Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 55

سورة مومن

فَاصۡبِرۡ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ اسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِکَ وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ بِالۡعَشِیِّ وَ الۡاِبۡکَارِ ﴿۵۵﴾

So be patient, [O Muhammad]. Indeed, the promise of Allah is truth. And ask forgiveness for your sin and exalt [ Allah ] with praise of your Lord in the evening and the morning.

پس اے نبی! تو صبر کر اللہ کا وعدہ بلا شک ( وشبہ ) سچا ہی ہے تو اپنے گناہ کی معافی مانگتا رہ اور صبح شام اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتا رہ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَاصْبِرْ ... So be patient, means, `O Muhammad,' ... إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ... Verily, the promise of Allah is true, means, `We have promised that your word will prevail and that the ultimate victory will be for you and those who follow you, and Allah does not break His promises. What We have told you is true and there is no doubt in it whatsoever.' ... وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ ... and ask forgiveness for your fault, This encourages the Ummah to seek forgiveness. ... وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ ... and glorify the praises of your Lord in the `Ashi, meaning, at the end of the day and the beginning of the night, ... وَالاْاِبْكَارِ and in the Ibkar. meaning, at the beginning of the day and the end of the night.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 گناہ سے مراد چھوٹی چھوٹی لغزشیں ہیں، جو بہ تقاضائے بشریت سرزد ہوجاتی ہیں، جن کی اصلاح بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کردی جاتی ہے۔ یا استغفار بھی ایک عبادت ہی ہے۔ اجر وثواب کی زیادتی کے لئے استغفار کا حکم دیا گیا ہے، یا مقصد امت کی رہنمائی ہے کہ وہ استغفار سے بےنیاز نہ ہوں۔ 55۔ 2 عشیی سے دن کا آخری اور رات کا ابتدائی حصہ اور ابکار سے رات کا آخری اور دن کا ابتدائی حصہ مراد ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧١] انبیاء کے گناہوں سے مراد معمو لی قسم کی اجتہادی لغزشیں ہیں :۔ انبیاء سے عمداً کسی گناہ کا سرزد ہو ناممکنات سے ہے۔ ان کے گناہ سے مراد ان کی چھوٹی چھوٹی اجتہادی لغزشیں ہی ہوسکتی ہیں جو بھول چوک کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہیں اور یہ بشریت کا خاصہ ہے۔ یہاں ان لغزشوں کا تعلق یقیناً صبر سے ہے۔ جیسے آپ کو کبھی کبھی یہ خیال آجاتا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کفار مکہ کے مطالبہ کے مطابق کوئی معجزہ عطا فرما دے تو اس سے اسلام کو کافی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ یا جب کفار آپ سے سمجھوتہ کی راہیں ہموار کرنا چاہتے تھے تو آپ کو ایسا خیال آنے لگا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے خیال سے بھی سختی سے روک دیا تھا۔ اس بنا پر یہاں آپ کو پہلے صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ [٧٢] آیت کے اس ٹکڑا میں اجمالاً پانچوں نمازوں کا ذکر آگیا ہے۔ ایک پہلے حصہ دن کی اور چار پچھلے حصہ دن کی۔ یہ دراصل ان پانچ نمازوں اور ان کے اوقات کا تمہیدی حکم تھا جو بعد میں فرض کی گئیں۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر مشکل پڑنے پر صبر اور نماز کا اکٹھا ذکر آیا ہے۔ کیونکہ اللہ کی یاد میں جس قدر طبیعت مصروف ہو اس قدر دوسری پریشانیاں خود بخود کم ہوجاتی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فاصبر ان وعد اللہ حق : موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون اور آل فرعون کی طرف سے جو ایذائیں پہنچیں، جن پر انہوں نے صبر کیا اور اس کے انعام کے طور پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی تائید و نصرت سے نوازا، اس کے ذدکر کے بعد اب ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطے سے امت کے ہر آدمی کو تلقین کی جا رہی ہے کہ وہ دعوت حق میں پیش آنے والی مشکلات اور کفار کی طرف سے ملنے والیا یذاؤں پر صبر کریں، یقینا اللہ تعالیٰ کا مدد کا وعدہ حق ہے، اس لئے بےصبری یا جلد بازی مت کریں، جیسا کہ فرمایا :(فاصبر کما صبر اولوا العزم من الرسل ولا تستغجل لھم) (الاحقاف : ٣٥) ” پس صبر کر جس طرح پختہ ارادے والے رسولوں نے صبر کیا اور ان کے لئے جلدی کا مطالبہ نہ کر۔ “ (٢) واستغفر لذنبک : اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور امت کے ہر فرد کو استغفار کا حکم ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرماتے تھے :(واللہ ! انی لاستغفر اللہ وتوب الیہ فی الیوم اکثر من سبعین مرۃ) (بخاری ، الدعوات، باب استغفار النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی الیوم واللیلۃ : 6308)” اللہ کی قسم ! میں ہر روز ستر (٧٠) سے زیادہ مرتبہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔ “ یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلے اور پچھلے گناہ معاف فرما دیئے تھے، جیسا کہ سورة فتح (٢) میں ہے، پھر استغفار کا حکم کیوں دیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سورة مومن مکی سورت ہے، جو اس بشارت سے پہلے کی ہے، اس لئے اس پر یہ سوال وارد ہی نہیں ہوتا، جب کہ سورة فتح ٦ ہجری میں اتری۔ البتہ سورة نصر میں مذکور آیت (٣) :(فسبح بحمد ربک واستغفرہ) پر یہ سوال وارد ہوتا ہے، کیونکہ یہ سورت فتح مکہ کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے قریب اتری۔ ام المومنین عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں (کان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یکثر ان یقول فی رکوعہ وسجودہ سبحانک اللھم ربنا وبحمدک اللھم اغفر لی یتاول القرآن) (بخاری، الاذان ، باب التسبیح والدعا، فی السجود :818)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رکوع اور سجود میں کثرت سے کہا کرتے تھے :” سبحانک اللھم ربنا وبحمدک اللھم اغفرلی “” اے اللہ ! ہمارے پروردگار ! تو (ہر عیب سے) پاک ہے اور اپنی تعریف کے ساتھ، اے اللہ ! مجھے بخش دے “ آپ قرآن کے حکم پر عمل کرتے تھے۔ “ جواب اس کا یہ ہے کہ ہر آدمی کا گناہ اس کے متر بےکو پیش نظر رکھ کر ہوتا ہے۔ سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معمولی سی غفلت کیلئے بھی استغفار ضروری سمجھتے تھے۔ اغرمزنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(انہ لیعان علی قلبی وانی لاستغفر اللہ فی الیوم مائۃ مرۃ) (مسلم ، الذکر والدعا، باب استحباب الاستغفار والاستکتار منہ :2802)” میرے دل پر ہلکا سا پردہ آجاتا ہے اور میں دن میں سو مرتبہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں۔ “ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ” حضرت رسول خدا (ﷺ) دن میں سو سو بار گناہ سے استغفار کرتے تھے۔ ہر بندے سے تقصیر ہوتی ہے، اس کے موافق پہر کسی کو استغفار ضروری ہے۔ “ (موضح) (٣) بعض حضرات کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے گناہوں سے استغفار کا حکم ہے، اس سے مراد امت کے گناہوں کے لئے استغفار ہے، مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ سورة محمد (ﷺ) میں یہ تاویل ممکن نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فاعلم انہ لا الہ الا اللہ واستغفر لذنبک و للمومنین و المومنت واللہ یعلم متقلبکم و مثولکم) (محمد : ١٩) ” پس جان لے کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہ کی معافی مانگ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی اور اللہ تعالیٰ تمہارے چلنے پھرنے اور تمہارے ٹھہرنے کو جانتا ہے۔ “ (٤) وسبح بحمد ربک بالعشی والابکار : اللہ تعالیٰ کی مدد کے وعدے کا حق دار بننے کے لئے صبر اور استغفار کے ساتھ ساتھ صبح و شام رب تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرتے رہنے کا حکم دیا۔ اس میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا بھی شامل ہے اور نماز بھی، کیونکہ صبر اور نماز ہی اللہ تعالیٰ سے استعانت کا ذریعہ ہیں، جیسا کہ فرمایا :(واستعینوا بالصبر والصلوۃ) (البقرہ : ٧٥) ” اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو۔ “ تسبیح و تحمید سے مراد نماز ہونے کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة طہ (١٣٠) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَّاسْتَـغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَارِ۝ ٥٥ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ استغفار الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، والاسْتِغْفَارُ : طلب ذلک بالمقال والفعال، وقوله : اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كانَ غَفَّاراً [ نوح/ 10] اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ بڑا معاف کر نیوالا ہے ۔ ذنب والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] ، الذنب ( ض ) کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔ سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔ عشا العَشِيُّ من زوال الشمس إلى الصّباح . قال تعالی: إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها[ النازعات/ 46] ، والعِشَاءُ : من صلاة المغرب إلى العتمة، والعِشَاءَانِ : المغرب والعتمة «1» ، والعَشَا : ظلمةٌ تعترض في العین، ( ع ش ی ) العشی زوال آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک کا وقت قرآن میں ہے : ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْضُحاها[ النازعات 46] گویا ( دنیا میں صرف ایک شام یا صبح رہے تھے ۔ العشاء ( ممدود ) مغرب سے عشا کے وقت تک اور مغرب اور عشا کی نمازوں کو العشاء ن کہا جاتا ہے اور العشا ( توندی تاریکی جو آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے رجل اعثی جسے رتوندی کی بیمار ی ہو اس کی مؤنث عشراء آتی ہے ۔ بكر أصل الکلمة هي البُكْرَة التي هي أوّل النهار، فاشتق من لفظه لفظ الفعل، فقیل : بَكَرَ فلان بُكُورا : إذا خرج بُكْرَةً ، والبَكُور : المبالغ في البکرة، وبَكَّر في حاجته وابْتَكَر وبَاكَرَ مُبَاكَرَةً. وتصوّر منها معنی التعجیل لتقدمها علی سائر أوقات النهار، فقیل لكلّ متعجل في أمر : بِكْر، قال الشاعر بكرت تلومک بعد وهن في النّدى ... بسل عليك ملامتي وعتاب وسمّي أول الولد بکرا، وکذلك أبواه في ولادته [إيّاه تعظیما له، نحو : بيت الله، وقیل : أشار إلى ثوابه وما أعدّ لصالحي عباده ممّا لا يلحقه الفناء، وهو المشار إليه بقوله تعالی: وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت/ 64] ، قال الشاعر يا بکر بكرين ويا خلب الکبد «4» فبکر في قوله تعالی: لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] . هي التي لم تلد، وسمّيت التي لم تفتضّ بکرا اعتبارا بالثيّب، لتقدّمها عليها فيما يراد له النساء، وجمع البکر أبكار . قال تعالی:إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة/ 35- 36] . والبَكَرَة : المحالة الصغیرة، لتصوّر السرعة فيها . ( ب ک ر ) اس باب میں اصل کلمہ بکرۃ ہے جس کے معنی دن کے ابتدائی حصہ کے ہیں پھر اس سے صیغہ فعل مشتق کرکے کہا جاتا ہے ۔ بکر ( ن ) فلان بکورا کسی کام کو صبح سویرے نکلنا ۔ البکور ( صیغہ مبالغہ ) بہت سویرے جانے والا ۔ بکر ۔ صبح سورے کسی کام کے لئے جانا اور بکرۃ دن کا پہلا حصہ ) چونکہ دن کے باقی حصہ پر متقدم ہوتا ہے اس لئے اس سے شتابی کے معنی لے کر ہر اس شخص کے معلق بکدرس ) فعل استعمال ہوتا ہے جو کسی معاملہ میں جلد بازی سے کام نے شاعر نے کہا ہے وہ کچھ عرصہ کے بعد جلدی سے سخاوت پر ملامت کرنے لگی میں نے کہا کہ تم پر مجھے ملامت اور عتاب کرنا حرام ہے ۔ بکر پہلا بچہ اور جب ماں باپ کے پہلا بچہ پیدا ہو تو احتراما انہیں بکر ان کہا جاتا ہے جیسا کہ بیت اللہ بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ثواب الہی اور ان غیر فانی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے تیار کی ہیں جس کی طرف آیت کریمہ : ۔ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ ] «3» [ العنکبوت/ 64] اور ( ہمیشہ کی زندگی ( کا مقام تو آخرت کا گھر ہے میں اشارہ فرمایا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( رجز ) ( 23 ) اے والدین کے اکلوتے بیٹے اور جگر گوشے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ لا فارِضٌ وَلا بِكْرٌ [ البقرة/ 68] نہ تو بوڑھا ہو اور نہ بچھڑا ۔ میں بکر سے نوجوان گائے مراد ہے جس نے ابھی تک کوئی بچہ نہ دیا ہو ۔ اور ثیب کے اعتبار سے دو شیزہ کو بھی بکر کہا جاتا ہے کیونکہ اسے مجامعت کے لئے ثیب پر ترجیح دی جاتی ہے بکر کی جمع ابکار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْشَأْناهُنَّ إِنْشاءً فَجَعَلْناهُنَّ أَبْکاراً [ الواقعة/ 35- 36] ہم نے ان ( حوروں ) کو پیدا کیا تو ان کو کنوار یاں بنایا ۔ البکرۃ چھوٹی سی چرخی ۔ کیونکہ وہ تیزی کے ساتھ گھومتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو اے نبی کریم آپ یہود و نصاری اور مشرکین کی تکالیف پر صبر کیجیے اور اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی مدد فرمانے اور دشمن کے ہلاک کرنے کا وعدہ فرمایا ہے وہ ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر اور آپ کے صحابہ کرام پر جو انعامات کیے ان کا شکر کی ادا کرنے میں جو کوتاہی ہوگئی ہو اس کی معافی مانگیے اور اپنے پروردگار کے حکم سے صبح و شام نماز پڑھیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ { فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ} ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ صبر کیجیے ! یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے “ { وَّاسْتَغْفِرْ لِذَنبِْکَ } ” اور اپنے قصور کی معافی چاہیں “ اگر آپ خیال کرتے ہیں کہ کسی درجے میں بھی آپ سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اللہ سے استغفار کیجیے۔ یہاں پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے لفظ ” ذنب “ کے مفہوم اور اس کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی روحانی کیفیات اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ مستقل استحضار کا مخصوص انداز اور معیار ہے۔ اگر استحضار کے اس مخصوص معیار میں کسی لمحے کوئی کمی آجائے تو اپنے احساس کی شدت کی وجہ سے انہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہے۔ یہ گویا ” حَسَنَاتُ الابرَارِ سِیِّـــٔاتُ المُقرَّبین “ والا معاملہ ہے۔ یعنی مقربین ِبارگاہ کا مقام اتنا بلند ہے کہ عام آدمی کے معیار کی نیکی ان کے معاملے میں شاید کوتاہی شمار ہوجائے۔ { وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِبْکَارِ } ” اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیجیے شام کو بھی اور صبح کو بھی۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

71 "Be patient"; "Bear up with a cool mind against these hardships through which you are passing." 72 The allusion is to the promise made above in the sentence: "We do help Our Messengers and the Believers in the life of this world." 73 A study of the context shows that here "error" implies the state of impatience that was being caused to the Holy Prophet on account of the severe antagonism, especially the persecution of his followers. He earnestly desired that either some miracle should be shown, which should convince the disbelievers, or something else should soon come down from Allah, which should quell the storm of opposition. Though this desire in itself was not a sin, which should have called for repentance, the high rank with which Allah had blessed the Holy Prophet demanded great grit and will power; so the little impatience shown by him was regarded as inconsistent with his high rank. Therefore, he was required to ask Allah's forgiveness for showing the weakness and was told to stand his ground like a rock as a man of a high rank like him should. 74 That is, `Glorification of Allah with His praises is the only means by which those who work for the sake of Allah can get the strength to resist and overcome the hardships faced in the way of Allah. ° Glorifying the Lord morning and evening can have two meanings: (1) `Remembering Allah constantly and perpetually:" and 12) `performing the Prayers at the specific times." And in this second case, the allusion is to the five times of the Prayers, which were enjoined on all the believers as a duty some time after the revelation of this Surah. For the word 'ashiyy in Arabic is used for the time from the declining of the sun till the early part of nigh, which covers the times of the four Prayers from Zuhr to 'Isha': and ibkar is the time from dawn to the rising of the sun, which is the time of the Fajar Prayer. (For further details, see AI-Baqarah: 3, 43, 45, 238; Hud: 114; AI-Hijr: 98-99; Introduction to Bani Isra'il and vv. 78-79; Ta Ha: 130; AnNur: 56-58; AI-'Ankabut: 45; Ar-Rum: 17-18, 31 and the E.N.'s thereof).

