Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 81

سورة مومن

وَ یُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ ٭ۖ فَاَیَّ اٰیٰتِ اللّٰہِ تُنۡکِرُوۡنَ ﴿۸۱﴾

And He shows you His signs. So which of the signs of Allah do you deny?

اللہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا جا رہا ہے پس تم اللہ کی کن کن نشانیوں کا منکر بنتے رہو گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَيُرِيكُمْ ايَاتِهِ ... And He shows you His Ayat. means, `His proof and evidence, on the horizons and in yourselves.' ... فَأَيَّ ايَاتِ اللَّهِ تُنكِرُونَ Which, then of the Ayat of Allah do you deny! means, you cannot deny any of His signs and proofs, unless you are stubborn and arrogant.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81۔ 1 جو اس کی قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ نشانیاں آفاق میں ہی نہیں ہیں تمہارے نفسوں کے اندر بھی ہیں۔ 81۔ 2 یعنی یہ اتنی واضح عام اور کثیر ہیں جن کا کوئی منکر انکار کرنے کی قدرت نہیں رکھتا یہ استفہام انکار کے لیے ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠١] مویشیوں میں انسان کے لئے خوئے غلامی کس نے پیدا کی & مویشیوں سے انسان کو حاصل ہونے والے فوائد :۔ کفار مکہ رسول اللہ سے طرح طرح کے حسی معجزات کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔ جس کا ایک جواب تو سابقہ آیت میں دیا گیا ہے کہ ایسا معجزہ پیش کرنا کسی رسول کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ان آیات میں کفار کے اسی مطالبہ کا دوسرا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں تو تمہیں اپنے دائیں بائیں، اوپر نیچے اندر باہر ہر طرف ہی مل سکتی ہیں۔ اگر تم سوچو تو تمہارے راہ راست کو قبول کرنے کے لئے رہنمائی ان میں بھی موجود ہے۔ مثلاً جو مویشی تم پالتے ہو ان پر بھی نظر ڈال کر دیکھ لو۔ ان کی ساخت اور ان کی فطرت ہی ہم نے ایسی بنادی ہے کہ وہ فوراً تمہارے تابع بن جاتے ہیں۔ پھر ان سے تم ہزاروں قسم کے فوائد حاصل کرتے ہو۔ ان کے دودھ سے بالائی، مکھن، پنیر، گھی اور لسی بناتے ہو۔ اور یہ چیزیں تمہارے جسم کا انتہائی اہم جزو ہیں۔ پھر ان پر سواری کرتے ہو۔ تمہارے بوجھل سامان کو یہ اٹھاتے ہیں۔ تمہاری کھیتی میں ہل یہ چلاتے ہیں۔ کنوئیں سے پانی یہ کھینچتے ہیں۔ مشقت کے سب کام تم ان سے لیتے ہو۔ پھر انہیں ذبح کرکے ان کا گوشت بھی کھاتے ہو۔ ان کے بالوں سے اپنی پوشاک تیار کرتے ہو۔ اور مرنے کے بعد ان کی ہڈیوں، دانتوں اور کھالوں تک کو اپنے کام میں لاتے ہو۔ ان مویشیوں میں انسان کے لئے یہ خوئے غلامی کس نے پیدا کی ؟ تمہاری پیدائش سے بھی بہت پہلے تمہاری ضروریات کا اس قدر خیال رکھنے والا کون ہے ؟ خ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والوں کا کیوں محاسبہ نہ کیا جائے :۔ اب دوسری طرف نظر ڈالو۔ زمین کے تین چوتھائی حصہ پر پانی یا سمندر پھیلے ہوئے ہیں۔ خشکی صرف چوتھا حصہ ہے جس پر تم اور تمہارے مویشی سب رہتے ہیں۔ اتنے سے خشکی کے حصہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا پانی کا ذخیرہ کیوں پیدا کردیا ؟ کیا کبھی تم نے اللہ کی اس نشانی پر غور کیا ؟ پھر پانی اور ہواؤں کو ایسے طبعی قوانین کا پابند بنادیا کہ تم دریاؤں اور سمندروں میں کشتی بانی اور جہاز رانی کے قابل بن گئے۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کے لئے طبعی قوانین ہی بدل ڈالے اور وہ ہر چیز کا خالق ہے اور اس میں جیسے چاہے تصرف کرسکتا ہے تو کیا تم جہاز رانی کرسکتے تھے ؟ یا اس زمین پر زندہ رہ سکتے تھے ؟ پھر یہ بھی سوچو کہ جس حکمتوں والے پروردگار نے اپنی اتنی بیشمار چیزیں تمہارے تصرف میں دے رکھی ہیں کیا وہ انسان کو اتنے اختیارات دے کر اس کو یونہی چھوڑ دے گا اور اس سے اپنی ان نعمتوں کا کبھی حساب نہ لے گا ؟ اور یہ نہ پوچھے گا کہ جس رحیم پروردگار نے تمہاری جملہ ضروریات کا اس قدر خیال رکھا۔ پھر ساتھ کے ساتھ اپنی رحمتیں بھی نازل فرماتا رہا تو کیا انسان نے اللہ کی ان نعمتوں کی قدر کی ؟ اس کا شکریہ ادا کیا ؟ یا وہ نمک حرام اور ناشکرا ثابت ہوا اور اپنی نیاز مندیاں اللہ کے بجائے دوسرے کے سامنے نچھاور کرنے لگا ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيُرِيْكُمْ اٰيٰتِہٖ۝ ٠ ۤۖ فَاَيَّ اٰيٰتِ اللہِ تُنْكِرُوْنَ۝ ٨١ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ نكر الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ( ن ک ر ) الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون/ 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور مکہ والو اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی قدرت کی اور بھی نشانیاں دکھاتا رہتا ہے جیسا کہ چاند اور سورج، ستارے، رات، دن، پہاڑ، بادل، دریا وغیرہ یہ سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں سو تم اللہ کی کون کون کون سی نشانیاں کا انکار کرو گے کہ یہ اللہ نشانی نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨١ { وَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖق فَاَیَّ اٰیٰتِ اللّٰہِ تُنْکِرُوْنَ } ” اور وہ تمہیں اپنی آیات دکھاتا رہتا ہے ‘ تو تم اللہ کی کون کون سی آیات کا انکار کرو گے ؟ “ گزشتہ تین آیات میں آیات آفاقیہ کا ذکر ہوا۔ اب آگے ” ایام اللہ “ یعنی عبرت آموز تاریخی حقائق کا تذکرہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

110 It means this: "If you are not demanding a miracle only for the sake of fun and amusement but want to have the satisfaction whether that to which Muhammad (upon whom be Allah's peace) is inviting you(i.e. Tauhid and the Hereafter) is true or not,then God's those Signs which you are observing and experiencing at alI times, are quite enough.For there remains no need for other signs when there are these Signs to help you understand the Truth." This is the third answer to their demand of the miracles. This answer also has been given at several places in the Qur'an and we have given detailed commentary on it. (Please see ,AI-An'am: 37-39; Yunus: 101; Ar-R'ad: 7-13;.Ash-Shua'ra': 4-9 and the E.N.'s thereof ). The animals which serve tnan on the earth, especially the cow, ox, buffalo, sheep, goat, camel and horse, have been created with such nature by the Creator that they easily become man's domestic pet servants and he uses them to fulfil countless of his needs. He rides on them, employs them for carrying loads and in agriculture, get: milk from them, which he drinks and also uses it for making curd, butter; ghee, condensed milk, cheese and different sorts of confectionaries; eats their flesh, uses their fat, and puts to good uses their wool and hair and skin and intestines and bones, even their blood and dung. Is it not a manifest proof that the Creator of man had created these animals even before creating him in view of his countless needs, on a special pattern so that he may use them to advantage? The three-fourths of the earth's surface is under water and only one-fourth is dry land. In the dry parts also there are small and wide tracts of land which are separated by water. The spreading of human populations on the dry lands and the establishment of commercial and other relations between them could not be possible unless water and oceans and winds were made subject to such laws as would make navigation possible, and such materials were made available on the earth, which man could employ for building ships. Is it not an express sign that there is One God and only One All-Powerful, All-Mercieful and All-Wise Lord, Who has trade man and earth and water and oceans and winds .and everything on the earth according to His own special scheme? Rather, if man only considers from the viewpoint of navigation how the positions of the stars and regular movements of the planets are helpful in it, he will have the testimony that not only of the earth but of the heavens too the Creator is the same One Bountiful Lord. Then, consider also this: Can you in your right senses imagine that the all-Wise God, Who has given His countless things in the control of man and has granted him all these provisions for his well-being, will be, God forbid, so blind of the eye and so thoughtless as would never call man to account after giving him all this?

