Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 9

سورة مومن

وَ قِہِمُ السَّیِّاٰتِ ؕ وَ مَنۡ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوۡمَئِذٍ فَقَدۡ رَحِمۡتَہٗ ؕ وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ٪﴿۹﴾  6

And protect them from the evil consequences [of their deeds]. And he whom You protect from evil consequences that Day - You will have given him mercy. And that is the great attainment."

انہیں برائیوں سے بھی محفوظ رکھ حق تو یہ ہے کہ اس دن تو نے جسے برائیوں سے بچا لیا اس پر تو نے رحمت کر دی اور بہت بڑی کامیابی تو یہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقِهِمُ السَّيِّيَاتِ ... And save them from the sins, means, the actions and the consequences. ... وَمَن تَقِ السَّيِّيَاتِ يَوْمَيِذٍ ... and whomsoever You save from the sins that Day, means, the Day of Resurrection, ... فَقَدْ رَحِمْتَهُ ... him verily, You have taken into mercy. means, `You have protected him and saved him from punishment.' ... وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ And that is the supreme success.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 سیأت سے مراد یہاں عقوبات ہیں یا پھر جزا محذوف ہے یعنی انہیں آخرت کی سزاؤں سے یا برائیوں کی جزا سے بچانا۔ 9۔ 2 یعنی آخرت کے عذاب سے بچ جانا اور جنت میں داخل ہوجانا یہی سب سے بڑی کامیابی ہے اس لیے کہ اس جیسی کوئی کامیابی نہیں اور اس کے برابر کوئی نجات نہیں ان آیات میں اہل ایمان کے لیے دو عظیم خوش خبریاں ہیں ایک تو یہ کہ فرشتے ان کے لیے غائبانہ دعا کرتے ہیں جس کی حدیث میں بڑی فضلیت وارد ہے دوسری یہ کہ اہل ایمان کے خاندان جنت میں اکٹھے ہوجائیں گے جعلنا اللہ من الذین یلحقھم اللہ بابائھم الصالحین۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] سیأات کے تین معنی :۔ السَّیِّأات کے تین معنی ہیں۔ ایک غلط عقائد، بگڑے ہوئے اخلاق اور برے اعمال، دوسرے، گمراہی اور اعمال بد کا وبال، تیسرے آفات و مصائب اور تکلیفیں خواہ وہ دنیا کی ہوں، عالم برزخ کی ہوں یا عالم قیامت کی ہوں۔ یہاں تینوں قسم کی برائیاں مراد ہیں۔ [١٢] روز محشر کی برائیوں سے مراداس دن کی ہولناکیاں، انتہائی تپش اور شدت پیاس، اپنا محاسبہ کا خوف، مجرمین کی برسرعام رسوائی وغیرہ ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وقھم السیات :” ق “ ” وفی یقی وقایۃ “ (ض) سے امر کا صیغہ ہے۔” السیات “ (برائیوں) سے مراد برے اعمال و اقوال بھی ہیں اور ان کے برے نتائج بھی ۔ یعنی فرشتے اللہ تعالیٰ سے ایمان والوں کو تمام برائیوں سے بچانے کی بھی دعا کرتے ہیں اور دنیا و آخرت میں ان کے برے نتائج سے محفوظ رکھنے کی بھی۔ مزید دیکھیے سورة آل عمران (١٨٥)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقِہِمُ السَّيِّاٰتِ۝ ٠ ۭ وَمَنْ تَقِ السَّيِّاٰتِ يَوْمَىِٕذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہٗ۝ ٠ ۭ وَذٰلِكَ ہُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝ ٩ۧ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے يَوْمَئِذٍ ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ . اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) فوز الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] ، ( ف و ز ) الفوز کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ان سے قیامت کے دن کے عذاب کو دور فرمایے اور جس سے قیامت کے دن کا عذاب دور کردیا گیا تو اس کی آپ نے مغفرت اور حفاظت فرمادی اور یہ مغفرت اور عذاب کا دور کرنا بڑی کامیابی ہے کہ جنت ہاتھ آگئی اور دوزخ سے بچ گئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩ { وَقِہِمُ السَّیِّاٰتِط وَمَنْ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَہٗ } ” اور انہیں بچا لے برائیوں سے۔ اور جسے تو ُ نے اس دن برائیوں سے بچالیا اس پر تو نے بڑا رحم کیا۔ “ { وَذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ } ” اور یقینا یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 The word sayyi'at (evils) is used in three different meanings and all three arc implied here: (I) False beliefs, perverted morals and evil deeds; (2) consequences of deviation and evil deeds; and (3) calamities, disasters and suffering in this world, or in barzakh, or on the Day of Resurrection. The object of the angels' prayer is that they be saved from everything which may be evil for them. 13 "Evils on the Day of Resurrection" implies the dread and terror of the Day. deprivation of the shade and every other comfort, severity of accountability, the ignominy of exposing every secret of life before all mankind, and other humiliations and hardships which the guilty ones will experience in the Hereafter.

