Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 21

سورة حم السجدہ

وَ قَالُوۡا لِجُلُوۡدِہِمۡ لِمَ شَہِدۡتُّمۡ عَلَیۡنَا ؕ قَالُوۡۤا اَنۡطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡطَقَ کُلَّ شَیۡءٍ وَّ ہُوَ خَلَقَکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۲۱﴾

And they will say to their skins, "Why have you testified against us?" They will say, "We were made to speak by Allah , who has made everything speak; and He created you the first time, and to Him you are returned.

یہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی وہ جواب دیں گی کہ ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی عطا فرمائی جس نے ہرچیز کو بولنے کی طاقت بخشی ہے ، اسی نے تمہیں اول مرتبہ پیدا کیا اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدتُّمْ عَلَيْنَا ... And they will say to their skins, "Why do you testify against us?" they will blame their limbs and their skins when they testify against them, at which point their limbs will answer: ... قَالُوا أَنطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ... They will say: "Allah has caused us to spea... k -- as He causes all things to speak, and He created you the first time, means, and He cannot be opposed or resisted, ... وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ and to Him you are made to return." i.e. and to Him you will return. Al-Hafiz Abu Bakr Al-Bazzar narrated that Anas bin Malik, may Allah be pleased with him, said, "The Messenger of Allah laughed and smiled one day, and said: Will you not ask about why I laughed" They said, "O Messenger of Allah, why did you laugh" He said: عَجِبْتُ مِنْ مُجَادَلَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ أَيْ رَبِّي أَلَيْسَ وَعَدْتَنِي أَنْ لاَ تَظْلِمَنِي قَالَ بَلَى فَيَقُولُ فَإِنِّي لاَ أَقْبَلُ عَلَيَّ شَاهِدًا إِلاَّ مِنْ نَفْسِي فَيَقُولُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَوَلَيْسَ كَفَى بِي شَهِيدًا وَبِالْمَلَيِكَةِ الْكِرَام الْكَاتِبِينَ قال فَيُرَدِّدُ هذَا الْكَلَمَ مِرَارًا قال فَيُخْتَمُ عَلى فِيهِ وَتَتَكَلَّمُ أَرْكَانُهُ بِمَا كَانَ يَعْمَلُ فَيَقُولُ بُعْدًا لَكُنَّ وَسُحْقًا عَنْكُنَّ كُنْتُ أُجَادِل I was amazed at how a servant will dispute with his Lord on the Day of Resurrection. He will say, "My Lord, did You not promise me that you would not treat me unjustly?" Allah will say, "Yes." The man will say, "I will not accept any witness against me except from myself." Allah will say, "Is it not sufficient that I and the angels, the noble scribes, are witnesses?" These words will be repeated several times, then a seal will be placed over his mouth and his organs (or limbs) will speak about what he used to do. Then he will say, "Away with you! It was only for your sake that I was arguing!"" It was recorded by him and Ibn Abi Hatim. It was also recorded by Muslim and An-Nasa'i. Ibn Abi Hatim recorded that Abu Burdah said that Abu Musa said, "The disbeliever or the hypocrite will be called to account and his Lord will show him his deeds, but he will deny them and say, `O Lord, by Your glory, this angel