعم صباحاً وغیرہ الفاظ سے سلام کیا کرتے تھے، اسلام نے اس طرز تحیہ کو بدل کر السلام علیکم کہنے کا طریقہ جاری کیا، جس کے معنی ہیں ” تم ہر تکلیف اور رنج و مصیبت سے سلامت رہو۔ “ ابن عربی نے احکام القرآن میں فرمایا کہ لفظ سلام اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے اور ” السلام علیم “ کے معنی یہ ہیں کہ ” اللہ رقیب علیکم “ ” یعنی اللہ تعالیٰ تمہارا محافظ ہے۔ “ اسلامی سلام تمام دوسری اقوام کے سلام سے بہتر ہے :۔ دنیا کی ہر مہذب قوم میں اس کا رواج ہے کہ جب آپس میں ملاقات کریں تو کوئی کلمہ آپس کی موانست اور اظہار محبت کے لئے کہیں، لیکن موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلامی سلام جتنا جامع ہے کوئی دوسرا ایسا جامع نہیں، کیونکہ اس میں صرف اظہار محبت ہی نہیں، بلکہ ساتھ ساتھ ادائے حق محبت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ آپ کو تمام آفات اور آلام سے سلامت رکھیں، پھر دعاء بھی عرب کے طرز پر صرف زندہ رہنے کی نہیں، بلکہ حیات طیبہ کی دعاء ہے، یعنی تمام آفات اور آلام سے محفوظ رہن کی، اسی کے ساتھ اس کا بھی اظہار ہے کہ ہم اور تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں، ایک دوسرے کو کوئی نفع بغیر اس کے اذن کے نہیں پہنچا سکتا، اس معنی کے اعتبار سے یہ کلمہ ایک عبادت بھی ہے اور اپنے بھائی مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی یاد دلانے کا ذریعہ بھی۔ اسی کے ساتھ اگر یہ دیکھا جائے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگ رہا ہے کہ ہمارے ساتھی کو تمام آفات اور تکالیف سے محفوظ فرما دے تو اس کے ضمن میں وہ گیا یہ وعدہ بھی کر رہا ہے کہ تم میرے ہاتھ اور زبان سے مامون ہو، تمہاری جان، مال، آبرو کا میں محافظ ہوں۔ ” یعنی تم جانتے ہو کہ سلام کیا چیز ہے ؟ سلام کرنے والا یہ کہتا ہے کہ تم مجھ سے مامون رہو “ خلاصہ یہ ہے کہ اسلام تحیہ ایک عالمگیر جامعیت رکھتا ہے : (١) اس میں اللہ تعالیٰ کا بھی ذکر ہے (٢) تذکیر بھی (٣) اپنے بھائی مسلمان سے اظہار تعلق و محبت بھی (٤) اس کے لئے بہترین دعا بھی (٥) اور اس سے یہ معاہدہ بھی کہ میرے ہاتھ اور زبان سے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچنے گی، جیسا کہ حدیث صحیح میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے : ” یعنی مسلمان تو وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے سب مسلمان محفوظ رہیں، کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ “ کاش مسلمان اس کلمہ کو عام لوگوں کی رسم کی طرح اداء نہ کرے، بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھ کر اختیار کرے، تو شاید پوری قوم کی اصلاح کے لئے یہی کافی ہوجائے، یہی وجہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے باہم سلام کو رواج دینے کی بڑی تاکید فرمائی اور اس کو افضل الاعمال قرار دیا اور اس کے فضائل و برکات اور اجر وثواب بیان فرمائے، صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ کی ایک حدیث ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : ” تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک مومن نہ ہو اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، میں تم کو ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تمہاری آپس میں محبت قائم ہو جائیگی، وہ یہ کہ آپس میں سلام کو عام کرو، یعنی ہر مسلمان کے لئے خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو۔ “ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ اسلام کے اعمال میں سب سے افضل کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تم لوگوں کو کھانا کھلا دو اور سلام کو عام کرو خواہ تم اس کو پہچانتے ہو یا نہ پہنچانتے ہو (صیحین) مسند احمد، ترمذی، ابوداؤد نے حضرت ابوامامہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو سلام کرنے میں ابتداء کرے۔ مسند بزار اور معجم کبیر طبرانی میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سلام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اتارا ہے، اس لئے تم آپس میں سلام کو عام کرو، کیونکہ مسلمان آدمی جب کسی مجلس میں جاتا ہے اور ان کو سلام کرتا ہے تو اس شخص کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت کا ایک بلند مقام حاصل ہوتا ہے، کیونکہ اس نے سب کو سلام، یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد دلائی، اگر مجلس والوں نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا تو ایسے لوگ اس کو جواب دیں گے جو اس مجلس والوں سے بہتر ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ بڑا بخیل وہ آدمی ہے جو سلام میں بخل کرے (طبرانی، معجم کبیر عن ابی ہریرہ) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان ارشادات کا صحابہ کرام پر جو اثر ہوا اس کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر اکثر بازار میں صرف اس لئے جایا کرتے تھے کہ جو مسلمان ملے اس کو سلام کر کے عبادت کا ثواب حاصل کریں، کچھ خریدنا یا فروخت کرنا مقصود نہ ہوتا تھا، یہ روایت موطا امام مالک میں طفیل بن ابی بن کعب (رض) سے نقل کی ہے۔ قرآن مجید کی جو آیت اوپر ذکر کی گئی ہے اس میں ارشاد یہ ہے کہ جب تمہیں سلام کیا جائے تو اس کا جواب اس سے بہتر الفاظ میں دو ، یا کم از کم ویسے ہی الفاظ کہہ دو اس کی تشریح رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے عمل سے اس طرح فرمائی کہ ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک صاحب آئے اور کہا ” السلام علیک یا رسول اللہ “ آپ نے جواب میں ایک کلمہ بڑھا کر فرمایا :” وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ۔ “ پھر ایک صاحب آئے اور انہوں نے سلام میں یہ الفاظ کہے :” السلام علیک یا رسول اللہ ور حمتہ اللہ۔ “ آپ نے جواب میں ایک اور کلمہ بڑھا کر فرمایا ” وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ “ پھر ایک صاحب آئے انہوں نے اپنے سلام ہی میں تینوں کلمے بڑھا کر کہا ” السلام علیک یا رسول اللہ و رحمتہ اللہ وبرکاتہ “ آپ نے جواب میں صرف ایک کلمہ ” وعلیک “ ارشاد فرمایا، ان کے دل میں شکایت پیدا ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان پہلے جو حضرات آئے آپ نے ان کے جواب میں کئی کلمات دعاء کے ارشاد فرمائے اور میں نے ان سب الفاظ سے سلام کیا تو آپ نے ” وعلیک “ پر اکتفا فرمایا آپ نے فرمایا کہ تم نے ہمارے لئے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے، تم نے سارے کلمات اپنے سلام ہی میں جمع کردیئے، اس لئے ہم نے قرآنی تعلیم کے مطابق تمہارے سلام کا جواب بالمثل دینے پر اکتفا کرلیا اس روایت کو ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مختلف اسانید کے ساتھ نقل کیا ہے۔ حدیث مذکور سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ سلام کا جواب اس سے اچھے الفاظ میں دینے کا جو حکم آیت مذکورہ میں آیا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ سلام کرنے والے کے الفاظ سے بڑھا کر جواب دیا جائے، مثلاً اس نے کہا :” السلام علیکم “ تو آپ جواب دیں ” وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ۔ “ اور اس نے کہا ” السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔ “ تو آپ جواب میں کہیں ” وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ “ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ یہ کلمات کی زیادتی صرف تین کمالات تک مسنون ہے اس سے زیادہ کرنا مسنون نہیں اور حکمت اس کی ظاہر ہے کہ سلام کا موقع مختصر کلام کرنے کا مقتضی ہے، اس میں اتنی زیادتی مناسب نہیں ہے، جو کسی کام میں مخل یا سننے والے پر بھاری ہوجائے اسی لئے جب ایک صاحب نے اپنے ابتدائی سلام ہی میں تینوں کلمے جمع کردیئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آگے اور زیادتی سے احتراز فرمایا، اس کی مزید توضیح حضرت عبداللہ بن عباس نے اس طرح فرمائی کہ مذکورہ تینوں سے زیادہ کرنے والے کو یہ کہہ کر روک دیا کہ : ان السلام قد انتھی الی البرکة (مظہری عن البغوی) یعنی ” سلام لفظ برکت پر ختم ہوجاتا ہے۔ “ اس سے زیادہ کرنا مسنون نہیں ہے۔ (و مثلہ عن ابن کثیر) تیسری بات حدیث مذکور سے یہ معلوم ہوئی کہ سلام میں تین کلمے کہنے والے کے جواب میں اگر صرف ایک کلمہ ہی کہہ دیا جائے تو وہ بھی اداء بالمثل کے حکم میں حکم قرآنی (اور دھا) کی تعمیل کے لئے کافی ہے، جیسا کہ اس حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف ایک کلمہ پر اکتفا فرمایا ہے۔ (تفسیر مظہری) مضمون آیت کا خلاصہ یہ ہوا کہ جب کسی مسلمان کو سلام کیا جائے تو اس کے ذمہ جواب دینا تو واجب ہے، اگر بغیر کسی عذر شرعی کے جواب نہ دیا تو گناہگار ہوگا، البتہ جواب دینے میں دو باتوں کا اختیار ہے، ایک یہ کہ جن الفاظ سے سلام کیا گیا ہے ان سے بہتر الفاظ میں جواب دیا جائے، دوسرے یہ کہ بعینہ انہی الفاظ سے جواب دے دیا جائے۔ اس آیت میں سلام کا جواب دینے کو تو لازم جواب صراحة بتلا دیا گیا ہے، لیکن ابتداءً سلام کرنے کا کیا درجہ ہے، اس کا بیان صراحتا نہیں ہے۔ مگر اذا حییتم میں اس کے حکم کی طرف بھی اشارہ موجود ہے، کیونکہ اس لفظ کو بصیغہ مجہول بغیر تعیین فاعل ذکر کرنے میں اشارہ ہوسکتا ہے کہ سلام ایسی چیز ہے جو عادة سب ہی مسلمان کرتے ہیں۔ مسند احمد، ترمذی، ابوداؤد میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد منقول ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب وہ شخص ہے جو سلام کی ابتداء کرے۔ اور سلام کی تاکید اور فضائل آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات سے ابھی آپ سن چکے ہیں ان سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء سلام کرنا بھی سنت موکدہ سے کم نہیں تفسیر بحر محیط میں ہے کہ ابتدائی سلام تو اکثر علماء کے نزدیک سنت موکدہ ہے اور حضرت حسن بصری نے فرمایا السلام تطوع والرد فریضة یعنی ” ابتداء سلام کرنے میں تو اختیار ہے لیکن سلام کا جواب دینا فرض ہے۔ “ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حکم قرآنی کی مزید تشریح کے طور پر سلام اور جواب سلام کے متعلق اور بھی کچھ تفصیلات بیان فرمائی ہیں وہ بھی مختصر طور پر ملاحظہ کرلیجئے صحیحین کی حدیث میں ہے کہ جو شخص سواری پر ہو اس کو چاہئے کہ پیادہ چلنے والے کو خود سلام کرے اور جو چل رہا ہو وہ بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور جو لوگ تعداد میں قلیل ہوں وہ کسی بڑی جماعت پر گذریں تو ان کو چاہئے کہ سلام کی ابتداء کریں۔ ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ جب آدمی اپنے گھر میں جائے تو اپنے گھر والوں کو سلام کرنا چاہئے کہ اس سے اس کے لئے بھی برکت ہوگیا ور اس کے گھر والوں کے لئے بھی۔ ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان سے بار بار ملاقات ہو تو ہر مرتبہ سلام کرنا چاہئے اور جس طرح اول ملاقات کے وقت سلام کرنا مسنون ہے اسی طرح رخصت کے وقت بھی سلام کرنا مسنون اور ثواب ہے، ترمذی، ابوداؤد میں یہ حکم بروایت قتادہ و ابوہریرہ (رض) نقل کیا ہے۔ اور یہ حکم جو ابھی بیان کیا گیا ہے کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے، اس سے چند حالات مستثنی ہیں، جو شخص نماز پڑھ رہا ہے اگر کوئی اس کو سلام کرے تو جواب دینا واجب نہیں بلکہ مفسد نماز ہے، اسی طرح جو شخص خطبہ دے رہا ہے یا قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہے، یا اذان یا اقامت کہہ رہا ہے، یا دینی کتابوں کا درس دے رہا ہے۔ یا انسانی ضروریات استنجا وغیرہ میں مشغول ہے اس کو اس حالت میں سلام کرنا بھی جائز نہیں اور اس کے ذمہ جواب دینا بھی واجب نہیں۔ اختتام مضمون پر فرمایا : ان اللہ کان علی کل شیء حسیباً یعنی ” اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والے ہیں۔ “ جن میں انسان اور اسلامی حقوق مثل سلام اور جواب سلام کے سب امور داخل ہیں، ان کا بھی اللہ تعالیٰ حساب لیں گے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّۃٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا۝ ٨٦ تحیۃ وقوله عزّ وجلّ : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها [ النساء/ 86] ، وقوله تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا ع... َلى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النور/ 61] ، فَالتَّحِيَّة أن يقال : حيّاک الله، أي : جعل لک حياة، وذلک إخبار، ثم يجعل دعاء . ويقال : حَيَّا فلان فلانا تَحِيَّة إذا قال له ذلك، وأصل التّحيّة من الحیاة، ثمّ جعل ذلک دعاء تحيّة، لکون جمیعه غير خارج عن حصول الحیاة، أو سبب حياة إمّا في الدّنيا، وأمّا في الآخرة، ومنه «التّحيّات لله» «1» وقوله عزّ وجلّ : وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة/ 49] ، أي : يستبقونهنّ ، والحَياءُ : انقباض النّفس عن القبائح وترکه اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها[ النساء/ 86] اور جب تم کو کوئی دعا دے تو ( جواب ) میں تم اس سے بہتر ( کلمے ) سے ( اسے ) دعا دیا کرو یا انہی لفظوں سے دعا دو ۔ نیز : ۔ فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النور/ 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھروں والوں کو ) سلام کیا کرو ( یہ خدا کی طرف سے ۔۔۔ تحفہ ہے ۔ میں تحیۃ کے معنی کسی کو حیاک اللہ کہنے کے ہیں یعنی اللہ تجھے زندہ رکھے ۔ یہ اصل میں جلہ خبر یہ ہے لیکن دعا کے طور پر استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے حیا فلان فلانا تحیۃ فلاں نے اسے کہا ۔ اصل میں تحیۃ حیات سے مشتق ہے ۔ پھر دعائے حیات کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ کیونکہ جملہ اقسام تحۃ حصول حیاۃ یا سبب حیا ۃ سے خارج نہیں ہیں خواہ یہ دنیا میں حاصل ہو یا عقبی میں اسی سے اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة/ 49] اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔ کے معنی عورتوں کو زندہ چھوڑ دینے کے ہیں احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

سلام اور اس کا جواب۔ قول باری ہے (واذاحییتم بتحیۃ فحیوا باحسن منھا اور دوھا، اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب ددو یا کم ازکم اسی طرح) اہل لغت کے نزدیک تحیت کے معنی ملک یعنی سلطنت اور مالک بنانے کے ہیں شاعر کا یہ شعر اس معنی میں ہے۔ اسیر بہ الی النعمان ... حتی، انیح علی تحیتہ بجند۔ میں اس اونٹ پر بادشاہ نعمان کی طرف جارہا ہوں یہاں تک کہ میں اس کی سلطنت کے اندرجند کے مقام پر اپنااونٹ بٹھاؤں گا یعنی قیام کروں گا۔ شاعر نے ، علی تحتیہ، کہہ کرنعمان کی سلطنت مراد لی ہے اہل عرب کے قول ، حیاک اللہ کے معنی ، ملک اللہ ، اللہ تجھے مالک بنادے ) کے ہیں ، سلام کو بھی تحیت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے کیونکہ عرب کے لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے تھے توحیاک اللہ کہتے تھے پھر اسلام آنے کے بعد اس کی بجائے سلام کا لفظ استعمال ہونے لگا اور سلام کا لفظ حیاک اللہ ، کے قائم مقام ہوگیا۔ حضرت ابوذر کا قول ہے کہ میں پہلا شخص تھا جس نے حضور کو تحیۃ اسلام کے الفاظ میں سلام کیا تھا میں نے آپ سے کہا تھا، السلام علیکم و (رح) ، نابغہ ذیبانی کا ایک مصرعہ ہے، یحیون بالریحان یوم السباسب۔ سیاسب (عیسائیوں کی عید) کے دن انہیں گلدستے پیش کرکے سلام کیا جاتا ہے یعنی انہیں گلدستے پیش کیے جاتے ہیں اور کہاجاتا ہے ، حیاکم اللہ ، اس کے معنی وہ ہیں جو ہم نے بیان کیے ہیں یعنی ملک اللہ۔ اگرہم قول باری (واذاحییتم بتحیہ فحیوا باحسن منھا اور دوھا، کو اس کے حقیقی معنوں پر محمول کریں تو اس سے ایک چیز کو اس وقت تک واپس لے سکتا ہے جب تک بدلے کے طور پر اسے کچھ نہ دے دیاجائے۔ یہ چیز ہمارے اصحاب کے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے اگر کوئی شخص کسی کو جو اس کا محرم رشتہ دار نہ ہوبطور ہبہ کوئی چیز دے دے تو اس کا بدلہ ملنے سے پہلے پہلے اسے واپس لے سکتا ہے لیکن اس کے بعد وہ واپس نہیں لے سکتا کیونکہ اس نے ہبہ کرکے دو باتوں میں سے ایک واجب کردی تھی ، ثواب یعنی بدلہ یادی ہوئی چیز کی واپسی۔ حضور سے ہبہ کرکے واپس لے لینے کے متعلق روایت ہے جسے ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ہے ، انہیں ابوداؤد نے، انہیں سلیمان بن داؤد المہری نے ، انہیں ، ابن وہب نے ، انہیں اسامہ بن زید نے ، انہیں عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے انہوں نے عمرو کے دادا حضرت عبداللہ بن عمرو سے ، انہوں نے حضور سے کہ آپ نے فرمایا : اس شخص کی مثال جو اپنی ہبہ کی ہوئی چیز واپس مانگ لیتا ہے اس کتے جیسی ہے جو پہلے قے کرتا ہے اور پھر اپنی قے کو چاٹ جاتا ہے اگر ہبہ کرنے والااپنی چیز واپس مانگے تو پہلے اس حرکت کی کراہت سے واقف کر ایاجائے اور اس کے علم میں یہ بات لائی جائے اس کے بعد اس کی دی ہوئی چیز اسے واپس کردی جائے۔ ابوبکر بن ابی شیبہ نے روایت کی ہے کہ انہیں وکیع نے ابراہیم بن اسمعیل نے مجمع سے انہوں نے عمرو بن دینار سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور نے فرمایا (الرجل احق بھبتہ مالم یثب منھا ، ہبہ کرنے والاہبہ میں دی ہوئی چیز کا سب سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے جب تک اسے اس کا بدلہ نہ مل جائے) ۔ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر نے روایت کی ہے کہ حضور نے فرمایا، کسی شخص کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ کوئی چیز عطیہ کرے یاہبہ کرے اور واپس لے لے ، البتہ باپ اپنے بیٹے کو دی ہوئی چیز واپس لے سکتا ہے جو شخص عطیہ دے کر واپس لے لیتا ہے اس کی مثال اس کتے کی طرح ہے جو کھاتارہتا ہے یہاں تک کہ جب شکم سیر ہوجاتا ہے توقے کردیتا ہے اور پھر اپنی قے کو چاٹ لیتا ہے) ۔ یہ حدیث دو باتوں پر دلالت کرتی ہے ایک توہبہ کے رجوع کی صحت پر اور دوسری اس حرکت کی کراہت پر نیز اس پر بھی یہ حرکت انتہائی بداخلاقی اور کمینگی کی بات ہے کیو کہ آپ نے اس حرکت کے مرتکب کو اس کتے کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو اپنے قے کو چاٹ جاتا ہے۔ یہ چیز ہماری بیان کردہ بات پر دوطرح سے دلالت کرتی ہے ایک تو یہ کہ ایسے شخص کو کتے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جب وہ اپنی قے کو چاٹ لے اور یہ بات واضح ہے کتے کے لیے یہ حرکت حرام نہیں ہے ، اس لیی اس کے ساتھ جس شخص کو تشبیہ دی ہے اس کے لیے بھی یہ حرکت حرام نہیں ہوگی۔ دوسری یہ کہ اگر رجوع فی الہبہ کسی حال میں بھی درست نہ ہوتا تورجوع کرنے والے کوس کتے کے مشابہ قرار نہ دیاجاتا جو اپنی قے کو چاٹ لیتا ہے کیونکہ ایسی چیز کو جو کسی حال میں بھی وقوع پذیر نہیں ہوتی کسی ایسی چیز کے ساتھ تشبیہ دینا درست نہیں ہوتاجس کا وجود میں آنا صحیح ہوتا ہے یہ بات رجوع فی الہیہ کی صحت پر دلالت کرتی ہے اگرچہ یہ حرکت انتہائی قبیح اور مکروہ ہے ۔ غیر ذی رحم محرم کو ہبہ کرکے واپس لے لینے کی روایت حضرت علی، حضرت عمر، اور حضرت فضالہ بن عبید سے منقول ہے جس کی مخالفت میں کسی صحابی سے کوئی روایت منقول نہیں ہے سلف کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ آیت زیربحث سلام کا جواب دینے کے بارے میں ہے انمیں حضرت جابر بن عبداللہ شامل ہیں۔ حسن کا قول ہے السلام علیکم کہنا تطوع یعنی نفل ہے لیکن سلام کا جواب دینا فرض ہے ، پھر حسن نے اس موقعہ پر زیر بحث آیت کا ذکر کیا تھا پھر اس بارے میں اختلاف رائے سے کہ یہ صرف اہل اسلام کے لیے ہے یا اہل اسلام اور اہل کفر سب کے لیے عام ہے عطاء کا قول ہے کہ یہ ـصرف اہل اسلام کے لیے خاص ہے ، حضرت ابن عباس، اور ابراہیم نخعی اور قتادہ کا قول ہے کہ یہ دونوں کے لیے عام ہے۔ حسن کا قول ہے کہ کافر کے سلام کے جواب میں صرف لفظ، وعلیکم ، کہاجائے گا، اورو (رح) ، نہیں کہاجائے گاکیون کہ کافر کے لیے بخشش کی دعا کرنا جائز نہیں ہے۔ حضور سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا یہود کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو۔ اگر وہ تمہیں سلام کرنے میں پہل کریں تو جواب میں صرف وعلیکم کہہ دو ۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ سلام کا جواب دینا فرض کفایہ ہے اگر پوری جماعت سے ایک شخص سلام کا جواب دے دے تو یہ کافی ہوجائے گا۔ قول باری (باحسن منھا) سے اگر سلام کا جواب دینا مراد ہو تو اس کا مطلب دعا میں اضافہ ہوگا یعنی جب کوئی شخص کسی کو السلام علیکم کہے گا تو جواب میں یہ شخص اسے وعلیکم السلام و (رح) کہے گا اور اگر سلام کرنے والا السلام علیکم و (رح) کہے گا تو جواب دینے والاوعلیکم السلام و (رح) وبرکاتہ کہے گا۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٦) اور جس وقت تمہارے مذہب والا تمہیں سنت کے مطابق سلام کرے تو اس سے بہترین اور اچھے الفاظ میں اس کو سلام کا جواب دو اور جب کوئی غیر مذہب والا سلام کرے تو ان ہی الفاظ میں اس کا سلام کا جواب دے دو ۔ اللہ کی جانب سے سلام اور اس کے جواب پر جزا دی جائے گی، یہ آیت کریمہ ایسے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی...  جو سلام کرنے میں بخل کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز (جس کے واقع ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں) میدان حشر میں سب کو جمع کریں گے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٦ (وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْہَآ اَوْرُدُّوْہَا ط) ۔ ہر معاشرے میں کچھ ایسے دعائیہ کلمات رائج ہوتے ہیں جو معاشرے کے افراد باہمی ملاقات کے وقت ‘ استعمال کرتے ہیں۔ جیسے مغربی معاشرے میں گڈ مارننگ اور گڈایوننگ وغیرہ۔ عربوں کے ہاں صباح الخیر اور مساء الخیر کے علاوہ ... سب سے زیادہ رواج حَیَّاک اللّٰہ کہنے کا تھا۔ یعنی اللہ تمہاری زندگی بڑھائے۔ جیسے ہمارے ہاں سرائیکی علاقے میں کہا جاتا ہے حیاتی ہو وے۔ درازئ عمر کی اس دعا کو تَحِیَّہ کہا جاتا ہے۔ سلام اور اس کے ہم معنی دوسرے دعائیہ کلمات بھی سب اس کے اندر شامل ہوجاتے ہیں۔ عرب میں جب اسلامی معاشرہ وجود میں آیا تو دیگر دعائیہ کلمات بھی باقی رہے ‘ البتہ السَّلَامُ عَلَیْکُمْکو ایک خاص اسلامی شعار کی حیثیت حاصل ہوگی۔ اس آیت میں ہدایت کی جا رہی ہے کہ جب تمہیں کوئی سلامتی کی دعا دے تو اس کے جواب کا اعلیٰ طریقہ یہ ہے کہ اس سے بہتر طریقے پر جواب دو ۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْکے جواب میں وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُکے ساتھ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاُتہٗ کا اضافہ کر کے اسے لوٹائیں۔ اگر یہ نہیں تو کم از کم اسی کے الفاظ اس کی طرف لوٹا دو ۔ (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا ) یہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں جو ہیں انسانی زندگی میں ان کی بھی اہمیت ہے۔ ان معاشرتی آداب سے معاشرتی زندگی کے اندر حسن پیدا ہوتا ہے ‘ آپس میں محبت و مودت پیدا ہوتی ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

114. At that time the relations between the Muslims and non-Muslims were strained to the limit. It was feared, therefore, that the Muslims might feel inclined to treat the latter discourteously. They are accordingly asked to pay at least as much respect and consideration to others as is paid to them - and preferably more. Good manners and courtesy are to be matched by the Muslims. In fact, the mis... sion entrusted to the Muslims requires them to excel others in this respect. Harshness, irritability and bitterness are not becoming in a people whose main function is to preach a message and invite people to it; a people committed to guiding mankind towards righteousness. While harshness and bitterness may at best satisfy one's injured vanity, they are positively harmful to the cause that one seeks to promote.'  Show more

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :114 اس وقت مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات نہایت کشیدہ ہو رہے تھے ، اور جیسا کہ تعلقات کی کشیدگی میں ہو اکرتا ہے ، اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں مسلمان دوسرے لوگوں کے ساتھ کج خلقی سے نہ پیش آنے لگیں ۔ اس لیے انہیں ہدایت کی گئی کہ جو تمہارے ساتھ احترام کا برتاؤ کرے ا... س کے ساتھ تم بھی ویسے ہی بلکہ اس سے زیادہ احترام سے پیش آؤ ۔ شائستگی کا جواب شائستگی ہی ہے ، بلکہ تمہارا منصب یہ ہے کہ دوسروں سے بڑھ کر شائستہ بنو ۔ ایک داعی و مبلغ گروہ کے لیے ، جو دنیا کو راہ راست پر لانے اور مسلک حق کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھا ہو ، درشت مزاجی ، ترش روئی اور تلخ کلامی مناسب نہیں ہے ۔ اس سے نفس کی تسکین تو ہو جاتی ہے مگر اس مقصد کو الٹا نقصان پہنچتا ہے جس کے لیے وہ اٹھا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

