Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 77

سورة مومن

فَاصۡبِرۡ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ ۚ فَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیۡنَا یُرۡجَعُوۡنَ ﴿۷۷﴾

So be patient, [O Muhammad]; indeed, the promise of Allah is truth. And whether We show you some of what We have promised them or We take you in death, it is to Us they will be returned.

پس آپ صبر کریں اللہ کا وعدہ قطعًا سچا ہے انہیں ہم نے جو وعدے دے رکھے ہیں ان میں سے کچھ ہم کو آپ دکھائیں یا ( اس سے پہلے ) ہم آپ کو وفات دے دیں ، ان کا لوٹایا جانا تو ہماری ہی طرف ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to be Patient and Good News of Victory Allah commands to His Messenger, فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ... So be patient, verily, the promise of Allah is true, Here Allah commands His Messenger to patiently bear the rejection of those who rejected him: `Allah will fulfill His promise to you that you will be victorious and will prevail over your people, and you and those who follow you, will be the successful ones in this world and the Hereafter.' ... فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ ... and whether We show you some part of what We have promised them, means, in this world, and this is what happened, for Allah gave them the joy of humiliating the leaders and nobles (of the Quraysh), who were killed on the day of Badr, then Allah granted them victory over Makkah and the entire Arabian Peninsula during the lifetime of the Prophet. ... أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ or We cause you to die, then still it is to Us they all shall be returned. means, `and We shall inflict a severe punishment upon them in the Hereafter.' Then Allah says, consoling (His Prophet):

اللہ کے وعدے قطعاً حق ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کا حکم دیتا ہے کہ جو تیری نہیں مانتے تجھے جھوٹا کہتے ہیں تو ان کی ایذاؤں پر صبر و برداشت کر ۔ ان سب پر فتح و نصرت تجھے ملے گی ۔ انجام کار ہر طرح تیرے ہی حق میں بہتر رہے گا ۔ تو اور تیرے یہ ماننے والے ہی تمام دنیا پر غالب ہو کر رہیں گے ، اور آخرت تو صرف تمہاری ہی ہے ، پس یا تو ہم اپنے وعدے کی بعض چیزیں تجھے تیری زندگی میں دکھا دیں گے ، اور یہی ہوا بھی ، بدر والے دن کفار کا دھڑ اور سر توڑ دیا گیا قریشیوں کے بڑے بڑے سردار مارے گئے ۔ بالاخر مکہ فتح ہوا اور آپ دنیا سے رخصت نہ ہوئے جب تک کہ تمام جزیرہ عرب آپ کے زیر نگیں نہ ہو گیا ۔ اور آپ کے دشمن آپ کے سامنے ذلیل و خوار نہ ہوئے اور آپ کی آنکھیں رب نے ٹھنڈی نہ کر دیں ، یا اگر ہم تجھے فوت ہی کرلیں تو بھی ان کا لوٹنا تو ہماری ہی طرف ہے ہم انہیں آخرت کے درد ناک سخت عذاب میں مبتلا کریں گے ، پھر مزید تسلی کے طور پر فرما رہا ہے کہ تجھ سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے حالات ہم نے تیرے سامنے بیان کر دیئے ہیں ۔ اور بعض کے قصے ہم نے بیان بھی نہیں کئے جیسے سورہ نساء میں بھی فرمایا گیا ہے ۔ پس جن کے قصے مذکورہ ہیں دیکھ لو کہ قوم سے ان کی کیسی کچھ نمٹی ۔ اور بعض کے واقعات ہم نے بیان نہیں کئے وہ بہ نسبت ان کے بہت زیادہ ہیں ۔ جیسے کہ ہم نے سورہ نساء کی تفسیر کے موقعہ پر بیان کر دیا ہے ۔ واللہ الحمد و المنہ ۔ پھر فرمایا یہ ناممکن ہے کہ کوئی رسول اپنی مرضی سے معجزات اور خوارق عادات دکھائے ہاں اللہ عزوجل کے حکم کے بعد کیونکہ رسول کے قبضے میں کوئی چیز نہیں ۔ ہاں جب اللہ کا عذاب آ جاتا ہے پھر تکذیب و تردید کرنے والے کفار بچ نہیں سکتے ۔ مومن نجات پا لیتے ہیں اور باطل پرست باطل کار تباہ ہو جاتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

