Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 73

سورة مومن

ثُمَّ قِیۡلَ لَہُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ تُشۡرِکُوۡنَ ﴿ۙ۷۳﴾

Then it will be said to them, "Where is that which you used to associate [with Him in worship]

پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ جنہیں تم شریک کرتے تھے وہ کہاں ہیں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ثم قیل لھم این ماکنتم تشرکون من دون اللہ : پھر انہیں ذلیل کرنے کے لئے اور ان کے خود ساختہ مشکل کشاؤں اور حاجت رواؤں کی بےبسی واضح کرنے کے لئے ان سے کہا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ جنہیں تم اللہ کے سوا شریک بناتے تھیڈ اگر وہ واقعی شریک تھے اور تم اس لئے ان کی عبادت کرتے تھے کہ وہ مشکل وقت میں تمہاری دستگیری کریں گے تو لاؤ وہ کہاں ہیں، تمہاری مدد کیوں نہیں کر رہے ؟ (٢) قالوا صلوا عنا : یہ انسانی ضمیر کا اصل سچ ہے، اس کے مطابق پہلے وہ بےاختیار قرار کریں گے کہ وہ ہم سے گم ہوگئے ، نہ کہیں ملتے ہیں نہ دکھائی دیتے ہیں۔ (٣) بل لم نکن ندعوا من قبل شیاً پھر یہ سوچیں گے کہ یہ کہنا کہ وہ ہم سے گم ہوگئے ہیں، یہ تو اعراف ہے کہ واقعی ہم اللہ کے سوا کسی کو پکارتے رہے ہیں اور ہمارا یہ اعتراف ہمارے خلاف شہادت بن رہا ہے۔ چناچہ طبیعت کی کمینگی اور جھوٹ کی عادت کی وجہ سے اسی قدم پر اس اعترضا سے پھر جایئں گے اور صاف جھوٹ بول دیں گے اور کہیں گے کہ یہ بات تو ویسے ہی ہمارے منہ سے نکل گئی، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس سے پہلے ہم کسی بھی چیز کو نہیں پکارتے تھے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اللہ کی قسم کھا کر دنیا میں اپنے شرک کرنے سے انکار کردیں گے، فرمایا :(ویوم نحشرھم جمیعاً ثم نقول الذین اشرکوا این شرکآء کم الذین کنتم ترعمون ثم لم تکن فتنتھم الا ان قالوا واللہ ربنا ما کنا مشرکین انظر کیف کذبوا علی انفسھم وضل عنھم ماکانوا یفترون ) (الانعام : ٢٢ تا ٣٧) ” اور جس دن ہم ان سب کو جمع کریں گے، پھر ہم ان لوگوں سے کہیں گے جنہوں نے شریک بنائے، کہاں ہیں تمہارے وہ شریک جنہیں تم گمان کرتے تھے۔ پھر ان کا فریب اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ کہیں گے اللہ کی قسم ! جو ہمارا رب ہے، ہم شریک بنانے والے نہ تھے۔ دیکھ انہوں نے کیسے اپنے آپ پر جھوٹ بولا اور ان سے گم ہوگیا جو وہ جھوٹ بنایا کرتے تھے۔ (٤) کذلک یضل اللہ الکفرین : ایسے ہی اللہ کافروں کو گمراہ اور حواس باختہ کردیتا ہے، ان کے منہ سے کبھی کچھ نکلتا ہے کبھی کچھ۔ وہ ایک بات کہتے ہیں پھر خود ہی اس سے ٹکر جاتے ہیں۔ شاہ عبدالقادر (رح) نے ایک اور تفسیر کی ہے، وہ بھی بہت عمدہ ہے، فرماتے ہیں :” اول منکر ہوچکے تھے کہ ہم نے شریک نہیں پکڑا۔ اب گھبرا کر منہ سے نکل جاوے گا، پھر سنبھل کر انکار کریں گے تو وہ انکار ان کا اللہ نے بچلا دیا (پھسلا دیا، بھلا دیا) اپنی حکمت سے۔ “ (موضح) یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے انہیں ان کے انکار سے پھسلا کر ان کے منہ سے شرک کرنے کا اقرار کروا لیا۔ (٥) ایک تفسیر اس آیت کی یہ ہے کہ وہ پہلے کہیں گے کہ ہم جنہیں پکارتے تھے وہ ہم سے گم ہوگئے، پھر کہیں گے، اصل بات یہ ہے کہ ہم جنہیں پکارتے رہے وہ کوئی شے ہی نہ تھے، نہ کہیں ان کا وجود تھا، بلکہ ہم محض ” لا شیء “ کو اور اپنے وہم و گمان کو پوجتے اور پکارتے رہے ہیں۔ اگر فی الواقع ان کا وجود ہوتا تو آج وہ کہیں مل جاتے یا ہمارے کام آتے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(وما یتبغ الذین یدعون من دون اللہ شرکآء ان یتبعون الا الظن وان ھم الا یخرضون ) (یونس : ٦٦)” اور جو لوگ اللہ کے غیر کو پکارتے ہیں وہ کسی بھی قسم کے شریکوں کی پیروی نہیں کر رہے۔ وہ پیروی نہیں کرتے مگر گمان کی اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اٹکلیں دوڑاتے ہیں۔ “ اور فرمایا :(ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس) (النجم : ٢٣)” یہ لوگ صرف گمان کے اور ان چیزوں کے پیچھے چل رہے ہیں جو ان کے دل چاہتے ہیں۔ “” لا شیء حتی تقیموا الثوریۃ ولانجیل وما انزل الیکم من ربکم) (المائدۃ : ٦٨)” کہہ دے اے اہل کتاب ! تم کسی چیز پر نہیں ہو، یہاں تک کہ تم رات اور انجیل کو قائم کرو اور اس کو جو تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف نازل کیا گیا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ قِيْلَ لَہُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُوْنَ۝ ٧٣ۙ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٣ ‘ ٧٤ { ثُمَّ قِیْلَ لَہُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ تُشْرِکُوْنَ ۔ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ } ” پھر ان سے کہا جائے گا : کہاں ہیں وہ جنہیں تم شریک بنایا کرتے تھے اللہ کے سوا ؟ “ { قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا بَلْ لَّمْ نَکُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَیْئًاط } ” وہ کہیں گے : سب گم ہوگئے ہم سے ‘ بلکہ ہم نہیں پکار رہے تھے اس سے پہلے کسی بھی شے کو۔ “ اے اللہ ! آج اس وقت ہم پر یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ جنہیں معبود سمجھ کر ہم پکارا کرتے تھے ان کا تو کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ { کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ الْکٰفِرِیْنَ ۔ ’ ‘ ’ اسی طرح اللہ بھٹکا دیتا ہے کافروں کو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