52: سلام بھی چونکہ اﷲ تعالیٰ کے حضور ایک سفارش ہے، اس لئے سفارش کا حکم بیان کرنے کے ساتھ سلام کا حکم بھی بیان فرما دیا گیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ پسندیدہ بات تو یہ ہے کہ جن الفاظ میں کسی شخص نے سلام کیا ہے اس سے بہتر الفاظ میں اس کا جواب دیا جائے، مثلا اگر اس نے صرف ’’السلام علیکم‘‘ کہا ہے تو جواب ... میں ’’و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ کہا جائے، اور اگر اس نے ’’السلام علیکم ورحمۃ اﷲ‘‘ کہا ہے تو جواب میں ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ‘‘ کہا جائے، لیکن اگر بعینہٖ اسی کے الفاظ میں جواب دے دیا جائے تو یہ بھی جائز ہے، البتہ کسی مسلمان کے سلام کا بالکل جواب نہ دینا گناہ ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:86) حییتم۔ تمہیں دعا دی جائے۔ تمہیں سلام کیا جائے۔ تحیۃ سے ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ حیوا۔ تم دعا دو ۔ تم سلام کرو۔ امر کا صیغہ۔ جمع مذکر حاضر۔ حسیبا۔ حساب لینے والا۔ حساب کرنے والا۔ بروزن فعیل بمعنی فاعل۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 جہاد کا حکم دینے کے بعد فرمایا اگر کفار صلح پر راضی ہوجائیں تو تم راضی ہوجا و یا یہ جنگ میں اگر کوئی شخص سلام کہ دے تو اسے قتل نہ کرو (رازی) تحیہ کے معنی درازئی عمر کی دعا کے ہیں اور یہاں مراد سلام ہے (معالم)10 گو یا تناہی جواب دینا فرض اور اس سے بہتر جواب دینا مستحب ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ...  تحیہ کے ہر جملہ پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ پس اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبراکا تہ پر (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا) تیس نیکیاں ملیں گی (ابن کثیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ امر کے صیغہ ہے اور حسیب سے اس کا حکم ظاہر وجوب معلوم ہوتا ہے اور یہی مذہب ہے فقہاء کا۔ یہ وجوب جواب سلام کا علی الکفایہ ہے اگر جماعت میں سے ایک نے بھی جواب دے دیا تو سب کے ذمہ سے اترجائے گا نفس جواب واجب ہے باقی ویسے ہی الفاظ یا ان سے احسن یا لغوی صورتوں میں ان سے کم یہ سب اختیار میں ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قتال فی سبیل اللہ کا معنٰی ہر وقت اور ہر کسی سے لڑنا نہیں بلکہ جو بھی اسلام اور مسلمانوں کی طرف مائل ہو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا لازم ہے۔ فرمایا جو تمہیں ہدیہ دے تو تم بھی اسے اس سے بہتر یا اس جیسا تحفہ دو ۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی پر محاسب و نگہبان اور وہی معبود برحق ہے۔ جو تمہی... ں دنیا میں پیار، محبت اور توحید کی بنیاد پر اکٹھا رہنے کا حکم دیتا ہے۔ وہی قیامت کے دن تمہیں اکٹھا کرے گا۔ لوگوں کو جمع کرنے اور قیامت کے آنے میں ذرہ برابر شک نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہر فرمان سچا اور اس سے بڑھ کر کسی کی بات سچی نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا سچ سنو، اسے قبول کرو اور اس پر قائم ہوجاؤ۔ یہاں تحفہ سے مراد مفسرین نے دو قسم کے تحائف لیے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عام تحائف کے بارے میں فرمایا کہ مسلمانو ! ایک دوسرے کو تحفہ دیا کرو کیونکہ اس سے باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ [ مؤطا امام مالک : کتاب الجامع، باب ماجاء فی المھاجرۃ ] لیکن تحائف کے تبادلہ میں ایک بات نہایت ضروری ہے کہ اس میں تکلف نہیں ہونا چاہیے۔ تکلف ایک دوسرے کے لیے بوجھ کا باعث بنتا ہے جس کی وجہ سے یہ سلسلہ دیرپا نہیں چلتا۔ ایسے تحائف میں نمائش کا عنصر غالب اور بسا اوقات فخر و غرور پیدا ہوتا ہے۔ جس سے محبت کی بجائے نفرت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ مسلمان کو اعتدال کے ساتھ خرچ کرنے کا حکم اور تکلف سے منع کیا گیا ہے۔ یہاں مفسرین نے تحفہ سے مراد ایک دوسرے کو السلام علیکم کہنا بھی لیا ہے۔ ایک دوسرے کو سلام کہنے کی ابتداء حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہوئی ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ جونہی آدم (علیہ السلام) نے آنکھیں کھولیں اور اپنے وجود میں جنبش محسوس کی تو اللہ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ اے آدم وہ ملائکہ کا ایک گروہ بیٹھا ہوا ہے ‘ تم جاؤ اور انہیں سلام کرو۔ جواب میں ملائکہ جو الفاظ استعمال کریں گے وہی تیری اولاد کے لیے ملاقات کا طریقہ اور اسلوب مقرر کیا جائے گا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے جواب میں فرشتوں نے ” وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ “ کے الفاظ کہے “ [ رواہ البخاری : أحادیث الأنبیاء، باب خلق آدم وذریتہ ] اس گھڑی سے لے کر ملاقات کا یہی طریقہ پسند کیا گیا۔ اس لیے ہمیں ادھر ادھر کے الفاظ کہنے کے بجائے فطری اور طبعی طریقے کو اختیار کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس میں اس قدر جامعیت ہے کہ ایک دوسرے کے لیے ہر لحاظ سے خیر سگالی کے جذبات، خیالات اور دعائیہ کلمات کا اظہار ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی مذہب اور سوسائٹی میں ملاقات کے وقت اس قدر سلامتی کے جامع الفاظ اور جذبات نہیں ہوتے۔ دنیا میں ہر قوم کے ایک دوسرے سے ملنے کے کچھ آداب ہیں۔ جن سے باہم خیر سگالی اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسلامی تہذیب کے مقابلے میں ہر قوم کے آداب میں وقتی اور جزوی جذبات کا اظہار ہے۔ ہندو ملنے کے وقت پر نام یعنی ہاتھ جوڑ تے ہیں، انگریز گڈ مارننگ اور گڈنائٹ کے الفاظ کہتے ہیں، مجوسی صرف جھکتے ہیں، یہودی انگلیوں سے اشارہ کرتے ہیں، عیسائی منہ پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ نبوت سے پہلے عرب صباح الخیر وغیرہ کے الفاظ استعمال کرتے تھے۔ جب کہ اسلام کی تہذیب یہ ہے کہ ملاقات کے وقت ” السلام علیکم و رحمۃ اللہ “ کہا جائے۔ یہ کلمات پورے دین کے ترجمان اور ہر لمحہ سلامتی کی دعا ہے اور جنتی جنت میں ایک دوسرے سے انہی کلمات کے ساتھ ملاقات کریں گے اور جنت میں ہر جانب سے سلامتی کی صدائیں بلند ہوں گی۔ [ یونس : ١٠] اس حقیقت کی ترجمانی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ سے اور زیادہ نمایاں ہوتی ہے کہ جب ایک مسلمان دوسرے سے ملاقات کرے تو اس کے چہرے پر تبسم اور مسکراہٹ ہونی چاہیے اور اس کو انسانی جسم کی سخاوت قرار دیا : (أَنْ تَلْقَ أَخَاکَ بِوَجْہٍ طَلْقٍ ) [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلہ، باب استحباب طلاقۃ الوجہ عند اللقاء ] ” کسی کو خوش روئی سے ملنا بھی نیکی ہے۔ “ مسلمانوں میں باہمی الفت و عقیدت، احترام و اکرام کو فروغ دینے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ ملانے یعنی مصافحہ کرنے کی فضیلت کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا : (إِذَا الْتَقَی الْمُسْلِمَانِ فَتَصَافَحَا وَحَمِدَا اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَاسْتَغْفَرَاہُ غُفِرَلَھُمَا) [ رواہ ابو داوٗد : کتاب الأدب ] ” جب دو مسلمانوں کی باہم ملاقات ہو اور وہ مصافحہ کریں اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اپنے لیے مغفرت طلب کریں تو ان دونوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ “ کچھ مدّت کے بعد ملنے پر بغل گیر ہونا اسلامی معاشرت کا حصہ قرار دیا ہے۔ حضرت ابوذر غفاری (رض) اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اپنے ہاں آنے کا پیغام بھیجا میں گھر میں موجود نہیں تھا۔ بعد ازاں میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا (وَھُوَ عَلٰی سَرِیْرِہٖ فَالْتَزَمَنِیْ فَکَانَتْ تِلْکَ أَجْوَدَ وَأَجْوَدَ ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی چار پائی پر بیٹھے میرے ساتھ بغلگیر ہوئے۔ آپ کا ملنا بہت ہی اچھا تھا۔ [ رواہ ابو داوٗد : کتاب الأدب، باب فی المعانقۃ ] پھر ملاقات کے آداب میں مسلم معاشرے کو رعونت و غرور اور اخلاقی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ اصول لاگو فرمایا کہ سوار پیدل کو اور چلنے والا بیٹھنے والے کو سلام کرے۔ اگر یہی اصول ٹھہرایا جاتا کہ ہر حال میں چھوٹا بڑے کو ‘ کمزور طاقتور کو اور محکوم حاکم کو سلام کرے تو مسلم سوسائٹی واضح طور پر طبقاتی کشمکش کا شکار ہوجاتی۔ آپ کا ارشاد ہے۔ (یُسَلِّمُ الرَّاکِبُ عَلَی الْمَاشِیْ وَالْمَاشِیْ عَلَی الْقَاعِدِ وَالْقَلِیْلُُ عَلَی الْکَثِیْرِ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الإستئذان، باب ماجاء فی تسلیم الراکب علی الماشی ] ” سوار پیدل کو اور چلنے والا بیٹھنے والے کو، تھوڑے زیادہ کو دوسری حدیث میں ہے کہ چھوٹا بڑے کو اسی طرح آنے والا پہلے سے موجود کو السلام علیکم کہے۔ “ ہاں اگر ملنے والے ایک جیسی حالت میں ہوں تو احترام کی طبعی اور بین الاقوامی قدروں کا بھی خیال رکھا گیا کہ چھوٹا بڑے کو سلام کرے تاکہ مسلم معاشرہ ادب و احترام کے ثمرات سے لطف اندوز ہو سکے۔ اونچ نیچ کے مرض کے تدارک کے لیے یہ اصول بھی وضع فرمایا کہ کوئی سر جھکا کر نہ ملے اس سے بندگی کا انداز ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد عالی ہے : (لَوْکُنْتُ اٰمِرًا أَحَدًا أَنْ یَّسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَآءَ أَنْ یَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِھِنَّ ) [ رواہ ابو داوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق الزوج علی المرأۃ ] ” اگر میں نے کسی کو یہ حکم دینا ہوتا کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے سر جھکائے تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کے سامنے سجدہ کیا کریں۔ “ مسائل ١۔ تحفہ کے بدلے میں بہتر تحفہ دینا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ قیامت کے دن سب کو اکٹھاکرے گا۔ ٣۔ قیامت برپا ہو کر رہے گی۔ ٤۔ اللہ کے فرمان سے کسی کی بات سچی نہیں ہوسکتی۔ تفسیر بالقرآن تحائف کا تبادلہ کرتے رہیں : ١۔ احسان کا بدلہ احسان۔ (الرحمان : ٦٠) ٢۔ احسان کا بہتر بدلہ دینا چاہیے۔ (النساء : ٨٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٨٦۔ اسلام نے اپنا ایک خاص سلام اسلامی معاشرے کو دیا ۔ جس سے ایک مسلمان اور مسلمان معاشرہ غیر مسلم اور غیر مسلم معاشروں سے ممتاز ہوگیا ۔ یہ سلام کو بالکل منفرد اور متمیز بنا دیتا ہے ‘ وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں ممتاز صفات کا مالک بن جاتا ہے اور وہ اس کی وجہ سے دوسرے معاشروں میں مدغم ا... ور گھل مل نہیں جاتا ‘ نہ کان نمک میں نمک بن جاتا ہے ۔ اسلام نے تین الفاظ دیئے ہیں۔ السلام علیکم ‘ السلام علیکم ورحمتۃ اللہ اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ‘ اور جواب سلام یا تو ویسا ہوگا یا اس سے زیادہ ہوگا ماسوائے تیسرے لفظ کے ۔ مثلا السلام علیکم ‘ کا جواب یا تو وعلیکم السلام ہے یا اس سے بہتر وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ۔ دوسرے لفظ پر وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہوگا ۔ اور تیسرے کا جواب ویسا ہی ہوگا ۔ اس لئے کہ اس میں الفاظ پورے استعمال ہوگئے۔ اس لئے تیسرے کا جواب ویسا ہی ہوگا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی ہی روایت ہے ۔ اس میں ایک تو وہ انفرادیت ہے ‘ جو اسلامی معاشرے کا خاص رنگ ہے ۔ اسلام چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والوں کے خاص خدوخال ہوں ‘ ان کی خاص عادات ہوں ‘ جس طرح اسلام نے ایک مخصوص قانونی تنظیمی نظام دیا ہے ۔ اس موضوع پر ہم تحویل قبلہ کے موقعے پر بات کر آئے ہیں کہ اسلام نے اس امت کو جس طرح ایک نظریہ حیات دیا ہے ‘ اسی طرح اسے ایک مخصوص قبلہ بھی دیا ہے ۔ (دیکھئے سورت بقرہ پارہ دوئم) دوسری یہ کہ اسلام نے امت مسلمہ کے افراد کے اندر نہایت پختہ محبت اور بھائی چارہ پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ مثلا سلام کا عام کرنا ‘ اور سلام کا جواب سلام سے زیادہ اچھا ہو اور دوسرے تعلقات جن کی وجہ سے اسلامی سوسائٹی کے اندر نہایت ہی پختہ روابط اخوت ومودت پیدا ہوئے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل اچھا ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا ” یہ کہ تم کھانا کھلاؤ اور چاہے جاننے والا ہو یا نہ جاننے والا ہو ‘ اسے سلام کرو۔ “ یہ تو حکم ہے کہ جماعت مسلمہ کے اندر سلام کرو ‘ اور یہ سنت ہے ‘ رہا سلام کا جواب تو وہ اس آیت کی رو سے فرض ہے ۔ اسلامی معاشرے میں سلام کرنے کی عادت کے اثرات کا اندازہ عملا اس وقت ہوتا ہے جب سلام کے ذریعے غیر متعارف لوگ باہم متعارف ہو کر ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور جو لوگ ایک دوسرے کو علیک سلیک کرتے رہتے ہیں ان کے باہم روابط قائم ہوجاتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جو ہر اس شخص پر ظاہر ہوجاتی ہے جو اس عادت کے آثار کا مطالعہ کرتا ہے اور اس کے نتائج پر غور کرتا ہے ۔ تیسرے یہ کہ آیات قتال کے درمیان میں باہم دوستانہ تعلقات کے لئے یہ آیت بادنسیم ہے اور اس میں اسلام کے اصل الاصول کی طرف اشارہ کردیا گیا کہ اسلام کا اصل الاصول یہ ہے کہ ملک کے اندر امن وامان قائم ہو ‘ اس لئے کہ اسلام دین امن ہے ۔ اسلام کی جنگ بھی دراصل امن کے لئے ہے یعنی کرہ ارض پرامن قائم کرنا اور یہ امن وسیع معنوں میں مطلوب ہے ۔ ایسا امن جو اسلامی نظام حیات پر مبنی ہو ۔ درس نمبر ٣٧ ایک نظر میں : اس سبق میں اسلامی تصورحیات کے ایک نبی ادی اصول کا تذکرہ کیا گیا ہے یعنی عقیدہ توحید اور اللہ تعالیٰ کو اس کی حاکمیت میں وحدہ لاشریک سمجھنا ۔ پھر اس اصول کے مطابق اسلامی سوسائٹی اور اسلامی معاشرے کے تعلقات دوسرے کیمپوں کے ساتھ متعین کئے گئے ہیں لیکن دوسرے معاشروں کے ساتھ اسلامی معاشرے کے تعلق کی نوعیت کے تعین سے بھی پہلے اس سبق میں خود مسلمانوں پر سخت تنقید کی گئی ہے کہ وہ منافقین کے بارے میں دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ گروہ منافقین مدینہ میں رہنے والے منافقین سے کوئی علیحدہ گروہ تھا ۔ یہ احکام اسلام کے اصل الاصول پر قائم ہیں اور یہ تنقید بھی اسی اصول کے مطابق ہے جس پر اسلامی تصور حیات اور اسلامی نظام قائم ہے ۔ اس اصول کا ذکر ہر وقت ہوتا رہتا ہے جب بھی اسلامی نظام کوئی ہدایت دیتا ہے یا کوئی قانون سازی کی جاتی ہے ۔ یہ احکام مختلف کیمپوں کے بارے میں ہیں اور یہ احکام ان اصول وقوانین کا حصہ ہیں جسے انسانی تاریخ میں سب سے پہلے اسلام نے متعارف کرایا ۔ ان قوانین کا تعلق قانون بین الاقوام سے ہے ۔ اسلام نے سب سے پہلے بین الاقوامی معاملات میں تلوار کے فیصلے سے ہٹ کر کچھ قواعد بنائے قوت کی دلیل اور جنگل کے قانون پر مشتمل بین الاقوامی رولز میں اسلام نے سب سے پہلے مہذب ضابطے پیش کئے ۔ یورپ کے اندر قانون بین الاقوام کا آغاز صرف ستروہویں صدی عیسوی (مطابق گیارھویں صدی ہجری) میں ہوا لیکن یہ قانون ماسوائے کاغذ اور سیاہی کے اور کچھ حیثیت نہ رکھتا تھا اور جو بین الاقوامی ادارے تشکیل دیئے گئے تھے وہ محض بین الاقوامی استعماری قوتوں کے خفیہ مقاصد کو قانونی مشکل دینے کے آلہ کار تھے ۔ نیز یہ ادارے سرد جنگ کے لئے میدان کارزار تھے۔ ان کا یہ مقصد ہر گز نہ تھا کہ حق حقدار تک پہنچے ۔ نہ یہ ادارے صحیح معنوں میں انصاف کرتے تھے ۔ یہ ادارے وجود میں محض اس لئے لائے گئے تھے کہ اس دنیا میں بعض بڑے اور طاقت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ہم پلہ ممالک کے درمیان کچھ جھگڑے اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور جونہی ان ممالک کے مابین طاقت کا توازن ختم ہوا تو نہ ان بین الاقوامی قوانین کی کوئی حیثیت رہی اور نہ ہی ان بین الاقوامی اداروں کی کوئی قیمت رہی ۔ جب اسلام آیا ‘ جو انسانوں کے لئے رب ذوالجلال کا نظام زندگی ہے تو اس نے ساتویں صدی عیسوی میں بین الاقوامی معاملات کے اندر قانون سازی کی یعنی پہلی صدی ہجری میں ، یہ قانون اسلام نے از خود وضع کیا اور اس قانون کے بنانے کے لئے کی ہم پلہ حکومت کی طرف سے کوئی دباؤ نہ تھا ۔ یہ قانون اسلام نے از خود بنایا اور از خود اس پر عمل کیا تاکہ اسلامی معاشرہ اس کی بنیاد پر دوسرے کیمپوں کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرے ‘ انسانیت کے لئے انصاف کے جھنڈے بلند کرے اور اس کے لئے نشانات راہ متعین کرے ۔ اگرچہ اس دور کے جاہلی دشمن کیمپ مسلمانوں کے ساتھ ان اسلامی بین الاقوامی قوانین کو سامنے رکھتے ہوئے معاملہ نہ کرتے تھے اس لئے کہ یہ اصول اور قوانین اسلام نے پہلی مرتبہ متعارف کرائے تھے ۔ یہ بین القوامی قرآن کریم کی مختلف سورتوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کو یکجا کیا جائے تو بین الاقوامی قانون کا ایک مکمل ضابطہ سامنے آتا ہے ۔ اس کے اندر ان تمام حالات کا حل موجود ہے جو کسی بھی وقت اسلامی مملکت اور دوسرے ممالک کو پیش آسکتے تھے ۔ چاہے یہ ممالک برسرجنگ اور محارب ہوں ‘ پرامن ہوں ‘ مخالف ہوں ‘ غیر جانبدار ہوں ‘ محارب کے حلیف ہوں ‘ پرامن معاہد کے حلیف یا مخالف اور غیر جانبدار کے حلیف ہوں۔ یہاں ان اصولوں اور احکام کی تفصیلات کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس قسم کی تفصیلی بحث توبین الاقوامی قوانین کے ماہرین کا کام ہے ۔ البتہ ان آیات کے اندر جو اصول آئے ہیں ہم ان کا خلاصہ پیش کرتے ہیں ۔ اس سبق میں درج ذیل لوگوں کے ساتھ معاملہ کیا گیا ہے ۔ (الف) وہ منافقین جو مدینہ میں مقیم نہ تھے ۔ (ب) وہ لوگ جو ایسی قوم سے متعلق ہیں ‘ جس کے اور مسلمانوں کے درمیان کوئی میثاق ہے ۔ (ج) وہ غیر جانبدار لوگ جو مسلمانوں کے ساھ ملکر لڑنا بھی پسند نہیں کرتے اور خود اپنی قوم کے ساتھ مل کر بھی لڑنا پسند نہیں کرتے لیکن وہ ہیں اپنے سابق دین پر ۔ (د) وہ لوگ جو اسلامی نظریہ حیات کے ساتھ کھیلتے ہیں ۔ جب مدینہ آتے ہیں تو اپنے اسلام کا اظہار کرتے ہیں اور جب مکہ کو جاتے ہیں تو کفر کا اعلان کرتے ہیں ۔ (ہ) مسلمانوں کے اندر قتل خطا اور مختلف لوگوں یعنی مختلف شہریت کے مالک لوگوں کے مابین قتل عمد کے واقعات میں ضابطہ ۔ ان تمام حالات میں ہمیں واضح احکام ملتے ہیں جو اپنے موضوع پر بالکل صریح ہیں ۔ اور تمام حالات پر ان کا انطباق ہوتا ہے ۔ اور یہ اصول بین الاقوامی معاملات کی ضابطہ بندی کا ایک حصہ ہیں اور ان کا حکم وہی ہے جو اس موضوع پر دوسرے احکام بین الاقوام کا ہے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سلام اور جواب سلام کے احکام و مسائل لفظ حُیِّیْتُمْ باب تفعیل سے بروزن سُمِّیْتُمْ صیغہ جمع مذکر ہے اور فَحَیُّوْا اسی سے امر کا صیغہ ہے۔ اس کا مصدر تَحِیَّۃٌ ہے اس کا اصل معنی ہے حیاک اللّٰہ کہنا یعنی یہ دعا دینا کہ اللہ تجھے زندہ رکھے۔ یہ تو اس کا اصل لغوی معنی ہوا۔ پھر لفظ تحیۃ ملاقات کے وقت سلا... م کرنے کے لیے استعمال ہونے لگا کیونکہ سلام میں زندگی کے ساتھ سلامتی کی بھی دعا ہے۔ سورة نور میں ارشاد فرمایا (فَاِِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰی اَنفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً ) پھر جب تم گھر جانے لگو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو دعا کے طور پر جو خدا کی طرف سے مقرر ہے برکت والی عمدہ چیز ہے۔ اس لیے بعض اکابر نے اِذَا حُیِّیْتُمْ کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ جب تمہیں سلام کیا جائے۔ سلام کی ابتداء : حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور ان کے اندر روح پھونک دی تو ان کو چھینک آئی انہوں نے الحمدللہ کہا ان کے رب نے یَرْحَمُکَ اللّٰہُ فرمایا (اور فرمایا) کہ اے آدم ! ان فرشتوں کی طرف جاؤ جو (وہاں) بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کو جاکر السلام علیکم کہو، حضرت آدم (علیہ السلام) نے وہاں پہنچ کر السلام علیکم کہا تو فرشتوں نے اس کے جواب میں علیک السلام ورحمۃ اللہ کہا پھر وہ واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بلاشبہ یہ تحیہ ہے تمہارا اور آپس میں تمہارے بیٹوں گا۔ (رواہ الترمذی کمافی المشکوٰۃ صفحہ ٤٠٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسانوں میں سلام کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے سب انسانوں کے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ فرشتوں کو جا کر سلام کہو، انہوں نے السلام علیکم کہا فرشتوں نے اس کا جواب دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سلام تمہارا اور تمہاری اولاد کا تحیہ ہے کہ جب آپس میں ملاقات کریں تو اس طرح ایک دوسرے کو دعا دیا کریں، اللہ تعالیٰ کا دین اسلام ہے۔ اس میں دنیا و آخرت کی سلامتی ہے جب آپس میں ملاقات کریں تو ملاقات کرنے والا بھی سلامتی کی دعا دے یعنی السلام علیکم کہے اور جس کو سلام کیا وہ بھی اس کے جواب میں سلامتی کی دعا دے اور وعلیکم السلام کہے۔ دونوں طرف سے لفظ سلام کے ذریعہ ہر وقت باسلامت رہنے کی دعا دی جائے یہ سلامتی کسی وقت اور کسی حال کے ساتھ مخصوص نہیں۔ ان کلمات کا تذکرہ جو غیر اقوام کے یہاں ملاقات کے وقت استعمال کیے جاتے ہیں : یہ جو بعض قوموں میں گڈ مورننگ اور گڈ ایوننگ اور گڈ نائٹ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ان میں اول تو سلامتی کے معنی کو پوری طرح ادا کرنے والا کوئی لفظ نہیں ہے بلکہ ان میں انسانوں کے بارے میں کوئی دعا ہے ہی نہیں وقت کو اچھا بتایا جاتا ہے پھر اس سے بطور استعارہ انسانوں کو اچھی حالت میں مراد لی جاتی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ان میں الفاظ میں دائمی سلامتی کی دعا نہیں ہے بلکہ اوقات مخصوصہ کے ساتھ دعا مقید ہے۔ اسلام نے جو ملاقات کا تحیہ بتایا ہے وہ ہر لحاظ سے کامل اور جامع ہے۔ حضرت عمران بن حصین (رض) نے بیان فرمایا کہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں (ملاقات کے وقت) یوں کہا کرتے تھے انعم اللّٰہ بِک عِیْناً (اللہ تیری آنکھیں ٹھنڈی رکھے) اور اَنْعَمْ صَبَاحاً (تو صبح کے وقت میں اچھے حال میں رہے) اس کے بعد جب اسلام آیا تو ہمیں اس سے منع کردیا گیا۔ (رواہ ابوداؤد) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام کے بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ ملاقات کے وقت دوسروں کے طریقے اختیار کرنا اور ان کے رواج کے مطابق کلمات منہ سے نکالنا ممنوع ہے جو لوگ انگریزوں کے طریقے پر گڈ مورننگ وغیرہ کہتے ہیں یا عربوں کے رواج کے مطابق صباح الخیر یا مساء الخیر کہتے ہیں اس سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ دنیا کی مختلف اقوام میں ملاقات کے وقت مختلف الفاظ کہنے کا رواج ہے لیکن اسلام میں جو سلام کے الفاظ مشروع کیے گئے ہیں ان سے بڑھ کر کسی کے یہاں بھی کوئی ایسا کلمہ مروج نہیں جس میں اظہار محبت بھی ہو اور اللہ تعالیٰ سے دعا بھی ہو کہ آپ کو اللہ تعالیٰ ہر قسم کی اور ہر طرح کی آفات اور مصائب سے محفوظ رکھے۔ لفظ السلام جہاں اپنا مصدری معنی رکھتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے بھی ہے۔ شراح حدیث نے فرمایا ہے اس کا ایک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو سلامتی دینے والا ہے تمہیں اس کے حفظ وامان میں دیتا ہوں وہ تمہیں ہمیشہ سلامت رکھے۔ سلام کی کثرت محبوب ہے : اسلام میں سلام کی کثرت بہت زیادہ مرغوب اور محبوب ہے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ جب تک تم مومن نہ ہوگے جنت میں داخل نہ ہوگے اور مومن نہ ہوگے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو گے (پھر فرمایا) کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتادوں کہ اس پر عمل کرو گے تو آپس میں محبت پیدا ہوگی ؟ پھر فرمایا آپس میں خوب سلام کو پھیلاؤ (رواہ مسلم صفحہ ٥٤: ج ١) یہ سلام کا پھیلانا اور ایک دوسرے کو سلام کرنا ایمان کی بنیاد پر ہے جان پہچان کی بنیاد پر نہیں۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق ہیں ان کو بیان فرماتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا اذا لَقِیْتَہٗ فَسَلِّمْ عَلَیْہٖ کہ جب تو مسلمان سے ملاقات کرے اس کو سلام کر۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ١٣٣) پھر جس طرح سلام کرنا حقوق مسلم میں سے ہے اسی طرح سلام کا جواب دینا بھی مسلم کے حقوق میں سے ہے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں (١) سلام کا جواب دینا (٢) مریض کی عیادت کرنا (٣) جنازوں کے ساتھ جانا (٤) دعوت قبول کرنا (٥) چھینکنے والے کا جواب دینا (یعنی جب وہ الحمدللہ کہے تو اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا) ۔ (رواہ مسلم صفحہ ٢١٣: ج ٢) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ اسلام کے اعمال میں سب سے بہتر کون سا عمل ہے آپ نے فرمایا یہ کہ کھانا کھلایا کرے اور اس کو بھی سلام کرے جس سے جان پہچان ہے اور اس کو بھی سلام کرے جس سے جان پہچان نہیں ہے۔ (صحیح بخاری صفحہ ٦: ج ١) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی شخص اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو سلام کرے اس کے بعد اگر درمیان میں کوئی درخت یا دیوار یا پتھر کی آڑ ہوجائے اور پھر ملاقات ہوجائے تو پھر سلام کرے۔ (رواہ ابوداؤد) راستہ کے حقوق : گھروں سے باہر اگر راستوں میں بیٹھیں تو راستے کے حقوق ادا کریں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ راستوں میں نہ بیٹھو اور اگر تمہیں راستوں میں بیٹھنا ہی ہے تو راستے کا حق ادا کرو عرض کیا یا رسول اللہ راستہ کا حق کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا کہ نظریں نیچی رکھنا (تاکہ کسی ایسی جگہ نہ پڑے جہاں نظر ڈالنا جائز نہیں) اور تکلیف دینے سے بچنا، اور سلام کا جواب دینا، اور بھلی بات کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا۔ (رواہ مسلم صفحہ ٢١٣: ج ٢) کسی مجلس یا کسی گھر میں جائیں تو سلام کریں : حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب تم کسی مجلس میں پہنچو تو سلام کرو اور اگر موقعہ مناسب جانو تو بیٹھ جاؤ، پھر جب (روانہ ہونے کے لیے) کھڑے ہو تو دوبارہ سلام کرو چونکہ جس طرح پہلی مرتبہ سلام کرنے کی اہمیت تھی دوسری مرتبہ سلام کرنا اہم ہے۔ (ترمذی و ابوداؤد) حضرت قتادہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب تم کسی گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کرو اور جب وہاں سے چلنے لگو تو انہیں سلام کے ساتھ رخصت کرو۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان مرسلاً کمافی المشکوٰۃ صفحہ ٣٩٩) اپنے گھر والوں کو سلام : حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے بٹوا ! جب تو اپنے گھر والوں کے پاس جائے تو سلام کر، یہ چیز تیرے لیے اور تیرے گھر والوں کے لیے برکت کا ذریعہ بنے گی۔ (رواہ الترمذی) ابتداء بالسلام کی فضیلت : سلام ابتداءً خود کرنے کی کوشش کی جائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا البادی بالسلام بری من الکبر یعنی جو شخص خود سے ابتداءً سلام کرے وہ تکبر سے بری ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٠٠) حضرت ابو امامہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ لوگوں میں اللہ سے قریب تر وہ شخص ہے جو ابتداء خود سلام کرے۔ (رواہ ابوداؤد صفحہ ٣٥٠: ج ٢) ان روایات سے معلوم ہوا کہ اسلام میں کثرت سلام محبوب اور مرغوب ہے اور سلام اور سلام کا جواب دینا مسلم کے حقوق میں سے ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کسی کے گھر جائے تو گھر والوں کو سلام کرے اور جب وہاں سے چلنے لگے تب بھی سلام کرے، کسی مجلس میں پہنچے تو اس وقت سلام کرے، چلنے لگے تب بھی سلام کرے، اپنے گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کرے۔ آیت بالا میں ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص تمہیں سلام کرے تو تم اس کے سلام کا اس سے اچھا جواب دو یا (کم از کم) جواب میں اسی قدر الفاظ کہہ دو جتنے الفاظ سلام کرنے والے نے کہے ہیں۔ اگر کسی نے السلام علیکم کہا ہے تو اس کے جواب میں کم از کم وعلیکم السلام کہہ دیا جائے تاکہ واجب ادا ہوجائے اور بہتر یہ ہے کہ اس کے الفاظ پر اضافہ کردیا جائے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے جب فرشتوں کو خطاب کر کے السلام علیکم فرمایا تو انہوں نے جواب میں ورحمۃ اللہ کا اضافہ کردیا تھا۔ اگر سلام کرنے والا ورحمۃ اللہ بھی کہہ دے تو جواب دینے والا وبرکاتہ کا اضافہ کر دے۔ حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے کہا السلام علیکم آپ نے اس کا جواب دے دیا پھر وہ بیٹھ گیا آپ نے فرمایا اس کو دس نیکیاں ملیں، پھر دوسرا شخص آیا اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ آپ نے اس کا جواب دے دیا وہ بیٹھ گیا آپ نے فرمایا اس کو بیس نیکیاں ملیں ایک تیسرا آیا اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ نے اس کا جواب دے دیا وہ بیٹھ گیا آپ نے فرمایا اس کو تیس نیکیاں ملیں ایک اور شخص آیا اور اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ و مغفرتہٗ آپ نے فرمایا اس کو چالیس نیکیاں ملیں اور یہ بھی فرمایا کہ اسی طرح فضائل بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ حدیث سنن ابو داؤد میں ہے نیز سنن ترمذی میں بھی ہے لیکن اس میں مغفرتہ کا ذکر نہیں ہے۔ امام ترمذی نے اس کو حدیث حسن بتایا ہے پھر فرمایا ہے وفی الباب عن ابی سعید و علی وسہل بن حنیف (رض) ۔ اور مفسرابن کثیر نے (صفحہ ٥٣١: ج ١) بحوالہ ابن جریر ایک روایت یوں نقل کی ہے کہ جب ایک شخص نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وعلیک اور فرمایا کہ تو نے ہمارے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔ لہٰذا ہم نے اسی قدر واپس کردیا جتنا تم نے کہا۔ اس کے بعد مفسرابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ وبرکاتہ سے آگے سلام میں اضافہ نہیں ہے۔ مفسر قرطبی نے صفحہ ٢٩٩: ج ٥ بھی یہی لکھا ہے کہ فان قال سلام علیک ورحمۃ اللہ زدت فی ردک وبرکاتہ وھذا ھو النھایۃ فلامزید مطلب یہ ہے برکاتہ سے آگے اضافہ نہیں ہے۔ صاحب درمختار نے کتاب الحظر والا باحہ میں لکھا ہے ولا یزید الراد علی وبرکاتہ یعنی جواب میں وبرکاتہ سے زیادہ نہ کہا جائے۔ سنن ابوداؤد میں جو سلام کرنے والے کی طرف سے ومغفرتہ کا اضافہ ہے اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ وبرکاتہ سے آگے بھی اضافہ درست ہے لیکن جس روایت ومغفرتہ کا اضافہ آیا ہے سند کے اعتبار سے ضعیف ہے اسی لیے فقہاء نے اس کو نہیں لیا۔ حضرت ابن عباس (رض) کے عمل سے بھی حضرات فقہاء کی تائید ہوتی ہے۔ مؤطا امام مالک میں ہے کہ یمن کے ایک شخص نے ان کو سلام کیا اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تک کہنے کے بعد کچھ اور اضافہ کردیا تو حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ان السلام انتھی الی البر کا تہ (یعنی سلام برکت تک ختم ہوگیا) امام محمد (رح) نے بھی اپنے مؤطا میں حضرت ابن عباس والی روایت کو لکھا ہے پھر فرمایا ہے وبھذا ناخذ اذا قال وبرکاتہ فلیکفف فان اتباع السنۃ افضل (یعنی ہم بھی اس کو اختیار کرتے ہیں کہ جب وہ برکاتہ کہہ دے تو ختم کر دے۔ کیونکہ سنت کا اتباع افضل ہے) ۔ حافظ ابن حجر (رض) نے فتح الباری میں ایسی احادیث جمع کی ہیں جن سے وبرکاتہ پر اضافہ ثابت ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ احادیث ضعیف ہیں لیکن سب کے مجموعے سے ایک طرح کی قوت حاصل ہوتی ہے۔ حافظ کی بات سے اس طرف اشارہ نکلتا ہے کہ وبرکاتہ پر اضافہ کرنا اگر مسنون نہیں تو بہر حال جائز تو ہے ہی واللہ تعالیٰ اعلم۔ چند مسائل مسئلہ : سلام کرنا سنت ہے اور سلام کا جواب دینا واجب ہے اور یہ ان چند چیزوں میں سے ہے جن میں سنت کا ثواب واجب سے بڑھا ہوا ہے۔ مسئلہ : جب کسی کے گھر جاناہو تو پہلے سلام کرے پھر اندر آنے کی اجازت مانگے۔ جس کے الفاظ حدیث شریف میں یوں آئے ہیں۔ السلام علیکم أاَدْخَلُ (تم پر سلام ہو کیا میں داخل ہوجاؤں) تین مرتبہ سلام کرے اور اجازت طلب کرے اجازت نہ ملے تو واپس ہوجائے۔ بغیر اجازت نہ کسی کے گھر میں داخل ہو نہ اندر نظر ڈالے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے لاتاذنو المن لم یبداء بالسلام (کہ اسے اندر آنے کی اجازت نہ دو جو شروع میں سلام نہ کرے یعنی سلام کر کے اجازت نہ مانگے) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٠٠۔ ٤٠١) مسئلہ : جب کوئی شخص کسی کے ذریعے سلام بھیجے تو سلام کے جواب میں سلام لانے والے کو بھی شریک کرے مثلاً یوں کہ (عَلَیْکَ وَ عَلَیْہِ السَّلَامْ ) ایک صحابی نے اپنے لڑکے کے ذریعے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت سلام بھیجا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا علیک وعلی ابیک السلام (تجھ پر اور تیرے باپ پر سلام) ۔ (رواہ ابو داؤد صفحہ ٣٥٤) مسئلہ : جب دو آدمیوں میں رنجش ہو قطع تعلق ہو اور سلام کلام بند ہو تو دونوں کو چاہیے کہ جلد سے جلد رنجش دور کریں تین دن سے زیادہ سلام کلام بند رکھنا حرام ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ انسان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے۔ ملاقات کر رہے ہیں تو یہ ادھر کو اعراض کر رہا ہے اور وہ دوسری طرف اعراض کر رہا ہے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ (رواہ البخاری صفحہ ٨٩٧: ج ٢) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ کسی مومن کے لیے حلال نہیں کسی مومن سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے جب تین دن گزر جائیں تو ملاقات کرے اور سلام کرے جس کو سلام کیا تھا اگر اس نے سلام کا جواب دے دیا تو دونوں ثواب میں شریک ہوگئے اور اگر اس نے جواب نہ دیا تو وہ گنہگار ہوا اور سلام کرنے والا قطع تعلق کے گناہ سے نکل گیا۔ (رواہ ابو داؤد صفحہ ١٧: ج ٢) تین دن تک قطع تعلق کی اجازت یہ آخری حد ہے اس سے پہلے ہی تعلق صحیح کرنے کی کوشش کرلیں اور نفس کو آمادہ کرلیں چونکہ نفس متکبر ہوتا ہے اور جھکنا نہیں چاہتا اس لیے جو شخص سلام میں پہل کرے اس کی فضیلت زیادہ ہے۔ صحیح بخاری میں ہے وخیر ھما الذی یبداء بالسلام یعنی ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ (کمافی حدیث ابی ایوب) مسئلہ : جو شخص سواری پر جا رہا ہو وہ پیدل چلنے والے کو سلام کرے اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے اور تھوڑی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ (صحیح بخاری صفحہ ٩٢: ج ٢) مسئلہ : اگر بیٹھی ہوئی جماعت کو کسی نے سلام کیا تو ایک شخص کا جواب دے دینا کافی ہے اور گزرنے والوں میں سے اگر ایک شخص سلام کرے تو یہ بھی سب کی طرف سے کافی ہے۔ (سنن ابو داؤد صفحہ ٣٥٢: ج ٢) مسئلہ : نماز پڑھنے میں اگر کسی کو زبان سے سلام کرے یا کسی کا زبان سے جواب دے اگرچہ بھول کر ہو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ اور اگر نماز میں ہاتھ سے سلام کیا یا ہاتھ سے سلام کا جواب دیا تو یہ مکروہ ہے۔ مسئلہ : نماز پڑھنے والے اور تلاوت کرنے والے اور ذکر الٰہی میں مشغول ہونے والے اور حدیث بیان کرنے والے اور خطبہ دینے والے اور خطبہ سننے والے اور علم دین پڑھنے پڑھانے میں جو شخص مشغول ہو اور جو شخص تلبیہ پڑھ رہا ہو اسی طرح جو قاضی قضا کے کام میں مشغول ہو ان سب کو سلام کرنا مکروہ ہے۔ اسی طرح اذان دینے والے اور اقامت کہنے والے کو سلام کرنا مکروہ ہے۔ ان لوگوں کو کوئی شخص سلام کرے تو جواب دینا واجب نہیں۔ مسئلہ : جو لوگ شطرنج کھیل رہے ہوں یا اور کسی گناہ میں مشغول ہوں ان کو بھی سلام نہ کیا جائے جو شخص قضائے حاجات کے لیے بیٹھا ہو اس کو بھی سلام نہ کیا جائے۔ مسئلہ : کافر کو سلام نہ کیا جائے۔ مسئلہ : جوان عورتیں جو اجنبی ہیں یعنی محرم نہیں ہیں ان کو سلام کرنا بھی مکروہ ہے۔ مسئلہ : سونے والے کو اور جو شخص نشہ پئے ہوئے ہے ان کو بھی سلام نہ کیا جائے۔ مسئلہ : گانے بجانے والے اور کبوتر اڑانے والے کو سلام کرنا مکروہ ہے۔ مسئلہ : فاسق معلن جو علانیہ گناہ کرتا ہو کو بھی سلام کرنا ممنوع ہے۔ (یہ مسائل در المختار اور رد المحتار صفحہ ٤١٤۔ ٤١٥: ج ١ میں مذکور ہیں) اس کے بعد فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا) (بےشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے) ہر شخص کو اس کا استحضار رہنا چاہیے تاکہ ادائیگی حقوق میں کوتاہی نہ کرے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد (جس میں سلام کا جواب بھی داخل ہے) سب کی ادائیگی کرتا رہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور جب تم کو کوئی دعا دے یعنی سلام علیکم کرے تو تم اس کے سلام سے اچھے اور بہتر الفاظ میں اس کو سلام کرو یعنی اس کے سلام کا جواب دو یا کم از کم ویسے ہی الفاظ کہہ دو اور انہی الفاظ میں اس کو جواب دے دے جو پہلے شخص نے کہے تھے، یقین جانو ! اللہ تعالیٰ ہر چیز پر محاسب اور ہر بات کا حساب لینے والا ہے۔...  (تیسیر) تحیۃ اصل میں زندگی کی دعا دینے کو کہتے ہیں اہل عرب جب آپ میں ملتے تھے تو ایک دوسرے کو حیاک اللہ کہتا تھا پھر تحیتہ مطلقاً دعا میں استعمال ہونے لگا۔ یہاں اس کے معنی ملاقات کے وقت سلام علیکم کرنے کے ہیں۔ آسمانی تہذیب میں ہمیشہ ملاقات کا تحیتہ سلام رہا ہے جو قومیں آسمانی تہذیب سے محروم ہیں ان کے ہاں مختلف طریقے ہیں کفار عرب کا طریقہ ہم نے عرض کردیا۔ نصاریٰ کا سلام منہ پر ہاتھ رکھ لینا تھا یہود کا سلام انگلی اٹھا لینا تھا مجوسیوں کا سلام ذرا جھک جانا تھا لیکن اسلام نے پھر آسمانی تہذیب کو زندہ کیا اور فرمایا۔ فسلموا علی انفسکم تحیۃ من عند اللہ اس کہنے کی ضرورت نہیں کہ السلام علیکم یعنی سلامتی کی دعا کفار عرب کے حیاک اللہ سے بہت جامع ہے کیونکہ یہ دین و دنیا کی سلامتی کو شامل ہے ۔ حدیث میں سلمان فارسی سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں آیا اس نے کہا السلام علیک یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وعلیک السلام و رحمۃ اللہ پھر دوسرا شخص آیا اس نے کہا السلام علیک یا رسول اللہ و رحمتہ اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا وعلیک السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ پھر ایک تیسرا شخص آیا اس نے کہا السلام علیک یا رسول اللہ و رحمۃ اللہ وبرکاتہ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وعلیک اس نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے پہلے آنے والوں کے جواب میں آپ نے زیادہ جواب دیا اور بڑھا کر جواب عنایت کیا مگر مجھ کو صرف وعلیک فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تو نے ہمارے لئے کچھ چھوڑا ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے بہتر جواب دو یا ویسا ہی جواب دے دو ہم نے ویسا ہی جواب دے دیا۔ عمر بن حصین کی روایت میں آیا ہے کہ ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور السلام علیکم کہہ کر بیٹھ گیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دس ہیں پھر دوسرا آیا اس نے کہا السلام علیکم و رحمتہ اللہ اور بیٹھ گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیس ہیں پھر تیسرا آیا اور وہ السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ کہہ کر بیٹھ گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تیس ہیں۔ یعنی ا لفاظ کی زیادتی کے ساتھ نیکیاں زیادہ ہوتی گئیں سلام کے آداب کی تفصیل توفقہ کی کتابوں سے معلوم ہوسکتی ہے یہاں چند باتیں یاد رکھنی چاہئیں۔ 1 سلام کا جواب دینا واجب علی الکفار یہ ہے اگر حاضرین میں سے ایک شخص نے بھی جواب دیدیا تو سب سبکدوش ہوگئے اور اگر کسی نے بھی جواب نہیں دیا تو سب واجب کے تارک ہوئے۔ 2 جو سلام شرعی آداب کا لحاظ رکھ کر کیا جائے اسی کا جواب دینا واجب ہوگا مثلاً کوئی بول و براز میں مشغول ہو یا نماز پڑھتا ہو یا قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہو یا خطبہ سن رہا ہو وغیرہ ایسی حالت میں کوئی سلام کرے تو اس کا جواب دینا واجب نہیں بلکہ ایسے مواقع پر سلام کرنا ہی خود مگر وہ ہے ۔ 3 سلام کے جواب میں وعلیکم السلا کہنا واجب ہے باقی سلام کرنے والے سے بہتر کلمات کہنا یا انہی کو لوٹاکر کہہ دینا یہ باتیں اختیار میں ہیں یعنی فقط جواب تو واجب ہے باقی زیادہ جواب دینا جواب دینا یا کم دینا یا انہی کلمات کو لوٹا دینا ان سب کا اختیار ہے۔ 4 احادیث میں جو کلمات مروی ہیں وہ سلام کے ساتھ و رحمتہ اللہ وبرکاتہ ہیں ان سے زیادہ اور الفاظ ثابت نہیں۔ 5 کسی کافر کو بلا کسی خاص ضرورت کے ابتدائً سلام نہیں کرنا چاہئے البتہ کوئی ضرورت ہو تو سلام میں ابتداء کی جاسکتی ہے۔ 6 کافر کے سلام کا جواب بھی واجب نہیں اگرچہ جواب دینا جائز ہے۔ 7 فقہاء نے کافر کو دنیوی اعتبار سے دعا دینا یا اس کو اسلام کی دعا دینا جائز رکھا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے کہ آپ نے ایک یہودی کو جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ایندھن بلایا تھا دعا دی تھی اور فرمایا تھا اللھم حجلہ چناچہ ستر سال کی عمر تک اس یہودی کے بال سیاہ ہی رہے۔ 8 جس طرح بلا ضرورت کافر کو ابتداء سلام نہ کرنا چاہئے اسی طرح اہل بدعت کو بھی ابتداء سلام نہیں کرنا چاہئے۔ 9 اگر سلام کرنے میں کسی کافر نے شرارت آمیز الفاظ استعمال کئے ہوں تو اس کو صرف وعلیکم کہہ دینا چاہئے جیسا کہ بعض یہود کا قاعدہ تھا کہ وہ السلام علیکم کو دبا کر السام علیک کہا کرتے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس کے جواب میں وعلیکم فرمادیا کرتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں مثلاً کوئی کہے السلام علیکم تو واجب ہے تو اس کا جواب اگر برابر چاہے تو وعلیکم السلام اور اگر زیادہ ثواب چاہے تو رحمتہ اللہ بھی اور اگر اس نے یوں کہا تو آپ کہے وبرکاتہ (موضح القرآن) ہم تسہیل میں ابھی عرض کرچکے ہیں کہ نفس جواب واجب ہے اور کلمات کی کمی بیشی کا اختیار ہے۔ ان اللہ علی کل شئی حسیبا کا یہ مطلب ہے کہ عمل پر وہ محاسبہ کرنے والا ہے اور اعمال کے موافق سلوک کرنے والا ہے مگر یہ کہ جس پر اس کی مہربانی ہوجائے تو وہ معاملہ دوسرا ہے۔ آگے توحید کا ذکر ہے جس میں رسالت بھی شامل ہے اور قیامت کے وقوع کا اعلان ہے۔ (تسہیل)  Show more