Surat ul Momin
Surah: 40
Verse: 54
سورة مومن
ہُدًی وَّ ذِکۡرٰی لِاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۵۴﴾
As guidance and a reminder for those of understanding.
کہ وہ ہدایت و نصیحت تھی عقل مندوں کے لئے ۔
ہُدًی وَّ ذِکۡرٰی لِاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۵۴﴾
As guidance and a reminder for those of understanding.
کہ وہ ہدایت و نصیحت تھی عقل مندوں کے لئے ۔
A guide and a reminder for men of understanding. i.e. those of a sound and upright nature. Then Allah says,
54۔ 1 آسمانی کتابوں کا فائدہ وہی اٹھاتے ہیں ہدایت و نصیحت حاصل کرتے ہیں جو عقل سلیم کے مالک ہیں دوسرے لوگ تو گدھوں کی طرح ہیں جن پر کتابوں کا بوجھ تو لدا ہوتا ہے لیکن وہ اس سے بیخبر ہوتے ہیں کہ ان کتابوں میں کیا ہے ؟
(١) ھدی وذکری :” ھدی “ اور ” ذکری “ دونوں مصدر بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہیں، یعنی ایسی ہدایت دینے والی اور نصیحت کرنے والی کہ اس کا وجود ہی سرا سر ہدایت اور نصیحت تھا۔ ” ذکری “ کا معنی نصیحت بھی ہے۔ یاد دہانی بھی، یعنی وہ کتاب انہیں پیش آنے والے معاملات میں رہنمائی بھی کرتی تھی اور بھولی ہوئی چیزیں مثلاً موت ، قبر، آخرت اور نجت و جہنم وغیرہ یاد دلا کر نصیحت بھی کرتی تھی۔ دوسری جگہ تورات کے متعلق فرمایا :(انا انزلنا الثورۃ فیھا ھدی ونور یحکم بھا النبیون الذین اسلموا للذین ھادوا والربینون و الاحبار بما استحفظوا من کتب اللہ و کالوا علیہ شھدآء ) (المائدۃ : ٣٣) ” بیشک ہم نے تورات اتاری جس میں ہدایت اور روشنی تھی، اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے انبیاء جو فرماں بردار تھے، ان لوگوں کے لئے جو یہودی بنے اور رب والے اور علماء اس لئے کہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ بنائیگئے تھے اور وہ اس پر گواہ تھے۔ “ (٢) لاولی الالباب :” الالباب “ ” لب “ کی جمع ہے، عقل۔ یعنی اس کتاب سے ہدایت اور نصیحت صرف عقلوں والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ہر جگہ ” الالباب “ کا لفظ جمع ہی آیا ہے۔ یعنی اللہ کی کتاب میں ان لوگوں کے لئے ہدایت اور نصیحت نہیں جو عقل نہیں رکھتے، یا جو صرف دنیا کے ظاہری معاملات کی عقل رکھتے ہیں، جیسا کہ کفار کے متعلق فرمایا :(ولکن اکثر الناس لایعلمون یعلمون ظاھراً من الحیوۃ الدنیا ، وھم عن الاخرۃ ھم غفلون) (الروم : ٨٦)” اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ وہ دنیا کی زندگی کے کچھ ظاہر کو جانتے ہیں اور وہ آخرت کی بھی۔ میں نے ہر جگہ قرآن کے الفاظ کے مطابق ” اولوا الالباب “ کا ترجمہ ” عقلوں والے “ کیا ہے، جب کہ عام طور پر اس کا ترجمہ ” عقلو الے “ کیا جاتا ہے۔ یقینا قرآن مجید کے الفاظ پر غور کرنے سے عجیب اسرار کھلتے ہیں۔
ہُدًى وَّذِكْرٰى لِاُولِي الْاَلْبَابِ ٥٤ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ آتینا وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] . [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ لب اللُّبُّ : العقل الخالص من الشّوائب، وسمّي بذلک لکونه خالص ما في الإنسان من معانيه، كَاللُّبَابِ واللُّبِّ من الشیء، وقیل : هو ما زكى من العقل، فكلّ لبّ عقل ولیس کلّ عقل لبّا . ولهذا علّق اللہ تعالیٰ الأحكام التي لا يدركها إلّا العقول الزّكيّة بأولي الْأَلْبَابِ نحو قوله : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة/ 269] ( ل ب ب ) اللب کے معنی عقل خالص کے ہیں جو آمیزش ( یعنی ظن دوہم اور جذبات ) سے پاک ہو اور عقل کو لب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ انسان کے معنوی قوی کا خلاصہ ہوتی ہے جیسا کہ کسی چیز کے خالص حصے کو اس کا لب اور لباب کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لب کے معنی پاکیزہ اور ستھری عقل کے ہیں چناچہ ہر لب کو عقل کہہ سکتے ہیں لیکن ۔ ہر عقل لب ، ، نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام احکام کو جن کا ادراک عقول زکیہ ہی کرسکتی ہیں اولو الباب کے ساتھ مختض کیا ہے جیسے فرمایا : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة/ 269] اور جس کو دانائی ملی بیشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لو گ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت سی آیات ہیں ؛
آیت ٥٤ { ہُدًی وَّذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ } ” جو ہدایت اور یاد دہانی تھی ہوشمندوں کے لیے ۔ “
70 That is "Just as those who disbelieved Moses were deprived of this blessing and the Israelites who believed in bite were made heirs to the Book, so will also those who deny you be deprived and only those who blieve in you will have the good fortune to inherit the Qur'an and rise in the world as the standardbearers of guidance."
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :70 یعنی جس طرح موسیٰ کا انکار کرنے والے اس نعمت و برکت سے محروم رہ گئے اور ان پر ایمان لانے والے بنی اسرائیل ہی کتاب کے وارث بنائے گئے ، اسی طرح اب جو لوگ تمہارا انکار کریں گے وہ محروم ہو جائیں گے اور تم پر ایمان لانے والوں ہی کو یہ سعادت نصیب ہو گی کہ قرآن کے وارث ہوں اور دنیا میں ہدایت کے علمبردار بن کر اٹھیں ۔
(40:54) ھدی۔ اور الھدی ہم معنی ہیں۔ ہدایت یا ہدایت کرنا۔ ذکری ذکر کرنا نصیحت کرنا۔ پندو نصیحت ، موعظت، ذکر یذکر (باب نصر کا مصدر ہے۔ ھدی اور ذکری بوجہ مفعول لہ یا بوجہ حال منصوب ہیں۔ لاولی الالباب : لام ملک (مالک ہونا) کے لئے ہے۔ اولی الالباب مضاف مضاف الیہ۔ صاحب عقل۔ عقل والے۔ لاولی الالباب عقل والوں کے لئے۔ عقلمند لوگوں کے لئے۔
(54) جو اہل عقل وخرد کے لئے موجب ہدایت و نصیحت تھی۔ اس میں تسلی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہ جس طرح آپ کو قرآن عنایت کیا ہے حضرت موسیٰ کو توریت عطا فرمائی تھی پھر جس طرح انہوں نے فرعون کے مظالم کا صبر اور خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا اسی طرح آپ بھی کفار کے مقابلہ کیا اسی طرح آپ بھی کفار کے مقابلہ کا تحمل اور صبر سے مقابلہ کیجئے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