Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 71

سورة مومن

اِذِ الۡاَغۡلٰلُ فِیۡۤ اَعۡنَاقِہِمۡ وَ السَّلٰسِلُ ؕ یُسۡحَبُوۡنَ ﴿ۙ۷۱﴾

When the shackles are around their necks and the chains; they will be dragged

جب کہ ان کی گردنوں میں طوق ہونگے اور زنجیریں ہوں گی گھسیٹے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِذِ الاَْغْلَلُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَسِلُ ... When iron collars will be rounded over their necks, and the chains. means, the chains will be attached to the iron collars, and the keepers of Hell will drag them along on their faces, sometimes to the boiling water, and sometimes to the Fire. Allah says: ... يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 یہ وہ نقشہ ہے جو جہنم میں ان مکذبین کا ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٤] یعنی ایسے اہل دوزخ مشرکوں کو جب پیاس لگے گی تو فرشتے ان کو گھسیٹتے ہوئے ایسے مقام پر لے جائیں گے جہاں گرم پانی کے چشمے ابل رہے ہوں گے۔ انہیں وہاں سے گرم پانی پلانے کے بعد پھر اپنے اصل مقام پر لاکر دوزخ میں جھونک دیا جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) اذ الاغلل فی اعناقھم …:” الاغلل “” غل “ (غین کے ضمہ کے ساتھ) کی جمع ہے، طوق۔ ’ السلسل “” سلسلۃ “ کی جمع ہے، زنجیریں۔ ان آیات کی تفسیر کیلئے دیکھیے سورة رعد (٥) ۔ (٢) ” یسحبون “ ” سحب یسحب سحباً “ (ف) گھسیٹ کرلے جانا۔ ” یسجرون “” سجر یسجر سجراً “ (ن) ” التنور “ تنور میں ایندھن جھونکنا۔ یعنی اللہ کی آیات کو جھٹلانے اور ان کے بارے میں کج بحثی کرنے والے ان کفار کو جب پیاس لگے گی تو فرشتے انہیں گھسیٹتے ہوئے اس جگہ لے جائیں گے جہاں شدید گرم پانی ابل رہا ہوگا۔ وہاں سے گرم پانی پلانے کے بعد انہیں پھر ان کی اصل جگہ جہنم میں ایندھن کی طرح جھونک دیا جائے گا۔ دیکھیے سورة صافات (٦٦ تا ٦٨) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذِ الْاَغْلٰلُ فِيْٓ اَعْنَاقِہِمْ وَالسَّلٰسِلُ۝ ٠ ۭ يُسْحَبُوْنَ۝ ٧١ۙ غل الغَلَلُ أصله : تدرّع الشیء وتوسّطه، ومنه : الغَلَلُ للماء الجاري بين الشّجر، وقد يقال له : الغیل، وانْغَلَّ فيما بين الشّجر : دخل فيه، فَالْغُلُّ مختصّ بما يقيّد به فيجعل الأعضاء وسطه، وجمعه أَغْلَالٌ ، وغُلَّ فلان : قيّد به . قال تعالی: خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة/ 30] ، وقال : إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر/ 71] ( غ ل ل ) الغلل کے اصل معنی کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان میں چلے جانے کے ہیں اسی سے غلل اس پانی کو کہا جاتا ہے جو درختوں کے درمیان سے بہہ رہا ہو اور کبھی ایسے پانی کو غیل بھی کہہ دیتے ہیں اور الغل کے معنی درختوں کے درمیان میں داخل ہونے کے ہیں لہذا غل ( طوق ) خاص کر اس چیز کو کہا جاتا ہے ۔ جس سے کسی کے اعضار کو جکڑ کر اس کے دسط میں باندھ دیا جاتا ہے اس کی جمع اغلال اتی ہے اور غل فلان کے معنی ہیں اے طوق سے باندھ دیا گیا قرآن میں ہے : خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة/ 30] اسے پکڑ لو اور طوق پہنادو ۔ إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر/ 71] جب کہ ان لی گردنوں میں طوق ہوں گے ۔ عنق العُنُقُ : الجارحة، وجمعه أَعْنَاقٌ. قال تعالی: وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ( ع ن ق ) العنق ۔ گردن جمع اعناق ۔ قرآن میں ہے : وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء/اور ہم نے پر انسان کے اعمال کو ( یہ صورت کتاب ) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ سل سَلُّ الشیء من الشیء : نزعه، كسلّ السّيف من الغمد، وسَلُّ الشیء من البیت علی سبیل السّرقة، وسَلُّ الولد من الأب، ومنه قيل للولد : سَلِيلٌ. قال تعالی: يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، وقوله تعالی: مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ [ المؤمنون/ 12] ، أي : من الصّفو الذي يُسَلُّ من الأرض، وقیل : السُّلَالَةُ كناية عن النطفة تصوّر دونه صفو ما يحصل منه . والسُّلُّ «1» : مرض ينزع به اللّحم والقوّة، وقد أَسَلَّهُ الله، وقوله عليه السلام : «لا إِسْلَالَ ولا إغلال» «2» . وتَسَلْسَلَ الشیء اضطرب، كأنه تصوّر منه تَسَلُّلٌ متردّد، فردّد لفظه تنبيها علی تردّد معناه، ومنه السِّلْسِلَةُ ، قال تعالی: فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُها سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة/ 32] ، وقال تعالی: سَلاسِلَ وَأَغْلالًا وَسَعِيراً [ الإنسان/ 4] ، وقال : وَالسَّلاسِلُ يُسْحَبُونَ [ غافر/ 71] ، وروي : «يا عجبا لقوم يقادون إلى الجنّة بالسّلاسل» «3» . وماء سَلْسَلٌ: متردّد في مقرّه حتی صفا، قال الشاعر :۔ أشهى إليّ من الرّحيق السَّلْسَلِ «4» وقوله تعالی: سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، أي : سهلا لذیذا سلسا حدید الجرية، وقیل : هو اسم عين في الجنّة، وذکر بعضهم أنّ ذلک مركّب من قولهم : سل سبیلا «5» ، نحو : الحوقلةوالبسملة ونحوهما من الألفاظ المرکّبة، وقیل : بل هو اسم لكلّ عين سریع الجرية، وأسلة اللّسان : الطّرف الرّقيق . ( س ل ل ) سل ( ن ) الشی من الشی کے معنی ایک چیز کے دوسری سے کھینچ لینے کے ہیں جیسے تلوار کا نیام سے سونتنا ۔ یا گھر سے کوئی چیز چوری کھسکا لینا ۔ قرآن میں ہے ۔ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ۔ اسی مناسبت سے باپ کے نطفہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے : ۔ جیسے فرمایا :۔ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ [ المؤمنون/ 12] خلاصے سے ( یعنی ) حقیر پانی سے پیدا کی ۔ یعنی وہ ہر جوہر جو غذا کا خلاصہ ہوتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں بطور کنایہ نطفہ مراد ہے ۔ اور نطفہ پر اس کا اطلاق اس جوہر کے لحاظ سے ہے جس سے نطفہ بنتا ہے ۔ السل : سل کی بیماری کیونکہ یہ انسان سے گوشت اور قوت کو کھینچ لیتی ہے اور اسلہ اللہ کے معنی ہیں |" اللہ تعالیٰ نے اسے سل کی بیماری میں مبتلا کردیا |" ۔ حدیث میں ہے لا اسلال ولا اغلال کہ چوری اور خیانت نہیں ہے ۔ تسلسل الشئی کے معنی کسی چیز کے مضطرب ہونے کے ہیں گویا اس میں بار بار کھسک جانے کا تصور کر کے لفظ کو مکرر کردیا ہے تاکہ تکرار لفظ تکرار معنی پر دلالت کرے اسی سے سلسلۃ ہے جس کے معنی زنجیر کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُها سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة/ 32]( پھر ) زنجیر سے جس کی ناپ ستر گز ہے ( جکڑ دو ) ۔ سلسلہ کی جمع سلاسل آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَلاسِلَ وَأَغْلالًا وَسَعِيراً [ الإنسان/ 4] زنجیریں اور طوق اور دہکتی آگ ( تیار کر رکھی ہے ) وَالسَّلاسِلُ يُسْحَبُونَ [ غافر/ 71] اور زنجیر میں ہوں گی اور گھسیٹے جائیں گے ۔ ایک حدیث میں ہے «يا عجبا لقوم يقادون إلى الجنّة بالسّلاسل» اس قوم پر تعجب ہے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے جنت کی طرف کھینچنے جا رہے ہیں ۔ اور ماء سلسل اس پانی کو کہتے ہیں جو اپنی قرار گاہ میں مضطرب ہو کر صاف ہوجائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 232 ) أشهى إليّ من الرّحيق السَّلْسَلِ اور آیت سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] میں سلسبیل کے معنی تیزی سے بہتے ہوئے صاف لذیذ اور خوشگوار پانی کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ جنت کے ایک چشمہ کا نام ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ سل اور سبیل سے بنا ہے اور حوقلۃ و بسملۃ وغیرہ کی طرح الفاظ مرکبہ کے قبیل سے ہے ۔ بعض کا خیال ہے کہ ہر تیز رو چشمے کو سلسبیل کہا جاتا ہے ۔ اور زبان کے باریک سرے کو اسلۃ اللسان کہتے ہیں ۔ سحب أصل السَّحْبِ : الجرّ کسحب الذّيل، والإنسان علی الوجه، ومنه : السَّحَابُ ، إمّا لجرّ الرّيح له، أو لجرّه الماء، أو لانجراره في مرّه، قال تعالی: يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] ، وقال تعالی: يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر/ 71] ، وقیل : فلان يَتَسَحَّبُ علی فلان، کقولک : ينجرّ ، وذلک إذا تجرّأ عليه، والسَّحَابُ : الغیم فيها ماء أو لم يكن، ولهذا يقال : سحاب جهام «4» ، قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور/ 43] ، حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف/ 57] ، وقال : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] ، وقد يذكر لفظه ويراد به الظّلّ والظّلمة، علی طریق التّشبيه، قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] . ( س ح ب ) السحب اس کے اصل معنی کھینچنے کے ہیں ۔ چناچہ دامن زمین پر گھسیٹ کر چلنے یا کسی انسان کو منہ کے بل گھسیٹنے پر سحب کا لفظ بولا جاتا ہے اسی سے بادل کو سحاب کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ ہوا اسے کھینچ کرلے چلتی ہے اور یا اس بنا پر کہ وہ چلنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھسٹتا ہوا چل رہا ہے قرآن میں ہے :۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] جس دن ان کو انکے منہ کے بل ( دوزخ کی ) آگ میں گھسیٹا جائیگا ۔ اور فرمایا : يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر/ 71] انہیں دوزخ میں کھینچا جائے گا ۔ محاورہ ہے :۔ فلان یتسحب علی فلان : کہ فلاں اس پر جرات کرتا ہے ۔ جیسا کہ یتجرء علیہ کہا جاتا ہے ۔ السحاب ۔ ابر کو کہتے ہیں خواہ وہ پانی سے پر ہو یا خالی اس لئے خالی بادل کو سحاب جھام کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور/ 43] کیا تو نے غور نہیں کیا کہ اللہ بادل کو چلاتا ہے ۔ حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف/ 57] حتی کہ جب وہ بھاری بادل کو اٹھا لاتی ہیں ۔ وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور وہ بھاری بادل اٹھاتا ہے ۔ اور کبھی لفظ سحاب بول کر بطور تشبیہ کے اس سے سایہ اور تاریکی مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] یا ( ان کے اعمال کی مثال ) بڑے گہرے دریا کے اندورنی اندھیروں کی سی ہے کہ دریا کو لہر نے ڈھانپ رکھا ہے اور ( لہر بھی ایک نہیں بلکہ ) لہر کے اوپر لہر ان کے اوپر بادل ( کی تاریکی غرض اندھیرے ہیں ایک کے اوپر ایک ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧١۔ ٧٤) جبکہ لوہے کے طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے اور اس کے ساتھ ان کی گردنوں میں زنجیریں ہوں گی شیاطین بھی ان کے ساتھ ہوں گے ان کو گھسیٹ کر دوزخ میں ڈالا جائے گا پھر یہ آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔ پھر ان سے فرشتے کہیں گے کہ وہ تمہارے شریک کہاں گئے جن کو پوجتے تھے وہ کہیں گے کہ وہ شرکاء تو ہم سے غائب ہوگئے اور پھر خود ہی اس بات کے منکر ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ ہم تو اس سے پہلے اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں پوجتے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کفار کو دلیل سے گمراہ کردیتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ { اِذِ الْاَغْلٰلُ فِیْٓ اَعْنَاقِہِمْ وَالسَّلٰسِلُط یُسْحَبُوْنَ } ” جب ان کی گردنوں میں طوق پڑے ہوں گے اور وہ زنجیروں میں جکڑے ہوں گے ‘ (اس حالت میں ) انہیں گھسیٹا جائے گا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:71) آیات 71 و 72 میں وہ انجام و عاقبت کا بیان ہے جو مجادلت کرنے والوں اور تکذیب کرنے والوں کی ہوگی۔ اذ : اسم ظرف زمان ہے : اذ اصل واقعہ کے اعتبار سے تو زبان ماضی کا اور اذا زمان مستقبل کا ظرف ہے ۔ لیکن کبھی دوسرے زمانے کی نسبت بھی ان کی طرف واقع ہوجاتی ہے۔ یعنی اذ زمان مستقبل کے لئے اور اذا زمان ماضی کے لئے۔ یہاں اذ زمان مستقبل کا ظرف ہے۔ جب، جس وقت۔ الاغلال : غل کی جمع طوق، قیدیں، ہتھکڑیاں، بندھن، غل اس شئے کے ساتھ مخصوص ہے جس سے قید کیا جائے اور اس میں اعضاء باندھ دئیے جائیں۔ اذ الاغلال مبتدا ہے اور فی اعناقھم خبر ہے۔ والسلاسل واؤ عاطفہ ہے اور اس کا عطف الاغلال پر ہے۔ اور فی اعناقھم اس کی خبر ہے : ای الاغلال والسلاسل فی اعناقھم بندھن اور زنجیریں ان کی گردنوں میں ہونگی السلسلۃ زنجیر۔ یسبحون : مضارع مجہول جمع مذکر غائب سحب (باب فتح) مصدر۔ زمین پر گھسیٹنا۔ السحب کے اصل معنی کھینچنے کے ہیں چناچہ دامن زمین پر گھسیٹ کر چلنے یا کسی کو منہ کے بل گھسیٹنے پر سحب کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اسی سے بال کو سحاب کہا جاتا ہے یا تو اسلئے کہ ہوا اسے کھینچ کرلے جاتی ہے۔ یا اسلئے کہ وہ خود پانی کو کھینچ کر لاتا ہے اور یا اس بناء پر کہ وہ چلنے میں ایسا معلوم ہونا ہے کہ گھسٹتا ہوا چل رہا ہے یسبحون وہ گھسیٹے جائیں گے (فی الحمیم : کھولتے ہوئے پانی میں) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(71) جب ان کی گردنوں میں طوق اور زنجیریں ہوں گی گھسیٹے جارہے ہوں گے۔