Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 60

سورة مومن

وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِیۡ سَیَدۡخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیۡنَ ﴿٪۶۰﴾  11

And your Lord says, "Call upon Me; I will respond to you." Indeed, those who disdain My worship will enter Hell [rendered] contemptible.

اور تمہارے رب کا فرمان ( سرزد ہو چکا ) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to call upon Allah By His grace and kindness, وَقَالَ رَبُّكُمُ ... And your Lord said: Allah encourages His servants to call upon Him, and He guarantees to respond. Sufyan Ath-Thawri used to say: "O You Who love most those who ask of You, and O You Who hate most those who do not ask of You, and there is no one like that apart from You, O Lord." This was recorded by Ibn Abi Hatim. Similarly; the poet said: "Allah hates not to be asked, and the son of Adam hates to be asked." Qatadah said that Ka`b Al-Ahbar said, "This Ummah has been given three things which were not given to any nation before, only to Prophets. When Allah sent a Prophet, He said to him, `You are a witness over your nation.' But you have been made witnesses over mankind; it was said to the Prophets individually, `Allah has not laid upon you any hardship in religion,' but He said to this entire Ummah: وَمَا جَعَلَ عَلَيْكمْ فِى الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ (and (Allah) has not laid upon you in religion any hardship), (22:78) and it was said to the Prophets individually; `Call upon Me, I will answer you,' but it was said to this Ummah, ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُم (Call upon Me, I will answer you)." This was recorded by Ibn Abi Hatim. Imam Ahmad recorded that Al-Nu`man bin Bashir, may Allah be pleased with him, said, "The Messenger of Allah said: إِنَّ الدُّعَاءَ هُوَ الْعِبَادَة Indeed the supplication is the worship." Then he recited, وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ And your Lord said: "Call upon Me, I will answer you. Verily, those who scorn My worship they will surely enter Hell in humiliation!". This was also recorded by the Sunan compilers; At-Tirmdhi, An-Nasa'i, Ibn Majah, and Ibn Abi Hatim and Ibn Jarir. At-Tirmidhi said, "Hasan Sahih." It was also recorded by Abu Dawud, At-Tirmidhi, An-Nasa'i, and Ibn Jarir with a different chain of narration. Allah's saying: ... إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي ... Verily, those who scorn My worship, means, `those who are too proud to call on Me and single Me out,' ... سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ they will surely enter Hell in humiliation! means, in disgrace and insignificance. Imam Ahmad recorded from `Amr bin Shu`ayb from his father, from his grandfather that the Prophet said: يُحْشَرُ الْمُتَكَبِّرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمْثَالَ الذَّرِّ فِي صُوَرِ النَّاسِ يَعْلُوهُمْ كُلُّ شَيْءٍ مِنَ الصَّغَارِ حَتْى يَدْخُلُوا سِجْنًا فِي جَهَنَّمَ يُقَالُ لَهُ بُولَسُ تَعْلُوهُمْ نَارُ الاْنْيَارِ يُسْقَوْنَ مِنْ طِينَةِ الْخَبَالِ عُصَارَةِ أَهْلِ النَّار The proud will be gathered on the Day of Resurrection like ants in the image of people, and everything will be stepping on them, humiliating them, until they enter a prison in Hell called Bulas. They will be fed flames of fire, and given for drink a paste of insanity dripping from the people the Fire."

دعا کی ہدایت اور قبولیت کا وعدہ ۔ اللہ تعالیٰ تبارک و تعالیٰ کے اس احسان پر قربان جائیں کہ وہ ہمیں دعا کی ہدایت کرتا ہے اور قبولیت کا وعدہ فرماتا ہے ۔ امام سفیان ثوری اپنی دعاؤں میں فرمایا کرتے تھے اے وہ اللہ جسے وہ بندہ بہت ہی پیارا لگتا ہے جو بکثرت اس سے دعائیں کیا کرے ۔ اور وہ بندہ اسے سخت برا معلوم ہوتا ہے جو اس سے دعا نہ کرے ۔ اے میرے رب یہ صفت تو صرف تیری ہی ہے ۔ شاعر کہتا ہے اللہ یغضب ان ترکت سوالہ وبنی ادم حین یسال یغضب یعنی اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ جب تو اس سے نہ مانگے تو وہ ناخوش ہوتا ہے اور انسان کی یہ حالت ہے کہ اس سے مانگو تو وہ روٹھ جاتا ہے ۔ حضرت کعب احبار فرماتے ہیں اس امت کو تین چیزیں ایسی دی گئی ہیں کہ ان سے پہلے کی کسی امت کو نہیں دی گئیں بجز نبی کے ۔ دیکھو ہر نبی کو اللہ کا فرمان یہ ہوا ہے کہ تو اپنی امت پر گواہ ہے ۔ لیکن تمام لوگوں پر گواہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کیا ہے ۔ اگلے نبیوں سے کہا جاتا تھا کہ تجھ پر دین میں حرج نہیں ۔ لیکن اس امت سے فرمایا گیا کہ تمہارے دین میں تم پر کوئی حرج نہیں ہر نبی سے کہا جاتا تھا کہ مجھے پکار میں تیری پکار قبول کروں گا لیکن اس امت کو فرمایا گیا کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری پکار قبول فرماؤں گا ۔ ( ابن ابی حاتم ) ابو یعلی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا چار خصلتیں ہیں جن میں سے ایک میرے لئے ہے ایک تیرے لئے ایک تیرے اور میرے درمیان اور ایک تیرے درمیان اور میرے دوسرے بندوں کے درمیان ۔ جو خاص میرے لئے ہے وہ تو یہ کہ صرف میری ہی عبادت کر اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر ۔ اور جو تیرا حق مجھ پر ہے وہ یہ کہ تیرے ہر عمل خیر کا بھرپور بدلہ میں تجھے دوں گا ۔ اور جو تیرے میرے درمیان ہے وہ یہ کہ تو دعا کر اور میں قبول کیا کروں ۔ اور چوتھی خصلت جو تیرے اور میرے اور دوسرے بندوں کے درمیان ہے وہ یہ کہ تو ان کیلئے وہ چاہ جو اپنے لئے پسند رکھتا ہے ۔ مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دعا عین عبادت ہے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی یہ حدیث سنن میں بھی ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔ ابن حبان اور حاکم بھی اسے اپنی صحیح میں لائے ہیں ۔ مسند میں ہے جو شخص اللہ سے دعا نہیں کرتا اللہ اس پر غضب ناک ہوتا ہے ۔ حضرت محمد بن مسلمہ انصاری کی موت کے بعد ان کی تلوار کے درمیان میں سے ایک پرچہ نکلا جس میں تحریر تھا کہ تم اپنے رب کی رحمتوں کے مواقع کو تلاش کرتے رہو بہت ممکن ہے کہ کسی ایسے وقت تم دعائے خیر کرو کہ اس وقت رب کی رحمت جوش میں ہو اور تمہیں وہ سعادت مل جائے جس کے بعد کبھی بھی حسرت و افسوس نہ کرنا پڑے ۔ آیت میں عبادت سے مراد دعا اور توحید ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن متکبر لوگ چونٹیوں کی شکل میں جمع کئے جائیں گے ۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ان کی اوپر ہوگی انہیں بولس نامی جہنم کے جیل خانے میں ڈالا جائے گا اور بھڑکتی ہوئی سخت آگ ان کے سروں پر شعلے مارے گی ۔ انہیں جہنمیوں کا لہو پیپ اور پاخانہ پیشاب پلایا جائے گا ۔ ابن ابی حاتم میں ایک بزرگ فرماتے ہیں میں ملک روم میں کافروں کے ہاتھوں میں گرفتار ہو گیا تھا ایک دن میں نے سنا کہ ہاتف غیب ایک پہاڑ کی چوٹی سے بہ آواز بلند کہہ رہا ہے ۔ اے اللہ! اس پر تعجب ہے جو تجھے پہچانتے ہوئے تیرے سوا دوسرے کی ذات سے امیدیں وابستہ رکھتا ہے ۔ اے اللہ! اس پر بھی تعجب ہے جو تجھے پہچانتے ہوئے اپنی حاجتیں دوسروں کے پاس لے جاتا ہے ۔ پھر ذرا ٹھہر کر ایک پر زور آواز اور لگائی اور کہا پورا تعجب اس شخص پر ہے جو تجھے پہچانتے ہوئے دوسرے کی رضامندی حاصل کرنے کیلئے وہ کام کرتا ہے جن سے تو ناراض ہو جائے ۔ یہ سن کر میں نے بلند آواز سے پوچھا کہ تو کوئی جن ہے یا انسان؟ جواب آیا کہ انسان ہوں ۔ تو ان کاموں سے اپنا دھیان ہٹا لے جو تجھے فائدہ نہ دیں ۔ اور ان کاموں میں مشغول ہو جاؤ جو تیرے فائدے کے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 گزشتہ آیت میں جب اللہ نے وقوع قیامت کا تذکرہ فرمایا تو اب اس آیت میں ایسی راہنمائی دی جا رہی ہے، جسے اختیار کر کے انسان آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہو سکے، اس آیت میں دعا سے اکثر مفسرین نے عبادت مراد لی ہے یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ جیسا کہ حدیث میں میں بھی دعا کو عبادت بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا، بعض کہتے ہیں کہ دعا سے مراد دعا ہی ہے۔ یعنی اللہ سے جلب نفع اور دفع ضرر کا سوال کرنا، کیونکہ دعا کے شرعی اور حقیقی معنی طلب کرنے کے ہیں، دوسرے مفہوم میں اس کا استعمال مجازی ہے۔ علاوہ ازیں دعا بھی اپنے حقیقی معنی کے اعتبار سے اور حدیث مذکورہ کی رو سے بھی عبادت ہے کیونکہ مافوق الاسباب طریقے سے کسی کو حاجت روائی کے لئے پکارنا اس کی عبادت ہے اور عبادت اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں۔ 60۔ 2 یہ اللہ کی عبادت سے انکار و اعراض یا اس میں دوسروں کو بھی شریک کرنے والوں کا انجام ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٨] دعا اور عبادت ایک ہی چیز ہے بلکہ دعا عبادت کا مغز ہے۔ اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دعا یا کسی کو حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارنا اور عبادت ہم معنی الفاظ ہیں۔ اس آیت کے پہلے جملہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مجھے پکارا کرو میں تمہاری پکار کو قبول کرتا ہوں اور دوسرے جملہ میں فرمایا کہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں۔ جو اس آیت پر واضح دلیل ہے کہ دعا اور عبادت ایک ہی چیز ہے پھر اس مفہوم کی تائید احادیث صحیحہ سے بھی ہوجاتی ہے۔ آپ نے فرمایا : (الدُّعَاءُ ھُوَالْعِبَادَۃُ ) (یعنی پکارنا ہی اصل عبادت ہے) اور ایک مرتبہ یوں فرمایا : (الدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃ) (یعنی دعا ہی عبادت کا مغز یا اصل عبادت ہے) (ترمذی، ابو اب التفسیر زیر آیت ہذا) خ دعا عبادت کیسے ہے ؟ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ دعا عبادت کیسے ہے ؟ دعا کرنے والا دعا اس وقت کرتا ہے جب کسی چیز کے حصول یا کسی مصیبت کے دفعیہ کے ظاہری اسباب مفقود ہوں۔ اور جس کو پکارتا ہے وہ یہ سمجھ کر پکارتا ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہے میری پکار کو سن رہا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ اس کا باطنی اسباب پر اتنا تصرف ضرور ہے کہ وہ میری تکلیف کو رفع کرسکتا ہے یا میری حاجت پوری کرسکتا ہے۔ گویا پکاری جانے والی ہستی کا ایک تو عالم الغیب نیز سمیع وبصیر ہونا ضروری ہوا۔ اور یہ صفت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی۔ دوسرے جب تک اسباب کائنات میں اس کا تصرف تسلیم نہ کیا جائے اس سے دعا کرنا ایک فعل عبث قرار پاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفات کو کسی دوسری ہستی میں تسلیم کرنا اسے اللہ کا ہمسر یا شریک سمجھنا ہے اور یہی چیز عین شرک ہے۔ اور جس شخص نے اللہ کے علاوہ کسی دوسری ہستی کو الوہیت کا یہ مقام دے دیا تو وہ اس کے مقابلہ میں از خود بندگی کے مقام پر اتر آیا گویا پکاری جانے والی ہستی اس کی معبود بن گئی اور یہ پکارنے والا عبادت گزار اور اس کی پکار عین عبادت ہوئی۔ خ اللہ مانگنے سے خوش اور نہ مانگنے سے ناراض ہوتا ہے اور یہی عبادت کا خاصہ ہے : واضح رہے کہ انسان اللہ سے دعا کرتا ہے اور وہ کبھی قبول ہوتی ہے کبھی نہیں ہوتی، کبھی بہت مدت بعد جا کر ہوتی ہے تو اس کے کچھ آداب ہیں اور کچھ اسباب ہیں اور کچھ موانع ہیں۔ جن کی تفصیل احادیث میں مذکور ہے۔ یہاں صرف یہ بات ذہن نشین کرانا مطلوب ہے کہ دعا قبول نہ بھی ہو تو بھی اس کا بہت فائدہ ہے۔ کیونکہ دعا بذات خود عبادت ہے۔ اور جتنی دیر اس نے دعا مانگنے میں لگائی وہ مدت گویا اس نے عبادت ہی میں گزار دی۔ لہذا ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم اللہ سے دعا مانگتے رہیں۔ مانگتے رہیں۔ اس کا قبول کرنا نہ کرنا، یا بدیر قبول کرنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تابع ہے۔ دوسری بات جو اس آیت سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ سے مانگنا اور مانگتے رہنا عین تقاضائے بندگی ہے۔ اور جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا تو یہ بات عبادت سے انکار یا تکبر کی علامت ہے۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ مانگنے سے خوش اور نہ مانگنے سے ناراض ہوتا ہے اور یہ سب مفہوم عبادت کے لفظ میں شامل ہیں۔ [٧٩] یہ ان کے تکبر کی سزا ہوگی۔ قیامت کے دن خوب جوتے کھائیں گے اور ذلت اور رسوائی کے ساتھ جہنم میں پھینک دیئے جائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وقال ربکم ادعونی استجب لکم …: آخرت کی یاد دہانی کیساتھ ہی توحید کی تاکید فرمائی، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفار کے درمیان جھگڑے کی سب سیب ڑی وجہ تھی۔ آیت کے آخر میں جہنم کے ذکر ک صورت میں آخرت کا تذکرہ بھی فرما دیا۔ (٢) ”’ عا “ کا واحد حق دار ہونے کی دلیل کے طور پر اپنا تعارف ” ربکم “ (تمہارا رب) کے لفظ کے ساتھ کروایا کہ ” اعونی “ (مجھے پکارو ) کا حکم تمہیں وہ دے رہا ہے جو ہر لمحے کسی کی شرکت کیب غیر تمہاری پرورش کر رہا ہے اور تمہاری ہر ضرورت پوری کر رہا ہے۔ (٣) تمہارے رب نے فرمایا : تم مجھے پکارو ، مجھ سے مانگو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، میں تمہیں دوں گا۔ نہ مجھ سے بدگمان ہو ، نہ کسی اور کو پکارتے یا اس سے مانگتے پھرو، یہ سمجھ کر کہ وہ تمہیں کچھ دے گا، یا تمہاری درخواستیں میرے دربار سے منظور کروا دے گا۔ (٤) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مطلقاً دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، مگر دوسری جگہ قبولیت کے وعدے کے ساتھ کچھ شرطیں بھی ذکر فرمائیں، فرمایا :(واذا سالک عبادی عنی فانی قریب، اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلین تجیب وا لی ولیومنوا بی لعلھم یرشدون) (البقرہ : ١٨٦) ” اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بیشک میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، تو لازم ہے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضاحت فرمائی کہ دعا تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں ضرور قبول ہوتی ہے، یا تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا جلد قبول کرل یتا ہے، یا آخرت میں اس کا ذخیرہ کرلیتا ہے، یا اس سے اتنی برائی ٹال دیتا ہے۔ (دیکھیے مسند احمد : ٣-١٨، ح : ١١٣٩، صحیح ) دعا کی قبولیت کی شرطوں اور صورتوں کی تفصیل کے لئے دیکھئے سورة بقرہ (186) کی تفسیر 5 ۔ ان الذین یستکبرون عن عبادتی : یہ جملہ دلیل ہے کہ دعا ہی عبادت اور پکارنا ہی بندگی ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے، اس سے مانگتا ہے اور اس سے فریاد کرتا ہے وہ اس کی عبادت کرتا ہے اور جو مافوق الاسباب اشیاء کے لیے اس کے سوا کسی اور کو پکارتا ہے، یعنی ” یا علی مدد “ کہتا ہے، یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ کہتا ہے، بہاؤالحق یا کسی خود ساختہ داتا، دستگیر گنج بخش یا غریب نواز کو پکارتا ہے اور ڈوبتی کشتی کو کنارے لگانے کی درخواست کرتا ہے، درحقیقت وہ اس کی عبادت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے، جو اس کے ہاں ناقابل معافی ہے۔ یہ کہنا کہ ہم ان بزرگ ہستیوں کو صرف پکارتے ہیں، ان کی عبادت نہیں کرتے، سراسر دھوکا ہے، جو مشرک اپنے آپ کو اور اللہ کے بندوں کو دے رہے ہیں، کیونکہ پکارنا ہی تو عبادت ہے۔ نعمان بن بشیر (رض) نے اللہ تعالیٰ کے فرمان وقال ربکم ادعونی استجب لکم کے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : الدعاء مخ العبادۃ، پکارنا ہی بندگی ہے۔ اور آپ نے یہ آیت پڑھی وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ (ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورة البقرۃ : 2969، وقال الالبانی صحیح) 6 ۔ ان الذین یستکبرون عن عبادتی : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کے منکروں کے جھگڑے اور کج بحثی کا سبب بیان فرمایا تھا کہ وہ محض ان کے دلوں کا کبر اور جھوٹی بڑائی ہے جو انہیں کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اب فرمایا کہ جو لوگ اس کبر میں مبتلا ہیں، میری آیات اور میرے رسولوں پر ایمان نہیں لاتے اور مجھ سے دعا نہیں کرتے وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ دنیا میں وہ جس قدر اونچے بنتے تھے قیامت کے دن اتنے ہی ذلیل و حقیر ہوں گے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : بندگی کی شرط ہے اپنے رب سے مانگنا، نہ مانگننا غرور ہے۔ اگر دنیا نہ مانگے تو مغفرت ہی مانگے۔ (موضح) عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یحشر المتکبرون یوم القیامۃ امثال الدر فی صور الرجال یغشاہم الذل من کل مکان فیساقون الی سجن فی جہنم یسمع بولس تعلوھم نار الانیار یسقون من عصارۃ اھل النار طینۃ الخبار۔ (ترمذی، صفۃ القیامۃ ولرقائق، باب ماجاء فی شدۃ الوعید للمتکبرین : 2492، وقال البانی حسن) تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا، ہر طرف سے ذلت انہیں ڈھانک رہی ہوگی، پھر انہیں جہنم میں ایک قید خانے کی طرف ہانک کرلے جایا جائے گا، جس کا نام ” بولس “ ہے۔ ان پر آگوں کی آگ چڑھ رہی ہوگی، انہیں جہنمیوں کے جسموں سے نکلنے والا لہو اور پیپ پلائی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے کہ اس سے مانگا جائے، ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انہ من لم یسال اللہ یغضب علیہ (ترمذی، الدعوات، باب منہ : 3373، وحسنہ الالبانی) جو اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اللہ تعالیٰ اس پر غصے ہوجاتا ہے، کیا خوب کہا ہے کہنے والے نے اللہ یغضب ان ترکت سوالہ وتری ابن ادم حین یسال یغضب اللہ تعالیٰ غصے ہوتا ہے اگر تو اس سے مانگنا چھوڑ دے اور تو ابن آدم کو دیکھے گا کہ جب اس سے مانگا جائے تو غصے ہوتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The reality of du` a& (supplication) and its merits, levels and conditions of acceptance In the last verse cited in this unit, it was said: وَقَالَ رَ‌بُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُ‌ونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِ‌ينَ And your Lord has said, “ Call Me, I will respond to you. Definitely those who show arrogance against worshipping Me shall enter Jahannam, disgraced. - 40:60. Literally, du&a means to call, and it is frequently used to call for something needed. On occasions, the dhikr of Allah (acts devoted to His remembrance) is also referred to as du&a. This verse confers a special honor on the large community of the followers of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) when they were ordered to make dua& with the assurance that it would be answered. And whoever does not make a prayer has been warned of punishment. Qatadah reports from Ka&b Ahbar that earlier this used to be peculiar to prophets, as they were the ones who were ordered by Allah Ta’ ala that they should make dua& and He would answer. Now, it is the distinction of the followers of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (popularly identified as Ummah Muhammadiyyah) that this order was universalized for his entire Ummah. (IbnKathir) Explaining this verse, Sayyidna Nu` man Ibn Bashir (رض) narrated a Hadith that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: اِنَّ الدُّعَآء ھُو العِبَادۃ (Surely, prayer is worship on its own) and then supported it by reciting this verse: إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُ‌ونَ عَنْ عِبَادَتِي ، (Definitely those who show arrogance against worshipping Me shall enter Jahannam, disgraced.) (reported