Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 51

سورة مومن

اِنَّا لَنَنۡصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡاَشۡہَادُ ﴿ۙ۵۱﴾

Indeed, We will support Our messengers and those who believe during the life of this world and on the Day when the witnesses will stand -

یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہونگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Victory of the Messengers and the Believers Allah says, إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ امَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ... Verily, We will indeed make victorious Our Messengers and those who believe in this world's life. As-Suddi said, "Allah never sends a Messenger to a people and they kill him or some of the believers who call them to the truth, then that generation passes away, but He then sends them someone who will support their call and will seek vengeance for their blood from those who did that to them in this world. So the Prophets and believers may be killed in this world, but their call will prevail in this world." Allah granted victory to His Prophet Muhammad and his Companions over those who had opposed him, disbelieved in him and shown hostility towards him. He caused His Word and His religion to prevail over all other religions, commanded him to emigrate from his people to Al-Madinah, where He gave him supporters and helpers. Then He caused him to prevail over the idolators on the day of Badr, when He granted him victory over them and he humiliated them, killing their leaders and taking their elite prisoner, driving them before him in chains. Then he did them the favor of accepting ransom from them. Shortly after that, Allah enabled him to conquer Makkah, and he rejoiced in his return to his homeland, the sacred and holy land of Al-Haram. Through him, Allah saved it from its disbelief and Shirk. Then Allah enabled him to conquer the Yemen, and the entire Arabian Peninsula submitted to him, and the people entered the religion of Allah in crowds. Then Allah took him (in death), because of his high status and honor, and He established his Companions as his Khalifahs. They conveyed the religion of Allah from him, called mankind to Allah, they conquered many regions, countries and cities, and opened people's hearts, until the call of Muhammad spread throughout the world, east and west. This religion will continue to prevail until the Hour begins. Allah says: إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ امَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الاَْشْهَادُ Verily, We will indeed make victorious Our Messengers and those who believe in this world's life and on the Day when the witnesses will stand forth. meaning, on the Day of Resurrection the victory will be greater and more complete. Mujahid said, "The witnesses are the angels."

رسولوں اور اہل ایمان کو دنیا و آخرت میں مدد کی بشارت ۔ آیت میں رسولوں کی مدد کرنے کا اللہ کا وعدہ ہے ، پھر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض رسولوں کو ان کی قوموں نے قتل کر دیا ، جیسے حضرت یحییٰ ، حضرت زکریا ، حضرت شعیب صلوات اللہ علیہم و سلامہ ، اور بعض انبیاء کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا ، جیسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ۔ اور حضرت عیسیٰ کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے آسمان کی طرف ہجرت کرائی ۔ پھر کیا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ وعدہ پورا کیوں نہیں ہوا ؟ اس کے دو جواب ہیں ایک تو یہ کہ یہاں گو عام خبر ہے لیکن مراد بعض سے ہے ، اور یہ لعنت میں عموماً پایا جاتا ہے کہ مطلق ذکر ہو اور مراد خاص افراد ہوں ۔ دوسرے یہ کہ مدد کرنے سے مراد بدلہ لینا ہو ۔ پس کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جسے ایذاء پہنچانے والوں سے قدرت نے زبردست انتقام نہ لیا ہو ۔ چنانچہ حضرت یحییٰ ، حضرت زکریا ، حضرت شعیب کے قاتلوں پر اللہ نے ان کے دشمنوں کو مسلط کر دیا اور انہوں نے انہیں زیر و زبر کر ڈالا ، ان کے خون کی ندیاں بہا دیں اور انہیں نہایت ذلت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا ۔ نمرود مردود کا مشہور واقعہ دنیا جانتی ہے کہ قدرت نے اسے کیسی پکڑ میں پکڑا ؟ حضرت عیسیٰ کو جن یہودیوں نے سولی دینے کی کوشش کی تھی ۔ ان پر جناب باری عزیز و حکیم نے رومیوں کو غالب کر دیا ۔ اور ان کے ہاتھوں ان کی سخت ذلت و اہانت ہوئی ۔ اور ابھی قیامت کے قریب جب آپ اتریں گے تب دجال کے ساتھ ان یہودیوں کی جو اس کے لشکری ہوں گے قتل کریں گے ۔ اور امام عادل اور حاکم باانصاف بن کر تشریف لائیں گے صلیب کو توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ باطل کر دیں گے بجز اسلام کے اور کچھ قبول نہ فرمائیں گے ۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان مدد اور یہی دستور قدرت ہے جو پہلے سے ہے اور اب تک جاری ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کی دنیوی امداد بھی فرماتا ہے اور ان کے دشمنوں سے خود انتقام لے کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے فرمایا ہے جو شخص میرے نبیوں سے دشمنی کرے اس نے مجھے لڑائی کیلئے طلب کیا ۔ دوسری حدیث میں ہے میں اپنے دوستوں کی طرف سے بدلہ ضرور لے لیا کرتا ہوں جیسے کہ شیر بدلہ لیتا ہے اسی بناء پر اس مالک الملک نے قوم نوح سے ، عاد سے ، ثمودیوں سے ، اصحاب الرس سے ، قوم لوط سے ، اہل مدین سے اور ان جیسے ان تمام لوگوں سے جنہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور حق کا خلاف کیا تھا بدلہ لیا ۔ ایک ایک کو چن چن کر تباہ برباد کیا اور جتنے مومن ان میں تھے ان سب کو بچا لیا ۔ امام سدی فرماتے ہیں جس قوم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آئے یا ایمان دار بندے انہیں پیغام الٰہی پہنچانے کیلئے کھڑے ہوئے اور اس قوم نے ان نبیوں کی یا ان مومنوں کی بےحرمتی کی اور انہیں مارا پیٹا قتل کیا ضرور بالضرور اسی زمانے میں عذاب الٰہی ان پر برس پڑے ۔ نبیوں کے قتل کے بدلے لینے والے اٹھ کھڑے ہوئے اور پانی کی طرح ان کے خون سے پیاسی زمین کو سیراب کیا ۔ پس گو انبیاء اور مومنین یہاں قتل کئے گئے لیکن ان کا خون رنگ لایا اور ان کے دشمنوں کا بھس کی طرح بھرکس نکال دیا ۔ ناممکن ہے کہ ایسے بندگان خاص کی امداد و اعانت نہ ہو اور ان کے دشمنوں سے پورا انتقام نہ لیا گیا ہو ۔ اشرف الانبیاء حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی دنیا اور دنیا والوں کے سامنے ہیں کہ اللہ نے آپ کو اور آپ کے صحابہ کو غلبہ دیا اور دشمنوں کی تمام تر کوششوں کو بےنتیجہ رکھا ۔ ان تمام پر آپ کو کھلا غلبہ عطا فرمایا ۔ آپ کے کلمے کو بلند و بالا کیا آپ کا دین دنیا کے تمام ادیان پر چھا گیا ۔ قوم کی زبردست مخالفتوں کے وقت اپنے نبی کو مدینے پہنچا دیا اور مدینے والوں کو سچا جاں نثار بنا کر پھر مشرکین کا سارا زور بدر کی لڑائی میں ڈھا دیا ۔ ان کے کفر کے تمام وزنی ستون اس لڑائی میں اکھیڑ دیئے ۔ سرداران مشرک یا تو ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے یا مسلمانوں کے ہاتھوں میں قیدی بن کر نامرادی کے ساتھ گردن جھکائے نظر آنے لگے قید و بند میں جکڑے ہوئے ذلت و اہانت کے ساتھ مدینے کی گلیوں میں کسی کے ہاتھوں پر اور کسی کے پاؤں پر دوسرے کی گرفت تھی ۔ اللہ کی حکمت نے ان پر پھر احسان کیا اور ایک مرتبہ پھر موقعہ دیا فدیہ لے کر آزاد کر دیئے گئے لیکن پھر بھی جب مخالفت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے باز نہ آئے اور اپنے کرتوتوں پر اڑے رہے ۔ تو وہ وقت بھی آیا کہ جہاں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھپ چھپا کر رات کے اندھیرے میں پاپیادہ ہجرت کرنی پڑی تھی وہاں فاتحانہ حیثیت سے داخل ہوئے اور گردن پر ہاتھ باندھے دشمنان رسول سامنے لائے گئے ۔ اور بلاد حرم کی عظمت و عزت رسول محترم کی وجہ سے پوری ہوئی ۔ اور تمام شرک و کفر اور ہر طرح کی بے ادبیوں سے اللہ کا گھر پاک صاف کر دیا گیا ۔ بالآخر یمن بھی فتح ہوا اور پورا جزیرہ عرب قبضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آ گیا ۔ اور جوق کے جوق لوگ اللہ کے دین میں داخل ہوگئے ۔ پھر رب العالمین نے اپنے رسول رحمتہ العالمین کو اپنی طرف بلا لیا اور وہاں کی کرامت و عظمت سے اپنی مہمانداری میں رکھ کر نوازا صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پھر آپ کے بعد آپ کے نیک نہاد صحابہ کو آپ کا جانشین بنایا ۔ جو محمدی جھنڈا لئے کھڑے ہوگئے اور اللہ کی توحید کی طرف اللہ کی مخلوق کو بلانے لگے ۔ جو روڑا راہ میں آیا اسے الگ کیا ۔ جو خار چمن میں نظر پڑا اسے کاٹ ڈالا گاؤں گاؤں شہر شہر ملک ملک دعوت اسلام پہنچا دی جو مانع ہوا اسے منع کا مزہ چکھایا اسی ضمن میں مشرق و مغرب میں سلطنت اسلامی پھیل گئی ۔ زمین پر اور زمین والوں کے جسموں پر ہی صحابہ کرام نے فتح حاصل نہیں کی بلکہ ان کے دلوں پر بھی فتح پالی اسلامی نقوش دلوں میں جما دیئے اور سب کو کلمہ توحید کے نیچے جمع کر دیا ۔ دین محمد نے زمین کا چپہ چپہ اور کونا کونا اپنے قبضے میں کر لیا ۔ دعوت محمدیہ بہرے کانوں تک بھی پہنچ چکی ۔ صراط محمدی اندھوں نے بھی دیکھ لیا ۔ اللہ اس پاکباز جماعت کو ان کی اولو العزمیوں کا بہترین بدلہ عنایت فرمائے ۔ آمین! الحمد للہ کا اور اس کے رسول کا کلام موجود ہے ۔ اور آج تک ان کے سروں پر رب کا ہاتھ ہے ۔ اور قیامت تک یہ وطن مظفر و منصور ہی رہے گا اور جو اس کے مقابلے پر آئے گا منہ کی کھائے گا اور پھر کبھی منہ نہ دکھائے گا یہی مطلب ہے اس مبارک آیت کا ۔ قیامت کے دن بھی دینداروں کی مدد و نصرت ہوگی اور بہت بڑی اور بہت اعلیٰ پیمانے تک ۔ گواہوں سے مراد فرشتے ہیں ، دوسری آیت میں یوم بدل ہے پہلی آیت کے اسی لفظ سے ۔ بعض قرأتوں میں یوم ہے تو یہ گویا پہلے یوم کی تفسیر ہے ۔ ظالموں سے مراد مشرک ہیں ان کا عذر و فدیہ قیامت کے دن مقبول نہ ہوگا وہ رحمت رب سے اس دن دور دھکیل دیئے جائیں گے ۔ ان کیلئے برا گھر یعنی جہنم ہوگا ۔ ان کی عاقبت خراب ہوگی ، حضرت موسیٰ کو ہم نے ہدایت ونور بخشا ۔ بنی اسرائیل کا انجام بہتر کیا ۔ فرعون کے مال و زمین کا انہیں وارث بنایا کیونکہ یہ اللہ کی اطاعت اور اتباع رسول میں ثابت قدمی کے ساتھ سختیاں برداشت کرتے رہے تھے ۔ جس کتاب کے یہ وارث ہوئے وہ عقلمندوں کیلئے سرتاپا باعث ہدایت و عبرت تھی ، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ صبر کیجئے اللہ کا وعدہ سچا ہے آپ کا ہی بول بالا ہوگا انجام کے لحاظ سے آپ والے ہی غالب رہیں گے ۔ رب اپنے وعدے کے خلاف کبھی نہیں کرتا بلاشک و شبہ دین اللہ کا اونچا ہو کر ہی رہے گا ۔ تو اپنے رب سے استغفار کرتا رہ ۔ آپ کو حکم دے کر دراصل آپ کی امت کو استغفار پر آمادہ کرنا ہے ۔ دن کے آخری اور رات کے انتہائی وقت خصوصیت کے ساتھ رب کی پاکیزگی اور تعریف بیان کیا کر ، جو لوگ باطل پر جم کر حق کو ہٹا دیتے ہیں دلائل کو غلط بحث سے ٹال دیتے ہیں ان کے دلوں میں بجز تکبر کے اور کچھ نہیں ان میں اتباع حق سے سرکشی ہے ۔ یہ رب کی باتوں کی عزت جانتے ہی نہیں ۔ لیکن جو تکبر اور جو خودی اور جو اپنی اونچائی وہ چاہتے ہیں وہ انہیں ہرگز حاصل نہیں ہونے کی ۔ ان کے مقصود باطل ہیں ۔ ان کے مطلوب لاحاصل ہیں ۔ اللہ کی پناہ طلب کر کہ ان جیسا حال کسی بھلے آدمی کا نہ ہو ۔ اور ان نخوت پسند لوگوں کی شرارت سے بھی اللہ کی پناہ چاہ کر ۔ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ کہتے تھے دجال انہی میں سے ہوگا اور اس کے زمانے میں یہ زمانے کے بادشاہ ہو جائیں گے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ طلب کیا کرو ۔ وہ سمیع و بصیر ہے ۔ لیکن آیت کو یہودیوں کے بارے میں نازل شدہ بتانا اور دجال کی بادشاہی اور اس کے فتنے سے پناہ کا حکم ۔ سب چیزیں تکلف سے پرہیں ۔ مانا کہ یہ تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے مگر یہ قول ندرت سے خالی نہیں ۔ ٹھیک یہی ہے کہ عام ہے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 یعنی ان کے دشمن کو ذلیل اور ان کو غالب کریں گے بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ بعض نبی قتل کر دئیے گئے جیسے حضرت یحییٰ و زکریا (علیہما السلام) وغیرہ اور بعض ہجرت پر مجبور ہوگئے جیسے ابراہیم (علیہ السلام) اور ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وعدہ امداد کے باوجود ایسا کیوں ہوا ؟ دراصل یہ وعدہ غالب حالات اور اکثریت کے اعتبار سے ہے اس لیے بعض حالتوں میں اور بعض اشخاص پر کافروں کا غلبہ اس کے منافی نہیں یا مطلب یہ ہے کہ عارضی طور پر یعض دفعہ اللہ کی حکمت و مشیت کے تحت کافروں کو غلبہ عطا فرما دیا جاتا ہے لیکن بالاخر اہل ایمان ہی غالب اور سرخرو ہوتے ہیں جیسے حضرت یحییٰ و زکریا (علیہما السلام) کے قاتلین پر بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو مسلط فرما دیا جنہوں نے ان کے خون سے اپنی پیاس بجھائی اور انہیں ذلیل و خوار کیا جن یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دے کر مارنا چاہا اللہ نے ان یہودیوں پر رومیوں کو ایسا غلبہ دیا کہ انہوں نے یہودیوں کو خوب ذلت کا عذاب چکھایا پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے رفقا یقینا ہجرت پر مجبور ہوئے لیکن اس کے بعد جنگ بدر، احد، احزاب، غزوہ خیبر، اور پھر فتح مکہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے جس طرح مسلمانوں کی مدد فرمائی اور اپنے پیغمبر اور اہل ایمان کو جس طرح غلبہ عطا فرمایا اس کے بعد اللہ کی مدد کرنے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے ؟ ابن کثیر 51۔ 2 اشہاد شہید گواہ کی جمع ہے جیسے شریف کی جمع اشراف ہے قیامت والے دن فرشتے اور انبیاء (علیہم السلام) گواہی دیں گے یا فرشتے اس بات کی گواہی دیں گے کہ یا اللہ پیغمبروں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا لیکن ان کی امتوں نے ان کو جھٹلایا۔ علاوہ ازیں امت محمدیہ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی گواہی دیں گے جیسے کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ اس لئے قیامت کو گواہوں کے کھڑا ہونے کا دن کہا گیا ہے۔ اس دن اہل ایمان کی مدد کرنے کا مطلب ہے ان کو ان کے اچھے اعمال کی جزا دی جائے گی اور انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٧] اللہ کی امداد کی صورتیں :۔ دنیا میں رسولوں اور مومنوں کی مدد کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ان کے دشمنوں کو تباہ کردیا جائے اور انہیں ظالموں کے پنجہ استبداد سے نجات دلا دی جائے۔ دوسری یہ کہ انہیں سیاسی تفوق بھی حاصل ہوجائے۔ اور تیسری یہ کہ دنیا میں انہیں کا بول بولا ہو یعنی جس مقصد کے لئے وہ کھڑے ہوتے ہیں اللہ کی مدد ان کے شامل حال رہتی ہے۔ اور حق پرستوں کی قربانیاں کسی بھی حال میں ضائع نہیں جاتیں۔ ان تینوں صورتوں میں سے کسی نبی کو صرف ایک قسم کی مدد حاصل ہوئی، کسی کو دو قسم کی اور کسی کو تینوں قسم کی۔ رسول اللہ اور آپ کے صحابہ کرام اللہ کی طرف سے تینوں طرح کی مدد سے فیض یاب ہوئے۔ [٦٨] یعنی قیامت کے دن جب ہر نبی سے اس کی امت کے متعلق گواہی لی جائے گی۔ علاوہ ازیں ان نیک بندوں کی بھی جن کی معرفت لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا گیا۔ اس دن میدان محشر میں جمع شدہ تمام لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ انبیاء اور صلحاء کا مقام عام لوگوں سے کس قدر بلند ہے۔ نیز وہ یہ بھی دیکھ لیں گے کہ اس دن جب کوئی کسی کی مدد نہ کرسکے گا۔ اللہ اپنے نبیوں اور ایمانداروں کی کس طرح مدد اور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) انا لمنصر رسلنا والذین امنوا…سورت کی ابتدا سے یہاں تک آیات کا حاصل یہ تھا کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے اور ان کے بعد آنے والے رسلووں کی امتوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا، حق کو شکست دینے کیلئے باطل طریقے سے کج بحثی کی اور ہر ایک نے اپنے رسول کو گرفتار کرنے کا ارادہ کیا، مگر وہ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں ہلاک کیا اور آخرت میں ان کے لئے شدید ترین عذاب رکھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کا دفاع کرنے والے مومن کی بھی ا سی طرح مدد فرمائی، مگر اللہ تعالیٰ کی اپنے لوگوں کے ساتھ امداد مخفی ہوتی ہے۔ پہلے کئی طرح سے ان کی آزمائش ہوتی ہے، پھر انجام ان کے حق میں ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کی نظر چونکہ ظاہری اسباب پر ہوتی ہے اور وہ ایمانی فرسات سے محروم ہوتے ہیں، اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی مدد نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان واقعات کے ذکر کے بعد جن میں ” ان “ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا بیان ہے، اب ” ان “ اور لام تاکید کے ساتھ اور پانی عظمت کے اظہار کے لئے اپنا ذکر جمع متکلم کے صیغے کے ساتھ کرتے ہوئے نہایت زور دار الفاظ میں فرمایا :(انا لمنصر رسلنا والذین امنوا) کہ بیشک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں، خواہ وہ کسی کی سمجھ میں آرہی ہو یا نہ، ہمارا قاعدہ یہی ہے۔ (٢) فی الحیوۃ الدنیا : یہاں ایک سوال ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی رسول دنیا میں اپنی قوم پر غالب نہ آسکے، کئی انبیاء قتل ہوئے، ایمان والوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ پھر اتنی تاکید کیساتھ یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں، دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے ؟ جو اب اس کا یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں رسولوں اور مومنوں کی مدد کی کئی صورتیں ہیں۔ سب سے بڑی مدد تو یہ ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں حق پر ثابت قدم رہتے ہیں، بڑے سے بڑے لالچ یا بڑی سے بڑی آزمائش حتیٰ کہ شہادت کی صورت میں بھی ان کے قدم ایمان سے نہیں ڈگمگاتے۔ یہ استقامت اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت کے بغیر کبھی حاصل نہیں ہوسکتی، جیسا کہ فرمایا :(ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تنزل علیھم الملٓئکۃ الا تغافوا ولا تخزنوا وابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون نحن اولیو کم فی الحیوۃ الدنیا و فی الاخرۃ) (حم السجدہ :31-30)” بیشک وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارے رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہوجاؤ جس کا تم وعدہ دیئے جاتے تھے۔ ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی۔ “ اس نصرت کی ایک مثال اصحاب الاخدود ہیں۔ ایک صورت مدد کی یہ ہے کہ دلیل وبرہان کے لحاظ سے وہ ہمیشہ اپنے دشمنوں پر غالب رہتے ہیں جیسا کہ فرعن نے اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود دلیل کے میدان میں شکست کھائی، حتیٰ کہ وہ جادو گر جو مقابلے پر لائے گئے تھے، سجدے میں گرگئے اور ایمان لے آئے۔ ایک صورت مدد کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایسی ذہنی اور قلبی برتری عطا فرماتا ہے کہ ہر قسم کی قوت و شوکت اور ملک و سلطنت کے باوجود ان کی نظر میں کفار کی حیثیت گھاس کے ایک تنکے سے بھی کم ہوتی ہے۔ ایک صورت مدد کی یہ ہے کہ ان کے دشمنوں سے دنیا میں ان زیادتیوں کا بدلا لیا جاتا ہے جو وہ رسولوں اور ایمان والوں پر کرتے رہے۔ (دیکھیے روم : ٤٧) پھر خواہ وہ بدلا رسول کی موجودگی میں لیا جائے، جیسا کہ قوم نوح اور عاد ثمود کے ساتھ وہا، خواہ رسول کے بعد لیا جائے، جیسا کہ بنی اسرائیل کے اپنے بعض رسولوں کو قتل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے سخت لڑائی والے بندے مسلط کر کے انہیں نہایت عبرت ناک سزا دی، جیسا کہ سوہ بنی اسرائیل کے شروع میں مذکور ہے اور جن یہودیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دینے کا منصوبہ بنایا ان پر رومیوں کو مسلط کیا گیا، جنہوں نے انہیں ہر طریقے سے ذلیل و خوار کیا اور وہ دنیا میں ایسے منتشر ہوئے کہ آج تک کسی نہ کسی قوم کی پناہ کے بغیر کسی جگہ ان کا قیام مشکل ہے۔ (دیکھیے سورة بنی اسرائیل : ٤ تا ٧) اور مدد کی ایک صورت یہ ہے کہ انہیں دنیا میں مادی لحاظ سے فتح و نصرت اور حکومت و سلطنت عطا کردی جائے جیسا کہ داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کی مدد ہوئی۔ ان صورتوں میں سے کسی نبی کو صرف ایک قسم کی مدد حاصل ہوئی، کسی کو دو قسم کی اور کسی کو زیادہ کی۔ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) ہر قسم کی مدد سے فیض یاب ہوئے۔ (٣) ویوم یقوم الاشھاد :” الاشھا ”‘ ” شاھ ”‘ کی جمع بھی ہوسکتی ہے، جیسے ” ضاحب “ کی جمع ” اضحاب “ ہے اور ” شھی ”‘ کی بھی، جیسے ” شریف “ کی جمع ” اشراف “ ہے۔ یعنی اس دن بھی ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی مدد کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے۔ مراد قیامت کا دن ہے جب انبیائ، فرشتے، اہل ایمان، زمین اور انسان کے اعضا آدمی کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ اس دن اللہ تعالیٰ مومنوں کو جنت عطا فرما کر اور ان کے دشمنوں کو جہنم میں پھینک کر اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی مدد فرمائے گا۔ دیکھیے سورة مطففین (٢٩ تا ٣٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the opening statement of verse 51, it was said: إِنَّا لَنَنصُرُ‌ رُ‌سُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا (Surely, We do help Our messengers and those who believe in the worldly life, 40:51). This verse carries the promise of Allah Ta’ ala that He would keep helping His messengers and believers, both in the present world and in the Hereafter. It is obvious that this help is intended to be against adversaries and enemies. That it so happened in the case of most prophets (علیہم السلام) ، peace be on them all, is clear enough. But, there were prophets (علیہم السلام) such as, Sayyidna Yahya, Zakariyya and Shu&aib (علیہم السلام) ، who were either martyred by enemies or had to abandon their home country and migrate to some other place - as was the case with Sayyidna Ibrahim علیہ السلام and the last of the prophets, Sayyidna Muhammad al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . There may be some doubt about that. Ibn Kathir has, with reference to Ibn Jarir, answered this possible doubt by saying that, in this verse, نُصرَت (nusrah: help) means: اِنتِصار (intisar: victory) or subduing of the enemy in retaliation - whether it happens at their hands while they are alive, or after their death. This meaning applies to all prophets and believers without any exception. History bears witness as to how those who killed their prophets (علیہم السلام) were later on subjected to terrible punishments and the disgrace that followed. Upon those who killed Sayyidna Yahya, Zakariyya and Shu&aib (علیہم السلام) ، their enemies were set who showed no mercy while disgracing and killing them. As for Namrud (Nimrod), terrible was the punishment that overtook him. And Allah Ta’ ala set the power of Byzantine against the enemies of Sayyidna &Isa (علیہ السلام) that defeated and disgraced them. And to him Allah Ta’ ala will give ascendancy over his enemies close to the last day of al-Qiyamah. As for the enemies of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، Allah Ta’ ala had them stand subdued at the hands of Muslims themselves. Their arrogant chiefs were killed. Some were taken prisoners. The rest were rounded up at the time of the conquest of Makkah, but the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) let them have their freedom. His message spread all over. The faith prevailed. The state of Islam stood established on the entire Arabian Peninsula within the lifetime of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . In the later part of verse 51, it was said: يَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ (as well as on the day in which witnesses will stand [ to give their testimony ]. It means the day of Qiyamah (Doomsday). Once they are there, Divine help for prophets and believers will show itself specially.

خلاصہ تفسیر ہم اپنے پیغمبروں کی اور ایمان والوں کی دنیوی زندگانی میں بھی مدد کرتے ہیں (جیسا اوپر موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ سے معلوم ہوا) اور اس روز بھی جس میں گواہی دینے والے (فرشتے جو کہ نامہ اعمال لکھتے تھے اور قیامت کے روز اس بات کی گواہی دیں گے کہ رسولوں نے عمل تبلیغ کیا اور کفار نے عمل تکذیب، غرض وہ فرشتے گواہی کے لئے) کھڑے ہوں گے (مراد اس سے قیامت کا دن ہے، وہاں کی مدد کا حال ابھی کفار کے معذب بالنار ہونے سے معلوم ہوچکا ہے، آگے اس دن کا بیان ہے یعنی جس دن کو ظالموں (یعنی کافروں) کو ان کی معذرت کچھ نفع نہ دے گی (یعنی اول تو کوئی معتدبہ معذرت نہ ہوگی اور اگر کچھ حرکت مذبوحی کی طرح ہوئی تو وہ نافع نہ ہوگی) اور ان کے لئے لعنت ہوگی اور ان کے لئے اس عالم میں خرابی ہوگی (پس اس طرح آپ اور آپ کے اتباع بھی منصور ہوں گے اور مخالفین ذلیل و مقہور ہوں گے تو آپ تسلی رکھئے) اور (آپ کے قبل) ہم موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت نامہ (یعنی توریت) دے چکے ہیں اور (پھر) ہم نے وہ کتاب بنی اسرائیل کو پہنچائی تھی کہ وہ ہدایت اور نصیحت (کی کتاب) تھی، اہل عقل (سلیم) کے لئے (بخلاف بےعقلوں کے کہ وہ اس سے منتفع نہ ہوئے۔ اسی مثل موسیٰ (علیہ السلام) کے آپ بھی صاحب رسالت و صاحب وحی ہیں اور اسی طرح مثل بنی اسرائیل کے آپ کے متبعین آپ کی کتاب کی خدمت کریں گے اور جیسے ان میں اہل عقل تصدیق کرنے والے اور متبع تھے اور بےعقل لوگ منکر و مخالف اسی طرح آپ کی امت میں بھی دونوں طرح کے لوگ ہوں گے) سو (اس سے بھی) آپ (تسلی حاصل کیجئے اور کفار کی ایذواؤں پر) صبر کیجئے بیشک اللہ کا وعدہ (جس کا اوپر لننصر الخ میں ذکر ہوا ہے بالکل) سچا ہے اور (اگر کبھی کمال صبر میں کچھ کمی ہوگئی ہو جو حسب قواعد شرعیہ واقع میں تو گناہ نہیں، مگر آپ کے رتبہ عالی کے اعتبار سے وجوب تدارک میں مثل گناہ ہی کے ہے، اس کا تدارک کیجئے وہ تدارک یہ ہے کہ) اپنے (اس) گناہ کی (جس کو مجازاً آپ کی شان عالی کے اعتبار سے گناہ کہہ دیا گیا ہے) معافی مانگئے اور (ایسے شغل میں لگے رہیئے کہ غمگین و خریں کرنے والی چیزوں کی طرف التفات ہی نہ ہو، وہ شغل یہ ہے کہ) شام اور صبح (یعنی علی الدوام) اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرتے رہیئے (یہ مضمون تو آپ کی تسلی کے متعلق ہوگیا، آگے منکرین و مجادلین پر توبیخ اور رد ہے یعنی) جو لوگ بلا کسی سند کے ان کے پاس موجود ہو، خدا کی آیتوں میں جھگڑے نکالا کرتے ہیں (ان کو کوئی وجہ اشتباہ کی نہیں ہے کہ وہ جدال کا سبب ہو بلکہ) ان کے دلوں میں نری بڑائی (ہی بڑائی) ہے کہ وہ اس تک کبھی پہنچنے والے نہیں (اور وہ بڑائی سبب جدال کا ہے کیونکہ وہ اپنے کو بڑا سمجھتے ہیں اتباع سے عار آتا ہے وہ خود اوروں ہی کو اپنا تابع بنانے کی ہوس رکھتے ہیں۔ لیکن ان کو یہ بڑائی نصیب نہ ہوگی بلکہ جلد ہی ذلیل و خوار ہوں گے۔ چناچہ بدر وغیرہ میں مسلمانوں سے مغلوب ہوئے) سو (جب یہ خود بڑائی چاہتے ہیں تو آپ سے حسد و عداوت سب کچھ کریں گے لیکن) آپ (اندیشہ نہ کیجئے بلکہ ان کے شر سے) اللہ کی پناہ مانگتے رہیئے، بیشک وہی ہے سب کچھ سننے والا سب کچھ دیکھنے والا (تو وہ اپنی صفات کمال سے اپنی پناہ میں آئے ہوئے لوگوں کو محفوظ رکھے گا یہ جدال تو آپ کو رسول ماننے میں تھا۔ آگے ان کا جدال قیامت کے متعلق مع رد مذکور ہے یعنی وہ لوگ جو آدمیوں کے دوبارہ پیدا ہونے کے منکر ہیں بڑے کم عقل ہیں، اس واسطے کہ) بالیقین آسمانوں اور زمین کا (ابتداً ) پیدا کرنا آدمیوں کے (دوبارہ) پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے (جب بڑے کام پر قدرت ثابت ہوگئی تو چھوٹے پر بدرجہ اولیٰ ثابت ہے اور یہ دلیل ثبوت کے لئے کافی شافی ہے) لیکن اکثر آدمی (اتنی بات) نہیں سمجھتے (کیونکہ وہ غور ہی نہیں کرتے اور بعضے ایسے بھی ہیں جو غور بھی کرتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں اور مانتے بھی ہیں، اس طرح قرآن کو سننے والوں کی دو قسم ہوگئیں، ایک اس کو سمجھنے اور ماننے والے یہ صاحب بصیرت اور صاحب ایمان ہیں۔ دوسرے نہ سمجھنے اور نہ ماننے والے یہ مثل نابینا اور بد عمل کے ہیں) اور (ان دونوں قسموں کے آدمی یعنی ایک) بینا (دوسرا) نابینا اور (ایک) وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور (دوسرے) بدکار باہم برابر نہیں ہوتے (اس میں آپ کی تسلی بھی ہے کہ ہر قسم کے لوگ ہوا کرتے ہیں، سب کیسے سمجھنے لگیں اور منکرین پر عذاب قیامت کی وعید بھی ہے کہ ہم سب کو برابر نہ رکھیں گے۔ آگے منکرین کو یعنی ان لوگوں کو جو مثل نابینا کے اور بدعمل ہیں بطور التفات کے زجر ہے فرماتے ہیں کہ) تم لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہو (ورنہ اعمیٰ اور بدعمل نہ رہتے۔ اور قیامت کے متعلق جدال کا جواب دے کر آگے اس کے واقع ہونے کی خبر دیتے ہیں کہ) قیامت تو ضرور ہی آ کر رہے گی اس (کے آنے) میں کسی طرح کا شک ہے ہی نہیں مگر اکثر لوگ (بوجہ عدم تدبر فی الدلائل کے اس کو) نہیں مانتے اور (ایک جدال ان کا توحید میں تھا کہ خدا کے ساتھ شریک کرتے تھے آگے اس کے متعلق کلام ہے یعنی) تمہارے پروردگار نے فرما دیا ہے کہ (غیروں کو حوائج کے لئے مت پکارو بلکہ) مجھ کو پکارو میں (باستثناء نامناسب معروض کے) تمہاری (ہر) درخواست قبول کروں گا (دعا کے متعلق آیت قرآنی (آیت) فیکشف ماتدعون الیہ ان شاء کا یہی مطلب ہے کہ نامناسب درخواست و دعا کو رد کردیا جاوے گا) جو لوگ (صرف) میری عبادت سے (جس میں مجھ سے دعا مانگنا بھی داخل ہے) سرتابی کرتے ہیں (اور غیروں کو پکارنے اور ان کی عبادت کرتے ہیں، حاصل یہ ہوا کہ جو لوگ توحید سے اعراض کر کے شرک کرتے ہیں) وہ عنقریب (مرتے ہی) ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ معارف و مسائل (آیت) اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے رسولوں اور مومنین کی مدد کیا کرتے ہیں، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور ظاہر یہ ہے کہ یہ مدد بمقابلہ مخالفین اور اعداء کے مقصود ہے۔ اکثر انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق تو اس کا وقوع ظاہر ہے مگر بعض انبیاء (علیہم السلام) جیسے یحییٰ و زکریا و شعیب (علیہم السلام) جن کو دشمنوں نے شہید کردیا یا بعض کو وطن چھوڑ کر دوسری جگہ ہجرت کرنا پڑی جیسے ابراہیم (علیہ السلام) اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے متعلق شبہ ہوسکتا ہے۔ ابن کثیر نے بحوالہ ابن جریر اس کا جواب دیا ہے کہ آیت میں نصرت سے مراد انتصار اور دشمنوں سے انتقام لینا ہے خواہ ان کی موجودگی میں ان کے ہاتھوں سے یا ان کی وفات کے بعد۔ یہ معنی تمام انبیاء و مومنین پر بلا کسی استثناء کے صادق ہیں جن لوگوں نے اپنے انبیاء کو قتل کیا پھر وہ کیسے کیسے عذابوں میں گرفتار کر کے رسوا کئے گئے، اس سے تاریخ لبریز ہے۔ حضرت یحییٰ ، زکریا اور حضرت شعیب (علیہم السلام) کے قاتلوں پر ان کے دشمنوں کو مسلط کردیا جنہوں نے ان کو ذلیل و خوار کر کے قتل کیا۔ نمرود کو اللہ نے کیسے عذاب میں پکڑا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے دشمنوں پر اللہ تعالیٰ نے روم کو مسلط کردیا۔ جنہوں نے ان کو ذلیل و خوار کیا اور پھر قیامت سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ ان کو دشمنوں پر غالب فرمائیں گے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں کو تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں ہی کے ہاتھوں زیر کیا ان کے سرکش سردار مارے گئے۔ کچھ قید کر کے لائے گئے، باقی ماندہ فتح مکہ میں گرفتار کر کے لائے گئے جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آزاد کردیا۔ آپ کا کلمہ دنیا میں بلند ہوا اور وہی سب ادیان پر غالب آیا، پورے جزیرة العرب پر آپ کے زمانے ہی میں اسلام کی حکومت قائم ہوگئی۔ (آیت) وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ۔ یعنی جس دن کھڑے ہوں گے گواہ، مراد یوم قیامت ہے، وہاں تو انبیاء و مومنین کے لئے نصرت الٰہیہ کا خصوصی ظہور ہوگا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْہَادُ۝ ٥١ۙ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ہم نے پیغمبروں کی اور ان کے ماننے والوں کی دنیاوی زندگی میں بھی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کرتے ہیں اور قیامت کے دن بھی عذر اور حجت اور گواہی کے ذریعے ان کی مدد کریں گے۔ جس دن فرشتے گواہی دینے کھڑے ہوں گے یعنی کراما کاتبین ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ { اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَـقُوْمُ الْاَشْہَادُ } ” ہم لازماً مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں بھی ‘ اور اس دن بھی (مدد کریں گے) جس دن گواہ کھڑے ہوں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

67 For explanation, see E.N. 93 of As-Saaffat. 68 That is, when Allah's Court will be established and the witnesses will be produced before Him.

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :67 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، الصافّات ، حاشیہ نمبر 93 ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :68 یعنی جب اللہ کی عدالت قائم ہو گی اور اس کے حضور گواہ پیش کیے جائیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: یعنی جب لوگوں کے اعمال کی گواہی دینے کے لیے گواہوں کو بلایا جائے گا۔ یہ گواہ فرشتے بھی ہوں گے، اور انبیائے کرام وغیرہ بھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥١۔ ٥٢۔ اس سورة میں کئی جگہ ذکر آیا کہ مشرک لوگ قرآن شریف کی آیتوں میں طرح طرح کے جھگڑے اور حجتیں نکالتے تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان لوگ ان کو حق بات سمجھاتے تھے تو نہیں مانتے تھے اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو ایک طرح کا رنج ہوتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی تسکین کے لئے فرمایا کہ گھبرانا نہیں چاہئے حق بات کا مددگار اللہ ہے ہمیشہ سے جس طرح اللہ نے اپنے پیغمبروں کے فرمانبرداروں کی مدد دی ہے اب بھی دین دنیا میں اللہ ان کی مدد کرے گا اور پھر اس مدد کے وعدہ کے بعد حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کا ذکر مثال کے طور پر فرمایا تاکہ اس مثال سے سمجھ میں آجائے کہ حضرت موسیٰ کی نبوت کے شروع زمانہ میں بنی اسرائیل کس طرح سے فرعون کی زیادتی اور ظلم میں گرفتار تھے پھر اللہ کی مدد سے کتنا بڑا ان کا قوی دشمن ہلاک ہوا اور اس کا لاؤ لشکر بھی سب غارت ہوگیا اور بنی اسرائیل یا تو اس خواری اور ذلت میں پھنسے ہوئے تھے یا تمام ملک مصر اور ملک شام ان کے قبضہ میں آگیا اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے جس طرح آنحضرت کی نبوت کے شروع زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے ان مکی آیتوں میں وعدہ فرمایا تھا جب اللہ کی مدد کا وقت آگیا تو ہجرت کے بعد ہر طرح کے سب سامان اللہ کے مدد سے بنتے چلے گئے اور دن بدن نئے نئے ملک فتح ہو کر تمام مخالف ہلاک ہوگئے یہ تو اللہ کی دنیا کی مدد کا حال ہے آخرت کی مدد کا ذکر جو اس آیت میں ہے اس کی تفصیل حدیث شریف میں ہے قبض روح کے وقت سے جنت میں داخل ہونے کے زمانہ تک اپنے رسول کے فرمانبرداروں کی اللہ تعالیٰ طرح طرح کی مدد فرمائے گا مثلاً صحیح سند سے صحیح ابن حبان اور ابن ١ ؎ ماجہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جس کا حاصل یہ ہے کہ اچھے لوگوں کی قبض روح کے وقت رحمت کے فرشتے آتے ہیں اور جان کنی کی سختی آسان ہونے کے لئے طرح طرح کی خوش خبری ان کو دیتے ہیں پھر دفن کرنے کے بعد منکر نکیر جب آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں پر اپنی رحمت سے کچھ خوف اور ہول کا اثر نہیں آنے دیتا تاکہ منکر نکیر کے سوال کا جواب اچھی طرح ہوش و حواس سے ادا ہوجائے۔ اسی طرح ترمذی ٢ ؎ ابن ماجہ صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم کی عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی معتبر سند کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ بعضے اہل کلمہ گناہ گاروں کے وزن اعمال کے وقت اللہ تعالیٰ ایسی مدد فرمائے گا کہ ایک کلمہ توحید کے ثواب کے بوجھ سے ان لوگوں کے نیکی کے پلڑے کو بھاری کر دے گا۔ صحیحین ٣ ؎ میں حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بعضے گناہ گار قیامت کے دن جب اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے تو اللہ تعالیٰ یہ فرما کر ان کے گناہوں کو معاف کر دے گا کہ جس طرح میں نے دنیا میں تم کو تمہارے گناہوں کے سبب سے رسوا نہیں کیا آج بھی میں تمہارے گناہوں کو معاف کرتا ہوں معتبر سند سے مسند ٤ ؎ امام احمد اور صحیح ابن حبان میں ابوامامہ (رض) باہلی سے روایت ہے کہ ستر ہزار اہل اسلام امت محمدیہ کو اللہ تعالیٰ بغیر حساب کے جنت میں داخل فرما دے گا اور ان میں ہر ہزار کے ساتھ اور ستر ہزار جنتی قرار پائیں گے پھر ملائکہ انبیا صلحا کی شفاعت کو اللہ تعالیٰ قبول فرما کر بہت سے گناہ گاروں کو عذاب دوزخ سے نجات بخشے گا۔ صحیحین ٥ ؎ میں حضرت ابو سعید (رض) خدری کی شفاعت کی بہت بڑی حدیث ہے جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے کہ سب کی شفاعت کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ملائکہ اور انبیا اور صلحا تو شفاعت کرچکے اب ارحم الراحمین کی باری ہے یہ فرما کر بےگنتی گناہ گاروں کو دوزخ میں سے نکال کر جنت میں داخل فرما دے گا اسی طرح اور بھی حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل کلمہ کی آخرت میں طرح طرح کی مشکل کے وقت مدد فرمائے گا۔ بعضے پیغمبروں کو اگر تقدیر الٰہی کے موافق مخالفوں نے شہید بھی کر ڈالا ہے تو اللہ تعالیٰ نے پھر مخالف لوگوں سے پورا بدلا لیا ہے۔ یحییٰ (علیہ السلام) کے شہید ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بخت نصر بابلی کو بنی اسرائیل پر مسلط کیا جو چھ لاکھ کے قریب فوج ساتھ لے کر بابل سے ملک شام کو آیا اور ہزارہا آدمی بنی اسرائیل کے قتل کر ڈالے اور ہزارہا آدمیوں کو قید کر کے بابل لے گیا۔ مسند امام احمد بخاری ترمذی ٦ ؎ وغیرہ کی روایتوں کا ذکر سورة بقر میں گزر چکا ہے کہ جب نافرمان امتیں قیامت کے دن اپنے پیغمبروں کو جھٹلائیں گے اور کہیں گے کہ یا اللہ ہم کو تیرا حکم کسی پیغمبر نے نہیں پہنچایا تو قرآن کے حوالہ سے امت محمدیہ کے نیک لوگ پیغمبروں کے سچے ہونے کی گواہی ادا کریں گے اسی طرح صحیح ١ ؎ مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک کی حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں ہاتھ پیروں کی گواہی کا ذکر ہے قیامت کے دن کو گواہوں کے کھڑے ہونے کا دن جو فرمایا اس کا مطلب ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے اب ان گواہوں کے بعد منکروں کا کوئی عذر نہ سنا جائے گا اور رحمت الٰہی سے محروم کیا جا کر دوزخ میں ان کو جھونک دیا جائے گا گواہی کے ذکر کے بعد یہ اسی کا ذکر ہے۔ (١ ؎ مشکوۃ شریف باب فیما یقال عند من حضرہ الموت ص ١٤١۔ ) (٢ ؎ جامع ترمذی باب فیمن یموت وھو یشھدا ان لا الہ الا الہ ص ١٠٣ ج ٢۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب ستر المومن علی نفسہ ص ٨٩٦ ج ٢۔ ) (٤ ؎ مشکوٰۃ شریف باب فی الحساب والقصاص والمیزان ص ٤٨٦۔ ) (٥ ؎ صحیح مسلم اثبات رویۃ المومنین فی الاخرۃ ربھم ص ١٠٣ ج ١۔ ) (٦ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة البقرۃ ص ١٤١ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم فصل فی بیان ان الاعضاء منطقۃ شاھدۃ ص ٤٠٩ ج ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:51) لننصر۔ لام تاکید کا ہے۔ ننصر مضارع جمع متکلم۔ نصر مصدر (فعل یفعل) ہم یقینی مدد کرتے ہیں۔ ویوم یقوم الاشھاد۔ واؤ عاطفہ ہے اس کا عطف جملہ ماقبل پر ہے۔ یوم بوجہ ظرفیت کے منصوب ہے یہ فی الحیوۃ الدنیا کا معطوف ہے۔ یعنی ہم مدد کرتے رہتے ہیں اپنے پیغمبروں کی اور ایمان والوں کی دنیوی زندگی میں بھی اور اس روز بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے (یعنی روز قیامت) الاشھاد یا شاھد کی جمع ہے جیسے صاحب کی جمع اصحاب ہے۔ یا یہ شھید کی جمع ہے جیسے شریف کی جمع اشراف ہے۔ الاشھاد گواہ۔ گواہی دینے والے۔ جمہور مفسرین نے اس سے مراد نامہ اعمال لکھنے والے فرشتے لئے ہیں جو قیامت کے دن اس کی بھی گواہی دیں گے کہ رسولوں نے تبلیغ کی اور کافروں نے ان کی تکذیب کی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1” اس لئے وہ اپنے دشمنوں پر غالب آتے ہیں “۔ مطلب یہ ہے کہ آخر کار دین حق غالب ہو کر رہتا ہے اور جن پیغمبروں کو شہید کردیا گیا ان کا دشمنوں سے طرح انتقام لیا گیا کہ ان کے دشمنوں پر ایسے لوگوں کو مسلط کیا گیا جو انہیں ذلیل و خوار کرتے رہے۔ چناچہ جن یہودیوں نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو سولی دینے کا پروگرام بنایا، ان پر رومیوں کو مسلط کیا گیا جنہوں نے انہیں ہر طریقہ سے ذلیل و خوار کیا اور پھر حق کی فتح کے لئے مادی غلبہ اور نصرت شرط نہیں ہے۔2 گواہوں سے مراد فرشتے ہیں جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور انبیاء ( علیہ السلام) کے حق میں گواہی دینگے کہ انہوں نے اپنی اپنی قوموں تک تیرا پیغام پہنچا دیا تھا اور کافروں کے خلاف یہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے تیرے پیغام کو جاننے اور پہچاننے کے بعد بھی ماننے سے انکار کردیا تھا۔ ( شوکانی از مجاہد و سدی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 6: آیات 51 تا 60: اسرار و معارف : اقوام سابقہ کے حالات بھی شاہد ہیں کہ اللہ اپنے رسولوں کی اور ان پر ایمان لانے والون کی دار دنیا میں بھی مدد فرماتے ہیں اور ہمیشہ آخری کامیابی بھی انہی کی ہوتی ہے اور عزت و آرام بھی انہی کو نصیب ہوتا ہے۔ یہ بات آج کے حالات میں بھی بالکل واضح ہے اور آخرت میں جب اعمال کا حساب ہوگا اور سب پر گواہیاں پیش ہوں گی تو یہ کفار و مشرکین سب اکڑ بھول کر معذرت کرنے لگیں گے لیکن تب یہ سب منظور نہ ہوسکے گا اور ان پر لعنت و پھٹکار ہوگی نیز انہیں بہت برا ٹھکانہ نصیب ہوگا۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت کی راہ دکھائی انہیں بھی آسمانی کتاب ملی پھر بہت بڑی کافر طاقت نے سخت مخالفت کی مگر ان کا کچھ بگاڑ سکے نہ کتاب کا بلکہ کافر تباہ ہوگئے اور کتاب اور دین حق بنی اسرائیل میں نسلوں تک باقی رہا اہل دانش کے لیے اس میں بہت بڑی نصیحت ہے۔ یہاں ایک طرح سے مثال دے کر پیشگوئی فرمائی جا رہی ہے کہ فرعونیوں کی طرح یہ کفار بھی ناکام ہوں گے اور صحابہ کرام اور بعد کے مسلمانوں میں دین حق وراثت کے طور پر ضرور قائم رہے گا آپ صبر کیجیے ان کی وقتی اور لمحاتی کامیابی اور ایذا پر کہ اللہ کا وعدہ حق ہے غلبہ آپ کو اور آپ کے متبعین ہی کو نصیب ہوگا ہاں اللہ سے بخشش اور مغفرت طلب کرتے رہیے جس کا طریق یہ ہے کہ صبح شام یعنی ہر لمحہ ہر آن اللہ کا ذکر کیا کیجیے اس کی تسبیح اور حمد کرتے رہا کیجیے۔ صبح و شام سے مراد مفسرین کرام کے مطابق ذکر دوام ہے کہ یہی وہ کیفیت پیدا کرتا جسے حضوری یا معیت کہا جائے اور معیت باری ہی سب مشکلات کا حل اور سارے سوالوں کا جواب ہے۔ جو لوگ اللہ کی بات یا ارشاد سن کر اس کی مخالفت کرتے ہیں ان کے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں اور نہ ہوسکتی ہے در حقیقت ان کے دلوں میں غرور وتکبر اور اپنی بڑائی کا وہم گھر گیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر نبی کا ارشاد مان لیا تو ہماری حیثیت اور بڑائی ختم ہوجائے گی لہذا انکار کر کے اپنی ذاتی ریاست اور من مانی قائم رکھنا چاہتے ہیں مگر وہ ایسا بھی نہ کرسکیں گے انہیں اپنا زور لگانے دیجیے مگر آپ اللہ سے پناہ طلب کیجیے کہ وہی سب کچھ سنتا ہے اور سب دیکھتا ہے لہذا کفار کے پراپیگنڈہ اور ان کی چالوں کے جواب میں مومن کے پاس بہت بڑا ہتھیار ہے کہ خود کو اللہ کی پناہ میں رکھے زبانی بھی اللہ سے پناہ طلب کرے اور عملاً بھی اللہ کی اطاعت اور اتباع سنت خیر الانام اختیار کرے ان کفار کو یہ تک سجھائی نہیں دیتا کہ جس خالق کائنات نے آسمانوں کو زمین اور اس کی مخلوق اور سارے نظام کو پیدا فرمایا اسے کیا مشکل ہے کہ انسانوں کو پھر سے زندہ کردے مگر یہ علم سے بےبہرہ ہیں اور حقائق کو جاننے سے محروم کہ ان میں نور ایمان نہیں ہے لہذا ایسے اندھے کبھی اس کے برابر ہوسکتے ہیں جس کو اللہ نے نظر عطا کی ہو اور جسے نور ایمان نہیں ہے لہذا ایسے اندھے کبھی اس کے برابر ہوسکتے ہیں جس کو اللہ نے نظر عطا کی ہو اور جسے نور ایمان عطا ہوا ہو اور اللہ کی اطاعت کی توفیق ارزاں ہو بھلا یہ بدکار اس کے مقابل آسکتے ہیں ہرگز نہیں مگر یہ ایسی باتوں کو سمجھ ہی نہیں پاتے ان کی سوچ ہی بہت کمزور ہے۔ قیامت کا آنا یقینی ہے اس میں رائی برابر شک نہیں کہ ان کے نہ ماننے سے اس پر کوئی اثر پڑے یہ نہ ہوگا بلکہ اکثر لوگ انکار کرکے خود ایمان سے محروم ہیں حالانکہ تمہارے پروردگار کا تو اعلان ہے مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا لہذا وہ قبول فرماتا ہے کہ دعا خالص اللہ سے کی جائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے مطابق کی جائے تو یقینا قبول ہوتی ہے۔ محققین کے مطابق مومن کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی۔ اول تو جیسے مانگتا ہے مل جاتا ہے کبھی وقت میں تاخیر ہوجاتی ہے یا پھر وہ شئے اس کے حق میں بہتر نہ ہو تو اللہ بہتر شئے سے تبدیل کردیتے ہیں یا پھر اس کے ذخیرہ آخرت میں رکھ دی جاتی ہے کہ روز حشر اجر پا لے گا نیز دعا میں یہ کیا کم ہے کہ بندہ اللہ سے ہمکلام تو ہوتا ہے اور جو لوگ میری اطاعت سے اپنے تکبر کی وجہ سے دور رہے ایسے لوگ ذلیل ہو کر دوزخ میں داخل ہوں گے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 51 تا 60 : یوم الاشھاد ( گواہی کا دن) معذرۃ ( معذرت ، شرمندگی) سوء الدار ( بد ترین گھر، برا ٹھکانہ) اور ثنا (ہم نے وارث بنا دیا ، ذمہ داری بنا دیا) داخرین ( داخر) ذلیل اور رسوا کرنے والے) تشریح : آیت نمبر 51 تا 60 :۔ اللہ کا دستور یہ ہے کہ وہ صبر کرنے والے پیغمبروں اور ان پر ایمان لانے والوں کی اس دنیا میں اور آخرت کے اس دن میں بھی مدد فرمائے گا جب فرشتے اللہ کے سامنے حاضر ہو کر لوگوں کے اعمال پر گواہی پیش کریں گے ۔ فرمایا کہ اللہ کا یہ سچا وعدہ ہے پورا ہو کر رہے گا ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ جس طرح ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت جیسی پر نور کتاب دی تھی جس کا مقصد بنی اسرائیل کی اخلاقی و اصلاحی تربیت تھی کہ وہ اللہ کے احکامات کی روشنی میں اپنی بےترتیب زندگی کی اصلاح و رہنمائی کرسکیں مگر قوم بنی اسرائیل نے اللہ کی اس نعمت کی ناقدری کی اور اپنی بےحسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ہر بات سے اختلاف شروع کردیا ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو نا فرمانیوں سے روکتے رہے اور ان کی بےحسی پر صبر کرتے رہے۔ تب اللہ نے اس قوم پر اپنا وعدہ پورا کردیا ۔ فرعون ، اس کی قوم اور اس کی سلطنت کو سمندر میں غرق کردیا اور قوم بنی اسرائیل کے صاحبان ایمان کو فرعون کے ظلم و ستم اور زیادتیوں سے نجات عطاء فرما دی ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور قوم بنی اسرائیل کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ بھی صبر اور برداشت سے کام لیجئے اور اسی کی تلقین اپنے صحابہ (رض) کو بھی کرتے رہیے وہ وقت دور نہیں ہے جب اللہ کا سچا وعدہ پورا ہو کررہے گا اور نافرمانوں کو ان کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ۔ فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر اس سچائی کے راستے میں کہیں بھی کوئی اونچ نیچ ہوجائے تو اس پر اللہ کی بارگاہ میں معافی مانگ لیجئے۔ صبح و شام اللہ کی حمد وثناء کیجئے وہ مہربان آپ پر اور اہل ایمان پر اپنی رحمتوں کو نازل کرے گا ۔ رہے وہ لوگ جو اپنے غرور وتکبر اور بڑائی کی تسکین کے لیے بےدلیل مخالفت اور جاہلانہ کج بحثیوں میں لگے رہتے ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے ۔ اللہ کے سچے پیغام کو ہر شخص تک پہنچاتے رہیے جو نافرمان ہیں ان کو یہ باتیں نہ دنیا میں فائدہ دیں گی اور نہ آخرت میں ان کے کام آئیں گی۔ آپ کو ہر جگہ اللہ کی پناہ حاصل ہے اسی سے پناہ کی درخواست کرتے رہیے وہ تو ہر ایک کو سنتا اور ہر شخص کے حال سے پوری طرح با خبر ہے۔ فرمایا کہ کفار کا یہ اعتراض کہ جب ہم مر کر خاک ہوجائیں گے اور ہمارے جسم کے تمام اعضاء کائنات میں بکھر جائیں گے تو ہم دوبارہ کیسے پیدا کئے جائیں گے ؟ فرمایا کہ ایسے لوگ ذرا بھی عقل اور سمجھ سے کام لیں تو وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ جس اللہ نے اتنی زبردست اور عظیم الشان کائنات کو بنایا ہے، زمین و آسمان کے نظام کو ترتیب و تخلیق کیا ہے جو کائنات کے ذرے ذرے کا مالک اور خالق ہے وہی اس نظام کائنات کو چلا رہا ہے اس کائنات کے مقابلے میں جسمانی طور پر تو انسان بہت چھوٹی سی مخلوق ہے اس کو دوبارہ پیدا کرنا مشکل کام ہے۔ فرمایا کہ جس طرح آنکھوں والا اور اندھابرابر نہیں ہو سکتے اسی طرح جو لوگ ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں وہ ان کفار کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں جن کا بھیانک اور بد ترین انجام ہے ؟ اس سامنے کی حقیقت بہت جلد آنے والی ہے جس کے واقع ہونے میں کسی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ اے لوگو ! مجھے ہی پکارو ، مجھ سے دعائیں کرو میں تمہاری دعاؤں کو سننے والا اور قبول کرنے والا ہوں لیکن وہ لوگ جو ہماری رحمت سے مایوس ہیں اور ہر سچائی کا انکار کرنے والے ہیں وہ قیامت کے دن نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ جہنم کی آگ میں اس طرح جھونک دیئے جائینگے کہ وہاں ان کا کوئی یارو مدد گار نہ ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ مراد اس سے قیامت کا دن ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن کفار کی فریاد بھی قبول نہ ہوگی۔ ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے رسولوں اور مومنوں کی مدد کرتا ہے اور اس دن بھی مدد کرے گا جس دن گواہ پیش کیے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں اور بندوں کی دنیا میں مدد کرتا ہے اور قیامت کے دن بھی مدد فرمائے گا۔ جس دن ظالموں کی معذرت تک قبول نہیں کی جائے گی۔ ان کے لیے برا ٹھکانہ ہوگا اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ پھٹکار برستی رہے گی۔ دنیا میں رسولوں اور مومنوں کی مدد کرنے کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا پوری طرح کوئی نہیں جانتا۔ تاہم قرآن مجید، تاریخ اور انبیاء کی سیرت سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ اس طرح ہے۔ 1 اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو اخلاق اور کردار کے حوالے سے ہمیشہ سربلند فرمایا۔ جس کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے تھے۔ 2 انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت کی سچائی کفار بھی دل میں تسلیم کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی انبیائے کرام (علیہ السلام) کو شہادت کے منصب پر فائز فرمایا۔ جوہر نبی کی تمنا تھی اور یہی ہر مومن کی خواہش ہوتی ہے۔ 3 اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء ( علیہ السلام) کو نبوت کے ساتھ سیاسی اقتدار بھی نصیب فرمایا۔ 4 کفار اور مشرکین انبیاء ( علیہ السلام) کی دعوت مٹانا چاہتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کا کام اور نام باقی رکھا 5 اللہ تعالیٰ نے بعض انبیائے کرام (علیہ السلام) کو نبوت کے ساتھ دنیا کے مال و اسباب سے بھی ہمکنار فرمایا۔ 6 اللہ تعالیٰ نے بالآخر انبیائے کرام (علیہ السلام) کے دشمنوں کو ذلیل کیا اور اپنے رسولوں کو دنیا میں احترام اور مقام بخشا۔ 7 اللہ تعالیٰ بیشمار نیک بندوں کو دنیا میں بھی کفار سے برتر رکھتا ہے۔ 