Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 46

سورة مومن

اَلنَّارُ یُعۡرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا ۚ وَ یَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ ۟ اَدۡخِلُوۡۤا اٰلَ فِرۡعَوۡنَ اَشَدَّ الۡعَذَابِ ﴿۴۶﴾

The Fire, they are exposed to it morning and evening. And the Day the Hour appears [it will be said], "Make the people of Pharaoh enter the severest punishment."

آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح شام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی ( فرمان ہوگا کہ ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ... The Fire, they are exposed to it, morning and afternoon. then being transferred from there to Hell, for their souls are exposed to the Fire morning and evening until the Hour begins. When the Day of Resurrection comes, their souls and bodies will be reunited in Hell. Allah says: ... وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا الَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ And on the Day when the Hour will be established (it will be said to the angels): "Admit Fir`awn's people to the severest torment!" meaning, more intense pain and greater agony. This Ayah contains one of the major proofs used by the Ahlus-Sunnah to prove that there will be torment in the grave during the period of Al-Barzakh; it is the phrase: النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا (The Fire, they are exposed to it, morning and afternoon). But the question arises: this Ayah was undoubtedly revealed in Makkah, but they use it as evidence to prove that there will be torment in the grave during the period of Al-Barzakh. Imam Ahmad recorded from A'ishah, may Allah be pleased with her, that a Jewish woman used to serve her, and whenever A'ishah did her a favor, the Jewish woman would say, "May Allah save you from the torment of the grave." A'ishah said, "Then the Messenger of Allah came in, and I said, `O Messenger of Allah, will there be any torment in the grave before the Day of Resurrection?' He said, لاَا مَنْ زَعَمَ ذَلِكَ No, who said that? I said, `This Jewish woman, whenever I do her a favor, she says: May Allah save you from the torment of the grave."' The Messenger of Allah said, كَذَبَتْ يَهُودُ وَهُمْ عَلَى اللهِ أَكْذَبُ لاَ عَذَابَ دُونَ يَوْمِ الْقِيَامَة The Jews are lying, and they tell more lies about Allah. There is no torment except on the Day of Resurrection. Then as much time passed as Allah willed should pass, then one day he came out at midday, wrapped in his robe with his eyes reddening, calling at the top of his voice: الْقَبْرُ كَقِطَع اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ أَيُّهَا النَّاسُ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا وَضَحِكْتُمْ قَلِيلً أَيُّهَا النَّاسُ اسْتَعِـــــــــيذُوا بِاللهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَإِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَق The grave is like patches of dark night! O people, if you knew what I know, you would weep much and laugh little. O people, seek refuge with Allah from the torment of the grave, for the torment of the grave is real." This chain of narration is Sahih according to the conditions of Al-Bukhari and Muslim, although they did not record it. It was said, `how can this report be reconciled with the fact that the Ayah was revealed in Makkah and the Ayah indicates that there will be torment during the period of Al-Barzakh?' The answer is that the Ayah refers to the souls (of Fir`awn and his people) being exposed to the Fire morning and evening; it does not say that the pain will affect their bodies in the grave. So it may be that this has to do specifically with their souls. With regard to there being any effect on their bodies in Al-Barzakh, and their feeling pain as a result, this is indicated in the Sunnah, in some Hadiths which we will mention below. It was said that this Ayah refers to the punishment of the disbelievers in Al-Barzakh, and that it does not by itself imply that the believer will be punished in the grave for his sins. This is indicated by the Hadith recorded by Imam Ahmad from A'ishah, may Allah be pleased with her, according to which the Messenger of Allah entered upon A'ishah when a Jewish woman was with her, and she (the Jewish woman) was saying, "I was told that you will be tried in the grave." The Messenger of Allah was worried and said: إِنَّمَا يُفْتَنُ يَهُود Only the Jews will be tested. A'ishah, may Allah be pleased with her, said, "Several nights passed, then the Messenger of Allah said: أَلاَ إِنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُور Verily you will be tested in the graves." A'ishah, may Allah be pleased with her, said, "After that, the Messenger of Allah used to seek refuge with Allah from the torment of the grave." This was also recorded by Muslim. It could be said that this Ayah indicates that the souls will be punished in Al-Barzakh, but this does not necessarily imply that the bodies in their graves will be affected by that. When Allah revealed something about the torment of the grave to His Prophet, he sought refuge with Allah from that. And Allah knows best. The Hadiths which speak of the torment of the grave are very many. Qatadah said, concerning the Ayah, غُدُوًّا وَعَشِيًّا (morning and afternoon), "(This means) every morning and every evening, for as long as this world remains, it will be said to them by way of rebuke and humiliation, O people of Fir`awn, this is your position." Ibn Zayd said, "They are there today, being exposed to it morning and evening, until the Hour begins. وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا الَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ (And on the Day when the Hour will be established (it will be said to the angels): "Cause Fir`awn's people to enter the severest torment!") The people of Fir`awn are like foolish camels, stumbling into rocks and trees without thinking." Imam Ahmad recorded that Ibn Umar, may Allah be pleased with him, said, "The Messenger of Allah said: إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ فَيُقَالُ هذَا مَقْعَدُكَ حَتْى يَبْعَثَكَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَة When one of you dies, he is shown his place (in Paradise or Hell) morning and evening; if he is one of the people of Paradise, then he is one of the people of Paradise, and if he is one of the people of Hell, then he is one of the people of Hell. It will be said to him, this is your place until Allah resurrects you to go to it on the Day of Resurrection." It was also reported in the Two Sahihs.