77۔ 1 کہ ہم کافروں سے انتقام لیں گے۔ یہ وعدہ جلدی بھی پورا ہوسکتا ہے یعنی دنیا میں ہی ہم ان کی گرفت کرلیں گے یا حسب مشیت الٰہی تاخیر بھی ہوسکتی ہے۔ یعنی قیامت والے دن ہم انہیں سزا دیں۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ یہ اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتے۔ 77۔ 2 یعنی آپ کی زندگی میں ان کو مبتلائے عذاب کردیں چناچہ ایسا ہی ہوا اللہ نے کافروں سے انتقام لے کر مسلمانوں کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا جنگ بدر میں ستر کافر مارے گئے 8 ہجری میں مکہ فتح ہوگیا اور پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ میں ہی پورا جزیرہ عرب مسلمانوں کے زیر نگیں آگیا۔ 77۔ 3 یعنی اگر کافر دنیاوی مواخذہ و عذاب سے بچ بھی گئے تو آخر میرے پاس ہی آئیں گے جہاں ان کے لیے سخت عذاب تیار ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٨] کفار مکہ پر عذاب کی تین صورتیں :۔ یعنی یہ کفار مکہ جو آپ کو ستا رہے ہیں اور اسلام کی راہ روکنا چاہتے ہیں ان کے متعلق اللہ کے عذاب کا وعدہ پورا ہونا ہی ہے۔ اور اس کی تین صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کے جیتے جی ان پر عذاب آئے۔ جیسا کہ جنگ بدر، جنگ احزاب اور فتح مکہ کے وقت کافروں کی رسوائی ہوئی۔ دوسری صورت یہ کہ اس عذاب کا کچھ حصہ آپ کی زندگی کے بعد ان پر آئے۔۔ اور اس سے مرادوہ جنگیں ہیں جو سیدنا ابوبکر صدیق (رض) اور سیدنا عمر نے مرتدین، ملحدین اور کافروں سے لڑیں اور اسلام کا پوری طرح بول بالا ہوا اور کافروں اور کفر کو رسوائی نصیب ہوئی۔ اور تیسری اور حتمی صورت یہ ہے کہ آخر مرنے کے بعد انہوں نے ہمارے ہی پاس آنا ہے۔ اس وقت ہم ان کے سب کس بل نکال دیں گے اور انہیں ان کے جرائم کا پورا پورا بدلہ دیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فاصبر ان وعد اللہ حق : یعنی یہ لوگ جو آپ کو نیچا دکھانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، آپ ان کی ایذا پر صبر کا دامن تھامے رکھیں، کیونکہ اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے (کہ ہم دنیا اور آخرت میں اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد فرماتے ہیں۔ ) ہاں، اس میں کچھ تاخیر ہوسکتی ہے اور اس تاخیر میں بھی ہماری کئی حکمتیں ہیں۔ ہمارا یہ وعدہ دو طرح سے پورا ہوسکتا ہے۔ (٢) فاما یرینکم بعض الذین نعدھم …: ایک یہ کہ ہم آپ کو اس عذاب کا کچھ حصہ دکھا ہی دیں جس کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو پھر آپ دنیا ہی میں ہماری مدد کا نقشہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور ان کا عبرتناک انجام دیکھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی، جیسا کہ بدر اور فتح مکہ میں ہوا۔” فاما نرینکم “ کا یہ جواب یہاں مقدر ہے اور سیاق سے خود بخود سمجھ میں آرہا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم تجھے دنیا میں ان کا انجام دکھانے سے پہلے اٹھالیں، تب بھی یہ لوگ کہیں بھاگ کر نہیں جاسکتے، بلکہ انہیں ہمارے پاس ہی واپس لایا جائیگا اور وہاں ان پر عذاب کا وعدہ پورا ہوگا جو آپ کی اور اہل ایمان کی نصرت کا ایک اظہار ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 77, it was said: فَاصْبِرْ‌ إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ فَإِمَّا نُرِ‌يَنَّكَ (Therefore, be patient. Surely, the promise of Allah is true. Then, whether We show you [ in your life ] a part of the promise We are making to them, or make you die [ before they are punished ], in any case they have to be returned to Us). From this verse it appears that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was hopefully waiting for the disbelievers to be punished. Therefore, it was to comfort him that he was asked to be somewhat patient about it. The promise of Allah for them, that they will be punished, will certainly be fulfilled - may be during his lifetime, or after he has departed from the mortal world. Waiting for the disbelievers to be punished apparently seems contrary to the dignity of one who was sent with universal mercy. But, here the matter is different. When the purpose of punishing criminals is to bring comfort to innocent believers who were oppressed, then, the punishment of criminals is not contrary to compassion and mercy. Nobody regards the punishment given to a criminal against the dictate of mercy.

