Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 96

سورة النساء

دَرَجٰتٍ مِّنۡہُ وَ مَغۡفِرَۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۹۶﴾٪  10

Degrees [of high position] from Him and forgiveness and mercy. And Allah is ever Forgiving and Merciful.

اپنی طرف سے مرتبے کی بھی اور بخشش کی بھی اور رحمت کی بھی اور اللہ تعالٰی بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Degrees of (higher) grades from Him, and forgiveness and mercy. And Allah is Ever Oft-Forgiving, Most Merciful. In the Two Sahihs, it is recorded that Abu Sa`id Al-Khudri said that the Messenger of Allah said, إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِايَةَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللهُ لِلْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِهِ مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالاَْرْض There a... re a hundred grades in Paradise that Allah has prepared for the Mujahidin in His cause, between each two grades is the distance between heaven and Earth.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The third verse (96) too recounts the same degrees of precedence that the Mujahidin have over others. Ruling Jihad is not obligatory on the lame, the crippled, the blind, the sick and on others who are excusable under the Islamic law.

تیسری آیت میں بھی انہی درجات فضیلت کا بیان ہے جو مجاہدین کو دوسروں پر حاصل ہیں۔ مسئلہ :۔ لنگڑے، لولے، اندھے، بیمار اور دیگر معذور شرعی لوگوں پر جہاد فرض نہیں ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

دَرَجٰتٍ مِّنْہُ وَمَغْفِرَۃً وَرَحْمَۃً۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝ ٩٦ۧ درج الدّرجة نحو المنزلة، لکن يقال للمنزلة : درجة إذا اعتبرت بالصّعود دون الامتداد علی البسیطة، کدرجة السّطح والسّلّم، ويعبّر بها عن المنزلة الرفیعة : قال تعالی: وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة/ 228] ( د...  ر ج ) الدرجۃ : کا لفظ منزلہ ميں اترنے کی جگہ کو درجۃ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے صعود یعنی اوپر چڑھتے کا اعتبار کیا جائے ورنہ بسیط جگہ پر امدیاد کے اعتبار سے اسے درجۃ نہیں کہتے جیسا کہ چھت اور سیڑھی کے درجات ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا اطلاق مزدلہ رفیع یعنی بلند مرتبہ پر بھی ہوجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة/ 228] البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی بوجہ اعمال متعددہ کے جو مجاہد سے صادر ہوتے ہیں ثواب کے بہت سے درجے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملیں گے اور گناہوں کی مغفرت اور رحمت بھی۔ یہ سب اجرعظیم کی تفصیل ہوئی وہ اعمال متعددہ سورة برات کے آخر میں مذکور ہیں۔ 2۔ اوپر وجوب جہاد کا ذکر تھا آگے وجوب ہجرت کا ذکر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٩٥ تا ١٠٤۔ اس آیت میں اسلامی معاشرے کی ایک خاص صورت حال پر بحث کی گئی ہے ۔ اس وقت مسلمانوں کی صفوں میں بعض لوگوں کی طرف سے سستی پیدا ہو رہی تھی ۔ وہ اسلامی انقلاب کی راہ میں جان اور مال کی قربانی نہ دے رہے تھے ۔ یہ لوگ وہ تھے جو مکہ میں اپنی دولت بچانے کے لئے ہجرت میں تاخیر کر رہے تھے ... ‘ اس لئے کہ اہل مکہ کسی مہاجر کو اپنے ساتھ کوئی چیز لے جانے کی اجازت نہ دے رہے تھے ۔ یہ سستی اس وجہ سے بھی پیدا ہو رہی تھی کہ ہجرت کی راہ میں سخت مشکلات ‘ مصائب اور خطرات تھے ‘ اس لئے کہ مشرکین کمزور لوگوں کو سرے سے ہجرت کی اجازت ہی نہ دیتے تھے ۔ وہ انہیں پکڑ کر قید کردیتے ‘ ازیت دیتے یا اگر پہلے سے اذیت دی جارہی ہوتی تھی تو جس کے بارے میں انہیں شبہ ہوجاتا کہ یہ بھاگنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے مزید سخت اذیت دی جاتی چاہے ان آیات کا مدلول وہ لوگ ہوں جو دارالاسلام کو ہجرت کر کے منتقل نہ ہو رہے تھے ۔ (میں اسی رائے کو ترجیح دیتا ہوں) یا اس سے مراد خود دارالاسلام کے اندر موجود بعض لوگ ہو سکتے ہیں جو مالی اور جانی جہاد میں زیادہ پرجوش نہ تھے ۔ یہ لوگ ان لوگوں سے علیحدہ تھے جو جہاد کے معاملے میں سست رو اور پہلو تہی کرنے والے تھے اور جن کا ذکر سابقہ سبق میں ہوچکا ہے ۔ ہو سکتا ہے ان آیات کے معنی میں وہ سب لوگ شامل ہوں جو دارالاسلام مین تھے اور جہاد سے پہلوتہی کر رہے تھے اور منافق تھے ‘ یا مسلمان تھے مگر سست تھے یا وہ تھے جو سرے سے ہجرت ہی نہ کر رہے تھے کہ جہاد کریں ۔ بہرحال بعض حلقے ایسے تھے جو سستی کر رہے تھے اور یہ آیت ایسی ہی صورت حال سے بحث کر رہی ہے ۔ البتہ قرآن اس آیت میں مراد لوگوں کی تخصیص نہ کرتے ہوئے ایک عام قاعدے کے طور پر اصولی بات کرتا ہے ‘ جس کو زمان ومکان اور کسی ایک خاندان کی قید کے اندر مقید نہیں کیا جاتا اور بتاتا ہے کہ یہ اصول ہے کہ ہر دور میں اللہ تعالیٰ اس کا اطلاق اہل اسلام پر کرے گا ‘ کہ جو لوگ بغیر عذر بیماری اور لاچاری کے جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ نہیں لیتے چاہے مالی جہاد ہو یا جانی اور اس کے لئے اگر ہجرت کی ضرورت ہو تو ہجرت نہیں کرتے اور اس کے مقابلے میں جو لوگ ہجرت کرتے ہیں اور جانی اور مالی قربانی دیتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک ایک ہی مقام و مرتبہ کے نہیں ہو سکتے ۔ یہ ایک عام قاعدہ اور عام اصول ہے اور ہر زمان ومکان میں اس کا اطلاق ہوگا ۔ (آیت) ” (لایستوی القعدون من المومنین غیر اولی الضرر والمجھدون فی سبیل اللہ باموالھم وانفسھم (٤ : ٩٥) (مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللہ کی راہ میں جان ومال سے جہاد کرتے ہیں دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے) اللہ تعالیٰ بات کو یہاں مجمل اور مبہم نہیں چھوڑتے بلکہ اسکی بھرپور وضاحت فرماتے ہیں اور یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ جانی اور مالی جہاد کرنے والوں کا درجہ بہت ہی بڑا ہے ۔ (آیت) ” (فضل اللہ المجھدین باموالھم وانفسھم علی القعدین درجۃ) (٤ : ٩٥) (اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان ومال سے جاہد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے) مجاہدین کا جو درجہ اس آیت میں بیان ہوا ہے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنت میں ان کے مقام کی تفصیلات کو بتا کر واضح کیا ہے ۔ صحیحین میں ابو سعید الخدری (رض) کی حدیث میں ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے لئے تیار فرمائے ہیں اور ہر ایک درجے کے درمیان اس قدر مسافت ہے کہ جس طرح زمین اور آسمانوں کے درمیان فاصلہ ہے ۔ اعمش نے عمرو ابن مرہ سے روایت کی ‘ جنہوں نے ابو عبیدہ کے واسطے سے حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) سے روایت فرمائی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے ایک تیر مارا اسے ایک درجے کا اجر ملے گا ۔ تو ایک شخص نے پوچھا کہ حضور ایک درجہ کس قدر ہوگا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ تمہاری ماں کے چوکھٹ یا سیڑھی کے مقدار کے برابر بہرحال نہ ہوگا ۔ دو درجوں کے درمیان سو سال کے سفر کا فاصلہ ہوگا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس مسافت کا ذکر کیا ہے ‘ آج کے دور جدید میں ہم اس کا تصور بڑی سہولت سے کرسکتے ہیں ۔ اس لئے کہ اس کائنات کے اندر ہمارا علم بڑی دوری تک جا پہنچا ہے ۔ ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک روشنی کی رفتار سے بھی فاصلہ کئی نوری سالوں میں طے ہوتا ہے ۔ جو لوگ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات اس وقت سنتے تھے وہ تو (امنا وصدقنا) کہتے تھے لیکن ہم دور جدید کے لوگ تو ان فاصلوں کو ناپ چکے ہیں اور اس کائنات کے دور دراز فاصلوں کو قریب لا چکے ہیں اور عجیب و غریب معلومات سامنے آگئی ہیں ۔ البتہ قرآن مجید میں مجاہدین فی سبیل اللہ کے درجات بلند کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ یہ بھی بتاتے ہیں کہ بغیر کسی عذر ومجبوری کے بیٹھنے والوں کے مقابلے میں اگرچہ مال وجان کے ساتھ جہاد کرنے والوں کے درجے بلند ہیں لیکن (آیت) ” (وکلا وعد اللہ الحسنی) (ہر ایک کے لئے اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے) محروم کوئی بھی نہیں ہے۔ بہرحال ایمان کا اپنی جگہ ایک بنیادی درجہ ہے ۔ ایمان کے تقاضے پورے کرنے والوں کے درجات حسب جدوجہد اور جہاد زیادہ ہیں۔ خصوصا جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کرنے والوں کے درجات سب سے بلند ہیں۔ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ درج بالا آیات میں بیٹھنے والوں سے مراد وہ منافقین نہیں ہیں جو جہاد سے پہلو تہی کرتے تھے یعنی (لمبطئین) البتہ یہ کچھ دوسرے لوگ تھے جو نہایت ہی صالح اور مخلص تھے لیکن جہاد فی المال اور جہاد فی النفس کے پہلو میں کمزور تھے قرآن کریم کی ان آیات میں روئے سخن انہی لوگوں کی جانب ہے ۔ ان کو جوش دلایا جاتا ہے کہ وہ اپنی ان کوتاہیوں کی تلافی کریں ۔ چونکہ ان لوگوں میں بھلائی کا مادہ موجود ہے اس لئے ان سے لبیک کہنے کی امید کی جاسکتی ہے ۔ یہ نوٹ اب ختم ہوتا ہے اور پہلے اصولی قاعدے کو اب پھر دہرایا جاتا ہے ۔ بہت ہی تاکید کے ساتھ ذرا مزید کھول کر اسے بیان کیا جاتا ہے تاکہ اس کے بدلے میں جو عظیم اجر ہے لوگ اس کے لوٹنے کے لئے دوڑیں ۔ (آیت) ”(وفضل المجھدین علی القعدین اجرا عظیما “۔ (٩٥) درجت منہ ومغفرۃ ورحمۃ وکان اللہ غفور رحیما “۔ (٩٦) (٤ : ٩٥۔ ٩٦) ” مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے ان کے لئے اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں اور مغفرت اور رحمت ہے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے) یہ عظیم تاکید ‘ یہ خوبصورت وعدے ‘ مجاہدین کی یہ عظیم قدردانی اور بیٹھنے والوں کے مقابلے میں برتری درجات اور اجر عظیم کے اعلی مراتب کا ذکر جن کے لئے قلوب مومنین مشتاق رہتے ہیں ۔ پھر اللہ کی جانب سے تقصیرات اور گناہوں کی معافی کا یہ اعلان عام ‘ غرض ان تمام باتوں سے دو امور کا اظہار ہوتا ہے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ آیات ایسے حالات میں نازل ہوئیں جو اس وقت اسلامی معاشرے میں عملا موجود تھے اور یہ آیات ان کا مداوا کر رہی تھیں ، اس میں ہمیں ایک عمدہ سبق ملتا ہے وہ یہ کہ ہم انسانی فطرت کا صحیح طرح ادراک کرلیتے ہیں اور ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ انسانی جماعتوں کا مزاج کیا ہوتا ہے ۔ کوئی انسانی جماعت ایمان وعمل میں ‘ تقوی و برتری کے جس مقام پر بھی جاپہنچی ہو بہرحال اس پر ضعف ‘ حرص ‘ بخل اور کمزوریوں کے جو حالات بھی طاری ہوں اور فرائض اور خصوصا جہاد کے فریضے میں اس سے جہاں بھی کوتاہی صادر ہو خواہ یہ کوتاہی جہاد بالمال کی ہو ‘ جہاد بالنفس کی ہو یا فی سبیل اللہ جہاد میں خلوص کی کمی ہو تو ان کوتاہیوں کے ظہور کے وقت اسے تربیت اور اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اسے ضعف ‘ حرص ‘ بخل اور تقصیرات سے پاک کرنے کیلئے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ پالیسی مناسب نہیں ہے کہ ہم مایوس ہو کر اصلاح کے کام کو چھوڑ دیں اور سوسائٹی اپنی موجودہ گراوٹ سے مزید پستی میں گرتی چلی جائے ۔ اور ہم یہ کہہ دیں کہ سوسائٹی کی یہ واقعی صورت حال ہے اور ہمیں چاہئے کہ اسے قبول کرلیں اور معاشرے کے اندر جو ضعف ‘ حرص ‘ لالچ اور کو تاہیاں ہیں انہیں جوں کا توں چھوڑ دیں ۔ اور یہ نعرہ لگائیں کہ یہ تو معاشرے کے اندر موجود صورت حال ہے ۔ معاشرہ گرا ہوا ہے اور اسے اسی حالت میں رکھ کر اس کے ساتھ معاملہ کرنا چاہئے اصل بات یہ ہے کہ ہم معاشرے کے اندر اصلاح کی دعوت جاری رکھیں اور قرآنی منہاج کے مطابق معاشرے کو بلند سے بلند تر کرنے کی سعی کریں ۔ دوسری جو بات ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے ہاں جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کی کیا قدر و قیمت ہے ۔ اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی نظام زندگی کے مزاج کے اندر جہاد فی سبیل اللہ کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ اقامت دین کے طریقوں میں جہاد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ ہر دور میں دین کے مخالفین کا مقابلہ جہاد ہی کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے سوا اور کوئی کامیاب طریقہ نہیں ہے ۔ جہاد فی سبیل اللہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور تک ہی محدود نہیں ہے ۔ جس میں دور میں بھی دعوت اسلامی کا کام شروع ہوگا ‘ جہاد ضروری ہوگا ۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا نہایت ہی غلط ہے کہ آغاز اسلام کے وقت دنیا میں دو بڑی شہنشاہتیں تھیں ‘ اس لئے اس وقت اہل اسلام نے اپنے ماحول سے متاثر ہو کر یہ سوچا کہ ان کے زندہ رہنے کے لئے قوت قاہرہ کی ضرورت ہے تاکہ طاقت کا توازن قائم ہو۔ جو لوگ یہ خیالات رکھتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اسلام کو اچھی طرح نہیں سمجھا ہے اور ان کے یہ خیالات محض ظن وتخمین پر مبنی ہیں ۔ لیکن اگر اسلام میں فریضہ جہاد اسی طرح عارضی حالات کی وجہ سے ہوتا تو کتاب اللہ میں اس کا اس انداز سے بار بار ذکر نہ کیا جاتا اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس کی بار بار تاکید نہ کی جاتی ۔ اگر جہاد اسی طرح ایک وقتی بات تھی تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ نہ فرماتے کہ ” جو شخص مر جائے اور غزانہ کرے اور اس کے دل میں قتال فی سبیل اللہ کی خواہش بھی پیدا نہ ہو تو یہ شخص نفاق کی مختلف حالتوں پر سے ایک حالت میں مرے گا ۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان نہایت ہی عام اور کامل و شامل ہے۔ جامع اور مانع ہے ۔ ہاں یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض انفرادی حالات میں بعض لوگوں کو جہاد کی اجازت نہیں دی اور وہ بھی محض ان کے مخصوص خاندانی حالات کی وجہ سے ۔ صحیحین میں یہ حدیث موجود ہے کہ ایک شخص جہاد میں شمولیت کی غرض سے آیا تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوال کیا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں تو اس نے کہا : ہاں ۔ تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم ان دونوں میں جہاد کرو۔ “ یہ ایک شخص کے لئے اس کے انفرادی حالات کے مطابق فیصلہ تھا اس سے عام قاعدہ مخصوص نہیں ہوتا ۔ پھر لاتعداد مجاہدین کے ہوتے ہوئے ایک شخص کی بعض اوقات ضرورت نہیں ہوتی ۔ ایک فرد سے قلت پیدا نہیں ہوتی ۔ نیز حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ایک شخص کے حالات سے باخبر رہتے تھے ۔ ہوسکتا ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوا ہو کہ اس شخص کے والدین کو سہارے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے یہ ہدایت فرمائی ۔ لہذا اس ایک شخص کی وجہ سے یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ جہاد ایک وقتی عمل تھا ۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور کے ظروف واحوال کے مطابق ضروری تھا اور اب حالات بدل گئے ہیں اس لئے اب جہاد کی ضرورت نہیں ہے جہاد اس لئے فرض نہیں کیا گیا کہ اسلام کی پالیسی ہی یہ ہے کہ ننگی تلوار لے کر نکلو اور کفار سامنے آئیں ان کے سر گاجر مولی کی طرح کاٹتے چلے جاؤ ۔ لیکن لوگوں کی عملی زندگی اور اس دعوت اور تحریک کا مزاج یہی ہے تلوار ہمارے ہاتھ میں ہو اور ہم ہر وقت جہاد کے لئے تیار اور محتاط رہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اسلامی حکومت ایک ایسا نصب العین ہے جسے بادشاہ لوگ پسند نہیں کرتے ۔ اللہ کو یہ بھی معلوم تھا کہ برسراقتدار لوگ ہمیشہ اسلام کی راہ روکیں گے اس لئے کہ اسلام ان کے طریق زندگی اور ان کے نظام زندگی کے خلاف ہے ۔ یہ بات صرف کل تک محدود نہیں ہے ۔ کل بھی اقتدار پر براجمان لوگ اسلامی نظام کو پسند نہ کرتے اور کل بھی اسے پسند نہیں کریں گے ۔ ہر زمان اور ہر مکان میں ایسا ہی ہوگا اور ایسا ہی ہو رہا ہے ۔ اللہ کو علم تھا شر اور بدی ہمیشہ خود سر اور بےحیا ہوتی ہے ۔ بدی کبھی منصف نہیں ہوتی ۔ بدی کا مزاج یہ ہے کہ وہ خیر اور نیکی کو پنپنے نہیں دیتی چاہے نیکی انتہائی پرامن اور دوستانہ طریقہ کار کیوں نہ استعمال کرے اس لئے کہ بھلائی کا پھیلنا ہمیشہ شرک کے لئے خطرناک ہوتا ہے ۔ حق کا وجود ہی باطل کے لئے خطرہ ہوتا ہے اور شر دست درازی کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا ۔ لہذا باطل کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ سچائی کا گلا گھونٹ دے اور اسے قوت کے بل بوتے پر ختم کر دے ۔ یہ شر کی فطرت ہے اور شر پر یہ حالت عارضی طور پر طاری نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شر کی حقیقی فطرت اور طبیعت ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاد فرض کیا گیا ہے ۔ ہر حالت میں جہاد فرض ہے ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ جہاد انسان سب سے پہلے نفس کے خلاف شروع کرے ۔ اس کے بعد اس کا میدان جنگ وسیع ہو اور اس ظاہری دنیا کے واقعات و حالات کے اندر عملا بھی جہاد جاری ہو اور نظر آئے ۔ یاد رہے کہ مسلح شر کے مقابلے میں مسلح خیر کی ضرورت ہے اور اگر باطل کے پاس دفاعی قوت ہے تو حق کو بھی مکمل طور پر تیار ہونا ضروری ہے ۔ اگر باطل کے مقابلے میں تیاری نہ ہوگی تو سچائی خود کشی کرے گی اور اگر خود کشی نہ ہوگی تو محض گپ شپ ہوگی جو مومنین کے شایان شان نہیں ہے ۔ اسلام کی راہ میں جان ومال کی قربانی ضروری ہے ۔ یہی اللہ کا مطالبہ ہے ‘ اور اللہ نیت واہل ایمان کے مال اور جان کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے ۔ یا تو وہ غالب رہیں گے یا درجہ شہادت پائیں گے ۔ یہ ہے ٍٍٍٍٍٍٍاللہ کا حکم اور اسی میں حکمت پوشیدہ ہے ۔ رہے اہل ایمان تو ان کے لئے ان کے رب کے پاس دو اچھے انجام ہیں ۔ لوگ سب کے سب مرتے ہیں جب وقت پورا ہوتا ہے ‘ لیکن شہادت حق وہی ادا کرتے ہیں جو شہید ہوتے ہیں ۔ اس نظریہ حیات میں ایک مرکزی نکتہ ہے ‘ اور اسی نکتے کے اوپر اس کا عملی نظام قائم ہے ‘ اور یہ عملی نظام اپنے مقررہ خطوط پر آگے بڑھتا ہے ۔ اس خط اور مومن کا ایک مزاج ہے اور اس کی دو ٹوک فطرت ہے اور اس کے اندر ظروف واحوال کے لحاظ سے اور زمان ومکان کے اعتبار سے کوئی تغیر نہیں ہوتا ۔ یہ وہ نکتے ہیں جنہیں ایک حقیقی مومن کے تصور کے اندر روشن رہنا چاہئے چاہے حالات جیسے بھی ہوں ۔ انہیں بنیادی نکتوں سے جہاد کا عمل شروع ہوتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات کہی ہے کہ یہ جہاد صرف اللہ کی راہ میں ہے ‘ صرف اللہ کے جھنڈے تلے ہے ‘ اس جہاد کے عمل میں جو مارے جاتے ہیں وہ شہداء ہوتے ہیں اور عالم بالا میں ان کا جنازہ بڑے دھوم سے اٹھتا ہے۔ اب جہاد کے عمل کے مقابلے میں بیٹھ جانے والوں میں سے ایک دوسرے فریق کو اسکرین پر لایا جاتا ہے ۔ یہ لوگ ابھی تک مکہ کے دارالکفر میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ہجرت نہیں کرتے ۔ ان کے کچھ مالی مفادات ہیں ‘ کچھ مصلحتیں ہیں ‘ یا ان کی فطری کمزوری انہیں بٹھائے ہوئے ہے ۔ یہ ہجرت کی مشکلات اور راستے کی تکالیف کے مقابلے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے ۔ اگر وہ قربانی اور مشکلات کو برداشت کرنے کا عزم کرلیں تو وہ ہجرت کرسکتے ہیں ۔ اسکرین پر یہ مکہ ‘ دارالحرب مکہ ‘ کی جگہوں میں یونہی پھرتے ہیں کہ حضرت عزرائیل آگر ان سے ان کا متاع عزیز چھین لیتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی حالت قرآن مجید کے اسکرین پر نہایت ہی خستہ حالت ہے ‘ نہایت ہی قابل نفرت ہے ‘ ہر وہ شخص جو جہاد سے دور بیٹھا ہے ۔ وہ یہ چاہے گا کہ وہ اپنے دین ‘ اپنے نظریہ حیات اور اللہ کے ہاں انجام بد کی اس صورت حال سے دور بھاگے اور اس نہایت ہی کریہہ منظر میں وہ ہر گز کھڑا نظرنہ آئے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 مسلمانوں میں سے اصحاب عذر کے علاوہ وہ لوگ جو گھروں میں بیٹھے رہیں وہ ان مجاہدین کے برابر نہیں ہوسکتے جو اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں یعنی جو لوگ بغیر کسی عذر شرعی کے گھروں میں بیٹھے رہیں وہ ثواب میں اور فضیلت میں ان لوگوں کے برابر نہیں جو اللہ کی راہ میں ا... پنے مال اور اپنی جانیں لڑا کر جہاد کرتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان مجاہدین کا جو اپنے مال اور اپنی جانیں اللہ کی راہ میں لڑاتے ہیں ان بیٹھ رہنے والوں سے درجہ زیادہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجاہدین باموالہم و انفسہم کو قاعدین پر درجہ کے اعتبار سے فضیلت و بزرگی عطا فرمائی ہے۔ ہاں ! جنت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے ہر دو فریق سے کر رکھا ہے یعنی جنت کا وعدہ قاعدین اور مجاہدین دونوں سے ہے لیکن اللہ تعالیٰ مجاہدین کو گھر بیٹھنے والوں کے مقابلہ میں بہت بڑا اجر وثواب عطا فرماتا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ بہت سے درجات ہیں جو مجاہدین کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا ہوں گے اور ان کے گناہوں کی مغفرت ہے اور ان پر رحمت خداوندی کا نزول ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں بدن کے نقصان والے یعنی اپاہج جہاد کے حکم سے معاف ہیں باقی لوگوں میں لڑنے والوں کو بڑے درجے ہیں کہ بیٹھنے والوں کو نہیں اگرچہ بیٹھنے والے بھی جنتی ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جہاد فرض کفایہ ہے فرض عین نہیں یعنی بعضے جہاد کرتے ہیں تو نہ کرنے والے معاف ہیں اور جو سب موقوف کریں تو سب