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :12 سیّئات ( برائیوں ) کا لفظ تین مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور تینوں ہی یہاں مراد ہیں ۔ ایک ، غلط عقائد اور بگڑے ہوئے اخلاق اور برے اعمال ۔ دوسرے ، گمراہی اور اعمال بد کا وبال ۔ تیسرے آفات اور مصائب اور اذیتیں خواہ وہ اس دنیا کی ہوں ، یا عالم برزخ کی ، یا روز قیامت کی ۔ فرشتوں کی دعا کا مقصود یہ ہے کہ ان کو ہر اس چیز سے بچا جو ان کے حق میں بری ہو ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :13 روز قیامت کی برائیوں سے مراد میدان حشر کا ہَول ، سائے اور ہر قسم کی آسائشوں سے محرومی ، محاسبے کی سختی ، تمام خلائق کے سامنے زندگی کے راز فاش ہونے کی رسوائی ، اور دوسرے وہ تمام ذلتیں اور سختیاں ہیں جن سے وہاں مجرمین کو سابقہ پیش آنے والا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: برائیوں سے مراد دوزخ کی تکلیفیں بھی ہوسکتی ہیں، اور دنیا میں کی ہوئی برائیاں بھی، اور اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں کی ہوئی برائیوں کے انجام سے بچائے، یعنی ان برائیوں کو معاف فرما دے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:9) وقھم۔ میں واؤ عاطفہ ہے ق امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر (ملاحظہ ہو آیت 7 متذکرہ بالا) ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب اور ان کو بچالے۔ محفوظ رکھ۔ السیئات ای وقھم جزاء السیئات اور ان کو ان کی برائیوں کی سزا سے بچالے۔ یا بدوں اضافت ان کی برائیوں سے (دنیا میں بچالے) ۔ من موصولہ ہے۔ من بیانہ ہے۔ تبعیضیہ بھی ہوسکتا ہے۔ تق مضارع واحد مذکر حاضر۔ وقی مصدر (باب ضرب) تق اصل میں تقی تھا۔ عامل کے آنے سے ی حرف علت ساقط ہوگیا۔ تو بچا دے۔ تو بچاتا ہے۔ تو بچادیگا۔ ومن تق السیات یومئذ فقد رحمتہ : من اسم موصول ہے۔ السیات سے مراد برائیاں۔ اعمال بد یا اعمال بد کی جزائ۔ برائیوں کی سزا ہے۔ یومئذ اس روز۔ اس سے مراد یوم مؤاخذہ (روز قیامت) ہے یا یوم عمل یعنی دیتا ہے۔ آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے :۔ جس کو تو نے برائیوں سے اس روز بچا لیا۔ اس پر تو نے (بڑی) رحمت (مہربانی) کی اگر یومئذ سے مراد یوم عمل لیا جائے تو آیت کا مطلب ہوگا :۔ جس کو تو نے (دنیا میں) بد اعمال سے بچا لیا (وہ آخرت میں عذاب سے بچ گیا اس طرح روز قیامت) اس پر تیری بڑی رحمت ہوئی ۔ اور اگر یومئذ سے مراد یوم حساب لیا جائے تو السیئات بمعنی عقوبات سیات (بد اعمال کی سزا) آئے گا۔ یعنی جس کو تو نے روز قیامت اس کے اعمال بد کی سزا سے (اپنی رحمت سے) بچا لیا اس پر تیری (بڑی) مہربانی ہوئی۔ ذلک کا اشارہ رحمت کی طرف ہے یا عذاب سے بچاؤ کی طرف یا دونوں کی طرف ۔ الفوز العظیم۔ موصوف و صفت۔ بڑی کامیابی۔ فائدہ : آیات 7 تا 9 میں فرشتوں کی طرف سے مؤمنوں کو جنت میں داخل کرنے کی دعا اور عذاب سے محفوظ رکھنے کی دعا ہے۔ تفسیر مظہری میں ہے :۔ ایک سوال : ملائکہ کو جب معلوم ہے کہ اللہ نے مومنوں کو جنت میں داخل کرنے کا وعدہ فرما لیا ہے (مثلا والذین صبروا ابتغاء وجہ ربھم ۔۔ والملئکۃ یدخلون علیہم من کل باب (13:2223) اور اللہ کے وعدہ کے خلاف ہونا ممکن ہی نہیں تو پھر اللہ سے مومنوں کو جنت میں داخل کرنے کی دعا کرنا بےسود ہے۔۔ جواب میں کہتا ہوں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے دلوں میں مومنوں کی محبت ڈال دی ہے ۔ اور اسی محبت کا تقاضا ہے کہ وہ مومنوں کے لئے دعا کرتے ہیں۔ پھر دعا کا مقصد مزید رحمت کی طلب بھی ہوتا ہے۔ اور اللہ کے محبوب بندوں کے لئے دعا کرنے والوں کو خود بھی اللہ کی رحمت اور رضا مندی کا ایک حصہ ملتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ گو وہ جہنم سے خفیف ہو، جیسے میدان قیامت کی پریشانیاں۔ 3۔ یعنی مغفرت و حفاظت عذاب اکبر و اصغر سے اور دخول جنت بڑی چیز ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” وقھم الخ “۔ ” السیئات “ سے مراد عقوبات ہیں یا جزاء السیئات علی حذف المضاف۔ ای العقوبات لان جزاء السیئۃ سیئۃ مثلھا او جزاء السیئات علی حذف المضاف (ابو السعود ج 7 ص 296) ۔ اور ان کو گناہوں کی سزا سے بچا اور جس کو تو نے اس دن یعنی دنیا میں یا آخرت میں سزا سے بچا لیا تو اس پر تیری خاص رحمت ہوگئی اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ انسان محض اللہ کی رحمت سے اس کے عذاب سے بچ جائے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) اور آپ ان لوگوں کو ہر قسم کی تکالیف سے بچا لیجئے اور جس کو آپ نے اس دن برائیوں اور تکالیف سے بچا لیا تو بیشک آپ نے اس پر بہت مہربانی فرمائی اور جو کچھ مذکور ہوا یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن دوامی باغوں کے آپ نے ان سے ایمان اور نیک اعمال پر وعدہ فرمایا ہے ان میں ان کو داخل فرمادیجئے اور نہ صرف ان کو بلکہ ان کی ماں باپ اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد کو بھی ان کے ہمراہ داخل کیجئے تاکہ ان کو اطمینان ہو۔ ومن صلح کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے جو اہل ایمان ہوں اگرچہ اعمال میں ان کے برابر نہ ہوں اور آپ چونکہ کمال قوت کے مالک ہیں اس لئے نہ آپ پر کوئی اعتراض کرنے والا اور نہ آپ کی مصلحت میں کوئی دخل دینے والا اور ان کو ہر برائی کی پاداش سے بچا خواہ وہ عذاب کی شکل میں ہو یا ملامت یا میدان حشر کی تکالیف سے غرض ہر برائی کی پاداش سے بچا۔ چونکہ وقھم السیئات کی تفسیر دو طرح کی گئی ہے اس لئے ہم نے ترجمے اور تیسیر میں دونوں باتیں ظاہر کردی ہیں اور جس کو تونے اس دن برائیوں سے بچا لیا تو اس پر بڑا ہی رحم کیا اور یہ برائیوں سے بچ کر جنت عدن میں داخل ہوجنا اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ جمع ہوجانا اور اس دن کی پریشانیوں سے بچ کر خدا کی رحمت میں آجانا یہ بہت ہی بڑی کامیابی ہے۔