(آیت) فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ۚ فَاِمَّا نُرِيَنَّكَ الآیة۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے، کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوشی کے ساتھ اس کے منتظر تھے کہ کافروں کو عذاب ملے۔ اس لئے آپ کی تسلی کے لئے اس آیت میں یہ فرمایا کہ آپ ذرا صبر کریں، اللہ نے جو وعدہ ان کے لئے عذاب کا کیا ہے وہ ضرور پورا ہوگا۔ خواہ آپ کی حیات ہی میں یا آپ کی وفات کے بعد۔ کافروں کے عذاب کا انتظار بظاہر شان رحمة اللعالمین کے منافی ہے لیکن مجرمین کو سزا دینے سے مقصد غیر مجرم مومنین کو جن پر ظلم کیا گیا تھا تسلی دینا ہو تو مجرموں کو سز ا، شفقت و رحمت کے منافی نہیں۔ کسی مجرم کو سزا دینا کسی کے نزدیک بھی رحمت کے خلاف نہیں سمجھا جاتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ۝ ٠ ۚ فَاِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُہُمْ اَوْ نَتَـوَفَّيَنَّكَ فَاِلَيْنَا يُرْجَعُوْنَ۝ ٧٧ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ وفی ( موت) وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] ، وقال : وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران/ 185] ، ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ [ البقرة/ 281] ، إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر/ 10] ، مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود/ 15] ، وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال/ 60] ، فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور/ 39] ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ، قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ [ السجدة/ 11] ، اللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ [ النحل/ 70] ، الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 28] ، تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا[ الأنعام/ 61] ، أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس/ 46] ، وَتَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرارِ [ آل عمران/ 193] ، وَتَوَفَّنا مُسْلِمِينَ [ الأعراف/ 126] ، تَوَفَّنِي مُسْلِماً [يوسف/ 101] ، يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران/ 185] اور تم کو تہمارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر/ 10] جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بیشمار ثواب ملے گا ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود/ 15] جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں پورا پورا دے دتیے ہیں ۔ وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال/ 60] اور تم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیاجائے گا : ۔ فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور/ 39] تو اس سے اس کا حساب پورا پورا چکا دے ۔ اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ [ السجدة/ 11] کہدو کہ موت کا فرشتہ تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ اللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ [ النحل/ 70] اور خدا ہی نے تم کو پیدا کیا پھر وہی تم کو موت دیتا ہے ۔ الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 28] ( ان کا حال یہ ہے کہ جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے لگتے ہیں ۔ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا[ الأنعام/ 61]( تو ) ہمارے فرشتے ان کی روحیں قبض کرلیتے ہیں ۔ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس/ 46] یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں ۔ وَتَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرارِ [ آل عمران/ 193] اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا ۔ وَتَوَفَّنا مُسْلِمِينَ [ الأعراف/ 126] اور ہمیں ماریو تو مسلمان ہی ماریو ۔ مجھے اپنی اطاعت کی حالت میں اٹھائیو ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے نبی اکرم آپ کفار کی دی گئی تکالیف پر صبر کیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی فتح اور ان کی ہلاکت کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ ضرور پورا ہو کر رہے گا سو اگر اس عذاب میں سے جس کا ان سے وعدہ کر رہے ہیں تھوڑا سا بدر کے دن آپ کو دکھا دیں یا اس کے دکھانے سے پہلے ہی آپ کو وفات دے دیں تو ان کو مرنے کے بعد ہمارے ہی پاس آنا ہوگا خواہ آپ ان پر نازل ہونے والا عذاب کو دیکھیں یا نہ دیکھیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٧ { فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ} ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ صبرکیجیے ‘ یقینا اللہ کا وعدہ حق ہے۔ “ اللہ کا وعدہ ہے کہ اس کا دین ضرور غالب ہوگا : { مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی } (طٰہ) ” ہم نے یہ قرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس لیے تو نازل نہیں کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ناکام ہوجائیں “ (معاذ اللہ ! ) { فَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُہُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ } ” تو اگر ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھا دیں اس میں سے کچھ جس کا ہم ان سے وعدہ کر رہے ہیں یا ہم آپ کو وفات دے دیں “ یہ مضمون قرآن میں متعدد بار آچکا ہے کہ جس عذاب کے بارے میں انہیں خبردار کیا جا رہا ہے وہ ان پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں بھی آسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان پر وہ برا وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دنیا سے چلے جانے کے بعد آئے۔ { فَاِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ } ” پھر ان کو ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ “ مجھے انہیں پکڑنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ وہ بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ انہوں نے آنا تو بہر حال میرے ہی پاس ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

105 That is, "You should have patience at what those people say and do, who arc opposing you by disputation and wrangling and want to defeat you by mean devices." 106 That is, "It is not necessary that We should punish every such person who has tried to harm you, in this world and during yow lifetime. Whether a person receives his punishment here or not, he cannot in any case escape Ow grasp: he has to return to Us after death. Then he will receive full punishment of his misdeeds."

