Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 13

سورة حم السجدہ

فَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَقُلۡ اَنۡذَرۡتُکُمۡ صٰعِقَۃً مِّثۡلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّ ثَمُوۡدَ ﴿ؕ۱۳﴾

But if they turn away, then say, "I have warned you of a thunderbolt like the thunderbolt [that struck] 'Aad and Thamud.

اب بھی یہ روگردان ہوں تو کہہ دیجئے! کہ میں تمہیں اس کڑک ( عذاب آسمانی ) سے ڈراتا ہوں جو مثل عادیوں اور ثمودیوں کی کڑک کے ہوگی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

A Warning to the Disbelievers and a Reminder of the Story of `Ad and Thamud Allah says: فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنذَرْتُكُمْ ... But if they turn away, then say: "I have warned you of, Allah says: `Say, O Muhammad, to these idolators who disbelieve in the message of truth that you have brought: If you turn away from that which I have brought to you from Allah, then I warn...  you of the punishment of Allah like the punishment that the past nations suffered for disbelieving in the Messengers.' ... صَاعِقَةً مِّثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ a Sa`iqah like the Sa`iqah which overtook `Ad and Thamud. and other similar nations who did what they did,   Show more

انبیاء کی تکذیب عذاب الٰہی کا سبب ۔ حکم ہوتا ہے کہ جو آپ کو جھٹلا رہے ہیں اور اللہ کے ساتھ کفر کر رہے ہیں آپ ان سے فرما دیجئے کہ میری تعلیم سے رو گردانی تمہیں کسی نیک نتیجے پر نہیں پہنچائے گی ۔ یاد رکھو کہ جس طرح انبیاء کی مخالف امتیں تم سے پہلے زیرو زبر کر دی گئیں کہیں تمہاری شامت اعمال بھی تمہی... ں انہی میں سے نہ کر دے ۔ قوم عاد اور قوم ثمود کے اور ان جیسے اوروں کے حالات تمہارے سامنے ہیں ۔ ان کے پاس پے درپے رسول آئے اس گاؤں میں اس گاؤں میں اس بستی میں اس بستی میں اللہ کے پیغمبر اللہ کی منادی کرتے پھرتے لیکن ان کی آنکھوں پر وہ چربی چڑھی ہوئی تھی اور دماغ میں وہ گند ٹھسا ہوا تھا کہ کسی ایک کو بھی نہ مانا ۔ اپنے سامنے اللہ والوں کی بہتری اور دشمنان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بدحالی دیکھتے تھے لیکن پھر بھی تکذیب سے باز نہ آئے ۔ حجت بازی اور کج بحثی سے نہ ہٹے اور کہنے لگے اگر اللہ کو رسول بھیجنا ہوتا تو کسی اپنے فرشتے کو بھیجتا تم انسان ہو کر رسول کریم بن بیٹھے؟ ہم تو اسے ہرگز باور نہ کریں گے؟ قوم عاد نے زمین میں فساد پھیلا دیا ان کی سرکشی ان کا غرور حد کو پہنچ گیا ۔ ان کی لا ابالیاں اور بےپرواہیاں یہاں تک پہنچ گئیں کہ پکار اٹھے ہم سے زیادہ زور آور کوئی نہیں ۔ ہم طاقتور مضبوط اور ٹھوس ہیں اللہ کے عذاب ہمارا کیا بگاڑ لیں گے؟ اس قدر پھولے کہ اللہ کو بھول گئے ۔ یہ بھی خیال نہ رہا کہ ہمارا پیدا کرنے والا تو اتنا قوی ہے کہ اس کی زور آوری کا اندازہ بھی ہم نہیں کر سکتے ۔ جیسے فرمان ہے ( وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ 47؀ ) 51- الذاريات:47 ) ہم نے اپنے ہاتھوں آسمان کو پیدا کیا اور ہم بہت ہی طاقتور اور زور آور ہیں ، پس ان کے اس تکبر پر اور اللہ کے رسولوں کے جھٹلانے پر اور اللہ کی نافرمانی کرنے اور رب کی آیتوں کے انکار پر ان پر عذاب الٰہی آ پڑا ۔ تیز و تند ، سرد ، دہشت ناک ، سرسراتی ہوئی سخت آندھی آئی ۔ تاکہ ان کا غرور ٹوٹ جائے اور ہوا سے وہ تباہ کر دیئے جائیں ۔ صراصر کہتے ہیں وہ ہوا جس میں آواز پائی جائے ۔ مشرق کی طرف ایک نہر ہے جو بہت زور سے آواز کے ساتھ بہتی رہتی ہے اس لئے اسے بھی عرب صرصر کہتے ہیں ۔ نحسات سے مراد پے درپے ، ایک دم ، مسلسل ، سات راتیں اور آٹھ دن تک یہی ہوائیں رہیں ۔ وہ مصیبت جو ان پر مصیبت والے دن آئی وہ پھر آٹھ دن تک نہ ہٹی نہ ٹلی ۔ جب تک ان میں سے ایک ایک کو فنا کے گھاٹ نہ اتار دیا اور ان کا بیج ختم نہ کر دیا ۔ ساتھ ہی آخرت کے عذابوں کا لقمہ بنے جن سے زیادہ ذلت و توہین کی کوئی سزا نہیں ۔ نہ دنیا میں کوئی ان کی امداد کو پہنچا نہ آخرت میں کوئی مدد کیلئے اٹھے گا ۔ بےیارو مددگار رہ گئے ، ثمودیوں کی بھی ہم نے رہنمائی کی ۔ ہدایت کی ان پر وضاحت کر دی انہیں بھلائی کی دعوت دی ۔ اللہ کے نبی حضرت صالح نے ان پر حق ظاہر کر دیا لیکن انہوں نے مخالفت اور تکذیب کی ۔ اور نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر جس اونٹنی کو اللہ نے علامت بنایا تھا اس کی کوچیں کاٹ دیں ۔ پس ان پر بھی عذاب اللہ برس پڑا ۔ ایک زبردست کلیجے پھاڑ دینے والی چنگاڑ اور دل پاش پاش کر دینے والے زلزلے نے ذلت و توہین کے ساتھ ان کے کرتوتوں کا بدلہ لیا ۔ ان میں جتنے وہ لوگ تھے جنہیں اللہ کی ذات پر ایمان تھا نبیوں کی تصدیق کرتے تھے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے تھے انہیں ہم نے بچا لیا انہیں ذرا سا بھی ضرر نہ پہنچا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذلت و توہین سے اور عذاب اللہ سے نجات پالی ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] یعنی اس قرآن کی صفات اور اس قرآن کو نازل کرنے والی ہستی کی عظیم الشان آیات قدرت سننے کے بعد بھی اگر کفار مکہ نصیحت قبول کرنے اور توحید اور اسلام کی راہ اختیار کرنے سے اعراض کرتے ہیں تو پھر ان پر بھی ایسی بجلیاں گر سکتی ہیں جیسے عاد وثمود پر گری تھیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فان اعرضوا فقل انذرتکم …:” ضعقۃ ‘ کی وضاحت کے لئے دیکھیے سورة رعد (١٣) سورت کی ابتدائی آیات (٤، ٥) میں اللہ کی کتاب سے اکثر لوگوں کے اعراض کا ذکر فرمایا، اس کے بعد چھ دنوں میں زمین و آسمان کی تخلیق کی تفصیل بیان فرمائی، اب فرمایا کہ اگر یہ لوگ اب بھی نہ مانیں کہ معبود برحق صرف ایک ہے، جس نے یہ زمین ... و آسمان اور ساری کائنات بنائی ہے اور اس حقیقت سے اعراض پر اڑے رہیں، تو ان سے کہہ دیں کہ تم سے پہلی بھی کئی اقوا منے یہ روش اختیار کی جو تم اختیار کر رہے ہو۔ سو میں تمہیں اس جیسے عذاب اور کڑکنے والی بجلی سے ڈرتا ا ہوں جو تم سے پہلی اقوام عادہ ثمود پر گری تھی۔ عاد وثمود کے تعارف کے لئے دیکھیے سورة اعراف (٦٥ تا ٧٩) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The basic purpose of these verses is to warn the people of Makkah that if, even after seeing the manifest proofs of the Oneness of Allah, they do not accept the call of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، they may face a punishment like the earlier people of ` Ad and Thamud had faced. In this context, a brief account of what happened to these people has been given. The people o... f Makkah are also reminded that their punishment on the Day of Judgment will be much more severe, and they will not be able to escape it, because even the organs of their body will testify against them. And in this context, some events of that Day are mentioned.  Show more

خلاصہ تفسیر پھر (دلائل توحید سن کر بھی) اگر یہ لوگ (توحید سے) اعراض کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تم کو ایسی آفت سے ڈراتا ہوں جیسی عاد وثمود پر (شرک و کفر کی وجہ سے) آفت آئی تھی (مراد عذاب سے ہلاک کرنا ہے) جیسا کہ قریش مکہ کے سردار غزوہ بدر میں ہلاک اور قید کئے گئے، اور یہ قصہ عاد وثمود کا اس وقت ہو... ا تھا) جبکہ ان کے پاس ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی پیغمبر آئے (یعنی جو پیغمبر ان کی طرف بھیجے گئے اور ان کے سمجھانے میں جان توڑ کوشش کی گئی۔ جیسے کوئی شخص اپنے کسی عزیز کو کسی مصیبت و ہلاکت کی طرف جاتے دیکھے تو وہ کبھی آگے سے آ کر اسے روکتا ہے، کبھی پیچھے سے پکڑتا ہے۔ اور اس کی مثال قرآن میں ابلیس کا یہ قول ہے کہ اس نے کہا تھا لاتینھم من بین ایدیہم ومن خلفہم۔ یعنی میں بنی آدم کو گمراہ کرنے ان کے آگے سے بھی آؤں گا ان کے پیچھے سے بھی، اور ان پیغمبروں نے یہی کہا کہ) بجز اللہ کے اور کسی کی عبادت نہ کرو، انہوں نے جواب دیا کہ (تم جو اللہ کی طرف سے آنے کا اور توحید کی طرف بلانے کا دعویٰ کرتے ہو یہی غلط ہے کیونکہ) اگر ہمارے پروردگار کو (یہ) منظور ہوتا (کہ کسی کو پیغمبر بنا کر بھیجے) تو فرشتوں کو بھیجتا اس لئے ہم اس (توحید) سے بھی منکر ہیں جس کو دے کر (تمہارے دعویٰ کے مطابق) تم (پیغمبری کے طور پر) بھیجے گئے ہو پھر (اس مشرک قول کے بعد ہر قوم کے خاص کی تفصیل یہ ہے کہ) وہ جو عاد کے لوگ تھے وہ دنیا میں ناحق تکبر کرنے لگے اور (جب عذاب کی وعید سنی تو) کہنے لگے وہ کون ہے جو قوت میں ہم سے زیادہ ہے (کہ وہ ہمیں ایسے عذاب میں مبتلا کرسکے اور ہم اس کے دفع کرنے پر قادر نہ ہوں، آگے جواب ہے کہ) کیا ان لوگوں کو یہ نظر نہ آیا کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے وہ قوت میں ان سے بہت زیادہ ہے (مگر باوجود اس کے بھی وہ ایمان نہ لائے) اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے تو ہم نے ان پر ایک سخت ہوا ایسے دنوں میں بھیجی جو (بوجہ نزول عذاب الٰہی کے ان کے حق میں) منحوس تھے تاکہ ہم ان کو اس دنیوی زندگی میں رسوائی کا مزہ چکھا دیں اور آخرت کا عذاب اور بھی زیادہ رسوائی کا سبب ہے اور (اس عذاب کے وقت کسی طرف سے بھی) ان کو مدد نہ پہنچے گی۔ اور وہ جو ثمود تھے تو (ان کی کیفیت یہ ہوئی کہ) ہم نے ان کو (پیغمبر کے ذریعہ) رستہ بتلایا، انہوں نے گمراہی کو ہدایت کے مقابلہ میں پسند کیا تو ان کو سراپا ذلت کے عذاب کی آفت نے پکڑ لیا ان کی بدکرداریوں کی وجہ سے اور ہم نے (اس عذاب سے) ان لوگوں کو نجات دی جو ایمان لائے اور ہم سے ڈرتے تھے۔ (یہاں تک عذاب دنیوی کا ذکر تھا آگے عذاب آخرت کا ذکر ہے) اور (ان کو وہ دن بھی یاد دلائے) جس دن اللہ کے دشمن (یعنی کفار) دوزخ کی طرف جمع کرنے کے لئے (موقف حساب میں) لائے جاویں گے پھر (راستہ میں ان کی کثرت کے سبب منتشر ہونے سے بچانے اور مجتمع رہنے کے لئے) وہ روکے جاویں گے (تا کہ پیچھے رہنے والے ساتھ ہوجاویں جیسا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے واقعہ میں تمام جنود اور لشکروں کو جمع کرنے کے لئے فھم یوزعون فرمایا یعنی ان کو روکا جاوے گا) یہاں تک کہ جب وہ (سب جمع ہو کر) اس (دوزخ) کے قریب آ جاویں گے (مراد موقف حساب ہے جہاں سے دوزخ قریب ہی نظر آوے گا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ دوزخ کو موقف حساب میں حاضر کریں گے اور یہ کافر اپنے چاروں طرف آگ ہی آگ دیکھے گا۔ غرض یہ کہ جب موقف حساب میں آ جاویں گے اور حساب شروع ہوگا) تو ان کے کان اور آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے خلاف ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔ اور (اس وقت) وہ لوگ (تعجب کے ساتھ) اپنے اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی (ہم تو دنیا میں سب کچھ تمہاری ہی راحت کے لئے کرتے تھے جیسا کہ حدیث میں حضرت انس کی روایت سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ فعنکن کنت اناضل رواہ مسلم۔ یعنی میں تمہارے ہی لئے سب کوشش کیا کرتا تھا) وہ (اعضاء) جواب دیں گے کہ ہم کو اس (قادر مطلق) نے گویائی دی جس نے ہر (گویا) چیز کو گویائی دی (جس سے ہم نے اپنے اندر خود اس کی قدرت کا مشاہدہ کرلیا) اور اسی نے تم کو اول بار پیدا کیا تھا اور اسی کے پاس پھر (دوبارہ زندہ کر کے) لائے گئے ہو (تو ہم ایسے عظمت والے وقدرت والے کے پوچھنے پر حق بات کو کیسے چھپا سکتے ہیں اس لئے گواہی دے دی) اور (آگے حق تعالیٰ ان منکروں کو خطاب فرماویں گے کہ) تم (دنیا میں) اس بات سے تو اپنے کو (کسی طرح) چھپا (اور بچا) ہی نہ سکتے تھے کہ تمہارے کان اور آنکھیں اور کھالیں تمہارے خلاف میں گواہی دیں (کیونکہ حق تعالیٰ کی قدرت مطلقہ اور علم محیط واقع میں ثابت ہے جس کا مقتضا یہ تھا کہ برے اعمال سے بچتے) لیکن تم (اس لئے نہ بچے کہ) اس گمان میں رہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے بہت سے اعمال کی خبر بھی نہیں اور تمہارے اسی گمان نے جو کہ تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا تم کو برباد کیا (کیونکہ اس گمان سے اعمال کفریہ کے مرتکب ہوئے اور وہ موجب بربادی ہوئے) پھر تم (ابدی) خسارہ میں پڑگئے سو (اس حالت میں) اگر یہ لوگ (اس بربادی و خسارہ پر) صبر کریں (اور تن بتقدیر رہ کر عذر معذرت کچھ نہ کریں) تب بھی دوزخ ہی ان کا ٹھکانہ ہے (یہ نہیں کہ ان کا صبر موجب رحم ہوجاوے جیسا کہ دنیا میں اکثر ہوجاتا تھا) اور اگر وہ عذر کرنا چاہیں گے تو بھی مقبول نہ ہوگا اور ہم نے (دنیا میں) ان (کفار) کے لئے کچھ ساتھ رہنے والے (شیاطین) مقرر کر رکھے تھے سو انہوں نے ان کے اگلے پچھلے اعمال ان کی نظر میں مستحسن کر رکھے تھے (اس لئے ان پر مصر تھے) اور (کفر پر اصرار کرنے کی وجہ سے) ان کے حق میں بھی ان لوگوں کے ساتھ اللہ کا قول (یعنی وعدہ عذاب) پورا ہو کر رہا جو ان سے پہلے جن اور انسان (کفار) ہو گزرے ہیں، بیشک وہ بھی خسارے میں رہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ۝ ١٣ۭ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں...  ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ صعق الصَّاعِقَةُ والصّاقعة يتقاربان، وهما الهدّة الكبيرة، إلّا أن الصّقع يقال في الأجسام الأرضيّة، والصَّعْقَ في الأجسام العلويَّةِ. قال بعض أهل اللّغة : الصَّاعِقَةُ علی ثلاثة أوجه : 1- الموت، کقوله : فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ الزمر/ 68] ، وقوله : فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء/ 153] . 2- والعذاب، کقوله : أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت/ 13] . 3- والنار، کقوله : وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد/ 13] . وما ذكره فهو أشياء حاصلة من الصَّاعِقَةِ ، فإنّ الصَّاعِقَةَ هي الصّوت الشّديد من الجوّ ، ثم يكون منها نار فقط، أو عذاب، أو موت، وهي في ذاتها شيء واحد، وهذه الأشياء تأثيرات منها . ( ص ع ق ) الصاعقۃ اور صاقعۃ دونوں کے تقریبا ایک ہی معنی ہیں یعنی ہو لناک دھماکہ ۔ لیکن صقع کا لفظ اجسام ارضی کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور صعق اجسام علوی کے بارے میں بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ صاعقۃ تین قسم پر ہے اول بمعنی موت اور ہلاکت جیسے فرمایا : ۔ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ الزمر/ 68] تو جو لوگ آسمان میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب کے سب مرجائیں گے ۔ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء/ 153] سو تم کو موت نے آپکڑا ۔ دوم بمعنی عذاب جیسے فرمایا : ۔ أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت/ 13] میں تم کو مہلک عذاب سے آگاہ کرتا ہوں جیسے عاد اور ثمود پر وہ ( عذاب ) آیا تھا ۔ سوم بمعنی آگ ( اور بجلی کی کڑک ) جیسے فرمایا : ۔ وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد/ 13] اور وہی بجلیاں بھیجتا ہے پھو حس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے ۔ لیکن یہ تینوں چیزیں دراصل صاعقہ کے آثار سے ہیں کیونکہ اس کے اصل معنی تو قضا میں سخت آواز کے ہیں پھر کبھی تو اس آواز سے صرف آگ ہی پیدا ہوتی ہے اور کبھی وہ آواز عذاب اور کبھی موت کا سبب بن جاتی ہے یعنی دراصل وہ ایک ہی چیز ہے اور یہ سب چیزیں اس کے آثار سے ہیں ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ ثمد ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي : قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله . ( ث م د ) ثمود ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اگر یہ کفار مکہ ایمان لانے سے انکار کریں جیسا کہ عتبہ اور اس کے ساتھی تو آپ ان سے کہہ دیجیے کہ میں تمہیں بذریعہ قرآن کریم ایسے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا کہ عاد اور ثمود پر نازل ہوا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ { فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ } ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) اگر یہ لوگ اعراض کریں تو آپ کہہ دیجیے کہ میں نے تو تمہیں خبردار کردیا ہے ایک ایسی خوفناک کڑک سے جیسی کہ قوم عاد اور قوم ثمود کی کڑک تھی ۔ “ میں نے تو تم لوگوں...  کو آگاہ کردیا ہے کہ جیسے قوم عاد اور قوم ثمود پر عذاب آیا تھا ‘ تمہاری تکذیب کے باعث ویسا ہی کوئی عذاب تم پر بھی ٹوٹ سکتا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 That is, "Ifthey do not believe that God and Deity is One and only One, who has created this earth and the whole universe, and still persist in their ignorance that they would make others also, who are in fact His creatures and slaves, deities beside Him, and regard them as His associates in His Being and rights and powers.