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :71 یعنی جو حالات تمہارے ساتھ پیش آ رہے ہیں ان کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرتے چلے جاؤ ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :72 اشارہ ہے اس وعدے کی طرف جو ابھی ابھی اوپر کے اس فقرے میں کیا گیا تھا کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد سے اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :73 جس سیاق و سباق میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر قصور سے مراد بے صبری کی وہ کیفیت ہے جو شدید مخالفت کے اس ماحول میں خصوصیت کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی مظلومی دیکھ دیکھ کر ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر پیدا ہو رہی تھی ۔ آپ چاہتے تھے کہ جلدی سے کوئی معجزہ ایسا دکھا دیا جائے جس سے کفار قائل ہو جائیں ، یا اللہ کی طرف سے اور کوئی ایسی بات جلدی ظہور میں آ جائے جس سے مخالفت کا یہ طوفان ٹھنڈا ہو جائے ۔ یہ خواہش بجائے خود کوئی گناہ نہ تھی جس پر کسی توبہ و استغفار کی حاجت ہوتی ، لیکن جس مقام بلند پر اللہ تعالیٰ نے حضور کو سرفراز فرمایا تھا اور جس زبردست اولوالعزمی کا وہ مقام مقتضی تھا ، اس کے لحاظ سے یہ ذرا سی بے صبری بھی اللہ تعالیٰ کو آپ کے مرتبے سے فرو تر نظر آئی ، اس لیے ارشاد ہوا کہ اس کمزوری پر اپنے رب سے معافی مانگو اور چٹان کی سی مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہو جاؤ جیسا کہ تم جیسے عظیم المرتبت آدمی کو ہونا چاہیے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :74 یعنی یہ حمد و تسبیح ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ کے لیے کام کرنے والوں کو اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے ۔ صبح و شام حمد و تسبیح کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ دائماً اللہ کو یاد کرتے رہو ۔ دوسرے یہ کہ ان مخصوص اوقات میں نماز ادا کرو ۔ اور یہ دوسرے معنی لینے کی صورت میں اشارہ نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف ہے جو اس سورت کے نزول کے کچھ مدت بعد تمام اہل ایمان پر فرض کر دیے گئے ۔ اس لیے کہ عَشِی کا لفظ عربی زبان میں زوال آفتاب سے لے کر رات کے ابتدائی حصے تک کے لیے بولا جاتا ہے جس میں ظہر سے عشاء تک کی چاروں نمازیں آ جاتی ہیں ۔ اور اِبکار صبح کی پو پھٹنے سے طلوع آفتاب تک کے وقت کو کہتے ہیں جو نماز فجر کا وقت ہے ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، البقرہ ، حواشی ۵ ۔ ۵۹ ۔ ٦۰ ۔ ۲٦۳ ، جلد دوم ، ہود ، حاشیہ ۱۱۳ ، الحجر حاشیہ ۵۳ ، بنی اسراءیل ، دیباچہ ، حواشی ۹۱ تا ۹۸ ، جلد سوم طہ حاشیہ ۱۱۱ ، النور ، حواشی ۸٤ تا۸۹ ، العنکبوت ، حواشی ۷٦ تا۷۹ ، الروم ، حواشی ۲٤تا ۵۰ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے گناہوں سے پاک بنایا ہے، اس کے باوجود آپ کثرت سے استغفار فرمایا کرتے تھے، اور قرآن کریم میں بھی آپ کو اس کی تاکید فرمائی گئی ہے ؛ تاکہ آپ کی امت یہ سبق لے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معصوم ہونے کے باوجود اتنی کثرت سے اپنے ایسے کاموں کی معافی مانگتے ہیں جو درحقیقت گناہ نہیں ہیں، لیکن آپ ان کو اپنے مقام بلند کی وجہ سے قصور یا گناہ سمجھتے ہیں تو جو لوگ معصوم نہیں ہیں، ان کوتو اور زیادہ استغفار کرنا چاہئیے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:55) فاصبر : ای فاصبع یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں فاء ترتیب کا ہے۔ م ترتیب علی قولہ تعالیٰ : انا لننصر رسلنا وقولہ تعالیٰ واتینا ۔۔ الخ۔ ان وعد اللّٰہ حق۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو آپ سے نصرت کا وعدہ کیا ہے وہ ضرور پورا ہوگا۔ اس ثبوت کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا واقعہ بیان فرمایا۔ واستغفر لذنبک۔ اور معافی مانگتے رہئے اپنی کوتاہی کی۔ انبیاء جو گناہ سے معصوم و محفوظ ہوتے ہیں۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں :۔ ھذا اتعبد للنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالدعاء والفائدۃ زیادۃ الدرجات وان یصبر الدعا سنۃ لمن بعدہ : یعنی یہ محض ارشاد الٰہی ہے تاکہ حضور دعا مانگا کریں اور اس میں حکمت یہ ہے کہ استغفار سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درجات بلند سے بلند تر ہوتے جائیں گے۔ اور بعض کے نزدیک لذنبک سے مراد لذنب امتک ہے اپنی امت کے گناہوں کی مغفرت کی دعا کرتے رہا کریں۔ بالعشی والابکار : شام کے وقت اور صبح کے وقت۔ حضرت حسن (رح) نے کہا ہے کہ اس سے مراد عصر اور فجر کی نمازیں ہیں : حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک پانچوں نمازیں مراد ہیں۔ اس سے مراد ہمیشگی بھی ہوسکتی ہے یعنی مداومت سے اپنے رب کی تسبیح و تحمید کیا کریں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 قصور سے مراد امت کے قصور ہیں یا وہ چھوٹی چھوٹی لغزشیں ہیں جو بتقاضائے بشریت انبیاء ( علیہ السلام) سے سر زد ہوجاتی ہیں جیسے رائے اور اجتہاد کی غلطی یا شدید مخالفت کی فضاء میں کچھ نہ کچھ بےصبری کی کیفیت اور پھر انبیاء ( علیہ السلام) کو استغفار کا حکم اس لئے ہے کہ ان کے درجات زیادہ سے زیادہ بلند ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبادت میں مشقت اٹھاتے حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پائوں ورم آلود ہوجاتے اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جاتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ( افلا اکون عبدا شکورا) کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ ( قرطبی وغیرہ) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دن میں سو سو بار استغفار کرتے گناہ سے ہر بندے سے قصور ہے، اس کے موافق ہر کسی کو استغفار ہے۔ ( موضح) عصمت انبیاء ( علیہ السلام) کے بارے میں حافظ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گناہ پر قائم رہنے سے بچایا ہے اور یہی قول ہے موافق ان آثار کے جو سلف (رح) سے منقول ہیں۔ ( تفسیر الایۃ الکریمہ)5 یعنی ہر آن اللہ تعالٰ کی تسبیح وبحمدہ کرتے رہے یا صبح و شام کے اوقات میں نماز پڑھئے مگر یہ حکم اس وقت تھا جب پنج وقتہ نماز فرض نہیں ہوئی تھی۔ پھر جب معراج کے موقع پر نماز پنجگانہ فرض ہوگئی تو ان کے اوقات کا بھی باقاعدہ تعین کردیا گیا۔ ( شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی اگر احیانا کمال صبر میں کچھ کمی ہوگئی ہو جو حسب قواعد شرعیہ واقع میں تو گناہ نہیں۔ مگر آپ کے ربتہ عالی کے اعتبار سے وجوب تدارک میں مثل گناہ ہی کے ہے، اس کا تدارک کیجئے۔ 8۔ یعنی ایسے شغل میں رہئے کہ امور موجبہ حزن کی طرف التفات ہی نہ ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