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 اس آگ پر برزخ میں یعنی قبروں میں لوگ روزانہ صبح شام پیش کئے جاتے ہیں، جس سے قبر کا عذاب ثابت ہوتا ہے جس کا بعض لوگ انکار کرتے ہیں۔ حدیث میں تو بڑی وضاحت سے عذاب قبر پر روشنی ڈالی گئی ہے مثلاً حضرت عائشہ (رض) کے سوال کے جواب میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' ہاں ! قبر کا عذاب حق ہے ' اسی طرح ایک اور حدیث میں فرمایا گیا ' جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو (قبر میں) اس پر صبح و شام اس کی جگہ پیش کی جاتی ہے یعنی اگر وہ جنتی ہے تو جنت اور جہنمی ہے تو جہنم اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ تیری اصل جگہ ہے، جہاں قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تجھے بھیجے گا (صحیح بخاری اس کا مطلب ہے کہ منکرین عذاب قبر قرآن و حدیث دونوں کی صراحتوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ 46۔ 2 اس سے بالکل واضح ہے کہ عرض علی النار کا معاملہ جو صبح وشام ہوتا ہے قیامت سے پہلے کا ہے اور قیامت سے پہلے برزخ اور قبر ہی کی زندگی ہے قیامت والے دن اس کو قبر سے نکال کر سخت ترین عذاب یعنی جہنم میں ڈال دیا جائے گا آل فرعون سے مراد فرعون اس کی قوم اور اس کے سارے پیروکار ہیں یہ کہنا کہ ہمیں تو قبر میں مردہ آرام سے پڑا نظر آتا ہے اسے اگر عذاب ہو تو اس طرح نظر نہ آئے لغو ہے کیونکہ عذاب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ہمیں نظر بھی آ‏ئے اللہ تعالیٰ ہر طرح عذاب دینے پر قادر ہے کیا ہم دیکھتے نہیں ہیں کہ خواب میں ایک شخص نہایت المناک منظر دیکھ کر سخت کرب و اذیت محسوس کرتا ہے لیکن دیکھنے والوں کو ذرا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ خوابیدہ شخص تکلیف سے دو چار ہے اس کے باوجود عذاب قبر کا انکار محض ہٹ دھرمی اور بےجا تحکم ہے بلکہ بیداری میں بھی انسان کو جو تکالیف ہوتی ہیں وہ خود ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ صرف انسان کا تڑپنا اور تلملانا ظاہر ہوتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ وہ تڑپے اور تلمائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٠] فرعون اور آل فرعون کا انجام اور عذاب قبر کا ثبوت :۔ ان غرق ہو کر مرنے والوں میں سے صرف فرعون کی لاش کو اللہ نے بچا لیا۔ باقی سب لوگوں کی لاشیں سمندر میں آبی جانوروں کی خوراک بن گئیں یا سمندر کی تہہ میں چلی گئیں۔ فرعون کی لاش کو سمندر کی موجوں نے اللہ کے حکم سے کنارے پر پھینک دیا۔ تاکہ عامۃ الناس اس خدائی کا دعویٰ کرنے والے شہنشاہ کا حشر دیکھ کر عبرت حاصل کریں۔ اور یہ مدتوں ساحل سمندر پر پڑی رہی۔ اور گلی سڑی نہیں بلکہ جوں کی توں قائم رہی۔ کہتے ہیں کہ اس کے مردہ جسم پر سمندر کے نمک کی دبیز تہہ چڑھ گئی تھی جس کی وجہ سے اس کا جسم گلنے سڑنے سے محفوظ رہا۔ اب ان غرق ہونے والوں کی لاشیں خواہ سمندر کی تہہ میں ہوں یا آبی جانوروں کے پیٹ میں یا فرعون کی لاش قاہرہ کے عجائب گھر میں پڑی ہو ان سب کی ارواح غرق ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں چلی گئی تھیں۔ غرق ہونے کے دن سے لے کر قیامت تک ان ارواح کو ہر روز صبح و شام اس دوزخ پر لاکھڑا کیا جاتا ہے جس میں وہ قیامت کے دن اپنے جسموں سمیت داخل ہونے والے ہیں۔ ان کی موت سے لے کر قیامت تک کے عرصہ میں، جسے اصطلاحی زبان میں عالم برزخ کہا جاتا ہے، صرف آگ پر پیشی ہوتی ہے اور صرف ارواح کی ہوتی ہے لیکن قیامت کے دن وہ آگ میں داخل ہوں گے اور جسموں سمیت داخل ہوں گے۔ اس لحاظ سے عالم برزخ کا عذاب قیامت کے عذاب کی نسبت بہت ہلکا اور قیامت کا عذاب عالم برزخ کے مقابلہ میں شدید تر عذاب ہے۔ اس آیت میں عالم برزخ کے عذاب یا عذاب قبر کی ٹھیک ٹھیک صراحت موجود ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کے ایک فرقہ نے عذاب قبر سے انکار کردیا ہے اور ان حضرات کا تعاقب میں نے اپنی تصنیف && آئینہ پرویزیت && میں پیش کردیا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل کی گنجائش نہیں۔ یہاں سردست صرف بخاری سے چند احادیث درج کر رہا ہوں جن سے واضح طور پر عذاب قبر کا ثبوت ملتا ہے : ١۔ سیدنا انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : && آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کرنے والے واپس لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اسے بٹھا دیتے ہیں پھر اس سے پوچھتے ہیں کہ تو ان صاحب محمد کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا ؟ اس سوال کے جواب میں مومن یہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لے۔ اللہ نے اس کے بدلہ تجھ کو جنت میں ٹھکانا دیا۔ پھر اس کی قبر کشادہ کردی جاتی ہے۔ لیکن کافر یا منافق سے جب بھی سوال کیا جاتا ہے کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے ؟ تو وہ کہے گا۔ میں کچھ نہیں جانتا، جو کچھ لوگ کہتے تھے میں بھی وہی کچھ کہہ دیتا تھا && پھر اس سے کہا جائے گا کہ نہ تو تو خود سمجھا اور نہ سمجھانے والے کی رائے پر چلا۔ پھر اسے لوہے کے ہتھوڑے سے اتنی مار پڑتی ہے کہ وہ چلا اٹھتا اور جن اور انسان کے سوا سب اس کے آس پاس والے اس کی چیخ و پکار کو سنتے ہیں && (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب ماجاء فی عذاب القبر) ٢۔ سیدنا ایوب انصاری (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سورج غروب ہونے کے بعد رسول اللہ مدینہ سے باہر گئے وہاں ایک آواز سنی تو فرمایا : && یہ یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے && (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب التعوذ من عذاب القبر) ٣۔ سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ دو قبروں پر سے گزرے۔ آپ نے فرمایا : ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑی بات میں عذاب نہیں ہورہا۔ ان میں سے ایک تو چغلی کھاتا پھرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا۔ پھر آپ نے ایک ہری ٹہنی لی۔ اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ پھر فرمایا : && امید ہے کہ جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب ہلکا رہے && (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب عذاب القبر من الغیبۃ والبول) ٤۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ یوں دعا مانگا کرتے تھے : && اے اللہ ! میں قبر کے عذاب سے، دوزخ کے عذاب سے، زندگی اور موت کی بلاؤں سے اور کانے دجال کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں && (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب التعوذ من عذاب القبر)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) النار یعرضون علیھا عدوآ و عیشیا، سمندر میں غرق کئے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں گھیرنے والے دو بدترین عذابوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ایک قیامت تک ہونے والا عذاب ، عذاب قبر یا عذاب برزخ ہے، جو موت اور آخرت کے درمیانے وقفے میں انھیں آگ کی صورت میں ہو رہا ہے، جس پر وہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں۔ خواہ ان کے جسم سمندری جانوروں کی خوراک بنے ہوں یا کسی عجائب گھر میں محفوظ ہوں، یا خاک میں مل گئے ہوں ، ان کا ہر ذرہ جہاں بھی ہے وہی اس کی قبر ہے اور قیامت تک اسے یہ عذاب ہوگا۔ صبح و شام سے مراد ہر وقت ہے اور یہ محاورہ عربی ہی نہیں ہر زبان میں بولا جاتا ہے۔ دیکھیے سورة مریم (٦٢) ۔ (٢) ویوم تقوم الساعۃ ادخلوا ال فرعون اشد العذاب : یہ دوسرا عذاب ہے جو قیامت کے دن شروع ہوگا۔ یہ آیت عذاب قبر کی واضح دلیل ہے۔ بعض لوگوں نے واضح آیات و احادیث کے باوجود عذاب قبر کا انکار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے۔ امام بخاری رحمتہ اللہ لعیہ نے صحیح بخاری میں ” کتاب الجنائر “ کے تحت ” باب ما جآء فی عذاب القبر “ میں عذاب قبر ثابت کرنے کے لئے تین آیات اور متعدد احادیث ذکر فرمائی ہیں۔ پہلی آیت :(اذا الظلمون فی عمرت الموت والملئکۃ باسطوا ایدیھم اخرجوا انفسکم الیوم تجرون عذاب الھون) (الانعام : ٩٣)” جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوتے ہیں، نکالو اپنی جانیں، آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ “ دوسری آیت (سنعذبھم مرتبین ثم یرذون الی عذاب عظیم) (التوبۃ : ١٠١) ” عنقریب ہم انہیں دو بار عذاب دیں گے، پھر وہ بہت بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ “ تیسری یہ آیت جو یہاں زیر تفسیر ہے۔ عذاب قبر سے متعلق صحیح بخاری میں مذکور احادیث میں سے چند یہاں درج کی جتای ہیں۔ انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان العبد اذا وضع فی قبرہ وتولی عنہ اضحابہ و انہ لیسمع فرع نعالھم اتاہ ملکان فیقعد انہ فیقولان ماکنت تقول فی ھذا الرجل لمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ فاما المومن فیقول اشھد انہ عبداللہ و رسولہ فیقال لہ انظر الی مقعدک من النار، قد ابدلک اللہ بہ مقعداً من الجنۃ ، فیر ا ھما جمیعاً ، قال قتادہ و ذکر لنا انہ یفسح لہ فی قبرہ ثم رجع الی حدیث انس قال و اما المنافق والکافر فیقال لہ ما کنت نقول فی ھذا الرجل ؟ فیقول لا اذری کنت اقول مایقول الناس فیقال لا ذریت ولا تلیث و یضرب بمطارق من خدید صربۃ فیصیح صیحۃ یسمعھا من یدرہ غیر التعلمین ) (بخاری، الحنائر، باب و ما جاء فی عذاب القبر :1383)” آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے واپس لوٹتے ہیں اور وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے، تو اس کے پاس وہ فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں :” تو اس آدمی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کیا کہتا تھا ؟ “ جو مومن ہے وہ کہتا ہے :” میں شہادت دیتا ہوں کہ وہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے۔ “ تو اس سے کہا اجتا ہے :” آگ میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ لے، اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں تجھے جنت میں ٹھکانا دے دیا ہے۔ “ تو اسے وہ دونوں ٹھکانے اکٹھے دکھائیج اتے ہیں۔ قتادہ نے کہا ” ہمیں بتایا گیا کہ پھر اس کی قبر کشادہ کردی جاتی ہے۔ “ پھر قتادہ نے انس (رض) سے مروی حدیث آگے بیان فرمائی :” اور جو منافق یا کافر ہے، اس سے کہا جاتا ہے :” تو اس آدمی کے بارے میں کیا کہتا تھا ؟ “ و کہتا ہے :” میں نہیں جانتا، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ “ تو اس سے کہا جاتا ہے :” نہ تو نے جانا اور نہ کسی کے پیچھے چلا۔ “ پھر اسے لوو ہے کے ہتھوڑوں سے ایک ایسی ضرب ماری جاتی ہے، جس سے وہ ایسی چیخ مارتا ہے جسے انسانوں اور جنوں کے سوا اس کے آس پاس کے سب سنتے ہیں۔ “ ابو ایوب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورج غروب ہونے کے بعد باہر نکلے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آواز سنی، تو فرمایا (یھود تعذب فی قبورھا) (بخاری، الجنائر، باب التعوذ من عذاب القبر :1385) ’ یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔ “ ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا :(انھما لیعذبان، وما یعذبان فی کبیر ، ثم قال بلی، اما اخدھما فکان یسعی بالنمعمۃ واما اخدھما فکان لایستبرمن بولہ) (بخاری، الجنائر، باب عذاب القبر من الغیۃ والیول :1368)” بلا شبہ یقیناً ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑی چیز کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔ “ پھر آپ نے فرمایا :” کیوں نہیں ! (وہ واقعی بڑی ہیں) ان میں جو ایک ہے وہ چغلی کھایا کرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔ “ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کیا کرتے تھے (اللھم انی اعوذ بک من عذاب القبر، ومن عذاب النار، ومن فتنۃ المحیا والممات، ومن فتنہ المسیح الدجال) (بخاری، الجنائر، باب التعوذ من عذاب القبر :1388)” اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور آگ کے عذاب سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنے سے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the last verse cited here, it was said: النَّارُ‌ يُعْرَ‌ضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْ‌عَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ. (It is the Fire before which they are presented morning and evening. And on the day when the Hour (of final judgment) will take place, (the order will be released): |"Admit the family of the Pharaoh into the most severe punishment.|"- 46). Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud (رض) explained this verse by saying, |"Spirits of people from the House of Pharaoh are presented before the Jahannam in the form of black birds, twice every day, morning and evening, and by pointing out to the Jahannam, it is said to them: This is your abode.|" (Reported by Abd-ur-Razzaq and Ibn Abi Haim - Mazhari) And according to a narration of Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Umar (رض) appearing in the two Sahihs of al-Bukhari and Muslim, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, (the meaning of which is): |"When one of you dies (and is in the universe of barzakh, the post-death - pre-resurrection state) he is shown, morning and evening, the place he is to reach after the reckoning of the Day of Judgment. And this place is shown to him every day, and he is told that he has to reach there finally. If this person is from among the people of Jannah, then, Jannah will be shown to him as his place. And if he is from among the people of Jahannam, then, Jahannam will be shown to him as his place.|" Punishment in graves This verse is a proof of punishment in graves. Uninterrupted reports of ahadith and the consensus (ijma) of the Muslim Ummah confirm it. This humble writer has put together all such material, along with relevant verses from the Qur&an, in a regular treatise entitled: السبر بعذاب القبر As-sabr bi&adhabi-l-qabr. This treatise has been published in Arabic as part of Ahkam-ul-Qur&an.