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :17 یعنی اس بات کو نہیں مانتے کہ خدا اور معبود بس وہی ایک ہے جس نے یہ زمین اور ساری کائنات بنائی ہے ، اور اپنی اس جہالت پر اصرار ہی کیے چلے جاتے ہیں کہ اس خدا کے ساتھ دوسروں کو بھی ، جو حقیقت میں اس کے مخلوق و مملوک ہیں ، معبود بنائیں گے اور اس کی ذات و صفات اور ... حقوق و اختیارات میں انہیں اس کا شریک ٹھہرائیں گے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: یہ ایک محاورہ ہے، اور مطلب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے ہر رخ سے اپنی قوموں کو سمجھانے کی کوشش کی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٣۔ ٢١۔ اوپر آسمان اور زمین اور چند چیزوں کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے قریش کو یہ سمجھایا تھا کہ جب ان چیزوں کے پیدا کرنے میں کوئی اللہ کا شریک نہیں ہے تو اللہ کی تعظیم اور عبادت میں غیروں کو شریک کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ان آیتوں میں فرمایا اگر یہ لوگ اس سیدھی سیدھی نصیحت کو بھی ٹال دیں اور شرک سے ... باز نہ آئیں تو اے رسول اللہ کے ان سے کہہ دیا جائے کہ میں تم کو قوم عاد اور قوم ثمود جیسے عذاب سے ڈراتا ہوں کیونکہ جو تمہارا حال ہے وہی ان کا تھا کہ جس طرح آگے پیچھے ایک کے بعد ایک وہ قومیں پیدا ہوئیں اسی طرح آگے پیچھے ان کے پاس رسول بھیجے گئے اور رسولوں نے ان قوموں کو خالص اللہ کی عبادت کرنے کی نصیحت بھی کی مگر جس طرح کی بےٹھکانے کی باتیں اللہ کے رسول سے تم لوگ کرتے ہو کہ اللہ کا رسول انسان نہیں ہوسکتا کوئی فرشتہ ہونا چاہئے ایسی باتیں ان قوموں نے اللہ کے رسولوں سے کیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سخت آندھی کے عذاب سے قوم عاد کو اور سخت چیخ اور زلزلہ کے عذاب سے قوم ثمود کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کردیا اگر انہی قوموں کے قدم بقدم تم لوگ بھی چلتے رہے اور شرک سے باز نہ آئے تو ایک دن یہی انجام تمہارا بھی ہوگا اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ بدر کی لڑائی کے وقت جو کچھ اس وعدہ کا ظہور ہوا صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کی انس بن مالک کی روایت سے اس کا ذکر کئی جگہ اوپر گزر چکا ہے۔ ملک شام اور یمن کے سفر میں قریش کا گزر قوم عاد اور قوم ثمود کی اجڑی ہوئی بستیوں پر سے اکثر ہوا کرتا تھا۔ اس لئے ان آیتوں میں فقط ان دو قوموں کا نام لیا۔ صحیح بخاری ٢ ؎ کے حوالہ سے حضرت عائشہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ ابر کو دیکھ کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے پر پریشانی چھا جاتی تھی اور آپ گھر کے اندر اور باہر پریشان پھرا کرتے تھے جب اس ابر میں سے مینہ برسنے لگتا تھا تو آپ کی وہ پریشانی رفع ہوجاتی تھی اور آپ یہ فرمایا کرتے تھے کہ قوم عاد پر آندھی کا عذاب ابر کی صورت میں آیا تھا اس لئے ابر کو دیکھ کر مجھ کو وہ عذاب یاد آتا ہے اور میں پریشان ہوجاتا ہوں۔ ثمود کے قصے میں صحیح بخاری ٣ ؎ کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمر کی روایتیں گزر چکی ہیں کہ تبوک کے سفر کے وقت جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر قوم ثمود کی اجڑی ہوئی بستی پر سے ہوا تو آپ خوف زدہ ہوگئے اور صحابہ سے فرمایا کہ جب تک یہ بستی آنکھوں کے سامنے رہے تو عذاب الٰہی کو یاد کرکے ڈرنا اور رونا چاہئے ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ پچھلی قوموں کے عذاب کا حال جب ایماندار شخص کو یاد آئے تو اس کو عذاب الٰہی سے ڈرنا اور عبرت پکڑنی چاہئے آخر کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کے عذاب کے وقت اپنے انصاف کو موافق اپنے رسولوں اور ان کے ساتھ کے ایماندار پرہیز گار لوگوں کو اس عذاب سے بچا دیا اور باقی کے لوگوں کو ہلاک کردیا۔ رسولوں کے جھٹلانے والے لوگ یہ جو کہتے تھے کہ اللہ کا رسول انسان نہیں ہوسکتا فرشتہ ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب سورة الانعام میں جو دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ فرشتوں کو اصلی صورت میں دیکھنا تو انسان کی طاقت سے باہر ہے اس لئے اگر آسمان پر سے کوئی فرشتہ بھی رسول بنا کر بھیجا جائے گا تو ضرور وہ انسان کی صورت میں ہوگا جس سے ان لوگوں کو یہی بےٹھکانے کی باتیں باقی رہے گی۔ یہ جو فرمایا تھا کہ بہ نسبت دنیا کے عذاب کے ایسے لوگوں کا آخرت کا عذاب بڑی رسوائی کا ہوگا آگے اس کا ذکر فرمایا کہ رسوا کرنے کے لئے ایسے لوگوں کی جماعت بندی سب اہل محشر کے سامنے کی جائے گی اور ان میں کے جو لوگ اپنی بد اعمالی کے منکر ہوں گے ان کے کان آنکھ اور ہاتھ پیروں سے ان کی بداعمال کی گواہی دلوائی جا کر ان کو رسوا کیا جائے گا اس ہاتھ پیر کان آنکھ کی گواہی کی انس بن مالک کی حدیث صحیح ١ ؎ مسلم اور نسانی کے حوالہ سے اوپر بھی گزر چکی ہے اور آگے کی آیت کی تفسیر میں بھی آتی ہے۔ قوم عاد اور ثمود کا قصہ سورة الاعراف سورة ہود اور سورة الشعرا میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ قوم عاد کے قصہ کا حاصل یہ ہے کہ یہ لوگ بڑے قد آور شہ زور تھے قرآن شریف میں کئی جگہ ان کی شہ زوری کا ذکر ہے اس قوم کے لوگوں کو نمود کی عادتیں بنانے کا بڑا شوق تھا بےفائدہ عمارتیں بنانے آپس کے ظلم و زیادتی اور بت پرستی سے ہود (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو جب روکا اور عذاب الٰہی سے ڈرایا تو ان لوگوں نے سرکشی سے یہ جواب دیا کہ جس عذاب سے تم ہم کو ڈراتے ہو اس سے ہم نہیں ڈرتے اگر کوئی آفت آئی تو ہم اپنی شہ زوری کے سبب سے اس کو رفع دفع کردیں گے اسی کا جواب اللہ تعالیٰ ان آیتوں میں دیا ہے کہ جس صاحب قدرت نے ان کو پیدا کیا ہے اس کی قدرت اور قوت ان لوگوں کی قوت سے بڑھ کر ہے ان لوگوں کے یہ غرور کے کلمے اللہ تعالیٰ کو اچھے نہیں معلوم ہوئے۔ اس لئے سات راتیں اور آٹھ دن تک سخت آندھی چکی جس سے یہ قوم بالکل ہلاک ہوگئی ان ہی آٹھ دن کو مصیبت کے دن فرمایا قوم ثمود کے قصہ کا حاصل یہ ہے کہ صالح (علیہ السلام) نے جب ان لوگوں کو بت پرستی عیش و آرام کی غفلت اور سرکش لوگوں کی عادتوں سے منع کیا تو ان لوگوں نے صالح علیہ اسلام پر جادو کا اثر بتایا اور صالح (علیہ السلام) سے اونٹنی کے معجزہ کی فرمائش کی اور صالح (علیہ السلام) نے وہ معجزہ دکھایا جس کا پورا قصہ سورة ہود میں گزر چکا ہے اسی کو فرمایا کہ ان لوگوں کی فرمائش کے موافق ان کو اونٹنی کا معجزہ دکھایا جا کر راہ راست پر آنے کا راستہ بتایا گیا لیکن ان لوگوں کو کفر و شرک کا اندھے پنے کا راستہ اچھا لگا اور اونٹنی کا معجزہ دیکھ کر بھی انہوں نے صالح (علیہ السلام) کی فرمانبرداری قبول نہیں کی اور ان میں کے سرکش لوگوں نے اس اونٹنی کو ہلاک کر ڈالا جس کے سبب سے ان لوگوں پر اس طرح عذاب آیا کہ آسمان سے ایک سخت آواز آئی اور زمین میں زلزلہ آیا جس کے صدمہ سے ان لوگوں کے کلیجے پھٹ گئے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:13) فان اعرضوا : پس اگر وہ (پھر بھی) روگردانی کریں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اتنے دلائل کے باوجود بھی اقرار توحید سے انکار اور اعراض کریں (جملہ شرطیہ ہے) ۔ فقل : فاء جواب شرط کے لئے ہے قل فعل امر واحد مذکر حاضر۔ تو آپ کہہ دیجئے۔ انذرتکم : انذرت ماضی کا صیغہ واحد متکلم۔ انذار (افعال) مصدر سے کم ضمی... ر مفعول جمع مذکر حاضر۔ میں نے تم کو ڈرا دیا۔ یا ڈر سنا دیا۔ ڈر سے متنبہ کردیا ۔ صاحب ضیاء القرآن رقمطراز ہیں :۔ انذرت کا عام مفہوم اتنا ہی بیان کیا جاتا ہے کہ میں نے ڈرایا۔ حالانکہ نذر کے مادہ کا اطلاق اس ڈرانے پر ہوتا ہے جس میں کم از کم دو خصوصیتیں ہوں۔ (1) ایک تو وہ ڈرانا بروقت ہو۔ یوں نہیں کہ جب پتھر آسمان سے برسنے شروع ہوجائیں تو خطرہ کا الارم بجنے لگے۔ (2) دوسری بات یہ ہے کہ انذار سے مقصد صرف عذاب کی خبر دینا نہیں ہوتا ۔ بلکہ اصل مقصد اس شخص کی خیر خواہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچاؤ کا انتظام کرلے۔ لسان العرب میں ہے کہ :۔ عرب کہتے ہیں انذرت القوم مسیر العد والیہم فنذروا۔ ای علمتھم ذلک فعلموا وتحرزوا۔ یعنی میں نے قوم کو دشمن کے حملے سے خبردار کیا۔ پس انہوں نے اپنا بچاؤ کرلیا۔ صعقۃ۔ بادل کی اس شدید کڑک کو کہتے ہیں جس کے ساتھ بجلی بھی ہوتی ہے یہ اس کے لغوی معنی ہیں لیکن اس کا اطلاق ہر مہلک عذاب پر بھی ہوتا ہے خواہ اس کی نوعیت کسی بھی قسم کی ہو۔ صعقۃ : صعق یصعق (باب فتح) سے مصدر ہے۔ لازم اور متعدی دونوں طرح مستعمل ہے۔ (آسمانی) بجلی کا گرنا۔ (آسمان کا) بجلی گرانا۔ یا صعق یصعق (باب سمع) (گرج سے بیہوش ہوجانا ۔ مرجانا۔ سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث ہے کڑک اور گرج کے ساتھ آسمان سے گرنے والی آگ۔ مہلک عذاب اس کی جمع صواعق ہے۔ قرآن مجید میں ہے فاخذتکم الصعقۃ (51:44) سو تم کو موت نے آپکڑا۔ اور آگ اور بجلی کی کڑک کے معنی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔ ویرسل الصواعق فیصیب بھا من یشاء (13:13) اور وہی بجلیاں (یا آگ) بھیجتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے۔ آیت ہذا (41:13) میں بمعنی سخت عذاب ہے۔ صعقۃ منصوب بوجہ مفعول ثانی انذرت کے ہے کم ضمیر جمع مذکر حاضر اس کا مفعول اول ہے۔ مثل صعقۃ عاد وثمود (میں تم کو ایسے سخت عذاب سے ڈراتا ہوں) جو قوم عاد وقوم ثمود کے عذاب کی مثل ہوگا۔ یہاں صعقۃ سے مراد وہ عذاب نہیں جو آسمان سے بجلی کی کڑک اور آگ کی صورت میں نازل ہوا ہو بلکہ اس سے مراد اس کی شدت و ہلاکت ہر دو صورتوں میں ایک جیسی تھی جیسے آگے آئیگا۔ قوم عاد پر عذاب تیز و تند سرد، دہشت ناک ، سرسراتی ہوئی سخت آندھی کی صورت میں مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک جاری رہا ۔ اور قوم ثمود پر ایک زبردست کلیجے پھاڑ دینے والی چنگھاڑ اور دل پاش پاش کردینے والے زلزلے کی صورت میں نازل ہوا تھا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ مراد عذاب اہلاک ہے، چناچہ اہل مکہ بھی بدر میں ہلاک کئے گئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی قدرتیں دیکھنے اور اس کی نعمتیں استعمال کرنے کے باوجود جو لوگ اپنے رب کے ساتھ کفر و شرک کرتے ہیں۔ انہیں قوم عاد اور قوم ثمود کے انجام پر نظر رکھنا چاہیے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے مخاطبین ہر قسم کے دلائل سُننے اور حقائق جاننے کے باوجود اپنے رب کے س... اتھ کفر و شرک چھوڑ نے کے لیے تیار نہیں تو انہیں فرما دیں کہ میں نے تمہیں قوم عاد اور قوم ثمود کے دھماکوں سے ڈرا دیا ہے۔ ان کے پاس اور ان کے بعد رسول آئے اور انہوں نے زندگی بھر انہیں دعوت دی کہ اللہ کے سوا نہ کسی کو معبود مانو اور نہ کسی اعتبار سے ان کی بندگی کرو۔ قوم عاد اور ثمود نے اس بات کو قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا اگر واقعی ” اللہ “ اپنا پیغام پہنچانا چاہتا تو تمہاری بجائے ہمارے پاس فرشتے بھیجتا۔ جس چیز کی تم دعوت دیتے ہو ہم اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حق کے منکرین کی شروع سے یہ عادت ہے کہ وہ رسولوں کو انسان تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ فرق صرف یہ ہے پہلے لوگ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی نبوت کا اس لیے انکار کرتے تھے کہ بشر نبوت جیسے عظیم منصب پر فائز نہیں ہوسکتا اور آج کلمہ پڑھنے والے بعض مسلمان کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشر کہنا آپ کی توہین ہے۔ فرق یہ ہے کہ اہل مکہ آپ کو بشر مانتے تھے لیکن رسالت کا انکار کرتے تھے۔ آج کچھ مسلمان آپ کی نبوت مانتے ہیں لیکن بشریت کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور پہاڑوں کا ذکر فما کر اپنی کبریائی کا اشارہ کیا اور بتلایا کہ قوم عاد اور قوم ثمود بھی اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے۔ اور اہل مکہ بھی اپنے اپ کو بڑا سمجھتے ہیں۔ جس طرح قوم عاد اور ثمود کا برا انجام ہے اسی طرح مکہ والے بھی برے انجام کو پہنچے گے۔ مسائل ١۔ قوم عاد اور قوم ثمود کی تباہی سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ ٢۔ کفار نے انبیاء (علیہ السلام) کی نبوت کا اس لیے انکار کیا کہ وہ انسان تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اس لیے مبعوث فرمائے تاکہ وہ لوگوں کو سمجھائیں کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے۔ تفسیر بالقرآن نبوت کو تسلیم نہ کرنے کے بہانے : ١۔ مشرکین نے کہا اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتے۔ (النحل : ٣٥) ٢۔ عنقریب مشرکین کہیں گے اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔ (الانعام : ١٤٨) ٣۔ کفار نے کہا ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک تو زمین سے ہمارے لیے کوئی چشمہ جاری نہ کر دے۔ (بنی اسرائیل : ٩٠) ٤۔ مشرکین نے آپ پر اعتراض کیا کہ آپ پر خزانہ کیوں نہیں نازل ہوتا۔ (ھود : ١٢) ٥۔ بنی اسرائیل نے کہا اے موسیٰ جب تک ہم اللہ کو اپنے سامنے نہیں دیکھ لیتے ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ (البقرۃ : ٥٥) ٦۔ قرآن کے نزول کے وقت منافقین ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے تھے۔ (التوبۃ : ١٢٧) ٧۔ منافقین قرآن مجید کے نزول کا مذاق اڑاتے اور کہتے ہیں اس سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ؟ (التوبۃ : ١٢٤) ٨۔ جب قرآن کا کوئی حصہ نازل ہوتا ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول سے مل کر جہاد کرو تو منافق بہانے تراشنے لگتے ہیں۔ (التوبۃ : ٨٦) ٩۔ جب کوئی محکم سورة نازل ہوتی اور اس میں قتال کا تذکرہ ہوتا ہے تو منافق آپ کی طرف ایسے دیکھتے جیسے ان پر موت کی بیہوشی طاری ہوگئی ہو۔ ( سورة محمد : ٢٠)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 13 تا 18 یہ فی حقیقت ایک خوفناک ڈراوا ہے۔ فان اعرضو۔۔۔۔ وثمود (41: 13) ” اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں تم کو اسی طرح کے اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا عاد ثمود پر نازل ہوا تھا “۔ یہ ڈراوا مشرکین کے جرائم اور نہایت ہی مکروہ بدکاریوں کے لیے نہایت مناسب تھا ج... س طرح کے غرور میں مشرکین مکہ مبتلا تھے ، جس کا ذکر سورت کے آغاز میں ہوا ، نیز وہ اس پوری کائنات کی روش اطاعت سے بھی پھرے ہوئے تھے ، جس کا ذکر اس ڈراوے سے متصلا پہلے ہوا۔ اس ڈراوے کے قصے کے بارے میں ابن اسحاق نے روایت کی ہے یزید ابن زیادہ سے انہوں نے محمد ابن کعب قرظی سے ، انہوں نے کہا مجھے یہ بتایا گیا کہ عتبہ ابن ربیعہ نے ، جو قریش کا ایک سردار تھا ، ایک دن جبکہ وہ قریش کی محفل میں بیٹھا ہوا تھا ، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد الحرام میں اکیلے بیٹھے ہوئے تھے کہنے لگا سرداران قریش ، کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ میں محمد سے بات کروں اور ان کے سامنے کچھ تجاویز پیش کروں ، شاید وہ ان میں سے بعض کو قبول کرلے۔ وہ جو چاہے ہم اس کو دے دیں اور وہ ہمیں معاف کردے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت حمزہ اسلام لے آئے تھے۔ اور سرداران قریش نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں میں تو اضافہ ہورہا ہے۔ وہ تو زیادہ ہورہے ہیں بلکہ لوگ کثرت سے ان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اہل مجلس نے کہا ابوالولید یہ تو اچھی بات ہے۔ آپ اٹھیں اور اس سے بات کریں۔ عتبہ اٹھا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا ، یہ رسول اللہ ؐ کے بیٹھا اور کہا ، بھتیجے ! تو ہم میں خاندانی مقام و مرتبہ کے اعتبار اور جاہ نسب کے لحاظ سے ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ تو نے اپنی قوم کو ایک بہت بڑی مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ قوم کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا ہے ۔ تو نے ان کے نظریاتے اور عقائد کی تضحیک بھی کی۔ ان کے دین اور الہوں پت نکتہ چینی کی۔ پھر تو نے ان آباواجداد کی تکفیر کی جو چلے گئے ہیں۔ لہٰذا اب میری کچھ تجاویز سنو ، ان پر غور کرو۔ اگر تم ان میں سے بعض تجاویز کو قبول کروتو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابوالولید آپ کہیں میں سنتا ہوں۔ تو اس نے کہا :” بھتیجے تم نے جو تحریک چلا رکھی ہے اگر اس سے تمہاری غرض مال و دولت جمع کرنا ہے تو ہم تمہارے لیے مال و دولت کی بڑی مقدار جمع کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ تم سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤ گے ، اگر تم اقتدار چاہتے ہو تو ہم تمہیں ایسے اختیارات کے ساتھ سردار بناتے ہیں کہ تمہاری مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہ ہوسکے گا۔ اور اگر سرداری سے بھی آگے تم بادشاہ بننا چاہتے ہو تو ہم بادشاہ بنادیتے ہیں۔ اور اگر یہ صورت ہے کہ جو تم پر آتا ہے وہ کوئی بیماری ہے جسے تم اپنے آپ سے دور نہیں کرسکتے ہو تو ہم تمہارے لیے بڑے بڑے طبیب لاتے ہیں اور اس میں بہت کچھ خرچ کرنے لے لیے تیار ہیں یہاں تک کہ تم تندرست ہوجاؤ۔ کیونکہ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے پیچھے لگنے والا اس پر غالب ہوجاتا ہے اور اسے اس کا علاج کرانا پڑتا ہے۔ یہ تھی عتبہ کی تقریر جو اس نے کی۔ جب عتبہ فارغ ہوا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی باتیں غور سے سن رہے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آپ کی بات ختم ہوگئی تو اس نے کہا ” ہاں “۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سنئے میری بات ، تو اس نے بھی کہا بات کیجئے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حٰم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یسمعون (41: 1 تا 4) ” ح م ، یہ خدائے رحمٰن ورحیم کی طرف سے نازل کردہ چیز ہے ، ایک ایسی کتاب جس کی آیات کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں ، عربی زبان کا قرآن ، ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ بشارت دینے والا اور ڈرادینے والا ہے۔ مگر ان لوگوں میں سے اکثر نے اس سے روگردانی کی اور وہ سب کر نہیں دیتے “ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سورت اس کے سامنے پڑھتے رہے۔ عتبہ نے سنا تو وہ خاموش رہا اور اپنے ہاتھ اپنی پیٹھ کے پیچھے لگا کر ان پر ٹیک لی اور سنتا رہا یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدے کے مقام تک آئے ، تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدہ فرمایا۔ اس کے بعد فرمایا : ابوالولید تم نے سن لیا۔ اب تم جانو اور تمہارا کام۔ عتبہ اٹھا اور اپنے ساتھیوں کی طرف گیا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا ، ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ابوالولید کا چہرہ وہ نہیں ہے جس کے ساتھ وہ گیا تھا۔ جب وہ ان کے پاس بیٹھا ، تو انہوں نے پوچھا ابوالولید کیا خبر لائے ہو۔ تو اس نے کہا خبریہ ہے کہ خدا کی قسم میں نے ایک ایسا کلام سنا ہے ، اپنی زندگی میں ، میں نے ایسا کلام ہرگز نہیں سنا۔ خدا کی قسم یہ جادو نہیں ہے ، یہ شعر نہیں ہے ، یہ کہانت نہیں ہے۔ اے برادران قریش میری بات مانو اور یہ معاملہ میرے حوالے کردو ، اس شخص کو چھوڑ دو وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے ، اسے کرنے دو ، اسے اپنے حال پر چھوڑ دو ، خدا کی قسم وہ جو کچھ کہتا ہے ، آئندہ اس کی بڑی اہمیت ہوگی۔ اگر دوسری عرب اقوام نے اسے کچل دیا تو وہ تمہاری مصیبت کو ختم کردیں گے تمہارے بغیر ہی۔ اور اگر یہ شخص عربوں پر غالب آگیا تو اس کی بادشاہی تمہاری بادشاہی ہوگی۔ اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی اور تم اس کے ذریعہ خوشحال ترین لوگ ہوجاؤ گے تو انہوں نے کہا ” خدا کی قسم ، ابوالولیدتم پر اس نے اپنی باتوں سے جادو کردیا ۔ اس پر اس نے کہا کہ میری رائے تو یہی ہے ، تم جو چاہو ، کرو “۔ علامہ بغوی نے اپنی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی ہے (محمدابن فضل سے ، انہوں نے اجلح سے) یہ اجلح ابن عبداللہ الکندی الکوتی ہیں۔ (اس آدمی کے بارے میں ابن کثیر نے کہا یہ کسی قدر ضعیف ہے) اس نے زیال ابن حرملہ سے انہوں نے حضرت جابر ابن عبداللہ (رض) سے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت تک آئے۔ فان اعرضوا۔۔۔۔ وثمود (41: 13) توعتبہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور صلہ رحمی کا واسطہ دیا۔ اور یہ عتبہ اپنے گھر چلا گیا اور پھر قریش کی محفل میں نہ آیا اور اپنے آپ کو ان سے دور رہنے کے لیے گھر میں بند کرلیا۔ اس ڈراوے کے اثرات کی ایک صورت آپ نے دیکھی کہ حصور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے ایک غیر مسلم نے اسے سنا اور وہ کانپ اٹھا۔ اس حدیث پر غور ابھی ختم نہیں ہوا ، ذرا رکئے ، رسول اللہ کی تصویر دیکھئے ، اس عظیم انسان کے آداب گفتگو دیکھئے۔ آپ کے اطمینان قلبی کو دیکھئے ، آپ نے بڑے اطمینان سے عتبہ کے منہ سے نہایت گری ہوئی باتیں سنیں جن کی آپ کے نزدیک کوئی وقعت نہیں ہے۔ لیکن آپ کا دل اپنے عظیم مقصد کو چھوڑ کر نیچے نہیں آتا ۔ یہ چھوٹی چھوٹی پیش کشیں آپ کو گندی تجاویز محسوس ہوتی ہیں جن سے آپ کا نفس نفرت کرتا ہے لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی حلم کے ساتھ ان کو سنتے ہیں۔ شریفانہ انداز میں سنتے ہیں۔ آپ مطمئن ، ٹھہرے ہوئے ، سنجیدہ اور محبت کرنے والے کی طرف سنتے ہیں۔ آپ صبر سے عقبہ کو یہ گری ہوئی تجاویز پیش کرنے دیتے ہیں۔ جب وہ بات ختم کرتا ہے تو پھر بھی جلدی نہیں کرتے نہایت ہی اطمینان کے ساتھ پوچھتے ہیں اور کے ساتھ۔” ابوالولید تم فارغ ہوگئے “ ؟ وہ کہتا ہے ہاں ۔ تو آپ فرماتے ہیں اچھا اب میری بات سنو۔ اور آپ اس وقت تک نہیں شروع کرتے جب تک وہ کہہ نہیں دیتا کہ سنایئے۔ جب حضور نہایت اطمینان ، اعتماد اور بھرپور انداز میں شروع کرتے ہیں۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ ایسی تصویر ہے جسے دیکھتے ہی دل میں ہیبت واحترام کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اعتماد و محبت پیدا ہوتی ہے۔ اور اطمینان ہوجاتا ہے کہ آپ ایک عظیم شخصیت ہیں ، یہی وجہ ہے کہ آپ کے سامعین پر آپ چھا جاتے تھے ، جو بھی آپ کی طرف آتا وہ مسحور ہوکر لوٹتا یا مبہوت ہوجاتا۔ اللہ نے سچ کہا کہ اللہ جانتا ہے کہ وہ منصب رسالت کس کے سپرد کرتا ہے۔۔۔۔ اب ہم اس واقعہ کو چھوڑ کرنص قرآنی کی طرف آتے ہیں۔ فان اعرضوا۔۔۔۔ وثمود (41: 13) اگر یہ منہ موڑیں تو ان سے کہہ دیں کہ میں تم کو اسی کے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا کہ عاد وثمود پر نازل ہوا تھا “۔ یہ ایک سفر ہے گزری ہوائی اقوام کے کھنڈرات کی سیر کے لیے۔ جبکہ اس سے قبل قرآن نے ہمیں آسمانوں کی وسعتوں کی سیر کرائی۔ یہ ایک ایسی سیر ہے جو خوف کے مارے دلوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے کہ کیسی کیسی اقوام کو اللہ نے تباہ کیا جو اس جہاں میں اپنے خیال کے مطابق بڑے بنے ہوئے تھے۔ اذجآءتھم۔۔۔۔ الا اللہ (41: 14) ” جب خدا کے رسول انکے پاس آگے اور پیچھے ، ہر طرف سے آئے اور انہیں سمجھایا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو “۔ یہ وہی ایک کلمہ ہے جسے انبیاء ورسل نے پیش کیا اور جس پر تمام ادیان حقہ کی عمارت تعمیر ہوئی۔ قالوالوشآء۔۔۔۔۔ کٰفرون (41: 14) ” تو انہوں نے کہا ، ہمارا رب چاہتا تو فرشتے بھیجتا لہٰذا ہم اس بات کو نہیں مانتے ، جس کے لیے تم بھیجے گئے ہو “۔ یہ بھی وہی اعتراض ہے جس کا سامنا تمام انبیاء ورسل نے کیا۔ حالانکہ انسانوں سے خطاب کرنے والے رسول کو انسان ہی تو ہونا چاہئے ، جو ان کو جانتا ہو ، اور جسے وہ جانتے ہوں ، جس کے اندر لیڈر شپ کے حقیقی اوصاف وہ پائے جاتے ہوں۔ وہ انہی مشکلات میں رہتا ہو ، جس میں وہ رہتے ہوں ، لیکن عاد اور ثمود نے اپنے رسولوں کی دعوت کا انکار کردیا۔ اور اس لیے کردیا کہ وہ بشر کیوں ہیں۔ ان کی تجویز کے مطابق ملائکہ کیوں نہیں۔ یہاں تک تو عاد وثمود دونوں کی بات ایک تھی کہ دونوں پر عذاب ایک سخت کڑک دار آواز یا دھماکے سے آیا تھا۔ اب یہاں سے آگے ان کی ہلاکت کی تفصیلات الگ تھیں۔ اس لیے الگ الگ بیان کیا گیا۔ فاماعاد۔۔۔۔۔ مناقوۃ (41: 15) ” عاد کا حال یہ تھا کہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے :” کون ہے ہم سے زیادہ زور آور “۔ حق تو یہ ہے کہ انسان اللہ کے سامنے جھکے اور زمین میں استکبار نہ کرے۔ پھر انسان ذار اللہ کی عظیم خلقت کے مقابلے میں اپنے آپ کو دیکھے ۔ ، لہٰذا اس کرۂ ارض پر اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنا کسی استحقاق کے بغیر ہی ہوتا ہے۔ پھر استکبار کے بعد اظہار غروز بہت بڑا جرم ہے کہ ہمچو مادیگرے نیست۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حق سے اعراض کرنے والوں کو تنبیہ اور تہدید عاد وثمود کی بربادی کا تذکرہ ان آیات میں قرآن کریم کے مخاطبین کو تنبیہ فرمائی ہے کہ تمہارے سامنے واضح طور پر دلائل آچکے ہیں نشانیاں دیکھ چکے ہو ان سب کے باوجود پھر بھی اعراض کرتے ہو ایمان نہیں لاتے لہٰذا سمجھ لو کہ عذاب آجائے گا تم سے پہلے ایسی امتیں گزری ہ... یں جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا پھر ان کو عذاب نے آدبایا، عاد وثمود دو قومیں گزر چکی ہیں انہوں نے اپنے اپنے رسول کی تکذیب کی پھر مبتلائے عذب ہوئے اور ہلاک ہوئے ان پر جو عذاب کی مصیبت آئی میں تمہیں اس جیسی آفت سے ڈراتا ہوں، اللہ تعالیٰ کے پیغمبر (علیہ السلام) ان کے پاس آئے انہوں نے ان کو توحید کی دعوت دی کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہ لوگ دلیل سے دین توحید کی تردید نہ کرسکے اور حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی شخصیات پر اعتراض کرنے لگے، کہنے لگے کہ تم تو آدمی ہو جیسے ہم ویسے تم اگر اللہ تعالیٰ کو رسول بھیجنے ہی تھے تو کیا اس کے لیے تم ہی رہ گئے ہو اگر وہ چاہتا تو فرشتوں کو رسول بنا کر بھیج دیتا تم جو یہ کہتے ہو کہ ہم اللہ کے پیغمبر ہیں اور ایسے ایسے احکام لے کر آئے ہیں اور توحید کی دعوت ہمارا کام ہے ہم ان سب باتوں کے منکر ہیں۔ یہ تو دونوں قوموں کی مشترکہ باتیں تھیں اب الگ الگ بھی ان کا حال سنیں قوم عاد بڑے ڈیل ڈول والے تھے انہیں اپنی قوت اور طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا اس کی وجہ سے انہوں نے تکبر کی راہ اختیار کی اور بڑے غرور کے ساتھ کہنے لگے کہ (مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً ) (کہ وہ کون ہے جو طاقت میں ہم سے بڑھ کر ہے) انسان کے بےوقوفی دیکھو کہ وہ دنیا میں اموال و اولاد اور قوت اور طاقت پر گھمنڈ کرلیتا ہے اور تکبر میں آکر بڑی بڑی باتیں کہہ جاتا ہے فرض کرو موجودہ مخلوق میں کوئی بھی مقابل نہ ہو تو جس نے پیدا فرمایا اس کی قوت تو بہرحال سب سے زیادہ ہے اور بہت زیادہ ہے ان لوگوں نے اپنے خالق تعالیٰ شانہٗ پر نظر نہ کی اور تکبر کی بات کہہ دی ان کی اس بیوقوفی کو ظاہر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَہُمْ ھُوَ اَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّۃً ) (کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ طاقت کے اعتبار سے بہت زیادہ ہے جس نے انہیں پیدا فرمایا۔ ) (وَّکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ ) (اور یہ لوگ ہماری آیات کا انکار کرتے تھے) واضح دلائل دیکھتے ہوئے اور جانتے بوجھتے انہوں نے حق سے منہ موڑا اور اس کے قبول کرنے سے انکار کیا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ ” فان اعرضوا “ یہ پہلی عقلی دلیل کے بعد زجر اور تخوید دنیوی ہے۔ اگر وہ توحید سے اعراض کرتے ہیں تو آپ فرما دیں، اچھا قوم عاد وثمود کا حال سنو، اعراض وجحود کی وجہ سے ان کا کیا حشر ہوا۔ اعراض و انکار اور جحود وعناد پر قائم رہو گے تو میں تمہیں اسی قسم کے ہولناک عذاب سے ڈراتا ہوں۔ جس طرح کا عذاب عاد...  وثمود پر نازل ہو۔ ای انذرک عذاب مثل عذابہم قال قتادۃ (روح ج 24 ص 109) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(13) پھر اگر یہ کفار مکہ اس پر بھی روگردانی کریں اور منہ پھیریں اور ٹلائیں تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تم کو ایسے کڑاکے سے اور ایسے عذاب سے اور ایسی آفت سے ڈراتا ہوں کڑاکا عاد اور ثمود پر آچکا ہے۔ یعنی باوجود ان دلائل کے بھی اگر یہ توحید قبول نہ کریں تو کہہ دیجئے کہ میں تم کو ایک ایسے ہولناک عذاب س... ے ڈراتا ہوں جیسا ہولناک عذاب عادو ثمود پر نازل ہوا تھا۔  Show more