Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 30

سورة حم السجدہ

اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۳۰﴾

Indeed, those who have said, "Our Lord is Allah " and then remained on a right course - the angels will descend upon them, [saying], "Do not fear and do not grieve but receive good tidings of Paradise, which you were promised.

۔ ( واقعی ) جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے ( یہ کہتے ہوئے ) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو ( بلکہ ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Glad Tidings to Those Who believe in Allah Alone and stand firm Allah says, إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا ... Verily, those who say: "Our Lord is Allah," and then they stand firm, means, they do good deeds sincerely for the sake of Allah, and they obey Allah, doing what Allah has prescribed for them. Ibn Jarir recorded that Sa`id bin Imran said, "I read this Ayah to Abu Bakr As-Siddiq, may Allah be pleased with him: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا (Verily, those who say: "Our Lord is Allah," and then they stand firm), He said, `Those are the ones who do not associate anything with Allah."' Then he reported a narration of Al-Aswad bin Hilal, who said, "Abu Bakr As-Siddiq, may Allah be pleased with him, said, `What do you say about this Ayah: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا (Verily, those who say: "Our Lord is Allah," and then they stand firm,)' They said: رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا ("Our Lord is Allah," and then they stand firm), `They shun sin.' He said, `You have not interpreted it improperly.' They say: `Our Lord is Allah, then they stand firm and do not turn to any other god besides Him."' This was also the view of Mujahid, Ikrimah, As-Suddi and others. Ahmad recorded that Sufyan bin Abdullah Ath-Thaqafi said, "I said, `O Messenger of Allah, tell me something that I can adhere to.' He said: قُلْ رَبِّيَ اللهُ ثُمَّ اسْتَقِم Say, my Lord is Allah, then stand firm. I said, `O Messenger of Allah, what do you fear most for me?' The Messenger of Allah took hold of the edge of his tongue and said, هذَا (This is.)" This was also recorded by At-Tirmidhi and Ibn Majah; At-Tirmidhi said, "Hasan Sahih." Muslim also recorded it in his Sahih, and An-Nasa'i recorded that Sufyan bin Abdullah Ath-Thaqafi said, "I said, `O Messenger of Allah, tell me something about Islam that I will not have to ask anyone about it after you.' He said: قُلْ امَنْتُ بِاللهِ ثُمَّ اسْتَقِم Say: I believe in Allah, then stand firm." -- then he mentioned the rest of the Hadith. ... تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيِكَةُ ... on them the angels will descend. Mujahid, As-Suddi, Zayd bin Aslam and his (Zayd's) son said, "This means, at the time of death, and they will say, ... أَلاَّ تَخَافُوا ... Fear not. " Mujahid, Ikrimah and Zayd bin Aslam said, "This means not to fear that which you will face in the Hereafter." ... وَلاَ تَحْزَنُوا ... nor grieve! `for what you have left behind of worldly things, children, family, wealth and debt, for we will take care of it for you.' ... وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ But receive the glad tidings of Paradise which you have been promised! So they give glad tidings of the end of bad things and the arrival of good things. This is like what is said in the Hadith narrated by Al-Bara', may Allah be pleased with him: إِنَّ الْمَلَيِكَةَ تَقُولُ لِرُوحِ الْمُوْمِنِ اخْرُجِي أَيَّتُهَا الرُّوحُ الطَّيِّـبَةُ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ كُنْتِ تَعْمُرِينَهُ اخْرُجِي إِلى رَوْحٍ وَرَيْحَانٍ وَرَبَ غَيْرِ غَضْبَان The angels say to the soul of the believer, "Come out, O good soul from the good body in which you used to dwell, come out to rest, and provision and a Lord Who is not angry." It was said that the angels will come down to them on the Day when they are brought out of their graves. Zayd bin Aslam said, "They will give him glad tidings when he dies, in his grave, and when he is resurrected." This was recorded by Ibn Abi Hatim, and this view reconciles all the opinions; it is a good view and it is true.

