Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 63

سورة مومن

کَذٰلِکَ یُؤۡفَکُ الَّذِیۡنَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجۡحَدُوۡنَ ﴿۶۳﴾

Thus were those [before you] deluded who were rejecting the signs of Allah .

اسی طرح وہ لوگ بھی پھیرے جاتے رہے جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Thus were turned away those who used to deny the Ayat of Allah. means, just as these people (Quraysh) were led astray by their worship of gods other than Allah, those who came before them also disbelieved and worshipped others, with no proof or evidence, but on the basis of ignorance and desires. They denied the signs and proof of Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

کذلک یوفک الذین کانوا …: اگرچہ ” افک “ کا معنی جھوٹ اور بہتان بھی ہے، مگر یہاں ” افک بافک افکا “ (ض) (ہمزہ کے فتح کے ساتھ) سے ہے، جس کا معنی ” پھیرنا “ ہے، جیسا کہ سورة احقاف میں ہے :(قالوا اجنتنا لتافکنا عن الھتنا فاتنا بما تعدناً ان کنت من الصدیقین) (الاحقاف : ٢٢)” انہوں نے کہا کیا تو ہمارے پاس اس لئے آیا ہے کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے ہٹا دے، سو ہم پر وہ (عذاب) لے آجس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے، اگر تو سچوں سے ہے۔ “ (کانوا بایت اللہ یجحدون “ میں ” کان “ کی وجہ سے استمرار ہے، اس لئے ترجمہ کیا گیا ہے :” ال ہیک آیات کا انکار کیا کرتے تھے۔ “” جحد یجحد جحوداً “ (ف) جاننے کے باوجود انکار کردینا۔ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اتنے واضح دلائل کے باوجود آخر ان لوگوں کے حق سے انحراف کا اصل باعث کیا ہے اور یہ کہ ان سے پہلے بھی کسی نے یہ روش اختیار کی ہے یا یہ صرف انھی کا کام ہے ؟ فرمایا : یہ لوگ ہی نہیں بلکہ ان سے پہلے وہ سب لوگ بھی انھی کی طرح حق سے پھیر دیئے جاتے رہے ہیں جو علم کے باوجود اللہ کی آیات کا ضد اور عناد کی وجہ سے انکار کردیا کرتے تھے۔ تکبر و جحود ان کی بیماری ہے، یہی بیماری پہلوں کی بھی تھی۔ اب جو طے کرلے کہ اس نے ماننا ہی نہیں، اسے کون منوائے ؟ جس طرح سوئے ہوئے کہ تو جگا یا جاسکتا ہے ، لیکن جو جاگتا ہونے کے باوجود آنکھیں بند کرنے پر ڈٹ جائے اسے کون جگائے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَذٰلِكَ يُؤْفَكُ الَّذِيْنَ كَانُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ يَجْحَدُوْنَ۝ ٦٣ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ جحد الجُحُود : نفي ما في القلب إثباته، وإثبات ما في القلب نفيه، يقال : جَحَدَ جُحُوداً وجَحْداً قال عزّ وجل : وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] ، وقال عزّ وجل : بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] . وتَجَحَّدَ تَخَصَّصَ بفعل ذلك، يقال : رجل جَحِدٌ: شحیح قلیل الخیر يظهر الفقر، وأرض جَحْدَة : قلیلة النبت، يقال : جَحَداً له ونَكَداً ، وأَجْحَدَ : صار ذا جحد . ( ج ح د ) حجد ( ف ) جحد وجحودا ( رجان بوجھ کر انکار کردینا ) معنی دل میں جس چیز کا اقرار ہو اس کا انکار اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] اور ان سے انکار کیا کہ انکے دل انکو مان چکے تھے بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] اور ہماری آیتوں سے منکر ہورہے تھے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ رجل جحد یعنی کنجوس اور قلیل الخیر آدمی جو فقر کو ظاہر کرے ۔ ارض جحدۃ خشک زمین جس میں روئید گی نہ ہو ۔ محاورہ ہے : ۔ اسے خبر حاصل نہ ہو ۔ اجحد ۔ ( افعال ، انکار کرنا ۔ منکر ہونا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اسی طرح وہ لوگ جھوٹ باندھتے ہیں جو رسول اکرم اور قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٣ { کَذٰلِکَ یُؤْفَکُ الَّذِیْنَ کَانُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ } ” اسی طرح وہ لوگ بھی الٹے پھرائے گئے تھے جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