8 اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر صورت اپنے رسولوں اور بندوں کو معزز فرمائے گا۔ 9 اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے رسولوں اور بندوں کی سفارش قبول کرے گا۔ ان کے مقابلے میں کفار کی معذرت بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ 0 اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے رسولوں اور بندوں کو بےحساب انعامات سے نوازے گا۔ ان کے مقابلے میں کفار پر اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ لعنت برسائیں گے۔ ! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور مومنوں کو جنّت میں اعلیٰ مقام دے گا اور ان کے مخالفین کو جہنّم میں جھونکا جائے گا۔ جو رہنے کے اعتبار سے بدترین ٹھکانہ ہوگا۔ تفسیر بالقرآن لعنت کن لوگوں پر برستی ہے : ١۔ شیطان لعنتی ہے۔ (النساء : ١١٨) ٢۔ شیطان پر قیامت تک لعنت برستی رہے گی۔ (ص : ٧٥) ٣۔ اصحاب السبت لعنتی ہیں۔ (النساء : ٤٧) ٤۔ جھوٹے پر لعنتی برستی ہے۔ (آل عمران : ٦١) ٥۔ ظالم پر لعنت برستی ہے، (ھود : ١٨) ٦۔ حق چھپانے والے لعنتی ہیں۔ (البقرۃ : ١٥٩) ٧۔ اللہ اور رسول کو تکلیف دینے والے لعنتی ہیں۔ (الاحزاب : ٥٧) ٨۔ یہودی لعنتی ہیں۔ (المائدۃ : ٧٨) ٩۔ بےگناہ مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے والے پر لعنت اور اللہ کا عذاب ہوگا۔ (النساء : ٩٣) ١٠۔ کافروں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور جہنم کا عذاب۔ (الاحزاب : ٦٤) ١١۔ ظالموں کے لیے جہنم کا عذاب اور لعنت ہے۔ (حٰمٓ السجدۃ : ٥٢) ١٢۔ یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ (المائدۃ : ٦٤) ١٣۔ جہنمی ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔ (الاعراف : ٣٨) ١٤۔ منافقین پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور جہنم کا عذاب ہوگا۔ (الفتح : ٦) ١٥۔ بچھڑا پوجنے والوں پر خدا کی لعنت ہوئی۔ (طٰہٰ : ٨٧) ١٦۔ اللہ اور رسول کو ایذا پہنچانے والوں پر لعنت برستی ہے۔ (الاحزاب : ٥٧) ١٧۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدلنے کی وجہ سے یہودیوں پر لعنت کی گئی۔ (النساء : ٤٦) ١٨۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے میثاق کو توڑنے پر لعنت ہوئی۔ (الرعد : ٢٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 51 تا 55 اس دوٹوک موقف پر یہ فیصلہ کن تبصرہ بہت ہی مناسب ہے۔ انسانیت وک معلوم ہوگیا کہ حق و باطل کی کشمکش کا آخری انجام کیا ہوا کرتا ہے۔ اس دنیا میں دونوں کا انجام کیا ہوتا ہے اور آخرت میں دونوں کا انجام کیا ہوگا۔ انسانوں نے دیکھ لیا کہ فرعون اور اس کے سرداروں کا انجام اس دنیا میں کیا ہوا جس طرح انہوں نے قیامت کے منظر میں دیکھ لیا کہ وہ آگ میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ لڑ رہے تھے۔ اور ان کو نہایت حقارت کے ساتھ ناقابل التفات چھوڑدیا گیا ۔ ہر کشمکش کا فیصلہ یہی ہوتا ہے جس طرح قرآن کا صریح فیصلہ ہے۔ انالنضر۔۔۔۔ الدار (40: 51 تا 52) ” یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں ، اور اس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے ، جب ظالموں کو ان کی معذرت کچھ بھی فائدہ نہ دے گی اور ان پر لعنت پڑے گی اور بدترین ٹھکانا ان کے حصے میں آئے گا “۔ رہی آخرت تو کسی مومن کی جانب سے تو اس کے بارے میں کسی بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر بحث ہوسکے ۔ رہی دنیا میں نصرت تو اس کی تشریح کی ضرورت ہے۔ بہرحال اللہ کا فیصلہ اور وعدہ تو یقینی ہے۔ قطعی الفاظ میں ہے۔ انا لننصر۔۔۔۔ الدنیا (40: 51) ” بیشک ہم اپنے رسولوں اور لوگوں کی جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں مدد کرتے ہیں “۔ لیکن لوگوں کا مشاہدہ یہ ہے کہ رسولوں میں سے بعض تو قتل کیے گئے ، بعض کو اپنی زمین سے بھی نکالا گیا۔ ان کو اپنا گھر اور قوم چھوڑنا پڑی اور علاقہ بدر کردیئے گئے۔ مومنین میں سے بعض بعض کو سخت عذاب دیا جاتا ہے۔ بعض کو گڑھوں میں جلایا جاتا ہے ، بعض شہید ہوتے ہیں ، بعض نہایت دکھ درد اور مصیبتیں جھیلتے ہیں تو پھر یہ قطعی وعدہ کس طرح ہے کہ ہم حیات دنیا میں اپنے رسولوں اور مومنین کی مدد کرتے ہیں۔ اس سوال کے ذریعہ شیطان اللہ کے بندوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور ان کے ساتھ کیا کچھ کرتا ہے ؟ تو حقیقت کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ تمام امور کے ظاہری پہلو ہی کو جانتے ہیں۔ ان کے سامنے وہ بیشتر قدریں اور حقائق نہیں ہوتے۔ جن کا تعلق اللہ کے نظام وقدر سے ہوتا ہے۔۔۔ پھر لوگوں کی سوچ ، اعمال ونتائج کے بارے میں ایک محدود زمانے تک محدود ہوتی ہے اور انسان کے قیاس اور سوچ کا دائرہ محدود ہوتا ہے ، رہے اللہ کے فیصلے تو زمان ومکان کے اعتبار سے ان کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک زمانے اور دوسرے زمانے میں جدائی نہیں کرتا۔ ایک علاقے اور دوسرے علاقے میں فرق نہیں کرتا۔ اگر ہم زمان و مکان کے حدود سے آگے بڑھ کر ایمان کے مسئلہ پر سوچیں تو حقیقت یہ سامنے آئے گی کہ ایمان کامیاب رہتا ہے۔ ایمان اور عقیدے کی کامیابی دراصل ان لوگوں کی کامیابی ہوتی ہے جو ایمان اور عقیدے کو اپناتے ہیں۔ اہل ایمان سے باہر کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ اور ایمان کا پہلا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ ایمان لانے والے اس میں فنا ہوجائیں۔ وہ خود مٹ جائیں اور ایمان کو نمایاں کردیں۔ پھر نصرت کا مفہوم بھی لوگوں کے ہاں محدود ہے۔ وہ قریبی نصرت دیکھتے ہیں جسے وہ خود دیکھ سکیں ۔ لیکن نصرت کی اشکال تو بیشمار ہیں۔ بعض اوقات تو یوں ہوتا ہے کہ انسان کو نصرت بطاہر شکست نظر آتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکا جاتا ہے لیکن وہ اپنے عقیدے اور دعوت سے نہیں پھرتے ۔ سوال یہ ہے کہ ان کو نصرت ہوئی یا وہ شکست کھاگئے ایمان کے پیمانوں سے دیکھا جائے تو ان کو فتح ہوئی۔ اس وقت بھی وہ فاتح تھے ، جب ان کو آگ میں پھینکا جارہا تھا اور اس وقت بھی فاتح تھے ان کو نجات دی گئی۔ یہ بھی فتح کی ایک صورت ہے اور آگ کا گلزار ہوتا بھی اس کی ایک صورت ہے۔ جبکہ بظاہر دونوں کی صورتیں مختلف ہیں۔ لیکن اپنی اصلیت میں دونوں ایک ہیں ۔ حضرت حسین (رض) کربلا میں شہادت پاتے ہیں۔ یہ ایک دلدوز واقعہ ہے۔ یہ فتح تھی یا شکست ۔ اگر بظاہر محدود پیمانوں سے دیکھا جائے تو شکست تھی۔ اور اگر حقیقت کے پیمانوں سے دیکھا جائے تو یہ عظیم فتح ہے۔ قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد حسین کو آج تک محبت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ آج تک لوگوں کے دل حسین کے ساتھ ہیں آج تک لوگ ان پر فدا ہوتے ہیں جبکہ فاتح یزید کا نام ونشان غائب ہے۔ حسین پر شیعہ سنی سب فدا ہیں اور یزید کے بارے میں کوئی نہیں کہتا کہ وہ اولاد یزید ہے یا یزید ہی ہے۔ کئی ایسے شہداء ہیں کہ اگر وہ ہزار سال زندہ رہتے تو اپنے نظریات کو پھیلانہ سکتے ۔ لیکن ایک شہادت سے ان کے نظریات اقطار عالم تک پھیل گئے۔ کوئی بھی شہید اپنے بیان اور تقریروں سے عوام کو بلند مقاصد عطا نہیں کرسکتا ۔ نہ عوام کو بلند مقاصد کے لیے ابھار سکتا ہے۔ لیکن اپنے خون کے زریعہ وہ جو خطبہ دیتا ہے اور وہ اس کا آخری خطاب ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محرک ہوتا اور نسلوں تک نشان منزل رہتا ہے۔ اور بعض اوقات تو ایک شہید جو راہ متعین کرتا ہے صدیوں تک تاریخ اس پر چلتی رہتی ہے اور قافلے اسی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ تو پھر فتح کیا ہے اور ہزیمت کیا ہے ؟ ہمیں چاہئے کہ فتح وشکست کے جو پیمانے ہمنے اپنے ذہنوں میں قائم کر رکھے ہیں ان پر ذرا نظرثانی کریں۔ اور اس کے بعد پھر پوچھیں کہ اللہ کی وہ مدد کہاں ہے ، جس کا وعدہ اللہ نے مومنین سے کیا ہے ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ ہاں بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ جب ظاہری صورت حال ، اللہ کے اعلیٰ اور دور رس پیمانوں کے ساتھ موافق ہوجاتی ہے تو فوری فتح بھی نصیب ہوجاتی ہے۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ نے اپنی زندگی ہی میں نصرت اور کامرانی عطا فرمائی تھی کیونکہ دنیا میں اسلامی نظریہ حیات کی حقیقت اور یہ نصرف ساتھ ساتھ قائم ہوگئی تھیں۔ عقیدے کو نصرت تب ملتی ہے جب عقیدہ انسانی سوسائٹی پر غالب آجائے اور وہ سوسائٹی اس کے رنگ میں رنگ کرا سکے اندر ڈوب جائے۔ ایک فرد ایک جماعت اور ایک قوت حاکمہ سب کی سب اس میں ڈوب جایں تو پھر اللہ ایسے دوعیوں اور ایسی دعوت کی مدد کرتا ہے اور یہ نظریہ اور یہ نظام اپنی حقیقی صورت میں پھر قائم ہوجاتا ہے اور یہ نظام غالب ہو کر تاریخ پر اپنے نقوش چھوڑتا ہے۔ اور تاریخ پر اسکے یہ نقوش نمایاں نظر آتے ہیں۔ یوں قریبی نصرت کی صورت اور دوررس مقاصد کی صورت باہم متصل ہوجاتی ہیں۔ اب بظاہر نصرت عاجلہ ظہور میں آتی ہے جو دوررس سنت الہیہ کا حصہ ہوتی ہے۔ یوں سنت الہیہ اور تقدیر الہٰی کے اندر ایک فوری فتح کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ اللہ کا وعدہ اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کے ساتھ قائم ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ وعدے کے مستحق ہونے والے مومنین کے دلوں کے اندر حقیقت ایمان صحیح طرح قائم اور جاگزیں ہوجائے تاکہ اس پر اللہ کا وعدہ مرتب ہو۔ حقیقت ایمان کے سلسلے میں بسا اوقات لوگ سہل انگاری سے کام لیتے ہیں۔ ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ قلب مومن میں شرک کا شائبہ تک نہ رہے۔ کسی قسم کی شرک بھی دل کے قریب نہ ہو۔ شرک کی بعض صورتیں نہایت خفیہ ہوتی ہیں۔ ان سے دل پاک وصاف اس وقت ہوتا ہے جب انسان صرف اللہ وحدہ کی طرف متوجہ ہو۔ اور صرف اللہ وحدہ پر توکل کرے۔ اور اللہ انسان کے بارے میں جو فیصلہ کرے اس پر وہ مطمئن ہوجائے۔ اور انسان اپنے آپ کو تقدیرالہٰی کے سپرد کردے۔ انسان کے اندر یہ حساس ہو کہ اس کے معاملات میں صرف اللہ ہی متصرف ہے۔ لہٰذا اس کے لیے اللہ جو اختیار کرتا ہے اس پر وہ کسی حال میں حیران نہ ہو اور اس کو جو پیش آئے اسے نہایت اطمینان ، اعتماد اور سرتسلیم خم کرکے قبول کرے۔ جب انسان تسلیم ورضا کے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو وہ بھی اللہ کے آگے نہیں بڑھتا اور جلد بازی نہیں کرتا۔ اور اللہ کے سامنے فتح ونصرت اپنی پسندیدہ صورت میں پیش نہیں کرتا۔ اپنے معاملات اللہ کے حوالے کردیتا ہے اور اپنی راہ پر گامزن رہتا ہے ۔ اسے اسی راہ میں جو بھی پیش ہے ، وہ اسے خیر سمجھتا ہے۔ یہ ہے حقیقی نصرت۔۔۔۔ یہ ہے نصرت اور فتح اپنی ذات ، اپنی خواہشات پر۔ یہ ہے اندرونی فتح اور خالص فتح تب ہی ہوتی ہے ، جب اندرونی فتح مکمل ہو۔ انالنضر۔۔۔۔ الدار (40: 51 تا 52) ” یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں ، اور اس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے ، جب ظالموں کو ان کی معذرت کچھ بھی فائدہ نہ دے گی اور ان پر لعنت پڑے گی اور بدترین ٹھکانا ان کے حصے میں آئے گا “۔ سابقہ منظر میں ہم نے دیکھا کہ ظالموں کے لیے کوئی معذرت مفید نہیں ہے۔ اور ان کا انجام یہ ہوا کہ ان پر لعنت پڑی اور جہنم رسید ہوئے۔ رہی یہ بات کہ اللہ رسولوں کی مدد کس طرح کرتا ہے تو اس کی ایک صورت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اللہ نے مدد فرمائی ۔ ولقداتینا۔۔۔۔ الالباب (40: 54) ” آخر کار دیکھ لو کہ موسیٰ کی ہم نے رہنمائی کی اور بنی اسرائیل کو اس کتاب کا وارث بنادیا جو عقل و دانش رکھنے والوں کے لئے ہدایت ونصیحت تھی “۔ یہ اللہ کی نصرت کا ایک نمونہ تھا کہ حضرت موسیٰ کو کتاب دی ، ہدایت دی اور پھر نجات دی۔ یہاں بطور مثال قصہ موسیٰ کی طرف اشارہ کردیا۔ یہ قصہ بہت ہی طویل ہے اور اس میں نصرت اور تائید خداوندی کے کئی نمونے ہیں۔ اس مثال کے بعد ایک آخری تسلی کیونکہ مکہ میں مسلمان اور رسول اللہ بہت ہی مشکل حالات میں زندگی بسر فرما رہے تھے ، ان کو تسلی دی جارہی ہے کہ نصرت ضرور آئے گی اور رسول اللہ کے بعد جو لوگ دعوت اسلامی کا کام کررہے ہیں اور ایسے ہی حالات میں ہیں۔ ان کے لیے بھی ایسی ہی تسلی ہے۔ فاصبران۔۔۔۔ والابکار (40: 55) ” اے نبی ، صبر کرو ، اللہ کا وعدہ برحق ہے ، اپنے قصوروں کی معافی چاہو اور صبح وشام اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو “۔ عقل وخرد کی تاروں پر یہ آخری ضرب ہے۔ صبر کی دعوت ، لوگوں کی جانب سے تکذیب پر صبر کرو ، اس پر صبر کرو کہ باطل کو اقتدار حاصل ہے اور اس کی وجہ سے وہ پھیل رہا ہے لیکن یہ ایک عرصے کے لیے ہے ، لوگوں کے مزاج ۔ ان کے اخلاق اور ان کے معاملات کی غلطیوں پر صبر کرو ، انسان کے نفس ، اس کی خواہشات اور چاہتوں پر صبر کرو۔ خصوصاً جب نفس یہ چاہے کہ اللہ کی نصرت بہت جلد آنی چاہئے اور نصرت کے نتیجے میں ہونے والی کامیابیوں اور تحریک اسلامی کی طویل جدوجہد میں دشمنوں سے بھی پہلے دوستوں کی طرف سے پیدا کی جانے والی مشکلات پر صبر کرو۔ فاصبر ان وعد اللہ حق (40: 55) اے نبی صبر کرو ، اللہ کا وعدہ حق ہے “۔ دیر آید درست آید۔ اگر آپ کے معاملات پیچیدہ ہوں ۔ اگر بظاہر اسباب نصرت نہ نظر آتے ہوں۔ کیونکہ نصرت کا وعدہ وہ ذات باری کر رہی ہے جو اپنے وعدے کو حقیقت کا جامہ پہناسکتی ہے اور اللہ نے وعدہ کیا ہے تو اللہ نے ارادہ کرلیا ہے۔ واستغفر ۔۔۔ والابکار (40: 55) ” اور اپنے قصور کی معافی چاہو اور صبح وشام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو “۔ یہ ہے اصلی زاد سفر۔ نہ راہ بہت طویل ہے اور دشوار گزار ہے۔ اس میں وہی شخص آگے قدم بڑھا سکتا ہے جو اپنے قصوروں کی معافی چاہتا رہے۔ جو حمد باری تعالیٰ کرتا رہے اور حمد کے ساتھ اللہ کی تسبیح اور پاکی بیان کرتا رہے۔ اس میں نصرت بھی مل سکتی ہے ، اور نفس انسانی کی تربیت بھی۔ اور اس راستے پرچلنے کی تیاری بھی اور قلب ونظر کی تطہیر بھی۔ یہ وہ نصرت ہے جو قلب تعداد کے اندر بھی اپنا کام کرتی ہے اور اس کے بعد نصرت کی وہ صورت سامنے آتی ہے جو زندگی کی عملی صورت میں ہوتی ہے۔ صبح وشام کا ذکر یا تو اس لیے ہے کہ اس سے مراد پورا وقت ہے کیونکہ صبح وشام اوقات کے اطراف ہیں۔ یا ان اوقات میں انسانی قلب صاف اور متوجہ ہوتا ہے اور ان اوقات میں غور وفکر اور اللہ کی حمد وتسبیح کے اثرات گہرے ہوتے ہیں۔ یہ ہے وہ منہاج جس کے مطابق اللہ کی نصرت حاصل ہوسکتی ہے اور اسے اللہ نے اپنی نصرت دینے کے لیے مقرر فرمایا ہے ۔ اسی کے مطابق اس راستے پر شلنے کی تیاری ہوگی ، زاوسفر تیار ہوگا۔ اور تب نصرت ملے گی اور کسی بھی معرکے کے لیے تیاری اور سازو سامان کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی جنگ بغیرتربیت اور سامان کے نہیں ہوسکتی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کا اپنے رسولوں اور اہل ایمان سے نصرت کا وعدہ فرمانا اور ظالمین کے ملعون ہونے کا اعلان فرمانا دو آیتوں کا ترجمہ ہے ان میں دو باتیں بتائی ہیں اول یہ کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی دنیا والی زندگی میں مدد کرتے ہیں، مدد تو ہوتی ہے بعض مرتبہ دیر لگنے میں بڑی حکمتیں ہوتی ہیں انہی حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کافروں کو مہلت دی جاتی ہے جو ان کے حق میں استدراج ہوتا ہے اور اسی استدراج کی وجہ سے اور زیادہ بڑھ چڑھ کر شرارت اور بغاوت کرتے ہیں پھر دنیا میں ان سے انتقام لے لیا جاتا ہے۔ (وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ ) اور ہم اس دن بھی رسولوں اور ایمان والوں کی مدد کریں گے جس دن گواہ کھڑے ہوں گے یعنی فرشتے گواہی دیں گے کہ رسولوں نے تبلیغ کی اور کافروں نے جھٹلایا۔ دوسری بات یہ واضح فرمائی کہ قیامت کے دن ظالموں کو ان کی عذر خواہی نفع نہ دے گی وہ دنیا میں بھی مستحق لعنت ہیں اور آخرت میں بھی ملعون ہوں گے۔ اور جو انہیں رہنے کا گھر ملے گا وہ برا گھر ہوگا یعنی دوزخ میں جائیں گے جو آگ والا گھر ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

55:۔ ” انا لننصر رسلنا “ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کے لیے تسلی ہے۔ ہم اپنے پیغمبروں اور ایمان والوں کی دنیا میں مدد کرتے ہیں، دشمنوں کے ہاتھوں ہم انہیں ذلیل نہیں ہونے دیتے اور آخرت میں بھی انہیں بہترین جزا دینگے اور ان کو اعلی درجات پر فائز کریں گے۔ ” ویوم یقوم الاشہاد “ یہ علفتہا تبنا و ماء باردا کے قبیل سے ہے۔ اور اصل میں ہے وجزیھم جزاء حسنا یوم یقوم الشہاد قالہ الشیخ قدس سرہ۔ ” یوم لا ینفع “ یہ ” یوم یقوم “ سے بدل ہے۔ جس دن انبیاء علیہم السلام، فرشتے اور دوسرے گواہ اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہوں وہاں پورا پورا انصاف ہوگا۔ اس دن مشرکین کا کوئی حیلہ وبہانہ کامیاب نہ ہوگا اور وہ اللہ کی رحمت سے دور کردئیے جائیں گے اور ان کا ٹھکانہ نہایت ہی برا ہوگا۔ یعنی جہنم۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(51) بلا شبہ ہم اپنے پیغمبروں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان والے ہیں دنیوی زندگی میں بھی مدد کرتے اور ان کا انتقام لیتے ہیں اور اس دن بھی مدد کریں گے جس دن لواہی دینے والے گواہی دینے کھڑے ہوں گے اور موجود ہوں گے۔ یہاں سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی اور تشفی کا ذکر فرمایا اور آپ ساتھ آپ کے متبعین کو بھی اطمینان دلایا کہ ہماری امداد ان کو بھی شامل ہے دنیا اور آخرت میں۔ بعض اکابر مفسرین نے لنتصر کی تفسیر لننتقم سے کی ہے ہم نے تیسیر میں اس کی طرف بھی اشارہ کیا، بہرحال مظلوم کی امداد کا وعدہ تو احادیث میں آتا ہی ہے ہر مظلوم کی امداد کی جاتی ہے اور اس کا بدلا لیا جاتا ہے خواہ کچھ تاخیر سے ہو لیکن اہل حق کی مدد دنیا میں بھی ہوتی ہے اور آخرت میں بھی آگے اس دن کی وضاحت ہے جس دن گواہی دینے والے گواہی کو کھڑے ہوں گے۔