has written about me something that I did not do.' The angel will say to him, `Did you not do such and such on such and such a day in such and such a place?' He will say, `No, by Your glory O Lord, I did not do it.' When he does that, a seal will be placed over his mouth." Al-Ash`ari, may Allah be pleased with him, said, "I think that the first part of his body to speak will be his right thigh." Allah's saying:   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی جب مشرکین اور کفار دیکھیں گے کہ خود ان کے اپنے اعضا ان کے خلاف گواہی دے رہے ہیں، تو ازراہ تعجب یا بطور عتاب اور ناراضگی کے، ان سے کہیں گے۔ 21۔ 1 بعض کے نزدیک وہو سے اللہ کا کلام مراد ہے اس لحاظ سے یہ جملہ مستانفہ ہے اور بعض کے نزدیک جلود انسانی ہی کا اس اعتبار سے یہ انہی کے کلام کا تتمہ...  ہے قیامت والے دن انسانی اعضاء کے گواہی دینے کا ذکر اس سے قبل (وَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ ) 24 ۔ النور :42) (اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ) 65) میں بھی گزر چکا ہے اور صحیح احادیث میں بھی اسے بیان کیا گیا ہے مثلا جب اللہ کے حکم سے انسانی اعضا بول کر بتلائیں گے تو بندہ کہے گا بعدا لکن وسحقا فعنکن کنت اناضل ( صحیح مسلم، کتاب الزہد) تمہارے لیے ہلاکت اور دوری ہو میں تو تمہاری ہی خاطر چھگڑ رہا اور مدافعت کر رہا تھا اسی روایت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ بندہ کہے گا کہ میں اپنے نفس کے سوا کسی کی گواہی نہیں مانوں گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں اور میرے فرشتے کراما کاتبین گواہی کے لیے کافی نہیں پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضاء کو بولنے کا حکم دیا جائے گا (حوالہ مذکورہ)   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] گویائی کے اعضاء اور ان کی ساخت :۔ زبان بھی ویسے ہی گوشت اور پٹھوں کا ایک ٹکڑا ہے جیسے دوسرے اعضاء ہیں۔ اور قوت گویائی میں صرف زبان ہی کام نہیں کرتی۔ بلکہ گلے کی رگیں، جن کی وجہ سے کسی کی آواز سریلی ہوتی ہے کسی کی کرخت، پھر ہونٹ اور تالو وغیرہ سب استعمال میں آتے ہیں۔ تب جاکر انسان بولتا ہے۔ جسم...  کے اعضاء کا مواد ایک جیسا ہے صرف ساخت کا فرق ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان اعضاء کی ایسی ساخت بنائی ہے جس سے کوئی جاکر بولنے کے قابل ہوجاتا ہے تو جو ہستی ان اعضاء کی ساخت اور بالخصوص پہلی بار کی ساخت پر قادر ہے اس کے لیے بوقت ضرورت کسی دوسرے عضو کی ساخت میں ایسی تبدیلی کردینا کیا مشکل ہے جس سے وہ بولنے لگے۔ اس طرح جب مجرموں کے دوران جرم مستعمل اعضاء ہی ان کے خلاف گواہی دے دیں گے تو پھر ان کے لیے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ جائے گی۔ اس طرح علی رؤس الاشہاد ان کا فیصلہ کرکے انہیں سزا دی جائے گی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وقالوا لجلودھم لم شھدثم علینا : اپنے چمڑوں سے یہ بات وہ پوچھنے کے لئے نہیں بلکہ تعجب کے اظہار اور ملامت کے لئے کہیں گے کہ تمہی کو بچانے کے لئے تو ہم اللہ تعالیٰ سے جھوٹ بول رہے تھے اور تمہی ہمارے خلاف شہادت دے رہے ہو۔ (٢) قالوا انطفنا اللہ الذی انطق کل شیء : اعضا ان کے تعجب اور ملامت دونوں کا جو... اب دیں گے۔ تعجب کا جواب تو یہ دیں گے کہ ہمارا بولناک کوئی تعجب کی بات نہیں، زبان بولتی تھی تو اللہ کے حکم سے اور اس کے گویائی عطا کرنے سے بولتی تھی ، اسی طرح ہر بولنے والی چیز اسی کے حکم سے بولتی ہے، تو اب اس نے ہمیں بلوا دیا تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے ؟ (٣) وھو خلقکم اول مرۃ والیہ ترجعون : یہ چمڑوں کا کلام بھی ہوسکتا ہے اور آخرت کے منکروں سے اللہ تعالیٰ کا خطاب بھی ہوسکتا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا لِجُلُوْدِہِمْ لِمَ شَہِدْتُّمْ عَلَيْنَا۝ ٠ ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللہُ الَّذِيْٓ اَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَّہُوَخَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝ ٢١ جلد الجِلْد : قشر البدن، وجمعه جُلُود . قال اللہ تعالی: كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها [...  النساء/ 56] ، وقوله تعالی: اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 23] . والجُلُود عبارة عن الأبدان، والقلوب عن النفوس . وقوله عزّ وجل : حَتَّى إِذا ما جاؤُها شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِما کانُوا يَعْمَلُونَ [ فصلت/ 20] ، وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت/ 21] ، فقد قيل : الجلود هاهنا کناية عن الفروج «2» ، وجلَدَهُ : ضرب جلده، نحو : بطنه وظهره، أو ضربه بالجلد، نحو : عصاه إذا ضربه بالعصا، وقال تعالی: فَاجْلِدُوهُمْ ثَمانِينَ جَلْدَةً [ النور/ 4] . والجَلَد : الجلد المنزوع عن الحوار، وقد جَلُدَ جَلَداً فهو جَلْدٌ وجَلِيد، أي : قويّ ، وأصله لاکتساب الجلد قوّة، ويقال : ما له معقول ولا مَجْلُود أي : عقل وجَلَد . وأرض جَلْدَة تشبيها بذلک، وکذا ناقة جلدة، وجَلَّدْتُ كذا، أي : جعلت له جلدا . وفرس مُجَلَّد : لا يفزع من الضرب، وإنما هو تشبيه بالمجلّد الذي لا يلحقه من الضرب ألم، والجَلِيد : الصقیع، تشبيها بالجلد في الصلابة . ( ج ل د ) الجلد کے معنی بدن کی کھال کے ہیں اس کی جمع جلود آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها [ النساء/ 56] جب ان کی کھالیں گل ( اور جل ) جائیں گی تو ہم اور کھالیں بدل دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 23] اور خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں ( یعنی ) کتاب ) جس کی آیتیں باہم ) ملتی جلتی ( ہیں ) اور دہرائی جاتی رہیں ) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے اس سے رونکتے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ پھر ان کے بدن اور دل نرم ( ہوکر ) کی یاد کی طرف ( متوجہ ) ہوجاتے ہیں ۔ میں جلود سے مراد ابدان اور قلوب سے مراد نفوس ہیں اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذا ما جاؤُها شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِما کانُوا يَعْمَلُونَ [ فصلت/ 20] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو ان کان اور آنکھیں اور چمڑے ( یعنی دوسرے اعضا ) ان کے خلاف ان کے اعمال کی شہادت دیں گے اور وہ اپنے چمڑوں ( یعنی اعظا ) سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں کیوں شہادت دی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ جلود سے فروج یعنی شرمگاہ ہیں مراد ہیں ۔ جلدۃ ( ض ) کیس کے چمڑے پر مارنا ۔ جیسے اور اس کے دوسرے معنی درے لگانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے عصاہ ( یعنی لاٹھی کے ساتھ مارنا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمانِينَ جَلْدَةً [ النور/ 4] تو ان کے اسی اور سے مارو ۔ الجلد والجلد اونٹنی کے بچہ کی بھس بھری ہوئی کھال ۔ جلد ( ک ) جلدا کے معنی قوی ہونے کے ہیں صیغہ صفت جلدۃ وجلدۃ ہے اور اس کے اصل معنی اکتساب الجلدۃ قوۃ یعنی بدن میں قوت حاصل کرنے گے ہیں ۔ محاورہ ہے ؟ ۔ مالہ معقول ولا مجلود اس میں نہ عقل ہے نہ قوت ۔ اور تشبیہ کے طور پر سخت کو اوض جلدۃ کہا جاتا ہے اس طرح قوی اونٹنی کو ناقۃ جلدۃ کہتے ہیں ۔ جلذت کذا میں نے اس کی جلد باندھی ۔ فرس مجلہ مار سے نہ ڈرونے والا گھوڑا یہ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے کیونکہ مجلد اس شخص کو کہتے ہیں جسے مارنے سے دور نہ ہو الجلید پالا یخ گویا صلابت میں چمڑے کے متشابہ ۔ شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے نطق [ النُّطْقُ في التّعارُف : الأصواتُ المُقَطّعة التي يُظْهِرُها اللسّانُ وتَعِيهَا الآذَانُ ] . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات/ 92] ولا يكاد يقال إلّا للإنسان، ولا يقال لغیره إلّا علی سبیل التَّبَع . نحو : النَّاطِقُ والصَّامِتُ ، فيراد بالناطق ما له صوت، وبالصامت ما ليس له صوت، [ ولا يقال للحیوانات ناطق إلّا مقيَّداً ، وعلی طریق التشبيه کقول الشاعر : 445- عَجِبْتُ لَهَا أَنَّى يَكُونُ غِنَاؤُهَا ... فَصِيحاً وَلَمْ تَفْغَرْ لِمَنْطِقِهَا فَماً ] «1» والمنطقيُّون يُسَمُّون القوَّةَ التي منها النّطقُ نُطْقاً ، وإِيَّاهَا عَنَوْا حيث حَدُّوا الإنسانَ ، فقالوا : هُوَ الحيُّ الناطقُ المَائِتُ «2» ، فالنّطقُ لفظٌ مشترکٌ عندهم بين القوَّة الإنسانيَّة التي يكون بها الکلامُ ، وبین الکلامِ المُبْرَزِ بالصَّوْت، وقد يقال النَّاطِقُ لما يدلُّ علی شيء، وعلی هذا قيل لحكيم : ما الناطقُ الصامتُ ؟ فقال : الدَّلائلُ المُخْبِرَةُ والعِبَرُ الواعظةُ. وقوله تعالی: لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء/ 65] إشارة إلى أنّهم ليسوا من جِنْس النَّاطِقِينَ ذوي العقول، وقوله : قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] فقد قيل : أراد الاعتبارَ ، فمعلومٌ أنَّ الأشياءَ كلّها ليستْ تَنْطِقُ إلّا من حيثُ العِبْرَةُ ، وقوله : عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] فإنه سَمَّى أصواتَ الطَّيْر نُطْقاً اعتباراً بسلیمان الذي کان يَفْهَمُهُ ، فمن فَهِمَ من شيء معنًى فذلک الشیء بالإضافة إليه نَاطِقٌ وإن کان صامتاً ، وبالإضافة إلى من لا يَفْهَمُ عنه صامتٌ وإن کان ناطقاً. وقوله : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية/ 29] فإن الکتابَ ناطقٌ لکن نُطْقُهُ تُدْرِكُهُ العَيْنُ كما أنّ الکلام کتابٌ لکن يُدْرِكُهُ السَّمْعُ. وقوله : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] فقد قيل : إن ذلك يكونُ بالصَّوْت المسموعِ ، وقیل : يكونُ بالاعتبار، واللهُ أعلمُ بما يكون في النَّشْأَةِ الآخرةِ. وقیل : حقیقةُ النُّطْقِ اللَّفْظُ الّذي هو كَالنِّطَاقِ للمعنی في ضَمِّهِ وحصْرِهِ. وَالمِنْطَقُ والمِنْطَقَةُ : ما يُشَدُّ به الوَسَطُ وقول الشاعر : 446- وَأَبْرَحُ مَا أَدَامَ اللَّهُ قَوْمِي ... بِحَمْدِ اللَّهِ مُنْتَطِقاً مُجِيداً «1» فقد قيل : مُنْتَطِقاً : جَانِباً. أي : قَائِداً فَرَساً لم يَرْكَبْهُ ، فإن لم يكن في هذا المعنی غيرُ هذا البیت فإنه يحتمل أن يكون أراد بِالمُنْتَطِقِ الذي شَدَّ النِّطَاقَ ، کقوله : مَنْ يَطُلْ ذَيْلُ أَبِيهِ يَنْتَطِقْ بِهِ «2» ، وقیل : معنی المُنْتَطِقِ المُجِيدِ : هو الذي يقول قولا فَيُجِيدُ فيه . ( ن ط ق ) عرف میں نطق ان اصات مقطعہ کو کیا جاتا ہے جو زبان سے نکلتی ہیں اور کان انہیں سنکر محفوظ کرلیتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات/ 92] تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں ۔ یہ لفط بالذات صرف انسان کے متعلق بولا جاتا ہے دوسرے حیوانات کے لئے بالتبع استعمال ہوات ہے جیسے المال الناطق والصامت کا محاورہ ہے جس میں ناطق سے حیوان اور صامت سے سونا چاندی مراد ہے ان کے علاوہ دیگر حیوانات پر ناطق کا لفظ مقید یا بطور تشبیہ استعمال ہوتا ہے جسیا کہ شاعر نے کہا ہے ( 430 ) عجبت لھا انی یکون غناؤ ھا فصیحا ولم تفعلو لنطقھا فما مجھے تعجب ہو ا کہ وہ کتنا فصیح گانا گاتی ہے حالانکہ اس نے گویائی کے لئے منہ نہیں کھولا ۔ اہل منطق قوت گو یائی کو نطق کہتے ہیں جب وہ انسان کی تعریف کرتے ہوئے الحی الناطق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں ناطق سے ان کی یہی مراد ہونی ہے ۔ معلوم ہوا کہ نطق کا لفظ مشترک ہے جو قوت نطیقہ اور کلام ملفوظ دونوں پر بولا جاتا ہے کبھی ناطق کے معنی الدال علی الشئی کے بھی آتے ہیں اسی بنا پر ایک حکیم جب پوچھا گیا کہ الناطق الصامت کسے کہتے ہیں تو اس نے جواب دیا لادلائل المخبرۃ والعبر ولوا عظۃ اور آیت کریمہ : ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء/ 65] کہ تم جانتے ہو یہ بولتے نہیں ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ کہ وہ ذوی النطق اور ذوی العقول کی جنس سے نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اس نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق اعتبار ی مراد ہے کیونکہ یہ بات بالکل بد یہی ہے کہ تمام چیزیں حقیقتا ناطق نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] ہمیں خدا کی طرف سے جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے میں پرندوں کی آواز کو محض حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لحاظ سے نطق کہا ہے ۔ کیونکہ وہ ان کی آوازوں کو سمجھتے تھے اور جو شخص کسی چیز سے کوئی معنی سمجھا ہو تو وہ چیزخواہ صامت ہی کیوں نہ ہو ۔ اس کے لحاظ سے تو ناطق کا حکم رکھتی ہے اور آیت کریمہ : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية/ 29] یہ ہماری کتاب تمہارے بارے میں سچ سچ بیان کردے گی ۔ میں کتاب کو ناطق کہا ہے لیکن اس کے نطق کا ادراک صرف آنکھ ہی کرسکتی ہے ۔ جیسا کہ کلام بھی ا یک کتاب ہے لیکن اس کا ادراک حاسہ سماعت سے ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] اور وہ اپنے چمڑوں یعنی اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی وہ کہیں گے جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اسی نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق صوقی مراد ہے ۔ اور بعض نے نطق اعتباری مراد لیا ہے ۔ اور عالم آخرت کی اصل حقیقت تو خدا ہی جانتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ نطق درحقیقت لفظ کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ معنی کو لپیٹنے اور محصور کرنے میں بمنزلہ نطاق کے ہوتا ہے ۔ المنطق والمنطقۃ کمر بند کو کہتے ہیں اور شاعر کے قول ۔ (431) وابرح ما ادام اللہ قومی بحمداللہ منتطقا مجیدا جب تک میری قوم زندہ ہے ۔ میں بحمداللہ عمدگی شاعر رہوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے منتطقا کے معنی جانبا کے ہیں یعنی میں گھوڑے کو آگے سے پکڑ کر کھینچتا رہوں گا اور اس پر سوار نہیں ہوں گا ہاں یہ اگر اس معنی میں کوئی دوسرا شعر نہ آیا تو یہاں منطق سے مراد وہ شخص بھی ہوسکتا ہے جس نے کمرپر نطاق باندھا ہوا ہو ۔ جیسا کہ مقولہ مشہو رہے ۔ ومن یطل ذیل ابیہ ینتطق بہ یعنی جس کے باپ کے فرزند زیادہ ہوں گے ۔ تو وہ ان کی وجہ سے طاقت ور اور توانا ہوجائے گا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ منتطق کے معنی عمدگو کے ہیں ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے مَرَّةً مَرَّةً ومرّتين، كفَعْلَة وفَعْلَتين، وذلک لجزء من الزمان . قال : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال/ 56] ، وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 13] ، إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] ، إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 83] ، سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة/ 101] ، وقوله : ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور/ 58] . مرۃ ( فعلۃ ) ایک بار مرتان ض ( تثنیہ ) دو بار قرآن میں ہے : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال/ 56] پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 13] اور انہوں نے تم سے پہلی بار ( عہد شکنی کی ) ابتداء کی ۔إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] اگر آپ ان کے لئے ستربار بخشیں طلب فرمائیں ۔ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 83] تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر رضامند ہوگئے ۔ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة/ 101] ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے ۔ ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور/ 58] تین دفعہ ( یعنی تین اوقات ہیں ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تو وہ لوگ اپنے اعضاء یا یہ کہ اپنی شرمگاہوں سے کہیں گے کہ تم نے ہماری خلاف کیوں گواہی دی جبکہ ہم تمہارے ذریعے لڑائی جھگڑے روکا کرتے تھے وہ جواب دیں گے کہ ہمیں اس قادر مطلق نے بولنے کی طاقت دی تھی اور اسی کے پاس مرنے کے بعد تم لائے گئے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ { وَقَالُوْا لِجُلُوْدِہِمْ لِمَ شَہِدْتُّمْ عَلَیْنَا } ” اور وہ کہیں گے اپنی کھالوں سے کہ تم نے کیوں ہمارے خلاف گواہی دی ؟ “ { قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْئٍ } ” وہ کہیں گی کہ ہمیں بھی اس اللہ نے بولنے کی صلاحیت عطا کردی ہے جس نے ہر شے کو قوت گویائی عطا کی ہ... ے “ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو اس کے حسب حال ” زبان “ عطا کر رکھی ہے جس سے وہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے۔ سورة بنی اسرائیل کے یہ الفاظ اس حوالے سے بہت واضح ہیں : { وَاِنْ مِّنْ شَیْئٍ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لاَّ تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ } (آیت ٤٤) ” اور کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ وہ تسبیح کرتی ہے اس کی حمد کے ساتھ لیکن تم لوگ نہیں سمجھ سکتے ان کی تسبیح کو۔ “ { وَّہُوَ خَلَقَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ } ” اور اسی نے تمہیں پیدا کیا پہلی مرتبہ اور اسی کی طرف تم لوٹا دیے جائوگے۔ “  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 This shows that not only man's own limbs will bear witness on the Day of Resurrection, but every such thing before which man would have committed any crime will also speak out. The same thing has been said in Surah AI-Zilzal, thus: "The earth will cast out all the burdens, which lie within her, and man will say:what has befallen her? On that Day shall she relate whatever had happened (on her), ... because your Lord will have commanded her (to do so)." (vv. 2-5).  Show more