88 That is, "In every age the common people have been deluded by the misguides only because the people did not believe in the Revelations that Allah sent down through His Messengers to make them understand the Truth. Consequently; they were trapped by the selfish, dishonest people, who had set up shrines of false gods as a business. "

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :88 یعنی ہر زمانے میں عوام الناس صرف اس وجہ سے ان بہکانے والوں کے فریب میں آتے رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے حقیقت سمجھانے کے لیے جو آیات نازل کیں ، لوگوں نے ان کو نہ مانا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ان خود غرض فریبیوں کے جال میں پھنس گئے جو اپنی دکان چمکانے کے لیے جعلی خداؤں کے آستانے بنائے بیٹھے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:63) کذلک۔ اسی طرح : (یعنی کفار مکہ کی طرح) یجدون : مضارع جمع مذکر غائب جحد وجحود مصدر (باب فتح) وہ انکار کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اس میں ایک گونہ آپ کی تسلی بھی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

64:۔ ” اللہ الذی “ یہ دوسری عقلی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار اور آسمان کو چھت بنا دیا اور تمہیں نہایت ہی ھسین و جمیل شکل و صورت میں پیدا فرمایا اور تمہیں نہایت عمدہ اور پکایزہ چیزوں سے تمہیں روزی عطا فرمائی۔ ” ذلکم اللہ ربکم “ یہ دلیل ثانی کا ثمرہ ہے۔ یہ اللہ جو صفات بالا سے متصف ہے وہی تمہارا رب اور کارساز ہے۔ کیسا عالیشان ہے وہ اللہ برکات دہندہ، جگ داتا، سارے جہانوں کا پروردگار۔ ” ھو الحی الخ “ اس کے علاوہ وہ زندہ جاوید ہے اس پر کبھی موت نہیں آئے گی اس کے سوا کوئی معبود اور کارساز نہیں۔ ” فادعواہ مخلصین لہ الدین “ یہ تیسری بار دعوائے سورت کا ذکر ہے۔ فاء فصیحہ ہے جب وہ زندہ جاوید ہے اور اس کے سوا کوئی معبود اور کارساز نہیں تو پھر مصائب و حاجات میں صرف اسی کو پکارو اور اس کی پکار میں کسی کو شریک نہ کرو۔ ” الحمد للہ رب العالمین “ یہ ماقبل کی دلیل ہے صرف اسی کو پکارو، اس لیے کہ تمام صفات کارسازی اسی کے ساتھ مختص ہیں اور وہ سارے جہانوں کا پروردگار اور مربی ہے۔ یہانتک سورت کا پہلا حصہ ختم ہوا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(63) جس طرح یہ لوگ پھرے جارہے ہیں اسی طرح وہ لوگ پھیر دیئے جاتے ہیں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔ یعنی جس طرح یہ کفار عرب راہ حق سے پھرے جارہے ہیں اسی طرح سب معاندین کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے خواہ وہ لوگ ان سے پہلے ہوچکے ہوں یا ان کے بعد ہوں جو شخص ازراہ عناد اور سرکشی اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ان کے دل راہ حق سے پھر دیئے جاتے ہیں کیونکہ دستور اللہ تعالیٰ کا یہی ہے بعض حضرات نے صرف قبل کے لوگ مراد لئے ہیں لیکن بعض حضرات نے پہلے اور پچھلے سب کے لئے آیت کو عامرکھا ہے یعنی وہ کسی زمانے کے لوگ ہوں جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کیا تو ان کو راہ حق سے پھیر دیا گیا۔