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :110 مطلب یہ ہے کہ اگر تم محض تماشا دیکھنے اور دل بہلانے کے لیے معجزے کا مطالبہ نہیں کر رہے ہو ، بلکہ تمہیں صرف یہ اطمینان کرنے کی ضرورت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنّاتوں کو ماننے کی دعوت تمہیں دے رہے ہیں ( یعنی توحید اور آخرت ) وہ حق ہیں یا نہیں ، تو اس کے لیے خدا کی یہ نشانیاں بہت کافی ہیں جو ہر وقت تمہارے مشاہدے اور تجربے میں آ رہی ہیں ۔ حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان نشانیوں کے ہوتے کسی اور نشانی کی کیا حاجت رہ جاتی ہے ۔ یہ معجزات کے مطالبے کا تیسرا جواب ہے ۔ یہ جواب بھی اس سے پہلے متعدد مقامات پر قرآن میں دیا گیا ہے اور ہم اس کی تشریح اچھی طرح کر چکے ہیں ( ملاحظہ ہو جلد اول ، الانعام ، حواشی ۲٦ ۔ ۲۷ ، جلد دوم یونس ، حاشیہ ۱۰۵ ، الرعد حواشی ۱۵ تا ۲۰ ، جلد سوم ، الشعراء ، حواشی ۳ ۔ ٤ ۔ ۵ ) ۔ زمین پر جو جانور انسان کی خدمت کر رہے ہیں ، خصوصاً گائے ، بیل ، بھینس ، بھیڑ ، بکری ، اونٹ اور گھوڑے ، ان کو بنانے والے نے ایسے نقشے پر بنایا ہے کہ یہ بآسانی انسان کے پالتو خادم بن جاتے ہیں ، اور ان سے اس کی بے شمار ضروریات پوری ہوتی ہیں ۔ ان پر سواری کرتا ہے ۔ ان سے بار برداری کا کام لیتا ہے ۔ انہیں کھیتی باڑی کے کام میں استعمال کرتا ہے ۔ ان کا دودھ نکال کر اسے پیتا بھی ہے اور اس سے دہی ، لسّی ، مکھن ، گھی ، کھویا ، پنیر ، اور طرح طرح کی مٹھائیاں بناتا ہے ۔ ان کا گوشت کھاتا ہے ۔ ان کی چربی استعمال کرتا ہے ۔ ان کے اون اور بال اور کھال اور آنتیں اور ہڈی اور خون اور گوبر ، ہر چیز اسکے کام آتی ہے ۔ کیا یہ اس بات کا کھلا ثبوت نہیں ہے کہ انسان کے خالق نے زمین پر اس کو پیدا کرنے سے بھی پہلے اس کی ان بے شمار ضروریات کو سامنے رکھ کر یہ جانور اس خاص نقشے پر پیدا کر دیے تھے تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے؟ پھر زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی سے لبریز ہے اور صرف ایک چوتھائی خشکی پر مشتمل ہے ۔ خشک حصوں کے بھی بہت سے چھوٹے اور بڑے رقبے ایسے ہیں جن کے درمیان پانی حائل ہے ۔ کرہ زمین کے ان خشک علاقوں پر انسانی آبادیوں کا پھیلنا اور پھر ان کے درمیان سفر و تجارت کے تعلقات کا قائم ہونا اس کے بغیر ممکن نہ تھا کہ پانی اور سمندروں اور ہواؤں کو ایسے قوانین کا پابند بنایا جاتا جن کی بدولت جہاز رانی کی جا سکتی ، اور زمین پر وہ سر و سامان پیدا کیا جاتا جسے استعمال کر کے انسان جہاز سازی پر قادر ہوتا ۔ کیا یہ اس بات کی صریح علامت نہیں ہے کہ ایک ہی قادر مطلق رب رحیم و حکیم ہے جس نے انسان اور زمین اور پانی اور سمندروں اور ہواؤں اور ان تمام چیزوں کو جو زمین پر ہیں اپنے خاص منصوبے کے مطابق بنایا ہے ۔ بلکہ اگر انسان صرف جہاز رانی ہی کے نقطہ نظر سے دیکھے تو اس میں تاروں کے مواقع اور سیاروں کی باقاعدہ گردش سے جو مدد ملتی ہے وہ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ زمین ہی نہیں ، آسمان کا خالق بھی وہی ایک رب کریم ہے ۔ اس کے بعد اس بات پر بھی غور کیجیے کہ جس خدائے حکیم نے اپنی اتنی بے شمار چیزیں انسان کے تصرف میں دی ہیں اور اس کے مفاد کے لیے یہ کچھ سر و سامان فراہم کیا ہے ، کیا بسلامتی ہوش و حواس آپ اس کے متعلق یہ گمان کر سکتے ہیں کہ وہ معاذاللہ ایسا آنکھ کا اندھا اور گانٹھ کا پورا ہو گا کہ وہ انسان کو یہ سب کچھ دے کر کبھی اس سے حساب نہ لے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨١۔ ٨٥۔ اللہ نے انسان کی پیدائش انسان کی ضرورت کے کھیتی کے بوجھ لادنے کے سواری کے جانوروں کا ذکر فرما کر اس آیت میں فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ کی قدرت سے اللہ کے معبود حقیقی ہونے سے بیخبر ہیں ان کے خبردار کرنے کے لئے یہ سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں یہ سب نشانیاں دیکھ کر بھی یہ بیخبر لوگ اپنی بیخبر ی سے باز نہیں آتے تو ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آخر یہ لوگ اللہ کی قدرت کی کون کون سی نشانیوں کا انکار کریں گے خود اپنی پیدائش کے منکر ہیں کہ سوا اللہ کے کسی اور کو ان کی پیدائش میں دخل ہے یا ان کی ضرورت کی چیزیں کسی اور نے پیدا کردی ہیں اور جب اللہ کے اس سوال کا جواب یہ لوگ نہیں دے سکے تو پھر جن بتوں کی یہ لوگ پرستش کرتے ہیں ان بتوں کو اللہ کی عبادت میں شریک کرنے کا کونسا حق حاصل ہے پھر فرمایا کہ اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ نشانی بھی عبرت کی نظر سے دیکھنے کے قابل ہے کہ پہلے لوگوں کی عمارتیں دیکھ کر سمجھیں کہ ان عمارتوں کی حیثیت سے وہ پچھلے لوگ قوت میں مال و متاع میں حال کے لوگوں سے بڑھ کر تھے لیکن اللہ اور اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کے سبب سے جب ان کے تباہ اور برباد ہونے کا وقت آگیا تو ان کی قوت ان کی مال داری ان کے کچھ کام نہ آئی اسی طرح اگر یہ لوگ بھی سمجھانے سے نہ مانیں گے اور اللہ کے رسول کی نافرمانی سے باز نہ آئیں گے تو یہی انجام ان کا ہوگا پھر فرمایا کہ اب تو یہ لوگ پچھلے لوگوں کی طرح اپنی رسموں کے پابند ہیں اور اللہ کے رسول کی نصیحت کو مسخرا پن میں اڑا دیتے ہیں۔ لیکن معلوم رہے کہ نصیحت کے سمجھنے کے وقت جب ہی تک ہے کہ غیب کی باتوں پر بغیر دیکھے آدمی ایمان لائے جب اللہ کا عذاب آجائے گا پھر نہ مشرک کا ایمان قبول ہوگا نہ گناہ گاروں کی توبہ قبول ہوگی اوپر گزر چکا ہے کہ عذاب الٰہی کے آنے کے بعد غرق ہوتے وقت فرعون ایمان لایا اور قبول نہ ہوا اور ترمذی ١ ؎ اور ابن ماجہ کی یہ حدیث بھی حضرت عبد اللہ بن عمر کی اوپر گزر چکی ہے کہ روح کے حلقوم میں پہنچنے اور موت کے فرشتوں کے نظر آنے سے پہلے مشرک کے اسلام اور گناہ گار کی توبہ کے قبول ہونے کا وقت مقرر ہے۔ ترمذی ١ ؎ اور مسند امام احمد وغیرہ کی روایتوں سے یہ بھی اوپر بیان ہوچکا ہے کہ قیامت کے قریب جب آفتاب مغرب کی طرف سے نکلے گا تو پھر توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا بیہقی نے کتاب بعث و نشور میں اور ابولیث سمر قندی نے اپنی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ مغرب سے آفتاب نکلنے کے بعد ایک سو تیس برس دنیا قائم رہے گی اور جن لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آفتاب مغرب سے نکلے گا ان کے جیتے جی ان کا اسلام اور ان کی توبہ قبول نہ ہوگی ان لوگوں کی جو اولاد اس زمانہ کے بعد پیدا ہوگی۔ جس زمانہ میں آفتاب کے مغرب سے نکلنے کی شہرت تھی تو اس شہرت کے مٹ جانے کے بعد ان نئی پیدائش کے لوگوں کا اسلام اور ان کی توبہ قبول ہوجائے گی۔ لیکن اور علما نے اس قول کو ضعیف اور بہت سے صحیح آثار کے مخالف قرار دیا ہے۔ چناچہ طبرانی اور مسند عبد بن حمید وغیرہ میں جو آثار ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آفتاب کے مغرب سے نکلتے ہی شیطان یہ کہے گا کہ یا اللہ تو جس کو حکم فرمائے میں سجدہ کرتا ہوں اور پھر اس روز سے نیک عمل کا نامہ اعمال میں لکھا جانا بند ہوجائے گا اور کراماً کاتبیں نامہ اعمال کے کاغذ لپیٹ کر آسمان پر لے جائیں گے اور اسی روز سے توبہ کا دروزاہ بند ہو کر قیامت تک نہ کھلے گا اب یہ ظاہر بات ہے کہ آفتاب کے مغرب سے نکلنے کے بعد بھی کوئی زمانہ نیک عمل کرنے کا ہوتا تو شیطان نیک لوگوں کے بہکانے سے سورج کے مغرب سے نکلتے ہی ناامید کیوں ہوجاتا اور نیک عمل کا لکھا جانا بند ہو کر فرشتے آسمان پر کیوں چلے جاتے اور توبہ کا دروازہ ہمیشہ کے لئے کیوں بند ہوجاتا اگرچہ یہ آثار صحابہ کے قول ہیں لیکن یہ قاعدہ محدثین کا مشہور ہے کہ اس طرح کی غیب کی باتیں جو صحابہ کی ہیں وہ حدیث نبوی کے حکم میں ہوا کرتی ہیں کس لئے کہ اس طرح غیب کی باتیں بغیر وحی کے نہیں معلوم ہوسکتی ہیں اسی واسطے ایسے ابواب میں صحابہ جو کچھ روایتیں بیان کرتے ہیں وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر روایت کرتے ہیں اب آگے فرمایا کہ دنیا نیک و بد کے امتحان کے لئے پیدا کی گئی ہے مجبوری کے وقت یہ امتحان کی حالت باقی نہیں رہتی اس لئے انتظام الٰہی میں کسی کا مجبور کا ایمان یا مجبوری کی توبہ قبول ہونے کے قابل نہیں ہے اسی واسطے پچھلے لوگوں نے مجبور کے وقت فرمانبرداری کا اقرار کیا ہے لیکن ان کے اس بےوقت کے اقرار نے ان کو آخرت کی خرابی سے کچھ نہ بچایا۔ (١ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی فضل التوبۃ والا ستغفار ص ٢١٥ ج ٢۔ ) (١ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة الانعام ص ١٥٥ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:81) یریکم : مضارع واحد مذکر غائب اراء ۃ (افعال) مصدر کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ وہ تم کو دکھاتا ہے ایتہ اس کو نشانیاں۔ اپنی نشانیاں۔ یری کا مفعول ثانی ہے۔ تنکرون : مضارع جمع مذکر حاضر۔ انکار (افعال) مصدر تم انکار کرتے ہو۔ تم انکار کرو گے۔ ای ایت اللّٰہ تنکرون : میں استفہام انکاری ہے (اور تنکرون کی وجہ سے منصوب ہے) یعنی آیات اللہ اتنی ظاہر اور اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا انکار کیا ہی نہیں جاسکتا۔ ای (کونسا) جس، کس کس، کیا کیا۔ استفہامیہ آتا ہے۔ جیسے مذکورۃ الصدر۔ یہ شرطیہ بھی آتا ہے مثلا ایما الاجلین قضیت فلا عدوان علی (28:28) میں جونسی مدت چاہوں پوری کروں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو۔ موصولہ بھی آتا ہے۔ مثلاً ثم لننزعن من کل شیعۃ ایہم اشد علی الرحمن عنیا (19:69) پھر ہر جماعت میں ہے سے ہم ایسے لوگوں کو کھینچ نکالیں گے جو خدا سے سرکشی کرتے تھے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی اس کی نشانیاں تو بیشمار ہیں۔ ایک سے انکار کرو گے تو دوسری سامنے آجائے گی۔ علی ہذا القیاس آخر کہاں تک انکار کرتے چلے جائو گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ چناچہ ہر مصنوع اس کی صنعت پر ایک نشان ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 81 تا 85 انسانی تاریخ میں گزشتہ اقوام کی تباہی روایات کے ذریعے ان کی کہانیاں محفوظ ہیں۔ بعض کی کہانیاں کتابوں کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ قرآن کریم باربار ان ایام اللہ کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس لیے کہ انسانیت جس لائن پر بڑھتی چلی آئی ہے اس میں جا بجا حقائق موجود ہیں۔ پھر ان ایام اللہ کا اثر بھی انسان پر بہت گہرا ہوتا ہے۔ اور قرآن چونکہ خالق فطرت کی طرف سے نازل ہورہا ہے اس لیے وہ فطرت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے بات کرتا ہے۔ قرآن فطرت کی راہ رسم سے خوب واقف ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ اس کی یہ مخلوق کس بات سے متاثر ہوتی ہے اور کس انداز سے اس کے دل میں بات اتاری جاسکتی ہے ، اللہ کو پتہ ہے کہ انسانی دل کا کون سادروازہ صرف ایک ہی دستک دینے سے کھل جاتا ہے اور کون سا دروازہ چند زور دار دستک دینے سے کھلتا ہے اور کون سا ہے جو زنگ آلود ہوگیا اور توڑے بغیر نہیں کھلتا۔ اللہ انسانوں سے پوچھتا ہے ، انہیں انسانی تاریخ کی سیر کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے کہ ذدا کھلی آنکھوں سے انسانی تاریخ کے نشیب و فراز کو دیکھو۔ وادی وادی میں گھومو اور احساس کو تیز رکھو ، اور قلب ونظر کو کھول کر چلو ، دیکھو اور غور کرو ، تم سے پہلے اس زمین پر کیا کیا ہوتا رہا ہے اور انسانی پر کیا کیا مصائب ٹوٹے ہیں۔ افلم یسیروا۔۔۔۔۔ من قبلھم (40: 82) ” پھر کیا زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کو ان کو لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں “۔ قبل اس کے کہ ان کے انجام کو بتایا جائے ، ان کے کچھ خدوخال بتائے جاتے ہیں اور ان کے حالات زندگی سے موازنہ کیا جاتا ہے تاکہ یہ عبرت آموزی مکمل ہو۔ کانوآ اکثر۔۔۔۔ فی الارض (40: 82) ” وہ ان سے تعداد میں زیادہ تھے ، ان سے بڑھ کع طاقتور تھے اور زمین میں ان سے زیادہ ان سے زیادہ شاندار آثار چھوڑگئے ہیں “۔ کثرت تعداد ، سیاسی قوت اور ترقی سب میں موجود لوگوں سے زیادہ تھے۔ ان میں سے کئی نسلیں تھیں جو عربوں سے پہلے گزری تھیں ۔ بعضوں کے قصے تو رسول کو سنائے گئے اور بعض کو تاریخ کے قبر ستان میں مدفون ہی چھوڑدیا گیا اور بعض قصے ، عربوں کو معلوم تھے اور بعض کے آثار کو وہ شب وروز دیکھتے تھے۔ فمآ اغنی عنھم ماکانوا یکسبون (40: 82) ” جو کچھ کمائی انہوں نے کی تھی آخر وہ ان کے کس کام آئی “۔ نہ ان کی کثرت ، نہ قوت اور نہ ترقی انکو بچاسکی حالانکہ وہ انہی چیزوں پر بھروسہ کیے ہوئے تھے اور مغرور تھے۔ بلکہ انکی ہلاکت کا سبب یہی باتیں ہوئیں فلماجآء۔۔۔۔ من العلم (40: 83) ” جب ان کے رسول ان کے پاس بینات لے کر آئے تو وہ اس علم میں مگن رہے جو ان کے پاس تھا “۔ علم ایمان کے ایک عظیم فتنہ ہوتا ہے۔ یہ انسان کو اندھا کردیتا ہے اور سرکش بنا دیتا ہے۔ اس قسم کے ظاہری اور سائنسی علوم لوگوں کو مغرور بنا دیتے ہیں کیونکہ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ اپنے اس علم کی وجہ سے وہ اقتدار میں ہیں ، بڑی بڑی قوتوں کو چلاتے ہیں اور وہ بڑے بڑے خزانوں کے مالک ہیں۔ یوں وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور وہ ان وسعتوں کو بھول جاتے ہیں جن تک ابھی ان کے علم کو رسائی نہیں ہوئی ہے حالانکہ وہ وسعتیں اس کائنات میں موجود ہیں۔ ان قوتوں پر ابھی انہوں نے قابو نہیں پایا ہوتا ہے بلکہ ان کا تصور بھی وہ نہیں کرپاتے ، ان کو تو وسعتوں کے صرف ایک معمولی کنارے تک رسائی ہوئی ہوتی ہے۔ یوں یہ بےایمان صاحب علم پھول جاتا ہے اور آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس کا علم اسے پھلا دیتا ہے اور اس کا جہل اسے اپنی حقیقت بھلا دیتا ہے۔ اگر وہ یہ قیاس کرلیتا کہ اس کا علم تو بہت ہی تھوڑا ہے اور اس کے جہل کا دائرہ بہت وسیع ہے اور جس کا وہ اندازہ کرتا ہے وہ بہت تھوڑا ہے جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ تو وہ سر جھکا لیتا اور اپنی کبریائی کو تھوک دیتا اور یہ جو پھول رہا ہے اس میں ذرا کمی کردیتا۔ بہرحال یہ لوگ جو اپنے موجودہ علم میں مگن ہوگئے تھے وہ یاد دہانی کرانے والوں کا مذاق اڑاتے رہے۔ وحاق بھم ماکانوابه یستھزءون (40: 83) ” پھر اس چیز کے پھیرے میں آگئے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے “۔ جب انہوں نے اللہ کے عذاب کو دیکھا تو پردہ گر گیا اور ان کو معلوم ہوگیا کہ جس چیز پر ان کو غرور تھا وہ تو کچھ نہ تھی۔ اب انہوں نے اس بات کا اعتراف کرلیا جس کا وہ انکار کرتے تھے۔ اللہ کی وحدانیت کے قائل ہوگئے۔ اپنے شرکاء کا انکار کردیا لیکن اب تو وقت چلا گیا تھا۔ فلما راوا۔۔۔۔ راواباسنا (40: 85) ” جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو پکار اٹھے کہ ہم نے مان لیا اللہ وحدہ لاشریک کو اور ہم انکار کرتے ہیں ان سب معبودوں کا جنھیں ہم اس کا شریک ٹھہراتے تھے مگر ہمارا عذاب دیکھ لینے کے بعد ان کا ایمان ان کے لیے کچھ بھی نافع نہ ہوسکتا تھا “۔ کیونکہ یہ اللہ کی سنت ہے کہ عذاب دیکھ لینے کے بعد ایمان قبول نہیں ہوتا اس لیے کہ اس وقت خوف کی توبہ ہوتی ہے۔ ایمان کی توبہ نہیں ہوتی۔ سنت اللہ التی قد خلت فی عبادہ (40: 85) ” کیونکہ یہی اللہ کا مقرر ضابطہ ہے جو ہمیشہ اس کے بندوں میں جاری رہا ہے “۔ اور اللہ کی سنت میں کوئی تغیر اور ترمیم نہیں ہوا کرتی۔ یہ اپنی مقرر راہ پر چلتی ہے۔ وخسرھنالک الکٰفرون (40: 85) ” اس وقت کافر لوگ خسارے میں پڑگئے “۔ اس سخت منظر ، یعنی منظر عذاب الہٰی پر یہ سورت ختم ہوتی ہے ، جس میں یہ چیخ و پکار کرتے ہیں ، جزع فزع کرتے ہیں اور معافیاں مانگتے ہیں ، ایمان ویقین کا اعلان کرتے ہیں ، سورت کا یہ خاتمہ سورت کی فضا اور موضوعات اور مضامین کیساتھ متناسب ہے اس سورت کے دوران ہم نے ایسے مسائل پر بھی بحث کی ہے جو خالص مکی سورتوں کے اہم مسائل ہیں ، مثلاً مسئلہ توحید ، مسئلہ معاد ، مسئلہ وحی ، لیکن یہ مسائل اس سورت کا اصل موضوع نہ تھے۔ اس کا اصل موضوع معرکہ حق و باطل تھا ۔ ایمان وکفر تھا۔ اصلاح وسرکشی تھی۔ یہ اس سورت کے نمایاں موضوعات ومضامین تھے۔ اور اسے سورت کے اہم خدوخال ، اور تمام سورتوں کے مقابلے میں نہایت ہی نمایاں مقاصد۔۔۔۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ ) اور اللہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے (فَاَیَّ اٰیٰتِ اللّٰہِ تُنکِرُوْنَ ) سو تم اللہ کی کن کن نشانیوں کا انکار کرو گے یعنی اللہ تعالیٰ کی نشانیاں بہت ہیں اور وہ خوب ظاہر بھی ہیں سب کے سامنے ہیں انکار کرنے کا کوئی موقع نہیں صحیح عقل والا انسان ان کا انکار نہیں کرسکتا جب ان سے انکار نہیں تو توحید کے کیوں قائل نہیں ہوتے اور شرک پر کیوں جمے ہوئے ہو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(81) اور وہ تم کو اپنی اور نشانیاں بھی دکھاتا رہتا ہے پھر تم اللہ تعالیٰ کی کون کون سی نشانیوں کا انکار کرو گے۔ یعنی اس کی توحید اور اس کی قدرت کی بیشمار نشانیاں جلوگر ہیں جو وہ تم کو دکھاتا ہے پھر تم کس کس نشانی کا انکار کرو گے کہ یہ نشانی اس کی نہیں ہے۔