Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 87

سورة النساء

اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ لَیَجۡمَعَنَّکُمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ وَ مَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیۡثًا ﴿٪۸۷﴾  8

Allah - there is no deity except Him. He will surely assemble you for [account on] the Day of Resurrection, about which there is no doubt. And who is more truthful than Allah in statement.

اللہ وہ ہے جس کے سِوا کوئی معبود ( برحق ) نہیں وہ تم سب کو یقیناً قیامت کے دن جمع کرے گا ، جس کے ( آنے ) میں کوئی شک نہیں ، اللہ تعالٰی سے زیادہ سچّی بات والا اور کون ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

اللّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ ... Allah! none has the right to be worshipped but He. informing that He is singled out as the sole God of all creation. Allah then said, ... لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لاَ رَيْبَ فِيهِ ... Surely, He will gather you together on the Day of Resurrection about which there is no doubt. swearing that He will gather the earlier and la... tter generations in one area, rewarding or punishing each person according to his or her actions. Allah said, ... وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللّهِ حَدِيثًا And who is truer in statement than Allah. meaning, no one utters more truthful statements than Allah, in His promise, warning, stories of the past and information of what is to come; there is no deity worthy of worship nor Lord except Him.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٠] وہ سچی بات یہ ہے کہ قیامت یقینا آ کے رہے گی۔ اس دن تمام قسم کے لوگ منافقین بھی، مشرکین بھی اور مسلمان بھی سب اللہ کے حضور اکٹھے کر کے لائے جائیں گے اور ان سب کا پورا پورا محاسبہ کیا جائے گا۔ نیز سچی بات یہ ہے کہ اسلام دشمن عناصر جتنی بھی کوششیں کرسکتے ہیں کر دیکھیں نہ وہ اسلام کا کچھ بگاڑ سکت... ے ہیں نہ اللہ کے قانون کو بدل سکتے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After that comes verse 87 اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَ‌يْبَ فِيهِ which means that there is no object worthy of worship other than Allah. So, it exhorts: Believe in Him as the only object of your worship and whatever you do let that be with the intention of an act of worship or ` ibadah before Him. He will gather everyone on the Day of Qiy... amah, the fateful Day of Doom, in which there is no doubt. That will be the Day when He will give everyone the return for whatever deeds he will come up with the promise that Qiyamah will come and the news that there will be reward and punishment at that time is all true. This is true because this °news° of what will happen is given by Allah, وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّـهِ حَدِيثًا - and whose word can be more true than that of Allah?  Show more