(آیت) اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّعَشِـيًّ آ وَيَوْمَ تَـقُوْمُ السَّاعَةُ ۣ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ آل فرعون کی روحیں سیاہ پرندوں کی شکل میں ہر روز صبح اور شام دو مرتبہ جہنم کے سامنے لائی جاتی ہیں اور جہنم کو دکھلا کر ان سے کہا جاتا ہے کہ تمہارا ٹھکانہ یہ ہے۔ (اخرجہ عبدالرزاق وابن ابی حاتم، مظہری) اور صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی مر جاتا ہے تو عالم برزخ میں صبح و شام اس کو وہ مقام دکھلایا جاتا ہے جہاں قیامت کے حساب کے بعد اس کو پہنچنا ہے اور یہ مقام دکھلا کر روزانہ اس سے کہا جاتا ہے کہ تجھے آخر کار یہاں پہنچنا ہے۔ اگر یہ شخص اہل جنت میں سے ہے تو اس کا مقام جنت اس کو دکھلایا جائے گا اور اہل جہنم میں سے ہے تو اس کا مقام جہنم اس کو دکھلایا جائے گا۔ عذاب قبر : یہ آیت دلیل ہے عذاب قبر کی اور حدیث کی روایات متواترہ اور اجماع امت اس پر شاہد ہیں، جن کو احقر نے ایک مستقل رسالہ بنام السیر بعذاب القبر میں جمع کردیا ہے۔ مع آیات متعلقہ کے یہ رسالہ احکام القرآن حزب سادس کا جز ہو کر بزبان عربی شائع ہوگیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْہَا غُدُوًّا وَّعَشِـيًّا۝ ٠ وَيَوْمَ تَـقُوْمُ السَّاعَۃُ۝ ٠ ۣ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ۝ ٤٦ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ عرض أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة/ 31] ، ( ع ر ض ) العرض اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة/ 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ غدا الْغُدْوَةُ والغَدَاةُ من أول النهار، وقوبل في القرآن الغُدُوُّ بالآصال، نحو قوله : بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف/ 205] ، وقوبل الغَدَاةُ بالعشيّ ، قال : بِالْغَداةِ وَالْعَشِيِ [ الأنعام/ 52] ، غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ/ 12] ( غ د و ) الغدوۃ والغداۃ کے معنی دن کا ابتدائی حصہ کے ہیں قرآن میں غدو ( غدوۃ کی جمع ) کے مقابلہ میں اصال استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : ۔ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف/ 205] صبح وشام ( یا د کرتے رہو ) ( غدو ( مصدر ) رواح کے مقابلہ میں ) جیسے فرمایا : ۔ غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ/ 12] اس کا صبح کا جانا ایک مہینہ کی راہ ہوتی ہے اور شام کا جانا بھی ایک مہینے کی ۔ عشا العَشِيُّ من زوال الشمس إلى الصّباح . قال تعالی: إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها[ النازعات/ 46] ، والعِشَاءُ : من صلاة المغرب إلى العتمة، والعِشَاءَانِ : المغرب والعتمة «1» ، والعَشَا : ظلمةٌ تعترض في العین، ( ع ش ی ) العشی زوال آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک کا وقت قرآن میں ہے : ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْضُحاها[ النازعات 46] گویا ( دنیا میں صرف ایک شام یا صبح رہے تھے ۔ العشاء ( ممدود ) مغرب سے عشا کے وقت تک اور مغرب اور عشا کی نمازوں کو العشاء ن کہا جاتا ہے اور العشا ( توندی تاریکی جو آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے رجل اعثی جسے رتوندی کی بیمار ی ہو اس کی مؤنث عشراء آتی ہے ۔ يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قیامت سے پہلے بھی عذاب ہے قول باری ہے (النار یعرضون علیھا غدوا وعشیا۔ وہ لوگ صبح وشام آگ پر پیش کیے جاتے ہیں) یہ آیت عذاب قبر پر دلات کرتی ہے کیونکہ قول باری ہے (ویوم تقوم الساعۃ ادخلوا ال فرعون اشد العذاب۔ اور جس روز قیامت قائم ہوگی (یہ کہا جائے گا) اہل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کردو) یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت زیر بحث میں وہ عذاب مراد ہے جو قیامت سے پہلے انہیں دیا جائے گا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

فرعون والے فرعون سمیت دوزخ میں قیامت تک دوزخ کے سامنے صبح و شامل لائے جاتے رہیں گے۔ اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو سخت ترین دوزخ کے عذاب میں داخل کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦{ اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا } ” آگ ہے جس پر وہ پیش کیے جاتے ہیں صبح وشام۔ “ یہ قرآن مجید کی دوسری آیت ہے جس سے عذاب قبر سے متعلق دلیل ملتی ہے (نیز ملاحظہ ہو : سورة الفرقان کی آیت ٦٩ کی تشریح۔ ) { وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُقف اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ } ” اور جس دن قیامت قائم ہوگی (اُس دن کہہ دیا جائے گا کہ) داخل کر دو فرعون کی قوم کو شدید ترین عذاب میں۔ “ اس آیت کے مفہوم کے مطابق آلِ فرعون کو شدید ترین عذاب میں تو قیام قیامت کے بعد داخل کیا جائے گا ‘ لیکن اس سے پہلے قبر کی زندگی کے دوران صبح وشام انہیں آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ۔ - ۔ عذابِ قبر کے حوالے سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمودات بہت واضح ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (اِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ اَوْ حُفْرَۃٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ ) (١) ” قبریا تو جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا “۔ منکرین حدیث البتہ عذاب قبر کی نفی کرتے ہیں۔ در اصل قبر کا معاملہ ایک دوسرے جہان کا معاملہ ہے جو عالم غیب ہے۔ اس ضمن میں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ قبر سے مراد وہ مخصوص گڑھا نہیں جہاں میت کو دفن کیا جاتا ہے ‘ بلکہ اس سے مراد عالم برزخ ہے۔ سورة المُطفِّفِین میں عالم برزخ کی دو کیفیات عِلِّیِیْناور سِجِّیْنکا ذکر ملتا ہے۔ اس عالم میں انسان نیم شعوری کی کیفیت میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی خوش قسمت ” عِلِّیِیْن “ میں ہے تو وہاں جنت کی کھڑکی کھلی ہوتی ہے اور وہ جنت کی ٹھنڈی ہوائوں کے مزے لے رہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ” سِجِّیْن “ میں جہنم کی کھڑکی میں سے آگ کی لپٹ آرہی ہوتی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