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :105 یعنی جو لوگ جھگڑالو پن سے تمہارا مقابلہ کر رہے ہیں اور ذلیل ہتھکنڈوں سے تمہیں نیچا دکھانا چاہتے ہیں ان کی باتوں اور ان کی حرکتوں پر صبر کرو ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :106 یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم ہر اس شخص کو جس نے تمہیں زک دینے کی کوشش کی ہے اسی دنیا میں اور تمہاری زندگی ہی میں سزا دے دیں ۔ یہاں کوئی سزا پائے یا نہ پائے ، بہرحال وہ ہماری گرفت سے بچ کر نہیں جا سکتا ۔ مر کر تو اسے ہمارے پاس ہی آنا ہے ۔ اس وقت وہ اپنے کرتوتوں کی بھر پور سزا پالے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:77) فاصبر : ای فاصبر یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاما : اما اصل میں ان شرطیہ اور ما (زائدہ) سے مرکب ہے پس اگر ۔ ما زائدہ شرط کے موقع پر تاکید کلام کے لئے آتا ہے۔ نرینک : مضارع تاکید بانون ثقیلہ جمع متکلم اراء ۃ (افعال) مصدر ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ ہم تجھے دکھادیں۔ بعض الذی نعدہم : مفعول ثانی نرین کا۔ (اس عذاب کا) کچھ حصہ جس کا ہم نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے۔ نعدہم : مضارع جمع متکلم وعد (باب ضرب) مصدر سے۔ ہم ضمیر مفعول جسمع مذکر غائب۔ ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں۔ یہاں شئے معہود قتل و عذاب ہے اس کے بعد الفاظ فی الدنیا محذوف ہیں۔ او نتوفینک او حرف عطف بمعنی یا۔ (بمعنی خواہ یہاں تک۔ مگر، جبکہ، اگرچہ، کیا۔ مختلف معانی شک، ابہام ، تخبیر، اباحت و تفصیل کے لئے آتا ہے) ۔ نتوفین مضارع تاکید بانون ثقیلہ جمع متکلم ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ توفی (تفعل) مصدر۔ ہم تیری زندگی پوری کریں۔ یعنی تیری روح قبض کرلیں۔ اس کے بعد الفاظ قبل ذلک محذوف ہیں یعلی یا اس سے قبل ہی آپ کو اس جہان سے اٹھالیں۔ فالینا یرجعون اس کے بعد عبارت محذوف ہے ای فالینا یرجعون یوم القیامۃ فنجازیہم باعمالہم آخر کار ہماری طرف ہی لوٹائے جائیں گے روز قیامت کو پس ہم ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دیں گے۔ یہ جملہ (فالینا یرجعون) نتوفینک کا جواب ہے یعنی اگر کافروں کو دنیوی عذاب میں مبتلا کرنے سے پہلے ہم آپ کو وفات دیدیں تو آخرت میں ان کو ضرور عذاب دیں گے۔ اس صورت میں نرینک کا جواب محذوف ہے۔ مثلا فذاک اور یہ بھی جائز ہے کہ جملہ فالینا یرجعون دونوں کا جواب ہو اور دونوں سے اس کا تعلق ہو۔ مطلب یہ کہ کافروں کا عذاب دنیوی ہم آپ کو دنیا ہی میں دکھادیں یا آپ کو وفات پہلے دیدیں بہرحال آخرت میں تو سب کو ہمارے پاس آنا ہی ہے وہاں (کافروں کو) سخت عذاب ہونا لازم ہے (ان کے اعمال بد کے بدلہ میں ) (تفسیر مظہری)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی یہ لوگ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نیچا دکھانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں ان سے بےچین نہ ہوں بلکہ آنے والے وقت کا صبر سے انتظار کریں۔9” وہ ایک نہ ایک دن ضرور پورا ہو کہ رہے گا “ وعدہ سے مراد کافروں سے انتقام کا وعدہ ہے دنیا یا آخرت میں۔10 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جیتے جی اس وعدہ کو پورا کردیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی آنکھوں سے دیکھ ہی لیں گے۔