پھر فرمایا اللہ لا الہ الا ھو لیجمعنکم الی یوم القیمة لاریب فیہ یعنی ” اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اسی کو معبود جانو، جو کام کرو اس کی عبادت کی نیت سے کرو، وہ تم کو قیامت کے روز جمع فرمائیں گے، جس میں کوئی شک نہیں ہے، اس روز سب کے بدلے عنایت فرمائیں گے، قیامت کا وعدہ اور جزاء و سزا کی خبر سب حق ہے۔...  “ ومن اصدق من اللہ حدیثاً کیونکہ اللہ کی دی ہوئی خبر ہے، اور اللہ سے بڑھ کر کس کی بات سچی ہو سکتی ہے ؟   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝ ٠ۭ لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ لَا رَيْبَ فِيْہِ۝ ٠ۭ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ حَدِيْثًا۝ ٨٧ۧ إله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا ... هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] الٰہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے قِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، القیامت سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ريب فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج/ 5] ، ( ر ی ب ) اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة/ 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ صدق والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ( ص دق) الصدق ۔ الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔ حدیث وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه، حدیث ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٧) منافقین میں سے دس آدمیوں کی جماعت دین اسلام سے مرتد ہو کر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ چلی گئی، اس کے بارے میں جو اختلاف رائے ہوا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٧ (اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَ ط) (لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ط) (وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثًا ) منافقین پر جو تین چیزیں بہت شاق تھیں ‘ اب ان میں سے تیسری چیز کا تذکرہ آ رہا ہے ‘ یعنی ہجرت۔ ایک تو وہ لوگ تھے جو بیمار تھے ‘ بوڑھے تھے ‘ سفر کے قابل...  نہیں تھے ‘ یا عورتیں اور بچے تھے ‘ ان کا معاملہ تو پہلے ذکر ہوچکا کہ ان کے لیے تمہیں قتال کرنا چاہیے تاکہ انہیں ظالموں کے چنگل سے چھڑاؤ۔ ایک وہ لوگ تھے جو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا اعلان تو کرچکے تھے لیکن اپنے کافر قبیلوں اور اپنی بستیوں کے اندر آرام سے رہ رہے تھے اور ہجرت نہیں کر رہے تھے ‘ جبکہ ہجرت اب فرض کردی گئی تھی۔ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ ہجرت فرض کیوں کردی گئی ؟ اس لیے کہ جب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اور تحریک اس مرحلے میں داخل ہوگئی کہ اب باطل کے خلاف اقدام کرنا ہے ‘ تو اب اہل ایمان کی جتنی بھی دستیاب طاقت تھی اسے ایک مرکز پر مجتمع کرنا ضروری تھا ‘ مکی دور میں جو پہلی ہجرت ہوئی تھی یعنی ہجرت حبشہ وہ اختیاری تھی۔ اس کی صرف اجازت تھی ‘ حکم نہیں تھا لیکن ہجرت مدینہ کا تو حکم تھا۔ لہٰذا اب ان لوگوں کا ذکر ہے جو اس بنا پر منافق قرار پائے کہ وہ ہجرت نہیں کر رہے ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

115.Whatever the unbelievers, polytheists and atheists may do does not impair God's godhead. That God is the One and Absolute Lord of all is a fact which none can alter. And a Day will come when He will gather together all human beings and will make them see the consequences of their deeds, and no one will be in a position to escape His retribution. God therefore does not require His good creature... s to maltreat, on His behalf, those who are lost in error. This is the link between the present verse and the one preceding it. The same verse also concludes the theme running through the last twenty verses or so (see verses 71 ff). The present verse outlines that a man can follow whichever course he deems fit, and expend his energy in any direction he likes, but ultimately all men will have to stand before the One True God for His judgement and will see the consequences of their deeds.  Show more

