Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 78

سورة مومن

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلًا مِّنۡ قَبۡلِکَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ قَصَصۡنَا عَلَیۡکَ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ لَّمۡ نَقۡصُصۡ عَلَیۡکَ ؕ وَ مَا کَانَ لِرَسُوۡلٍ اَنۡ یَّاۡتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۚ فَاِذَا جَآءَ اَمۡرُ اللّٰہِ قُضِیَ بِالۡحَقِّ وَ خَسِرَ ہُنَالِکَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ ﴿٪۷۸﴾  13

And We have already sent messengers before you. Among them are those [whose stories] We have related to you, and among them are those [whose stories] We have not related to you. And it was not for any messenger to bring a sign [or verse] except by permission of Allah . So when the command of Allah comes, it will be concluded in truth, and the falsifiers will thereupon lose [all].

یقیناً ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے ( واقعات ) ہم آپ کو بیان کر چکے ہیں اور ان میں سے بعض کے ( قصے ) تو ہم نے آپ کو بیان ہی نہیں کئے اور کسی رسول کا یہ ( مقدور ) نہ تھا کہ کوئی معجزہ اللہ کی اجازت کے بغیر لا سکے پھر جس وقت اللہ کا حکم آئے گا حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اس جگہ اہل باطل خسارے میں رہ جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلً مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ ... And, indeed We have sent Messengers before you, of some of them We have related to you their story. as Allah also says in Surah An-Nisa', meaning, `We have revealed the stories of some of them and how their people disbelieved in them, but the Messengers ultimately prevailed.' ... وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ... And of some We have not related to you their story, and they are many, many more than those whose stories have been told, as has been stated in Surah An-Nisa'. Praise and blessings be to Allah. ... وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِأيَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ ... and it was not given to any Messenger that he should bring a sign except by the leave of Allah. means, none of the Prophets was able to bring miracles to his people except when Allah granted him permission to do that as a sign of the truth of the message he brought to them. ... فَإِذَا جَاء أَمْرُ اللَّهِ ... But, when comes the commandment of Allah, means, His punishment and vengeance which will encompass the disbelievers, ... قُضِيَ بِالْحَقِّ ... the matter will be decided with truth, so the believers will be saved and the disbelievers will be destroyed. Allah says: ... وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ and the followers of falsehood will then be lost.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

78۔ 1 اور یہ تعداد میں، بہ نسبت ان کے جن کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ بہت زیادہ ہیں۔ اس لئے کہ قرآن کریم میں تو صرف 25، انبیاء و رسل کا ذکر اور ان کی قوموں کے حالات بیان کئے ہیں۔ 78۔ 