Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 83

سورة مومن

فَلَمَّا جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَرِحُوۡا بِمَا عِنۡدَہُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۸۳﴾

And when their messengers came to them with clear proofs, they [merely] rejoiced in what they had of knowledge, but they were enveloped by what they used to ridicule.

پس جب کبھی ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیاں لے کر آئے تو یہ اپنے پاس کے علم پر اترانے لگے بالآخر جس چیز کو مذاق میں اڑا رہے تھے وہی ان پر الٹ پڑی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَمَّا جَاءتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِندَهُم مِّنَ الْعِلْمِ ... Have they not traveled through the earth and seen what was the end of those before them? They were more in number than them and mightier in strength, and in the traces in the land; yet all that they used to earn availed them not. Then when their Messengers came to them with clear proofs, they were glad (and proud) with that which they had of the knowledge (of worldly things). Allah tells us about the nations who rejected their Messengers in ancient times. He mentioned the severe punishment they suffered despite their great strength, He mentioned the traces which they left behind in the earth and the great wealth they amassed. None of that availed them anything and could not prevent the punishment of Allah at all. That is because when the Messengers came to them with clear signs and decisive evidence, they did not pay any attention to them. Instead, they were content with the knowledge with them, or so they claimed, and they said that they did not need what the Messengers brought them. Mujahid said, "They said, we know better than them, we will not be resurrected and we will not be punished." As-Suddi said, "In their ignorance, they rejoiced in what they had of (worldly) knowledge. So Allah sent upon them a punishment which they could not escape or resist." ... وَحَاقَ بِهِم ... and surrounded them. means, encompassed them. ... مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِوُون that at which they used to mock, means, that which they used to disbelieve in and said would never happen, فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ... So when they saw Our punishment, means, when they saw with their own eyes the punishment which came upon them, they said, ...