by Imam Ahmad, Tirmidhi, Nasa&i, Abu Dawud and others - Ibn Kathir) It appears in Tafsir Mazhari that, if looked at under the rules of Arabic diction (confining of the predicate to the subject), the Hadith: اِنَّ الدُّعَآء ھُو العِبَادۃ ، could mean: &dua& is the very name of &ibadah& or worship, that is, every dua& is but ` ibadah. Then, by reversing the same rule (confining the subject to the predicate), it could also mean that every act of ` ibadah is itself nothing but a dua&. Both probabilities exist here. And at this place, the meaning is that dua& (prayer, supplication) and ` ibadah (worship, devotion) are, though separate from each other in terms of the literal sense, yet in terms of substantiation, they are unified, as every dua& is ` ibadah and every ` ibadah is dua&. The reason is that ` ibadah is the name of the attitude of showing one&s utter modesty and abasement before someone, and it is all too obvious that showing one&s utter helplessness before someone and extending one&s hand before him with , the beggar&s bowl is a matter of great disgrace - which is the very sense of` ibadah. Similarly, the outcome of every ` ibadah is also to ask Allah Ta’ ala for forgiveness and Jannah and that He blesses us with a perfect state of well being in this world and in the world to come. Therefore, it appears in a Hadith qudsi (a Hadith in which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) conveys a saying from Allah that is not included in the Qur&an) that Allah Ta’ ala said: |"One who is so engrossed in remembering Me that he does not have even the time to ask for what he needs, I shall give him more than those who ask (by fulfilling his needs without the asking) |" (reported by al-Jazri in An-Nihayah) and in a narration appearing in Tirmidhi and Muslim, the words are: من شغلہ القرآن عن ذکری و مسٔلتی اعطیتہ افضل ما اعطی السأیٔلین (|"One who is so engrossed in the recitation of the Qur&an that he does not have even the time to ask for what he needs, I shall give him even more than what those who ask ever get|" ). This tells us that every ` ibadah brings the same benefit as is the benefit of dua&. And in the Hadith of &Arafat, it appears that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"In ` Arafat, my du a& and the du a& of prophets before me is (the saying of): لا إله إلا اللہ وحده لا شريک له له الملک وله الحمد وهو علی کل شيئ قدير (la ilaha il-lal-lahu wahdahu la sharika lahu lahul-mulku wa lahul-hamdu wa huwa &ala kulli shai&in qadir: There is no god but Allah who is one. No one shares His godhead. To Him belongs the kingdom and to Him belongs all praise, and He is powerful over everything) (reported by Ibn Abi Shaibah - Mazhari). Here, عِبَادَہ (&ibadah: worship) and ذِکرُاللہ (dhikrullah: the dhikr or remembrance of Allah) has been called: دُعَا (dua&: prayer, supplication). In this verse under study, those who abandon dua& in the sense of ` ibadah the warning of Jahannam given to them is in the eventuality of being too proud, that is, a person who, in his pride, considers himself in no need of making a dua& and actually abandons it, then, this is a sign of kufr (open infidelity), therefore, the warning of Jahannam became due against him. Otherwise, making of dua&s, prayers and supplications as such is not fard (obligatory) or wajib (necessary). Leaving it off brings no sin. However, by a consensus of ` ulama&, doing so is mustahabb (recommended) and is: اَفضَل (afdal: better, meritworthy) (Mazhari) and in accordance with clarifications in ahadith, it is a source of many a barakah (blessing). Merits of du&a& HADITH: The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"There is nothing more deserving of regard by Allah Ta’ ala than dua|"& - Tirmidhi, Ibn Majah and Hakim from Sayyidna Abu Hurairah (رض) . HADITH: The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"dua& is the essence of ` ibadah|" - Tirmidhi from Sayyidna Anas Ibn Malik (رض) . HADITH: The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Ask Allah Ta’ ala of His grace because Allah Ta’ ala likes being asked, and it is a great act of ` ibadah that one waits for ease while in hardship|" - Tirmidhi from Sayyidna Ibn Masud (رض) . HADITH: The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Verily, one who does not pray to Allah in his needs, He becomes angry with him|" - Tirmidhi from Sayyidna Abu Hurairah (رض) ، Ibn Hibban and Hakim. In Tafsir Mazhari, after having reported all these narrations, it has been said that the warning of Divine wrath on a person who does not make a dua& is applicable only when this abstention from asking is based on arrogance, and on taking oneself to be need free, as it stands proved from the words of this verse:إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُ‌ونَ (Definitely those who show arrogance against worshipping Me shall enter Jahannam, disgraced. 40:60). HADITH: The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"Do not be weary of dua&, for nobody dies of making dua|"& - Ibn Hibban and Hakim from Sayyidna Anas Ibn Malik (رض) . HADITH: The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"dua& is a weapon of the believer, a pillar of the faith, and the light of the heavens and the earth|" - Hakim in al-Mustadrak from Sayyidna Abu Hurairah (رض) . HADITH: The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"If the gates of dua& are opened for someone (actually) the doors of mercy are. opened for him, and no dua& made before Allah Ta’ ala is appreciated more than that in which one asks of ` afiyah (well-being) from Him|" - Tirmidhi and Hakim from Sayyidna Ibn ` Umar (رض) . The word: عافیت (&afiyah) appearing in the Hadith mentioned immediately earlier is a very comprehensive word (usually rendered in English as &well-being& meaning a state of being healthy and happy, though somewhat outdated in contemporary usage). Apart from a good life, it includes other things like security from unwelcome happenings, trials and calamities as well as a satisfactory fulfillment of all needs in life. Ruling: Making du&a& for committing a sin or for severance of blood relationships is Haram (forbidden) - and, for that matter, such a dua& does not get to be accepted with Allah either - as in a Hadith from Sayyidna Abu Said al-Khudri (رض) . Du&a and the promise of acceptance In this verse, it has been promised that the dua& a servant makes is accepted. But, on occasions, one also sees that a dua& was made and it was not accepted. The answer to this appears in a Hadith of Sayyidna Abu Sa` id al-Khudri (رض) where the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said, |"Whatever a Muslim prays for before Allah, He would let him have it - subject to the condition that the du&a& made was not for something sinful or for the severance of relationships that Allah has enjoined to be kept intact. As for the acceptance of dua&, it takes one of the three forms given here: (1) That one gets exactly what one asked for. (2) That in lieu of what one wanted to have, one was given a certain return or reward of the Hereafter. (3) That one did not, though, get what one wanted, but some hardship or calamity that was due to fall on one stood removed. (Musnad Ahmad - Mazhari) Conditions of the acceptance of dua& As for the present verse, it obviously seems to have no condition, almost to the extent that even being a Muslim is not a condition of dua&. Allah Ta’ ala accepts the dua& of a kafir (disbeliever) as well in this world to the extent that the dua& of Iblis to be allowed to live until the last day of Qiyamah was accepted. For dua&, there is no condition of time, nor is there any condition that one must be with taharah (state of purity from pollutants) or wudu (ablution). But, there are trustworthy ahadith that identify a few things that preclude the chances of its acceptance. One must abstain from these. It appears in a Hadith from Sayyidna Abu Hurairah (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"...a man having been on a long journey is all disheveled and dust-coated and he stretches his hands upwards for dua& (saying): &0 my Lord! 0 my Lord!& while his food is haram (unlawful), his drink: haram, his dress: haram, and he himself was brought up on the haram - how then, could his du a& become worth accepting?|" (Reported by Muslim) Similarly, if we were to say the words of dua& negligently, heedlessly, without paying any attention, the Hadith says something about that too - that such a dua& is also not accepted. (Tirmidhi from Sayyidna Abu Hurairah (رض) .

