Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 89

سورة النساء

وَدُّوۡا لَوۡ تَکۡفُرُوۡنَ کَمَا کَفَرُوۡا فَتَکُوۡنُوۡنَ سَوَآءً فَلَا تَتَّخِذُوۡا مِنۡہُمۡ اَوۡلِیَآءَ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَخُذُوۡہُمۡ وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ ۪ وَ لَا تَتَّخِذُوۡا مِنۡہُمۡ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا ﴿ۙ۸۹﴾

They wish you would disbelieve as they disbelieved so you would be alike. So do not take from among them allies until they emigrate for the cause of Allah . But if they turn away, then seize them and kill them wherever you find them and take not from among them any ally or helper.

ان کی تو چاہت ہے کہ جس طرح کے کافر وہ ہیں تم بھی ان کی طرح کُفر کرنے لگو اور پھر سب یکساں ہو جاؤ پس جب تک یہ اسلام کی خاطر وطن نہ چھوڑیں ان میں سے کسی کو حقیقی دوست نہ بناؤ پھر اگر یہ مُنہ پھیر لیں تو انہیں پکڑو اور قتل کرو جہاں بھی یہ ہاتھ لگ جائیں ، خبردار !ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور مددگار نہ سمجھ بیٹھنا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَدُّواْ لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُواْ فَتَكُونُونَ سَوَاء ... They wish that you reject faith, as they have rejected, and thus that you all become equal. means, they wish that you fall into misguidance, so that you and they are equal in that regard. This is because of their extreme enmity and hatred for you. Therefore, Allah said, ... فَلَ تَتَّخِذُواْ مِنْهُمْ أَوْلِيَاء حَتَّىَ يُهَاجِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَإِن تَوَلَّوْاْ ... So take not Awliya from them, till they emigrate in the way of Allah. But if they turn back, Al-Awfi reported from Ibn Abbas, if they abandon Hijrah. As-Suddi said that this part of the Ayah means, "If they make their disbelief public." ... فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتَّمُوهُمْ وَلاَ تَتَّخِذُواْ مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًا take (hold of) them and kill them wherever you find them, and take neither Awliya nor helpers from them. Combatants and Noncombatants Allah excluded some people;

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

89۔ 1 ہجرت (ترک وطن) اس بات کی دلیل ہوگی کہ اب یہ مخلص مسلمان ہوگئے ہیں۔ اس صورت میں ان سے دوستی اور محبت جائز ہوگی۔ 89۔ 2 یعنی جب تمہیں ان پر قدرت و طاقت حاصل ہوجائے۔ 98۔ 3 حلال ہو یا حرام۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٣] مدینہ کے پاس کے منافقین ان کی اقسام :۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ منافقوں کی ایک قسم ایسی بھی تھی جو مدینہ کے اردگرد پھیلے ہوئے قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ لوگ مسلمانوں سے خیر خواہی اور محبت کا اظہار ضرور کرتے تھے مگر عملی طور پر اپنے ہم وطن کافروں کا ساتھ دیتے تھے یا دینے پر مجبور تھے ان کے لیے معیار یہ مقرر کیا گیا کہ اگر وہ ہجرت کر کے تمہارے پاس مدینہ آجائیں اور تمہارے ساتھ شامل ہوجائیں تو اس صورت میں تم انہیں سچا بھی سمجھو اور اپنا ہمدرد بھی۔ اور اگر وہ اسلام کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑنے کی قربانی دینے پر تیار نہیں حالانکہ وہ ایسا کرسکتے ہیں تو تم ان پر ہرگز اعتماد نہ کرو نہ انہیں اپنا دوست بناؤ اور نہ سمجھو اور اگر ایسے لوگ کافروں کے ساتھ تمہارے خلاف صف بستہ ہوجاتے ہیں تو انہیں قتل کرنے سے ہرگز دریغ نہ کرو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَاۗءً ۔۔ : معلوم ہوتا ہے کہ یہ منافقوں کی وہ قسم تھی جو مدینہ کے ارد گرد پھیلے ہوئے قبائل سے تعلق رکھتے تھے، دلیل اس کی یہ الفاظ ہیں : ( فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِيَاۗءَ حَتّٰي يُھَاجِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ ) ” تو ان میں سے کسی طرح کے دوست نہ بناؤ، یہاں تک کہ وہ اللہ کے راستے میں ہجرت کریں۔ “ یہ لوگ مسلمانوں سے خیر خواہی اور محبت کا اظہار ضرور کرتے تھے مگر عملی طور پر اپنے ہم وطن کافروں کا ساتھ دیتے تھے، یا ساتھ دینے پر مجبور تھے۔ ان کے لیے معیار یہ مقرر کیا گیا کہ اگر وہ ہجرت کر کے تمہارے پاس مدینہ آجائیں اور تمہیں ان کے ایمان کا یقین ہوجائے تو اس صورت میں تم انھیں سچا بھی سمجھو اور ہمدرد بھی اور اگر وہ ہجرت کرنے سے انکار کریں تو اگرچہ وہ اسلام کا اظہار کریں ان سے کافروں جیسا سلوک کرو، کیونکہ دارالکفر میں چلے جانے کے بعد ان کا کفر کھل کر سامنے آگیا، اس لیے انھیں گرفتار کرو اور حل و حرم میں جہاں پاؤ انھیں قتل کرو اور انھیں اپنا دوست نہ بناؤ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Different forms of Emigration and their Rules Hijrah (Emigration) mentioned in verse 89 has been taken up in detail under the commentary on verse 100 of Surah al-Nis-a& which appears a little later. At this point, it is sufficient to know that Emigration from the homeland of Disbelief (Darul-kufr) was enjoined on all Muslims during the early period of Islam. It is for this reason that Allah Almighty has prohibited treating those who fail to carry out this obligation as Muslims. Consequently, when Makkah was conquered, the Holy Prophet declared: ھِجرَۃَ بَعدَ الفَتح لَا (There is no Hijrah after the Victory). It means: ‘Now that the Conquest of Makkah has made it the Abode of Islam, emigration from there was no more obligatory.& This rule related to the period of time when Emigra¬tion was considered to be a pre-condition of anyone&s faith. During those days, anyone who did not emigrate despite having the ability to do so was not taken to be a Muslim. But, later on, this injunction was abrogated1 and now this mode of Emigration has ceased to exist. 1. It means that emigration no longer remained a pre-requisite for his being Muslim. However, if a Muslim lives in a non-Muslim country where he cannot fulfill his religious obligations, it is incumbent on him to emigrate if he has the means to do so. (Muhammad Taqi Usmani) There remains, however, another form of Hijrah which has been identified in a hadith of Sahib al-Bukhari where it was said: لَا تَنقَطِعُ الھِجرَۃُ حَتَّی تَنقَطِعَ التَوبَۃ . It means that Hijrah (not in the sense of abandoning one&s homeland, but in the sense of abandoning one&s sins) will continue to exist until there remains the time to repent. ` Allamah ` Ayni, the commentator of al-Bukhari has said about this Hijrah: اَنَ المرَادَ بِالھجِرَۃِ البَاقِیۃِ ھِیَ ھَجرُ اَلسَّیِّاتِ (This later Hijrah means the aban¬donment of sins). This subject also finds elucidation in a hadith of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) where he is reported to have said: اَلمُھَجرُ مَن ھَجَرَمَا نَھَی اللہُ عَنہُ. It means that a Muhajir (Emigrant) is one who emigrates (&hajara&: abandon, leave) from everything prohibited by Allah Almighty (al-Mirqat, v.1) The discussion appearing above tells us that, technically, the word, Hijrah is applied in a dual sense: 1. To leave one&s homeland in order to save one&s faith as was done by the Companions, may Allah be pleased with them all - they left their homeland of Makkah and emigrated to Madinah and Ethiopia. 