Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 76

سورة مومن

اُدۡخُلُوۡۤا اَبۡوَابَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ۚ فَبِئۡسَ مَثۡوَی الۡمُتَکَبِّرِیۡنَ ﴿۷۶﴾

Enter the gates of Hell to abide eternally therein, and wretched is the residence of the arrogant."

اب آؤ جہنم میں ہمیشہ رہنے کے لئے ( اس کے ) دروازوں میں داخل ہو جاؤ کیا ہی بری جگہ ہے تکبر کرنے والوں کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Enter the gates of Hell to abide therein, and (indeed) what an evil abode of the arrogant! means, what a terrible abode and final destination, filled with humiliation and severe punishment for those who arrogantly ignored the signs of Allah and refused to accept His proof and evidence. And Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

76۔ 1 یہ جہنم پر مقرر فرشتے، اہل جہنم کو کہیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٧] تکبر کی تعریف اور متکبرین کا انجام :۔ ان دو آیات سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ قبول حق سے انکار کی سب سے بڑی وجہ تکبر ہوتی ہے۔ اور دوسری یہ کہ دوزخ میں سب سے زیادہ بھرتی متکبرین کی ہوگی۔ اور انہی باتوں کی مزید تفاصیل احادیث میں بھی ملتی ہے : ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : && وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی بھر بھی تکبر ہو && ایک شخص کہنے لگا : ہر انسان اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، اس کی جوتی اچھی ہو۔ (کیا یہ تکبر ہے ؟ ) آپ نے فرمایا : اللہ خوب صورت ہے، خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو یہ ہے کہ تو حق کو ٹھکرا دے اور لوگوں کو حقیر سمجھے && (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب تحریم الکبر وبیانہ) ٢۔ حارثہ بن وہب خزاعی کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : کیا میں تمہیں اہل جنت کی خبر نہ دوں ؟ وہ ایسے کمزور اور گمنام لوگ ہیں کہ اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم پوری کردے۔ اور کیا میں تمہیں اہل دوزخ کے متعلق نہ بتاؤں۔ ہر اکھڑ مزاج، بدخلق اور متکبر دوزخی ہوتا ہے && (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب الکبر) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ جس شخص کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب تحریم الکبر و بیانہ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ادخلوا ابواب جھنم خلدین فیھا …” ادخلوا “ کی مناسبت سے ” فئس مدخل المتکبرین “ (متکبروں کے داخل ہونے کی جگہ بری) ہونا چاہیے تھا، مگر ” خلدین فیھا “ کی مناسبت سے ” فبئس مثوی المتکبرین۔ فرمایا، یعنی وہ متکبرین کے رہنے کی بری جگہ ہے۔ ” مثوی المتکبرین “ کے لفظ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ جہنم میں ہمیشہ کے لئے داخل ہونے کا باعث تکبر ہے، جس نے انہیں اللہ کی آیات کو جھٹلانے پر اور ان کے بارے میں جدال پر ابھارا، جس جدال کی مذمت اس سورت کا ایک بنیادی موضوع ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُدْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَہَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝ ٠ ۚ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِيْنَ۝ ٧٦ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ باب البَاب يقال لمدخل الشیء، وأصل ذلک : مداخل الأمكنة، کباب المدینة والدار والبیت، وجمعه : أَبْوَاب . قال تعالی: وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] ، وقال تعالی: لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ، ومنه يقال في العلم : باب کذا، وهذا العلم باب إلى علم کذا، أي : به يتوصل إليه . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا مدینة العلم وعليّ بابها» «1» . أي : به يتوصّل، قال الشاعر : أتيت المروءة من بابها«2» وقال تعالی: فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] ، وقال عزّ وجل : بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] وقد يقال : أبواب الجنّة وأبواب جهنم للأشياء التي بها يتوصّل إليهما . قال تعالی: فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] ، وقال تعالی: حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] ، وربما قيل : هذا من بَابَة كذا، أي : ممّا يصلح له، وجمعه : بابات، وقال الخلیل : بابة «3» في الحدود، وبَوَّبْتُ بابا، أي : عملت، وأبواب مُبَوَّبَة، والبَوَّاب حافظ البیت، وتَبَوَّبْتُ بوابا : اتخذته، وأصل باب : بوب . الباب ہر چیز میں داخل ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ دراصل امکنہ جیسے شہر ، مکان ، گھر وغیرہ میں داخل ہونے کی جگہ کو باب کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ابواب ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں دروازون کی طرف بھاگے اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے ( پکڑ کر جو کھینچا تو ) چھاڑ ڈالا ۔ اور دونوں کو دروازں کے پاس عورت کا خاوند مل گیا ۔ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف/ 67] ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدادروازوں سے داخل ہونا ۔ اور اسی سے ( مجازا ) علم میں باب کذا کا محاورہ ہے ۔ نیز کہا جاتا ہے کہ یعنی یہ علم فلاں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا : ۔ یعنی میں علم کا شہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( رجہ ) تم نے جو انمردی کو اسی کی جگہ سے حاصل کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام/ 44] تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید/ 13] جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابواب جنۃ اور ابوب جہنم سے مراد وہ باتیں ہیں جو ان تک پہنچنے کا ذریعے بنتی ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل/ 29] کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر/ 73] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اسکے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ تو اسکے دراغہ ان سے کہیں کے کم تم پر سلام ۔ اور جو چیز کسی کام کے لئے صلاحیت رکھتی ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ کہ یہ اس کے مناسب ہے اس کی جمع بابت ہے خلیل کا قول ہے کہ بابۃ کا لفظ حدود ( اور حساب میں ) استعمال ہوتا ہے بوبت بابا : میں نے دروازہ بنایا ۔ نے بنے ہوئے دروازے قائم کئے ہوئے دروازے ۔ البواب دربان تبوبت بابا میں نے دروازہ بنایا ۔ باب اصل میں بوب ہے اور اس میں الف واؤ سے مبدل ہے ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے ثوی الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم، ( ث و ی ) الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔ تَّكَبُّرُ والتَّكَبُّرُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن تکون الأفعال الحسنة كثيرة في الحقیقة وزائدة علی محاسن غيره، وعلی هذا وصف اللہ تعالیٰ بالتّكبّر . قال : الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ [ الحشر/ 23] . والثاني : أن يكون متکلّفا لذلک متشبّعا، وذلک في وصف عامّة الناس نحو قوله : فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] ، وقوله : كَذلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر/ 35] ومن وصف بالتّكبّر علی الوجه الأوّل فمحمود، ومن وصف به علی الوجه الثاني فمذموم، ويدلّ علی أنه قد يصحّ أن يوصف الإنسان بذلک ولا يكون مذموما، وقوله : سَأَصْرِفُ عَنْ آياتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الأعراف/ 146] فجعل متکبّرين بغیر الحقّ ، وقال : عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر/ 35] بإضافة القلب إلى المتکبّر . ومن قرأ : بالتّنوین جعل المتکبّر صفة للقلب، التکبر ۔ اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ایک یہ فی الحقیقت کسی کے افعال حسنہ زیادہ ہوں اور وہ ان میں دوسروں سے بڑھا ہوا ہو ۔ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ صفت تکبر کے ساتھ متصف ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ [ الحشر/ 23] غالب زبردست بڑائی ۔ دوم یہ کہ کوئی شخص صفات کمال کا اعاء کرے لیکن فی الواقع وہ صفات حسنہ عاری ہو اس معنی کے لحاظ سے یہ انسان کی صفت بن کر استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا ہے ؛فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] متکبروں کا کیا بڑا ٹھکانا ہے ۔ كَذلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر/ 35] اسی طرح خدا ہر سرکش متکبر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے ۔ تو معنی اول کے لحاظ سے یہ صفات محمود میں داخل ہے اور معنی ثانی کے لحاظ سے صفت ذم ہے اور کبھی انسان کے لئے تکبر کرنا مذموم نہیں ہوتا جیسا کہ آیت ؛سَأَصْرِفُ عَنْ آياتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الأعراف/ 146] جو لوگ زمین میں ناحق غرور کرتے ہیں ان کو اپنی آیتوں سے پھیردوں گا ۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ تکبر الحق نہ ہو تو مذموم نہیں ہے : اور آیت ؛ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر/ 35] ہر متکبر جابر کے دل پر ۔ اور بعض نے قلب کی طرف مضاف ہے ۔ اور بعض نے قلب تنوین کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں متکبر قلب کی صفت ہوگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٦ { اُدْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْہَاج } ” اب داخل ہو جائو جہنم کے دروازوں میں ‘ اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے ۔ “ { فَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ } ” تو یہ بہت ہی ُ برا ٹھکانہ ہے متکبرین ّکا۔ “ اب اگلی آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے تمام مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:76) مثوی المتکبرین۔ مضاف مضاف الیہ مثوی اسم ظرف مکان مفرد مثاوی جمع۔ ثوی یثوی ثواء (باب ضرب) مصدر سے۔ ٹھکانا۔ طویل وقت کے لئے ٹھرنے کا مقام ۔ فرودگاہ۔ المتکبرین : اسم فاعل جمع مذکر۔ المتکبر واحد تکبر (تفعل) مصدر۔ اللہ کو ماننے اور اس کی اطاعت سے سرتابی کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔ تکبر اور غرور کرنے والوں کا ٹھکانا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(76) جائو جہنم میں ہمیشہ رہنے کے لئے اس کے دروازوں میں داخل ہوجائو سو وہ دوزخ کیا بری قرار گاہ ہے تکبر کرنے والوں کی۔