Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 10

سورة مومن

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُنَادَوۡنَ لَمَقۡتُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ مِنۡ مَّقۡتِکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ اِذۡ تُدۡعَوۡنَ اِلَی الۡاِیۡمَانِ فَتَکۡفُرُوۡنَ ﴿۱۰﴾

Indeed, those who disbelieve will be addressed, "The hatred of Allah for you was [even] greater than your hatred of yourselves [this Day in Hell] when you were invited to faith, but you refused."

بیشک جن لوگوں نے کفر کیا انہیں یہ آواز دی جائے گی کہ یقیناً اللہ کا تم پر غصہ ہونا اس سے بہت زیادہ ہے جو تم غصہ ہوتے تھے اپنے جی سے جب تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے پھر کفر کرنے لگتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Regret of the Disbelievers after They enter Hell Allah tells; إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنَادَوْنَ ... Those who disbelieve will be addressed: Allah tells us that the disbelievers will feel regret on the Day of Resurrection, when they enter Hell and sink in the agonizing depth of fire. When they actually experience the unbearable punishment of Allah, they will hate themselves with the utmost hatred, because of the sins they committed in the past, which were the cause of their entering the Fire. At that point the angels will tell them in a loud voice that Allah's hatred towards them in this world, when Faith was offered to them and they rejected it, is greater than their hatred towards themselves in this situation. Qatadah said, concerning the Ayah: ... لَمَقْتُ اللَّهِ أَكْبَرُ مِن مَّقْتِكُمْ أَنفُسَكُمْ إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَى الاِْيمَانِ فَتَكْفُرُونَ Indeed, Allah's aversion was greater towards you than your aversion toward yourselves, when you were called to the Faith but you used to refuse. "Allah's hatred for the people of misguidance -- when Faith is presented to them in this world, and they turn away from it and refuse to accept it -- is greater than their hatred for themselves when they see the punishment of Allah with their own eyes on the Day of Resurrection." This was also the view of Al-Hasan Al-Basri, Mujahid, As-Suddi, Dharr bin Ubaydullah Al-Hamdani, Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam and Ibn Jarir At-Tabari, may Allah have mercy on them all.

کفار کی دوبارہ زندگی کی لاحاصل آرزو ۔ قیامت کے دن جبکہ کافر آگ کے کنوؤں میں ہوں گے اور اللہ کے عذابوں کو چکھ چکے ہوں گے اور تمام ہونے والے عذاب نگاہوں کے سامنے ہوں گے اس وقت خود اپنے نفس کے دشمن بن جائیں گے اور بہت سخت دشمن ہو جائیں گے ۔ کیونکہ اپنے برے اعمال کے باعث جہنم واصل ہوں گے ۔ اس وقت فرشتے ان سے بہ آواز بلند کہیں گے کہ آج جس قدر تم اپنے آپ سے نالاں ہو اور جتنی دشمنی تمہیں خود اپنی ذات سے ہے اور جس قدر تم آج اپنے تئیں کہہ رہے ہو اس سے بہت زیادہ برے اللہ کے نزدیک تم دنیا میں تھے جبکہ تمہیں اسلام و ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم اسے مانتے نہ تھے ، اس کے بعد کی آیت ( كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 28؀ ) 2- البقرة:28 ) کے ہے ۔ سدی فرماتے ہیں یہ دنیا میں مار ڈالے گئے پھر قبروں میں زندہ کئے گئے اور جواب سوال کے بعد مار ڈالے گئے پھر قیامت کے دن زندہ کر دیئے گئے ۔ ابن زید فرماتے ہیں حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے روز میثاق کو زندہ کئے گئے پھر ماں کے پیٹ میں روح پھونکی گئی پھر موت آئی پھر قیامت کے دن جی اٹھے ۔ لیکن یہ دونوں قول ٹھیک نہیں اس لئے کہ اس طرح تین موتیں اور تین حیاتیں لازم آتی ہیں اور آیت میں دو موت اور دو زندگی کا ذکر ہے ، صحیح قول حضرت ابن مسعود حضرت ابن عباس اور ان کے ساتھیوں کا ہے ۔ ( یعنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کی ایک زندگی اور قیامت کی دوسری زندگی ، پیدائش دنیا سے پہلے کی موت اور دنیا سے رخصت ہونے کی موت یہ دو موتیں اور دو زندگیاں مراد ہیں ) مقصود یہ ہے کہ اس دن کافر اللہ تعالیٰ سے قیامت کے میدان میں آرزو کریں گے کہ اب انہیں دنیا میں ایک مرتبہ اور بھیج دیا جائے جیسے فرمان ہے ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ 12 ؀ ) 32- السجدة:12 ) ، تو دیکھے گا کہ گنہگار لوگ اپنے رب کے سامنے سرنگوں ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ اللہ ہم نے دیکھ سن لیا اب تو ہمیں پھر دنیا میں بھیج دے تو نیکیاں کریں گے اور ایمان لائیں گے ۔ لیکن ان کی یہ آرزو قبول نہ فرمائی جائے گی ۔ پھر جب عذاب و سزا کو جہنم اور اس کی آگ کو دیکھیں گے اور جہنم کے کنارے پہنچا دئے جائیں گے تو دوبارہ یہی درخواست کریں گے اور پہلی دفعہ سے زیادہ زور دے کر کہیں گے جیسے ارشاد ہے ( ولو تری اذوقفوا علی النار ) یعنی کاش کے تو دیکھتا جبکہ وہ جہنم کے پاس ٹھہرا دیئے گئے ہوں گے کہیں گے کاش کے ہم دنیا کی طرف لوٹائے جاتے اور اپنے رب کی باتوں کو نہ جھٹلاتے اور با ایمان ہوتے ، بلکہ ان کے لئے وہ ظاہر ہو گیا جو اس سے پہلے وہ چھپا رہے تھے اور بالفرض یہ واپس لوٹائے بھی جائیں تو بھی دوبارہ یہ وہی کرنے لگیں گے جس سے منع کئے گئے ہیں ۔ یہ ہیں ہی جھوٹے ۔ اس کے بعد جب انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور عذاب شروع ہو جائیں گے اس وقت اور زیادہ زور دار الفاظ میں یہی آرزو کریں گے وہاں چیختے چلاتے ہوئے کہیں گے ( رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ 37؀ۧ ) 35- فاطر:37 ) ، اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال دے ہم نیک اعمال کرتے رہیں گے ان کے خلاف جو اب تک کرتے رہے جواب ملے گا کہ کیا ہم نے انہیں اتنی عمر اور مہلت نہ دی تھی کہ اگر یہ نصیحت حاصل کرنے والے ہوتے تو یقینا کر سکتے ۔ بلکہ تمہارے پاس ہم نے آگاہ کرنے والے بھی بھیج دیئے تھے اب اپنے کرتوت کا مزہ چکھو ظالموں کا کوئی مددگار نہیں کہیں گے کہ اللہ ہمیں یہاں سے نکال دے اگر ہم پھر وہی کریں تو یقینا ہم ظالم ٹھہریں گے ۔ اللہ فرمائے گا دور ہو جاؤ اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو ۔ اس آیت میں ان لوگوں نے اپنے سوال سے پہلے ایک مقدمہ قائم کر کے سوال میں ایک گونہ لطافت کر دی ہے ، اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کو بیان کیا کہ باری تعالیٰ ہم مردہ تھے تو نے ہمیں زندہ کر دیا پھر مار ڈالا پھر زندہ کر دیا ۔ پھر تو ہر اس چیز پر جسے تو چاہے قادر ہے ۔ ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے یقینا ہم نے اپنی جانوں پر ظلم و زیادتی کی اب بچاؤ کی کوئی صورت بنا دے ۔ یعنی ہمیں دنیا کی طرف پھر لوٹا دے جو یقینا تیرے بس میں ہے ہم وہاں جا کر اپنے پہلے اعمال کے خلاف اعمال کریں گے اب اگر ہم وہی کام کریں تو بیشک ہم ظالم ہیں ۔ انہیں جواب دیا جائے گا کہ اب دوبارہ دنیا میں جانے کی کوئی راہ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اگر دوبارہ چلے بھی جاؤ گے تو پھر بھی وہی کرو گے جس سے منع کئے گئے ۔ تم نے اپنے دل ہی ٹیڑھے کر لئے ہیں تم اب بھی حق کو قبول نہ کرو گے بلکہ اس کے خلاف ہی کرو گے ۔ تمہاری تو یہ حالت تھی کہ جہاں اللہ واحد کا ذکر آیا وہیں تمھارے دل میں کفر سمایا ۔ ہاں اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے تو تمہیں یقین و ایمان آ جاتا تھا ۔ یہی حالت پھر تمہاری ہو جائے گی ۔ دنیا میں اگر دوبارہ گئے تو پھر بھی یہی کرو گے ۔ پس حاکم حقیقی جس کے حکم میں کوئی ظلم نہ ہو سرا سر عدل و انصاف ہی ہو وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جسے چاہے ہدایت دے جسے چاہے نہ دے جس پر چاہے رحم کرے جسے چاہے عذاب کرے اس کے حکم وعدل میں کوئی اس کا شریک نہیں ۔ وہ اللہ اپنی قدرتیں لوگوں پر ظاہر کرتا ہے ۔ زمین و آسمان میں اس کی توحید کی بیشمار نشانیاں موجود ہیں ۔ جن سے صاف ظاہر ہے کہ سب کا خالق سب کا مالک سب کا پالنہار اور حفاظت کرنے والا وہی ہے ۔ وہ آسمان سے روزی یعنی بارش نازل فرماتا ہے جس سے ہر قسم کے اناج کی کھیتیاں اور طرح طرح کے عجیب عجیب مزے کے مختلف رنگ روپ اور شکل وضع کے میوے اور پھل پھول پیدا ہوتے ہیں حالانکہ پانی ایک زمین ایک ۔ لہذا اس سے بھی اس کی شان ظاہر ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ عبرت و نصیحت فکر و غور کی توفیق ان ہی کو ہوتی ہے جو اللہ کی طرف رغبت و رجوع کرنے والے ہوں ، اب تم دعا اور عبادت خلوص کے ساتھ صرف اللہ واحد کی کیا کرو ۔ مشرکین کے مذہب و مسلک سے الگ ہو جاؤ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر فرض کے سلام کے بعد یہ پڑھتے تھے ۔ ( لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر ) اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر نماز کے بعد انہیں پڑھا کرتے تھے ۔ ( مسند احمد ) یہ حدیث مسلم ابو داؤد وغیرہ میں بھی ہے ابن ابی حاتم میں ہے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کرو اور قبولیت کا یقین کامل رکھو اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بےپرواہ اور دوسری طرف کے مشغول دل کی دعا نہیں سنتا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 مقت سخت ناراضی کو کہتے ہیں اہل کفر جو اپنے کو جہنم کی آگ میں جھلستے دیکھیں گے تو اپنے آپ پر سخت ناراض ہونگے، اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں جب تمہیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم انکار کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہیں زیادہ تم پر ناراض ہوتا تھا جتنا تم آج اپنے آپ پر ہو رہے ہو۔ یہ اللہ کی اس ناراضی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج تم جہنم میں ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] یعنی جب دیکھیں گے کہ جن چیزوں کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے وہ تو ایک حقیقت بن کر سامنے آگئی ہے اور جس طرح بےراہ روی کی زندگی انہوں نے گزاری ہوگی اور مومنوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے لئے انہوں نے جو جو ہتھکنڈے استعمال کئے تھے۔ ان سب چیزوں کا ایک ایک کرکے انہیں بدلہ دیا جانے والا ہے۔ تو وہ اپنے ہاتھ اپنے دانتوں میں چبائیں گے اور انہیں اپنے آپ پر غصہ آئے گا کہ ہم نے کیوں ایسی سرکشی کی راہ اختیار کی تھی۔ اس وقت انہیں فرشتے پکار کر کہیں گے کہ آج جس قدر تمہیں اپنے آپ پر غصہ آرہا ہے اللہ تعالیٰ کو تم پر اس وقت اس سے بھی زیادہ غصہ آتا تھا جب رسول تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتے اور اس کی آیات پڑھ کر سناتے تھے لیکن تم پہلے تو سنتے ہی نہ تھے اور اگر سنتے تھے تو مانتے نہیں تھے اور ان کا مذاق اڑانے لگتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ان الذین کفروا ینادون …:” مقت “ شدید غصے اور ناراضی کو کہتے ہیں۔ ” ینادون “ ” انہیں پکار کر کہا جائے گا “ انہیں کون پکارے گا ؟ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے نہیں کیا۔ ظاہر ہے انہیں یہ کہنے والا اللہ تعالیٰ خود ہوسکتا ہے یا جہنم پر مقرر فرشتے ہوسکتے ہیں۔ اس سے پہلی آیت میں ایمان والوں کے ساتھ فرشتوں کے سلوک کا ذکر گزرا ہے کہ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کیساتھ ایمان والوں کے لئے استغفار اور وہ دعائیں کرتے ہیں جن کا ذکر اوپر گزرا ہے۔ اب ایمان والوں کے بعد کفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کے سلوک کا ذکر ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے اعمال دیکھیں گے تو اپنے آپ پر شدید غصے ہوں گے، اس وقت فرشتے انہیں پکار کر کہیں گے :(لمقت اللہ اکبر) کہ اب تمہیں جہنم میں جلتے ہوئے اپنے آپ پر جتنا شدید غصے ہوں گے، اس وقت فرشتے انہیں پکار کر کہیں گے :(لمقت اللہ اکبر) کہ اب تمہیں جہنم میں جلتے ہوئے اپنے آپ پر جتنا شدید غصہ آرہا ہے، یقین جانو ! دنیا میں جب تمہیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم کفر کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ کو تم پر اس سے بھی شدید غصہ آتا تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر جو لوگ کافر ہوئے (وہ جب دوزخ میں جا کر اپنے شرک و کفر اختیار کرنے پر حسرت و افسوس کریں گے اور خود ان کو اپنے سے سخت نفرت ہوگی یہاں تک غصہ کے مارے اپنی انگلیاں کاٹ کاٹ کر کھاویں گے۔ جیسا کہ درمنثور میں حضرت حسن سے روایت ہے۔ اس وقت) ان کو پکارا جاوے گا کہ جیسی تم کو (اس وقت) اپنے سے نفرت ہے، اس سے بڑھ کر خدا کو (تم سے) نفرت تھی جبکہ تم (دنیا میں) ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے پھر (بلانے کے بعد) تم نہیں مانا کرتے تھے (مقصود اس سے ان کی حسرت و ندامت میں اور زیادتی کرنا ہے) وہ لوگ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار (ہم جو دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کیا کرتے تھے اب ہم کو اپنی غلطی معلوم ہوگئی۔ چناچہ دیکھ لیا کہ) آپ نے ہم کو دو مرتبہ مردہ رکھا (ایک مرتبہ پیدائش سے پہلے کہ ہم بےجان مادہ کی صورت میں تھے اور دوسری مرتبہ اس عالم میں آنے اور زندہ ہونے کے بعد متعارف موت سے مردہ ہوئے) اور دو مرتبہ زندگی دی (ایک دنیا کی زندگی اور دوسری آخرت کی زندگی۔ یہ چار حالتیں ہیں جن میں سے انکار تو صرف ایک یعنی آخرت کی زندگی کا تھا مگر باقی تین حالتوں کا ذکر اس لئے کردیا کہ وہ یقینی تھیں اور اس اقرار کا مقصد یہ تھا کہ اب چوتھی قسم بھی پہلی تین کی طرح یقینی ہوگئی) سو ہم اپنی خطاؤں کا (جن میں اصل مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا انکار تھا، باقی سب اسی کی فروع تھیں) اقرار کرتے ہیں تو کیا (یہاں سے) نکلنے کی کوئی صورت ہے (کہ دنیا میں پھر جا کر ان خطاؤں کا تدارک کرلیں۔ جواب میں ارشاد ہوگا کہ تمہارے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی بلکہ ہمیشہ یہیں رہنا ہوگا۔ اور) وجہ اس کی یہ ہے کہ جب صرف اللہ کا نام لیا جاتا تھا (یعنی توحید کا ذکر ہوتا تھا) تو تم انکار کیا کرتے تھے اور اگر اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جاتا تھا تو تم مان لیتے تھے اس لئے یہ فیصلہ اللہ کا (کیا ہوا) ہے جو عالیشان (اور) بڑے مرتبے والا ہے (یعنی چونکہ اللہ تعالیٰ کے علو و کبریاء کے اعتبار سے یہ جرم عظیم تھا اس لئے فیصلہ میں سزا بھی عظیم ہوئی یعنی دائمی جہنم)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللہِ اَكْبَرُ مِنْ مَّقْتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ اِذْ تُدْعَوْنَ اِلَى الْاِيْمَانِ فَتَكْفُرُوْنَ۝ ١٠ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ندا النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر : 435- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال : فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف . ( ن د ی ) الندآ ء کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔ مقت المَقْتُ : البغض الشدید لمن تراه تعاطی القبیح . يقال : مَقَتَ مَقاتَةً فهو مَقِيتٌ ، ومقّته فهو مَقِيتٌ ومَمْقُوتٌ. قال تعالی: إِنَّهُ كانَ فاحِشَةً وَمَقْتاً وَساءَ سَبِيلًا [ النساء/ 22] وکان يسمّى تزوّج الرّجل امرأة أبيه نکاح المقت، وأما المقیت فمفعل من القوت، وقد تقدّم ( م ق ت ) المقت کے معنی کسی شخص کو فعل قبیح کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھ کر اس سے بہت بغض رکھتے کے ہیں ۔ یہ مقت مقاتۃ فھو مقیت ومقتہ فھو مقیت وممقوت سے اسم سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ یہ نہایت بےحیائی اور ( خدا کی ) ناخوشی کی بات تھی اور بہت برا دستور تھا ۔ جاہلیت میں اپنے باپ کی بیوہ سے شادی کرنے کو نکاح المقیت کہا جاتا تھا ۔ المقیت کی اصل قوۃ ہے جس کی تشریح پہلے گزر چکی ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کی کتابوں اور رسولوں کا انکار کیا جب وہ دوزخ میں جاکر حسرت اور اپنے نفس کو ملامت کریں گے تو ان سے فرشتے کہیں گے کہ جیسی اس وقت تمہیں اپنے آپ سے نفرت ہے اس سے بڑھ کر جبکہ تم دنیا میں تھے اللہ کو تم سے نفرت تھی جبکہ تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے اور تم نہیں مانا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

گزشتہ آیات میں مومنین ِصادقین کے حالات کا نقشہ دکھایا گیا ہے کہ قیامت کے دن حاملین ِعرش ملائکہ ان کی مغفرت کے لیے دعائیں کر رہے ہوں گے۔ نہ صرف ان کے لیے بلکہ وہ ان کے آباء و اَجداد اور اہل و عیال کے لیے بھی سفارش کریں گے کہ ان میں سے اگر کوئی جنت کے نچلے درجے میں ہے تو اے پروردگار ! تو اس کے درجات کو بھی بلند فرما دے تاکہ وہ اپنے ان عزیز و اقارب کے ساتھ مل جائے جنہیں بلند تر درجات عطا ہوئے ہیں۔ اب ان آیات میں اس کے برعکس کفار و مشرکین کے حالات کا منظر دکھایا جا رہا ہے : آیت ١٠ { اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللّٰہِ اَکْبَرُ مِنْ مَّقْتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ } ” جن لوگوں نے کفر کیا تھا انہیں پکارا جائے گا کہ آج تم جس قدر اپنی جانوں سے بےزار ہوگئے ہو اللہ کی بیزاری تم سے اس سے کہیں بڑھ کر تھی “ { اِذْ تُدْعَوْنَ اِلَی الْاِیْمَانِ فَتَکْفُرُوْنَ } ” جب تمہیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم کفر کرتے تھے۔ “ آج عذاب کی حالت میں تمہاری جان پر بنی ہوئی ہے اور تم اپنی جانوں سے بیزار ہو کر موت کی دعائیں کر رہے ہو۔ مگر یاد کرو وہ وقت جب اللہ کا رسول تمہیں اللہ کی طرف اور قرآن کی طرف بلا رہا تھا اور تمہیں ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ دکھا رہا تھا تو تم مسلسل انکار کیے جا رہے تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ تم سے جس قدر بیزاری محسوس کر رہا تھا وہ تمہاری اس بیزاری سے کہیں زیادہ تھی جو تم لوگ آج اپنی جانوں سے محسوس کر رہے ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14 That is, "When the disbelievers will see on the Day of Resurrection that they had committed a grave folly by founding their entire life-work on polytheism and atheism, denial of the Hereafter and opposition to the Messenger, and due to the folly they were now doomed to that evil end, they will bite at their fingers and will curse themselves fretfully. At that time the angels will proclaim to them: "Today you are being angry with yourselves, but in the world when the Prophets of Allah and the other good people invited you to the right path to save you from this evil end, you turned down their invitation, Allah's wrath against you then was even greater. "

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :14 یعنی کفار جب قیامت کے روز دیکھیں گے کہ انہوں نے دنیا میں شرک و دہریت ، انکار آخرت اور رسولوں کی مخالفت پر اپنے پورے کارنامۂ حیات کی بنیاد رکھ کر کتنی بڑی حماقت کی ہے ، اور اس حماقت کی بدولت اب وہ کس انجام بد سے دوچار ہوئے ہیں ، تو وہ اپنی انگلیاں چبائیں گے اور جھنجھلا جھنجھلا کر اپنے آپ کو خود کوسنے لگیں گے ۔ اس وقت فرشتے ان سے پکار کر کہیں گے کہ آج تو تمہیں اپنے اوپر بڑا غصہ آ رہا ہے ، مگر کل جب تمہیں اس انجام سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور دوسرے نیک لوگ راہ راست کی طرف دعوت دیتے تھے اور تم ان کی دعوت کو ٹھکراتے تھے اس وقت اللہ تعالیٰ کا غضب اس سے زیادہ تم پر بھڑکتا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: یہ بات اس وقت کہی جائے گی جب کافر لوگ دوزخ میں پہنچ کر عذاب میں مبتلا ہوں گے، اور اس وقت وہ خود اپنے آپ سے نفرت کریں گے کہ ہم نے دنیا میں کفر کا راستہ کیوں اختیار کیا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠۔ ١٢۔ اوپر ذکر تھا کہ جو لوگ شیطان کی پیروی کریں گے ان سے اور شیطان سے دوزخ کو بھرا جائے گا ان آیتوں میں ارشاد ہے کہ جب ایسے لوگ دوزخ میں جھونک دیئے جائیں گے تو دوزخ کے عذاب سے تنگ آ کر یہ لوگ ان باتوں سے بہت بیزاری ظاہر کریں گے جن باتوں کو دنیا میں بڑی خوشی سے کرتے تھے۔ ان لوگوں کا یہ حال دیکھ کر ان کو قائل کرنے کے لئے اللہ کے فرشتے پکار پکار کر ان سے کہیں گے کہ بےوقت کی اس بیزاری سے اب کیا ہوتا ہے دنیا میں جب تم کو قرآن کے موافق فرمانبرداری کی نصیحت کی جاتی تھی اور تم سرکشی سے اس کو نہیں مانتے تھے اللہ تعالیٰ تمہاری اس سرکشی سے بہت بیزار تھا۔ یہ عذاب اللہ تعالیٰ کی اس بیزاری کا نتجیہ ہے اب یہ عذاب کسی طرح نہیں ٹل سکتا۔ فرشتوں کی یہ جھڑکی سن کر دوزخی لوگ اللہ سے عرض کریں گے یا اللہ تو موت دے چکا ہم کو دو دفعہ اور زندگی دے چکا دو دفعہ پیدا ہونے سے پہلے ہم بالکل بےجان تھے تو نے ہم کو پیدا کیا پھر ہم جاندار ہوئے پھر عمر پوری ہوجانے کے بعد تو نے ہم کو بےجان کیا اور حساب و کتاب اور سزا و جزا کے لئے دوبارہ زندہ کیا اس لئے حشر کے انکار کے جرم کا اور باقی سب جرموں کا اب ہم کو اقرار ہے اگر دوبارہ ہم کو دنیا میں بھیج دیا جائے تو ہم حشر کے اقرار پر قائم رہیں گے اور حشر کے سامان کے لئے نیک کام کریں گے اس کا جواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ملے گا کہ پہلی دفعہ جو تم لوگوں کو پیدا کیا تو تمہارا دنیا میں یہ حال تھا کہ خالص اللہ کا نام لینے سے تم کو نفرت تھی اور بتوں پر تمہارا ایمان تھا اب اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں یہ بات قرار پاچکی ہے کہ اگر تم کو دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے تو تم وہی کرو گے جو پہلی دفعہ کر کے آئے اس واسطے تم کو دوبارہ دنیا میں بھیجنا لاحاصل ہے بلکہ اللہ بلند مرتبہ اور بزرگ کا تمہارے حق میں یہی حکم ہے کہ جو کچھ تم کر کے آئے ہو اس کی سزا بھگتو اب آگے فرمایا ان منکرین حشر کی آنکھوں کے سامنے اللہ کی قدرت کی ایسی بہت سی نشانیاں ہیں جن سے یہ حشر کا یقین کرسکتے ہیں مثلاً ایک مینہ کی نشانی ایسی ہے جو حشر کے یقین کے لئے کافی ہے کیونکہ پہلے سال کے اناج کے ہرے دانے اور ہر ایک میوہ کی تازی گٹھلیاں دوسرے سال تک سوکھ کر بالکل مردہ ہوجاتی ہیں جن کو مردہ کی طرح یہ لوگ بیج ڈالنے کے وقت زمین میں دفن کرتے ہیں پھر جو صاحت قدرت آسمان پر سے مینہ برسا کر ان مردہ دانوں سے ہزاروں ہرے دانے اور ان سوکھی گٹھلیوں سے ہزاروں تر و تازہ میوے سال بہ سال پیدا کرتا ہے اس کی قدرت سے یہ کیا بعید ہے کہ ایک مینہ کی تاثیر سے ان کے پتلے تیار ہوجائیں اور جس طرح ماں کے پیٹ میں ان کے پتلوں میں روح پھونک دی جاتی ہے اسی طرح ان پتلوں میں روح پھونک دی جائے رہی یہ بات کہ مرنے کے بعد جنگل اور دریا میں ان کی خاک جو رواں دواں ہوجائے گی وہ کیونکر جمع ہوگی تو اس کا جواب بھی ان کو سمجھا دیا گیا ہے کہ وہ خاک جہاں جہاں جائے گی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے موافق اس کا سب پتہ اور نشان پہلے ہی سے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابوہرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوسرے صور سے پہلے ایک مینہ برسے گا جس کی تاثیر سے سب جسم تیار ہوجائیں اس کے بعد ان جسموں میں دوسرے صور سے روحیں پھونک دی جائیں گی جس کا ذکر سورة ١ ؎ الزمر میں گزرا حاصل کلام یہ ہے کہ قرآن شریف میں جگہ جگہ حشر کو کھیتی کی مثال سے جو سمجھایا گیا ہے اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے آخر کو فرمایا کہ ان مثالوں کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں فرمانبردار ٹھہر چکے ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں نافرمان قرار پا چکے ہیں ان کو ان مثالوں سے کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیریں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مرنے کے بعد تو نافرمان لوگ دنیا میں دوبارہ آنے اور نیک کام کرنے کی آرزو ظاہر کریں گے مگر اب جب تک وہ لوگ دنیا میں ہیں تو نیک کاموں کی نصیحت ان کے حق میں ایسی رائیگاں ہیں جیسے بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے۔ (١ ؎ تفسیرہذا جلد ہذا ص ٨٣۔ ) (٢ ؎ بخاری شریف باب فضل من علم و علم ص ١٨ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:10) ینادون : مضارع مجہول جمع مذکر غائب فعل مالم یسم فاعلہ الذین اسم موصول مفعول مالم یسم فاعلہ ہے۔ ان کو پکارا جائے گا۔ مناداۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ مطلب یہ کہ جب کافر لوگ اپنے اعمال بد کے نتیجے میں دوزخ کے اندر سزا بھگت رہے ہوں گے وہ اپنے نفسوں سے سخت نفرت کریں گے۔ کیونکہ انہیں کے نفوس نے ان کو دنیا میں گناہ اور کفر پر آمادہ کیا تھا۔ جس کا نتیجہ وہ اب بھگت رہے ہیں۔ اس حالت میں دوزخ کے فرشتے ان کافروں کو پکاریں گے اور کہیں گے۔ یا مومن لوگ ان کافروں کو پکاریں گے۔ لمقت اللّٰہ اکبر من مقتکم انفسکم لام ابتدائیہ یا قسم کے لئے مقت اللہ مضاف مضاف الیہ۔ مقت مصدر ہے۔ یہ مصدر کی اضافت اس کے فاعل کی طرف ہے۔ المقت (باب نصر) کے معنی کسی شخص کو فعل قبیح کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھ کر اس سے نفرت کرنے کے ہیں۔ مقتکم انفسکم۔ مرکب اضافی۔ تمہاری اپنی نفسوں سے نفرت۔ لمقت اللّٰہ ۔۔ فتکفرون : یہ دوزخ کے فرشتوں یا مومنوں کا مقولہ ہے۔ یعنی وہ یہ کہیں گے ای ینادون فیقال لہم ان کو پکارا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا۔ اذ تدعون الی الایمان میں اذ ظرفیہ نہیں بلکہ تعلیلیہ ہے اور مقت اللّٰہ اور مقتکم کا زمانہ ایک ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ آج تم جس قدر اپنے نفسوں سے نفرت کر رہے ہو اللہ تم سے اس سے زیادہ نفرت کر رہا ہے۔ کیونکہ (دنیا میں) ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم کفر کی راہ اختیار کرتے تھے۔ تدعون۔ مضارع مجہول جمع مذکر حاضر۔ دعاء مصدر باب نصر۔ تم پکارے جاتے ہو۔ تم پکارے جاؤ گے۔ یہاں مضارع بمعنی ماضی ہے تم پکارے جاتے تھے۔ تم کو پکارا جاتا تھا۔ فتکفرون : تکفرون مضارع جمع مذکر حاضر۔ تم کفر کرتے ہو۔ تم کفر کرتے تھے (مضارع بمعنی ماضی) تم قبول کرنے سے انکار کرتے تھے۔ (کافروں کا کفر کرنا اور ایمان نہ لانا نفرتوں کا سبب بن گیا) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی آج اپنے اعمال نامہ اور سزا کو دیکھ کر تمہیں اپنے آپ پر جتنا غصہ آرہا ہے اس سے زیادہ غصہ اللہ تعالیٰ کو تم پر دنیا میں اس وقت آتا تھا جب۔۔۔۔۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 2 ۔ آیات 10 تا 20: اسرار و معارف : آج تو جسمانی اور مادی فوائد کفار کو بہت عزیز ہیں مگر جہنم میں انہیں خود اپنی ذات سے بھی نفرت ہوگی اور انگلیاں کاٹ کاٹ کھائیں گے کہ لعنت ہو ایسے وجود پر جسے ہم پالتے رہے اللہ کی اطاعت نہ کی تو انہیں آواز دی جائے گی جب تم دنیا میں کفر پہ اصرار کرتے تھے اور ایمان نہ لاتے تھے تو اللہ کو تمہارے وجودوں سے اس سے زیادہ نفرت تھی جتنی خود سے آج تم کو ہے۔ تب پکار کر کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار اب ہم جان گئے کہ تو نے ہمیں دو بار موت دی ایک بار تو مادہ کی صورت میں تھے پھر دنیا سے آخرت کے سفر پر موت کے راستے سے چلے اور دو بار زندگی بھی ایک بار دنیا میں دنیا میں حیات بخشی اور پیدا فرمایا اور پھر آخرت میں اب ہمیں تیری قدرت کاملہ کا پورا یقین ھاصل ہوگیا تو کیا اب اس جہنم کے عاب سے نکلنے کی کوئی سبیل ہے یا ہمارا آج کا اقرار کسی کام آسکتا ہے۔ ارشاد ہوگا ہرگز نہیں بلکہ جب اللہ کی توحید کی طرف دعوت دی جاتی تو تم کفر کرتے تھے اور اگر اس کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک ٹھہرایا جاتا تو تم بخوشی قبول کرلیتے تھے اور یہ اس کی عظمت کے اعتبار سے بہت بڑا جرم تھا اس کی ذات بہت بلند اور بہت عظمت والی ہے اب اس جرم کی سزا کا حکم بھی اسی ذات کا ہے لہذا ہمیشہ جہنم میں رہو وہی عظیم ذات ہے جو بندوں پر اپنی عظمت ویکتائی کی دلیلیں ظاہر فرماتا ہے اور وہی ہے جو سب کے لیے رزق کا اہتمام فرماتا ہے کہ آسمانوں اور بلندیوں سے بارش برسا کرکے بہت باریک نظام جاری کردیا ہے کہ ساری مخلوق کیلئے رزق پیدا فرماتا ہے مگر ان باتوں سے دلیل وہی حاصل کرتا ہے جس کے دل میں اللہ کی عظمت کا احساس بیدار ہو کہ یہی انابت الی اللہ عقل سلیم عطا کرتی ہے۔ اور اے مخاطب کفار خواہ کتنے ہی بگڑیں اور انہیں یہ بات کتنی بھی ناگوار گزرے مگر تم ہمیشہ پورے خلوص کے ساتھ اللہ واحد ہی کی عبادت کرو کہ وہی ذات سب سے بلند بھی ہے اور بلند درجات عطا کرنے والی بھی وہ مالک ہے عرش عظیم کا اور اپنی پسند سے اپنے جس بندے پر چاہتا ہے وحی نازل فرماتا ہے یعنی لوگوں کی رائے کا محتاج نہیں اپنے نبی خود مقرر فرمائے ہیں کہ لوگوں کو اس وقت سے خبردار کریں جب انہیں اللہ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے وہ دن جب سب اللہ کے ربرو کھڑے ہوں گے وہ اللہ وہ عظیم ذات جس سے کسی کا کوئی راز چھپا نہ ہوگا سب کچھ جانتا ہوگا جو اعلان فرمائے گا کہ آج بتاؤ حکومت و حکمرانی کس ذات کی ہے تو سب کہیں گے اللہ ہی کو سزاوار ہے جس کا کوئی ثانی و ہمسر نہیں اور جو بہت زبردست ہے۔ اس روز ہر ایک کو اسکے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوگی۔ نہ تاخیر کی جائے گی کہ اللہ بہت تیزی سے حساب لینے والا ہے گویا انصاف بروقت کیا جانا چاہیے کہ انصاف میں تاخیر کرنا خود بہت بڑی ناانصافی ہے۔ انہیں اس آنے والے سخت دن سے بروقت مطلع فرمائیے کہ جب شدت خوف اور ہیبت سے لوگوں کے دل گلے میں آن اٹکیں گے اور اپنی حالت پر قابو پانے کی کوشش میں لگے ہوں گے مگر ظلم کرنے والوں یعنی کفار کا اس روز کوئی دوست نہ ہوگا نہ کوئی ایسا سفارشی تلاش کرسکیں گے جس کی بات مان لی جائے۔ وہ ایسا باریک بین ہے کہ اگر کسی نے غلط نگاہ بھی ڈالی ہوگی تو یہ آنکھ کی خیانت بھی اس کے علم میں ہوگی اور دلوں کے چھپے بھیدوں سے بھی واقف ہوگا۔ اور اللہ ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور کفار نے جن کو اس کا شریک مان رکھا ہے وہ کچھ نہ کرپائیں گے نہ ان کی کوئی حیثیت ہوگی کہ یقینا صرف اللہ ایسی ذات ہے جو سب کچھ سنتا ہے اور سب کچھ دیکھتا بھی ہے یعنی ہر شے اس کے علم میں ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 10 تا 20 : ینادون ( یدائ) ( آواز دیں گے) مقت اللہ ( اللہ کا غصہ) تدعون (تم پکارے جائو گے) امتنا ( تو نے ہمیں موت دی) احییتنا (تو نے ہمیں زندگی دی) ینیب (وہ لوٹتا ہے، رجوع کرتا ہے) رفیع ( بلند) الروح ( روح ، وحی) التلاق (ملاقات ، ملنا) برزون (ظاہر ہونے والے ، بےپردہ) القھار (زبردست ، قوت والا) الازقۃ ( قریب آنے والی ، نزدیک آنے والی) الحناجر (حنجور) ( گلے ، کلیجے) کظمینا (غصہ پی جانے والے) حمیم (قریبی دوست) خائنۃ ( خیانۃ) ( چوری کرنے والی ، خیانت کرنے والی) لم یقضون (وہ فیصلہ نہیں کرتے) تشریح : آیت نمبر 10 تا 20 :۔ دنیا میں کفر و شرک اور گناہ کرنے والے لوگ مختلف باتوں اور تاویلوں کے ذریعہ اپنے آپ کو مطمئن کرلیتے ہیں اور انہیں اپنے برے انجام کا احساس ہی نہیں ہوتا لیکن جب قیامت کے دن وہ اپنے برے اعمال اور عذاب الٰہی کو دیکھیں گے تو وہ خود اپنے آپ کو ملامت کریں گے ۔ اس وقت ان کفار و مشرکین کو پکارکر کہا جائے گا کہ آج جس طرح تمہیں اپنے آپ پر غصہ آ رہا ہے اور تم اپنی بوٹیاں نوچ رہے ہو اسی طرح جب دنیا میں اللہ کے پیغمبر تمہیں راہ ہدایت کی طرف دعوت دے رہے تھے اور تم ان کی دعوت کو ٹھکرا کر دنیا کے عیش و آرام میں پڑے ہوئے تھے اس وقت اللہ تعالیٰ کا غضب اس سے زیادہ تمہارے اوپر بھڑکا کرتا تھا۔ اللہ نے تمہیں سنبھلنے اور سمجھنے کا موقع دیا مگر تم نے کبھی حقیقت سے آنکھیں نہیں ملائیں اب آج تمہیں اپنے کئے ہوئے اعمال کو بھگتنا ہے۔ اب اس عذاب سے چھٹکارے کی کوئی شکل موجود نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بے شک جن لوگوں نے کفر و شرک کیا تھا ان سے قیامت کے دن پکار کر کہا جائے گا کہ آج تمہیں اپنے اوپر جو غصہ آ رہا ہے اللہ اس وت تم سے شدید ناراض ہوا کرتے تھا جب تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا اور تم مسلسل اس سے انکار کرتے رہتے تھے۔ کفار و مشرکین کہیں گے الٰہی ! آپ نے میں دو مرتبہ موت اور دو مرتبہ زندگی دی یعنی ہم کچھ نہ تھے مردہ تھے آپ نے ہمیں زندگی دی پھر مر جانے کے بعد دوبارہ اٹھا کھڑا کیا اس طرح دو مرتبہ موت اور دومرتبہ زندگی دی ۔ ہم اپنے گناہوں اور خطاؤں پر شرمندہ ہیں اور ہم احساس ندامت کے ساتھ اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں ۔ الٰہی ! کیا ہمیں ایک موقع اور عطاء کرسکتے ہیں کہ ہم دوبارہ دنیا میں جائیں اور عمل صالح کر کے پھر آپ کی جناب میں حاضر ہوجائیں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ آج تمہاری یہ بد ترین حالت اس لئے ہے کہ جب تمہیں ایک اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے اور اگر کسی کو اللہ کی ذات اور صفات میں شریک کیا جاتا تھا تو تم اسے خوشی کے ساتھ مان لیا کرتے تھے ۔ اب فیصلہ کا وقت ہے دنیا میں دوبارہ بھیجے جانے کا وقت نہیں ہے اور یہ فیصلہ بھی اس ذات کے ہاتھ میں ہے جو ہر طرح بلندو برتر ہے۔ اگر سمجھنا چاہتے تو کائنات میں اللہ کی بیشمار نشانیاں موجود ہیں ان کو دیکھ کر بھی ایمان لاسکتے تھے مگر تم نے نہ تو اللہ کے پیغمبروں کی بات کو مانا اور نہ کائنات کی نشانیوں کو دیکھ کر۔ حالانکہ سامنے کی بات تھی کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے کہ اللہ نے بلندیوں سے پانی کو برسایا جس نے مردہ زمین کو زندہ کردیا اور وہ سر سبز و شاداب ہوگئی ۔ اس سے ان کا رزق پیدا کیا گیا اور وہ اس رزق کا استعمال کرتے تھے مگر انہوں نے اس بات پر کبھی غور و فکر نہیں کیا کہ اتنے بڑے جہان کو کون ذات چلا رہی ہے۔ البتہ خوش نصیب لوگ ان تمام باتوں کو دیکھ کر ہی اللہ پر ایمان کی دولت سے مالا مال ہوجاتے ہیں اور اللہ کی طرف سے رجوع کرتے ہیں۔ فرمایا کہ وہ اللہ جو اس پوری کائنات کے نظام کو چلا رہا ہے وہ نہایت بلند درجنوں والا عرش عظیم کا مالک ہے۔ وہی اللہ وحی نازل کر کے انسانوں کی ہدایت کا سامان کرتا ہے تا کہ ان کو قیامت کے ہولناک دن اور برے اعمال کے برے نتائج سے آگاہ اور خبردار کر دے لیکن وہ یہ سمجھتے رہے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کی کسی کو خبر نہیں ہے حالانکہ اللہ انسانوں کے دلوں کا حال اور انسان آنکھوں سے جو خیانت کرتا ہے جس کا برابر والے کو بھی اندازہ نہیں ہوتا اللہ انسان کی اس کیفیت سے بھی بخوبی واقف ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ان کفار و مشرکین کو قیامت کے اس دن سے ڈراتے رہیے جب کلیجے منہ کو آ رہے ہوں گے اور گناہ گاروں کے دل رنج و غم سے بھر چکے ہوں گے۔ اس دن اللہ تعالیٰ اعلان فرمائیں گے کہ آج دنیا کے بادشاہ اور فرماں رواکہاں ہیں ؟ آج کس کی سلطنت ہے ؟ چونکہ اس وقت سب فنا ہوچکے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ خود ہی جواب عنایت فرمائیں گے کہ صرف ایک اللہ کی بادشاہت اور سلطنت و حکومت ہے۔ آج فیصلے کا دن ہے آج ہر شخص کو اس کے اچھے یا برے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا کسی پر ظلم اور زیادتی نہیں کی جائے گی ہر ایک کو پورا پورا انصاف ملے گا ۔ مذکورہ آیات سے متعلق چند باتیں ۔ (1) قیامت کا ہولناک دن ہوگا جس میں ہر شخص کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ۔ خوف اور دہشت کی وجہ سے جو گھٹن ہوگی ہر شخص کو ایسا محسوس ہوگا کہ جیسے اس کا دل اس کے حلق میں دھڑک رہا ہے اس کو محاورہ میں کلیجہ منہ کو آجانا کہا جاتا ہے۔ اللہ کے مقرب فرشتے اہل ایمان کے لئے دعا کریں گے کہ وہ قیامت کے دن ہر طرح کی تکلیفیں سے محفوظ رہیں ۔ لیکن کفارو مشرکین کا برا حال ہوگا ، مگر کسی پر ظلم و زیادتی نہ ہوگی۔ (2) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کا ارشاد ہے۔ اے میرے بندو ! میں نے اپنے اوپر ظلم کرنے کو حرام کیا ہوا ہے اور تمہارے اوپر بھی حرام قرار دے دیا ہے لہٰذا تم میں سے کوئی کسی پر ظلم نہ کرے۔ فرمایا کہ اے میرے بندو ! یہ تو تمہارے اعمال ہیں جن کو میں اپنی نظروں میں رکھتا ہوں اور ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا لہٰذا جو شخص بھلائی پائے وہ اللہ کی حمد وثناء کرے اور جو اس کے سوا پائے وہ اپنے آپ کو ملامت کرے ( یعنی گناہوں سے باز آجائے) ( حدیث قدسی) (3) حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ گناہ تین قسم کے ہوتے ہیں٭ایک وہ جو بخش دیئے جائیں گے ٭دوسرے وہ گناہ جو بخشے نہیں جائیں گے٭تیسری قسم کے گناہ وہ ہیں جن میں سے کچھ بھی چھوڑا نہیں جائے گا ۔ جن گناہوں کی بخشش اور معافی ہوگی اور وہ گناہ ہیں جن کو کرنے کے بعد توبہ کرلی گئی ہوگی۔ جو گناہ نہیں بخشا جائے گا وہ شرک ہے جسے اللہ کبھی معاف نہ کرے گا ۔ اور جو چھوڑا نہیں جائے گا وہ حقوق کا گناہ ہے جو پورا پورا دلوایا جائے گا ظالم سے مظلوم کو غاصب سے مغصوب کو ، اگر کسی نے کسی کو طمانچہ مارا ہوگا یا گالی دی ہوگی تو اس کا پورا پورا بدلہ دلوایا جائے گا ۔ اسی لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تاکید فرماتے تھے کہ جس پر کسی کا حق ہو وہ اس کو اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن درہم و دینار نہ ہوں گے حقوق کے بدلے اعمال ادا کئے جائیں گے۔ (4) انسان جو بھی عمل کرتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ میں اچھا کر رہا ہوں یا برا ، نہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے اور نہ اس کا حساب کتاب ہوگا لیکن اللہ نے فرمایا کہ انسان وہ گناہ جو آنکھوں سے کرتا ہے یا سینے کے اندر چھپے ہوئے دل میں کرتا ہے اس کا علم دنیا میں کسی کو نہیں ہوتا لیکن اللہ آنکھوں کی خیانت اور دلی جذبوں سے بھی پوری طرح واقف ہے۔ اسی لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا فرماتے تھے جو آپ نے امت کو تعلیم فرمائی ہے کہ اے میرے اللہ ! میرے دل کو نفاق سے ، میرے عمل کو ریا کاری اور دکھاوے سے ، میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک و صاف رکھئے گا کیونکہ بیشک آپ تو آنکھوں کی خیانت اور دل میں چھپے ہوئے خیالات تک سے واقف ہیں۔ (5) اللہ کی نشانیوں میں سے بارش کی بھی ایک نشانی ہے۔ بارش کی وجہ سے کھیت لہلہاتے ہیں اور انسانوں کی غذا کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اگر انسان صرف اتنی بات پر غور کرلے کہ وہ ایک لقمہ جو اس کے حلق کے نیچے اتر رہا ہے اس میں کائنات کی اور اس میں رہنے والے کتنے انسانوں کی محنت و مشقت شامل ہے۔ اگر اللہ یہ نظام قائم نہ فرماتا تو صرف انسان ہی نہیں بلکہ جانور بھی اپنا وجود قائم نہ رکھ سکتے۔ جس طرح اللہ نے بارش کے ذریعہ انسانوں کا رزق عطاء کیا ہے اسی طرح اس نے انسان کو روحانی زندگی کے لئے وحی ناز ل کی ہے۔ جس طرح بارش سے مراد زمین میں تر و تازگی اور زندگی کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں اسی طرح وحی کے ذریعہ مردہ دلوں کو ایک نئی روحانی زندگی نصیب ہوتی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اس کہنے سے مقصود تحییر و تندیم ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جنتیوں کے بعد جہنمیوں کا ذکر۔ جہنمی جہنم میں نہ صرف اپنے علماء، پیروں اور لیڈروں پر غصہ نکالیں گے بلکہ وہ اپنے آپ پر بھی غضبناک ہوں گے۔ یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے کہیں گے کہ کاش ! ہم رسول کا راستہ چھوڑ کر فلاں فلاں کو اپنا خیر خواہ نہ بناتے۔ (الفرقان : ٢٧۔ ٢٨) جب وہ اپنے ہاتھ کاٹ رہے ہوں گے تو رب ذوالجلال انہیں مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمائیں گے کہ جس طرح آج تمہیں اپنی حالت زار پر غصہ آرہا ہے۔ جب دنیا میں تم مجھ پر ایمان لانے سے انکار کرتے اور میرے شریک بناتے تھے تو مجھے اس سے کہیں زیادہ غصہ آتا تھا۔ لیکن میں نے تمہیں مہلت دئیے رکھی تاآنکہ تم جہنم میں داخل کردئیے گئے۔ اس وقت جہنمی فریاد پر فریاد کریں گے کہ اے ہمیں پیدا کرنے اور پالنے والے رب ! تو نے ہمیں دو مرتبہ پیدا کیا اور دو مرتبہ زندہ فرمایا اب ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں۔ کیا ہماری نجات کا کوئی راستہ ہے۔ تمام اہل علم نے لکھا ہے کہ دو مرتبہ موت سے مراد ایک انسان کی وہ حالت ہے جب اس کا وجود عدم میں ہوتا ہے۔ دوسری مرتبہ جب زندگی گزار کر مرتا ہے۔ اسی طرح پہلے ماں کے پیٹ سے جنم لینا اور دوسری مرتبہ موت کے بعد زندہ ہونا ہے جسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔” تم کیوں اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟ حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ “ (البقرہ : ٢٨) قرآن مجید کے دوسرے مقام پر بیان ہوا ہے کہ کاش آپ دیکھیں کہ جب جہنمی جہنم میں سر جھکائے فریادیں کریں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے سب کچھ دیکھ اور سن لیا۔ ہماری التجاء ہے کہ ہمیں ایک مرتبہ دنیا میں لٹادیجیے ہم نیک عمل کریں گے اور آپ کے ارشادات پر یقین کریں گے۔ (السجدۃ : ١٢) اس کے جواب میں انہیں فرمایا جائے گا۔ تمہارا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ جب تمہیں ایک اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے۔ جب اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کیا جاتا تھا تو تم مان لیتے تھے۔ یعنی آج تم مجھے ” اللہ “ مانتے ہو لیکن دنیا میں تم میرے ساتھ تو کفر و شرک کیا کرتے تھے سورة الزمر آیت ٤٥ میں بیان ہوا ہے کہ جب ایک اللہ کا ذکر ہوتا تھا تو تمہارے چہرے بگڑ جاتے تھے اور دوسروں کا ذکر ہوتا تو تمہارے چہرے کھل جاتے تھے۔ لہٰذا کفر و شرک کی وجہ سے تمہیں ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کہا جائے گا کہ فیصلے کا اختیار ” اللہ “ اعلیٰ اور اکبر کو ہے۔ یہ فرما کر انہیں مزید احساس دلایا جائے گا کہ تم دنیا میں اس لیے دوسروں کو اللہ کا شریک بناتے تھے کہ یہ بزرگ اور بت تمہیں اللہ تعالیٰ سے چھڑالیں گے یہ تمہاری خام خیالی تھی۔ اب دیکھ لو کہ بلندو بالاہستی کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا لہٰذا اس کا فیصلہ اٹل ہے جو اپنی ذات وصفات کے لحاظ سے اعلیٰ ہے اور اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے اس کا کوئی شریک نہیں۔ پھر دیکھ لو کہ اس کی بڑائی اور کبریائی کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی لِأَھْوَنِ أَھْلِ النَّارِ عذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَوْ أَنَّ لَکَ مَافِي الْأَرْضِ مِنْ شَيْءٍ أَکُنْتَ تَفْتَدِيْ بِہٖ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ أَرَدْتُّ مِنْکَ أَھْوَنَ مِنْ ھٰذَا وَأَنْتَ فِيْ صُلْبِ آدَمَ أَنْ لَّاتُشْرِکَ بِيْ شَیْءًا فَأَبَیْتَ إِلَّآأَنْ تُشْرِکَ بِيْ ) [ رواہ البخاری : باب صفۃ الجنۃ والنار ] ” نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ایک جہنمی کو قیامت کے دن کہا جائے گا تیرا کیا خیال ہے کہ اگر تیرے پاس زمین میں جو کچھ ہے وہ تو جہنم کے عذاب کے بدلے فدیہ دے ؟ وہ کہے گا ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے تجھ سے اس سے ہلکی اور کم چیز کا مطالبہ کیا تھا۔ میں نے تجھ سے تیرے باپ آدم کی پشت میں عہد لیا تھا کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گا لیکن تو نے انکار کیا اور میرا شریک ٹھہرایا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جہنمیوں کے واویلا پر غضب کا اظہار کریں گے۔ ٢۔ جہنمی اپنے کفر و شرک کی وجہ سے جہنم میں جھونکے جائیں گے۔ ٣۔ جہنمی جہنم میں اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے مگر انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا تفسیر بالقرآن مشرکین کا ” اللہ “ کی توحید کے ساتھ وطیرہ : ١۔ کیا تو ہمیں ان معبودوں کی عبادت سے روکتا ہے جن کی عبادت ہمارے آباء کرتے رہے ہیں۔ (ھود : ٦١) ٢۔ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہمیں ہمارے آباء و اجداد کافی ہیں۔ (المائدۃ : ١٠٤) ٣۔ جب ان کے پاس اللہ وحدہٗ لاشریک کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل جل جاتے ہیں۔ (الزمر : ٤٥) ٤۔ جب مشرکین کو توحید کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ تکبر کرتے ہوئے اسے ٹھکرا دیتے ہیں۔ (الصّٰفّٰت : ٣٥) ٥۔ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اللہ کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ (النساء : ٦١) ٦۔ جب ان سے کہا جاتا ہے اللہ کی نازل کردہ کتاب کی پیروی کرو تو جواب میں اپنے آباء و اجداد کی پیروی کا حوالہ دیتے ہیں۔ (البقرۃ : ١٧٠) ٧۔ جب ان کو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی پیروی کا حکم دیا جاتا ہے تو اپنے آباء اجداد کی پیروی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ( لقمان : ٢١) ٨۔ کفار کہتے تھے کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو تم چاہتے ہو کہ ہم اپنے آباء و اجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ (ابراہیم : ١٠) ٩۔ انبیاء نے کفار کو توحید کی دعوت دی تو انہوں نے کہا ہم تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے۔ (ابراہیم : ١٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 10 تا 12 لمقت کا مفہوم ہے بہت شدید ناپسندیدگی۔ ان کو سب مخلوق خدا ہر طرف سے یہ پکارے گی ، کی بدبختو تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ایمان کی پکار دے رہے تھے اور تم ناحق انکار کرتے تھے۔ اور اللہ تم پر بہت ناراض ہوتا تھا۔ اور تمہارے رویے کو بہت ناپسند فرماتا تھا ، جس طرح آج تمہیں حقیقت معلوم ہوئی ہے تو تم اپنے رویے کو ناپسند کرتے ہو لیکن تم سے تو وقت چلا گیا ہے۔ تم نے کفر کیا ، ایمان سے منہ موڑا اور تم سے ایک عظیم دولت چلی گئی۔ پوری کائنات کی جانب سے یہ علامت آرہی ہوگی اور یہ ان کے لیے سخت سوہان روح ہوگی۔ اس برے دن میں کسی تسلی کے بجائے ہر طرف سے مزید ملامت۔ اب تو دھوکے اور گمراہی کے پردے آنکھوں کے سامنے سے ہٹ گئے ہیں۔ اور جانتے ہیں کہ نجات کی جگہ اب صرف ذات باری ہے۔ لہٰذا گڑگڑاتے ہیں : قالوا ربنآ۔۔۔۔۔ من سبیل (40: 11) ” وہ کہیں گے ” اب ہمارے رب ، تو نے واقعی ہمیں دو دفعہ زندگی دے دی ، اب ہم اپنے قصوروں کا اعتراف کرتے ہیں ، کیا اب یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے ؟ “ یہ ایک نہایت ہی بدحال ، مایوس اور بدبخت کی درخواست ہے ، اب تو وہ کہتے ہیں ” اے ہمارے رب “ اور اس وقت وہ رب کا انکار کرتے تھے ، تو نے پہلی مرتبہ ہمیں زندگی دی ۔ مردے میں روح ڈالی ، وہ زندہ ہوگیا۔ پھر مرنے کے بعد دوبارہ زندگی دی اور اب ہم میدان حشر میں ہیں ۔ اس لیے تو اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ ہمیں موجودہ مصیبت سے نکال دے۔ اب تو ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا ہے۔ فھل الیٰ خروج من سبیل (40: 11) ” کیا نکلنے کا کوئی راستہ ہے “۔ یہ ہے سرزنش جس سے ان کی بےتابی ، مایوسی اور تلخی ظاہر ہوتی ہے۔ اس کڑے وقت میں ان کو یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ تمہارے اس برے انجام کا اصل سبب کیا ہے : ذٰلکم بانه۔۔۔۔ الکبیر (40: 12) ” یہ حالت جس میں تم مبتلا ہو ، اس وجہ سے ہے کہ اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم مان نے سے انکار کردیتے تھے اور جب اسکے ساتھ دوسروں کو ملایا جاتا تو تم مان لیتے تھے۔ اب فیصلہ اللہ بزرگ و برتر کے ہاتھ ہے ، میں ذلیل کرنے والے انجام تک تمہیں یہ بات لائی ہے کہ تم عقیدۂ توحید کا انکار کرتے تھے۔ اور عقیدۂشرک کو مان لیتے تھے۔ لہٰذا اب فیصلہ اللہ وحدہ کے ہاتھ میں ہے جو علی اور کبیر ہے۔ فیصلے کے حوالے سے یہ دونوں مناسب صفات ہیں۔ کوئی فیصلہ وہی شخص کرسکتا ہے جو بزرگ ہو اور برتر مقام رکھتا ہو اور اللہ تو ہر چیز پر برتر ہے اور ہر چیز سے بڑا ہے ، خصوصاً قیامت کے دن۔ یہاں اللہ کی صفات علی وکبیر کی ایک جھلک بھی دکھائی جاتی ہے اور مومنین کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس علی وکبیر کی بارگاہ میں دعا کرو اور توحید کا عقیدہ اپنا کر نظام زندگی بھی اسی کا اپنا لو ، یہاں قیامت کے فیصلے کی گھڑی سے بھی ڈرایا جاتا ہے جہاں اللہ واحد وقہار کے پاس سب اختیارات ہوں گے اور وہ بہت ہی بلندو برتر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کا اقرار جرم کرنا اور دوزخ سے نکلنے کا سوال کرنے پر جواب ملنا کہ تم نے توحید کو ناپسند کیا اور شرک کی دعوت پر ایمان لائے دنیا میں اہل کفر اپنے کو اچھا جانتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بہت اچھے ہیں ایمان والوں سے بہتر ہیں اور برتر ہیں، لیکن جب قیامت کے دن اپنی بدحالی دیکھیں گے تو خود اپنے نفسوں سے اور اپنی جانوں سے بغض کرنے لگیں گے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ تمہیں جتنا اپنے نفسوں سے بغض ہے اللہ تعالیٰ کو تمہارے نفسوں سے اس بغض سے بھی زیادہ بغض ہے اور یہ بغض اب سے نہیں ہے جب سے تم دنیا میں تھے اسی وقت سے اللہ تعالیٰ کو تم سے بغض ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جب دنیا میں تمہیں ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم اس کے قبول کرنے سے انکار کرتے تھے اور کفر پر جمے رہتے تھے تمہیں بار بار ایمان کی دعوت دی گئی لیکن تم نے ہر بار حق کے قبول کرنے سے انکار کیا۔ (مَّقْتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ ) کا ایک مطلب تو وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا اور بعض حضرات نے فرمایا وجُوِّز اَنْ یراد بہٖ مقت بعضھم بعضا یعنی آپس میں تم میں جو آج ایک دوسرے سے بغض اور نفرت ہے کہ بڑے چھوٹوں کو اور چھوٹے بڑوں کو الزام دے رہے اور ایک دوسرے سے برأت ظاہر کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کو تم سے اس سے زیادہ بغض ہے یہ تفسیر (یَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا) کے ہم معنی ہے جو سورة عنکبوت میں مذکور ہے۔ کافر عرض کریں گے کہ اے ہمارے رب آپ نے ہمیں دو مرتبہ موت دی پہلی بار جب ہمیں پیدا کیا اس وقت ہم بےجان تھے کیونکہ منی کا نطفہ تھے آپ نے ہمیں زندہ فرما دیا ماؤں کے پیٹوں میں روح پھونک دی پھر ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اور آپ کی مشیت کے مطابق زندگی بڑھتی رہی پھر آپ نے ہمیں موت دے دی جس کی وجہ سے ہم قبروں میں چلے گئے پھر آج آپ نے ہمیں قیامت کے دن زندہ فرمایا ہم پر دو موتیں طاری ہوئیں اور دو زندگیاں آئیں ایک پہلے اور ایک اب یہ آپ کے تصرفات ہیں ہمیں چاہیے تھا کہ ہم دنیا والی زندگی میں ایمان قبول کرتے اور شرک اور کفر سے بچتے ہم یہی سمجھتے رہے کہ دنیا والی زندگی کے بعد جو موت آئے گی اس کے بعد پھر زندہ ہونا نہیں ہے یہ ہماری غلطی تھی اب ہم اس زندگی میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں اب تو ہمیں عذاب سے چھٹکارا مل جائے اور دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہاں ایمان قبول کریں گے اور نیک اعمال اختیار کریں گے اور اس کے بعد پھر جب موت آئے تو اچھی حالت میں میدان حشر میں حاضر ہوں۔ وھذا کما حکی اللّٰہ تعالیٰ فی قولہ فی سورة الم السجدۃ ربنا ابصرنا وسمعنا

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” ان الذین الخ “ یہ چوتھا عنوان ہے۔ جس نے اس حکمنامے کو نہ مانا اس پر اللہ کا غضب ہوگا۔ جب ان کو جہنم میں داخل کیا جائیگا تو انہیں پکار کر کہا جائیگا تو انہیں پکار کہا جائے گا کہ آج تم جس قدر اپنی جانوں پر غجبناک ہو کہ دنیا میں حق کو کیوں قبول نہ کیا، اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ تم پر غضبناک تھا۔ جب دنیا میں تمہیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی تو تم انکار کرتے تھے۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ الذین یجادلون فی ایت اللہ بغیر سلطان اتہم، کبر مقتا عند اللہ و عند الذین امنوا (رکوع 4) ۔ ” اذ “ ظرف کا عامل مقدر ہے ای یمقتکم۔ اور یہ ظرف ” مقتکم انفسکم “ سے متعلق نہیں ہوسکتی کیونکہ اس میں آخرت کا حال مذکور ہے اور ” اذ تدعون “ میں دنیا کے حال کی طرف اشارہ ہے۔ اسی طرح ” لمقت اللہ “ سے بھی متعلق نہیں ہوسکتی کیونکہ اس صورت میں مصدر مبتداء کا معمول اس کی خبر سے مؤخر ہوجائیگا اور یہ جائز نہیں (مدارک، بحر) ۔ لیکن علامہ ابن حاجب کہتے ہیں کہ ظروف میں اس کی گنجائش ہے۔ وفی امالی ابن حاجب لا باس بذلک لان الظروف متسع۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) بلا شبہ جو لوگ منکر ہیں جب وہ دوزخ میں داخل ہوں گے تو ان کو پکار کے کہا جائیگا جس طرح آج تم اپنی جانوں سے بیزار ہو اور ان پر غضب ناک ہو اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ تم سے اس وقت بیزار تھا اور تم کو ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم انکار کرتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی تم آج اپنے جی کو پھٹکارتے ہو دنیا میں جب تم کفر کرتے تھے اللہ اس سے زیادہ تم کو پھٹکارتا تھا اسی کا بدلا آج پائو گے۔ خلاصہ : یہ ہے کہ آج تم اپنی جان سے بیزار ہو اور اپنے پر غصہ کررہے ہو اور غصے کے مارے اپنی اپنی انگلیاں چپائے ڈالتے ہو جب تم کفر کیا کرتے تھے دنیا میں اور اللہ تعالیٰ کی ایمانی دعوت کو ٹھکراتے تھے تو اللہ تعالیٰ اس قوت تم پر تمہارے غصہ سے زیادہ غصے اور غضب ناک ہوتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ یوں ترجمہ کیا جائے کہ تم جس قدر اپنے جی پر غصہ اور غضب کررہے ہو اس سے زیادہ آج اللہ تعالیٰ تم سے خفا اور بیزار ہے اور تم پر غضب ناک ہے۔ آگے ان کا اعتراف مذکور ہے کہ اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے اور دوبارہ واپس آنے کے لئے درخواست کریں گے۔