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

83۔ 1 علم سے مراد ان کی خود ساختہ شبہات اور باطل دعوے ہیں، انہیں علم سے بطور استہزاء تعبیر فرمایا وہ چونکہ انہیں علمی دلائل سمجھتے تھے، ان کے خیال کے مطابق ایسا کہا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی باتوں کے مقابلے میں یہ اپنے توہمات پر اتراتے اور فخر کرتے رہے۔ یا علم سے مراد دنیاوی باتوں کا علم ہے، یہ احکام و فرائض الٰہی کے مقابلے میں انہیں ترجیح دیتے رہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٣] وحی کے علاوہ لوگوں کے پاس اپنے علوم کون سے تھے ؟ وہ علم ان کے پاس کیا تھا ؟ یہی دیومالائی علم (Mythology) جس کی رو سے انہوں نے ہزاروں دیوتاؤں اور دیویوں کو اللہ کے اختیارات میں شریک بنا رکھا تھا۔ پھر ان کا آپس میں بھی اور اللہ سے نسبی رشتہ قائم کر رکھا تھا۔ علاوہ ازیں علم سے مرادہر قوم کے اختراعی مذہبی فلسفے اور سائنس اور اپنے ضابطہ حیات سے متعلق قوانین وغیرہ ہیں۔ جب انبیاء ان کے پاس آئے اور انہیں وحی الٰہی کے علم کی دعوت دی تو انہوں نے اپنے ہاں مروجہ علوم کے مقابلہ میں وحی الٰہی کے علم کو ہی & ہیچ سمجھا اور اس طرف توجہ ہی نہ دی۔ کہتے ہیں کہ ارسطو حکیم کو، جو خود اپنے فلسفہ الہیات کا موجد تھا جب سیدنا موسیٰ کے دین کی طرف دعوت دی گئی تو وہ کہنے لگا کہ میں سوچ کر بتاؤں گا۔ بعد میں اس نے یہ جواب دیا کہ ہم خود ہی راہ پائے ہوئے ہیں۔ دوسروں کو ہمیں راہ بتانے کی ضرورت نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فلما جآء تھم رسلھم بالبینت …:” من العلم “ میں ” من “ تبعیض کیلئے ہے، یعنی علم کا وہ معمولی سا حصہ جو ان کے پاس تھا۔ اس علم سے مراد دو چیزیں ہوسکتی ہیں، ایک اللہ تعالیٰ کے متعلق ان کے وہ عقائد و رسوم جو ان کے فلسفیوں نے یا ان کے مذہبی پیشواؤں نے گھڑ رکھے تھے، جن کی بنیاد ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک پر تھی، جیسا کہ یونانیوں اور ہندوؤں کا دیوی دیوتاؤں پر مبنی سلسلہ تھا اور جیسا کہ نوح، ہود، صالح، ابراہیم اور دوسرے ابنیائے کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بت پرست اقوام کا عقیدہ تھا، جسے وہ علم سمجھتے تھے، حالانکہ وہ سرا سر جہل تھا۔ چناچہ جب ان کے رسول ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے متعلق خود اس کے عطا کردہ توحید و آخرت کے واضح عقائد اور ان کے حق ہونے کے روشن دلائل لے کر آئے تو وہ انسانی دماغوں کے گھڑے ہوئے عقائد و روسم کو برتر علم سمجھ کر انھی پر پھولے اور اکڑے رہے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے واضح عقائد اور ان کے روشن دلائل کو ٹھکرا دیا۔ دوسرا مطلب ” من العلم “ کا دنیوی علم و فن ہے، جس میں وہ مہارت رکھتے تھے، جو درحقیقت علم کا ایک معمولی اور حقیر سا حصہ ہے، کیونکہ اس کا تعلق صرف اس ناپائیدار دنیا کے چند دنوں یا لمحوں کے ساتھ ہے۔ حقیقی اور ابدی علم، یعنی آخرت کے علم سے وہ بالکل بےبہرہ تھے۔ (دیکھیے روم : ٦، ٧ ) چناچہ رسولوں کی تشریف آوری پر ایمان لانے اور اطاعت کے بجائے وہ دنیا کے اس حقیر علم پر ھولے اور اکڑے رہے جو انہیں حاصل تھا اور جسے وہ بہت بڑی بات سمجھتے تھے۔ یہ معنی الفاظ کے زیادہ قریب ہے۔ (٢) وحاق بھم ماکانوا بہ یستھزؤن : یعنی انہیں اسی عذاب نے چ اورں طرف سے گھیر لیا، جس سے رسول انہیں ڈراتے تھے تو وہ اس کا مذاق اڑاتے تھے اور اسے جلد از جلد لانے کا مطالبہ کرتے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In verse 83, it was said: فَرِ‌حُوا بِمَا عِندَهُم مِّنَ الْعِلْمِ (they exulted because of whatever of knowledge they had,) that is, when the messengers of Allah Ta’ ala came to these deniers, who were utterly oblivious to their end, with clear arguments in favor of tauhid (Oneness of Allah) and &iman (faith), they took their knowledge to be better and truer than the knowledge brought by prophets, and started rejecting what they said. What was this knowledge with which the disbelievers were exultant to the extent that they would even reject the body of knowledge brought by prophets? It could be some sort of compounded ignorance& ا (رح) جھِل المُرَکَّب (aljahl-ul-murakkab whereby an ignorant person, despite his sheer ignorance, believes himself to be knowledgeable). This does not qualify to be &knowledge& at all. Or, this knowledge of theirs means awareness in the fields of trade, industry and things like that. They really had expertise in these fields according to their time. The noble Qur&an alludes to this knowledge of theirs in a verse of Surah Ar-Rum in the following words: يَعْلَمُونَ ظَاهِرً‌ا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَ‌ةِ هُمْ غَافِلُونَ (They know something superficial of the worldly life, but of the Hereafter they are negligent.- Ar-Rum, 30:7) It means that these people do know a good deal about the material life of the world, and also know how to get most benefited by it, but are totally ignorant or heedless of the Hereafter where they have to live forever, either in bliss or in bane, and both of which are also everlasting. In this verse, even if we were to take this knowledge to be the worldly knowledge only, it would means &since these people deny the Day of Judgment and the Hereafter and do not know, or want to know, its everlasting reward and punishment, therefore, they do not see anything beyond their knowledge of the apparent and are quite pleased with it, and as a result do not pay heed to areas of knowledge brought by the noble prophets.& (Mazhari)