(آیت) وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ دعا کی حقیقت اور اس کے فضائل و درجات اور شرط قبولیت : دعا کے لفظی معنے پکارنے کے ہیں اور اکثر استعمال کسی حاجت و ضرورت کے لئے پکارنے میں ہوتا ہے۔ کبھی مطلق ذکر اللہ کو بھی دعا کہا جاتا ہے۔ یہ آیت امت محمدیہ کا خاص اعزاز ہے کہ ان کو دعا مانگنے کا حکم دیا گیا۔ اور اس کی قبولیت کا وعدہ کیا گیا۔ اور جو دعا نہ مانگے اس کے لئے عذاب کی وعید آئی ہے۔ حضرت قتادہ نے کعب احبار سے نقل کیا ہے کہ پہلے زمانے میں یہ خصوصیت انبیاء کی تھی، کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوتا تھا کہ آپ دعا کریں میں قبول کروں گا۔ امت محمدیہ کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ حکم تمام امت کے لئے عام کردیا گیا۔ (ابن کثیر) حضرت نعمان بن بشیر نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث بیان فرمائی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان الدعاء ھو العبادة۔ یعنی دعا عبادت ہی ہے اور پھر آپ نے استدلال میں یہ آیت فرمائی۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ (رواہ الامام احمد والترمذی و النسائی و ابوداؤد وغیرہ۔ ابن کثیر) تفسیر مظہر میں ہے کہ جملہ ان الدعا ھو العبادة میں بقاعدہ عربیت (قصر المسند علی المسند الیہ) یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ دعا عبادت ہی کا نام ہے یعنی ہر دعا عبادت ہی ہے اور (قصر المسند الیہ علی المسند کے طور پر) یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ ہر عبادت ہی دعا ہے۔ یہاں دونوں احتمال ہیں۔ اور مراد یہاں یہ ہے کہ دعا اور عبادت اگرچہ لفظی مفہوم کے اعتبار سے دونوں جدا جدا ہیں مگر مصداق کے اعتبار سے دونوں متحد ہیں کہ ہر دعا عبادت ہے اور ہر عبادت دعا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ عبادت نام ہے کسی کے سامنے انتہائی تذلل اختیار کرنے کا اور ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو کسی کا محتاج سمجھ کر اس کے سامنے سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا بڑا تذلل ہے جو مفہوم عبادت کا ہے۔ اسی طرح ہر عبادت کا حاصل بھی اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور جنت اور دنیا اور آخرت کی عافیت مانگنا ہے۔ اسی لئے ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص میری حمد و ثنا میں اتنا مشغول ہو کہ اپنی حاجت مانگنے کی بھی اسے فرصت نہ ملے ہیں اس کو مانگنے والوں سے زیادہ دوں گا۔ (یعنی اس کی حاجت پوری کر دوں گا) (رواہ اجزری فی النہایہ) اور ترمذی و مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :۔ من شغلہ القرآن عن ذکری ومسئلتی اعطیتہ افضل ما اعطی السائلین۔ یعنی جو شخص تلاوت قرآن میں اتنا مشغول ہو کہ مجھ سے اپنی حاجات مانگنے کی بھی اسے فرصت نہ ملے تو میں اس کو اتنا دوں گا کہ مانگنے والوں کو بھی اتنا نہیں ملتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر عبادت بھی وہی فائدہ دیتی ہے جو دعا کا فائدہ ہے۔ اور عرفات کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عرفات میں میری دعا اور مجھ سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی دعا (یہ کلمہ ہے) لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علیٰ کل شئی قدیر۔ (رواہ ابن ابی شیبہ۔ مظہری) اس میں عبادت اور ذکر اللہ کو دعا فرمایا ہے، اور اس آیت میں عبادت بمعنے دعا کے ترک کرنے والوں کو جو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے وہ بصورت استکبار ہے یعنی جو شخص بطور استکبار کے اپنے آپ کو دعا سے مستغنی سمجھ کر دعا چھوڑے یہ علامت کفر کی ہے۔ اس لئے وعید جہنم کا استحقاق ہوا۔ ورنہ فی نفسہ عام دعائیں فرض و واجب نہیں، ان کے ترک سے کوئی گناہ نہیں۔ البتہ باجماع علماء مستحب اور افضل ہے۔ (مظہری) اور حسب تصریح احادیث موجب برکات ہے۔ فضائل دعا : حدیث :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے زیادہ کوئی چیز مکرم نہیں۔ (ترمذی۔ ابن ماجہ حاکم عن ابی ہریرة) حدیث :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الدعاء مخ العبادة یعنی دعا عبادت کا مغز ہے۔ (ترمذی عن انس) حدیث :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ سوال اور حاجت طلبی کو پسند کرتا ہے اور سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ سختی کے وقت آدمی فراخی کا انتظار کرے۔ (ترمذی عن ابن مسعود) حدیث :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے اپنی حاجت کا سوال نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کا اس پر غضب ہوتا ہے۔ (ترمذی۔ ابن حبان۔ حاکم) ان سب روایات کو تفسیر مظہری میں نقل کر کے فرمایا کہ دعا نہ مانگنے والے پر غضب الٰہی کی وعید اس صورت میں ہے کہ نہ مانگنا تکبر اور اپنے آپ کو مستغنی سمجھنے کی بنا پر ہو جیسا کہ آیت مذکورہ ان الذین یستکبرون کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے۔ حدیث :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دعا سے عاجز نہ ہو کیونکہ دعا کے ساتھ کوئی ہلاک نہیں ہوتا۔ (ابن حبان۔ حاکم عن انس ) حدیث :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے اور دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے۔ (حاکم فی المستدرک عن ابی ہریرة) حدیث :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کے لئے دعا کے دروازے کھول دیئے گئے اس کے واسطے رحمت کے دروازے کھل گئے اور اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا اس سے زیادہ محبوب نہیں مانگی گئی کہ انسان اس سے عافیت کا سوال کرے۔ (ترمذی۔ حاکم عن ابن عمر) لفظ عافیت بڑا جامع لفظ ہے، جس میں بلا سے حفاظت اور ہر ضرورت و حاجت کا پورا ہونا داخل ہے۔ مسئلہ : کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا مانگنا حرام ہے وہ دعا اللہ کے نزدیک قبول بھی نہیں ہوتی۔ (کما فی الحدیث عن ابی سعید الخدری) قبولیت دعا کا وعدہ : آیت مذکورہ میں اس کا وعدہ ہے کہ جو بندہ اللہ سے دعا مانگتا ہے وہ قبول ہوتی ہے مگر بعض اوقات انسان یہ بھی دیکھتا ہے کہ دعا مانگی وہ قبول نہیں ہوئی۔ اس کا جواب ایک حدیث میں ہے جو حضرت ابوسعید خدری سے منقول ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مسلمان جو بھی دعا اللہ سے کرتا ہے اللہ اس کو عطا فرماتا ہے۔ بشرطیکہ اس میں کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو، اور قبول فرمانے کی تین صورتوں میں سے کوئی صورت ہوتی ہے ایک یہ کہ جو مانگا وہی مل گیا، دوسرے یہ کہ اس کی مطلوب چیز کے بدلے اس کو آخرت کا کوئی اجر وثواب دے دیا گیا۔ تیسرے یہ کہ مانگی ہوئی چیز تو نہ ملی مگر کوئی آفت و مصیبت اس پر آنے والی تھی وہ ٹل گئی۔ (مسند احمد۔ مظہری) قبولیت دعا کی شرائط : آیت مذکورہ میں تو بظاہر کوئی شرط نہیں۔ یہاں تک کہ مسلمان ہونا بھی قبولیت دعا کی شرط نہیں ہے۔ کافر کی دعا بھی اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ یہاں تک کہ ابلیس کی دعا تا قیامت زندہ رہنے کی قبول ہوگئی۔ نہ دعا کے لئے کوئی وقت شرط نہ طہارت اور نہ باوضو ہونا شرط ہے۔ مگر احادیث معتبرہ میں بعض چیزوں کو موانع قبولیت فرمایا ہے۔ ان چیزوں سے اجتناب لازم ہے جیسا کہ حدیث میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بعض آدمی بہت سفر کرتے اور آسمان کی طرف دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور یا رب یا رب کہہ کر اپنی حاجت مانگتے ہیں مگر ان کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام، ان کو حرام ہی سے غذا دی گئی تو ان کی دعا کہاں قبول ہوگی۔ (رواہ مسلم) اسی طرح غفلت و بےپروائی کے ساتھ بغیر دھیان دیئے دعا کے کلمات پڑھیں تو حدیث میں اس کے متعلق بھی آیا ہے کہ ایسی دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔ (ترمذی عن ابی ہریرة)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِيْنَ۝ ٦٠ۧ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ استجاب والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] ، وقال : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] ، فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] ، فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] ، وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] ، وقال تعالی: وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي[ البقرة/ 186] ، الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] . ( ج و ب ) الجوب الاستحابتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ( دعا ) قبول کرونگا ۔ فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] تو ان کے پرور گار نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کی ( دعا) قبول فرماتا وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ ) میں تو ( تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] جنهوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کیا ۔ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ دخر قال تعالی: وَهُمْ داخِرُونَ [ النحل/ 48] ، أي : أذلّاء، يقال : أدخرته فَدَخَرَ ، أي : أذللته فذلّ ، وعلی ذلک قوله : إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ داخِرِينَ [ غافر/ 60] ، وقوله : يَدَّخِرُ أصله : يذتخر، ولیس من هذا الباب . ( د خ ر ) الدخور والد خور ۔ ( ف ) س ) کے معنی ذلیل ہونے کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ میں نے اسے ذلیل کیا تو وہ ذلیں ہوگیا قرآن میں ہے وَهُمْ داخِرُونَ [ النحل/ 48] اور وہ ذلیل ہوکر إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ داخِرِينَ [ غافر/ 60] جو لوگ میری عبادت سے از راہ تکبر کنیا تے ہیں عنقریب جہنم میں ذلیل ہوکر داخل ہوں گے ۔ اور یدخر اصل میں یذ تخر تھا ( پہلے تاء کو دال سے تبدیل کیا پھر ذال کو دال کو دال میں ادغام کرکے یدخر بنالیا اور یہ اس باب ( د خ ر ) سے نہیں ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

دعا ہی عبادت ہے قول باری ہے (وقال ربکم ادعونی استجب لکم۔ اور تمہارے رب نے کہا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری درخواست قبول کروں گا) سفیان ثوری نے اعمش اور منصور سے انہوں نے سبیع الکندی سے اور انہوں نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ان الدعاء ھوالعبادۃ دعا ہی عبادت ہے) پھر آپ نے درج بالا آیت تلاوت فرمائی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ میری توحید کے قائل ہوجاؤ میں تمہاری مغفرت کروں گا یا یہ کہ مجھے پکارو میں تمہاری ہر درخواست قبول کروں گا۔ جو لوگ میری توحید و عبادت سے انکار کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٠ { وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ } ” اور تمہارا رب کہتا ہے کہ مجھے پکارو ‘ میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ “ ابتدا میں بتایا گیا تھا کہ اس سورت کا مرکزی مضمون دعا ہے۔ چناچہ نوٹ کیجیے یہاں پھر فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تم میرے بندے ہو تو مجھ سے مانگو ! انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اس سے مانگا جائے تو اس پر گراں گزرتا ہے ‘ جبکہ اللہ سے اگر نہ مانگا جائے تو وہ ناراض ہوتا ہے۔ گویا عطائے خداوندی خود سائلوں کی تلاش میں رہتی ہے ع ” ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں ! “ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ رات کے پچھلے پہر اللہ تعالیٰ سمائے دنیا تک نزول فرماتے ہیں اور ایک ندا ہوتی ہے : ھَلْ مِنْ سَائِلٍ فَاُعْطِیَہُ ، ھَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَاَغْفِرَلَـہٗ ، ھَلْ مِنْ تَائِبٍ فَاَتُوْبَ عَلَیْہِ ، ھَلْ مِنْ دَاعٍ فَاُجِیْبَہٗ (١) ” ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اسے عطا کروں ؟ ہے کوئی گناہوں کی معافی مانگنے والا کہ میں اسے معاف کروں ؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ میں اس کی توبہ قبول کروں ؟ ہے کوئی پکارنے والا کہ میں اس کی پکار قبول کروں ؟ “ { اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ } ” یقینا وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کی بنا پر اعراض کرتے ہیں وہ داخل ہوں گے جہنم میں ذلیل و خوار ہو کر۔ “ قبل ازیں عبادت اور دعا کے لازم و ملزوم ہونے کے بارے میں گفتگو ہوچکی ہے اور اس حدیث کا ذکر بھی ہوچکا ہے جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ دعا ہی اصل عبادت ہے۔ چناچہ اس آیت میں یہ نکتہ مزید واضح ہوگیا ہے۔ یہاں پر پہلے دعا کا ذکر کیا گیا ہے (ادْعُوْنِیْٓ ) اور پھر اسی کے لیے عبادت کا لفظ لایا گیا ہے۔ گویا اس آیت میں دعا اور عبادت مترادف الفاظ کے طور پر آئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

