Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 74

سورة مومن

مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ قَالُوۡا ضَلُّوۡا عَنَّا بَلۡ لَّمۡ نَکُنۡ نَّدۡعُوۡا مِنۡ قَبۡلُ شَیۡئًا ؕ کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۷۴﴾

Other than Allah ?" They will say, "They have departed from us; rather, we did not used to invoke previously anything." Thus does Allah put astray the disbelievers.

جو اللہ کے سوا تھے وہ کہیں گے کہ وہ تو ہم سے بہک گئے بلکہ ہم تو اس سے پہلے کسی کو بھی پکارتے ہی نہ تھے اللہ تعالٰی کافروں کو اسی طرح گمراہ کرتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مِن دُونِ اللَّهِ ... Then it will be said to them: "Where are (all) those whom you considered partners -- besides Allah," means, it will be said to them, `where are the idols whom you used to worship instead of Allah. Can they help you today?' ... قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا .... They will say: "They have vanished from us..." mean, they have gone away and they cannot do anything for us.' .. بَل لَّمْ نَكُن نَّدْعُو مِن قَبْلُ شَيْيًا ... Nay, we did not invoke (worship) anything before. means, they will deny that they worshipped them. This is like the Ayah: ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ إِلاَّ أَن قَالُواْ وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ There will then be (left) no Fitnah (excuse) for them but to say: "By Allah, our Lord, we were not those who joined others in worship with Allah." (6:23) Allah says: ... كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكَافِرِينَ Thus Allah leads astray the disbelievers. ذَلِكُم بِمَا كُنتُمْ تَفْرَحُونَ فِي الاَْرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنتُمْ تَمْرَحُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

74۔ 1 کیا وہ آج تمہاری مدد کرسکتے ہیں ؟ 74۔ 2 یعنی پتہ نہیں، کہاں چلے گئے ہیں، وہ ہماری مدد کیا کریں گے ؟ 74۔ 3 اقرار کرنے کے بعد، پھر ان کی عبادت کا ہی انکار کردیں گے کیونکہ وہاں ان پر واضح ہوجائے گا کہ وہ ایسی چیزوں کی عبادت کرتے رہے جو سن سکتی تھیں، نہ دیکھ سکتی تھیں اور نقصان پہنچا سکتی تھیں نہ نفع (فتح القدیر اور اس کا دوسرا معنی واضح ہے اور وہ یہ کہ وہ شرک کا سرے سے انکار ہی کریں گے۔ 74۔ 4 یعنی ان مکذبین ہی کی طرح اللہ تعالیٰ کافروں کو بھی گمراہ کرنا ہے مطلب یہ ہے کہ مسلسل تکذیب اور کفر یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن سے انسانوں کے دل سیاہ اور زنگ آلود ہوجاتے ہیں اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے قبول حق کی توفیق سے محروم ہوجاتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٥] اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور وہ دونوں ہی درست ہیں۔ ایک جو ترجمہ سے واضح ہے کہ مشرک لوگ سب کچھ بھول بھلا کر اپنے شرک سے ہی یکسر انکار کردیں گے۔ اور دوسرا یہ کہ جن چیزوں کو ہم دنیا میں پکارتے رہے فی الواقع ان کے اختیار میں کچھ بھی نہ تھا اور وہ لاشی محض تھے۔ یہ ہماری ہی غلطی تھی کہ ہم انہیں && کوئی چیز && سمجھتے رہے۔ [٩٦] مشرکین کی بدحواسی۔ ایک ہی سوال کے متضاد جوابات :۔ اس جملہ میں مشرکوں کی بدحواسی کا ذکر کیا گیا ہے کہ ایک ہی سوال کے مختلف اور متضاد جواب دیتے جائیں گے۔ سوال یہ تھا کہ آج وہ تمہارے شریک کہاں ہیں جنہیں تم اللہ کے شریک بنایا کرتے تھے اس کا ایک جواب وہ تو یہ دیں گے کہ ہمیں تو کچھ یاد نہیں پڑتا کہ ہم اللہ کے سوا کسی کو پکارا کرتے تھے اور اگر کوئی ایسی بات تھی بھی تو وہ ہمیں آج دکھائی نہیں دے رہے۔ یا ہماری یاد سے محو ہوچکے ہیں۔ دوسرا جواب یہ کہ وہ صاف مکر جائیں گے کہ ہم کب اللہ کے سوا کسی کو پکارا کرتے تھے۔ اور تیسرا جواب وہ ہے جو الگ کئی مقامات پر مذکور ہے کہ عبادت کرنے والے اپنے معبودوں پر الزام لگائیں گے کہ یا اللہ ! ان بڑے بزرگوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا لہذا انہیں دگنا عذاب دے۔ اس جواب میں وہ اپنے جرم کا پورا اعتراف کر رہے ہوں گے۔ یعنی سوال ایک ہے مگر جواب میں کیسی گومگو کی حالت ہے کبھی انکار ہے اور کبھی اعتراف۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی ہوگی کہ ہم کون سا جواب دے کر اس پر ڈٹ جائیں جس کی وجہ یہ ہے کہ باطل کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 74, it was said: قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا (They will say, |"They are lost to us,...), that is, once they reach Jahannam, the disbelievers will say that all those idols and shaitans they used to worship have disappeared in the sense that they do not see them around, though, they might as well be lying somewhere in a corner of Jahannam, as their being in Jahannam stands proved from other verses of the Qur&an, for instance: إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ , (Surely, you and whatever you worship other than Allah are the fuel for Jahannam - Al-Anbiya&, 21:98)