صبر کرنے اور استغفار کرنے اور تسبیح وتحمید میں مشغول رہنے کا حکم ان آیات میں اول تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم بنی اسرائیل کا تذکرہ فرمایا ارشاد فرمایا کہ ہم نے موسیٰ کو ہدایت دی اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا۔ (یہ کتاب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہی کے واسطہ سے انہیں ملی تھی جو سراپا ہدایت تھی) یہ کتاب ہدایت تھی اور عقل والوں کے لیے نصیحت بھی تھی انہوں نے (قدر دانی نہ کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی ایذائیں پہنچائیں اور توریت شریف پر بھی عمل نہ کیا) جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے صبر کیا آپ بھی صبر کیجیے اور اپنے گناہ کے لیے بھی استغفار کیجیے اگر صبر میں کمی آجائے تو اس کی استغفار کے ذریعہ تلافی کردیجیے کیونکہ صبر کی کمی آپ کے شان عالی کے لائق نہیں ہے اس لیے مجازاً اس کو گناہ سے تعبیر فرمایا اور استغفار سے اس کے تدارک کا حکم دیا اور صبح شام یعنی ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل میں لگے رہیے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

57:۔ ” فاصبر “ یہ دوسری بار تسلی کا ذکر ہے۔ دعوت توحید کے سلسلے میں مشرکین کی طرف سے آپ کو تکلیفیں اور اذیتیں پہنچیں گی۔ آپ صبر و تحمل سے ان کو برداشت کریں، اللہ کا وعدہ برحق ہے وہ ضرور آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو مشرکین پر غالب فرمائے گا۔ لیکن یہ وعدہ اپنے وقت معین پر پورا ہوگا جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم نے اسی پیغام توحید کی خاطر فرعون کے ہاتھوں مصیبتیں اٹھائیں۔ آخر اللہ نے ان کو غالب و منصور فرمایا اور فرعون اور اس کی قوم کو ان کی آنکھوں کے سامنے ذلیل ورسوا کر کے ہلاک کیا۔ آپ ان مصائب کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اللہ کا پیغام پہنچاتے رہیں اور صبح شام شرک سے اللہ کی تنزیہ و تقدیس اور اس کی حمد و ثنا میں مصروف رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک سے پاک ہے اور سب کچھ کرنے والا وہی ہے۔ اس سلسلے میں اگر آپ سے کوئی ایسی لغزش صادر ہوجائے جو اگرچہ فی نفسہ گناہ نہ ہو، لیکن آپ کی شان رفیع کے شایان بھی نہ ہو تو اس کے لیے اللہ سے بخشش کی دعا مانگیں اور اس کی تلافی کی کوشش فرمائی (واستغفر لذنبک) اقبل علی امر الدین وتلاف ما ربما یفرط مما یعد بالنسبۃ الیک ذنبا وان لم یکنہ (روح ج 24 ص 77) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(55) تو اے پیغمبر آپ صبر کرتے رہیے۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق ہے اور اپنے گناہ کی بخشش طلب کیجئے اور اپنے پروردگار کی حمدوثناء کے ساتھ صبح اور شام پاکی بیان کیا کیجئے۔ یعنی کفار کے مظالم پر صبر کرتے رہیے اللہ تعالیٰ کے وعدے پر یقین رکھیے کیونکہ اس کا وعدہ سچا ہے اور اگر صبر کرنے میں کچھ کوتاہی ہوجائے تو وہ آپ کی شان ومرتبے کے اعتبار سے آپ کے حق میں گناہ ہے۔ اس لئے اس کوتاہی پر معاف طلب کیا کیجئے اور صبح شام اپنے پروردگار کی تسبیح وتحمید کیا کیجئے یعنی دائمی طور پر۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دن میں سو سو بار استغفار کرتے گناہ سے پر بندے سے قصور ہے اس کے موافق ہر کسی کی ضرور ہے استغفار۔