82 After the Hereafter the discourse now turns to Tauhid which was the second point of dispute between the Holy Prophet and the disbelievers. 83 That is, "all the powers to answer our prayers vest in Me only; so you should not pray to others but pray to Me." To understand the spirit of this verse well, three points should be comprehended properly: First, man prays only to that being whom he regards as all-Hearing and all-Seeing and Possessor of supernatural powers. And the real motive of prayer for man is the internal feeling that the natural means and resources of the material world are not enough to remove any of his troubles and to fulfil any of his needs, or are not proving to be enough, Therefore, it is inevitable that he should turn to a being who is possessor of supernatural powers and authority. Man invokes that Being even without having seen Him; he invokes Him at all tithes, at all places, and under all circumstances; he invokes Him in solitude, aloud as well as in a low voice, and even in the depths of his heart. He does so inevitably on the basis of the belief that that Being is watching him everywhere, is also hearing whatever he has in his heart, and possesses such absolute powers that, it can come to the help of the supplicant wherever he is, and can help him out of every trouble and difficulty. After having known this truth about the prayer, it remains no longer difficult for man to understand that the one who invokes another than Allah for help, commits shirk absolutely and purely and clearly, for he believes those attributes to be belonging to the other being, which only belong to Allah. Had he not believed the other being to be an associate of Allah in the Divine attributes, he would never have even thought of invoking it for help. Second, one should. fully understand that man's merely thinking about a being that it is the possessor of powers and authority, does not necessitate that it should actually become possessor of the powers and authority. Being possessor of powers and authority is a factual matter, which is not dependent on somebody's understanding or not understanding it. The one who is actually the Possessor of the powers will in any case remain the Possessor whether man regards Him so or not. And the one who is not in reality the possessor, will not be able to have any share whatever in the powers only because man has believed it to be possessing the powers Now, the fact of the matter is that the Being Who is all-Powerful, all-Hearing, All-Seeing, and Who is actually controlling the whole Universe is only Allah, and He alone is Possessor of alI powers and authority. There is none else in this Universe, who may have any power to hear the prayers and to answer them or reject them. As against this factual matter if some people of themselves start entertaining the belief that some prophets, saints, angels, jinns, planets or imaginary gods also are share-holders in the powers, the reality will not change in any way whatever. The Owner will remain the Owner and the helpless servants the servants. Thirdly, the one who invokes others than AIlah behaves like the supplicant who takes his petition to a government office, but leaving aside the real officer who has authority, presents it before one of the other supplicants who may be present there with his petition, and then starts imploring him humbly, saying Sir, you possess all the powers, and yours is the only authority here; so, you alone can fulfil my needs. " Such a conduct, in the first place, is in itself highly foolish, but in a case like this it also amounts to high insolence, because the real officer who has the authority, is present and before his very eyes applications and petitions are being made before another, apart from him. Then this ignorance and folly reaches its height when the person before whom the petition is being presented makes the petitioner understand over and over again that he himself is a petitioner like him and possesses no power at all, and that the real officer who has the powers is present, and he should make his petition before him. But in spite of this counsel and warning, , the foolish person goes on saying: `Sir, you are my lord: you alone can fulfil my need." Keeping these three things in view, one should try to understand what Allah has said here:`Call upon Me: I shall answer your prayers: it is for Me to accept them. " 84 Two things deserve special attention in this verse: (1) Du'a (prayer) and 'ibadat (worship) have been used as synonyms here. The "prayer" of the first sentence has been called `worship" in the second. This makes it explicit that prayer itself is worship, rather the essence of worship; and (2) the words they disdain My worship on account of pride" have been used for those who do not pray to Allah. This shows that praying to Allah is the very requirement of one's servitude to Him, and turning away from Him amounts to being vain and arrogant. According to Hadrat Nu'man bin Bashir, the Holy Prophet said: The prayer is the very essence of worship. Then he recited this verse." (Ahmad, Tirmidhi, Abu Da'ud, Nasa'i, Ibn Majah, Ibn Abu Hatim, Ibn Jarir). According to Hadrat Anas, the Holy Prophet said. "Prayer is the marrow of worship." (Trimidhi) Hadrat Abu Hurairah says that the HolyProphet said: 'Allah becomes angry with him who does not ask Him for anything." (Tirmidhi) In the light of the above, the enigma that often causes confusion in the minds is also resolved. In connection with prayer, people say that when the evil or the good destiny is in the control of Allah, and whatever He has already decreed in accordance with His dominant wisdom and expedience has to take place inevitably. what is then the use of the prayer? This is a serious misunderstanding which destroys the importance of prayer from the heart of man, and with this false notion even if man prays, his prayer would be soulless. The above verse of the Qur'an removes this misunderstanding in two ways: In the first place, Allah says in clear words: °Call upon Me: I will answer your prayers." This proves that fate or destiny is not something which. God forbid, might have tied the hands of Allah Himself also, and the powers to answer the prayer might have been withdrawn froth Him. The creatures have no doubt no bower to avert or change the decrees of Allah: but Allah Himself certainly has the power to change His decrees and decisions on hearing a servant's prayer and petition. The other thing that has been stated in this verse is that whether a prayer is accepted or not, it is never without an advantage. The servant by presenting his petition before his Lord and by praying to Him acknowledges His Lordship and Supremacy and admits his own servitude and helplessness before Him. This expression of servitude is in itself "worship", rather the essence of worship of whose reward the servant will in no cast be deprived, irrespective of whether he is grained the particular thing for which he had prayed or not. We get a full explanation of these two themes in the Sayings of the Holy Prophet. The following Traditions throw light on the first theme: Hadrat Salman Farsi (relates that the Holy Prophet said: 'Nothing can avert destiny but the prayer." (Tirmidhi) that is, no one has the power to change the decisions of Allah but AIlah Himself can change His decisions, and this happens when the servant prays to Him. Hadrat Jabir bin 'Abdullah says that the Holy Prophet said: "Whenever man prays to Allah, Allah either gives him the same which he prayed for, or prevents a calamity of the same degree from befalling him provided that he does not pray for a sin or for severing relations with the kindred." (Tirmidhi) Another Hadith on the same subject has been reported by Hadrat Abu Said Khudri in which the Holy Prophet said: "Whenever a Muslim prays, unless it be a prayer far .r sin or for severing relations with a kindred, AIlah grants it in one of the three ways: Either his prayer is granted in this very world, or it is preserved for rewarding him in the Hereafter, or a disaster of the same degree is prevented from befalling him." (Musnad Ahmad) Hadrat Abu Hurairah says that the Holy Prophet said: "When-ever one of you prays,, he should not say: O God, forgive me if You so please, show me mercy if You so please, grant me provisions if You so please, but he should say definitely: O God, fulfil my such and such need." (Bukhari). According to another Tradition from Abu Hurairah, the Holy Prophet said: `Pray to Allah with the certainty that He will answer it." (Tirmidhi). In still another Tradition Hadrat Abu Hurairah has reported that the Holy Prophet said: "The servant's prayer is granted provided that he does not pray for a sin or for severing connections with the kindred, and is not hasty. It was asked: What is being hasty, 0 Messenger of Allah? He replied: Being hasty is that man should say: I have prayed much, too much, but I see that my prayer is nor being answered. Then he should be tired of it and give up praying." (Muslim). The other theme is explained by the following Traditions: Hadrat Abu Hurairah relates that the Holy Prophet said: "Nothing is as praiseworthy in the sight of AIlah as the prayer." (Tirmidhi, Ibn Majah). Hadrat Ibn Mas'ud says that the Holy Prophet said: "Ask of Allah His bounty, because Allah likes that He should be asked." (Tirmidhi) Hadrat Ibn 'Umar and Hadrat Mu'adh bin Jabal state that the Holy Prophet said: "The prayer is in any case beneficial, both with respect to those calamities which have descended and with respect to those which have not yet descended. So, O servants of AIlah, you must always pray." (Tirmidhi, Musnad Ahmad). Hadrat Anas says that the Holy Prophet said: `Each one of you should ask his every need of Allah; so much so that even if his shoe-lace breaks, he should pray for it to Allah." (Tirmidhi). That is, even in matters which man feels are in his own power, he should invoke Allah's help for it before planning his own devices for it, for in no matter can man succeed only on the basis of his own devices without the help and succour of Allah, and praying before devising plans means that the servant is at all times acknowledging the supremacy of Allah and admitting his own helplessness.

