Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 49

سورة مومن

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ فِی النَّارِ لِخَزَنَۃِ جَہَنَّمَ ادۡعُوۡا رَبَّکُمۡ یُخَفِّفۡ عَنَّا یَوۡمًا مِّنَ الۡعَذَابِ ﴿۴۹﴾

And those in the Fire will say to the keepers of Hell, "Supplicate your Lord to lighten for us a day from the punishment."

اور ( تمام ) جہنمی مل کر جہنم کے داروغوں سے کہیں گے کہ تم ہی اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ کسی دن تو ہمارے عذاب میں کمی کر دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And those in the Fire will say to the keepers (angels) of Hell: "Call upon your Lord to lighten for us the torment for a day!" They know that Allah will not answer them and will not listen to their prayer, because He said, اخْسَيُواْ فِيهَا وَلاَ تُكَلِّمُونِ Remain you in it with ignominy! And speak you not to Me! (23:108), so they will ask the keepers of Hell, who are like jailers watching over the people of Hell, to pray to Allah to lessen the Fire for them if only for one day. But the keepers of Hell will refuse, saying to them,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٣] یعنی جب کمزور اور تابعداری کرنے والوں اور بڑا بننے والوں میں یہ مکالمہ ہوچکے گا تو سب مل کر دوزخ کے فرشتوں سے التجا کریں گے کہ اب تم اپنے پروردگار سے ہمارے حق میں سفارش کرو کہ وہ کسی ایک دن تو ہمارے عذاب میں کچھ تخفیف کردے۔ اسے ہی ہم اپنے لئے تعطیل یا چھٹی کا دن سمجھ لیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وقال الذین فی النار لخزنۃ جھنم …: یعنی آپ س کے جھگڑے کو بےسود کچھ کر سردار اور پیروکار سب جہنم کے دربانوں سے کہیں گے کہ اپنے رب سے ہمارے لئے بھی دعا کرو کہ کسی ایک دن ہی ہمارے عذاب میں تخفیف کر دے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الَّذِيْنَ فِي النَّارِ لِخَزَنَۃِ جَہَنَّمَ ادْعُوْا رَبَّكُمْ يُخَفِّفْ عَنَّا يَوْمًا مِّنَ الْعَذَابِ۝ ٤٩ خزن الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر/ 21] ( خ زن ) الخزن کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھیدہ وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر/ 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ خفیف الخَفِيف : بإزاء الثّقيل، ويقال ذلک تارة باعتبار المضایفة بالوزن، و قیاس شيئين أحدهما بالآخر، نحو : درهم خفیف، ودرهم ثقیل . والثاني : يقال باعتبار مضایفة الزّمان، نحو : فرس خفیف، وفرس ثقیل : إذا عدا أحدهما أكثر من الآخر في زمان واحد . الثالث : يقال خفیف فيما يستحليه الناس، و ثقیل فيما يستوخمه، فيكون الخفیف مدحا، والثقیل ذمّا، ومنه قوله تعالی: الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال/ 66] ، فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة/ 86] ( خ ف ف ) الخفیف ( ہلکا ) یہ ثقیل کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے ۔ اس کا استعمال کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) کبھی وزن میں مقابلہ کے طور یعنی دو چیزوں کے باہم مقابلہ میں ایک کو خفیف اور دوسری کو ثقیل کہہ دیا جاتا ہے جیسے درھم خفیف ودرھم ثقیل یعنی وہ درہم ہم ہلکا ہے ۔ اور یہ بھاری ہے ( 2) اور کبھی ثقابل زمانی کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں ۔ مثلا ( ایک گھوڑا جو فی گھنٹہ دس میل کی مسافت طے کرتا ہوں اور دوسرا پانچ میل فی گھنٹہ دوڑتا ہو تو پہلے کو خفیف ( سبک رفتار ) اور دوسرے کو ثقل ( سست رفتار ) کہا جاتا ہے ( 3) جس چیز کو خوش آئندہ پایا جائے اسے خفیف اور جو طبیعت پر گراں ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اس صورت میں خفیف کا لفظ بطور مدح اور ثقیل کا لفظ بطور ندمت استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات کریمہ ؛ الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال/ 66] اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا ۔ فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة/ 86] سو نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا ۔ اسی معنی پر محمول ہیں يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٩۔ ٥٠) اس کے بعد دوزخی کو جب عذاب کی سختی ہوگی اور ان کی برداشت سے باہر ہوجائے گی اور وہ اپنی دعاؤں سے بھی مایوس ہوجائیں گے تو سب ملکر جہنم کے موکل فرشتوں سے کہیں گے کہ تم ہی اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ ہم سے ایک دن جتنا تو عذاب ہلکا کردے تو فرشتے کہیں گے کیا تمہارے پاس انبیاء کرام اوامرو نواہی اور معجزات اور اللہ کی جانب رسالت لے کر نہیں آتے رہے تھے وہ دوزخی بولیں گے ہاں رسول آتے تو رہے تھے تو فرشتے بطور مذاق کے ان دوزخیوں سے کہیں گے تم خود ہی دعا کرلو باقی دوزخ میں دعا محض بےاثر ہے یا یہ کہ کفار دنیا میں جو عبادت کرتے تھے وہ جھوٹے ہی تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ { وَقَالَ الَّذِیْنَ فِی النَّارِ لِخَزَنَۃِ جَہَنَّمَ ادْعُوْا رَبَّکُمْ یُخَفِّفْ عَنَّا یَوْمًا مِّنَ الْعَذَابِ } ” اور کہیں گے وہ لوگ جو آگ میں ہوں گے جہنم کے داروغوں (فرشتوں) سے ‘ آپ اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہم سے بس ایک دن ہی عذاب میں تخفیف کر دے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:49) یخفف۔ مضارع واحد مذکر غائب مجزوم بوجہ جواب امر تخفیف (تفعیل) سے مصدر۔ ہلکا کر دے۔ کم کر دے۔ اس میں تخفیف کر دے۔ یوما۔ کسی دن۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی اس کی تو کیا امید کریں کہ عذاب بالکل ہٹ جاوے یا ہمیشہ کے لئے ہلکا ہوجاوے، مگر خیر ایک ہی دن کے لئے ہلکا ہوجاوے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوزخیوں کا فرشتوں سے تخفیف عذاب کے لیے عرض معروض کرنا دوزخی عذاب ہلکا کروانے کے لیے دوزخ پر مقرر فرشتوں سے بھی عرض معروض کریں گے اور ان سے کہیں گے تم اپنے رب سے دعا کردو کہ وہ ایک ہی دن ہمارا عذاب ہلکا کردے وہ سوال کریں گے کہ یہاں تمہارے آنے کا جو سبب بنا ہے وہ کیا ہے ؟ تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے تمہارے پاس رسول بھیجے تھے انہوں نے ایمان کی دعوت دی تھی وہ جب تمہارے پاس آئے تم نے ان کو جھٹلایا اور ان کی بات نہ مانی بولو کیا یہ بات ٹھیک ہے ؟ اس پر وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہاں واقعی یہ بات صحیح ہے داروغہ ہائے دوزخ کہیں گے کہ ہم ایسے لوگوں کے لیے کچھ بھی سفارش نہیں کرسکتے تم ہی دعا کرلو، وہاں ان کا دعا کرنا بیکار ہوگا ان کی دعا ضائع ہوگی، کافروں کی کوئی دعا وہاں قبول نہیں ہوسکتی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

53:۔ ” وقال الذین فی النار “۔ اہل جہنم اپنے مشرک سرداروں کی طرف سے مایوس کن جواب سن کر اور مشرک سردار اور پیشوا اپنے تمام حیلوں اور بہانوں کو ناکام پا کر سب جہنم پر متعین فرشتوں سے درخواست کریں گے کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں ان کے لیے سفارش کریں کہ ان کی سزا میں صرف ایک ہی دن کی کمی فرما دے۔ (وقال الذین فی النار) من الضعفاء و المستکبرین جمیعا لا ضاقت بہم الحیل وعیت بہم العلل۔ (روح ج 24 ص 775) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(49) اور اہل جہنم جہنم کی حفاظت کرنے والے فرشتوں سے کہیں گے کہ تم ہی اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ ہمارے عذاب میں سے کسی دن تو کچھ تخفیف کردے۔ یعنی دنیا کے دنوں کی مقدار سے ایک دن کی مقدار عذاب میں تخفیف فرمادے۔