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :115 یعنی کافر اور مشرک اور ملحد اور دہریے جو کچھ کر رہے ہیں اس سے خدا کی خدائی کا کچھ نہیں بگڑتا ۔ اس کا خدائے واحد اور خدائے مطلق ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو کسی کے بدلے بدل نہیں سکتی ۔ پھر ایک دن وہ سب انسانوں کو جمع کرکے ہر ایک کو اس کے عمل کا نتیجہ دکھا دے گا ۔ اس کی...  قدرت کے احاطہ سے بچ کر کوئی بھاگ بھی نہیں سکتا ۔ لہٰذا خدا ہرگز اس بات کا حاجت مند نہیں ہے کہ اس کی طرف سے کوئی اس کے باغیوں پر جلے دل کا بخار نکالتا پھرے اور کج خلقی و ترش کلامی کو زخم دل کا مرہم بنائے ۔ یہ تو اس آیت کا تعلق اوپر کی آیت سے ہے ۔ لیکن یہی آیت اس پورے سلسلہ کلام کا خاتمہ بھی ہے جو پچھلے دو تین رکوعوں سے چلا آرہا ہے ۔ اس حیثیت سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں جو شخص جس طریقے پر چاہے چلتا رہے اور جس راہ میں اپنی کوشش اور محنتیں صرف کرنا چاہتا ہے کیے جائے ، آخر کار سب کو ایک دن اس خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ، پھر ہر ایک اپنی سعی و عمل کے نتائج دیکھ لے گا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:87) اصدق۔ افعل التفضیل کا صیغہ۔ زیادہ سچ بولنے والا۔ زیادہ سچا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 87 لغات القرآن : لیجمعنکم ، البتہ وہ ضرور تمہیں جمع کرے گا ۔ اصدق، زیادہ سچا۔ حدیث، بات ۔ تشریح : کافروں اور منافقوں کو اس بات میں سراسر شک تھا کہ قیامت آئے گی یا نہیں۔ انہیں اس بات پر بھی شک تھا کہ یہ کیسے ہوگا کہ تمام انسانوں کو جمع کرکے ان سے حساب کتاب لیا جائے گا۔ اور پھر انہیں جنت یا ج... ہنم میں بھیج دیا جائے گا۔ اس آیت میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ قیامت کا دن ایک ایسا یقینی دن ہے جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بات اس ذات کی طرف سے ہے جس کا قول سب سے سچا قول ہوتا ہے۔ ہر شخص قیامت آنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوگا اور پھر اسے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہوگا۔ اس دن صرف وہی لوگ کامیاب و با مراد ہوں گے جنہوں نے اللہ کے احکامات پر یقین کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوگی۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے کفر کی روش اختیار کی ہوگی وہ دن ان کے لئے بڑا ہی حسرت ناک ہوگا اور پھر وہ اس کا کچھ بھی مداوا نہ کرسکیں گے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٣٧ تشریح آیات : ٨٧۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ ٩٤۔ اس سبق کا آغاز اس اصول سے ہوتا ہے جس کے اوپر اسلامی نظام کی عمارت استوار ہے اور اس کے تمام پہلو اس اصول سے ماخوذ ہیں ۔ (آیت) ” نمبر ٨٧۔ اسلامی نظام زندگی کا پہلا قدم عقیدہ توحید ہے اور عقیدہ توحید کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ وحدہ حاکم ہے ۔ اس اسلامی قونون ... وضع کریں ‘ یا اسلامی انتظامیہ قائم کریں ۔ قانون نظام کا تعلق اسلامی معاشرے کے داخلی امور سے ہو یا بین الاقوامی قانون سے ہو جس کے مطابق اسلامی سوسائٹی دوسری سوسائٹیوں کے ساتھ برتاؤ کرتی ہے ۔ چناچہ زیر بحث آیت بعض داخلی اور بین الاقوامی قوانین کا افتتاحیہ ہے۔ نفس انسانی کی تربیت کا سفر اس عقیدے سے شروع ہوتا ہے کہ تمام بندوں کو ایک دن اللہ میدان حشر میں اپنے سامنے کھڑا کرے گا اور اس دنیا میں اس نے انسانوں کو جو اختیارات دیئے تھے ان کے صحیح استعمال کے سلسلے میں باز پرس کرے گا ۔ وہاں اس بات کی پرسش بھی ہوگی کہ اللہ کی ہدایات اور اس کے قوانین پر تم نے کس حد تک عمل کیا اور دنیا میں اپنی زندگی کے چھوٹے بڑے معاملات کے اندر کس حد تک تم نے اسلامی ضوابط کی پابندی کی کو ین کہ تمہیں بہرحال وہاں اسی آزمائش اور امتحان کے لئے تو بھیجا گیا تھا ۔ آخرت میں صغیر وکبیر ہر معاملے کا حساب و کتاب ہوگا ۔ حساب و کتاب اور جواب دہی کا یہی اخروی تصو رہے جو شریعت کے انتظامی اور قانونی ضابطوں پر عمل پیرا ہونے کا ضامن ہے اس لئے کہ ہر شخص کے ضمیر کے اندر ایک جیتا جاگتا چوکیدار بیٹھا ہوا ہوتا ہے اور اس وقت بھی نگران ونگہبان ہوتا ہے جب حکومت کے چوکیدار سو جاتے ہیں۔ اور یہ بات اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ (آیت) ” ومن اصدق من اللہ حدیثا (٤ : ٨٧) (اور اللہ سے زیادہ سچی کس کی بات ہے) اور یہ آپ کا وعدہ ہے جس کے خلاف نہیں ہوسکتا ۔ مسلمانوں کے دلوں کو یہ احساس دینے کے بعد اب اصل بات شروع ہوتی ہے ۔ یہ احساس دلانا اسلامی منہاج تربیت کا ایک عام طریق کار ہے اور اس سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ اسلامی نظام زندگی کی پوری نظریاتی اور عملی عمارت اس عقیدے پر قائم ہے ۔ غرض یہ احساس دلانے کے بعد اب اس بات پر تعجب کا اظہار کیا جارہا کہ مسلمان نفاق اور منافقین کے بارے میں یکسو نہیں ہیں اور ان کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے فیصلہ کن انداز اختیار نہیں کرتے حالانکہ حالات کا تقاضا ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ فیصلہ کن اور دو ٹوک بات کی جائیں ۔ یکسوئی تو اور بات ہے مسلمان ان کے بارے میں واضح طور پر دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں اور ہر ایک کی اپنی رائے ہے ۔ یہ اختلاف رائے مدینہ سے باہر بسنے والے بعض منافقین کے بارے میں پیدا ہوگیا تھا ۔ جس کی تفصیلات آگے آرہی ہیں ۔ استفہام انکاری کا صیغہ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان معاملات کے بارے میں فکری ہم آہنگی کیوں نہیں ہے ۔ اس سے اس بات کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ اسلام کی پالیسی یہ ہے کہ معاملات کے اندر فیصلہ کن اور دو ٹوک موقف اختیار کیا جائے اور منافقین کے ساتھ تعلق اور ان کی نسبت نقطہ نظر رکھنے میں یکسوئی اختیار کی جائے اور ان کے ظاہری امور کو دیکھ کر ان کے ساتھ معاملہ کیا جائے بشرطیکہ کوئی منصوبہ طے شدہ ہو اور اس کے ساتھ نرمی کی ضرورت ہو۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ قیامت کے دن سب کو جمع فرمائے گا اس آیت میں عقیدہ توحید اور حشر و نشر اور قیام قیامت کو بیان فرمایا ہے اور فرمایا کہ قیامت کے دن میں کوئی شک نہیں وہ روز جزا ہے جس میں خیرو شر کا بدلہ دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے اس کی خبر دی ہے اور اس کی بات سے بڑھ کر کسی کی بات س... چی نہیں لہٰذا یقین مانو اور عمل کرو۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

