Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 53

سورة مومن

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡہُدٰی وَ اَوۡرَثۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡکِتٰبَ ﴿ۙ۵۳﴾

And We had certainly given Moses guidance, and We caused the Children of Israel to inherit the Scripture

ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو ہدایت نامہ عطا فرمایا اور بنو اسرائیل کو اس کتاب کا وارث بنایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَقَدْ اتَيْنَا مُوسَى الْهُدَى ... And, indeed We gave Musa the guidance. means, the guidance and light with which Allah sent him. ... وَأَوْرَثْنَا بَنِي إِسْرَايِيلَ الْكِتَابَ and We caused the Children of Israel to inherit the Scripture. means, `We caused them to prevail in the end and they inherited the land and accumulated wealth of Fir`awn, because of their patience in obeying Allah and following His Messenger Musa.' The Scripture which they inherited, the Tawrah, was هُدًى وَذِكْرَى لاُِولِي الاَْلْبَابِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

53۔ 1 یعنی نبوت اور تورات عطا کی جیسے فرمایا (اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ) 5 ۔ المائدہ :44) 53۔ 1 یعنی تورات، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بھی باقی رہی، جس کے نسلاً بعد نسل وہ وارث ہوتے رہے۔ یا کتاب سے مراد وہ تمام کتابیں ہیں جو انبیائے بنی اسرائیل پر نازل ہوئیں، ان سب کتابوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنایا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٩] یعنی سیدنا موسیٰ کو فرعون جیسے جابر اور ظالم حکمران کے پاس بھیجا۔ تو ساتھ ہی ساتھ ان کی رہنمائی بھی کرتے رہے کہ اب آگے انہیں کون سا قدم اٹھانا چاہئے تاآنکہ انہیں اور ان کی مظلوم قوم کو فرعون کی چیرہ دستیوں سے نجات دلا کر انہیں کامیابی سے ہمکنار کریں۔ [٧٠] کتاب کے وارثوں کی ذمہ داریاں :۔ فرعون کی غرقابی کے بعد موسیٰ کو جو کتاب تورات عطا فرمائی اس میں اہل عقل و خرد کے لئے سبق حاصل کرنے کے لئے بھی بہت کچھ سامان موجود تھا اور دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے بھی وہ زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی مہیا کرتی تھی۔ ہم نے اس عظیم الشان کتاب کا بنی اسرائیل کو وارث بنایا تاکہ وہ دنیا میں ہدایت کے علمبردار بن کر اٹھیں۔ ان آیات میں دراصل مسلمانوں کو تسلی بھی دی گئی ہے اور خوشخبری بھی۔ مسلمان اس وقت ایسے ہی حالات سے دوچار تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ کہ وہ اپنے نبی اور مسلمانوں کو اسی حال میں نہیں چھوڑے گا بلکہ قدم قدم پر ان کی رہنمائی بھی فرمائے گا۔ تاآنکہ وہ کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں پھر انہیں جو کتاب (قرآن) دی جارہی ہے مسلمانوں کو ہی اس کا وارث بنایا جائے گا تاکہ وہ اسے دنیا کے کونے کونے تک پہنچائیں اور تمام لوگوں کی ہدایت کا فریضہ سرانجام دیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ولقد اتینا موسیٰ الھدی : اس آیت میں اس نصرت کا بیان ہے جس کا ذکر پچھلی آیت ” انا لننصر رسلنا ‘ میں ہوا۔ واؤ کے ساتھ عطف اس بات پر ہے جس کا ذکر پیچھے گزرا اور جو یہاں مقدر ہے کہ ” ہم نے موسیٰ اور ایمان والوں کی مدد فرعون اور اس کے لشکروں کو غقر کر کے انہیں نجات دینے کے ساتھ کی “ اور یقیناً ہم نے موسیٰ کو ہدایت عطا فرمائی۔ اس ہدایت میں نبوت، معجزات تورات اور ہر مشلک میں رہنمائی سب شامل ہیں۔ (٢) واورثنا بنی اسرآئیل الکتب : نبوت تو موسیٰ (علیہ السلام) کو ملی اور وہ صرف نبی ہی کو ملتی ہے، البتہ اس کی کتاب اور اس کے علوم کی وارث اس کی امت بنتی ہے، جیسا کہ ابو درداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرماتے تھے۔ (ان العلماء ورثۃ الانبیاء و ان الانبیاء لم یورثوا دیناراً ولا درھما ورثوا العلم، فمن اخذہ اخذ بحظ وافر) (ابو داؤد، العلیم، باب فی فضل العلم :3631)” علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار اور درہم کا وارث نہیں بنایا، انہوں نے صرف علم کا وارث بنایا۔ تو جس نے اسے حاصل کرلیا، اس نے بہت زیادہ حصہ حاصل کرلیا۔ “ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ملنے والی کتاب تورات کا وارث بنی اسرائیل کو بنایا، وہ نسلاً بعد نسل اسے پڑھتے پڑھاتے اور اس پر عمل کرتے رہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْہُدٰى وَاَوْرَثْنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْكِتٰبَ۝ ٥٣ۙ آتینا وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] . [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ ورث الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي : أصله وبقيّته، قال الشاعر : 461- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً : قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون/ 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ [ مریم/ 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة ( ور ث ) الوارثۃ ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔ وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٣۔ ٥٤) اور ہم نے موسیٰ کو توریت داؤد کو زبور حضرت عیسیٰ ابن مریم کو انجیل دی تھی اور پھر اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل کو زبور انجیل پہنچائی تھی جو کہ ہدایت اور نصیحت کی چیز تھی عقل والوں کے لیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ { وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْہُدٰی وَاَوْرَثْنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ الْکِتٰبَ } ” اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو ہدایت دی تھی اور ہم نے وارث بنایا تھا بنی اسرائیل کو کتاب کا ۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