102 That is, "If they really were gods or associates in Godhead, and you worshipped them in the hope that they would help you in the evil time, then why don't they come to rescue you now?"

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :102 یعنی اگر وہ واقعی خدا یا خدائی میں شریک تھے ، اور تم اس امید پر ان کی عبادت کرتے تھے کہ وہ برے وقت پر تمہارے کام آئیں گے تو اب کیوں وہ آ کر تمہیں نہیں چھڑاتے؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:73) این ما کنتم تشرکون من دون اللّٰہ کہاں ہیں وہ غیر اللہ جن کو تم شریک خدائی ٹھہرایا کرتے تھے۔ این ظرف مکان۔ کہاں۔ جس طرح : متی سے زبان کے متعلق سوال کیا جاتا ہے اسی طرح این سے مکان دریافت کیا جاتا ہے ما موصولہ ہے۔ کنتم تشرکون : ماضی استمراری جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے۔ اشراک مصدر (باب افعال) دون ورے، سوائے، غیر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی اگر وہ واقعی خدا کے شریک تھے اور تم اس امید پر ان کی عبادت کیا کرتے تھے کہ وہ مشکل وقت میں تمہاری دستگیری کریں گے تو آج وہ تمہاری مدد کو کیوں نہیں پہنچ رہے ؟ (ضلواعنا) یعنی جو امید ہم ان معبودوں سے رکھتے تھے وہ ضائع ہوگئی۔ ( جامع)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی تمہاری مدد کیوں نہیں کرتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں سے کیے جانے والے سوالات میں سے ایک سوال۔ جہنمیوں کو جہنّم میں داخل کرنے سے پہلے میدان محشر میں دوسری مرتبہ عین جہنّم کے دروازوں کے سامنے کھڑا کرکے اور تیسری دفعہ جہنّم میں جھونک دینے کے بعد دیگرسوالات کے ساتھ ہر مرحلہ پر ان سے پہلا یہ سوال ہوگا کہ دنیا میں جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا مشکل کشا سمجھ کر پکارتے تھے۔ آج وہ کہاں ہیں اور وہ تمہاری مدد کیوں نہیں کرتے ؟ جہنمی کہیں گے۔ مولا ہمیں تو کچھ یاد نہیں کہ وہ کون تھے۔ خوف کے مارے یہ بھی کہیں گے کہ ہم نے تو کبھی کسی کو پکارا ہی نہیں تھا۔ رب ذوالجلال کے رعب اور جہنم کے عذاب کی وجہ سے وہ سب کچھ بھول جائیں گے۔ دنیا میں کفار اللہ تعالیٰ کو بھول گئے تھے اور آخرت میں کچھ مدت کے لیے اپنے خداؤں کو بھی بھول جائیں گے۔ کچھ مدت کے بعد انہیں ان کے مشکل کشا یاد کروائے جائیں گے تاکہ یہ ایک دوسرے کو ذلیل کریں۔ جب آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے تو انہیں کہا جائے گا۔ یہ ذلّت اور عذاب تمہیں اس لیے دیا جا رہا ہے کہ تم باطل نظریات پر خوش ہوتے اور حق بات کا انکار کیا کرتے تھے۔ جہنّم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ اب اس میں تم نے ہمیشہ رہنا ہے۔ جو متکبّرین کے لیے بد ترین جگہ ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبرہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ “ مسائل ١۔ میدان محشر میں جہنّمیوں کو پہلا سوال یہ ہوگا کہ تمہارے مشکل کشا کہاں ہیں ؟ ٢۔ ایک مرحلہ میں جہنّمی سب کو بھول جائیں گے اور پھر بالکل ہی انکار کردیں گے۔ ٣۔ جہنمیوں کا ایک گناہ یہ بھی ہوگا کہ وہ اپنے گناہوں پر اترایا کرتے تھے۔ ٤۔ جہنّم متکبرین کے لیے بد ترین جگہ ہے۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں سے کیے جانے والے سوالات : ١۔ مجرموں سے سوال کیا جائیگا کہ تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے ؟ وہ اپنے گناہوں کی ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالیں گے۔ (الصّٰفّٰت : ٢٢۔ ٣١) ٢۔ ان کو ٹھہراؤ ان سے کچھ پوچھنا ہے۔ تمہیں کیا ہوگیا اب ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ؟۔ (الصّافات : ٢٤ تا ٢٥) ٣۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پوچھے گا آج کس کی بادشاہی ہے ؟ (المومن : ١٦) ٤۔ بلاؤ اپنے معبودوں کو اگر تم سچے ہو۔ (البقرۃ : ٢٣) ٥۔ اللہ کے علاوہ جن معبودوں کا تمہیں زعم ہے انھیں بلاؤ آج وہ بھی تمہاری مصیبت دور نہیں کرسکتے۔ (بنی اسرائیل : ٥٦) ٦۔ انہیں بلاؤ آج وہ تمہیں جواب بھی نہیں دیں گے۔ (الاعراف : ١٩٤) ٧۔ اس دن ان سے کہا جائے گا بلاؤ اپنے معبودان کو، وہ بلائیں گے تو انھیں جواب نہیں ملے گا۔ (القصص : ٦٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