2. To leave one&s sins. The words of the verse 89: وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرً‌ا (and do not take from them a friend or a helper) tell us that seeking help from disbe¬lievers is forbidden (Haram). Pursuant to this, it appears in a narra¬tion that the Ansars of Madinah sought the permission of the Holy Prophet $ to seek help from the Jews to offset disbelievers whereupon he said: v &I (The bad ones! We do not need them). (Mazhari, v.2

ہجرت کی مختلف صورتیں اور احکام : قولہ تعالیٰ حتی یھاجروا فی سبیل اللہ الخ۔ ابتداء اسلام میں ہجرت دارالکفر سے تمام مسلمانوں پر فرض تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے ساتھ مسلمانوں کا سابرتاؤ کرنے سے منع کیا ہے جو اس فرض کے تارک ہوں، پھر جب مکہ فتح ہوا تو سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لاھجرة بعد الفتح (رواہ البخاری) ” یعنی جب مکہ فتح ہو کر دارالاسلام بن گیا تو اب وہاں سے ہجرت فرض نہ رہی۔ “ یہ اس زمانہ کا حکم ہے جبکہ ہجرت شرط ایمان تھی اس آدمی کو مسلمان نہیں سمجھا جاتا تھا جو باوجود قدرت کے ہجرت نہ کرے، لیکن بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا، اب یہ صورت باقی نہیں رہی۔ ہجرت کی دوسری صورت یہ ہے جو قیامت تک باقی رہے گی جس کے بارے میں حدیث میں آتا ہے لاتنقطع الھجرة حتی تنقطع التوبة ” یعنی ہجرت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک توبہ کی قبولیت کا وقت باقی رہے۔ “ (صحیح بخاری) علامہ عینی شارح بخاری نے اس ہجرت کے متعلق لکھا ہے : ان المراد بالھجرة الباقیة ھی ھجر السئات :” یعنی اس ہجرت سے مراد گناہوں کا ترک کرنا ہے۔ “ جیسا کہ ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں المھاجرمن ھجر مانھی اللہ عنہ ” یعنی مہاجر وہ ہے جو ان تمام چیزوں سے پرہیز کرے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔ “ (بحالہ مرقاة جلد اول) مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ اصطلاح میں ہجرت کا اطلاق دو معنی پر ہوتا ہے (١) دین کے لئے ترک وطن کرنا، جیسا کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنا وطن مکہ ترک کر کے مدینہ اور حبشہ تشریف لے گئے۔ (٢) گناہوں کا چھوڑنا۔ ولاتتخذوا منھم ولیاولا نصیرا اس آیت سے معلوم ہوا کہ کفار سے طلب نصرت حرام ہے، چناچہ ایک روایات میں آتا ہے کہ کفار کے خلاف انصار نے جب یہود سے مدد طلب کرنے کی اجازت آپ سے چاہی تو آپ نے فرمایا : الخبیث لاحاجة لنا بہم ” یعنی یہ خبیث قوم ہے اس کی ہمیں کوئی حاجت نہیں۔ “ (مظہری جلد ٢)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَـمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَاۗءً فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِيَاۗءَ حَتّٰي يُھَاجِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝ ٠ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْھُمْ وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ۝ ٠۠ وَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا۝ ٨٩ۙ ودد الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] ( و د د ) الود ۔ کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ سواء ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال : فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] ، ( س و ی ) المسا واۃ مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ ولي والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الولی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔ هجر والمُهاجرَةُ في الأصل : مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] ، وقوله : وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . ( ھ ج ر ) الھجر المھاجر ۃ کے اصل معی) تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ حيث حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة/ 149] . ( ح ی ث ) حیث ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة/ 144] اور تم جہاں ہوا کرو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ودوالوتکفرون کماکفروفتکونون سواء۔ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہوجاؤ تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہوجائیں اس سے گروہ منافقین مراد ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس گروہ کے دلوں میں چھی پوئی خواہشات اور اعتقادات کو واضح کردیاتا کہ مسلمان ان سے حسن ظن نہ رکھیں، کہ ان کی دشمنی پر یقین کریں اور ان سے اپنی برات اور بے زار کا اظہار کریں۔ قول باری ہے (فلاتتخذوا منھم اولیاء حتی یھاجروا فی سبیل اللہ لہذا ان میں سے کسی کو اپنادوست نہ بناؤ جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرکے نہ آجائیں) یعنی ۔ واللہ ۔ جب تک وہ مسلمان ہوکر ہجرت نہ کرلیں کیونکہ ہجرت اسلام لانے کے بعد ہی ہوتی ہے یہ لوگ اگرچہ مسلمان ہوجائیں پھر بھی ہمارے اور ان کے درمیان موالات ہجرت کے بعد ہی قائم ہوگی۔ یہ قول باری اس آیت کی طرح ہے (مالکم من ولایتھم من شی حتی یھاجروا ، جب تک یہ ہجرت کرکے نہ آجائیں ، اس وقت تک تمہارے اور ان کے درمیان کوئی موالات نہیں ) یہ صورت اس وقت تک تھی جب تک ہجرت فرض رہی۔ حضور نے یہ فرمایا تھا، (انابری من کل مسلم اقام بین اظھر المشرکین وانابری من کل مسلم اقام مع مشرک۔ میں ہراس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین کے درمیان قیام پذیر ہے۔ میں ہراس مسلم سے بری الذمہ ہوں جو کسی مشرک کے ساتھ اقامت گزریں ہے) ۔ عرض کیا گیا اللہ کے رسول وہ کیوں ؟ آپ نے فرمایا (لاتراء ی ناراھما، مسلمان اور مشرک کے گھروں میں جلنے والی آگ ایک دوسرے کو نظر نہ آئے) یعنی اس صورت میں مسلمان مشرک کے ساتھ اقامت گزیں نہیں کہلائے گا۔ اس طرح ہجرت فرض رہی کہ مکہ فتح ہوگیا پھر اس کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابوداود نے انہیں عثمان بن ابی شیبہ نے، انہیں جریر نے منصور سے ، انہوں نے مجاہد سے انہوں نے طاؤس سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس سے حضور نے فتح مکہ کے دن فرمایا، (لاھجرۃ ولکن جھادوا نیہ واذا استنفرتم فانفروا، اب ہجرت نہیں، لیکن جہاد اور ہجرت کی نیت باقی ہے اور جب تمہیں جہاد پر نکلنے کے لیے کہاجائے تونکلی پڑو) ۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابوداؤد نے انہیں مومل بن الفضل نے ، انہیں ولید نے اوزاعی سے انہوں نے زہری سے ، انہوں نے عطاء بن یزید سے ، انہوں نے حضرت ابوسعید خدری سے کہ ایک بدو نے حضور سے ہجرت کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا۔ اللہ کے بندے ہجرت کی بات تو بڑی زبردست ہے یہ بتاؤ تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا، آپ نے پھر پوچھا تم ان اونٹوں کی زکوۃ ادا کرتے ہو ؟ اس نے ، پھر اثبات میں جواب دیا، اس پر آپ نے فرمایا، پھر تم سمندر کے پاررہ کر بھی اعمال کرتے رہو، تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال میں سے کوئی چیز نہیں گھٹائے گا، اس طرح حضور نے ترک ہجرت کی اباحت کردی۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابوداؤد نے ، انہیں مسدد نے ، انہیں یحییٰ نے اسماعیل بن ابی خالد سے ، انہیں عامر نے ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس آکر کہنے لگا کہ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہو، حضرت ابن عمرو نے فرمایا، میں نے حضور کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے (المسلم سلم المسلمون من لسانہ ویدہ والمھاجر من ھجر مانھی اللہ عنہ ، مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جس نے اللہ کی منع کی ہوئی باتوں سے کنارہ کشی اختیار کی) ۔ حسن سے مروی ہے کہ آیت کا حکم ہراس شخص کے حق میں ثابت ہے جو دارالحرب میں قیام پذیر ہوحسن کی رائے میں دارلاسلام کی طرف ہجرت کرنے کی فرضٰت بحالہ باقی ہے۔ قول باری ہے (فخذوھم واقتلوھم ، انہیں پکڑ کر قتل کرڈالو) حضرت ابن عباس نے فرمایا، اگر یہ لوگ ہجرت کرنے سے روگردانی کریں توا نہیں پکڑ کر قتل کرڈالو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان کی مراد۔ واللہ اعلم۔ یہ ہے کہ اگر یہ لوگ ایمان اور ہجرت دونوں سے روگردانی کریں کیونکہ قول باری (فان تولوا) ان دونوں باتوں کی طرف راجع ہے نیز جو شخص اس وقت مسلمان ہوجاتا لیکن ہجرت نہ کرنا توا سے قتل کرنا واجب نہیں ہوتا تھا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول باری (فان تولوا) سے مراد یہ ہے کہ اگر وہ لوگ ایمان لانے اور ہجرت کرنے سے روگردانی کریں توا نہیں پ کرلو ان کی گردنیں اڑادو۔ قول باری ہے (فاقتلوالمشرکین حیث وجدتموھم وخذوھم واحصروھم ۔۔۔ تا۔۔۔۔ سبیلھم۔ مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور گھیرو اور ہر گھر میں ان کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا دیں توا نہیں چھوڑ دو ) ۔ مشرکین عرب کے سلسلے میں یہ حکم ثابت اور باقی ہے انس کے ذریعے ان کے ساتھ صلح ، معاہدہ امن اور انہیں کفر اور شرک پر باقی رہنے دینے کی منسوخ ہوگئی ، اہل کتاب کے بارے میں ہمیں یہ حکم ہے ہم ان کے ساتھ اسوقت تک جنگ جاری رکھیں جب تک وہ مسلمان نہ ہوجائیں یاجزیہ دینا قبول نہ کریں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَآءً ) یہ لوگ جو ان کے بارے میں نرمی کی باتیں کر رہے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ جیسے انہوں نے کفر کیا ہے تم بھی کرو ‘ تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہوجائیں۔ دُم کٹی بلی چاہتی ہے کہ سب بلیوں کی دمیں کٹ جائیں۔ (فَلاَ تَتَّخِذُوْا مِنْہُمْ اَوْلِیَآءَ حَتّٰی یُہَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط) ۔ یہ گویا اب ان کے ایمان کا لٹمس ٹیسٹ ہے۔ اگر وہ ہجرت نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ مؤمن نہیں منافق ہیں۔ (فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْہُمْ وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ ) ۔ یعنی اگر وہ ہجرت نہیں کرتے جو ان پر فرض کردی گئی ہے تو پھر وہ کافروں کے حکم میں ہیں ‘ چاہے وہ کلمہ پڑھتے ہوں۔ تم انہیں جہاں بھی پاؤ پکڑو اور قتل کرو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

118. This is the verdict on those hypocritical confessors of faith who belong to a belligerent, non-Muslim nation and actually participate in acts of hostility against the Islamic state.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :118 یہ حکم ان منافق مسلمانوں کا ہے جو برسر جنگ کافر قوم سے تعلق رکھتے ہوں اور اسلامی حکومت کے خلاف معاندانہ کارروائیوں میں عملاً حصہ لیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:89) فتکونون سوائ۔ تاکہ تم بھی (اور وہ بھی) یکساں ہوجائیں۔ فان تولوا۔ اگر وہ ہجرت سے منہ موڑیں۔ انکار کریں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ اس وقت ہجرت کا وہ حکم تھا جواب اقرار بالشہادتین کا ہے۔ 9۔ مطلب یہ کہ کسی حالت میں ان سے کوئی تعلق نہ رکھو نہ امن میں دوستی نہ خوف میں استعانت بلکہ بالکل الگ تھلگ رہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافق حقیقتاً کافر ہوتا ہے اور مسلمانوں کو اسے اس طرح ہی دیکھنا چاہیے۔ اس لیے اس سے قلبی دوستی سے منع کیا گیا ہے۔ منافقوں کو ہرگز دوست نہ بناؤ جب تک اللہ کی رضا کے لیے ہجرت نہ کریں۔ اگر وہ ہجرت کرنے سے انکار کریں تو انہیں حالت جنگ میں جہاں پاؤ ‘ پکڑو اور قتل کر دو ۔ ایسے لوگوں کو اپنا دوست اور مددگار نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہجرت کا لغوی معنٰی : ہجرت کا لغوی معنٰی ہے کسی چیز کو ترک کرنا، چھوڑ دینا۔ عرف عام میں دین کی خاطر کسی مقام کو چھوڑنے کا نام ہجرت ہے۔ شریعت کے وسیع تر مفہوم میں ہر اس چیز کو چھوڑ دینا۔ جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے ہجرت کہلاتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (وَالْمُھَاجِرُ مَنْ ھَجَرَ مَانَھَی اللّٰہُ عَنْہُ ) [ رواہ البخاری : کتاب الإیمان، باب المسلم من سلم المسلمون ] ” مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے۔ “ کن حالات میں ہجرت کا حکم ہے ؟ جیسا کہ ابھی ذکر ہوا کہ مقصد حیات (ایمان) کے لیے ہر چیز قربان کردینا ہی کامل ایمان کی نشانی ہے۔ ایسے ہی جذبات کا مندرجہ ذیل آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ (یٰعِبَادِيَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِنَّ أَرْضِيْ وَاسِعَۃٌ فَإِیَّايَ فَاعْبُدُوْنِ ) [ العنکبوت : ٥٦] ” اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو ! میری زمین بہت وسیع ہے بس تم میری بندگی کئے جاؤ۔ “ اس آیت مبارکہ میں و اضح اشا رہ موجود ہے اگر مکہ میں اللہ کی بند گی کرنا مشکل ہو رہی ہے تو ملک چھوڑ کر نکل جاؤ۔ ملک خدا تنگ نیست۔ اللہ کی زمین تنگ نہیں ہے جہاں بھی تم اللہ کے بندے بن کر رہ سکتے ہو و ہاں چلے جاؤ۔ (عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ إِنَّمَا الْأَعْمَال بالنِّیَّۃِِ وَإِنَّمَا لِإِمْرِیءٍ مَانَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَھِجْرَتُہٗ إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ إِلٰی دُنْیَا یُصِیْبُھَا أَوِ امْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُھَا فَھِجْرَتُہٗ إِلٰی مَاھَاجَرَ إِلَیْہِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الأیمان والنذور، باب النیۃ في الأیمان ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ تمام اعمال کا انحصار نیت پر ہے۔ آدمی جس چیز کی نیت کرے گا وہ اس کے مطابق اجر پائے گا۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کی بس اس کی ہجرت تو واقعی اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے لیکن جس نے دنیا کی خاطر ہجرت کی کہ اس کو دنیا مل جائے یا کسی عورت کے لیے ہجرت کی تاکہ اس سے نکاح کرے اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی جس کی خاطر اس نے ہجرت کی۔ “ ہجرت ایمان کی کسوٹی ہے : اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہ ایسی پل صراط ہے جس کی دھار تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے ہجرت کی تکالیف و مشکلات ایمان سے خالی دل کو ننگا کردیتی ہیں یہ ایسا ترازو ہے جس میں ہر آدمی نہیں بیٹھ سکتا۔ اس پیمانے سے کھرے کھوٹے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے اسے ایمان کا معیار قرار دیا ہے۔ (مزید دلائل دیکھنا چاہیں تو میری کتاب سیرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مطالعہ فرمائیں) مسائل ١۔ کفار کو کبھی اپنا خیر خواہ اور دوست نہیں سمجھنا چاہیے۔ ٢۔ منافق اور کافر حالت جنگ میں جہاں کہیں ملیں انھیں قتل کردینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن منافق و کفار کو دوست نہ بناؤ : ١۔ منافق و کفار کو دوست نہ بناؤ۔ (المائدۃ : ٥٧) ٢۔ منافق و کفار آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ (المائدۃ : ٥١) ٣۔ مومن کفار کو اپنا دوست نہ بنائیں۔ (آل عمران : ٢٨) ٤۔ محض دنیا کی عزت کی خاطر کفار سے دوستی نہیں رکھنی چاہیے۔ (النساء : ١٣٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مزید فرمایا (فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْھُمْ وَ اقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ وَ لَا تَتَّخِذُوْامِنْھُمْ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا) کہ یہ لوگ اگر ہجرت فی سبیل اللہ سے اعراض کریں تو جب بھی تمہیں ان پر قدرت حاصل ہوجائے ان کو جہاں بھی پاؤ ان کو قتل کرو اور ان میں سے کسی کو بھی دوست اور مددگار نہ بناؤ ان سے بالکل ہی کلی طریقے پر اجتناب کرو۔ قال صاحب الروح ای جانبو ھم مجانبۃ کلیۃ ولا تقبلوا ولایۃ ونصرۃ ابدا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 4 وہ تو یہ چاہتے ہیں اور وہ تو اس بات کے متمنی ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہوئے ہیں اسی طرح تم بھی ان ہی جیسے کافر بن جائو تاکہ تم اور وہ سب ایک سے ہو جائو یعنی جیسے انہوں نے کافرانہ روش اختیار کی ویسے ہی تم بھی کفر کی روش اختیار کرلو جس میں تم او وہ سب برابر ہو جائو۔ لہٰذا تم اس وقت تک ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور دوست نہ بنائو جب تک وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں اور صحیح طور پر مہاجر نہ بنیں ۔ پھر اگر وہ ایمان لانے سے روگردانی کریں یعنی وہ ہجرت نہ کریں جو اصل ایمان کی علامت ہے تو تم جہاں کہیں بھی ان پر قابو پائو ان کو گرفتار کرو اور ان کو قتل کرو اور ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور مددگار نہ بنائو۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی جب تک تم میں نہ آ رہیں تب تک ان کو برے بھلے میں شریک نہ کرو اور لڑائی میں ان کو نہ بچائو۔ (موضح القرآن) آیت کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ پہلے ان کی کافرانہ تمنا کا ذکر ہے کہ تم لوگ تو ان کے کفر و اسلام میں اختلاف کر رہے ہو اور ان کی یہ حالت ہے کہ وہ خود تو دارالاسلام سے دارالکفر چلے ہی گئے اب یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ان ہی جیسے کافر بن جائو اور جس طرح انہوں نے کفر اختیار کیا ہے اسی طرح تم بھی کفر اختیار کرلو۔ پھر تم اور وہ مساوی ہوجائیں۔ فتکونون کا عطف تکفرون پر ہے ہم نے محاورے کے موافق ترجمہ کردیا ہے پھر ان کے ساتھ برتائو کا ذکر ہے کہ جب ان کی یہ حالت ہے تو تم ان کے ساتھ مسلمانوں سا برتائو نہ کرو اور ان کو دوست نہ بنائو اور ان کو رفیق تجویز نہ کرو اور یہ دوستی اور رفاقت اس وقت تک نہ کرو جب تک وہ سچے دل سے مسلمان ہو کر ہجرت نہ کریں اور اگر وہ ہجرت یا ایمان سے روگردانی کریں اور کفر ہی پر قائم رہیں تو ان کو جہاں کہیں پائو پکڑو اور قتل کرو۔ غالباً ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہجرت توحید و رسالت کے اقرار کرنے کے قائمقام ہوگا جیسا کہ ہم نے اوپر بھی اشارہ کیا تھا دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف، ہجرت کر کے آجانا ہی کلمئہ شہادت کے قائمقام سمجھا جاتا تھا اور چونکہ ہجرت اور ایمان دونوں مساوی تھے اس لئے فان تو لوا کے معنی کسی نے ہجرت سے روگردانی اور کسی نے ایمان سے روگردانی کئے ہیں ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں دونوں کی رعایت کی ہے اگرچہ مطلب میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ہجرت بھی وہی معتبر ہے جو تکمیل دین کے اعتبار سے کی جائے ورنہ یوں تو کافر بھی دارالسلام آتے جاتے رہتے ہیں۔ اسی لئے ہم نے تیسیر میں عرض کیا ہے کہ و ہ ہجرت جو ایمان کی علامت ہے غرض یہ کہ جب تک یہ لوگ صحیح طور پر ہجرت کر کے تمہارے پاس نہ آجائیں تم ان سے کوئی تعلق نہ رکھو اور اگر صحیح ہجرت سے روگردانی کریں تو پھر وہی برتائو کرو جو حربی کافروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ آخر میں پھر ولایت و نصرت کے تعلقات سے منع فرمایا کہ ان مذکورہ لوگوں سے کوئی تعلق نہ رکھو بلکہ بالکل بےتعلق رہو دوستی اور ایک دوسرے کی مدد کرنے سے بالکل اجتناب کرو اور ان سے کوئی مدد نہ لو۔ اب آگے اس حکم میں سے بعض قیود اور بعض شرائط کے ساتھ کچھ کو مستثنیٰ کرتے ہیں۔ (تسہیل)