62 ترغیب الی الجہاد کے بعد اصل مسئلہ (مسئلہ توحید) بیان فرما دیا جس کی خاطر جہاد کرنا ہے اور ساتھ لَیَجْمَعَنَّکُمْ الخ سے تخویف اخروی سنادی کہ اگر اللہ کا حکم نہیں مانو گے اور جہاد سے گریز کرو گے تو آخر کار قیامت کے دن میدان حشر میں اللہ کے سامنے کیے جاؤ اور اپنے اعمال کی سزا پاؤ گے اور کہیں بھاگ ک... ر جان نہیں بچا سکو گے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود ہونے کے قابل نہیں وہ تم سب کو ضرور بالضرور قیامت کے دن جمع کرے گا اس دن کے واقع ہونے میں ذرا شک کی گنجائش نہیں اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کس کی بات سچی ہوسکتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر بات کا سچا کون ہوسکتا ہے۔ (تیسیر) لاریب فیہ میں دو احتمال ہ... وسکتے ہیں ایک کو ہم نے اختیار کرلیا ہے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے جمع کرنے میں ذرا شک کی گنجائش نہیں۔ واللہ اعلم اللہ تعالیٰ کی بات سے زیادہ سچی تو کسی کی بات کیا ہوگی اس کے مساوی بھی نہیں جس کا علم اور قدرت کامل ہے اس کی بات کے برابر کسی کی بات سچی نہیں ہوسکتی اور جب اللہ تعالیٰ ہی کی بات سچی ہے تو قیامت کا وقوع ضرور ہوگا اور محشر میں سب کا جمع ہونا یقینی ہوگا اب آگے پھر منافقین کا ذکر ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)  Show more