69:۔ ” ثم قیل لہم “ تحسیر و توبیخ کے طور پر فرشتے ان سے کہیں گے کہ آج کہاں ہیں تمہارے کارساز اور شفعاء (سفارشی) جن کو تم اللہ کی الوہیت میں شریک کیا کرتے تھے ؟ آج ان کو باؤ ناں تاکہ تمہیں جہنم کے عذاب سے بچائیں۔ ” قالوا ضلوا عنا “ فوری طور پر جواب دیں گے کہ جی آج تو وہ کہیں نظر نہیں آتے، ہم بلائیں کس کو ؟ اس کے فورًا بعد وہ سنبھلیں گے اور خیال کریں گے کہ ہم نے اپنے جرم کا اقبال کرلیا، جرم کا سرے سے انکار کردیا شاید اس طرح بچاؤ کی کوئی صورت نکل آئے چناچہ اس کے فورًا بعد کہیں گے۔ نہیں ! نہیں ! ! ہم بھول گئے، بلکہ ہم تو دنیا میں اللہ کے سوا کسی کو پکارتے ہی نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو ان کے جدال وعناد کی وجہ سے یوں بھٹکائیگا اور حیران و سرگرداں کردے گا کہ وہ دروغ گوئی پر اتر آئیں گے حالانکہ انہیں یقین ہوگا کہ یہاں جھوٹ اور غلط بیانی سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ انہ تعالیٰ یحیرہم فی امرہم حتی یفزعون الی الکذب مع علمہم بانہ لاینفعہم (روح ج 24 ص 86) ۔ یا مطلب یہ ہے کہ آج ہم پکاریں کس کو ؟ آج ہم پر یہ حقیقت کھل گئی ہے کہ دنیا میں ہم کسی معتد بہ چیز کو پکارتے ہی نہ تھے، ہم جنہیں کارساز سمجھ کر پکارتے رہے وہ نہ نافع تھے نہ ضار ہماری وہ ساری محنت ضائع ہوئی۔ ای بل تبین لنا الیوم انا لم نکن نعبد فی الدنیا شیئا یعتد بہ (روح) ۔ لم نکن ندعوا من قبل شیئا ینفعنا او یدفع عنا المکروہ (مظہری ج 8 ص 246) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(73) پھر ان لوگوں سے کہا جائے گا جن معبودوں کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا شریک ٹھہراتے تھے۔