Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 30

سورة مومن

وَ قَالَ الَّذِیۡۤ اٰمَنَ یٰقَوۡمِ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ مِّثۡلَ یَوۡمِ الۡاَحۡزَابِ ﴿ۙ۳۰﴾

And he who believed said, "O my people, indeed I fear for you [a fate] like the day of the companies -

اس مومن نے کہا اے میری قوم! ( کے لوگو ) مجھے تو اندیشہ ہے کہ تم پر بھی ویسا ہی روز ( بد عذاب ) نہ آئے جو اور امتوں پر آیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah informs, وَقَالَ الَّذِي امَنَ ... And he who believed said: Here Allah tells us that this righteous man, the believer from among the family of Fir`awn, warned his people of the punishment of Allah in this world and the Hereafter, saying, ... يَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُم مِّثْلَ يَوْمِ الاْاَحْزَابِ O my people! Verily, I fear for you an end like that...  day (of disaster) of the groups (of old)!),   Show more

مرد مومن کی اپنی قوم کو نصیحت ۔ اس مومن کی نصیحت کا آخری حصہ بیان ہو رہا ہے کہ اس نے فرمایا دیکھو اگر تم نے اللہ کے رسول کی نہ مانی اور اپنی سرکشی پر اڑے رہے تو مجھے ڈر یہ ہے کہ کہیں سابقہ قوموں کی طرح تم پر بھی عذاب اللہ کا برس نہ پڑے ۔ قوم نوح اور قوم عاد ثمود کو دیکھ لو کہ پیغمبروں کی نہ ماننے...  کے وبال میں ان پر کیسے عذاب آئے؟ اور کوئی نہ تھا جو انہیں ٹالتا یاروکتا ۔ اس میں اللہ کا کچھ ظلم نہ تھا اس کی ذات بندوں پر ظلم کرنے سے پاک ہے ان کے اپنے کرتوت تھے جو ان کے لئے وبال جان بن گئے ، مجھے تم پر قیامت کے دن کے عذاب کا بھی ڈر ہے ۔ جو ہانک پکار کا دن ہے ۔ صور کی حدیث میں ہے کہ جب زمین میں زلزلہ آئے گا اور پھٹ جائے گی تو لوگ مارے گھبراہٹ کے ادھر ادھر پریشان حواس بھاگنے لگیں گے ۔ اور ایک دوسرے کو آواز دیں گے ۔ حضرت ضحاک وغیرہ کا قول ہے کہ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب جہنم لائی جائے گی اور لوگ اسے دیکھ کر ڈر کر بھاگیں گے اور فرشتے انہیں میدان محشر کی طرف واپس لائیں گے ۔ جیسے فرمان اللہ ہے ( وَّالْمَلَكُ عَلٰٓي اَرْجَاۗىِٕهَا ۭ وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِيَةٌ 17؀ۭ ) 69- الحاقة:17 ) یعنی فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے ۔ اور فرمان ہے ( يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْـطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ 33۝ۚ ) 55- الرحمن:33 ) ، یعنی اے انسانو! اور جنو! اگر تم زمین و آسمان کے کناروں سے بھاگ نکلنے کی طاقت رکھتے ہو تو نکل بھاگو لیکن یہ تمہارے بس کی بات نہیں ۔ حسن اور ضحاک کی قرأت میں یوم التناد دال کی تشدید کے ساتھ ہے ۔ اور یہ ماخوذ ہے ندالبعیر سے ، جب اونٹ چلا جائے اور سرکشی کرنے لگے تو یہ لفظ کہا جاتا ہے ، کہا گیا ہے کہ جس ترازو میں عمل تولے جائیں گے وہاں ایک فرشتہ ہو گا جس کی نیکیاں بڑھ جائیں گی وہ با آواز بلند پکار کر کہے گا لوگو فلاں کا لڑکا فلاں سعادت والا ہو گیا اور آج کے بعد سے اس پر شقاوت کبھی نہیں آئے گی اور اس کی نیکیاں گھٹ گئیں تو وہ فرشتہ آواز لگائے گا کہ فلاں بن فلاں بدنصیب ہو گیا اور تباہ و برباد ہو گیا ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں قیامت کو یوم التناد اس لئے کہا گیا ہے کہ جنتی جنتیوں کو اور جہنمی جہنمیوں کو پکاریں گے اور اعمال کے ساتھ پکاریں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وجہ یہ ہے کہ جنتی دوزخیوں کو پکاریں گے اور کہیں گے کہ ہمارے رب نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ ہم نے سچ پایا ۔ تم بتاؤ کہ کیا تم نے بھی اپنے رب کا وعدہ سچا پایا ؟ وہ جواب دیں گے ہاں ۔ اسی طرح جہنمی جنتیوں کو پکار کر کہیں گے کہ ہمیں تھوڑا سا پانی ہی چھوا دو یا وہ کچھ دے دو جو اللہ نے تمہیں دے رکھا ہے ۔ جنتی جواب دیں گے کہ یہاں کے کھانے پینے کو اللہ نے کافروں پر حرام کر دیا ہے اسی طرح سورہ اعراف میں یہ بھی بیان ہے کہ اعراف والے دوزخیوں اور جنتیوں کو پکاریں گے ۔ بغوی وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ تمام باتیں ہیں اور ان سب وجوہ کی بنا پر قیامت کے دن کا نام یوم التناد ہے ۔ یہی قول بہت عمدہ ہے واللہ اعلم ، اس دن لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں گے ۔ لیکن بھاگنے کی کوئی جگہ نہ پائیں گے اور کہہ دیا جائے گا کہ آج ٹھہرنے کی جگہ یہی ہے اس دن کوئی نہ ہو گا جو بچا سکے اور اللہ کے عذاب سے چھڑا سکے بات یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی قادر مطلق نہیں وہ جسے گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ، پھر فرماتا ہے کہ اس سے پہلے اہل مصر کے پاس حضرت یوسف علیہ السلام اللہ کے پیغمبر بن کر آئے تھے ۔ آپ کی بعثت حضرت موسیٰ سے پہلے ہوئی تھی ۔ عزیز مصر بھی آپ ہی تھے اور اپنی امت کو اللہ کی طرف بلاتے تھے ۔ لیکن قوم نے ان کی اطاعت نہ کی ، ہاں بوجہ دنیوی جاہ کے اور وزارت کے تو انہیں ماتحتی کرنی پڑتی تھی ۔ پس فرماتا ہے کہ تم ان کی نبوت کی طرف سے بھی شک میں ہی رہے ۔ آخر جب ان کا انتقال ہو گیا تو تم بالکل مایوس ہوگئے اور امید کرتے ہوئے کہنے لگے کہا اب تو اللہ تعالیٰ کسی کو نبی بنا کر بھیجے گا ہی نہیں ۔ یہ تھا ان کا کفر اور ان کی تکذیب اسی طرح اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دیتا ہے جو بےجا کام کرنے والا حد سے گذرے جانے والا اور شک شبہ میں مبتلا رہنے والا ہو ۔ یعنی جو تمہارا حال ہے یہی حال ان سب کا ہوتا ہے جن کے کام اسراف والے ہوں اور جن کا دل شک شبہ والا ہو ، جو لوگ حق کو باطل سے ہٹاتے ہیں اور بغیر دلیل کے دلیلوں کو ٹالتے ہیں اس پر اللہ ان سے ناخوش ہے اور سخت تر ناراض ہے ۔ ان کے یہ افعال جہاں اللہ کی ناراضگی کا باعث ہیں وہاں ایمان داروں کی بھی ناخوشی کا ذریعہ ہیں ۔ جن لوگوں میں ایسی بےہودہ صفتیں ہوتی ہیں ان کے دل پر اللہ تعالیٰ مہر کر دیتا ہے جس کے بعد انہیں نہ اچھائی اچھی معلوم ہوتی ہے نہ برائی بری لگتی ہے ۔ ہر وہ شخص جو حق سے سرکشی کرنے والا ہو اور تکبر و غرور والا ہو ۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں جبار وہ شخص ہے جو دو انسانوں کو قتل کر ڈالے ۔ ابو عمران جونی اور قتادہ کا فرمان ہے کہ جو بغیر حق کے کسی کو قتل کرے وہ جبار ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وقال الذی امن یقوم …:” یوم “ سے مراد کوئی نادر واقعہ ہوتا ہے جو کسی قوم کو کسی ہولناک عذاب یا اعلیٰ درجے کی نعمت کی صورت میں پیش آیا ہو، مثلاً یوم بدر مسلمانوں کے لئے نعمت اور کفار کے لئے عذاب تھا۔ ” الاحزاب “ ” حرب “ کی جمع ہے، وہ جماعتیں جو کسی کی مخالفت میں اکٹھی ہوئی ہوں۔ مرد مومن نے جب فرعون کا...  موسیٰ کے قتل کی رائے پر اصرار اور تمام سرداروں کا خاموش رہ کر اس کی تائید کرنا دیکھا تو اس نے مصلحت کا لبادہ اتار کر صریح الفاظ میں ان سے کہا، اے میری قوم ! اگر تم نے اللہ کے رسول کو قتل کرنے یا کوئی نقصان پہنچانے کا ارادہ ترک نہ کیا تو میں ڈرتا ہوں کہ تم پر ان جماعتوں پر آنے والے عذابوں جیسا عذاب آجائے گا جو اپنے انبیاء کے خلاف اکٹھی ہوئیں اور انہیں جھٹلا دیا، پھر تمہاری یہ شان و شوکت اور لاؤ لشکر تمہارے کسی کام نہ آسکیں گے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الَّذِيْٓ اٰمَنَ يٰقَوْمِ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ مِّثْلَ يَوْمِ الْاَحْزَابِ۝ ٣٠ۙ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شا... مل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ، وحقیقته : وإن وقع لکم خوف من ذلک لمعرفتکم . والخوف من اللہ لا يراد به ما يخطر بالبال من الرّعب، کاستشعار الخوف من الأسد، بل إنما يراد به الكفّ عن المعاصي واختیار الطّاعات، ولذلک قيل : لا يعدّ خائفا من لم يكن للذنوب تارکا . والتَّخویفُ من اللہ تعالی: هو الحثّ علی التّحرّز، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر/ 16] ، ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اگر حالات سے واقفیت کی بنا پر تمہیں اندیشہ ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے ) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح انسان شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے ۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالیٰ کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے بلکہ خوف الہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے ۔ اور طاعات کو اختیار کرے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کرتا وہ خائف یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ الخویف ( تفعیل ) ڈرانا ) اللہ تعالیٰ کے لوگوں کو ڈرانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر/ 16] بھی اسی معنی پر محمول ہے اور باری تعالےٰ نے شیطان سے ڈرنے اور اس کی تخویف کی پرواہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ حزب الحزب : جماعة فيها غلظ، قال عزّ وجلّ : أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ( ح ز ب ) الحزب وہ جماعت جس میں سختی اور شدت پائی جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کسی کو خوب یاد ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

