Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 99

سورة النساء

فَاُولٰٓئِکَ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّعۡفُوَ عَنۡہُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوۡرًا ﴿۹۹﴾

For those it is expected that Allah will pardon them, and Allah is ever Pardoning and Forgiving.

بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی ان سے درگُزر کرے ، اللہ تعالٰی درگُزر کرنے والا اور معاف فرمانے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأُوْلَـيِكَ عَسَى اللّهُ أَن يَعْفُوَ عَنْهُمْ ... These are they whom Allah is likely to forgive them, means, pardon them for not migrating, and here, `likely' means He shall, ... وَكَانَ اللّهُ عَفُوًّا غَفُورًا and Allah is Ever Oft-Pardoning, Oft-Forgiving. Al-Bukhari recorded that Abu Hurayrah said, "While the Messenger of Allah was praying `Isha', he said, `Sami` Allahu Liman Hamidah.' He then said before he prostrated, اللَّهُمَّ أَنْجِ عَيَّاشَ بْنَ أبِي رَبِيعَةَ اللَّهُمَّ أَنْجِ سَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ اللَّهُمَّ أَنْجِ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْمُوْمِنِينَ اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا سِنِينَ كَسِنِي يُوسُف O Allah! Save Ayyash bin Abi Rabi`ah. O Allah! Save Salamah bin Hisham. O Allah! Save Al-Walid bin Al-Walid. O Allah! Save the weak Muslims. O Allah! Be very hard on Mudar tribe. O Allah! Afflict them with years (of famine) similar to the (famine) years of the time of Prophet Yusuf.)" Al-Bukhari recorded that Abu An-Nu`man said that Hammad bin Zayd said that Ayub narrated that Ibn Abi Mulaykah said that Ibn Abbas commented on the verse, إِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِينَ (Except the weak ones among men), "I and my mother were among those (weak ones) whom Allah excused." Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاُولٰۗىِٕكَ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّعْفُوَ عَنْھُمْ ۭ : اللہ تعالیٰ کے لیے ” عسیٰ “ کا لفظ یقین کے لیے ہوتا ہے، اس لیے اگر کوئی شخص واقعی ہجرت نہیں کرسکتا، وہ کفار کی قید میں ہے، یا اسے راستے کا علم نہیں، یا اس کے پاس زاد راہ نہیں، غرض کوئی بھی صحیح عذر ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائے گا مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے امید کے انداز ہو بات کرنے میں حکمت بھی ہے کہ بندے بےخوف نہ ہوجائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاُولٰۗىِٕكَ عَسَى اللہُ اَنْ يَّعْفُوَعَنْھُمْ۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ عَفُوًّا غَفُوْرًا۝ ٩٩ عسی عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] ، أي : کونوا راجین ( ع س ی ) عسیٰ کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے عفو فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٩ (فَاُولٰٓءِکَ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْہُمْ ط وَکَان اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوْرًا ) ایسے بےبس اور لاچار مردوں ‘ بچوں اور عورتوں کے لیے اسی سورة (آیت ٧٥) میں حکم ہوا تھا کہ ان کے لیے قتال فی سبیل اللہ کرو اور انہیں جا کر چھڑاؤ۔ لیکن جو لوگ ہجرت کے اس واضح حکم کے بعد بھی بغیر عذر کے بیٹھے رہے ہیں ان کے بارے میں مسلمانوں کو بتایا گیا کہ وہ منافق ہیں ‘ ان سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ‘ جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں۔ بلکہ قتال کے معاملے میں وہ بالکل کفار کے برابر ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اوپر ترک ہجرت پر وعید تھی آگے ہجرت کی ترغیب اور اس پر سعادت دارین کا وعدہ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (فَاُولٰٓءِکَ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْھُمْ وَکَان اللّٰہُ عَفُوًّا غَفُوْراً ) کہ اللہ جل شانہ ان مستضعفین مغلوبین پھنسے ہوئے لوگوں کو معاف فرما دے گا وہ معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے۔ صاحب روح المعانی صفحہ ١٢٧: ج ٥ میں لکھتے ہیں کہ اس میں یہ بتایا ہے کہ ہجرت کا چھوڑ دینا بڑے خطرہ کی چیز ہے یہاں تک کہ مجبور حال جس پر ہجرت فرض نہیں اس کا ہجرت چھوڑ دینا بھی اس درجے میں ہے کہ اس کو گناہ شمار کرلیا جائے کیونکہ معافی گناہ سے متعلق ہوتی ہے، ایسے مجبور حال کو بھی چاہیے کہ موقعہ کی تلاش میں رہے اور اس کا دل ہجرت کے خیال میں لگا رہے۔ جیسے ہی موقع ملے روانہ ہوجائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 لہٰذا ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے کچھ بعید نہیں کہ وہ ان سے در گزر فرمائے اور امید ہے کہ ان کو معاف کر دے اور اللہ بہت معاف کرنے والا بڑا بخشنے والا ہے (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ حال فرمایا ان کا جو کافروں کے ملک میں دل سے مسلمان ہیں اور ظاہر نہیں ہوسکتے ان کے ظلم سے تو اگر اپنی کمائی آپ کرتے ہیں اور سفر کی تدبیر سے واقف ہیں تو ان کا عذر قبول نہیں اور ملک میں جا رہیں۔ زمین اللہ کی کشادہ ہے اور اگر ناچار ہیں پرائے بس میں تو امید ہے معاف ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس ملک میں مسلمان کھلا نہ رہ سکے وہاں سے ہجرت فرض ہے ۔ (موضح القرآن) یہاں جن لوگوں کو مستثنیٰ فرمایا تھا ظاہر ہے کہ وہ گناہ گار نہ تھے پھر بھی ان کے لئے معافی کا اعلان فرمانا امر ہجرت کی تاکید ہے تاکہ یہ بات سمجھی جائے کہ جب معذورین کو بھی معافی کی ضرورت ہے تو غیر معذورین کا کیا حال ہوگا یا معافی سے ترک ہجرت کے گناہ ہونے پر اشارہ کرنا مقصود ہو اور یہ بتانا ہو کہ یہ فعل فی نفہ بہت برا ہے اگرچہ کسی کے حق میں اس کا گناہ لکھا نہ جائے اور اس کے حق میں یہ گناہ گناہ قرار نہ دیا جائے کہیں ن لکھنے سے اس کو تعبیر کیا جاتا ہے اور کہیں معافی سے اس کو تعبیر کیا جاتا ہے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ترک ہجرت حقیقتاً تو بہت بڑا گناہ ہے گو معذورین کے حق میں یہ گناہ گناہ نہیں ہے اور ان کے حق میں قابل عفو ہے۔ رہی یہ بات کہ عسی اللہ کیوں فرمایا۔ عسی تو ترجی کے لئے ہوتا ہے، جیسا کہ ہم نے ترجمہ میں اللہ سے کچھ بعید نہیں اور تیسیر میں امید ہے، لکھا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عسی قرآن میں جہاں کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے وہاں وہ وجوب اور یقین کے لئے ہوتا ہے ، دوسرا جواب یہ ہے کہ بادشاہوں کی اصطلاح میں امید کا کلمہ یقین کے طور پر عام لوگوں کے لئے ہوا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ تو ملک الملوک ہے اس کا عسی فرمانا یقین کے قائم مقام بالا ولیٰ ہونا چاہئے۔ (واللہ اعلم) آیت وجوب ہجرت پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ حضرت شاہ صاحب نے فرمایا ہے اور ہجرت کی فضیلت میں بکثرت احادیث وارد ہیں اور سیاسی نقطہ نگاہ سے بھی ابتداء اسلام میں یہ چیز بہت ضروری تھی علاوہ اس کے کہ کفار مسلمانوں پر انواع و اقسام کے ظلم کرتے تھے ان کو زبردستی اپنی فوج میں شامل کر کے میدان جنگ میں بھی لے جاتے تھے اور جب وہ عذر کرتے تھے کہ ہم مسلمان ہیں مسلمانوں پر تلوار نہیں اٹھا سکتے تو ان سے کہتے تھے تم لڑنا نہیں مگر تم کو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا اور اس ہمراہ لے جانے سے مقصد یہ ہوتا تھا کہ ہماری تعداد زیادہ معلوم ہوگی اور مسلمان مرعوب ہوں گے۔ اور اس ہمراہ لے جانے سے مقصد یہ ہوتا تھا کہ ہماری تعداد زیادہ معلوم ہوگی اور مسلمان مرعوب ہوں گے، اس لئے مسلمانوں پر ہجرت کو لازمی قرار دیا گیا کہ مسلمان دار الاسلام کی طرف چلے آئیں تاکہ مشرکین کی تعداد بڑھانے کا موجب نہ ہوں۔ اب آگے ہجرت کی اور ترغیب وتحریض مذکور ہے اور یہ بتانا مقصود ہے کہ جب ہجرت کے ارادے سے کوئی شخص نکل آئے تو راہ کے موانع اس کے اجر وثواب کو کم نہیں کرتے۔ جیسا کہ جندع بن خمرہ کا واقعہ روایات میں آتا ہے کہ وہ باوجود مریض ہونے اور بیمار ہونے کے نکل چلے اور چونکہ جندع بہت بوڑھے تھے اس لئے ان کو چار پائی پر ڈال کرلے چلے لیکن تنعیم تک پہنچے تھے کہ ان کا انتقال ہوگیا جب یہ خبر مدینہ پہنچی تو مسلمانوں نے کہا لودافی المدینۃ لکان اتم واردنی اجراً یعنی اگر مدینہ پہنچ جاتا تو مرنے والے کو پورا اجر وثواب ملتا اور مشرکین نے کہا۔ ماادرک ما طلب یعنی جو مطلوب تھا وہ کھو بیٹھا اور اس کو پانہ سکا یا اسی طرح کا واقعہ خمر بن جندب کا بیان کیا جاتا ہے کہ ان کا بھی راستے میں انتقال ہوگیا تھا یا خالد بن حرام کا واقعہ ہو کر وہ ہجرت کر کے حبشہ جا رہے تھے راستے میں ایک سانپ کے کاٹنے سے موت واقع ہوگئی بہرحال کسی ایک شخص کے ساتھ یا چند اشخاص کے ساتھ ایسا ہوا ہوگا کیونکہ موت کا وقت تو معین نہیں اور صد ہا آدمیوں نے ہجرت کی تھی اور بعض بھی ہوں گے جنہوں نے منزل مقصود پر پہنچنے سے قبل ہی داعی اجل کو لبیک کہا ہوگا چونکہ آیت مدنی ہے اس لئے بعض مفسرین نے خالد بن حرام کے واقعہ سے اس کے تعلق کا انکار کیا ہے لیکن شان نزول خواہ کسی کے حق میں ہو بہتر یہی ہے کہ اس کو عام رکھا جائے بہرحال جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے۔ آگے کی آیت کا مقصد ترغیب اور ثواب کی تکمیل ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)