2 آیت سے مراد یہاں معجزہ اور خرق عادت واقعہ ہے جو پیغمبر کی صداقت پر دلالت کرے کفار پیغمبروں سے مطالبے کرتے رہے کہ ہمیں فلاں فلاں چیز دکھاؤ جیسے خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار مکہ نے کئی چیزوں کا مطالبہ کیا جس کی تفصیل سورة بنی اسرائیل میں موجود ہے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ کسی پیغمبر کے اختیار میں یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی قوموں کے مطالبے پر ان کو کوئی معجزہ صادر کر کے دکھلادے یہ صرف ہمارے اختیار میں تھا بعض نبیوں کو تو ابتدا ہی سے معجزے دے دیے گئے تھے بعض قوموں کو ان کے مطالبے پر معجزہ دکھلایا گیا اور بعض کو مطالبے کے باوجود نہیں دکھلایا گیا ہماری مشیت کے مطابق اس کا فیصلہ ہوتا تھا کسی نبی کے ہاتھ میں یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ جب چاہتا معجزہ صادر کر کے دکھلا دیتا اس سے ان لوگوں کی واضح تردید ہوتی ہے جو بعض اولیاء کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے ہیں کہ وہ جب چاہتے اور جس طرح کا چاہتے خرق عادت امور کا اظہار کردیتے تھے جیسے شیخ عبد القادر جیلانی کے لیے بیان کیا جاتا ہے یہ سب من گھڑت قصے کہانیاں ہیں جب اللہ نے پیغمبروں کو یہ اختیار نہیں دیا جن کو اپنی صداقت کے ثبوت کے لیے اس کی ضرورت بھی تھی تو کسی ولی کو یہ اختیار کیوں کر مل سکتا ہے ؟ بالخصوص جب کہ ولی کو اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ نبی کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے اس لیے معجزہ ان کی ضرورت تھی لیکن اللہ کی حکمت ومشیت اس کی متقصضی نہ تھی اس لیے یہ قوت کسی نبی کو نہیں دی گئی ولی کی ولایت پر ایمان رکھنا ضروری نہیں ہے اس لیے انہیں معجزے اور کرامات کی ضرورت ہی نہیں ہے انہیں اللہ تعالیٰ یہ اختیار بلا ضرورت کیوں عطا کرسکتا ہے ؟ ‏78۔ 3 یعنی دنیا یا آخرت میں جب ان کے عذاب کا وقت معین آجائے گا۔ 78۔ 4 یعنی ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا۔ اہل حق کو نجات اور اہل باطل کو عذاب۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٩] حِسی معجزہ اور اس کے تقاضے :۔ کیونکہ معجزہ نبی کا فعل نہیں ہوتا بلکہ براہ راست اللہ کا فعل ہوتا ہے البتہ اس کا صدور نبی کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ معجزہ محض کھیل تماشا کے طور پر عطا نہیں ہوتا بلکہ اس سے مقصود کسی اہم دینی یا دنیوی غرض کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ بعض انبیاء کو کچھ معجزات ان کے طلب کرنے کے بغیر کافروں پر دلیل نبوت اور اتمام حجت کے طور پر عطا کئے گئے اور اگر کوئی پیغمبر کوئی حسی معجزہ پیش نہ کرے اور قوم اس سے حسی معجزہ کا مطالبہ کرے پھر اللہ تعالیٰ قوم کے مطالبہ پر ایسا معجزہ نبی کو دے دے لیکن کافر قوم پھر بھی ایمان نہ لائے تو اس پر یقیناً عذاب الیم نازل ہوتا ہے۔ جیسے قوم ثمود نے صالح سے اونٹنی کا معجزہ طلب کیا تھا۔ لیکن ان کے اس معجزہ ملنے کے بعد بھی جب وہ ایمان نہ لائے تو انہیں تباہ کردیا گیا۔ اسی طرح کچھ لوگوں نے سیدنا عیسیٰ سے آسمان سے پکا پکایا اور تیار دستر خوان اترنے کا مطالبہ کیا۔ تو بعض روایات کے مطابق ان کا یہ مطالبہ تو پورا کردیا گیا۔ مگر پھر بھی وہ لوگ ایمان نہ لائے تو انہیں بندر و سور بنادیا گیا تھا۔ کفار مکہ بھی آپ سے کئی طرح کے حسی معجزات کا مطالبہ کرتے تھے جن کا ذکر سورة بنی اسرائیل میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے یہ منہ مانگے معجزات رسول اللہ کو اسی وجہ سے عطا نہیں فرمائے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا کہ قوم قریش کو کچل کے رکھ دیا جائے کیونکہ بعد میں انہیں لوگوں میں سے بہت لوگوں نے اسلام لا کر بیش بہا خدمات سرانجام دیں۔ [١٠٠] && اللہ کے حکم && سے یہاں مراد اللہ کے عذاب کا حکم ہے اور اس کا اطلاق کسی قوم پر دنیا میں عذاب کے دن پر بھی ہوسکتا ہے اور آخرت کے دن پر بھی۔ جو بھی صورت ہو اللہ تعالیٰ رسولوں اور ان کے مخالفوں کے درمیان منصفانہ فیصلہ کردیتا ہے اس وقت رسول سرخرو اور کامیاب ہوتے ہیں اور باطل پرستوں کے حصہ میں ذلت و خسران کے سوا کچھ نہیں آتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ولقد ارسلنا رسلاً من قبلک : کفار نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشان کرنے اور نیچا دکھانے کے لئے اور اللہ کی آیات کا مقابلہ کرنے اور ان کے بارے میں کج بحثی کیلئے جو ناجائز مطالبے کئے ان میں سے ایک مطالبہ ان کی طلب اور تقاضے کے مطابق عجیب وغ ریب نشانیاں اور معجزے دکھانا تھا، جیسا کہ سورة نبی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣؛ ) میں گزرا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے بطور اسوہ و نمونہ پہلے رسولوں کا ذکر فرمایا کہ آپ ان کے ایسے مطالبوں سے پریشان یا غم زدہ نہ ہوں، آپ سے پہلے بہت سے رسول گزرے، مگر معجزہ دکھانا ان میں سے بھی کسی کے اختیار میں نہ تھا۔ سو اگر آپ انہیں ان کی طلب کے مطابق معجزہ نہ دکھا سکیں تو اس سے آپ کی رسالت کے سچا ہونا میں کوئی خلل نہیں آتا، جیسا کہ پہلے رسولوں کی رسالت میں کوئی خلل نہیں آیا۔ (٢) منھم من قصصنا علیک : ابن کثیر رحمتہ اللہ نے فرمایا کہ جن انبیاء کا بیان نہیں ہوا وہ تعداد میں ان پیغمبروں سے بہت ہی زیادہ ہیں جن کا قرآن میں ذکر ہوا۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة نساء (١٦٤) کی تفسیر۔ (٣) ہمارے استاذ محمد عبدہ رحمتہ اللہ لکھتے ہیں :” کسی قوم کے قدیم رہنما کے متعلق (جو ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ہوگزرے ہیں) قطعی طور پر یہ کہنا صحیح نہیں کہ وہ نبی نہ تھا، ممکن ہے کہ وہ نبی ہو اور اس نے توحید ہی کی دعوت پیش کی ہو مگر بعد کے لوگوں نے اس کی تعلیمات کو مسخ کردیا ہو۔ “ (اشرف الحواشی) ایسی کسی شخصیت کو یقین سے نبی بھی نہیں کہا جاسکتا۔ (٤) وما کان لرسول ان یاتی بایۃ الا باذن اللہ : مطلب یہ ہے کہ معجزہ کوئی کھیلن ہیں کہ کافروں نے جب چاہا نبی سے اس کا مطالبہ کردیا اور نیب نے جب چاہا اسے دکھا دیا، کسی رسول کے پاس اللہ کے اذان کے بغیر کوئی معجزہ بھی لانے کا اختیار نہیں۔ اس میں ان لوگوں کا واضح رہو ہے جو انبیاء تو ایک طرف اولائی کے متعلق بھی یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ وہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کو بھی واپس لانے کی قدرت رکھتے ہیں اور جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ (٥) فاذا جآء امر اللہ قضی بالحق : یعنی مطالبے پر جو معجزہ پیش کیا جاتا ہے اس کی حیثیت اللہ تعالیٰ کے دو ٹوک فیصلے کی ہوتی ہے، اگر کوئی قوم اس کے بعد بھی ایمان نہ لائے تو اس کی ہلاکت یقینی ہوتی ہے۔ (٦) وخسر ھنالک المبطلون :” ھنالک “ زمان و مکان دونوں کے لئے آتا ہے،” اس جگہ “ ، ” اس وقت “ اور ” اس موقع پر “ کے الفاظ میں دونوں معانی آجاتے ہیں۔ یعنی عذاب کی آمد کے موقع پر ایمان والے نجات پا جاتے ہیں اور باطل والے خسارے میں رہ جاتے ہیں اور ان کا نام و نشان مٹا دیاجاتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ مِنْہُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْہُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ۝ ٠ ۭ وَمَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ يَّاْتِيَ بِاٰيَۃٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ۝ ٠ ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَمْرُ اللہِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ ہُنَالِكَ الْمُبْطِلُوْنَ۝ ٧٨ۧ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ قصص الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِقُصِّيهِ [ القصص/ 11] ( ق ص ص ) القص کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص/ 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ أَذِنَ : والإِذنُ في الشیء : إعلام بإجازته والرخصة فيه، نحو، وَما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ [ النساء/ 64] أي : بإرادته وأمره، ( اذ ن) الاذن الاذن فی الشئی کے معنی ہیں یہ بتا دینا کہ کسی چیز میں اجازت اور رخصت ہے ۔ اور آیت کریمہ ۔ { وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ } ( سورة النساء 64) اور ہم نے پیغمبر بھیجا ہی اس لئے ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے ۔ میں اذن بمعنی ارادہ اور حکم ہے إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔ بطل البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] ( ب ط ل ) الباطل یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے آپ سے پہلے بہت سے پیغمبر ان کی قوموں کی طرف بھیجے تو ان میں سے بعضوں کا تو نام ہم نے آپ کو بتا دیا تاکہ آپ ان کو بھی تعلیم کردیں اور بعضوں کا ہم نے آپ سے نام بھی نہیں لیا۔ البتہ اتنی بات سن لو کہ جب انبیاء کرام (علیہم السلام) سے ان کی قوموں نے معجزہ بتانے کا مطالبہ کیا تو کسی رسول سے یہ نہ ہوسکا کہ کوئی معجزہ بغیر حکم الہی کے ظاہر کردے۔ غرض کہ جبکہ گزشتہ قوموں میں عذاب الہی کا وقت آگیا تو حق کے مطابق ان کو عذاب دیا گیا یا یہ کہ قیامت کے دن انبیاء کرام (علیہم السلام) اور ان کی امتوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا اور اس وقت کافر خسارہ میں رہ جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٨ { وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ مِنْہُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَیْکَ وَمِنْہُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ } ” اور ہم نے بہت سے رسول بھیجے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ‘ ان میں سے کچھ وہ بھی ہیں جن کا ذکر ہم نے آپ سے کیا ہے اور کچھ وہ بھی ہیں جن کا ذکر ہم نے آپ سے نہیں کیا۔ “ یعنی ان رسولوں میں سے بعض کے حالات آپ کو سنا دیے ہیں اور بعض کے نہیں سنائے۔ { وَمَا کَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ } ” اور کسی بھی رسول کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ وہ کوئی نشانی لے آتا مگر اللہ کے اذن سے۔ “ کبھی کوئی رسول اپنی مرضی اور ذاتی کوشش سے اپنی قوم کو کوئی معجزہ نہیں دکھا سکا۔ یہ مضمون اکثر مکی سورتوں میں آیا ہے۔ گویا اس مضمون کی ڈور کا تسلسل زیر مطالعہ مکی سورتوں میں بھی نظر آ رہا ہے۔ { فَاِذَا جَآئَ اَمْرُ اللّٰہِ قُضِیَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْمُبْطِلُوْنَ } ” پھر جب اللہ کا حکم آگیا تو فیصلہ چکا دیا گیا حق کے ساتھ اور اس وقت خسارے میں پڑگئے جھٹلانے والے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

107 A new theme starts from here. The disbelievers of Makkah said to the Holy Prophet, "We would not believe you to be Allah's Messenger unless you showed us the miracle that we ask you to show us." In the following verses an answer is being given to this very demand without mentioning it. (For the type of the miracles they demanded, see Hud: 12, Al-Hijr 7, Bani Isra'il: 90-93, Al-Furqan: 21 and the E.N.'s thereof). 108 That is, "No Prophet ever showed a miracle by his own will and desire, nor had any Prophet the power to show a miracle by himself. Whenever a miracle was shown through a Prophet, it was shown when Allah willed it to be shown through him to the disbelievers." This is the first answer to the disbelievers' demand. 109 That is, "A miracle has never been shown for the mere fun of it. It is a decisive thing. If a nation does not believe even after a miracle has been shown, it is destroyed. You are demanding a miracle only for the sake of fun, but you have no idea that by making such a demand you arc, in fact, inviting yow own doom. " This is the second answer to their demand. (For details, please sec AIHijr: 8, 58-60, Bani Isra'il 59, AI-Anbiya': 5-9, Al-Furqan: 22-23, Ash-Shua`ra': 66-67 and the E.N.'s thereof ).

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :107 یہاں سے ایک اور موضوع شروع ہو رہا ہے ۔ کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ ہم آپ کو اس وقت تک خدا کا رسول نہیں مان سکتے جب تک آپ ہمارا منہ مانگا معجزہ ہمیں نہ دکھا دیں ۔ آگے کی آیات میں ان کی اسی بات کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا جا رہا ہے ۔ ( جس قسم کے معجزات کا وہ لوگ مطالبہ کرتے تھے ان کے چند نمونوں کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، ہود ، حاشیہ۱۳ ، الحجر ، حواشی٤ ۔ ۵ ، بنی اسرائیل ، حواشی ۱۰۵ ۔ ۱۰٦ ، جلد سوم ، الفرقان ، حاشیہ ۳۳ ) سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :108 یعنی کسی نبی نے بھی کبھی ا پنی مرضی سے کوئی معجزہ نہیں دکھایا ہے ، اور نہ کوئی نبی خود معجزہ دکھانے پر قادر تھا ۔ معجزہ تو جب بھی کسی نبی کے ذریعہ سے ظاہر ہوا ہے اس وقت ظاہر ہوا ہے جب اللہ نے یہ چاہا کہ اس کے ہاتھ سے کوئی معجزہ کسی منکر قوم کو دکھایا جائے ۔ یہ کفار کے مطالبے کا پہلا جواب ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :109 یعنی معجزہ کبھی کھیل کے طور پر نہیں دکھایا گیا ہے ۔ وہ تو ایک فیصلہ کن چیز ہے ۔ اس کے ظاہر ہو جانے کے بعد جب کوئی قوم نہیں مانتی تو پھر اس کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے ۔ تم محض تماش بینی کے شوق میں معجزے کا مطالبہ کر رہے ہو ، مگر تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ اس طرح دراصل تم خود تقاضے کر کر کے اپنی شامت بلا رہے ہو ۔ یہ کفار کے اس مطالبہ کا دوسرا جواب ہے ، اور اس کی تفصیلات اس سے پہلے قرآن میں متعدد مقامات پر گزر چکی ہیں ( ملاحظہ ہو جلد دوم ، الحجر ، حواشی ۵ ۔ ۳۰ ، بنی اسرائیل ، حواشی ٦۸ ۔ ٦۹ ، جلد سوم ، الانبیاء ، حواشی ۷ ۔ ۸ ، الفرقان ، حاشیہ ۳۳ ، الشعراء ، حاشیہ ٤۹ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: کفار مکہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار نت نئے معجزے دکھانے کی فرمائش کرتے رہتے تھے، اور اصرار کرتے تھے کہ وہی معجزہ دکھائیں جو ہم کہیں، اور مقصد سوائے وقت گزاری کے کچھ نہیں تھا، کیونکہ آپ کے کئی معجزات دیکھنے کے باوجود وہ ایمان لانے پر تیار نہیں تھے، اس لئے یہاں ان کو دینے کے لئے یہ جواب سکھایا جارہا ہے کہ معجزہ دکھانا کسی پیغمبر کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا، وہ صرف اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے دکھایا جاسکتا ہے۔ اس لیے آپ ان سے صاف کہہ دیں کہ میں تمہاری نت نئی فرمائشیں پوری کرنے سے معذور ہوں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:78) وما کان لرسول ۔۔ باذن اللّٰہ۔ میں ایۃ سے مراد عجزہ ہے۔ ترجمہ یہ ہے کہ : اور کسی رسول کا یہ مقدور نہیں کہ وہ کوئی معجزہ بدون اذن الٰہی ظاہر کرسکے۔ یعنی کوئی رسول کوئی معجزہ صرف اس وقت ظاہر کرسکتا ہے جب اللہ چاہتا ہے کہ وہ معجزہ کسی منکر منکر قوم کو دکھایا جائے۔ کیونکہ معجزہ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک فیصلہ کن چیز ہے کیونکہ جب ایک قوم اس کے دکھائے جانے کے بعد بھی نہیں مانتی تو پھر اس کا خاتمہ کردیا جاتا ہے۔ یعنی ان کے انکار حق پر قضی بینھم بالحق وخسرھنالک المبطلون۔ کا معاملہ وقوع پذیر ہوجانا ہے تو فیصلہ حق کے مطابق کردیا جاتا ہے اور باطل پرست پھر گھاٹا کھانے والے ہی ہوتے ہیں۔ امر اللّٰہ۔ اللہ کا حکم۔ اللہ کا فیصلہ ۔ یعنی انبیاء اور ان کی امتوں کے درمیان اللہ کا آخری فیصلہ۔ ھنالک : اسم ظرف مکان ہے لیکن یہاں استعارۃ بطور اسم ظرف زمان استعمال ہوا ہے بمعنی وقت مجیئی امر اللّٰہ۔ اللہ کا حکم آجانے کے وقت۔ بعض کے نزدیک اسم ظرف مکان و اسم ظرف زمان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اس وقت ، اس جگہ۔ المبطلون : اسم فاعل جمع مذکر۔ غلط گو۔ جھوٹے۔ اہل باطل۔ باطل پرست۔ لکم میں لام تعلیل کا ہے۔ اختصاص کے لئے نہیں ہے۔ منھا من تبعیضیہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی بعض کا تفصیلی حال بیان کیا اور بعض کا نہیں کیا۔ بہر حال سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : یہ یعنی لم نفص ان پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کئی گنا کثیر تعداد میں ہیں جن کے احوال قرآن میں مذکور ہیں۔ جیسا کہ سورة نساء آیت 64 میں اس پر تنبیہ گزر چکی ہے۔ ( واللہ الحمد وامنہ) کسی قوم کے کسی قدیم رہنماء کے متعلق ( جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ہو کر گزرے ہیں) قطعی طور پر یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ نبی نہ تھا۔ ممکن ہے کہ وہ نبی ہو اور اس نے توحید ہی کی دعوت پیش کی ہو مگر بعد کے لوگوں نے اس کی تعلیمات کو مسخ کردیا۔13 مطلب یہ ہے کہ معجزہ کوئی کھیل نہیں کہ کافروں نے جب چاہا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا مطلب کردیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب چاہا اسے دکھا دیا۔ بلکہ اسکی حیثیت دو ٹوک فیصلے کی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ہی جب چاہتا ہے اسے اپنے کسی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ سے دکھواتا ہے اور جب تک نہیں چاہتا نہیں دکھواتا۔ معجزہ ظاہر ہونے کے بعد مومنوں کی نجات اور باطل پرستوں کی تباہی یقینی ہوجاتی ہے۔ یہ کفار مکہ کے اس مطالبہ کا جواب ہے جو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معجزہ دکھانے کیلئے آئے دن کرتے رہتے تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 226 ایک نظر میں یہ پورا سبق اس سے پہلے سبق کے آخر میں آنے والے درس عبرت کی تکمیل وتشریح ہے۔ حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھی مومنین کو ہدایت کی گئی تھی کہ آپ لوگ مشکلات راہ پر صبر کریں۔ اس وقت تک کہ اللہ کا حکم آجائے اور اللہ نے فتح اسلام کا جو و عدہ کیا ہے وہ پورا ہوجائے ۔ چاہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ہو یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ہو۔ کیونکہ اختیار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ بلکہ معاملہ اسلام اور اسلام کو ماننے والوں اور ان کے مخالفین اور مجادلین کا ہے۔ دونوں برسرجنگ ہیں اور فیصلہ ان کے درمیان اللہ کو کرنا ہے۔ اور یہ اللہ ہی ہے جو اسلامی انقلاب کی تحریک کو چلاتا ہے ، جس طرح چاہتا ہے۔ یہ سبق جس پر اس سورت کا خاتمہ ہورہا ہے ، اس حقیقت کو ایک دوسرے رنگ میں پیش کررہا ہے یہ کہ کفر واسلام کی جنگ کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ یہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور اسلام سے شروع ہوئی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل بھی رسول بھیجے گئے ہیں بعض کے قصے آپ کے سامنے بیان کیے گئے ہیں اور بعض کے بیان نہیں کیے گئے۔ ان سب کا استقبال تکذیب اور انکار سے کیا گیا۔ سب سے مطالبہ کیا گیا کہ معجزات پیش کرو ، اور سب نے یہ تمنائیں کیں کہ کاش اللہ کوئی معجزہ صادر کردے جس کو دیکھ کر تکذیب کرنے والے مان لیں ، لیکن معجزات کا صدور اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ اور اس وقت ہوتاط ہے جب اللہ جاہتا ہے۔ یہ دعوت اللہ کی دعوت ہے وہ جس طرح چاہتا ہے ، اسے چلاتا ہے۔ البتہ اللہ کے بعض معجزات اس کائنات میں بکھرے پڑے ہیں ، ہر زمان ومکان کے لوگوں کی نظروں کے سامنے ہیں۔ مثلاً مویشی ، کشتیاں اور دوسری چیزیں جن کا انکار کوئی نہیں کرسکتا اور اس سبق کا خاتمہ ایک نہایت شدید جھٹکے سے ہوتا ہے جس میں ان اقوام کی ہلاکت دکھائی گئی ہے جہنون نے اس سے قبل تکذیب کی اور وہ اپنے مال ، دولت اور ترقی پر نازاں رہے۔ اللہ نے پھر ان کو اپنی سنت کے مطابق پکڑا۔ فلم یک۔۔۔۔۔۔ الکفرون (40: 78) ” مگر ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کا ایمان ان کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہوسکا تھا ، کیونکہ یہی اللہ کا مقرر شدہ ضابطہ ہے جو ہمیشہ اس کے بندوں میں جاری رہا ہے اور اس وقت کافر لوگ خسارے میں پڑے۔ درس نمبر 226 تشریح آیات آیت نمبر 78 اقامت دین کی جدوجہد کی مثالیں اور پیغمبر بھیجنے کی مثالیں سابقہ تاریخ میں وجود ہیں۔ بعض کے واقعات قرآن میں بیان کیے گئے ہیں اور بعض کا تذکرہ نہیں کیا گیا ، اور جن کے واقعات سابقہ تاریخ میں موجود ہیں۔ بعض کے اوقات قرآن میں بیان کیے گئے ہیں اور بعض کا تذکرہ نہیں کیا گیا ، اور جن کے واقعات بیان کیے گئے ہیں ان میں تحریک اسلامی کی طویل جدوجہد کے نشانات راہ موجود ہیں۔ یہ راستہ واضح ہے اور طویل ہے اور اپنی منزل تک پہنچتا ہے۔ اور ان پیغمبروں کے واقعات صاف صاف بتاتے ہیں کہ اللہ کی سنت کیا ہے اور رسولوں کا فریضہ کیا ہے۔ اور جس بات کی تاکید مطلوب ہے اس کی وضاحت بھی کردی گئی جس پر داعی کو اعتماد کرنا چاہئے وہ یہ کہ۔ وما کان۔۔۔۔ باذن اللہ (40: 78) ” کسی رسول کی بھی طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اذن کے بغیر خود کوئی نشانی لے آئے “۔ نفس انسانی کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے ، اگرچہ رسول ہی کیوں نہ ہو کہ دعوت اسلامی کے مخالفین دعوت اسلامی کو قبول کرلیں ، اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور ضد کرنے والے لوک اس پر یقین کرلیں۔ اس لیے قدرتی وطرپر انسانی نفوس معجزات کے صدور کی خواہش رکھتے ہیں تاکہ مخالفین کی زبانیں بندہوجائیں اور وہ یقین کرلیں لیکن اللہ کی خواہش یہ ہے کہ اس کے مختار بندے صبر کا سہارا لیں آپ کو دعوت پر قائم رکھیں ۔ یہ بات یوں کہی جاتی ہے کہ فتح وشکست کا معاملہ تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ تمہارا کام یہ ہے کہ تم دعوت پہنچا دو ۔ رہ معجزہ دکھانا ، تو اللہ کا کام ہے ، جس وقت اللہ چاہے گا معجزہ آجائے گا۔ تم اطمینان رکھو ، ثابت قدم رہو اور دلجمعی سے کام کرو اور جو نتائج تمہارے ہاتھوں سے برآمد ہوتے ہیں ، ابن پر صبر کرو ، دعوت کا انجام اللہ کے سپرد کردو یہاں یہ بھی بتادیا جاتا ہے کہ لوگ حقیقت الوہیت کو بھی جان لیں اور منصب رسالت کو بھی سمجھ لیں۔ اور یہ جان لیں کہ رسول بھی بشر ہوتے ہیں۔ ان کو اللہ نے منصب نبوت کے لیے چن لیا ہوتا ہے۔ ان کے لیے فریضہ مقرر کردیا جاتا ہے ، نہ وہ طاقت رکھتے ہیں اور نہ ان کو اجازت ہے کہ اپنے فرائض کے حدود سے آگے بڑھیں۔ پھر یہ کہ معجزات کے آنے میں تاخیر ان کیلیے ایک نعمت ہے کیونکہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ جب معجزات آتے ہیں اور لوگ انکار کرتے ہیں تو اللہ پھر اپنی اقوام کو ہلاک کردیتا ہے اسلیے معجزہ نہ آنا دراصل ایک مہلت ہے اور یہ مہلت اللہ کی طرف سے ہے۔ فاذاجآء۔۔۔۔ المبطلون (40: 78) ” پھر جب اللہ کا حکم آگیا تو حق کے مطابق فیصلہ کردیا گیا۔ اور اس وقت غلط کار لوگ خسارے میں پڑگئے “۔ اب پھر عمل اور توبہ یا واپسی کی کوئی مہلت باقی نہیں رہتی اور آخری فیصلہ ہوجاتا ہے۔ اب ان لوگوں کو جو معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں ، ان آیات ومعجزات کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے جو اس کائنات میں بکھرے پڑے ہیں اور جن کو رات دن دیکھتے دیکھتے انسان ان کے ساتھ اس قدر مانوس ہوگیا ہے کہ اب وہ اس کے لیے معجزہ نہیں رہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان پر غور وفکر کیا جاتا تو ہرگز مزید کسی معجزے کا مطالبہ نہ ہوتا ۔ یہ تمام چیزیں اللہ کی الوہیت کی بھی نشانیاں ہیں ، کیونکہ اللہ کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جو دعویٰ کرسکتا ہو کہ اس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے اور اسی طرح یہ دعویٰ بھی بادی النظر میں مسترد ہے کہ یہ تمام کائنات از خود وجود میں آگئی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہم نے آپ سے بعض رسولوں کا تذکرہ کردیا ہے اور بعض کا نہیں کیا، کسی نبی کو اختیار نہ تھا کہ اذن الٰہی کے بغیر کوئی نشانی لے آئے آیت بالا میں دو باتیں ذکر فرمائیں اولاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے فرمایا کہ ہم نے آپ سے پہلے بڑی تعداد میں رسول بھیجے جن میں سے بعض کا تذکرہ ہم نے آپ سے کردیا اور بعض کا تذکرہ نہیں کیا۔ جن حضرات کا تذکرہ فرمایا ہے سورة بقرہ، سورة مائدہ، سورة انعام اور سورة اعراف و سورة ہود اور سورة الانبیاء میں اور بعض دیگر سورتوں میں مذکور ہیں یہ اس کے معارض نہیں ہے کہ اجمالی طور پر ان حضرات کی تعداد سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو باخبر فرما دیا ہو تفصیلی اخبار و آثار کا بیان نہ فرمانا اجمالی عدد جاننے کے لیے منافی نہیں، مسند احمد میں حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ انبیاء (علیہ السلام) کرام کی کتنی تعداد ہے آپ نے فرمایا ایک لاکھ چوبیس ہزار (مزید فرمایا کہ) ان میں تین سو پندرہ رسول تھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ١٥١) چونکہ یہ حدیث متواتر نہیں ہے اس لیے علماء نے فرمایا کہ ایمان لانے میں حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کا خاص عدد ذکر نہ کرے بلکہ یوں عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام رسولوں اور نبیوں پر ایمان رکھتا ہوں۔ دوسری بات یہ بتائی کہ کسی نبی کو یہ قدرت نہ تھی اور نہ یہ اختیار تھا کہ خود سے کوئی معجزہ لے آئے جتنے بھی معجزات امتوں کے سامنے لائے گئے وہ سب اللہ کے اذن اور مشیت سے تھے سابقین انبیائے کرام (علیہ السلام) سے بھی ان کی امتوں نے اپنی خواہشوں کے مطابق معجزات طلب کیے وہ حضرات خود مختار نہ تھے جو خود سے معجزات پیش کردیتے اللہ تعالیٰ نے جو معجزہ چاہا ظاہر فرما دیا آپ سے بھی امت کے لوگ خود تراشیدہ معجزات طلب کرتے ہیں اور اس کے ظاہر نہ ہونے پر آپ کی تکذیب کرتے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے انبیائے سابقین کے ساتھ بھی ایسا ہوتا رہا ہے آپ تسلی رکھیے اور ان حضرات کی طرح صبر کیجیے (فَاِِذَا جَاءَ اَمْرُ اللّٰہِ قُضِیَ بالْحَقِّ ) پھر جب اللہ کا حکم آئے گا یعنی دنیا میں یا آخرت میں عذاب کا نزول ہوجائے گا تو اس وقت فیصلہ کردیا جائے گا جو حضرات حق پر ہوں گے ان کی نجات ہوگی اور اجر وثواب ملے گا اور اہل باطل عذاب میں مبتلا ہوں گے (وَخَسِرَ ھُنَالِکَ الْمُبْطِلُوْنَ ) اور اس وقت باطل والے خسارہ یعنی ہلاکت اور بربادی میں پڑجائیں گے لہٰذا آپ انتظار فرمائیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور فیصلہ ہوگا اور حق فیصلہ ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

72:۔ ” ولقد ارسلنا “ یہ دلیل نقلی کا اعادہ ہے۔ یہ دلیل نقلی اجمالی ہے تمام انبیاء (علیہم السلام) سے۔ تمام گذشتہ انبیاء (علیہم السلام) کو اسی دعوے کے ساتھ بھیجا گیا۔ ان میں سے بعض کا ذکر ہم نے آپ سے کیا ہے اور بعض کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن ہر حال دعوت سب کی ایک ہی تھی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود اور کارساز نہیں۔ لہذا حاجات و مصائب میں صرف اسی کو پکارو۔ ” وما کان لرسول الخ “ یہ سوال مقدر کا جواب ہے۔ مشرکین ازراع عناد کہتے ہم تب مانیں گے اگر پیغمبر (علیہ السلام) ہمیں مطلوبہ معجزہ دکھائے فرمایا معجزہ دکھانا پیغمبر کے اختیار میں نہیں کہ جب کوئی اس سے مطالبہ کرے فورًا دکھا دے، بلکہ معجزہ اللہ کے اختیار میں ہے، جب اللہ تعالیٰ چاہے بتقاضائے حکمت بالغہ، پیغمبر (علیہ السلام) کے ہاتھ پر ظاہر فرما دے۔ فالمعجزات علی تشعب فتو تھا عطا یا من اللہ تعالیٰ قسمہا بینہم جسما اقتضتہ مشیئتہ المبنیۃ علی الحکم البالغۃ کسائر القسم لیس لھم اختیار فی ایثار بعضھا والاستبداد باتیان المقترح بھا (روح ج 24 ص 89) ۔ ” فاذا جاء امر اللہ الخ “ جب اللہ کے عذاب کا معین وقت آ پہنچتا ہے تو حق بات کا فیصلہ کردیا جاتا ہے یعنی انبیاء (علیہ السلام) اور ان کے متبعین کو غالب کیا جاتا ہے اس وقت باطل پرست خسارے میں رہتے ہیں۔ کیونکہ ان کو رسوا کن اور ذلت آمیز عذاب کے ساتھ تباہ وبرباد کردیا جاتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(78) اور بلاشبہ ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے ہیں جن میں سے کچھ تو وہ ہیں جن کے حالات ہم نے آپ سے بیان کردیئے ہیں اور بعض وہ ہیں جن کا بیان ہم نے آپ سے نہیں کیا اور کسی رسول کو یہ طاقت نہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی معجزہ لاسکے اور دکھا سکے پھر جس وقت اللہ تعالیٰ کے عذاب کا حکم آگے گا تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور اس وقت جھوٹے اور بےہودہ گو سخت خسارے میں رہیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ رسولوں کی تعداد علی اختلاف الروایات خواہ کچھ ہو لیکن آپ سے پہلے بہت سے رسول آچکے پھر ان میں سے کسی کا حال آپ کو بتادیا گیا اور بعض کا نہیں بھی بتایا بہرحال ایک چیز سب میں مشترک ہے وہ یہ کہ بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کے کسی کو یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ کوئی معجزہ دکھا سکے یا کوئی نشانی ظاہر کرسکے پھر جب اللہ تعالیٰ کا وعدہ عذاب اور عذاب کا حکم آجائے گا خواہ وہ دنیا کا عذاب ہو یا آخرت کا اس وقت اہل باطل بےہودہ گو اور جھوٹے سخت خسارے اور نقصان میں ہوں گے۔ آگے پھر توحید کی دلیل اور توحید کے انکار پر توبیخ اور عذاب کے آجانے کے بعد ایمان کا غیر مفید ہونا مذکور ہے۔