حضرت حزقیل نے کہا کہ مجھے تمہاری نسبت پہلی قوموں جیسے نزول عذاب کا اندیشہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ { وَقَالَ الَّذِیْٓ اٰمَنَ یٰــقَوْمِ } ” اور مرد مومن نے (اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے) کہا : اے میری قوم کے لوگو ! “ { اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ مِّثْلَ یَوْمِ الْاَحْزَابِ } ” مجھے اندیشہ ہے تم پر ایسے دن کا جیسے دن پہلی قوموں پر آئے تھے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٠۔ ٣٥۔ اس ایماندار شخص کی نصیحت کے بیچ میں وہ بات فرعون نے کہہ دی تھی جس کا ذکر اوپر کی آیت میں تھا اب پھر اس ایماندار شخص کی نصیحت کا سلسلہ شروع ہوا اس ایماندار شخص نے اپنی اس نصیحت میں یہ جو کہا کہ مصر کے لوگ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وفات کے بعد یوں کہتے تھے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پیچھے ... اللہ تعالیٰ اور کوئی پیغمبر نہ بھیجے گا اس سے یہ مطلب اس ایماندار شخص کا نہیں ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی پیغمبری کے مصر کے لوگ قائل تھے کیونکہ انہی آیتوں میں ہے فماز لتم فی شک مما جاء کم بہ جس کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزوں کے دھوکے طرح تم یوسف (علیہ السلام) کے معجزوں سے بھی دھوکے میں رہے اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہیں کہ مصر کے لوگ اب جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد اپنی عقل سے یوں کہنے لگے کہ اب کوئی شخص ! اللہ تعالیٰ ایسا نہ بھیجے گا جو حضرت یوسف کی طرح اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہے مصر کے لوگوں نے محض اپنی عقل سے جو یہ ایک بات غیب کی منہ سے نکالی کہ اللہ تعالیٰ حضرت یوسف کے بعد کوئی پیغمبر نہ بھیجے گا اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے ان کو گمراہ اور حد سے گزر جانے والا فرمایا غیب کی اور دین کی باتوں میں محض عقل سے کوئی بات منہ سے نکالنی بڑی اندیشہ کی بات ہے۔ صحیح ١ ؎ مسلم میں جندب بن عبد اللہ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک شخص نے ایک شخص کو قسم کھا کر یہ کہہ دیا تھا کہ خدا تجھ کو نہ بخشے گا خدا تعالیٰ نے محض اتنی بات پر کہ اس قسم کھانے والے شخص نے ایک غیب کی بات اللہ تعالیٰ کے حق میں کیوں منہ سے نکالی اس قسم کھانے والا شخص کے نیک عمل اکارت کردیئے اور جس شخص کے باب میں اس شخص نے قسم کھائی تھی اس کی مغفرت فرما دی یہ تو غیب کی بات بغیر جانے بوجھے منہ سے نکالنے کا انجام ہوا اسی طرح دین میں کسی چیز کو بغیر شرعی دلیل کے اپنی طرف سے حلال یا حرام ٹھہرانے کا انجام بھی برا ہے اسی واسطے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحیح بخاری ٢ ؎ کی حضرت عبد اللہ (رض) بن عباس کی روایت میں فرمایا کہ جو کوئی شخص اسلام کے پھیل جانے کے بعد اسلام سے پہلے کی جاہلیت کے زمانے کی باتوں کو رواج دے گا اس شخص سے بڑھ کر خدا کے نزدیک کوئی برا نہیں پچھلی قوموں میں سے ہر ایک قوم کو ایک دن عذاب کے آنے کا جو پیش آیا ہے اسی کو یوم الاحزاب کہا گیا ہے مطلب یہ ہے مجھ کو اندیشہ ہے کہ ان فرقوں کے عذاب کے دنوں میں کا کوئی دن کہیں قبطی قوم کے سامنے نہ آجائے قوم لوط کی ہلاکت کا قصہ والذین من بعلھم کی گویا تفسیر ہے کیونکہ قوم لوط کی ہلاکت ثمود کے بعد ہے صحیح مسلم ١ ؎ کے حوالہ سے ابوذر کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے۔ یہ حدیث وما اللہ یزید ظلما للعباد کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے اس لئے وہ اپنے بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا۔ یوم التناد کی تفسیر اکثر سلف نے قیامت کے دن کی صحیح قرار دی ہے کیونکہ اس دن کی ہانک پکار سب دنوں سے زیادہ ہے حساب و کتاب کے بعد حساب و کتاب کے مقام کی طرف سے پیٹھ پھیر کر پل صراط پر گزرنے کے لئے سب لوگ جو دوڑیں گے اسی مطلب کو یوم تولون مدبرین سے ادا فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے موافق جس کو لوح محفوظ میں گمراہ لکھ دیا کوئی اس کو راہ راست پر نہیں لاسکتا اسی مطلب کو ومن یضلل الہ فمالہ من ھاد سے ادا فرمایا گیا ہے۔ سورة الانبیا میں گزر چکا ہے۔ وجعلنا ھم ائمۃ یھدون بامرنا اور سورة التغابن میں آئے گا۔ ومن یومن باللہ یھد قلبہ ان دونوں آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی ہدایت کے لئے جو احکام اللہ تعالیٰ نے انبیا کی معرفت بھیجے ہیں اللہ کے علم غیب میں جو لوگ نیک ٹھہر چکے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے دل میں ایک توفیق پیدا کردیتا ہے جس سے وہ لوگ ان احکام کی پابندی کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اسی طرح جو لوگ اللہ کے علم غیب میں بد قرار پا چکے ہیں نہ وہ احکام الٰہی کی پابندی کی طرف مائل ہوتے ہیں نہ ان کے دل میں وہ توفیق پیدا ہوتی ہے بلکہ ایسے لوگوں کو اللہ ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اس لئے ایسے لوگوں کو کوئی راہ راست پر نہیں لاسکتا حاصل کلام یہ ہے کہ سورة الانبیا اور سورة التغابن کی دونوں آیتوں کا مطلب آیت ومن یضلل اللہ فمالہ من ھاد کے ساتھ ملایا جائے تو اس آیت کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ آگے فرمایا کہ جو لوگ احکام الٰہی کی پابندی میں بغیر کسی سند کے جھگڑے نکالتے ہیں اللہ ‘ رسول اور ان کے ساتھ کے ایماندار سب ان بےسند جھگڑا کرنے والوں سے بیزار ہیں اور کثرت گناہوں کے سبب سے ان بےسند جھگڑا کرنے والوں کے دلوں پر زنگ کی مہر لگ گئی ہے جس سے کوئی نیک بات ان کے دلوں پر اثر نہیں کرتی ترمذی ٢ ؎ نسائی ابن ماجہ وغیرہ کے حوالہ سے ابوہریرہ کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ بغیر توبہ کے گناہ پر گناہ کرنے سے آدمی کے دل پر زنگ چھا جاتا ہے۔ یہ حدیث کذلک یطبع اللہ علی عل قلب متکبر جبار۔ کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایسے سرکش لوگوں کے دلوں پر زنگ چھا جاتا ہے اس لئے وہ احکام الٰہی کی پابندی میں بےسند جھگڑے نکالنے لگتے ہیں۔ (١ ؎ صحیح مسلم باب النھی عن تقنیط الانسان من رحمۃ اللہ۔ ص ٣٢٩ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری کتاب الدیات باب من طلب دم امرء مسلم بغیر حق ص ١٠١٦ ج ٢۔ ) (١ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص ٩٤۔ ) (٢ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة المطففین ص ١٩١ ج ٢۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:30) قال الذی امن سے مراد وہی مرد مومن ہے جس کا اوپر ذکر چلا آرہا ہے۔ مثل یوم الاحزاب۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مثل کا مضاف الیہ۔ مثل مضاف، الاحزاب : الامم قومیں۔ حزب کی جمع، ای مثل ایام الامر الماضیۃ۔ والایام، الوقائع۔ مطلب یہ ہے کہ :۔ مجھے ڈر ہے کہ گزشتہ امتوں کے (افعال بد کے نتیجے میں) جو عذاب و...  ہلاکت کے واقعات ان کو پیش آئے ویسے ہی واقعات (تم جو حضرت موسیٰ کی ہلاکت کے جو منصوبے باندھ رہے ہو اس کے نتیجے میں) تم کو بھی نہ آلیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 30 تا 37 : داب (دستور ، قاعدہ ، قانون) التناد ( چیخ و پکار) عاصم (بچانے والا) ھاد (ہدایت دینے والا ، رہبر و رہنمائ) مازلتم ( تم ہمیشہ رہے) مرتاب ( شک کرنے والا) یطبع ( وہ مہر لگاتا ہے) جبار (بہت سختی کرنے والا) ابن ( بنائ) ( تعمیر کر دے) صرحا ( عمارت ، محل) اطلع ( میں جھانکوں گا... ) زین (خوبصورت بنا دیا گیا) صد ( اس نے روک دیا) کید ( تدبیر ، فریب) تباب (تباہی ، بربادی) تشریح : آیت نمبر 30 تا 37 :۔ اس سے پہلی آیات میں آپ نے پڑھ لیا ہے کہ آل فرعون میں سے ایک مرد مومن نے بھرے دربار میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تائید کرتے ہوئے آل فرعون کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل سے منع کیا تھا اور ان کو متعدد نصیحتیں کی تھیں ۔ اس مرد مومن نے مزید کہا کہ لوگو ! اگر تم موسیٰ (علیہ السلام) کو اسی طرح جھٹلاتے رہے اور ان کی مخالفت اور بد دشمنی پر اسی طرح اڑے رہے تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تمہیں وہ دن دیکھنا نہ پڑے جو تم سے پہلی قوموں قوم نوح (علیہ السلام) ، قوم عاد اور قوم ثمود اور انکے بعد آنے والی نافرمان قوموں نے دیکھا تھا ۔ اللہ نے ان لوگوں پر اپنی رحمتیں نازل کیں ۔ ہر طرح کی نعمتوں اور صلاحیتوں سے نوازا لیکن وہ اپنی ضد ، ہٹ دھرمی ، سرکشی اور نا فرمانیوں پر اڑے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ قومیں مختلف عذابوں میں تباہ و برباد کردی گئیں ۔ اللہ تو اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے وہ کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کرتا لیکن لوگ خود ہی اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ کرلیتے ہیں ۔ اس مرد مومن نے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ عذاب تمہارے اوپر بھی آگیا جو گزشتہ قوموں پر آیا تھا تو پھر تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی بچا نہ سکے گا کیونکہ جو خود ہی راستے سے بھٹک جائے اور ہدایت سے منہ پھیر لے تو ایسے آدمی کو راہ ہدایت نصیب نہیں ہوا کرتی ۔ اس مرد مومن نے کہا کہ یہی وقت ہے کہ سچائی کا راستہ اختیار کرلیا جائے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قدر کی جائے کیونکہ اگر یہ وقت نکل گیا تو پھر بعد میں سوائے شرمندگی اور پچھتانے کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا ۔ جس طرح لوگ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زندگی میں تو بڑے اعتراض کرتے رہے لیکن ان کے جانے کے بعد قوم کو احساس ہوا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا وجود کس قدر رحمت اور برکت کا سبب تھا۔ ان کی قوم حضرت یوسف (علیہ السلام) کے وصال کے بعد اس قدر مایوس ہوگئی اور کہنے لگی کہ اب ان کے بعد کوئی رسول کیا آئے گا ۔ یعنی ان جیسا رسول تو اب آ ہی نہیں سکتا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا جو حد سے بڑھ جانے والے اور جھوٹ اور شک کے سہارے زندہ رہتے ہیں ۔ جن کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ بغیر کسی دلیل کے اللہ کی آیات میں جھگڑے نکالتے ہیں ۔ اللہ ایسے جابر و ظالم لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے اور ایسے لوگ اللہ کے غصے اور غضب کا شکار ہو کر رہتے ہیں۔ جب فرعون نے دیکھا کہ مرد مومن کی باتوں سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں تو اس نے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے ایک نہایت غیر سنجیدہ اور نا معقول بات کرتے ہوئے اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ میرے لئے ایک ایسی اونچی بلڈنگ تعمیر کرا دے جہاں سے میں موسیٰ (علیہ السلام) کے رب کو جھانک کر دیکھ سکوں کیونکہ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سب غلط اور جھوٹ ہے۔ تاریخی اور معتبر روایات سے یہ تو ثابت نہیں ہے کہ فرعون یا اس کے وزیر نے کوئی ایسی اونچی بلڈنگ بنوائی ہو ۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ فرعون نے اس طرح لوگوں کی توجہ ہٹانے اور بات کو مذاق میں اڑانے کی کوشش تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس طرح اللہ نے فرعون کے غیر سنجیدہ اور بد ترین اعمال کو اس کو نظروں میں خوبصورت بنا دیا تھا جس سے اس کی عقل ماری گئی تھی ۔ اور اس طرح فرعون کی ہر سازش اور ہر تدبیر اس کو تباہی کے کنارے تک پہنچانے کا سبب بنتی چلی گئی ۔ اور آخرکار وہ اس کے ساتھی اپنی گمراہیوں کے سمندر میں غرق ہو کر تباہ و برباد ہوگئے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بندہ مومن کا سابقہ امتوں کی بربادی کو یاد دلانا اور قیامت کے دن کی بدحالی سے آگاہ کرنا بندہ مومن نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے تہدید اور تخویف سے بھی کام لیا اور یوں کہا کہ اے میری قوم تم جو حق کے انکار پر اور اس شخص کی تکذیب پر تلے ہوئے ہو تمہارا یہ رویہ خود تمہارے حق میں صحیح نہیں ہے تم سے پہلے ب... ھی قومیں گزری ہیں ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیجے تو قوموں نے ان کی تکذیب کی اور برباد ہوئے اس طرح کی ہلاک شدہ جو جماعتیں گزری ہیں ان میں سے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم بھی گزری ہے عاد اور ثمود بھی اس دنیا میں آئے اور بسے یہ سب قومیں حق کو ٹھکرانے کی وجہ سے ہلاک اور برباد ہوئیں ان کے بعد بہت سی قومیں آئیں جنہوں نے اپنے اپنے نبیوں کو جھٹلایا اور جھٹلانے کا مزہ پایا یعنی ہلاکت اور بربادی کے گھاٹ اتر گئے اللہ تعالیٰ نے جن قوموں کو ہلاک کیا ہے ان لوگوں کی بری حرکتوں کی وجہ سے ہلاک فرمایا ہے وہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے کا ارادہ نہیں فرماتا۔ بندہ مومن نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے مزید یوں کہا کہ دیکھو تمہیں ہمیشہ دنیا میں نہیں رہنا ہے مرنا بھی ہے قیامت کے دن پیشی بھی ہونی ہے وہاں حساب کتاب ہوگا، فیصلے ہوں گے اور پکارا جائے گا (اسی پکارے جانے کی وجہ سے یوم القیامہ کو یوم التناد کے نام سے موسوم کیا، اس دن بہت سی ندائیں ہوں گی) پہلی پکار نفخ صور کے وقت ہوگی جسے (یَوْمَ یُنَادِ الْمُنَادِیْ مِنْ مَّکَانٍ قَرِیْبٍ ) میں بیان فرمایا اور میدان حشر میں مختلف قسم کے لوگ ہوں گے انہیں ان کے اپنے اپنے پیشوا کے ساتھ بلایا جائے گا جسے (یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمْ ) میں بیان فرمایا ہے اور جب اہل ایمان کو داہنے ہاتھ میں کتاب دی جائے گی تو پکار اٹھیں گے (ھَآؤُمُ اقْرَءُ وْا کِتٰبِیَہْ ) نیز اہل جنت دوزخ والوں کو اور اہل دوزخ جنت والوں کو اور اہل اعراف بہت سے لوگوں کو پکاریں گے جیسا کہ سورة اعراف رکوع ٥ اور ٦ میں ذکر فرمایا ہے۔ جب پکار پڑے گی تو تم پشت پھیر کر چل دو گے یعنی محشر سے دوزخ کی طرف روانہ ہوجاؤ گے دوزخ سے بھاگنا چاہو گے تو بھاگ نہ سکو گے اس میں داخل ہونا ہی پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ جب فیصلہ فرما دے گا کہ تمہیں دوزخ میں جانا ہی ہے تو کوئی بھی چیز تمہیں عذاب سے نہیں بچاسکتی اور اس کے حکم کو نہیں ٹال سکتی۔ دیکھو تم راہ حق قبول کرلو ہاں اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری گمراہی کا فیصلہ ہو ہی چکا ہے تو پھر تمہیں کوئی ہدایت دینے والا نہیں (وَّمَنْ یُّضْلِلْ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ھَادٍ ) بندہ مومن نے اپنے مخاطبین کی ہدایت سے ناامید ہو کر ایسا کہا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

40:۔ ” وقال الذی اٰمن “ فرعون کی گفتگو کے بعد اس مومن نے پھر سب کو خطاب کر کے ناصحانہ انداز میں کہنا شروع کیا۔ اے میری قوم ! اگر تم اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب اور ان کی ایذاء کے درپے رہے، تو مجھے ڈر ہے کہ تم پر اسی طرح کا قہر و غضب عذاب کی شکل میں نازل ہو جس طرح گذشتہ امتوں مثلاً قوم نوح، ... عاد، ثمود اور ان کے بعد کی قوموں کے سرکشوں پر نازل ہو اور ان کو دیکھتے ہی دیکھتے تہس نہس کر کے ردکھ دیا۔ گذشتہ امتوں کے ان سرکشوں سے اللہ تعالیٰ نے جو سلک فرمایا وہ ظلم نہیں تھا وہ مستحق ہی اس عذاب کے تھے۔ ظلم کرنا تو درکنار، اللہ تعالیٰ تو بندوں پر ظلم کرنے کا ارادہ بھی نہیں فرماتا۔ امم سابقہ کے پاس اللہ تعالیٰ نے آیات بینات کے ساتھ اپنے پیغمبر بھیجے، انہوں نے ان کی تکذیب کی اور ان سے جدال و قتال پر آمادہ ہوگئے، اس لیے انہیں دنیا ہی میں کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں۔ ” وما للہ یرید ظلما للعباد “ ادخال الٰہی ہے اور اس میں اس شب ہے کا ازالہ کیا گیا ہے کہ ان اقوام کو اس کثرت تعداد کے باوجود ہلاک کرنا ظلم نہیں تھا۔ وہ مستحق ہی اس عذاب کے تھے۔ ظلم کرنا تو درکنار، اللہ تعالیٰ تو بندوں پر ظلم کرنے کا ارادہ بھی نہیں فرماتا۔ امم سابقہ کے پاس اللہ تعالیٰ نے آیات بینات کے ساتھ اپنے پیغمبر بھیجے، انہوں نے ان کی تکذیب کی اور ان سے جداول و قتال پر آمادہ ہوگئے، اس لیے انہیں دنیا ہی میں کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں۔ ” وما اللہ یردی ظلما للعباد “ ادخال الٰہی ہے اور اس میں اس شب ہے کا ازالہ کیا گیا ہے کہ ان اقوام کو اس کثرت تعداد کے باوجود ہلاک کرنا ظلم نہیں تھا ؟  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) اور اس شخص نے جو ایمان لے آیا تھا کہا اے میری قوم میں ڈرتا ہوں کہ تم کو بھی کہیں اور گروہوں اور فرقوں کی طرح روز بدنہ دیکھنا پڑے۔