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :82 آخرت کے بعد اب توحید پر کلام شروع ہو رہا ہے جو کفار اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان دوسری بنائے نزاع تھی ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :83 یعنی دعائیں قبول کرنے اور نہ کرنے کے جملہ اختیارات میرے پاس ہیں ، لہٰذا تم دوسروں سے دعائیں نہ مانگو بلکہ مجھ سے مانگو ۔ اس آیت کی روح کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے تین باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں : اول یہ کہ دعا آدمی صرف اس ہستی سے مانگتا ہے جس کو وہ سمیع و بصیر اور فوق الفطری اقتدار ( Supernatural powers ) کا مالک سمجھتا ہے ، اور دعا مانگنے کا محرک دراصل آدمی کا یہ اندرونی احساس ہوتا ہے کہ عالم اسباب کے تحت فطری ذرائع و وسائل اس کی کسی تکلیف کو رفع کرنے یا کسی حاجت کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں یا کافی ثابت نہیں ہو رہے ہیں ، اس لیے کسی فوق الفطری اقتدار کی مالک ہستی سے رجوع کرنا ناگزیر ہے ۔ بآواز بلند ہی نہیں ، چپکے چپکے بھی پکارتا ہے ، بلکہ دل ہی دل میں اس سے مدد کی التجائیں کرتا ہے ۔ یہ سب کچھ لازماً اس عقیدے کی بنا پر ہوتا ہے کہ وہ ہستی اس کو ہر جگہ ہر حال میں دیکھ رہی ہے ۔ اس کے دل کی بات بھی سن رہی ہے ۔ اور اس کو ایسی قدرت مطلقہ حاصل ہے کہ اسے پکارنے والا جہاں بھی ہو وہ اس کی مدد کو پہنچ سکتی ہے اور اس کی بگڑی بنا سکتی ہے ۔ دعا کی اس حقیقت کو جان لینے کے بعد یہ سمجھنا آدمی کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں رہتا کہ جو شخص اللہ کے سوا کسی اور ہستی کو مدد کے لیے پکارتا ہے وہ در حقیقت قطعی اور خالص اور صریح شرک کا ارتکاب کرتا ہے ، کیونکہ وہ اس ہستی کے اندر ان صفات کا اعتقاد رکھتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں ۔ اگر وہ اس کو ان خدائی صفات میں اللہ کا شریک نہ سمجھتا تو اس سے دعا مانگنے کا تصور تک کبھی اس کے ذہن میں نہ آ سکتا تھا ۔ دوسری بات جو اس سلسلے میں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ کسی ہستی کے متعلق آدمی کا اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھنا کہ وہ اختیارات کی مالک ہے ، اس سے یہ لازم نہیں آ جاتا کہ وہ فی الواقع مالک اختیارات ہو جائے ۔ مالک اختیارات ہونا تو ایک امر واقعی ہے جو کسی کے سمجھنے یا نہ سمجھنے پر موقوف نہیں ہے ۔ جو در حقیقت اختیارات کا مالک ہے وہ بہرحال مالک ہی رہے گا ، خواہ آپ اسے مالک سمجھیں یا نہ سمجھیں ۔ اور جو حقیقت میں مالک نہیں ہے ، اس کو محض یہ بات کہ آپ نے اسے مالک سمجھ لیا ہے ، اختیارات میں ذرہ برابر بھی کوئی حصہ نہ دلوا سکے گی ۔ اب یہ بات ایک امر واقعی ہے کہ قادر مطلق اور مدبر کائنات اور سمیع و بصیر ہستی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے اور وہی کلی طور پر اختیارات کا مالک ہے ۔ دوسری کوئی ہستی بھی اس پوری کائنات میں ایسی نہیں ہے جو دعائیں سننے اور ان پر قبولیت یا عدم قبولیت کی صورت میں کوئی کارروائی کرنے کے اختیارات رکھتی ہو ۔ اس امر واقعی کے خلاف اگر لوگ اپنی جگہ کچھ انبیاء اور اولیاء اور فرشتوں اور جِنوں اور سیاروں اور فرضی دیوتاؤں کو اختیارات میں شریک سمجھ بیٹھیں تو اس سے حقیقت میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق رو نما نہ ہو گا ۔ مالک مالک ہی رہے گا اور بے اختیار بندے ، بندے ہی رہیں گے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے دعا مانگنا بالکل ایسا ہے جیسے کوئی شخص درخواست لکھ کر ایوان حکومت کی طرف جائے مگر اصل حاکم ذی اختیار کو چھوڑ کر وہاں جو دوسرے سائلین اپنی حاجتیں لیے بیٹھے ہوں انہی میں سے کسی ایک کے آگے اپنی درخواست پیش کر دے اور پھر ہاتھ جوڑ جوڑ کر اس سے التجائیں کرتا چلا جائے کہ حضور ہی سب کچھ ہیں ، آپ ہی کا یہاں حکم چلتا ہے ، میری مراد آپ ہی بر لائیں گے تو بر آئے گی ۔ یہ حرکت اول تو بجائے خود سخت حماقت و جہالت ہے لیکن ایسی حالت میں یہ انتہائی گستاخی بھی بن جاتی ہے جبکہ اصل حاکم ذی اختیار سامنے موجود ہو اور عین اس کی موجودگی میں اسے چھوڑ کر کسی دوسرے کے سامنے درخواستیں اور التجائیں پیش کی جا رہی ہوں ۔ پھر یہ جہالت اپنے کمال پر اس وقت پہنچ جاتی ہے جب وہ شخص جس کے سامنے درخواست پیش کی جا رہی ہو خود بار بار اس کو سمجھائے کہ میں تو خود تیری ہی طرح کا ایک سائل ہوں ، میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے ، اصل حاکم سامنے موجود ہیں ، تو ان کی سرکار میں اپنی درخواست پیش کر ، مگر اس کے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجود یہ احمق کہتا ہی چلا جائے کہ میرے سرکار تو آپ ہیں ، میرا کام آپ ہی بنائیں گے تو بنے گا ۔ ان تین باتوں کو ذہن میں رکھ کر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ مجھے پکارو ، تمہاری دعاؤں کا جواب دینے والا میں ہوں ، انہیں قبول کرنا میرا کام ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :84 اس آیت میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں ۔ ایک یہ کہ دعا اور عبادت کو یہاں مترادف الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دعائیں عبادت اور جان عبادت ہے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ سے دعا نہ مانگنے والوں کے لیے گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ سے دعا مانگنا عین تقاضائے بندگی ہے ، اور اس سے منہ موڑنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی تکبر میں مبتلا ہے اس لیے اپنے خالق و مالک کے آگے اعتراف عبودیت کرنے سے کتراتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں آیت کے ان دونوں مضامین کو کھول کر بیان فرما دیا ہے ۔ حضرت نعمان بن بشیر کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان الدعاء ھو العبادۃ ثم قرأ ادعونی استجب لکم ۔ ..... یعنی دعا عین عبادت ہے ، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ( احمد ، ترمذی ، ابو داؤد و ، نسائی ، ابن ماجہ ، بن ابی حتم ، ابن جریر ) ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الدعاء مخ العبادۃ ، دعا مغز عبادت ہے ( ترمذی ) ۔ حضرت ابوہریرہ فرمانے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا من لم یسأل اللہ یغضب علیہ ، جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے ۔ ( ترمذی ) اس مقام پر پہنچ کر وہ عقدہ بھی حل ہو جاتا ہے جو بہت سے ذہنوں میں اکثر الجھن ڈالتا رہتا ہے ۔ لوگ دعا کے معاملے پر اس طرح سوچتے ہیں کہ جب تقدیر کی برائی اور بھلائی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ اپنی غالب حکمت و مصلحت کے لحاظ سے جو فیصلہ کر چکا ہے وہی کچھ لازماً رونما ہو کر رہنا ہے تو پھر ہمارے دعا مانگنے کا حاصل کیا ہے ۔ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جو آدمی کے دل سے دعا کی ساری اہمیت نکال دیتی ہے ، اور اس باطل خیال میں مبتلا رہتے ہوئے اگر آدمی دعا مانگے بھی تو اس کی دعا میں کوئی روح باقی نہیں رہتی ۔ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت اس غلط فہمی کو دو طریقوں سے رفع کرتی ہے ۔ اولاً ، اللہ تعالیٰ بالفاظ صریح فرما رہا ہے کہ مجھے پکارو ، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا اس سے صاف معلوم ہوا کہ قضا اور تقدیر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس نے ہماری طرح معاذاللہ ، خود اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھی باندھ دیے ہوں اور دعا قبول کرنے کے اختیارات اس سے سلب ہو گئے ہوں ۔ بندے تو بلا شبہ اللہ کے فیصلوں کو ٹالنے یا بدل دینے کی طاقت نہیں رکھتے ، مگر اللہ تعالیٰ خود یہ طاقت ضرور رکھتا ہے کہ کسی بندے کی دعائیں اور التجائیں سن کر اپنا فیصلہ بدل دے ۔ دوسری بات جو اس آیت میں بیان کی گئ ہے وہ یہ ہے کہ دعا خواہ قبول ہو یا نہ ہو ، بہرحال ایک فائدے اور بہت بڑے فائدے سے وہ کسی صورت میں بھی خالی نہیں ہوتی ، اور وہ یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کر کے اور اس سے دعا مانگ کر اس کی آقائی و بالا دستی کا اعتراف اور اپنی بندگی و عاجزی کا اقرار کرتا ہے ۔ یہ اظہار عبودیت بجائے خود عبادت ، بلکہ جان عبادت ہے جس کے اجر سے بندہ کسی حال میں بھی محروم نہ رہے گا قطع نظر اس سے کہ وہ خاص چیز اس کو عطا کی جائے یا نہ کی جائے جس کے لیے اس نے دعا کی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ان دونوں مضامین کی بھی پوری وضاحت ہمیں مل جاتی ہے ۔ پہلے مضمون پر حسب ذیل احادیث روشنی ڈالتی ہیں : حضرت سلمان فارسی کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا یرد القضاءَ الا الدعاء ( ترمذی ) ۔ قضا کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی مگر دعا ۔ یعنی اللہ کے فیصلے کو بدل دینے کی طاقت کسی میں نہیں ہے ، مگر اللہ خود اپنا فیصلہ بدل سکتا ہے ، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب بندہ اس سے دعا مانگتا ہے ۔ حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ما من احد یدعو بدعاءٍ الّا اٰتاہ اللہ ما سأل او کف عنہ من السوء مثلہ مالم یدع باثمٍ او قطیعۃ رحمٍ ( ترمذی ) ۔ آدمی جب کبھی اللہ سے دعا مانگتا ہے ، اللہ اسے یا تو وہی چیز دیتا ہے جس کی اس نے دعا کی تھی یا اسی درجے کی کوئی بلا اس پر آنے سے روک دیتا ہے ، بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے ۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک دوسری حدیث میں ہے جو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ۔ اس میں آپ کا ارشاد یہ ہے کہ ما من مسلم یدعو بدعوۃٍ لیس فیھا اثم ولا قطیعۃ رحمٍ الا اعطاہ اللہ احدیٰ ثلٰث ، اما ان یعجل لہ دعوتہ ، و اما ان یَدَّخِرھا لہ فی الاٰخرۃ واما ان یصرف عنہ من السوء مثلھا ( مسند احمد ) ایک مسلمان جب بھی کوئی دعا مانگتا ہے ، بشرطیکہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو ، تو اللہ تعالیٰ اسے تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں قبول فرماتا ہے ۔ یا تو اس کی وہ دعا اسی دنیا میں قبول کر لی جاتی ہے ۔ یا اسے آخرت میں اجر دینے کے لیے محفوظ رکھ لیا جاتا ہے ۔ یا اسی درجہ کی کسی آفت کو اس پر آنے سے روک دیا جاتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اذا دعا احدکم فلا یقل اللھم اغفرلی ان شئت ، ارحمنی ان شئت ، ارزقنی ان شئت ، وَلْیَعْزِم مسئلتہ ( بخاری ) ۔ جب تم میں سے کوئی شخص دعا مانگے تو یوں نہ کہے کہ خدایا مجھے بخش دے اگر تو چاہے ، مجھ پر رحم کر اگر تو چاہے ، مجھے رزق دے اگر تو چاہے ، بلکہ اسے قطعیت کے ساتھ کہنا چاہیے کہ خدایا میری فلاں حاجت پوری کر ۔ دوسری روایت حضرت ابو ہریرہ ہی سے ان الفاظ میں آئی ہے کہ آپ نے فرمایا ادعوا اللہ وانتم موقنون بالاجابۃ ( ترمذی ) اللہ سے دعا مانگو اس یقین کے ساتھ کہ وہ قبول فرمائے گا ۔ ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ : یستجاب للعبد مالم یدعُ باثم او قطیعۃ رحم مالم یستعجل ، قیل یا رسول اللہ ما الاستعجال؟ قال یقول قد دعوت وقد دعوت فلم اَرَ یُستجاب لی فیستحسر عند ذٰلک ویدع الدعاء ( مسلم ) ۔ بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے ، اور جلد بازی سے کام نہ لے ۔ عرض کیا گیا جلد بازی کیا ہے یا رسول اللہ؟ فرمایا جلد بازی یہ ہے کہ آدمی کہے میں نے بہت دعا کی ، مگر میں دیکھتا ہوں کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی ، اور یہ کہہ کر آدمی تھک جائے اور دعا مانگنی چھوڑ دے ۔ دوسرے مضمون کو حسب ذیل احادیث واضح کرتی ہیں : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیس شئ اکرم علی اللہ من الدعاء ( ترمذی ۔ ابن ماجہ ) اللہ کی نگاہ میں دعا سے بڑھ کر کوئی چیز با وقعت نہیں ہے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سلوا اللہ من فضلہ فان اللہ یحبّ ان یسأل ( ترمذی ) ۔ اللہ سے اس کا فضل مانگو کیونکہ اللہ اسے پسند فرماتا ہے کہ اس سے مانگا جائے ۔ حضرت ابن عمر اور حضرت مُعاذ بن جَبَل کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان الدعاء ینفع ممّا نزل و ممّا لم ینزل فعلیکم عباد اللہ بالدعاء ( ترمذی ۔ مسند احمد ) دعا بہرحال نافع ہے ان بلاؤں کے معاملے میں بھی جو نازل ہو چکی ہیں اور انکے معاملے میں بھی جو نازل نہیں ہوئیں ۔ پس اے بندگان خدا تم ضرور دعا مانگا کرو ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یسأل احدکم ربہ حاجتہ کلّہ حتیٰ یسأل شسع نعلہ اذا انقطع ( ترمذی ) تم میں سے ہر شخص کو اپنی حاجت خدا سے مانگنی چاہیے ، حتیٰ کہ اگر اس کی جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو خدا سے دعا کرے ۔ یعنی جو معاملات بظاہر آدمی کو اپنے اختیار میں محسوس ہوتے ہیں ان میں بھی تدبیر کرنے سے پہلے اسے خدا سے مدد مانگنی چاہیے ، اس لیے کہ کسی معاملے میں بھی ہماری کوئی تدبیر خدا کی توفیق و تائید کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی ، اور تدبیر سے پہلے دعا کے معنی یہ ہیں کہ بندہ ہر وقت اپنی عاجزی اور خدا کی بالا دستی کا اعتراف کر رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 دعا کے اصل معنی پکارنا ہیں۔ قرآن میں عموماً عبادت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( الدعا ھوا العبادۃ) کہ دعا عبادت ہی ہے اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ بعض روایات میں دعا کو ( افضل العبادۃ) یا ( مح العبادۃ) بھی فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے دعا کرنا دراصل اپنی عبودیت کا اقرار کرنا ہے اور حدیث ہے جو اللہ سے دعا نہیں کرتا اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔ (شوکانی)12 شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” بندگی کی شرط ہے اپنے رب سے مانگا، نہ مانگنا غرور ہے۔ اگر دنیا نہ مانگے تو مغفرت ہی مانگے۔ ( موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ حاصل یہ ہوا کہ جو لوگ توحید سے اعراض کر کے شرک کرتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اندھے پن سے نجات اور قیامت کی ہولناکیوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ صرف ایک رب کی عبادت کی جائے۔ اور صرف اسی سے دعائیں کی جائیں۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کی اکثریت ہمیشہ ایسی رہی ہے جو اپنے رب کی عبادت کرنے اور صرف اسی سے مانگنے کی بجائے بتوں، دیوتاؤں، جنّات اور فوت شدہ بزرگوں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی اور ہستی سے مانگنا اپنے رب کے ساتھ تکبّر کرنا ہے۔ کیونکہ اس کا حکم ہے کہ لوگو ! صرف مجھ ہی سے مانگا کرو۔ میں ہی تمہاری دعاؤں کو قبول کرتا ہوں۔ جو لوگ للہ تعالیٰ سے اس کے حکم کے مطابق نہیں مانگتے وہ متکبر ہیں۔ اس کا فرمان ہے کہ عنقریب میں متکبرین کو جہنم میں ذلیل کروں گا۔ اس آیت کریمہ میں ہمارے رب کا حکم ہے کہ لوگو ! دعا مجھ ہی سے کیا کرو۔ پھر اس دعا کو عبادت قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں ” اُدْعُوْا “ کو تین معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ دعا بمعنٰی عبادت : (وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِےْنَ ےَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَےَدْ خُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِےْنَ ) [ المومن : ٦٠] ” تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے بےپرواہی کرتے ہیں ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ “ دعا کا معنی مدد طلب کرنا : (وَادْعُوْا شُھَدَاٰءَ کُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ إِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِےْنَ ) [ البقرۃ : ٢٣] ” اللہ کے بغیر اپنے مدد گاروں سے مدد مانگو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ “ دعا اور پکار : (وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا ےَنْفَعُکَ وَلَا ےَضُرُّکَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذًا مِّنَ الظّٰلِمِےْنَ ) [ یونس : ١٠٦] ” اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا۔ “ دعا اور عقیدہ : انسان جس سے مانگتا ہے اس کے بارے میں تین باتوں میں سے کوئی ایک بات اس کے سامنے ضرور ہوتی ہے۔ وہ مجھے دیکھتا ہے، میری فریاد کو سنتا ہے اور میری مدد کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اوصاف اور قدرت رکھنے والاتو صرف ایک ” اللہ “ ہے۔ لہٰذا جو شخص ان میں کسی ایک بات کے بارے میں عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ خوبی فلاں بزرگ، فرشتے، جن یا کسی اور میں بھی پائی جاتی ہے۔ تو وہ صرف شرک ہی نہیں کرتا بلکہ کفر کا مرتکب بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ ان میں کوئی خوبی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی میں حقیقی طور پر نہیں پائی جاتی۔ ( اَلدُّعَاءُ ہُوَ الْْعِبَادَۃُ ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلوۃ، باب الدعاء ] ” دعا عبادت ہے۔ “ (رُوْحُ الدُّعَاءِ اَنْ یَّرٰی کُلَّ حَوْلٍ وَقُوَّۃٍ مِنَ اللّٰہِ وَےَصِےْرُ کَالْمَےِّتِ فِیْ ےَدِ الْغُسَّالِ ) [ حجۃ اللّٰہ البالغۃ ] ” دعا کی روح یہ ہے کہ دعا کرنے والا ہر قسم کی طاقت وقوت کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تصور کرے اور اس کی قوت و عظمت کے سامنے اپنے آپ کو اس میت کی طرح سمجھے جو نہلانے والے کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا کو قبول کرتا ہوں۔ ٢۔ جو لوگ صرف ایک رب سے نہیں مانگتے وہ تکبر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو جہنم میں داخل کریگا۔ تفسیر بالقرآن دعا کے بارے میں ہدایات : ١۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مجھ سے مانگو۔ ( المؤمن : ٦٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ ( ق : ١٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں اپنے بندوں کے قریب ہوں اور ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہوں۔ ( البقرۃ : ١٨٦) ٤۔ اے لوگو ! تم محتاج ہو اور اللہ تعالیٰ غنی ہے۔ ( فاطر : ١٥) ٥۔ ہمارے رب ہم نے ایمان کی دعوت قبول کی تو ہماری خطاؤں کو معاف فرما۔ (آل عمران : ١٩٣ ) ٦۔ اے رب ہمارے ! ہمیں اور ہمارے مومن بھائیوں کو معاف فرما۔ (الحشر : ١٠) ٧۔ جب طالوت اور جالوت کے لشکر بالمقابل ہوئے تو انھوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ہم پر صبر نازل فرما اور ہمیں ثابت قدم فرما اور کافروں کی قوم پر ہماری مدد فرما۔ (البقرۃ : ٢٥٠) ٨۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب بیشک ہم ایمان لائے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ (آل عمران : ١٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعا کرنے کا حکم اور قبول فرمانے کا وعدہ اس آیت کریمہ میں حکم فرمایا ہے کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا یہ اللہ تعالیٰ شانہٗ کا بہت بڑا انعام اور احسان ہے کہ بندوں کو اپنی ذات عالی سے مانگنے کی اجازت دے دی اور پھر قبول کرنے کا وعدہ بھی فرمالیا دعا مانگنے میں جو کیف ہے اسے وہی بندے جانتے ہیں جو دعا کے طریقہ پر دعا کرتے ہیں دعا سراپا عبادت ہے جیسا کہ آیت کے ختم پر فرمایا (اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ ) بیشک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں (یعنی دعا سے منہ موڑتے ہیں) وہ عنقریب ذلیل ہونے کی حالت میں جہنم میں داخل ہوں گے۔ دعاء کی ضرورت اور فضیلت حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ الدعاء مخ العبادۃ (مشکوٰۃ المصابیح ص ١٩٤) کہ دعاء عبادت کا مغز ہے چھلکے کے اندر جو اصل چیز ہوتی ہے اسے مغز کہتے ہیں اور اسی مغز کے دام ہوتے ہیں اگر بادام کو پھوڑو تو اس میں سے گری نکلتی ہے اسی گری کی اصل قیمت ہوتی ہے اگر چھلکوں کے اندر گری نہ ہو تو بادام بےدام ہوجاتے ہیں عبادتیں بہت سی ہیں اور دعا بھی ایک عبادت ہے لیکن یہ ایک بہت بڑی عبادت ہے عبادت ہی نہیں عبادت کا مغز ہے اور اصل عبادت ہے عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ کے حضور میں بندہ اپنی عاجزی اور ذلت پیش کرے اور خشوع و خضوع یعنی ظاہر اور باطن کے جھکاؤ کے ساتھ بارگاہ بےنیاز میں پوری نیاز مندی کے ساتھ حاضر ہو اور چونکہ یہ عاجزی والی حضوری دعا میں سب عبادتوں سے زیادہ پائی جاتی ہے اس لیے دعا کو عین عبادت اور عبادت کا مغز فرمایا دعا کرتے وقت بندہ اپنی عاجزی اور حاجت مندی کا اقرار کرتا ہے اور سراپا نیاز ہو کر بارگاہ خداوندی میں اپنی حاجت پیش کرکے للچاتا اور للکتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ صرف اللہ ہی دینے والا ہے وہ داتا ہے اس کے سوا کوئی دینے والا نہیں ہے وہ قادر ہے کریم ہے جتنا چاہے دے سکتا ہے اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے وہ بےنیاز ہے اس کو کسی چیز کی حاجت نہیں ہے اور مخلوق سراسر عاجز اور محتاج ہے جب اپنے اس یقین کے ساتھ قادر وقیوم کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلا کر سوال کرتا ہے تو اس کا یہ شغل سراپا عبادت بن جاتا ہے اور یہ دعا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا مندی کا سبب بن جاتی ہے اس کے برعکس جو شخص دعا سے گریز کرتا ہے وہ اپنی حاجت مندی کے اقرار کو خلاف شان سمجھتا ہے چونکہ اس کے اس طرز عمل میں تکبر ہے اور اپنی بےنیازی کا دعویٰ ہے اس لیے اللہ جل شانہٗ اس سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ چونکہ دعا عبادت ہی عبادت ہے اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا لَیْسَ شَیٌ اَکْرَمُ عَلَی اللّٰہِ مِنَ الدُّعَاءِ (مشکوٰۃ المصایح ص ١٩٤ عن الترمذی) کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے بڑھ کر کوئی چیز بزرگ و برتر نہیں ہے۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا ہے : مَنْ لَمْ یَسْءَلِ اللّٰہَ یَغْضَبُ عَلَیْہِ (مشکوٰۃ المصابیح ١٩٥) جو شخص اللہ سے سوال نہیں کرتا اللہ اس سے ناراض ہوجاتا ہے۔ ) انسان اپنی بھلائی اور بہتری کے لیے جتنی تدبیریں کرتا ہے اور دکھ تکلیف نقصان اور ضرر سے بچنے کے لیے جتنے طریقے سوچتا ہے ان میں سب سے زیادہ کامیاب اور آسان اور موثر طریقہ دعا کرنا ہے نہ ہاتھ پاؤں کی محنت نہ مال کا خرچہ، بس دل کو حاضر کرکے دعا کرلی جائے، غریب امیر، بیمار اور صحت مند، مسافر اور مقیم بوڑھا اور جوان مرد ہو یا عورت مجمع ہو یا تنہائی ہر شخص دعا کرسکتا ہے حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ لا تعجزوا فی الدعاء فانہ لن یھلک مع الدعاء احد (الترغیب والترہیب اللحافظ المنذری) (دعا کے بارے میں عاجز نہ بنو کیونکہ دعا کے ساتھ ہوتے ہوئے ہرگز کوئی شخص ہلاک نہ ہوگا۔ ) جو لوگ دعا سے غافل ہوتے ہیں گویا اپنے کو اللہ تعالیٰ کا محتاج نہیں سمجھتے اور ان سے بڑھ کر وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خناس گھسا ہوا ہے وہ دعا کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ایسے لوگوں کے بارے میں آیت بالا میں فرمایا کہ جو لوگ میری عبادت سے یعنی مجھ سے دعا کرنے میں اپنی ذلت محسوس کرتے ہیں اور دعا نہ کرنے میں اپنی شان سمجھتے ہیں، ایسے لوگ ذلت کی حالت میں جہنم میں داخل ہوں گے لوگوں کا یہ طریقہ رہ گیا ہے کہ دنیاوی اسباب ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اگر دعا کرتے بھی ہیں تو بس ذرا نام کو ہاتھ اٹھا لیتے ہیں نہ دل حاضر نہ آداب دعا کا خیال، ہاتھ اٹھائے اور منہ پر پھیر لیے، یہ بھی پتہ نہیں کہ زبان سے کیا کلمات نکلے اور کیا دعا مانگی، فضائل دعا کے بارے میں ہم نے مستقل کتاب لکھ دی ہے اس کا مطالعہ کرلیا جائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

62:َ ” وقال ربکم “ یہ دعوائے سورت کا دوسری بار ذکر ہے، تمہارے پروردگار کا اعلان عام ہے میرے بندو ! مصائب وحاجات میں مافوق الاسباب صرف مجھے ہی پکارو، اگر میں چاہوں گا تو تمہاری دعا کو قبول کرلوں گا۔ ” استجب لکم ان شئت “ جیسا کہ دوسری جگہ ہے ” عجلنا فیہا ما نشاء لمن نرید “ (بنی اسرائیل رکوع 2) ۔ نیز فرمایا ” ویکشف ا تدعون الیہ ان شاء “ (انعام رکوع 4) ۔ یا مطلب یہ ہوگا کہ تم مجھے پکارو، تمہاری دعائیں قبول کرنے کی طاقت مجھ ہی میں ہے میرے سوا کوئی دعاء اور پکار کو نہ سن سکتا ہے، نہ قبول کرسکتا ہے۔ ” ان الذین یستکبرون جو لوگ صرف مجھے ہی پکارنے سے استکبار کرتے ہیں، صرف مجھے ہی پکارنے پر اکتفا نہیں کرتے اور میرے سوا اوروں کو بھی پکارتے ہیں وہ لامحالہ ذلیل ورسواہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ عبادت کے معنی یہاں دعا اور پکار کے ہیں کیونکہ دعا عبادت کا مغز ہے۔ عن عبادتی عن دعائی والدعاء مخ العبادۃ (جامع البیان ص 407) ای عن دعائی و توحیدی (ابن کثیر ج 4 ص 86) ۔ حضرت نعمان بن بشیر (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان الدعاء ھو العبادۃ اس کے بعد آپ نے بطور استدلال یہی آیت تلاوت فرمائی۔ ” وقال ربکم ادعونی الایۃ “۔ اس حدیث کی ائمہ حدیث و تفسیر ابن جریر، ابو داوٗد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ، ابن ابی حاتم نے تخریج کی ہے (ابن کثیر) ۔ اسی طرح حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الدعاء مخ العبادۃ (خازن ج 6 ص 101) بحوالہ ترمذی۔ دعاء عبادت کا مغز ہے اور اس کا اعلی ترین فرد ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(60) اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے مجھ سے دعا مانگو مجھ کو پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور تمہاری پکار کو پہنچوں گا بلا شبہ جو لوگ میری عبادت سے سرتابی اور غور و فکر وتکبر کا برتائو کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں ذلیل ہوکر داخل ہوں گے وہ بہت جلد مرنے کے بعد جہنم میں داخل ہوں گے درآنحالیکہ وہ ذلیل ہوں گے حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں بندگی کی شرط ہے اپنے رب سے مانگنا نہ مانگنا غرور ہے اگر دنیا نہ مانگے تو مغفرت ہی مانگے اور اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پکار کو پہنچتا ہے سو برحق بات یہ ہے مگر یہ نہیں کہ ہر بندے کی ہر دعا قبول کرے اپنی مرضی کے موافق مالک ہے اپنی خوشی کرتا ہے۔ عبادت میں دعا بھی شامل ہے اس لئے دعا کو فرمایا اور آخر میں عبادت کے استکبار کو جہنم میں داخل ہونے کا سبب بتایا، مدعا یہ ہے کہ دعا سوائے اس کے کسی سے نہیں مانگنی چاہیے جس طرح عبادت غیر اللہ کی حرام ہے اسی طرح دعا بھی ہے اللہ تعالیٰ استجابت فرماتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ استجابت کے مختلف طریقے ہیں جیسا کہ ہم سوروہ بقر کی تسہیل میں تفصیلاً عرض کرچکے ہیں اور سورة انعام میں اشارہ کرچکے ہیں فکشف ماتدعون الیہ ان شآء مشیت الٰہی پر دعا کی قبولیت موقوف ہے بعض دفعہ مانگنے والے کے حق میں بھی وہ قبولیت مضر ہوتی ہے بعض دعا کے اثر کو آخرت کے لئے ذخیرہ بنادیا جاتا ہے اس لئے قبولیت کا اظہار مشیت پر موقوف رکھا ہے۔ حضرات مفسرین نے فرمایا ادعونی وحدونی واعبدونی جو عبادت کا منحرف ہے وہ دعا کا بھی منحرف ہے اور دعا سے پھرنے والا عبادت سے پھرنے والا دعاکو دعا کے طریقے سے مانگاجائے تو قبولیت ضروری ہے ہم نے اپنی کا ب مشکل کشا میں شاید اس پر بحث کی ہے کسی نے خوب کہا ہے ؎ برآستان ارادت کہ سرنہاد شبے کہ لطف دوست بردیش دریچہ نکشود عارف شیرازی فرماتے ہیں : ؎ عاشق کہ شد کی یار بحالش نظر نہ کرو اے خواجہ درد نیست وگرنہ طبیب ہست