71 "Be patient"; "Bear up with a cool mind against these hardships through which you are passing."
72 The allusion is to the promise made above in the sentence: "We do help Our Messengers and the Believers in the life of this world."
73 A study of the context shows that here "error" implies the state of impatience that was being caused to the Holy Prophet on account of the severe antagonism, especially the persecution of his followers. He earnestly desired that either some miracle should be shown, which should convince the disbelievers, or something else should soon come down from Allah, which should quell the storm of opposition. Though this desire in itself was not a sin, which should have called for repentance, the high rank with which Allah had blessed the Holy Prophet demanded great grit and will power; so the little impatience shown by him was regarded as inconsistent with his high rank. Therefore, he was required to ask Allah's forgiveness for showing the weakness and was told to stand his ground like a rock as a man of a high rank like him should.
74 That is, `Glorification of Allah with His praises is the only means by which those who work for the sake of Allah can get the strength to resist and overcome the hardships faced in the way of Allah. ° Glorifying the Lord morning and evening can have two meanings: (1) `Remembering Allah constantly and perpetually:" and 12) `performing the Prayers at the specific times." And in this second case, the allusion is to the five times of the Prayers, which were enjoined on all the believers as a duty some time after the revelation of this Surah. For the word 'ashiyy in Arabic is used for the time from the declining of the sun till the early part of nigh, which covers the times of the four Prayers from Zuhr to 'Isha': and ibkar is the time from dawn to the rising of the sun, which is the time of the Fajar Prayer. (For further details, see AI-Baqarah: 3, 43, 45, 238; Hud: 114; AI-Hijr: 98-99; Introduction to Bani Isra'il and vv. 78-79; Ta Ha: 130; AnNur: 56-58; AI-'Ankabut: 45; Ar-Rum: 17-18, 31 and the E.N.'s thereof).
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :71
یعنی جو حالات تمہارے ساتھ پیش آ رہے ہیں ان کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرتے چلے جاؤ ۔
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :72
اشارہ ہے اس وعدے کی طرف جو ابھی ابھی اوپر کے اس فقرے میں کیا گیا تھا کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد سے اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں ۔
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :73
جس سیاق و سباق میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر قصور سے مراد بے صبری کی وہ کیفیت ہے جو شدید مخالفت کے اس ماحول میں خصوصیت کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی مظلومی دیکھ دیکھ کر ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر پیدا ہو رہی تھی ۔ آپ چاہتے تھے کہ جلدی سے کوئی معجزہ ایسا دکھا دیا جائے جس سے کفار قائل ہو جائیں ، یا اللہ کی طرف سے اور کوئی ایسی بات جلدی ظہور میں آ جائے جس سے مخالفت کا یہ طوفان ٹھنڈا ہو جائے ۔ یہ خواہش بجائے خود کوئی گناہ نہ تھی جس پر کسی توبہ و استغفار کی حاجت ہوتی ، لیکن جس مقام بلند پر اللہ تعالیٰ نے حضور کو سرفراز فرمایا تھا اور جس زبردست اولوالعزمی کا وہ مقام مقتضی تھا ، اس کے لحاظ سے یہ ذرا سی بے صبری بھی اللہ تعالیٰ کو آپ کے مرتبے سے فرو تر نظر آئی ، اس لیے ارشاد ہوا کہ اس کمزوری پر اپنے رب سے معافی مانگو اور چٹان کی سی مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہو جاؤ جیسا کہ تم جیسے عظیم المرتبت آدمی کو ہونا چاہیے ۔
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :74
یعنی یہ حمد و تسبیح ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ کے لیے کام کرنے والوں کو اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے ۔ صبح و شام حمد و تسبیح کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ دائماً اللہ کو یاد کرتے رہو ۔ دوسرے یہ کہ ان مخصوص اوقات میں نماز ادا کرو ۔ اور یہ دوسرے معنی لینے کی صورت میں اشارہ نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف ہے جو اس سورت کے نزول کے کچھ مدت بعد تمام اہل ایمان پر فرض کر دیے گئے ۔ اس لیے کہ عَشِی کا لفظ عربی زبان میں زوال آفتاب سے لے کر رات کے ابتدائی حصے تک کے لیے بولا جاتا ہے جس میں ظہر سے عشاء تک کی چاروں نمازیں آ جاتی ہیں ۔ اور اِبکار صبح کی پو پھٹنے سے طلوع آفتاب تک کے وقت کو کہتے ہیں جو نماز فجر کا وقت ہے ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، البقرہ ، حواشی ۵ ۔ ۵۹ ۔ ٦۰ ۔ ۲٦۳ ، جلد دوم ، ہود ، حاشیہ ۱۱۳ ، الحجر حاشیہ ۵۳ ، بنی اسراءیل ، دیباچہ ، حواشی ۹۱ تا ۹۸ ، جلد سوم طہ حاشیہ ۱۱۱ ، النور ، حواشی ۸٤ تا۸۹ ، العنکبوت ، حواشی ۷٦ تا۷۹ ، الروم ، حواشی ۲٤تا ۵۰ )