Commentary The basic purpose of these verses is to warn the people of Makkah that if, even after seeing the manifest proofs of the Oneness of Allah, they do not accept the call of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، they may face a punishment like the earlier people of ` Ad and Thamud had faced. In this context, a brief account of what happened to these people has been given. The people o... f Makkah are also reminded that their punishment on the Day of Judgment will be much more severe, and they will not be able to escape it, because even the organs of their body will testify against them. And in this context, some events of that Day are mentioned. Show more
خلاصہ تفسیر پھر (دلائل توحید سن کر بھی) اگر یہ لوگ (توحید سے) اعراض کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تم کو ایسی آفت سے ڈراتا ہوں جیسی عاد وثمود پر (شرک و کفر کی وجہ سے) آفت آئی تھی (مراد عذاب سے ہلاک کرنا ہے) جیسا کہ قریش مکہ کے سردار غزوہ بدر میں ہلاک اور قید کئے گئے، اور یہ قصہ عاد وثمود کا اس وقت ہو... ا تھا) جبکہ ان کے پاس ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی پیغمبر آئے (یعنی جو پیغمبر ان کی طرف بھیجے گئے اور ان کے سمجھانے میں جان توڑ کوشش کی گئی۔ جیسے کوئی شخص اپنے کسی عزیز کو کسی مصیبت و ہلاکت کی طرف جاتے دیکھے تو وہ کبھی آگے سے آ کر اسے روکتا ہے، کبھی پیچھے سے پکڑتا ہے۔ اور اس کی مثال قرآن میں ابلیس کا یہ قول ہے کہ اس نے کہا تھا لاتینھم من بین ایدیہم ومن خلفہم۔ یعنی میں بنی آدم کو گمراہ کرنے ان کے آگے سے بھی آؤں گا ان کے پیچھے سے بھی، اور ان پیغمبروں نے یہی کہا کہ) بجز اللہ کے اور کسی کی عبادت نہ کرو، انہوں نے جواب دیا کہ (تم جو اللہ کی طرف سے آنے کا اور توحید کی طرف بلانے کا دعویٰ کرتے ہو یہی غلط ہے کیونکہ) اگر ہمارے پروردگار کو (یہ) منظور ہوتا (کہ کسی کو پیغمبر بنا کر بھیجے) تو فرشتوں کو بھیجتا اس لئے ہم اس (توحید) سے بھی منکر ہیں جس کو دے کر (تمہارے دعویٰ کے مطابق) تم (پیغمبری کے طور پر) بھیجے گئے ہو پھر (اس مشرک قول کے بعد ہر قوم کے خاص کی تفصیل یہ ہے کہ) وہ جو عاد کے لوگ تھے وہ دنیا میں ناحق تکبر کرنے لگے اور (جب عذاب کی وعید سنی تو) کہنے لگے وہ کون ہے جو قوت میں ہم سے زیادہ ہے (کہ وہ ہمیں ایسے عذاب میں مبتلا کرسکے اور ہم اس کے دفع کرنے پر قادر نہ ہوں، آگے جواب ہے کہ) کیا ان لوگوں کو یہ نظر نہ آیا کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے وہ قوت میں ان سے بہت زیادہ ہے (مگر باوجود اس کے بھی وہ ایمان نہ لائے) اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے تو ہم نے ان پر ایک سخت ہوا ایسے دنوں میں بھیجی جو (بوجہ نزول عذاب الٰہی کے ان کے حق میں) منحوس تھے تاکہ ہم ان کو اس دنیوی زندگی میں رسوائی کا مزہ چکھا دیں اور آخرت کا عذاب اور بھی زیادہ رسوائی کا سبب ہے اور (اس عذاب کے وقت کسی طرف سے بھی) ان کو مدد نہ پہنچے گی۔ اور وہ جو ثمود تھے تو (ان کی کیفیت یہ ہوئی کہ) ہم نے ان کو (پیغمبر کے ذریعہ) رستہ بتلایا، انہوں نے گمراہی کو ہدایت کے مقابلہ میں پسند کیا تو ان کو سراپا ذلت کے عذاب کی آفت نے پکڑ لیا ان کی بدکرداریوں کی وجہ سے اور ہم نے (اس عذاب سے) ان لوگوں کو نجات دی جو ایمان لائے اور ہم سے ڈرتے تھے۔ (یہاں تک عذاب دنیوی کا ذکر تھا آگے عذاب آخرت کا ذکر ہے) اور (ان کو وہ دن بھی یاد دلائے) جس دن اللہ کے دشمن (یعنی کفار) دوزخ کی طرف جمع کرنے کے لئے (موقف حساب میں) لائے جاویں گے پھر (راستہ میں ان کی کثرت کے سبب منتشر ہونے سے بچانے اور مجتمع رہنے کے لئے) وہ روکے جاویں گے (تا کہ پیچھے رہنے والے ساتھ ہوجاویں جیسا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے واقعہ میں تمام جنود اور لشکروں کو جمع کرنے کے لئے فھم یوزعون فرمایا یعنی ان کو روکا جاوے گا) یہاں تک کہ جب وہ (سب جمع ہو کر) اس (دوزخ) کے قریب آ جاویں گے (مراد موقف حساب ہے جہاں سے دوزخ قریب ہی نظر آوے گا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ دوزخ کو موقف حساب میں حاضر کریں گے اور یہ کافر اپنے چاروں طرف آگ ہی آگ دیکھے گا۔ غرض یہ کہ جب موقف حساب میں آ جاویں گے اور حساب شروع ہوگا) تو ان کے کان اور آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے خلاف ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔ اور (اس وقت) وہ لوگ (تعجب کے ساتھ) اپنے اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی (ہم تو دنیا میں سب کچھ تمہاری ہی راحت کے لئے کرتے تھے جیسا کہ حدیث میں حضرت انس کی روایت سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ فعنکن کنت اناضل رواہ مسلم۔ یعنی میں تمہارے ہی لئے سب کوشش کیا کرتا تھا) وہ (اعضاء) جواب دیں گے کہ ہم کو اس (قادر مطلق) نے گویائی دی جس نے ہر (گویا) چیز کو گویائی دی (جس سے ہم نے اپنے اندر خود اس کی قدرت کا مشاہدہ کرلیا) اور اسی نے تم کو اول بار پیدا کیا تھا اور اسی کے پاس پھر (دوبارہ زندہ کر کے) لائے گئے ہو (تو ہم ایسے عظمت والے وقدرت والے کے پوچھنے پر حق بات کو کیسے چھپا سکتے ہیں اس لئے گواہی دے دی) اور (آگے حق تعالیٰ ان منکروں کو خطاب فرماویں گے کہ) تم (دنیا میں) اس بات سے تو اپنے کو (کسی طرح) چھپا (اور بچا) ہی نہ سکتے تھے کہ تمہارے کان اور آنکھیں اور کھالیں تمہارے خلاف میں گواہی دیں (کیونکہ حق تعالیٰ کی قدرت مطلقہ اور علم محیط واقع میں ثابت ہے جس کا مقتضا یہ تھا کہ برے اعمال سے بچتے) لیکن تم (اس لئے نہ بچے کہ) اس گمان میں رہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے بہت سے اعمال کی خبر بھی نہیں اور تمہارے اسی گمان نے جو کہ تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا تم کو برباد کیا (کیونکہ اس گمان سے اعمال کفریہ کے مرتکب ہوئے اور وہ موجب بربادی ہوئے) پھر تم (ابدی) خسارہ میں پڑگئے سو (اس حالت میں) اگر یہ لوگ (اس بربادی و خسارہ پر) صبر کریں (اور تن بتقدیر رہ کر عذر معذرت کچھ نہ کریں) تب بھی دوزخ ہی ان کا ٹھکانہ ہے (یہ نہیں کہ ان کا صبر موجب رحم ہوجاوے جیسا کہ دنیا میں اکثر ہوجاتا تھا) اور اگر وہ عذر کرنا چاہیں گے تو بھی مقبول نہ ہوگا اور ہم نے (دنیا میں) ان (کفار) کے لئے کچھ ساتھ رہنے والے (شیاطین) مقرر کر رکھے تھے سو انہوں نے ان کے اگلے پچھلے اعمال ان کی نظر میں مستحسن کر رکھے تھے (اس لئے ان پر مصر تھے) اور (کفر پر اصرار کرنے کی وجہ سے) ان کے حق میں بھی ان لوگوں کے ساتھ اللہ کا قول (یعنی وعدہ عذاب) پورا ہو کر رہا جو ان سے پہلے جن اور انسان (کفار) ہو گزرے ہیں، بیشک وہ بھی خسارے میں رہے۔ Show more