معارف ومسائل (آیت) فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ ۔ یعنی ان عاقبت نااندیش منکرین کے پاس جب اللہ تعالیٰ کے رسول دلائل واضحہ توحید و ایمان کو لے کر آئے تو یہ لوگ اپنے علم کو انبیاء کے لائے ہوئے علم سے بہتر اور حق سمجھ کر انبیاء کے کلام کا رد کرنے لگے۔ یہ علم جس پر کفار خوش اور مگن تھے اور اس کے مقابلہ میں انبیاء کے علوم کو رد کرتے تھے۔ یا تو ان کا جہل مرکب تھا کہ ناحق اور باطل کو حق و صحیح سمجھ بیٹھے تھے۔ جیسے یونانی فلاسفہ کے بیشتر علوم و تحقیقات جو الہیات سے متعلق ہیں اسی نمونہ کی ہیں جن کی کوئی دلیل نہیں۔ ان کو جہل مرکب تو کہہ سکتے ہیں۔ ان کا نام علم رکھنا علم کی توہین ہے۔ یا پھر ان کے اس علم سے مراد دنیا کی تجارت، صنعت وغیرہ کا علم ہے جس میں یہ لوگ فی الواقع ماہر تھے۔ اور قرآن کریم نے ان کے اس علم کا ذکر سورة روم کی آیت میں اس طرح فرمایا ہے (آیت) یعلمون ظاہراً من الحیوة الدنیا وھم عن الآخرة ھم غفلون۔ یعنی یہ لوگ دنیا کی ظاہری زندگی اور اس کے منافع حاصل کرنے کو تو کچھ جانتے سمجھتے ہیں، مگر آخرت جہاں ہمیشہ رہنا ہے اور جہاں کی راحت و کلفت دائمی ہے اس سے بالکل جاہل و غافل ہیں۔ اس آیت میں بھی اگر یہی علم ظاہر دنیا کا مراد لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ لوگ چونکہ قیامت اور آخرت کے منکر اور وہاں کی راحت و کلفت سے جاہل و غافل ہیں۔ اس لئے اپنے اسی ظاہری ہنر پر خوش اور مگن ہو کر انبیاء کے علوم کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا جَاۗءَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَہُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِہِمْ مَّا كَانُوْا بِہٖ يَسْتَہْزِءُوْنَ۝ ٨٣ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ فرح الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] ، ( ف ر ح ) ا لفرح کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ حاق قوله تعالی: وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] . قال عزّ وجلّ : وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] ، أي : لا ينزل ولا يصيب، قيل : وأصله حقّ فقلب، نحو : زلّ وزال، وقد قرئ : فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطانُ [ البقرة/ 36] ، وأزالهما «2» وعلی هذا : ذمّه وذامه . ( ح ی ق ) ( الحیوق والحیقان) ( ض ) کے معنی کسی چیز کو گھیر نے اور اس پر نازل ہونے کے ہیں ۔ اور یہ باء کے ساتھ متعدی ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ : وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر/ 43] اور بری چال کا وبال اسکے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے وحاق بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] اور جس چیز سے استہزاء کیا کرتے تھے اس نے ان کو آگھیرا ۔ اسْتِهْزَاءُ : ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] ، وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] ، ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] ، إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] ، وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] والِاسْتِهْزَاءُ من اللہ في الحقیقة لا يصحّ ، كما لا يصحّ من اللہ اللهو واللّعب، تعالیٰ اللہ عنه . وقوله : اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] أي : يجازيهم جزاء الهزؤ . ومعناه : أنه أمهلهم مدّة ثمّ أخذهم مغافصة «1» ، فسمّى إمهاله إيّاهم استهزاء من حيث إنهم اغترّوا به اغترارهم بالهزؤ، فيكون ذلک کالاستدراج من حيث لا يعلمون، أو لأنهم استهزء وا فعرف ذلک منهم، فصار كأنه يهزأ بهم كما قيل : من خدعک وفطنت له ولم تعرّفه فاحترزت منه فقد خدعته . وقد روي : [أنّ الْمُسْتَهْزِئِينَ في الدّنيا يفتح لهم باب من الجنّة فيسرعون نحوه فإذا انتهوا إليه سدّ عليهم فذلک قوله : فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] «2» وعلی هذه الوجوه قوله عزّ وجلّ : سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] . الا ستھزاء اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزاء کیا کرتے ۔ تھے وہ ان کو گھر لے گی ۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] اور ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا تھا مگر اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے ۔إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] کہ جب تم ( کہیں ) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہوراہا ہے ا اور ان کی ہنسی ارائی جاتی ہے ۔ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ تمسخر ہوتے ہے ۔ حقیقی معنی کے لحاظ سے استزاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح نہیں ہے جیسا کہ لہو ولعب کا استعمال باری تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں ہے لہذا آیت : ۔ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15]( ان ) منافقوں سے ) خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسر کشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ میں یستھزئ کے معنی یا تو استھزاء کی سزا تک مہلت دی اور پھر انہیں دفعتہ پکڑ لیا یہاں انہوں نے ھزء کی طرح دھوکا کھا یا پس یا اس مارج کے ہم معنی ہے جیسے فرمایا : ۔ ان کو بتریج اس طرح سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا ۔ اور آہت کے معنی یہ ہیں کہ جس قدر وہ استہزار اڑا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے استہزار سے باخبر ہے تو گو یا اللہ تعالیٰ بھی ان کا مذاق اڑارہا ہے ۔ مثلا ایک شخص کسی کو دھوکہ دے ۔ اور وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہوکر اسے اطلاع دیئے بغیر اسے سے احتراز کرے تو کہا جاتا ہے ۔ خدعنہ یعنی وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ان للستھزبین فی الدنیا الفتح لھم باب من الجنتہ فیسر عون نحوہ فاذا انتھرا الیہ سد علیھم ۔ کہ جو لوگ دنیا میں دین الہٰی کا مذاق اڑاتے ہیں قیامت کے دن ان کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائیگا جب یہ لوگ اس میں داخل ہونے کے لئے سرپ دوڑ کر وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائیگا چناچہ آیت : ۔ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] تو آج مومن کافروں سے ہنسی کریں گے ۔ میں بعض کے نزدیک ضحک سے یہی معنی مراد ہیں اور آیت سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] خدا ان پر ہنستا ہے اور ان کے لئے تکلیف دینے والا عذاب تیار ہے ۔ میں بھی اسی قسم کی تاویل ہوسکتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جب ان کے پاس رسول اوامرو نواہی لے کر آئے تو وہ اپنے دین و عمل پر بڑے نازاں ہوئے جو کہ محض ان کا خیال تھا اور انبیاء کرام (علیہم السلام) کے ساتھ ان کے مذاق کرنے کی وجہ سے ان پر عذاب نازل ہوا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٣ { فَلَمَّا جَآئَ تْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ } ” تو جب آگئے ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیاں لے کر “ الْبَیِّنٰتِسے مراد حسی معجزات بھی ہیں اور واضح تعلیمات اور دلائل بھی۔ { فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَہُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ } ” تو وہ اتراتے رہے اسی پر جو بھی علم ان کے پاس تھا اور گھیرے میں لے لیا انہیں اسی چیز نے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ “ وہ لوگ اپنے آبائی عقائد و توہمات پر جمے رہے اور انہی کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے رہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اس حق کا بھی مذاق اڑایا جو ان کے رسولوں ( علیہ السلام) نے ان کے سامنے پیش کیا اور عذاب کی وعیدوں کا بھی جس سے انہیں خبردار کیا گیا۔ بالآخر انہیں اپنے کرتوتوں کی سزامل کر رہی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