63 This verse is an express proof of the torment of barzakh, which has often been mentioned in the Traditions as the torment of the grave. Allah here has in clear words mentioned two stages of the torment; a lesser torment, which is being given now to Pharaoh and his people before the coming of Resurrection, and it is; this that they are presented before the fire of Hell morning and evening, which strikes terror in their hearts and they see the Hell which they will have to enter ultimately. After this when Resurrection comes, they will be given the real and greater punishment which is destined for them, i.e. they will be hurled into the same Hell, which they are being made to witness since the time they were drowned till today, and will continue to witness it till the Hour of Resurrection. And such a treatment is not especially meant for Pharaoh and his people: alI the culprits continue to witness the evil end, from the hour of death till Resurrection, which is awaiting them. On the other hand, the righteous people are made to see continually the pleasant picture of the good end, which Allah has got ready for them. A Tradition has been related in Bukhari, Muslim, and Musnad Ahmad on the authority of Hadrat 'Abdullah bin `Umar, saying that the Holy Prophet said: Whoever from among you dies is shown his final resting place morning and evening continually, whether he be a dweller of Paradise or of Hell. It is said to him: This is the place which you will enter when Allah will raise you back to life on the Day of Resurrection and will call you into His presence. " (For further details, see AI Anfal: 50-51; An-Nalal: 28-32; AI-Mu'minun: 99-100 and the E.N.'s thereof, and E.N.'s 22, 23 of Surah Ya Sin).

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :63 یہ آیت اس عذاب برزخ کا صریح ثبوت ہے جس کا ذکر بکثرت احادیث میں عذاب قبر کے عنوان سے آیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہاں صاف الفاظ میں عذاب کے دو مرحلوں کا ذکر فرما رہا ہے ، ایک کم تر درجے کا عذاب جو قیامت کے آنے سے پہلے فرعون اور آل فرعون کو اب دیا جا رہا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ انہیں صبح و شام دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جسے دیکھ کر وہ ہر وقت ہول کھاتے رہتے ہیں کہ یہ ہے وہ دوزخ جس میں آخر کار ہمیں جانا ہے ۔ اس کے بعد جب قیامت آ جائے گی تو انہیں وہ اصلی اور بڑی سزا دی جائے گی جو ان کے لیے مقدر ہے ، یعنی وہ اسی دوزخ میں جھونک دیے جائیں گے جس کا نظارہ انہیں غرقاب ہو جانے کے وقت سے آج تک کرایا جا رہا ہے اور قیامت کی گھڑی تک کرایا جاتا رہے گا ۔ اور یہ معاملہ صرف فرعون و آل فرعون کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے ۔ تمام مجرموں کو موت کی ساعت سے لے کر قیامت تک وہ انجام بد نظر آتا رہتا ہے جو ان کا انتظار کر رہا ہے ، اور تمام نیک لوگوں کو اس انجام نیک کی حسین تصویر دکھائی جاتی رہتی ہے جو اللہ نے ان کے لیے مہیا کر رکھا ہے ۔ بخاری ، مسلم اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان احدکم اذا مات عرض علیہ مقعدہ بالغداۃ و العشی ، ان کان من اھل الجنۃ فمن اھل الجنۃ ، وان کان من اھل النار فمن اھل النار ، فیقال ھٰذا مقعدک حتیٰ یبعثک اللہ عزوجل الیہ یوم القیٰمۃ تم میں سے جو شخص بھی مرتا ہے اسے صبح و شام اس کی آخری قیام گاہ دکھائی جاتی رہتی ہے ، خواہ وہ جنتی ہو یا دوزخی ۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں تو اس وقت جائے گا جب اللہ تجھے قیامت کے روز دوبارہ اٹھا کر اپنے حضور بلائے گا ۔ ( مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القران جلد اول ، صفحہ 386 ۔ جلد دوم ، ص 150 ۔ 535 تا 538 ۔ جلد سوم ، ص 299 ۔ 300 ۔ جلد چہارم ، سورہ یٰسٓ ، حاشیہ 22 ۔ 23 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: انسان کے مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے انسان کی روح جس عالم میں رہتی ہے، اسے عالم برزخ کہا جاتا ہے۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو عالم برزخ میں دوزخ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ان کا ٹھکانا یہ ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٦۔ عام مفسرین بلکہ تمام اہل سنت نے اس آیت سے عذاب قبر کو ثابت کیا ہے لیکن اس میں ایک اعتراض یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور جب اس آیت مکی سے عذاب قبر کا ثابت ہونا قرار دیا گیا تو ہجرت کے بعد مدینہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعضی روایتوں میں عذاب قبر سے انکار کیوں فرمایا ہے چناچہ مسند ٢ ؎ امام احمد میں حضرت عائشہ کی صحیح حدیث جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک عورت یہودیہ حضرت عائشہ کے پاس آیا کرتی تھی اور حضرت عائشہ اس یہودیہ کو کبھی کچھ دیا کرتی تھیں تو وہ یہودیہ یہ دعا کرتی کہ خدا تعالیٰ تم کو عذاب قبر سے بچائے ایک دن حضرت عائشہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ کیا قبر میں بھی لوگوں پر کچھ عذاب ہوگا آنحضرت نے فرمایا کہ نہیں کون کہتا ہے حضرت عائشہ نے اس یہودیہ کے دعا دینے کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہود نے اس طرح کی جھوٹی باتیں بہت سی دین میں بنا لی ہیں سوا قیامت کے دن کے اور کوئی عذاب نہیں ہے جواب اس اعتراض کا حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر نے یہ دیا ہے کہ اس آیت سے کافروں کا عذاب قبر ثابت ہوا تھا گناہ گار اہل کلمہ کا عذاب قبر مدینہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات کے آخری وقت میں وحی خفی کے ذریعہ سے پھر ثابت ہوا ہے۔ چناچہ صحیح ٣ ؎ مسلم میں حضرت عائشہ کی جو روایت ہے اس میں یہ بھی ہے کہ جب عذاب قبر کے انکار کے بعد اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ سے عذاب قبر کی تصدیق کا ذکر کیا تو اس ذکر میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ گناہ گار اہل کلمہ کے عذاب قبر کا حال مجھ کو اب وحی کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے اس حدیث سے حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر کے جواب کی پوری تائید ہوتی ہے حاصل کلام یہ ہے کہ اس یہودیہ کے حضرت عائشہ کو دعا دینے کے وقت تک اہل کلمہ کا عذاب قبر ثابت نہیں ہوا تھا اس واسطے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس یہودیہ کے قول کا انکار فرمایا اس جواب کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ صحیح حدیثوں کے موافق یہ یہودیہ کا قصہ اس وقت گزرا جب آنحضرت کے زمانہ میں سورج گہن ہوا تھا چناچہ یہودیہ کی اس بات کا جواب دیتے ہی آپ سورج گہن کی نماز کو تشریف لے گئے اور پھر چند روز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگنے کا حکم آپ نے دیا اور یہ بھی صحیح حدیثوں میں ہے کہ سنہ دس ہجری میں جب حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادہ ابراہیم کا انتقال ہوا یہ سورج گہن اس وقت ہوا تھا غرض ان صحیح حدیثوں سے وہی مطلب ثابت ہوتا ہے کہ سنہ دس ہجری میں جو آخری زمانہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات کا ہے پہلے آپ نے یہودیہ کے قول کا انکار فرمایا اور پھر یہ فرمایا کہ مجھ کو وحی کے ذریعہ سے بات معلوم ہوئی ہے کہ گناہ گار اہل کلمہ پر بھی عذاب قبر ہوگا اس لئے تم لوگ عذاب قبر سے پناہ مانگا کرو حاصل یہ ہے کہ فرعون جیسے کافروں کا عذاب قبر قرآن سے ثابت ہوا ہے اور گناہ گار اہل کلمہ کا عذاب قبر حدیث سے ایک اختلاف علما میں یہاں اور ہے وہ یہ ہے کہ عذاب قبر فقط روح پر ہوگا یا فقط جسم پر یا روح جسم دونوں پر بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ جنگ بدر میں جو کافر مارے گئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ تم لوگوں نے خدا کا وعدہ سچا پایا اس سے یہ معلوم ہوا کہ خدا کے وعدہ کے موافق اس وقت ان لوگوں پر عذاب ہو رہا تھا لیکن وہ لاشیں سب صحابہ کے سامنے پڑی تھیں اور روح کا کوئی اثر ان لاشوں میں نہیں تھا اسی واسطے صحابہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ حضرت آپ مرے ہوئے مردوں سے باتیں کرتے ہیں غرض اس قصہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فقط جسم میں خدا تعالیٰ عذاب کا درد بھگتنے کی ایک قوت پیدا دیتا ہے اور عذاب فقط جسم پر ہی ہوتا ہے روح کو اس سے کچھ تعلق نہیں ابن حزم اور ابن جیرہ کا مذہب یہ ہے کہ عذاب فقط روح پر ہوتا ہے جمہور اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ عذاب قبر جسم اور روح دونوں پر ہوتا ہے صحیح حدیثوں سے منکر نکیر کے سوال و جواب کے وقت روح کا مردہ کے جسم میں پھر آنا پایا جاتا ہے اور اس وقت کے عذاب کا ذکر جو کچھ حدیث میں آیا ہے مثلاً قبر کا بھیچنا دونوں کانوں کے بیچ میں فرشتہ کا گرز مارنا اس سے بھی روح اور جسم دونوں پر عذاب قبر کا ہونا معلوم ہوتا ہے بعضے مفسروں کو یہاں یہ شبہ پیدا ہوا ہے کہ منکر نکیر کے سوال کے وقت تو مردہ کو تازہ دفن کیا جاتا ہے جس کا جسم موجود ہوتا ہے اس موجودہ جسم سے روح کا تعلق سمجھ میں آتا ہے لیکن جن مرے ہوئے لوگوں کو دفن کرکے عرصہ گزر گیا جن کی ہڈیاں تک خاک ہوگئیں ان کی قبروں میں تو سوا خاک کے اور کچھ نہیں نظر آیا ایسی حالت میں روح کا تعلق کون سے جسم کے ساتھ ہوتا ہے اس کا جواب اور مفسروں نے یہ دیا ہے کہ دنیا کا انتظام چلنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان سے عذاب قبر کا حال اس لئے پوشیدہ رکھا ہے کہ معمولی فرشتوں کو بھی اصلی صورت میں دیکھنا انسان کی طاقت سے باہر ہے چناچہ اس کا ذکر سورة الانعام میں گزر چکا ہے اب عذاب قبر کے خوفناک فرشتوں کو عذاب کرتے ہوئے جو کوئی دیکھتا وہ کسی طرح زندہ نہیں رہ سکتا تھا جس سے دنیا کے انتظام میں خلل پڑجاتا۔ صحیح بخاری ١ ؎ میں انس (رض) بن مالک سے اور صحیح سند سے مسند امام ٢ ؎ احمد اور ابودائود ٣ ؎ میں براء بن العازب سے جو روایتیں ہیں ان میں یہ ذکر تفصیل سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عذاب قبر کا حال انسان سے پوشیدہ رکھا ہے اب یہ بات اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کیا بعید ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کے چھوٹے سے ٹکڑے سے روح کا تعلق کرایا جاتا ہو اور عذاب قبر کے پوشیدہ رکھے جانے کی حکمت سے وہ ہڈی کا ٹکڑا انسان کو نظر نہ آتا ہو یہ ریڑھ کی ہڈی کا ٹکڑا وہی ہے جس کا ذکر صحیح بخاری ٤ ؎ اور مسلم کی ابوہریرہ کی روایت میں ہے کہ اس کو مٹی نہیں کھاتی اور اسی سے قیامت کے دن مردہ کا سارا جسم تیار ہوجائے گا اس سے یہ بات بھی نکل سکتی ہے کہ جس طرح ہڈی کے ٹکڑے میں تمام جسم کے تیار ہوجانے کا مادہ رکھا گیا ہے اسی طرح روح کے تعلق کے بعد اس ہڈی کے ٹکڑے پر کا عذاب قبر تمام جسم پر کے عذاب کا کام دے تو کیا یہ قدرت الٰہی سے باہر ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا کی آنکھوں میں آخرت کی چیزوں کے دیکھنے کی طاقت نہیں ہے اس واسطے یہ ضروری نہیں ہے کہ مثلاً عذاب قبر جنت دوزخ یا آخرت کی اور چیزیں دنیا میں انسان کو نظر آجائیں گی اگر ایسا ہوتا تو دنیا کی آنکھوں سے موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ضرور ہوجاتا۔ صحیح بخاری ١ ؎ ترمذی نسائی وغیرہ میں عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی ایسا شخص مرجاتا ہے جو قیامت کے دن جنت میں داخل ہونے کے قابل ٹھہرا ہے تو اس کو صبح شام اس کا جنت کا ٹھکانا اور جو دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل قرار پایا اس کو صبح شام اس کا دوزخ کا ٹھکانہ دکھا کر فرشتے یہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن اس ٹھکانے میں جانے کے لئے ہر ایک شخص کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ یہ حدیث بھی یہودیہ کے قصہ کے بعد کی ہے کیونکہ اس میں فرعون جیسے کافروں اور اہل کلمہ گناہ گاروں سب کو یہ جتایا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے ہر قابل دوزخ شخص پر علاوہ اور عذاب قبر کے یہ عذاب قبر بھی ہوگا کہ صبح و شام اس کا دوزخ کا ٹھکانہ اسے دکھایا جائے گا صحیح ٢ ؎ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشاب کی نجاست سے نہ بچنے اور غیبت سے اکثر عذاب قبر ہوگا اور یہ بھی صحیح حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص ہر رات کو سورة الملک پڑھے گا وہ عذاب قبر سے محفوظ ٣ ؎ رہے گا آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ قیامت سے پہلے تو فرعون اور اسکے ساتھیوں کو ان کا دوزخ کا ٹھکانا صبح و شام دکھایا جائے گا اور قیامت کے دن ان کو حکم دیا جائے گا کہ وہ اس ٹھکانے میں جا کر ہمیشہ رہیں۔ براء بن العازب کی جس حدیث کا حوالہ اوپر گزرا اس میں یہ بھی ہے کہ دوزخ کے قابل لوگ قیامت سے پہلے قبر میں ہمیشہ یہ دعا مانگتے رہتے ہیں کہ یا اللہ قیامت قائم نہ ہو۔ اس حدیث سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ صبح شام دوزخ کا ٹھکانا دیکھ کر یہ لوگ قیامت کے دن اس ٹھکانے میں جانے سے ایسے خوف زدہ ہیں کہ عذاب قبر کو اس کے آگے غنیمت جانتے ہیں اور قیامت کے قائم نہ ہونے کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔ (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٨١ ج ٤۔ ) (٣ ؎ صحیح مسم باب استحباب التعوذ من عذاب القبر۔ ص ٢١٧ ج ١۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری ماجاء فی عذاب القبر۔ ص ١٨٤ ج ١۔ ) (٢ ؎ الترغیب والترہیب باب ماجاء فی عذاب القبر و نعیمہ ص ٦٨٧۔ ) (٣ ؎ ابودائود باب فی المسالۃ فی القبر و عذاب القبر ص۔ ) (٤ ؎ صحیح مسلم باب مابین النفختین ص ٤٠٦ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب البیت یعرض علیہ مقعدہ بالغدوۃ والعشی ص ١٨٥ ج ١۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری عذاب القبر من الغیبۃ والبول۔ ص ١٨٤ ج ١۔ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٩٥ ج ٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:46) النار۔ کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) یہ سوء العذاب سے بدل ہے یعنی وہ سخت عذاب جہنم کی آگ ہوگی۔ (2) یہ خبر ہے جس کا مبتداء محذوف ہے کانہ قیل ما سوء العذاب فقیل ھو النار۔ یعنی کوئی پوچھے وہ سخت عذاب کیا ہوگا اور خواب میں کہا جائے وہ عذاب دوزخ یا دوزخ کی آگ ہوگا۔ (3) مبتدا ہے اور اس کی خبر اگلا جملہ یعرضون علیہا ہے۔ یعرضون علیہا : یعرضوں مضارع مجہول کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ عرض (باب ضرب) مصدر پیش کرنا۔ عرض علی کسی کے سامنے پیش کرنا۔ جیسے عرض المتاع للبیع : سامان کو فروخت کے لئے خریداروں کے سامنے پیش کرنا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع النار ہے۔ یعنی ان کو دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ (جلانے کے لئے) ۔ غدوا : ای فی الغدو صبح کے وقت عشیا رات کے وقت۔ دونوں بوجہ مفعول فیہ ہونے کے منصوب ہیں۔ یہاں صبح و شام سے مراد اس دنیا کے صبح و شام نہیں بلکہ اس عالم آخرت میں وقت کے تعین کی جو بھی صورت ہوگی اس کے مطابق ۔ صبح کو بھی پیش کئے جائیں گے اور شام کو بھی یا صبح و شام سے مراد ہمیشگی ہے جیسے اس دنیا میں ہم کہتے ہیں کہ کام صبح و شام ہوتارہتا ہے۔ یعنی ہمیشہ ہوتا ہی رہتا ہے۔ جب تک کہ یہ صبح و شام کا سلسلہ جاری ہے۔ فائدہ : علمائے اہل سنت نے اس آیت سے عذاب قبر کا اثبات کیا ہے اور علمائے معتزلہ عالم برزخ میں عذاب کے قائل نہیں ہیں۔ ویوم ۔۔ اشد العذاب : ای یوم تقوم الساعۃ یقال لخزنۃ جھنم ادخلوا ال فرعون اشد العذاب۔ اور جس روز قیامت قائم ہوگی تو دوزخ کے پہرہ داروں کو کہا جائے گا کہ فرعونیوں کو سخت عذاب میں داخل کر دو ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ عالم برزخ ( قبر) میں کفار کو عذاب ہو رہا ہے۔ قرآن کی بعض دوسری آیات میں بھی اس کے متعلق اشارات ملتے ہیں اور حدیث میں بھی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : موت کے بعد ہر آدمی کو صبح و شام جنت یا جہنم میں اس کا ٹھکانہ دکھایا جاتا یہ اور اس کی دلیل میں یہی آیت تلاوت فرمائی۔ ( شوکانی) یہ آیت مکی ہے اور متعدد طرق حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت میرے پاس آئی اور دوران گفتگو میں اس نے کہا ( وقاک اللہ من عذاب القبر) کہ اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب قبر سے محفوظ رکھے مجھے تعجب ہوا اور میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کذبت الیھودیہ) کہ اس یہودی عورت نے جھوٹ بولا ہے مگر چند روز کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا اور فرمایا ” لوگو عذاب قبر سے پناہ مانگا کرو۔ بیشک عذاب قبر برحق ہے “۔ علماء نے لکھا ہے کہ آیت اور حدیث میں تعارض نہیں ہے۔ آیت سے صرف ارواح کا صبح و شام معذب ہونا ثابت ہوتا ہے اور احادیث سے روح مع الجسد کا جس کا علم بذریعہ وحی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ میں اس یہودیہ کے واقعہ کے بعد ہوا ہوگا۔ ( ابن کثیر) علماء نے اہل سنت کے نزدیک عذاب قبر برحق ہے اور اس کا انکار بدعت ہے۔ امام سیوطی (رح) نے اپنے رسالہ ” شرح الصدور “ میں ان تمام احادیث کو یکجا کردیا ہے جو اس مسئلہ سے متعلق ہیں۔ علی قاری (رح) نے بھی شرح مشکوٰۃ میں مفصل بحث کی ہے۔ ( منہ (رح)6” تو فرشتوں کو حکم دیا جائے گا۔۔۔۔۔ “ 7 بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کی نیکیوں کی وجہ سے ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے گی اور ابو طالب کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ( واھون عذابا) فرمایا ہے مگر قرآن کی روایات سے ثابت ہے کہ آخرت میں کافر کا کوئی عمل قابل قبول نہ ہوگا۔ ابو طالب کے قصہ کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاصہ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کے ساتھ نیکی کا بدلہ ہے یا ان روایات کے پیش نظر یہ کہہ سکتے ہیں کہ کافر کی نیکی قبول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی مرحلہ پر بھی اس کے لئے نجات کا سبب نہیں بن سکے گی اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ بعض نیک اعمال بعض اشخاص کیلئے آخرت میں تخفیف عذاب کا سبب بن جائیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ ( شرح مسلم للنوید و فتح الباری)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ ان آیتوں سے عذاب برزخ ثابت ہوتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (النَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا) (یہ لوگ صبح و شام آگ پر پیش کیے جاتے ہیں) آل فرعون غرق ہوگئے، مرگئے، بزرخ میں پہنچ گئے وہاں وہ صبح شام دوزخ کی آگ پر پیش کیے جاتے ہیں اس پیش کرنے میں ان کی سزا بھی ہے آگ پر پیش کیے جاتے ہیں تو اس کی لپیٹ پہنچتی ہے اور انہیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ تمہیں اسی میں داخل ہونا ہے یہ تو بزرخ کا معاملہ ہوا اور قیامت کے دن انہیں اصلی دوزخ میں داخل کیا جائے گا ارشاد فرمایا (وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْا آلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ ) (اور جس دن قیامت قائم ہوگی فرشتوں سے کہا جائے گا کہ آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کرو۔ ) عذاب قبر کا تذکرہ کافروں اور فاسقوں کے لیے عذاب قبر میں مبتلا ہونا احادیث شریفہ سے ثابت ہے حضرات مفسرین نے فرمایا ہے کہ آیت کریمہ (النَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا) اور دوسری آیت (مِمَّا خَطِیْءٰتِھِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا) سے بزرخ کا عذاب ثابت ہوتا ہے حضرت عبد اللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی شخص مرجاتا ہے تو صبح و شام اس پر اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے اگر اہل جنت میں سے ہوتا ہے تو جنت کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے اگر اہل دوزخ میں سے ہے تو دوزخ کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے ہر ایک کا ٹھکانہ پیش کرکے کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا اصلی ٹھکانہ ہے جب تک کہ اللہ تجھے قیامت کے دن اس میں داخل کرنے کے لیے نہ اٹھائے۔ (اس وقت تک یہاں رہنا ہے۔ ) (مشکوٰۃ المصابیح ص ٢٥ عن صحیحین)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(46) یہ لوگ صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی ارشادہوگا فرعون والوں کو نہایت سخت عذاب میں داخل کرو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں۔ یہ عالم قہر کا حال ہے کافر کو اس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے اور قیامت کو اس میں بیٹھے گا اور مومن کو بہشت۔ عالم برزخ کی مختلف کیفیات کا ذکر ہے۔ کافر کی روح صبح وشام دوزخ پر حاضر کی جاتی ہے جب تک کہ دنیا قائم ہے یعنی دائما یہ سلسلہ جاری ہے حضرت قتادہ مقاتل کلبی اور رسدی کا یہی قول ہے ۔