11 وہاں یہ وعدہ پورا ہوجائے گا اور یہ سخت عذاب میں پکڑے جائیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی آپ کی حیات میں ان پر اس کا نزول ہوجائے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ٹھوس دلائل اور پُر خلوص کوشش کے ساتھ سمجھانے کے باوجود جو لوگ نصیحت حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو صبر سے کام لینا اور اپنے رب کے حکم کا انتظار کرنا چاہیے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا کام اور آرام چھوڑ کر دن، رات اس کوشش میں لگے رہتے کہ لوگ ہدایت پاجائیں۔ لیکن آپ کے مخاطب ہدایت حاصل کرنے کی بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑاتے۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں پر ہر قسم کی زیادتیاں کرتے۔ جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رنج پہنچتا اور آپ سوچتے کہ یہ کیسے ناہنجار لوگ ہیں کہ میں کسی مفاد کے بغیر ان کے لیے رات، دن ایک کیے ہوئے ہوں۔ لیکن یہ ” اللہ “ کا قرآن سمجھنے کی بجائے اس سے مزید دور ہورہے ہیں۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ صبر و حوصلہ کے ساتھ اپنا کام جاری رکھیں۔ اگر یہ لوگ اپنی روش سے باز نہ آئے تو ہم آپ کی زندگی میں وہ کچھ دکھائیں گے جس کا ان سے وعدہ کرتے ہیں یا پھر آپ کی وفات کے بعد انہیں دکھایا جائے گا۔ بالآخر انہوں نے ہمارے پاس ہی آنا ہے۔ وہاں اپنے کیے کا پورا انجام پالیں گے بلاشبہ ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے۔ جن میں بعض کے واقعات ہم نے آپ کے سامنے بیان کر دئیے ہیں اور بعض کے حالات ہم نے بیان نہیں کیے۔ کسی رسول کو یہ اختیار نہ تھا کہ وہ کوئی معجزہ اپنی مرضی سے پیش کرسکے۔ ہاں جس وقت ” اللہ “ کا حکم یعنی اس کا عذاب آئے گا تو ان کا قضیہ پورے عدل و انصاف کے ساتھ چکا دیا جائے گا۔ البتہ باطل کو اختیار کرنے والے ہر صورت دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اپنا وعدہ آپ کی زندگی میں اس طرح پورا فرمایا کہ آپ کے بڑے بڑے دشمن بدر کے میدان میں قتل ہوئے اور باقی مسلمان ہوگئے۔ کچھ آپ کی حیات مبارکہ میں اور باقی یہودی اور عیسائی خلفائے راشدین کے دور میں سرنگوں ہوگئے۔ اس طرح اسلام سربلند ہوا اور کفر و شرک ذلیل ہوئے۔ یہاں تک پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے واقعات بیان کرنے کا مقصد ہے ان میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کے لیے راہنمائی اور تسلی کا سامان ہے۔ نوح (علیہ السلام) کو دیکھیں ساڑھے نو سو سال دن، رات محنت کرتے رہے لیکن چند لوگ مسلمان ہوئے بالآخر ان کے مخالفین کو ڈبکیاں دے دے کر ختم کردیا گیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی جد وجہد پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو کس طرح بچایا اور کامیاب فرمایا۔ ان کے مخالف اپنی سازشوں اور شرارتوں میں کیسے ناکام اور ذلیل ہوئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات پر توجہ فرمائیں کہ ان پر اور ان کے ساتھیوں پر کتنا اور کتنی مدت تک ظلم ہوتا رہا۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) ہمت نہ ہارے اور ان کے ساتھیوں نے بھی صبر کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کا ساتھ دیا۔ نتیجتاً فرعون اور اس کے لشکر و سپاہ ذلّت کی موت مرے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی کامیاب ٹھہرے۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنے رب کی طرف سے عطا کردہ عظیم معجزے بنی اسرائیل کے سامنے پیش کیے لیکن انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ صرف جھٹلایا بلکہ اپنی طرف سے انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو آسمانوں پر اٹھاکران کی مد فرمائی اور ان کے دشمنوں کو ہمیشہ کے لیے ناکام اور ذلیل کردیا۔ یقین رکھیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم نافذہوتا ہے تو اہل باطل دنیا میں بھی ناقابل تلافی نقصان پایا کرتے ہیں اور آخرت کا عذاب تو لامحدود اور لامتناہی ہے۔ ” حضرت خباب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس وقت شکایت کی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کے سایہ میں چادر لپیٹ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے عرض کی آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد فرمائے۔ آپ اپنے چہرے سے چادر ہٹاکر بیٹھ گئے اور فرمایا اللہ کی قسم تم سے پہلے لوگوں کو پکڑا جاتا اور ان کو ایک گھڑھے میں گاڑ کر اس کے سر پر آرا چلا کر دو ٹکڑے کردیا جاتا۔ وہ پھر بھی اپنے دین پر قائم رہتا اس کا گوشت لوہے کی کنگھیوں سے نوچ لیا جاتا لیکن پھر بھی دین سے منحرف نہ ہوتا، اللہ تعالیٰ اس دین کو غالب فرمائے گا کہ ایک سوار صنعا سے لے کر حضرموت تک تن تنہا سفر کرے گا۔ اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا اسے صرف اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیے کا خوف ہوگا، لیکن تم عجلت کا مظاہرہ کر رہے ہو۔ “ [ رواہ البخاری : باب علامات النبوۃ ] مسائل ١۔ مسلمان کو مصیبت کے وقت صبر کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دنیا میں بھی مدد کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کامیاب فرمایا اور آپ کے دشمنوں کو ذلیل کیا۔ ٤۔ کسی نبی نے کوئی معجزہ اپنی مرضی سے پیش نہیں کیا۔ ٥۔ اہل باطل دنیا اور آخرت میں نقصان اٹھایا کرتے ہیں۔ ٦۔ بالآخر سب نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ تفسیر بالقرآن صبر کا حکم اور اس کا اجر : ١۔ صبر کیجئے اللہ نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (ھود : ١١٥) ٢۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ( البقرۃ : ١٥٣) ٣۔ صبر کرنے والے کا میاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٤۔ صبر کرنے والے کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد : ٢٤) ٥۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ ( الفرقان : ٧٥) ٦۔ صبر کرنے والے بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ ( الزمر : ١٠) ٧۔ صبر کیجیے اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ (الروم : ٦٠) ٨۔ اگر تم صبر کرو تو صبر کرنے والوں کے لیے بہترین اجر ہے۔ (النحل : ١٢٦) ٩۔ صبر کرو یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (الانفال : ٤٦) ١٠۔ اپنے رب کے حکم کے مطابق صبر کیجیے۔ (الدھر : ٢٤) ١١۔ بہت سی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ٢٤٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 77 یہ ایک جھلک ہے ، ہمیں چاہئے کہ ذدا اس پر غور کریں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دور میں مخالفین کی جانب سے کبر ، اذیت ، تکذیب اور نافرمانی کی اذیت جھیل رہے تھے۔ آپ کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ آپ کے فرائض یہ ہیں ، بس آپ ان تک اپنے آپ کو محدود کردیں ، رہے نتائج تو ان کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے یہاں تک کہ وہ مکذبین اور متکبرین کو اس دنیا میں سزا پاتے دیکھنے کی خواہش بھی یہ رکھیں۔ آپ کا فرض ہے کہ آپ حکم بجا لائیں ، اپنافریضہ ادا کردیں ، کیونکہ انجام تک کسی بات کو پہنچانا یہ داعی کا کام نہیں ہے۔ یہ اللہ کے اختیار میں ہے ، اور وہ وہی کچھ کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ الہہ العالمین ! کس قدر بلند مقام ہے یہ ۔ کس قدر کامل آداب کی تلقین ان لوگوں کو جو دعوت اسلامی کے کام میں لگے ہوئے ہیں اور یہ کون ہیں ؟ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رفقاء ! نفس انسانی کے لیے یہ حکم بہت بھاری ہے۔ یہ ایک ایسا حکم ہے جو ضعیف انسان کی چاہتوں کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں یہ حکم دینے سے بھی پہلے صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ لہٰذا یہاں دوبارہ صبر کی تلقین کا حکم دینا تکرار نہیں ہے۔ یہ ایک نئے انداز کا صبر ہے۔ یہ صبر ایذا ، تکذیب اور استہزاء سے بھی زیادہ مشکل صبر ہے۔ تمام داعیوں کو ، انسان اور بشرداعیوں کو ، یہ کہہ دینا کہ تمہارے دشمنوں کو ضرور سزا ہوگی۔ اللہ ان کو ضرور پکڑے گا لیکن شاید تم نہ دیکھ سکو ، یہ انسان کی اس خواہش کے خلاف ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو سزا پاتے دیکھے۔ یہ شدید خواہش ہوتی ہے ، جبکہ داعیوں پر مظالم ہورہے ہوں لیکن یہ آداب الہیہ ہیں اور یہ اللہ کی جانب سے اپنے مختار بندوں کی تربیت ہے اور نفس انسانی کو ہر اس بات سے پاک کرنا مطلوب ہے جس میں کوئی ادنیٰ سی خواہش بھی ہو۔ اگرچہ یہ خواہش صرف یہ ہو کہ دشمنان دین کو سزا ہوجائے۔ اس نکتے پر تمام داعیان دین کو غور کرلینا چاہئے ، چاہے وہ جس زمان ومکان میں بھی ہوں ، خواہشات کے طوفانوں میں یہ کامیابی کا لنگر ہے۔ یہ خواہشات تو ابتداء میں بڑی پاکیزہ نظر آتی ہیں لیکن آخر میں شیطان ان میں گھس آتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

71:۔ ” فاصبر ان وعدہ اللہ حق “۔ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی کا اعادہ ہے۔ آپ مشرکین کی ایذاؤں پر صبر کریں آخر کار غلبہ آپ ہی کو نصیب ہوگا۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو برحق ہے اور اپنے وقت پر ضرور پورا ہوگا۔ ” فاما نرینک الخ “ یہ تخویف دنیوی ہے۔ ہمارا وعدہ ہے کہ آپ غالب و منصور ہوں گے اور آپ کے دشمن مغلوب و مقہور۔ اب ہم آپ کی زندگی ہی میں آپ کے دشمنوں کو بعض موعودہ سزا دے دیں گے اور آپ بچشم خود دنیا ہی ملاحظہ فرما لیں گے جیسا کہ جنگ بدر وغیرہ میں تقل اور قید و بند۔ اور اگر ہم ان کو سزا دینے سے پہلے ہی آپ کو وفات دے دیں تو آخرت میں ان کو سزا دیں گے کیونکہ وہ ہمارے پاس واپس آئیں گے اور میدان حشر میں ہمارے سامنے حاضر کیے جائیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(77) سواے پیغمبر آپ صبر سے کام لیجئے اور سہار کیجئے بیشک اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق اور سچا ہے پھر جو وعدے ہم ان سے کررہے ہیں خواہ ان میں سے بعض کا وقوع آپ کو دکھلا دیں یا ان کے وقوع سے قبل ہم آپ کی عمر پوری کردیں اور آپ کو وفات دیدیں۔ بہرحال وہ ہماری ہی طرف واپس کئے جائیں گے اور ان کی بازگشت ہماری ہی طرف ہوگی۔ یہ آیت سورة یونس میں بھی گزر چکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس عذاب کا وعدہ ہم ان سے کرتے ہیں اور جس عذاب کا خوف ہم ان کو دلاتے ہیں ہوسکتا ہے کہ اس کا کچھ حصہ ہم ان کو آپ کی زندگی میں دکھلادیں یا ہم آپ کو وفات دیدیں اس کے بعد ان پر عذاب آئے یا نہ آئے۔ بہرحال ان کو ہماری طرف لوٹنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عذاب دنیوی اور اخروی کا جو وعدہ ہم نے کیا ہے وہ ضرور ان پر نازل ہوگا خواہ آپ کی زندگی میں نازل ہوجائے یا آپ کو وفات دیدیں پھر نازل ہو اور اخروی عذاب کا وعدہ تو پورا ہونا ہی ہے اور ہوا بھی ایسا ہی یعنی جنگ بدر اور فتح مکہ وغیرہ تو آپ کی زندگی میں ان کے لئے موجب تعذیب ہوا اور آپ کے بعد بھی ! اور قیامت کی دن بھی وعدہ پورا کیا جائے گا اس بنا پر اپنے پیغمبر کو صبر کا حکم دیا گیا تاکہ آپ کو تسلی ہو۔