112 That is, "They took their philosophy and their science, their law, their secular sciences and their mythology and theology invented by their religious guides as the real knowledge, and regarded the Knowledge brought by the Prophets of Allah as worthless and therefore paid no heed to it. "

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :112 یعنی اپنے فلسفے اور سائنس ، اپنے قانون ، اپنے دنیوی علوم ، اور اپنے پیشواؤں کے گھڑے ہوئے مذہبی افسانوں ( Mythology ) اور دینیات ( Theology ) ہی کو انہوں نے اصل علم سمجھا اور انبیاء علیہم السلام کے لائے ہوئے علم کو ہیچ سمجھ کر اس کی طرف کوئی التفات نہ کیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:83) فلما۔ فاء تفسیریہ ہے اور لما یہاں شرطیہ استعمال ہوا ہے۔ پس جب لما نافیہ بھی آتا ہے مثلا : ان کان کل نفس لما علیہا حافظ (86:4) کوئی نفس ایسا نہیں ہے کہ اس (کے اعمال) کا نگران (فرشتہ) نہ ہو۔ گو بعض نے اس کو یہاں استثنائیہ (الا کا ہم معنی) لیا ہے اس صورت میں ترجمہ یوں ہوگا :۔ کوئی نفس نہیں مگر اس پر نگران (فرشتہ) مامور ہے۔ جاء تھم : جاءت ماضی۔ ضمیر واحد مؤنث غائب رسل کیلئے ہے۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع کفار ہیں۔ ایسے ہی رسلہم میں ضمیر ہم کفار کیلئے ہے فلما جاء تھم رسلہم بالبینت پس جب (بھی) ان کے پیغمبر ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے۔ فرحوا بما عندھم من العلم : اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) فرحوا اور عندھم میں ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع کفار ہیں۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا :۔ تو وہ لوگ بڑے نازاں ہوئے اس علم پر جو ان کے پاس تھا۔ اس صورت میں علم سے مراد ان کے اپنے فلسفے اور سائنس، اپنے قانون اپنے دنیوی علوم اور اپنے پیشواؤں کے گھڑے ہوئے مذہبی افسانے اور الٰہیات ہیں یعنی وہ اپنے ان دنیوی علوم پر اڑے رہے اور انبیاء (علیہم السلام) کے لائے ہوئے کو ہیچ سمجھ کر اس کی طرف التفات نہ کیا۔ (2) فرحوا اور عندھم میں ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع مرسل ہے اور جملہ کا مطلب ہوگا :۔ جب پیغمبروں نے کفار کا جہالت پر مسلسل اصرار اور حق پر استہزاء کو دیکھا اور ان کی سوء عاقبت اور ان کی اس جہالت و استہزاء پر المناک عذاب کا خیال کیا تو وہ ان پر اللہ تعالیٰ کے وحی کردہ علم پر شادان و فرحان ہوئے اور اس کا شکر بجا لائے تھے۔ (3) فرحوا کی ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع کفار عندھم میں ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع رسل ہیں اور فرحوا بمعنی ضحکوا اور استھزوا ہوگا۔ اور ترجمہ ہوگا :۔ انہوں نے (کفار نے) پیغمبروں پر منزل من اللہ علم الوحی کی ہنسی اڑائی اور اسے ہدف مذاق بنایا :۔ آئندہ آیت سے اس تفسیر کی تائید ہو رہی ہے۔ حاق بھم : حاق ماضی واحد مذکر غائب حیق (ضرب) مصدر اس نے گھیر لیا۔ وہ الٹ گیا۔ وہ نازل ہوا۔ حاق بھم اس نے ان کو گھیر لیا وہ ان پر نازل ہوا۔ ما کانوا بہ یستھزء ون : ما موصولہ ہے کانوا یشتھزء ون ماضی استمراری جمع مذکر غائب ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع ما اسم موصول ہے جس چیز کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے اس نے ان کو گھیر لیا۔ یعنی اس مذاق کا عذاب ان پر نازل ہوا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی اپنے فلسفہ، سائنس اور دوسرے دنیوی علوم ہی کو سب کچھ سمجھ کر اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے لگے اور انبیاء ( علیہ السلام) کے پیش کردہ وہ علم کا مذاق اڑانے لگے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی معاش کو مقصود سمجھ کر اور اس میں جو ان کو لیاقت حاصل تھی اس پر خوش ہوئے، اور معاد کا انکار کر کے اس کی طلب کو دیوانگی اور اس کے انکار پر وعید عذابی کو مایہ تمسخر ٹھہرایا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

75:۔ ” فلما جاءتہم رسلہم “ جب انبیاء (علیہم السلام) کھلے معجزات اور روشن دلائل لے کر ان کے پاس آئے تو ان کی پیروی کرنے کے بجائے وہ اپنے علم وعقیدے پر ہی خوش اور مطمئن رہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں درست ہے اور جن معبودان غیر اللہ کو پکارتے ہیں وہ ان کی پکار سنتے اور ان کی مدد کرتے ہیں۔ انہوں نے چونکہ اپنے باپ دادا کو اسی روش پر پایا ہے، اس لیے وہ ان کی روش پر ہی چلیں گے۔ کما قال تعالیٰ ” انا وجدنا اباءنا علی امۃ فانا علی اثارہم مقتدون “ (زخرف رکوع 2) ۔ المراد بالعلم عقائدہم الزائغۃ و شبہم الداحضۃ (روح ج 24 ص 91) ۔ یہ مشرکین اپنے عقائد باطلہ پر نازاں تھے اور انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی تعلیمات حقہ سے استہزاء و تمسخر کرتے تھے۔ آخر اس استہزاء و تمسخر کا مزہ ان کو دنیا ہی میں چکھایا گیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(83) پھر جب ان امم سابقہ کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تو وہ لوگ اپنے اس دنیوی علم وہنر پر ناز کرتے رہے جو ان کو حاصل تھا اور جس عذاب کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے اسی عذاب نے ان کو گھیر لیا اور ان کے کفروشرک کا وبال ان پر آپڑا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے اور جس سے وہ تمسخر کرتے تھے۔ یعنی وہ اپنے جس دنیوی علم پر اتراتے تھے اور جس کے بل بوتے پر عذاب الٰہی کا مذاق اڑاتے تھے ان کو اسی عذاب نے گھیر لیا اور آخر کار تباہ ہوگئے۔