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :26 اس سے معلوم ہوا کہ صرف انسان کے اپنے اعضائے جسم ہی قیامت کے روز گواہی نہیں دیں گے ، بلکہ ہر وہ چیز بول اٹھے گی جس کے سامنے انسان نے کسی فعل کا ارتکاب کیا تھا ۔ یہی بات سورہ زلزال میں فرمائی گئی ہے کہ : وَ اَخْرَجَتِ الْاَرضُ اَثْقَالَھَا o وَقَالَ الْاِنْسَانُ ... مَا لَھَا o یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَا o بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَا o زمین وہ سارے بوجھ نکال پھینکے گی جو اس کے اندر بھرے پڑے ہیں ، اور انسان کہے گا کہ یہ اسے کیا ہو گیا ہے ، اس روز زمین اپنی ساری سرگزشت سنا دے گی ( یعنی جو جو کچھ انسان نے اس کی پیٹھ پر کیا ہے اس کی ساری داستان بیان کر دے گی ) ۔ کیونکہ تیرا رب اسے بیان کرنے کا حکم دے چکا ہو گا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:21) لم یہ لفظ مرکب ہے لام تعلیل اور ما استفہامیہ سے۔ ما کے الف کو تخفیفاً ساقط کردیا گیا ہے۔ کیوں ؟ کس لئے ؟ کس وجہ سے ؟ انطقنا : انطق ماضی واحد مذکر غائب۔ انطاق (افعال) مصدر گویائی عطا کرنا۔ بولنے کی قابلیت عطا کرنا۔ نا ضمیر مفعول جمع متکلم، اس نے ہم کو قوت گویائی عطا کی۔ نطق مادہ۔ وھو خلقکم...  اول مرۃ والیہ ترجعون ۔ یہ جملہ اعضاء کے کلام کی جزء بھی ہوسکتا ہے اور جملہ مستانفہ (ابتدائیہ، نیا) بھی ہوسکتا ہے اس کے بعد جو کلام آرہا ہے اس میں بھی یہ دونوں احتمال جائز ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 اور ہم نے تمہارے کرتوتوں کو بیان کردیا، اس میں تعجب کی کونسی بات ہے ؟۔4 یہ جملہ چمڑوں کی گفتگو کا تتمہ بھی ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام بھی جو وہ اس موقع پر فرمائے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ پس جو خدا ایسا قادر اور عظیم الشان ہو اس کے سامنے اس کے پوچھنے پر ہم حق کو کیسے چھپا سکتے تھے۔ کہ اس کی عظمت اس سے مانع تھی، اس لئے ہم نے گواہی دے دی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں اچانک قارئین کے سامنے ایک منظر آتا ہے ، انتہائی مصیبت کا منظر ہے۔ اللہ کا اقتدار عروج پر ہے۔ انسان کے اعضا اللہ کے حکم پر کلمہ حق کہتے ہیں۔ یہ کس کے اعضا ہیں ؟ اللہ کے دشمنوں کے اعضاء کیا ہے انجام اعدائے الٰہی کا۔ یہ حشر کے میدان میں جمع ہیں ، آدم (علیہ السلام) سے لے کر اس جہاں پر آخری پیدا ہون... ے والا انسان تک حاضر ہیں۔ ایک ریوڑ کی طرح جمع ہوں گے۔ ان میں سے دشمنان خدا کو چلایا جائے گا کس طرف ؟ آگ کی طرف ، جب حساب و کتاب شروع ہوگا۔ ان کے خلاف ایسے گواہ آتے ہیں جن کے بارے میں ان کی توقع ہی نہ تھی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی زبان ان کا ساتھ نہیں دے رہی حالانکہ یہ ان کے حق میں جھوٹ بولتی تھی ، افتراء باندھتی تھی اور مذاق اڑاتی تھی۔ ان کے کان ، ان کی آنکھیں اور ان کے چمڑے ان کے خلاف عدالت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور تسلیم ورضا کے ساتھ اللہ کے ہاں گواہی دے رہے ہیں ، جو کچھ انہوں نے کہا ، پورا پورا بیان کر رہے ہیں۔ یہ لوگ تو یہ سب باتیں اللہ سے چھپاتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ اللہ انہیں دیکھ نہیں رہا ہے۔ وہ اپنی نیتوں اور جرائم کو ہلکا سمجھتے ہیں اور چھپاتے ہیں لیکن اپنے اعضاء سے تو نہ چھپا سکتے تھے۔ اعضاء تو ان کے ساتھ تھے۔ یہ تو ان کا حصہ تھے۔ یہ اعضاء ان باتوں کو کھول دیتے ہیں جن کے بارے ان کا خیال تھا کہ وہ خفیہ راز میں اور تمام لوگوں سے چھپے ہوئے ہیں۔ رب العالمین سے بھی چھپے ہیں۔ اللہ کی سلطنت اور اقتدار اعلیٰ کا یہ منظر اچانک ہمارے سامنے آتا ہے۔ اور اقتدار الٰہی ہم سے ہمارے اعضاء بھی چھین لیتا ہے۔ وقالوا لجلودھم لم شھدتم علینا (٤١ : ٢١) ” وہ اپنے جسم کی کھالوں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی ؟ “ تو وہ ان کو وہ حقیقت بتاتے ہیں جو ان سے پوشیدہ تھی۔ اور یہ بات وہ بغیر کسی جھجک اور رکھ رکھاؤ کے بتاتے ہیں۔ قالوا انطقنا اللہ الذی انطق کل شیء (٤١ : ٢١) ” وہ جواب دیں گے ہمیں اس خدا نے گویائی دی ہے ، جس نے ہر چیز کو گویائی دی ہے ، جس نے ہر چیز کو گویا کردیا ہے “۔ کیا وہی نہیں ہے جس نے زبانوں کو گویائی دی۔ کیا وہ دوسرے اعضاء کو گویائی نہیں دے سکتا۔ آج تو اس نے ہر چیز کو گویا کردیا ہے ، ہر چیز اب بولتی ہے۔ وھو خلقکم اول مرۃ والیہ ترجعون (٤١ : ٢١) ” اسی نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اب اسی کی طرف تم واپس لائے جا رہے ہو “۔ تخلیق بھی اسی کی ہے اور آخر کار رجوع بھی اس کی طرف ہوگا۔ اس کے قبضہ قدرت سے کوئی باہر نہیں ہے۔ اور نہ بھاگ سکتا ہے۔ نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت میں۔ ان باتوں کا تو انہوں نے انکار کیا تھا۔ اب خود ان کے اعضاء ان کا اقرار کر رہے ہیں۔ اب اگلی آیت اعضاء کے کلام کی حکایت بھی ہوسکتی ہے اور اس پورے واقعہ پر تبصرہ بھی ہو سکتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ ” وقالوا لجلودھم “ جب مشرکین اپنے ہی اعضاء کی اپنے خلاف گواہی سنیں گے تو اپنے اعضاء سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی حالانکہ ہم دنیا میں تمہاری ہر آفت سے حفاظت کرتے تھے۔ تو اعضاء جواب دیں گے کہ ہم اپنے اختیار سے نہیں بولے۔ ہمیں تو اس ذات قادر وقیوم نے بولنے کی طاقت دی ہے۔ جس نے ہر ناطق...  کو قوت نطق عطا فرمائی ہے اور جو تمہیں پہلی بار اور پھر دوسری بار پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے جب اس نے ہمیں بولنے کی قوت دی اور پھر بول کر تمہارے خلاف گواہی دینے کا حکم فرمایا۔ تو ہم کس طرح اس کے حکم کی تعمیل نہ کرتے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) اور اپنے چمڑوں سے کہیں گے تم نے کیوں ہمارے خلاف گواہی دی وہ جواب دیں گے جو اللہ تعالیٰ ہر بولنے والی چیز کو گویائی عطا کرتا ہے اسی نے ہم کو بھی یاد کردیا اور اسی نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا اور اسی کی طرف تمہاری بازگشت سے ہوئی اور تم لوٹائے گئے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کافر کے اعمال جب ف... رشتے لادیں گے لکھے ہوئے وہ منکر ہوں گے کہ یہ ہمارے دشمن ہیں دشمن سے ہم پر جھوٹ لکھ دیا تب آسمان و زمین سے گواہی دلوادے گا کہے گا یہ بھی دشمن ہیں یارب تیرے ہاں ظلم نہیں کوئی ہمارا دوست گواہی دے تو سند ہے تب ان کے پائوں بولیں گے۔ خلاصہ : یہ ہے کہ جب سبحساب کے موقف میں جمع ہوجائیں گے اور جہنم قریب ہوگی اس وقت حساب ہوگا تو حساب کے وقت اعضاء گواہی دیں گے کیونکہ اور گواہوں کی تکذیب کرے گا اور دشمن بیان کرے گا مگر اعضاء کی گواہی پر چپ ہوجائیگا اپنے اعضا پر خفا ہوگا وہ جواب دیں گے کہ ہم کو اس اللہ تعالیٰ نے گویا کردیا جو ہر بولنے والی چیز کی طاقت گویائی عطا فرماتا ہے جب اس نے پوچھا تو ہماری کیا مجال تھی کہ ہم نہ بولتے۔ آگے کا کلام اگر اعضا کا ہے تو مطلب یہ ہے کہ وہ ایسا قادر مطلق ہے جس نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا پھر تم اسی کے پاس لوٹائے گئے تو جو بےجان کو جان عطا کردیتا ہے اس کے نزدیک یہ کیا مشکل ہے کہ وہ بےزبان کو زبان عطا فرمادے اور اگر وھو خلقکم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے تو ظاہر ہے کہ یہ آگے کی تمہید ہے۔  Show more