107 A new theme starts from here. The disbelievers of Makkah said to the Holy Prophet, "We would not believe you to be Allah's Messenger unless you showed us the miracle that we ask you to show us." In the following verses an answer is being given to this very demand without mentioning it. (For the type of the miracles they demanded, see Hud: 12, Al-Hijr 7, Bani Isra'il: 90-93, Al-Furqan: 21 and the E.N.'s thereof).
108 That is, "No Prophet ever showed a miracle by his own will and desire, nor had any Prophet the power to show a miracle by himself. Whenever a miracle was shown through a Prophet, it was shown when Allah willed it to be shown through him to the disbelievers." This is the first answer to the disbelievers' demand.
109 That is, "A miracle has never been shown for the mere fun of it. It is a decisive thing. If a nation does not believe even after a miracle has been shown, it is destroyed. You are demanding a miracle only for the sake of fun, but you have no idea that by making such a demand you arc, in fact, inviting yow own doom. " This is the second answer to their demand. (For details, please sec AIHijr: 8, 58-60, Bani Isra'il 59, AI-Anbiya': 5-9, Al-Furqan: 22-23, Ash-Shua`ra': 66-67 and the E.N.'s thereof ).
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :107
یہاں سے ایک اور موضوع شروع ہو رہا ہے ۔ کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ ہم آپ کو اس وقت تک خدا کا رسول نہیں مان سکتے جب تک آپ ہمارا منہ مانگا معجزہ ہمیں نہ دکھا دیں ۔ آگے کی آیات میں ان کی اسی بات کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا جا رہا ہے ۔ ( جس قسم کے معجزات کا وہ لوگ مطالبہ کرتے تھے ان کے چند نمونوں کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، ہود ، حاشیہ۱۳ ، الحجر ، حواشی٤ ۔ ۵ ، بنی اسرائیل ، حواشی ۱۰۵ ۔ ۱۰٦ ، جلد سوم ، الفرقان ، حاشیہ ۳۳ )
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :108
یعنی کسی نبی نے بھی کبھی ا پنی مرضی سے کوئی معجزہ نہیں دکھایا ہے ، اور نہ کوئی نبی خود معجزہ دکھانے پر قادر تھا ۔ معجزہ تو جب بھی کسی نبی کے ذریعہ سے ظاہر ہوا ہے اس وقت ظاہر ہوا ہے جب اللہ نے یہ چاہا کہ اس کے ہاتھ سے کوئی معجزہ کسی منکر قوم کو دکھایا جائے ۔ یہ کفار کے مطالبے کا پہلا جواب ہے ۔
سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :109
یعنی معجزہ کبھی کھیل کے طور پر نہیں دکھایا گیا ہے ۔ وہ تو ایک فیصلہ کن چیز ہے ۔ اس کے ظاہر ہو جانے کے بعد جب کوئی قوم نہیں مانتی تو پھر اس کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے ۔ تم محض تماش بینی کے شوق میں معجزے کا مطالبہ کر رہے ہو ، مگر تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ اس طرح دراصل تم خود تقاضے کر کر کے اپنی شامت بلا رہے ہو ۔ یہ کفار کے اس مطالبہ کا دوسرا جواب ہے ، اور اس کی تفصیلات اس سے پہلے قرآن میں متعدد مقامات پر گزر چکی ہیں ( ملاحظہ ہو جلد دوم ، الحجر ، حواشی ۵ ۔ ۳۰ ، بنی اسرائیل ، حواشی ٦۸ ۔ ٦۹ ، جلد سوم ، الانبیاء ، حواشی ۷ ۔ ۸ ، الفرقان ، حاشیہ ۳۳ ، الشعراء ، حاشیہ ٤۹ )