69 That is, "We did not just leave Moses alone when We sent him against Pharaoh, but We gave him guidance at every step till success." This contains a subtle allusion to the effect: "O Muhammad, We shall help you too in the same manner. We have neither left you alone after raising you as a Prophet in the city of Makkah and the tribe of Quraish so that these wicked people may treat you as they like, but We Ourselves are at your back and are giving you guidance at every step."

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :69 یعنی موسیٰ کو ہم نے فرعون کے مقابلے پر بھیج کر بس یونہی ان کے حال پر نہیں چھوڑ دیا تھا ، بلکہ قدم قدم پر ہم ان کی رہنمائی کرتے رہے یہاں تک کی انہیں کامیابی کی منزل تک پہنچا دیا ۔ اس ارشاد میں ایک لطیف اشارہ اس مضمون کی طرف ہے کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ایسا ہی معاملہ ہم تمہارے ساتھ بھی کریں گے ۔ تم کو بھی مکے کے شہر اور قریش کے قبیلے میں نبوت کے لیے اٹھا دینے کے بعد ہم نے تمہارے حال پر نہیں چھوڑ دیا ہے کہ یہ ظالم تمہارے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں ، بلکہ خود تمہاری پشت پر موجود ہیں اور تمہاری رہنمائی کر رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٣۔ ٥٦۔ اوپر کی آیت میں رسولوں اور ایمان والوں کی مدد کرنے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا اس مدد کی ایک مثال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کی بیان فرمائی اور فرمایا کہ بیشک دی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت ھدے سے مفراد توریت اور نبوت ہے جس طرح اس آیت میں فرمایا انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدے ونور اس کا مطلب یہ ہے کہ بیشک اتارا ہم نے توراۃ کو اس میں ہدایت اور نور ہے اور وارث کیا ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب کا بعد اس ذلت اور خواری کے کہ جس میں وہ مبتلا تھے فرعون کے تمام شہروں اور مال و زمین کا ان کو وارث بنایا اس سبب سے کہ انہوں نے اللہ کی اور اس کی کتاب و رسول (علیہ السلام) کی تابعداری پر صبر کیا اور جس کتاب کے وہ وارث کئے گئے اس میں ان کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل کامل عطا فرمائی ہے۔ کتاب سے مقصود یہاں توراۃ ہے۔ اب آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کی قوم پر فتح یاب کیا وعدہ الٰہی کے موافق وہی انجام تمہارا اور تمہارے ساتھ کے مسلمانوں کا ہوگا مشرکین مکہ میں کے جو لوگ قرآن کی آیتوں میں بغیر سند کے طرح طرح کے جھگڑے نکالتے ہیں اور اپنے اس غرور سے یہ چاہتے ہیں کہ دین حق پر ان کی بت پرستی غالب رہے یہ کبھی ہونا نہیں تم ان لوگوں کے بےسند جھگڑوں پر چند روز بھر کرو ان لوگوں کی ایذا سے اللہ کی پناہ چاہو اور شام اور صبح اللہ کی عبادت میں لگے رہو کہ اس کی نعمتوں کا یہی شکریہ ہے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے بےسند جھگڑے سب سنتا ہے اور ان کے شرک کے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے وقت مقررہ پر ان سب باتوں کا فیصلہ ہوجائے گا ان لوگوں کی ایذا پر صبر کرنے کے ساتھ امت کے نیک لوگوں کو توبہ استغفار کی عادت سکھانے کے لئے فرمایا کہ اکثر توبہ استغفار کرتے رہا کرو۔ صحیح بخاری ٢ ؎ کے حوالہ سے عبد اللہ بن مسعود کی اور صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ کی روایتیں ایک جگہ گزر چکی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ فتح مکہ کے وقت اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین مکہ کے بتوں کو ہاتھ کی لکڑی مار مار کر گرا دیا اور مکہ بھر میں کوئی حمایتی ان بتوں کی حمایت کو کھڑا نہ ہواں مسند امام ٣ ؎ احمد کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس کی معتبر روایت بھی گزر چکی ہے کہ فتح مکہ کے بعد شیطان نے اپنے شیاطینوں کو جمع کیا اور آئندہ جزیرہ عرب کی بت پرستی سے مایوس ہو کر خوب رویا۔ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جن کا حاصل یہ ہے کہ ان آیتوں میں اسلام کے غلبہ کا وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا بدر کی لڑائی سے لے کر فتح مکہ تک اس کا پورا ظہور ہوگیا جس ظہور کا اثر شیطان پر بھی پڑا اور قرآن شریف کی آیتوں میں بےسند جھگڑا کرنے والے کچھ تو فتح مکہ مارے گئے اور باقی اسلام کے تابع ہوگئے۔ (٢ ؎ صحیح بخاری این رکز النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرایت یوم الفتح ص ٦١٤ ج ٢۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم میں اس کے ہم معنی روایت موجود ہے دیکھئے صحیح مسلم باب تحریش الشیطان ص ٣٧٦ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:53) الھدی : اسم ومصدر۔ ہدایت۔ ہدایت کرنا۔ انبیاء (کیونکہ وہ بھی مجمہ ہدایت بنا کر بھیجے جاتے ہیں) یا اللہ کی طرف سے کتابیں و صحیفے وغیرہ۔ جو سب بجائے خود ہدایت بھی ہیں اور ہدایت کرنے والی بھی۔ یہاں مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل شدہ توریت۔ معجزات وغیرہ ہیں۔ الکتب۔ اسم جنس ہے یہاں الکتب سے مراد وہ کتابیں جو بنی اسرائیل پر نازل کی گئی تھیں مثلا تورات، انجیل، زبور، و دیگر صحائف وغیرہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 جیسا کہ دوسری آیت میں توراۃ کو ” ہدی و نور “ فرمایا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی راہنمائی کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت اور کتاب کے ساتھ مبعوث فرمایا اور بنی اسرائیل کو تورات کا وارث بنایا۔ جس میں عقل مندوں کے لیے نصیحت اور راہنمائی موجود ہے۔ کتاب سے مراد تورات ہے جو پہلی آسمانی کتابوں کی ترجمان ہے اور ہدایت سے مراد وہ راہنمائی ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو چلنے کی توفیق دیتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور علماء کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ اس کتاب کے مطابق لوگوں کی راہنمائی کریں۔ جو عقل مندوں کے لیے راہنمائی اور نصیحت کا سرچشمہ تھی۔ اولی الالباب کی تخصیص اس لیے کی گئی ہے کہ صحیح عقل مند وہی ہوتا ہے جو اللہ کی ہدایت پر مستقل مزاجی سے گامزن رہتا ہے۔ اسی لیے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ کے راستے میں جو مشکلات آرہی ہیں اس پر صبر فرمائیں اور یقین رکھیں کہ اللہ کا وعدہ سچا اور پکا۔ اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگو اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کرتے رہو ! آپ کے رب کا وعدہ سچا ہے وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ حالات کے جبر سے پریشان ہو کر صحابہ کرام (رض) باربار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کرتے کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب سے عرض کیجیے کہ کوئی ایسا معجزہ نازل کرے جس سے کفار ایمان لانے پر مجبور ہوجائیں یا پھر انہیں تہس نہس کردیاجائے۔ ان حالات کی وجہ سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں کئی باربار یہ خیال پیدا ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کیوں نازل نہیں ہورہی۔ اللہ کی مدد طلب کرنا ہر شخص کے لیے لازم ہے۔ لیکن نبی کا مقام اتنا ارفع ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ معمولی عجلت بھی پسند نہیں کرتا۔ آپ عجلّت پسندی پر اپنے رب سے معافی مانگیں۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے بریلوی مکتبہ فکر کے ترجمان پیر کرم شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ افضل اور اولیٰ کا ترک عام لوگوں کے لیے جرم اور گناہ تصور نہیں ہوتا۔ لیکن مقرّبین صمدیت سے غیر اولیٰ کا صدور بھی قابل مؤاخذہ ہوتا ہے۔ یہاں بھی جس ذنب سے استغفار کی ہدایت کی جارہی ہے اس سے مراد ایسے امر سے استغفا رہے جو بذات خود اگرچہ مباح اور جائز ہے لیکن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقام رفیع اور شان عالی کے شایان شان نہیں اور سالکان راہ محبت سے یہ چیز مخفی نہیں کہ منزل محبوب کی طرف ان کے سفر میں ایک لمحہ کے لیے توقف بھی ناقابل برداشت ہے اور لائقِ صدا استغفار ہے۔ (ضیاء القرآن جلد ٤ ص : ٣١١، ٣١٢) صبح و شام تسبیح کرنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہمیشہ اللہ کو یاد کرتے رہو ! دوسرا یہ کہ ان مخصوص اوقات میں نماز ادا کرو ! یہ دوسرے معنٰی لینے کی صورت میں اشارہ نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف ہے جو اس سورت کے نزول کے کچھ مدت بعد تمام اہل ایمان پر فرض کردیئے گئے۔ اس لیے عشیّ کا لفظ عربی زبان میں زوال آفتاب سے لیے کر رات کے ابتدائی حصے تک کے لیے بولا جاتا ہے جس میں ظہر سے عشاء تک کی چاروں نمازیں آجاتی ہیں۔ اور ابکار صبح کی پَو پھوٹنے سے طلوع آفتاب تک کے وقت کو کہتے ہیں جو نماز فجر کا وقت ہے۔ (تفہیم القرآن جلد ٤) (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا أَیُّہَا النَّاسُ تُوْبُوْا إِلَی اللَّہِ فَإِنِّی أَتُوْبُ فِی الْیَوْمِ إِلَیْہِ ماءَۃَ مَرَّۃٍ ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ، باب اسْتِحْبَاب الاِسْتِغْفَارِ وَالاِسْتِکْثَارِ مِنْہُ ] ” حضرت ابن عمر (رض) سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگو ! اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرو۔ بلاشبہ میں ہر روز سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات اور راہنمائی سے سرفراز فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تورات کا وارث بنایا۔ ٣۔ عقل مند لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے اور اپنے رب کی ہدایت پر چلتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں۔ ٥۔ انسان کو اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ ٦۔ ہر مسلمان کو نماز کی پابندی اور بالخصوص صبح و شام اپنے رب کا ذکر کرنا چاہیے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

56:۔ ” ولقد اتینا موسیٰ “ یہ دعوے سورت پر دلیل نقلی ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے۔ یعنی ہم نے موسیٰ کو تورات میں یہی پیغام ہدایت دیا تھا اور بنی اسرائیل کے لیے اس کو دستور بنایا تھا کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ بنانا۔ جیسا کہ سورة بنی اسرائیل رکوع 1 میں ارشاد فرمایا۔ ” واتینا موسیٰ الکتب وجعلنہ ھدی لبنی اسرائیل ان لا تتخذوا من دونی وکیلا۔ اور پھر بنی اسرائیل کو اس کتاب (تورات) کا وارث بنایا جو اس پیغام ہدایت (توحید) پر مشتمل اور اہل دانش اور ارباب بصیرت کے لیے سراپا بند و نصیحت تھی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(53) اور بلا شبہ ہم نے موسیٰ کو ہدایت عنی راہ کی سوجھ عنایت کی اور بنی اسرائیل کو ایک ایسی کتاب کا وارث بنایا۔