(آیت) قَالُوْا ضَلُّوْاعَنَّا۔ یعنی جہنم میں پہنچ کر مشرکین کہیں گے وہ بت اور شیاطین جن کی ہم عبادت کیا کرتے تھے آج غائب ہوگئے۔ مراد یہ ہے کہ ہمیں نظر نہیں آ رہے اگرچہ وہ بھی جہنم کے کسی گوشہ میں پڑے ہوں جیسا کہ قرآن کی دوسری آیات سے ان کا جہنم میں ہونا ثابت ہے۔ ، (آیت) انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جہنم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مِنْ دُوْنِ اللہِ۝ ٠ ۭ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا بَلْ لَّمْ نَكُنْ نَّدْعُوْا مِنْ قَبْلُ شَـيْـــــًٔا۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللہُ الْكٰفِرِيْنَ۝ ٧٤ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

103 They do not mean to say, "We did not associate them with God in the world," but they mean: "Now we have understood well that those whom we invoked in the world, were nothing and mere nonentities."

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :103 یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دنیا میں شرک نہیں کرتے تھے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اب ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ ہم جنھیں دنیا میں پکارتے تھے وہ کچھ بھی نہ تھے ، ہیچ تھے ، لاشے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

19: اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس وقت جھوٹ بول جائیں گے، اور یہ کہیں گے کہ ہم نے کبھی شرک کا ارتکاب نہیں کیا، جیسا کہ سورۃ انعام : 23 میں مذکور ہے۔ اور یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ اس وقت وہ یہ اعتراف کریں گے کہ جن بتوں وغیرہ کو ہم دنیا میں پکارا کرتے تھے، اب ہمیں پتہ چل گیا کہ وہ کوئی حقیقی چیز نہیں تھے، اور ہم کسی حقیقی چیز کو نہیں پکارتے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:74) ضلوا۔ ماضی جمع مذکر غائب ضلال وضلالۃ مصدر۔ (باب سمع و ضرب) کجراہ ہونا ۔ حق راستہ سے بھٹکنا ، دین سے پھرنا۔ راستہ کھونا۔ گم ہونا۔ کھو جانا۔ ضلواعنا وہ ہم سے کھو گئے۔ ہم کو ان سے جو امیدیں تھیں وہ پوری نہ ہوئیں۔ بل لم نکن تدعوا من قبل شیئا : بل حرف اضراب ہے۔ لم تکن تدعوا مضارع نفی جحد بلم جمع متکلم۔ ندعوا دعاء دعوۃ مصدر (باب نصر) سے ہم پکارتے نہ تھے یعنی ہم عبادت اور پوجا نہیں کرتے تھے۔ یہ مطلب نہیں کہ ہم دنیا میں شرک نہیں کرتے تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اب ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ ہم جنہیں دنیا میں پکارتے تھے وہ کچھ بھی نہ تھے ہیچ تھے لاشئے تھے۔ (تفہیم القرآن) ای بل تبین لنا انا لم نکن نعبد شیئا بعبادتھم فانھم لیسوا شیئا یعتدبہ : بلکہ ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ ہم جن کی عبادت کیا کرتے تھے ان میں کوئی حقیقت ہی نہ تھی کوئی شے بھی نہ تھے کہ جن پر اعتماد کیا جاسکے۔ (بیضاوی) اور بعض کے نزدیک کافروں کی طرف سے شرک کرنے کا ہی انکار ہے یعنی وہ کہیں گے ہم شرک کرتے ہی نہ تھے۔ ہم تو کسی کو بھی پکارا نہ کرتے تھے۔ جس طرح کوئی شخص برا کام کرے اور سزا کے وقت انکار کر دے کہ میں نے تو کچھ بھی نہ کیا تاکہ سزا نہ ہو (حقانی) جیسا کہ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے :۔ ثم لم تکن فتنتھم الا ان قالوا واللّٰہ ربنا ما کنا مشرکین (6:23) تو ان سے کچھ عذر نہ بن پڑے گا بجز اس کے کہ کہیں : خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شرک نہیں بناتے تھے (کسی اور کو اللہ کا شریک نہ ٹھہراتے تھے) کذلک : کاف اول حرف تشبیہ ہے ذا اسم اشارہ (یہ ۔ اس) ل علامت اشارہ بعید۔ کاف آخر حرف خطاب (واحد مذکرکے لئے) کذلک سے اشارہ مذکورہ سابق کی طرف ہے۔ جس کا ترجمہ ہے : ایسے ہی۔ اسی کی طرح۔ اسی طرح۔ یضل اللّٰہ۔ اضل یضل اضلال (افعال) مصدر سے مضارع کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ وہ گمراہ کرتا ہے ۔ وہ گمراہ چھوڑ دیتا ہے۔ کذلک یضل اللّٰہ الکفرین : اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) کافروں کو مذکورہ سابق مشرکوں سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جیسے ان مشرکوں کو (جن کا ذکر اوپر آیا ہے) اللہ تعالیٰ نے گم کردہ راہ بنادیا۔ اسی طرح اللہ سب کافروں کو (بوجہ ان کے متواتر اعمال بد یا گناہ و شرک پر مستقل اصرار کے) گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے۔ (2) کافرین سے مراد یہاں وہی مشرکین ہیں جو اوپر مذکور ہیں اور جملہ کا مطلب ہے :۔ یہ ہے کافروں یا مشرکوں کا مآل کہ وہ بےحقیقت اور قدرت سے یکسر معتری چیزوں کو خدا کا شریک بنا کر دنیا میں پوجتے رہے اور قیامت میں وہ ان کی کوئی بھی امداد نہ کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے یوں ہی ان کو اس گمراہی میں دنیا میں چھوڑے رکھا (کیونکہ وہ شرک کو چھورنے پر تیار نہ ہوئے) عبد اللہ یوسف علی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی وہ مشکل وقت میں ہمیں چھوڑ کر ایسے غائب ہوگئے جیسے دنیا میں ہم نے انہیں پکارا ہی نہ تھا اور وہ ہمیں جانتے تک نہ تھے۔ یہ مطلب اس صورت میں ہے جس ” بل “ کا ترجمہ ” گویا کہ “ کیا جائے اور اگر اس کا ترجمہ ” بلکہ “ کیا جائے جو اس کا معروف ترجمہ ہے تو مطلب یہ ہوگا ” بلکہ ہم دنیا میں کسی چیز کو سرے سے پکارتے ہی نہ تھے “۔ یعنی گھبراہٹ چیز کو سرے سے پکارتے ہی نہ تھے۔ جیسا کہ دوسری آیات میں ہے (واللہ ربنا ما کنا مشرکین) تیسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اب ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ ہم دنیا میں کسی شی ( چیز) کو نہیں بلکہ لا شی ( ناچیز) ہستیوں کو پکارا کرتے تھے یعنی ہماری محنت رائیگاں گئی۔ ( جامع البیان وغیرہ)6 یعنی ان کے حواس باختہ کردیتا ہے اور وہ کوئی ڈھنگ کی بات نہیں کرسکتے۔ یہ سزا ہے ان کے شرک کی۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : اول منکر ہوچکے تھے کہ ہم نے شرک نہیں پکڑا۔ اب گھبرا کر منہ سے نکل جاو گا پھر سنبھل کر انکار کریں گے تو وہ انکار ان کا اللہ نے بچلا دیا اس حکمت سے۔ ( موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی معلوم ہوا کہ وہ لاشے محض تھے، ایسی بات غلط ظاہر ہونے کے وقت کہی جاتی ہے، جیسے کوئی شخص تجارت میں خسارہ اٹھاوے اور اس سے پوچھا جاوے کہ تم فلان مال کی تجارت کیا کرتے ہو، اور وہ کہے کہ میں تو کہیں کی بھی تجارت نہیں کرتا، یعنی جب اس کا ثمرہ حاصل نہ ہوا تو یوں سمجھنا چاہئے کہ گویا وہ عمل ہی نہیں ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(74) وہ اب کہاں گئے وہ جواب دیں گے وہ تو سب ہم سے کہیں غائب ہوگئے اور ہماری نظر سے چوک گئے بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ ہم تو اس عالم سے پہلے کسی چیز کو پوجتے ہی نہ تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ کافروں کو غلطی میں مبتلا رکھتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا شریک ٹھہراتے تھے وہ کہاں ہیں ان کو بلائو تاکہ تمہاری فریاد رسی کریں وہ ان کو کہیں ملیں گے نہیں پھر شرک سے ہی انکار کردیں گے۔ اسی کو فرمایا کہ جس طرح گمراہ کیا اللہ تعالیٰ نے اسی طرح تمام منکرین و معاندین کو گمراہ رکھتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اول منکر ہوچکے تھے کہ ہم نے شریک نہیں پکڑے اب گھبرا کر منہ سے نکل جائے گا پھر سنبھل کر انکار کریں گے تو وہ انکار اللہ نے بچلا دیا اس حکمت سے۔ خلاصہ : یہ ہے کہ کبھی کچھ کہیں گے اور کبھی کچھ بہکی باتیں کریں گے اور یہی اللہ تعالیٰ کا بچلانا اور گمراہ رکھنا دنیا میں رہ احق سے گمراہ رہے اور آخرت میں صحیح جواب نہ دے سکے۔