گناہگار ہیں (موضح القرآن) خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ شرعاً معذور ہیں جیسے اندھے، مریض اور اپاہج وغیرہ ان کو چھوڑ کر باقی لوگوں میں سے جہاد کرنے والے اور بیٹھ رہنے والوں کا فرق بیان فرمایا ہے اور مجاہدین کے ان درجات اور فضیلت اور مغفرت و رحمت کا ذکر فرمایا جو قاعدین کو میسر نہ ہوں گے اور چونکہ جہاد فرض کفایہ ہے اس لئے بیٹھنے والے بھی گناہگار نہ ہوں گے البتہ ان درجات اور فضائل سے محروم رہیں گے جو مجاہدین کو نصیب ہوں گے البتہ جنت میں دونوں فریق جائیں گے کیوں جہاد نہ کرنے والے آخر دوسرے احکام تو بجا لاتے ہی ہیں اس لئے وہ بھی جنتی ہیں جس طرح مجاہدین جنتی ہیں۔ ہاں یہ دوسری بات ہے کہ جنت میں کوئی کہاں ہوتا ہے اور کوئی کہاں ہوتا ہے کون بڑے بڑے درجات کا وارث بنتا ہے اور کون کس مقام پر روک دیا جاتا ہے حسنیٰ اچھی چیز اور اچھے گھر کو کہتے ہیں یہاں حضرت قتادہ نے جنت کے ساتھ تفسیر کی ہے۔ زید بن ثابت کا قول ہے کہ جب یہ آیت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھوا رہے تھے تو اسی وقت عبداللہ بن ام مکتوم آ نکلے انہوں نے آ کر عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر میں استطاعت رکھتا تو میں ضرور جہاد کرتا اسی وقت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوئی اور حضرت جبرئیل غیر اولی الضرر کا جملہ لے کر آئے۔ انس بن مالک کی روایت میں ہے کہ یہ ابن مکتوم کے بارے میں نازل ہوا بہرحال اس استثنا میں ہر قسم کے اپاہج اور معذور لوگ داخل ہیں اور اس امر کی توقع ہے کہ جو لوگ معذور ہوں اور ان کی نیت جہاد کی ہو تو ان کو بھی مجاہدین کی مثل ثواب ملے گا۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک غزوے میں فرمایا تھا۔ ان بالمدینۃ رجالا ماقطعتم وادیاولا سرتم مسیراً الا کانوا معکم اولئک قوم حبسھم العذر۔ یعنی کچھ لوگ مدینے میں ہیں لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ تم جو میدان قطع کرتے ہو اور جو تم کہیں چلتے پھرتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کو مدینہ میں کسی عذر نے روک رکھا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث قدسی میں ہے کہ جب کوئی بندہ بیمار ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب تک یہ بندہ بیمار ہے اس کے وہ عمل لکھتے رہو جو یہ صحت کے زمانے میں کیا کرتا تھا یہاں تک کہ یہ تندرست ہوجائے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ معذور جہاد کے ثواب میں تو شریک ہوں گے لیکن وہ فضیلت ان کو نہ ہوگی جو جہاد کرنے والوں کو ہوگی۔ بعض اہل علم نے اس فرق سے بھی انکار کیا ہے۔ واللہ اعلم ہوسکتا ہے کہ مباشر اور عازم دونوں برابر ہوں اور ہوسکتا ہے کہ کمیت ثواب میں فرق ہو۔ پہلے جو درجہ ذکر کیا تھا اسی کی آخر میں تاکید فرمائی اور تفصیل بیان فرمائی کہ وہ درجہ اجر عظیم ہے اور وہ اجر عظیم یہ ہے کہ اعمال مختلفہ پر بہت سے درجات مختلفہ کا حصول موقوف ہے اور مغفرت و رحمت ہے، منہ درجات کے ساتھ متعلق ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مغفرت و رحمت میں بھی اس قید کا لحاظ ہو جیسا کہ بعض مفسرین نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ ان لوگوں کے لئے اللہ کی جانب سے درجات اور مغفرت و رحمت ہے۔ واللہ اعلم۔ ہر چند کہ جہاد کا اصل حکم فرض کفایہ ہے جیسا حضرت شاہ صاحب نے فرمایا ہے لیکن بعض اوقات میں یہ فرض عبن ہوجاتا ہے جس کی تفصیل کتب فقہ سے معلوم ہوسکتی ہے۔ اب آگے جہاد کی مناسبت سے ہجرت کا ذکر فرماتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)  Show more