اسقامت اور اس کا انجام ۔ جن لوگوں نے زبانی اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا یعنی اس کی توحید کا اقرار کیا ۔ پھر اس پر جمے رہے یعنی فرمان الٰہی کے ماتحت اپنی زندگی گزاری ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرما کر وضاحت کی کہ بہت لوگوں نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کرکے پھر کفر کر لیا ۔ جو مرتے دم تک اس بات پر جما رہا وہ ہے جس نے اس پر استقامت کی ۔ ( نسائی وغیرہ ) حضرت ابو بکر صدیق کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت ہوئی تو آپ نے فرمایا اس سے مراد کلمہ پڑھ کر پھر کبھی بھی شرک نہ کرنے والے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ خلیفتہ المسلمین نے ایک مرتبہ لوگوں سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے کہا کہ استقامت سے مراد گناہ نہ کرنا ہے آپ نے فرمایا تم نے اسے غلط سمجھایا ۔ اس سے مراد اللہ کی الوہیت کا اقرار کرکے پھر دوسرے کی طرف کبھی بھی التفات نہ کرنا ہے ۔ حضرت ابن عباس سے سوال ہوتا ہے کہ قرآن میں حکم اور جزا کے لحاظ سے سب سے زیادہ آسان آیت کونسی ہے؟ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی کہ توحید اللہ پر تاعمر قائم رہنا ۔ حضرت فاروق اعظم نے منبر پر اس آیت کی تلاوت کرکے فرمایا واللہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر جم جاتے ہیں اور لومڑی کی چال نہیں چلتے کہ کبھی ادھر کبھی ادھر ۔ ابن عباس فرماتے ہیں فرائض اللہ کی ادائیگی کرتے ہیں ۔ حضرت قتادہ یہ دعا مانگا کرتے تھے ۔ ۔ اے اللہ تو ہمارا رب ہے ہمیں استقامت اور پختگی عطا فرما ۔ استقامت سے مراد دین اور عمل کا خلوص حضرت ابو العالیہ نے کہا ہے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مجھے اسلام کا کوئی ایسا امر بتلایئے کہ پھر کسی سے دریافت کرنے کی ضرورت نہ رہے ۔ آپ نے فرمایا زبان سے اقرار کر کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر جم جا ۔ اس نے پھر پوچھا اچھا یہ تو عمل ہوا اب بچوں کس چیز سے؟ تو آپ نے زبان کی طرف اشارہ فرمایا ۔ ( مسلم وغیرہ ) امام ترمذی اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں ، ان کے پاس ان کی موت کے وقت فرشتے آتے ہیں اور انہیں بشارتیں سناتے ہیں کہ تم اب آخرت کی منزل کی طرف جا رہے ہو بےخوف رہو تم پر وہاں کوئی کھٹکا نہیں ۔ تم اپنے پیچھے جو دنیا چھوڑے جا رہے ہو اس پر بھی کوئی غم و رنج نہ کرو ۔ تمہارے اہل و عیال ، مال و متاع کی دین و دیانت کی حفاظت ہمارے ذمے ہے ۔ ہم تمہارے خلیفہ ہیں ۔ تمہیں ہم خوش خبری سناتے ہیں کہ تم جنتی ہو تمہیں سچا اور صحیح وعدہ دیا گیا تھا وہ پورا ہو کر رہے گا ۔ پس وہ اپنے انتقال کے وقت خوش خوش جاتے ہیں کہ تمام برائیوں سے بچے اور تمام بھلائیاں حاصل ہوئیں ۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ مومن کی روح سے فرشتے کہتے ہیں اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی چل اللہ کی بخشش انعام اور اس کی نعمت کی طرف ۔ چل اس اللہ کے پاس جو تجھ پر ناراض نہیں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ جب مسلمان اپنی قبروں سے اٹھیں گے اسی وقت فرشتے ان کے پاس آئیں گے اور انہیں بشارتیں سنائیں گے ۔ حضرت ثابت جب اس سورت کو پڑھتے ہوئے اس آیت تک پہنچے تو ٹھہر گئے اور فرمایا ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ مومن بندہ جب قبر سے اٹھے گا تو وہ دو فرشتے جو دنیا میں اس کے ساتھ تھے اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں ڈر نہیں گھبرا نہیں غمگین نہ ہو تو جنتی ہے خوش ہو جا تجھ سے اللہ کے جو وعدے تھے پورے ہوں گے ۔ غرض خوف امن سے بدل جائے گا آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی دل مطمئن ہو جائے گا ۔ قیامت کا تمام خوف دہشت اور وحشت دور ہو جائے گی ۔ اعمال صالحہ کا بدلہ اپنی آنکھوں دیکھے گا اور خوش ہوگا ۔ الحاصل موت کے وقت قبر میں اور قبر سے اٹھتے ہوئے ہر وقت ملائیکہ رحمت اس کے ساتھ رہیں گے اور ہر وقت بشارتیں سناتے رہیں گے ، ان سے فرشتے یہ بھی کہیں گے کہ زندگانی دنیا میں بھی ہم تمہارے رفیق و ولی تھے تمہیں نیکی کی راہ سمجھاتے تھے خیر کی رہنمائی کرتے تھے ۔ تمہاری حفاظت کرتے رہتے تھے ، ٹھیک اسی طرح آخرت میں بھی ہم تمہارے ساتھ رہیں گے تمہاری وحشت و دہشت دور کرتے رہیں گے قبر میں ، حشر میں ، میدان قیامت میں ، پل صراط پر ، غرض ہر جگہ ہم تمہارے رفیق اور دوست اور ساتھی ہیں ۔ نعمتوں والی جنتوں میں پہنچا دینے تک تم سے الگ نہ ہوں گے وہاں جو تم چاہو گے ملے گا ۔ جو خواہش ہوگی پوری ہوگی ، یہ مہمانی یہ عطا یہ انعام یہ ضیافت اس اللہ کی طرف سے ہے جو بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے ۔ اس کا لطف و رحم اس کی بخشش اور کرم بہت وسیع ہے ۔ حضرت سعید بن مسیب اور حضرت ابو ہریرہ کی ملاقات ہوتی ہے تو حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم دونوں کو جنت کے بازار میں ملائے ۔ اس پر حضرت سعید نے پوچھا کیا جنت میں بھی بازار ہوں گے؟ فرمایا ہاں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ جنتی جب جنت میں جائیں گے اور اپنے اپنے مراتب کے مطابق درجے پائیں گے تو دنیا کے اندازے سے جمعہ والے دن انہیں ایک جگہ جمع ہونے کی اجازت ملے گی ۔ جب سب جمع ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرمائے گا اس کا عرش ظاہر ہوگا ۔ وہ سب جنت کے باغیچے میں نور لولو یاقوت زبرجد اور سونے چاندی کے منبروں پر بیٹھیں گے ، جو نیکیوں کے اعتبار سے کم درجے کے ہیں لیکن جنتی ہونے کے اعتبار سے کوئی کسی سے کمتر نہیں وہ مشک اور کافور کے ٹیلوں پر ہوں گے لیکن اپنی جگہ اتنے خوش ہوں گے کہ کرسی والوں کو اپنے سے افضل مجلس میں نہیں جانتے ہوں گے ۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں دیکھو گے ۔ آدھے دن کے سورج اور چودہویں رات کے چاند کو جس طرح صاف دیکھتے ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے ۔ اس مجلس میں ایک ایک سے اللہ تبارک و تعالیٰ بات چیت کرے گا یہاں تک کہ کسی سے فرمائے گا ۔ یاد ہے فلاں دن تم نے فلاں کا خلاف کیا تھا ؟ وہ کہے گا کیوں جناب باری تو تو وہ خطا معاف فرما چکا تھا پھر اس کا کیا ذکر؟ کہے گا ہاں ٹھیک ہے اسی میری مغفرت کی وسعت کی وجہ سے ہی تو اس درجے پر پہنچا ۔ یہ اسی حالت میں ہوں گے کہ انہیں ایک ابر ڈھانپ لے گا اور اس سے ایسی خوشبو برسے گی کہ کبھی کسی نے نہیں سونگھی تھی ۔ پھر رب العالمین عزوجل فرمائے گا کہ اٹھو اور میں نے جو انعام و اکرام تمہارے لئے تیار کر رکھے ہیں انہیں لو ۔ پھر یہ سب ایک بازار میں پہنچیں گے جسے چاروں طرف سے فرشتے گھیرے ہوئے ہوں گے وہاں وہ چیزیں دیکھیں گے جو نہ کبھی دیکھی تھیں نہ سنی تھیں نہ کبھی خیال میں گزری تھیں ۔ جو شخص جو چیز چاہے گا لے لے گا خرید فروخت وہاں نہ ہوگی ۔ بلکہ انعام ہوگا ۔ وہاں تمام اہل جنت ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے ایک کم درجے کا جنتی اعلیٰ درجے کے جنتی سے ملاقات کرے گا تو اس کے لباس وغیرہ کو دیکھ کر جی میں خیال کرے گا وہیں اپنے جسم کی طرف دیکھے گا کہ اس سے بھی اچھے کپڑے اس کے ہیں ۔ کیونکہ وہاں کسی کو کوئی رنج و غم نہ ہوگا ۔ اب ہم سب لوٹ کر اپنی اپنی منزلوں میں جائیں گے وہاں ہماری بیویاں ہمیں مرحبا کہیں گے اور کہیں گی کہ جس وقت آپ یہاں سے گئے تب یہ ترو تازگی اور یہ نورانیت آپ میں نہ تھی لیکن اس وقت تو جمال و خوبی اور خوشبو اور تازگی بہت ہی بڑھی ہوئی ہے ۔ یہ جواب دیں گے کہ ہاں ٹھیک ہے ہم آج اللہ تعالیٰ کی مجلس میں تھے اور یقینا ہم بہت ہی بڑھ چڑھ گئے ۔ ( ترمذی وغیرہ ) مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرے اللہ بھی اس سے ملنے کو چاہتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو برا جانے اللہ بھی اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے صحابہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو موت کو مکروہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا اس سے مراد موت کی کراہیت نہیں بلکہ مومن کی سکرات کے وقت اس کے پاس اللہ کی طرف سے خوشخبری آتی ہے جسے سن کر اس کے نزدیک اللہ کی ملاقات سے زیاہ محبوب چیز کوئی نہیں رہتی ۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات پسند فرماتا ہے اور فاجر یا کافر کی سکرات کے وقت جب اسے اس برائی کی خبر دی جاتی ہے جو اسے اب پہنچنے والی ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے ۔ پس اللہ بھی اس کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کی بہت سی اسنادیں ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 یعنی ایک اللہ وحدہ لا شریک رب بھی وہی اور معبود بھی وہی یہ نہیں کہ ربوبیت کا تو اقرار لیکن الوہیت میں دوسروں کو بھی شریک کیا جارہا ہے۔ 30۔ 2 یعنی سخت سے سخت حالات میں بھی ایمان و توحید پر قائم رہے، اس سے انحراف نہیں کیا بعض نے استقامت کے معنی اخلاص کیے ہیں یعنی صرف ایک اللہ ہی کی عبادت واطاعت کی جس طرح حدیث میں بھی آتا ہے ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا مجھے ایسی بات بتلا دیں کہ آپ کے بعد کسی سے مجھے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قل آمنت باللہ ثم استقم (صحیح مسلم کتاب الایمان) کہہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر استقامت اختیار کر۔ 30۔ 3 یعنی موت کے وقت، بعض کہتے ہیں، فرشتے یہ خوشخبری تین جگہوں پر دیتے ہیں، موت کے وقت، قبر میں اور قبر سے دوبارہ اٹھتے وقت۔ 30۔ 4 یعنی آخرت میں پیش آنے والے حالات کا اندیشہ اور دنیا میں مال و اولاد جو چھوڑ آئے ہو، ان کا غم نہ کرو۔ 30۔ 5 یعنی دنیا میں جس کا وعدہ تمہیں دیا گیا تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] دین کی تفہیم مختصر ترین الفاظ میں :۔ یہ ایک ایسا جامع جملہ ہے جس میں شریعت کی ساری تعلیم سمٹ کر آگئی ہے۔ چناچہ سفیان بن عبداللہ ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ : && مجھے اسلام کے متعلق ایک ہی ایسی بات بتا دیجئے جس کے بعد مجھے کسی دوسرے سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے && آپ نے فرمایا : && کہو ! میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر ڈٹ جاؤ && (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب جامع اوصاف الاسلام) یعنی جن لوگوں نے دل و جان سے توحید باری تعالیٰ کا اقرار کیا۔ پھر تازیست اپنے اس قول وقرار کو پوری دیانتداری اور راست بازی سے نبھایا۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت والوہیت میں کسی کو شریک نہیں کیا۔ نہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے رہے جو کچھ زبان سے کہا تھا اس کے تقاضوں کو اعتقاداً اور عملاً پورا کیا۔ جو عمل کیا خالص اس کی خوشنودی اور شکرگزاری کے لیے کیا۔ اپنے رب کے مقرر کردہ حقوق و فرائض کو سمجھا اور ادا کیا۔ ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے جنت کی خوشخبری دینے والے فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ [٣٨] فرشتوں کے نزدل کا مفہوم :۔ جس طرح ہر افاک اور اثیم پر شیطان نازل ہوتے ہیں جو ان کے دلوں میں القاء کرتے اور وسوسے ڈالتے ہیں۔ اسی طرح اللہ کے دین پر ڈٹ جانے والوں اور مشکلات کے دور میں صبرواستقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ جس سے ان کے دلوں کو اطمینان اور سکون نصیب ہوتا ہے۔ فرشتوں کے نزول کے لیے ضروری نہیں کہ وہ مرئی اور محسوس طور پر ہو۔ فرشتے میدان بدر میں نازل ہوئے تھے اور ان کے نزول کا مقصد بھی یہی مذکور ہے۔ کہ ان کے نزول سے مسلمانوں کے دلوں کو ڈھارس بندھائی جائے مگر وہ سوائے رسول اللہ کے کسی کو نظر نہیں آتے تھے اور جب تک یہ مادی زندگی ختم نہیں ہوجاتی اور مادیت کے پردے چاک نہیں ہوجاتے تب تک فرشتوں کا نزول اسی صورت میں ہوتا ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ البتہ مرنے کے ساتھ ہی جب یہ پردے اور حجاب اٹھ جائیں گے تو موت کے وقت پھر قبر میں پھر قیامت میں ہر جگہ فرشتے انسانوں کو یقیناً نظر آئیں گے۔ [٣٩] فرشتوں کے نزول کا مقصد :۔ یعنی فرشتے جب ایمان پر ڈٹ جانے والوں پر نازل ہوتے ہیں تو انہیں یہ تلقین کرتے ہیں یا ان کے دل میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ باطل کی طاقتیں خواہ کتنی ہی چیرہ دست ہوں ان سے خوف زدہ ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں اور حق پرستی کی وجہ سے جو مظالم تم پر ڈھائے جارہے ہیں ان پر رنج نہ کرو کیونکہ اللہ نے تمہارے لیے ایسی جنت تیار کر رکھی ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کی سب نعمتیں ہیچ ہیں۔ اور موت کے وقت بھی فرشتے ہر مومن سے یہی کلمات کہتے ہیں۔ اس وقت وہ فرشتوں کو دیکھتا بھی ہے اور ان کی بات بھی سمجھتا ہے تو اس وقت ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آگے جس منزل کی طرف تم جارہے ہو اس سے خوفزدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ جنت تمہاری منتظر ہے اور دنیا میں جنہیں تم چھوڑ کر جارہے ہو ان کے لیے بھی رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم تمہارے ولی اور رفیق ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ان الذین قالوا … کفار کے برے عقیدہ و عمل کی وجہ سے ان پر جن و انس میں سے شیاطین مسلط کرنے اور ان کے برے انجام کے ذکر کے بعد ایمان اور اس پر استقامت اختیار کرنے والوں کی تائید و نصرت کیلئے فرشتے نازل کرنے کا اور ان کے حسن انجام کا ذکر فرمایا۔ (٢) ربنا اللہ : ” ہمارا رب صرف اللہ ہے “ یہ مختصر سا جملہ معانی کا سمندر ہے۔ مبتدا کے بعد خبر معرفہ ہو تو کلام میں حصر پیدا ہوجاتا ہے، کتب بلاغت میں اس کی مشہور مثال ” صدیقی زی ”‘ ہے، یعنی ” میرا دسوت صرف زید ہے۔ “ اس لئے ” ربنا اللہ “ کا معنی ہے ” ہمارا رب صرف اللہ ہے۔ “ یہ بات دل سے کہہ لینے کے بعد آدمی کسی اور کو داتا ، دستگیر، گنج بخش، غریب نواز، بگڑی بنانے والا اور ڈوبتوں کو پار لگانے والا نہیں مان سکتا۔ پھر اس کی قولی، بدنی اور ملای عبادت، بلکہ پوری زندگی اور موت صرف اللہ کے لئے ہوتی ہے، وہ صرف اسی سے مانگتا اور اسی کے حکم پر چلتا ہے۔ جو وہ کہے کرتا ہے، جس سے روک دے رک جاتا ہے۔ عمل میں کوتاہی ہوسکتی ہے اور گناہ کا ارتکاب بھی ہوسکتا ہے، مگر وہ اسی کے دروازے پر رہتا اور اسی سے معافی مانگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :(قل اننی ھدئنی ربی الی صراط مستقیم : دینا قیماً ملۃ ابرھیم حنیفاً الانعام :161 تا 163) ” کہہ دے بیشک مجھے تو میرے رب نے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کردی ہے، جو مضبوط دین ہے ، ابراہیم کی ملت ، جو ایک ہی طرف کا تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔ کہہ دے بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لئے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں حکم ماننے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔ کہہ دے کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں، حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے۔ “ ” ربنا اللہ “ کہنے کے بعد کسی اور کی عبادت، اس کا دین یا اس کا بتایا ہوا زندگی گزارنے کا طریقہ اختیار کرنے کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ اقبال نے اسی لئے کہا ہے۔ چوں می گویم مسلمانم بلرزم کہ دائم مشکلات لا الہ را ” جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو لرز جاتا ہوں، کیونکہ میں ” لا الہ “ کی مشکلات کو جانتا ہوں۔ “ (٣) ثم استقاموا : اس میں سین اور تاء مبلغے کے لئے ہے، یعنی پھر اس پر خوب قائم رہے اور موت تک ڈٹے رہے کوئی خوف یا لالچ انھیں اس عقیدے اور عمل سے نہ پھیر سکا، جیسا کہ فرمایا :(واعبد ربک حتی یاتیکم الیقین) (النحجر : ٩٩) ” اور اپنے رب کی عبادت کر، یہاں تک کہ تیرے پاس یقین آجائے۔ ‘ طبری نے اسود بن ہلال سے روایت کی ہے کہ ابوبکر صدیق (رض) نے یہ آیت پڑھی :(ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا) اور فرمایا :” اس آیت کے متعلق تم کیا کہتے ہو ؟ “ لوگوں نے کہا : (قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا من ذنب ) ” انہوں نے ” ربنا اللہ “ کہا، پھر گناہ سے بچنے پر ڈٹے رہے۔ “ تو انہوں نے فرمایا :(لقد حملتموہ علی غیر المحمل ، قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا ثم لم یلتفتوا الی الہ غیرہ) (طبری :3080)” تم نے اسے اس کے اصل محمل کے غیر پر محمول کیا ہے، مقصد ” قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا “ کا یہ ہے کہ پھر انہوں نے اس کے سوا کسی اور معبود کی طرف جھانک کر نہیں دیکھا۔ “ حاکم نے بھی اسے اسود بن ہلال کے طریق سے روایت کیا ہے اور اسے صحیح کہا ہے۔ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ دیکھیے مستدرک حاکم میں ” سورة حم السجدہ “ کی تفسیر۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے، فرماتے ہیں : ” قالوا ربنا اللم ثم استقاموا علی اذا ئرائضہ “ یعنی ” ثم استقاموا “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے فرئاض کی ادائیگی پر خوب قائم رہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ” ثم استقاموا “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ موت تک توحید پر خوب قائم رہ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلتے رہے اور فرئاض ادا کرتے رہے، اگر کوئی کوتاہی یا گناہ ہوا بھی ہو تو انہوں نے توحید و سنت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ (٤) سفیان بن عبداللہ ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کہ کا :(یا رسول اللہ ! حدثنی بامر اعتصم بہ قال قل ربی اللہ ثم استقم قال قلت یا رسول اللہ ما خوف ماتحاف علی ؟ قال فاخذ بلستان نفسہ ثم قال ھذا) (مسند احمد : ٣-٣١٣ ء ح : ١٥٣٢٥)” یا رسول اللہ ! آپ مجھے ایسا کام بتائیں جسے میں ضمبوطی سے پکڑ لوں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تو کہہ ، میرا رب صرف اللہ ہے، پھر اس پر خوب قائم رہ۔ “ میں نے کہا :” یا رسو ل اللہ چ سب سے خوف ناک چیز جس سے آپ میرے بارے میں ڈرتے ہوں، کیا ہے ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا :” یہ (زبان) ۔ “ مسند احمد کے محقق حضرت ا نے اسے صحیح کہا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے، سفیان بن عبداللہ ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے کہا :(یا رسول اللہ ! قل لی فی الاسلام قولاً لا اسال عنہ احداً بعدک و فی حدیث ابی اسامۃ غیرک قال قل امنت باللہ ثم استقم) (مسلم، الایمان، باب جامع اوصاف الاسلام :38) ” یا رسول اللہ ! آپ مجھے اسلام میں ایسی بات بتادیں کہ میں اس کے متعلق آپ کے بعد کسی سے نہ پوچھوں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تو کہہ، میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر خوف قائم رہ۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ ” ربی اللہ “ اور ” امنت باللہ “ کا مفہوم ایک ہے اور یہ جامع کلمہ ہے، جس میں اسلا کے تمام ارکان آگئے ہیں، جیسا کہ امام نووی رحمتہ اللہ کے صحیح مسلم پر باب کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ (٥) تنزل علیھم الملٰٓئکۃ … ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو۔ بہت سے مفسرین نے فرمایا کہ ” ربنا اللہ “ کہہ کر استقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول موت کے وقت ہوتا ہے، پھر قبر میں اور آخر میں حشر کے دن ہوگا، حالانکہ آیت کے الفاظ عام ہیں۔ ان حضرت ا کی اس تفسیر کی وجہ یہ ہے کہ دنیا ھ میں ایمان والوں پر فرشتوں کا نزول نظر نہیں آتا، وہ موت کے وقت نظر آنا شروع ہوتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ وہ نظر نہیں آتے، مگر یقینا دنیا میں بھی اہل استقامت پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے، جس سے ان کے دلوں میں سکون و اطمینان پیدا ہوتا ہے، ایمان اور میدان میں انھیں استقامت اور ثابت قدمی حاصل ہوتی ہے اور وہ ان کے دلوں میں نیکی کی رغبت ، برائی سے نفرت اور بہترین خیالات پیدا ہونے کا باعث بنتے ہیں، جیسا کہ بدر میں رشتے نازل ہوئے، فرمایا : اذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممذکم بالف من المٓئکۃ مردفین وما جعلہ اللہ الا بشری و لتظمئن بہ قلوبکم وما النصر الا من عند اللہ ، ان اللہ عزیز حکیم ) (الانفال : ٩، ١٠)” جب تم اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کرلی کہ بیشک میں ایک ہزار فرشوتں کے ساتھ تمہاری مدد کرنے والا ہوں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں اور اللہ نے اسے نہیں بنایا مگر ایک خوش خبری اور تاکہ اس کے ساتھ تمہارے دل مطمئن ہوں اور مدد نہیں ہے مگر اللہ کے پاس سے۔ بیشک اللہ سب پر غالب ، کمال حکمت والا ہے۔ “ اور فرمایا :(اذ یوحی ربک الی الملئکۃ انی معکم فثبتوا الذین امنوا سابقی فی قلوب الذین کفروا الرغب فاضربوا فوق الاعناق و اضربوا منھم کل بنان) (الانفال : ١٢)” جب تیرا رب فرشتوں کی طرف وحی کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، پس تم ان لوگوں کو جمائے رکھو جو ایمان لائے ہیں، عنقریب میں ان لوگوں کے دلوں میں جنھوں نے کفر کیا، رعب ڈال دوں گا، پس ان کی گردنوں کے اوپر ضرب لگاؤ اور ان کے ہر ہر پور پر ضرب لگاؤ۔ “ فرشتے ایمان والوں پر اترتے ہیں مگر ایک آدھ استثنائی صورت کے علاوہ رسول کے سوا کسی کو نظر نہیں آتے اور جب تک یہ مادی زندگی ختم نہیں ہوجاتی اور مادیت کے پردے چاک نہیں ہوجاتے تب تک فرشتوں کا نزول اسی صورت میں ہوتا ہے۔ البتہ مرنے کیساتھ ہی جب یہ پردے اور حجاب اٹھ جائیں گے تو فرشتے موت کے وقت، پھر قبر میں، پھر قیامت میں ہر جگہ یقینا انسانوں کو نظر آئیں گے اور ایمان والوں کو ان الفاظ میں تسلی دیں گے جن کا ان آیات میں ذکر ہے۔ دنیا میں اگر فرشتے نظر آنا لگ جائیں تو امتحان کا مقصد فوت ہوجاتا ہے، اس لئے یہاں وہ اسی وقت عام لوگوں کو نظر آتے ہیں جب وہ عذاب لے کر آتے ہیں اور امتحان کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔ دیکھیے سورة حجر کی آیت (٨) کی تفسیر۔ فرشتوں کا ایمان والوں پر اترنا ایسے ہی ہے جیسے کفار اور خبیث لوگوں پر شیاطین کا نزول ہے کہ وہ ان کے دلوں میں گندے خیالات اور فاسد عقائد ڈلاتے اور برائی پر ابھارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ھل انبتکم علی من تنزل الشیطن ستنزل علی کل افاک اثیم یلقون السمع واکثرھم کذبون ) (الشعرائ : ٢٢١ تا ٢٢٣)” کیا میں تمہیں بتاؤں شیاطین کس پر اترتے ہیں۔ وہ ہر زبردست جھوٹے، سخت گناہگار پر اترتے ہیں۔ وہ سنی ہوئی بات لا ڈالتے ہیں اور ان کے اکثر جھوٹے ہیں۔ “ اور فرمایا :(وان الشیطین لیوحون الی اولیھم لیجادلوکم ) (الاناعم : ١٢١)” اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ضرور باتیں ڈلاتے ہیں، تاکہ وہ تم سے جھگڑاک ریں۔ “ اور فرمایا :(واذ زین لھم الشیطن اعمالھم وقال لاغالب لکم الیوم من الناس و انی جار لکم ) (الانفال :78)” اور جب شیطان نے ان کے لئیا ن کے اعمال خوش نما بنا دیئے اور کہا آج تم پر لوگوں میں سے کوئی غالب آنے والا نہیں اور یقینا میں تمہارا حمایتی ہوں۔ “ (٦) الا تخافوا ولا تخرنوا : مفسر عبدالرحمٰن کیلانی لکھتے ہیں :” یعنی جب فرشتے ڈٹ جانے والوں پر نازل ہوتے ہیں تو انھیں یہ تلقین کرتے ہیں یا ان کے دل میں یہ بات ڈلاتے ہیں کہ باطل کی طاقتیں خواہ کتنی ہی چیرہ دست ہوں ان سے خوف زدہ ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں اور حق پرستی کی وجہ سے جو مظالم تم پر ڈھائے جا رہے ہیں ان پر رنج نہ کرو کیونکہ اللہ نے تمہارے لئے ایسی جنت تیار کر رکھی ہے جس کے مقابل ی میں دنیا کی سب نعمتیں ہیچ ہیں اور موت کے وقت بھی فرشتے ہر مومن سے یہی کلمات کہتے ہیں، اس وقت وہ فرشتوں کو دیکھتا بھی ہے اور ان کی بات سمجھتا بھی ہے، تو اس وقت ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آگے جس منزل کی طرف تم جا رہے ہو اس سے خوف زدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ، کیونکہ ہم تمہارے ولی اور رفیق ہیں۔ “ (تیسیرا القرآن) (٧) دنیا میں انسانوں کے ساتھ کئی طرح کے فرشتے مقرر ہیں، جن میں کراماً کاتبین بھی ہیں (دیکھیے انفطار :10 تا 12) اور آفات و مصائب سے حفاظت کرنے والے فرشتے بھی۔ (دیکھیے رعد : ١١) یہ فرشتے مومن و کافر سب کے ساتھ ہیں، مگر جن فرشتوں کا ان آیات میں ذکر ہے یہ صرف اہل ایمان و استقامت کے ساتھ خاص ہیں، انھی پر اترتے ہیں اور انھی کو حوصلہ دیتے، نیکیوں کی رغبت دلاتے اور خیر کا الہام کرتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Those who rejected the Qur&an, the prophethood and the Oneness of Allah have been addressed from the beginning of the Surah. With reference to the signs of Allah&s Omnipotence, they are invited to believe in Oneness of Allah. Mentioned thereafter is the evil fate of those who reject the life hereinafter with a detailed account of the punishment of hell in that life. Now the text takes up, henceforth, the conditions of the believing people and of those having perfect faith, their being honored and exalted in this world and in eternity along with some special directions for them. Believers and those having perfect faith are those people who not only stick to the straight path and abide by the revealed laws themselves in their deeds and morals, but also call others towards Allah and care about their reformation. It is in this connection that those who invite others towards Islam are directed to remain patient and to repay evil with goodness. The sense of being upright Itإِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَ‌بُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا (Surely, those who have declared: |"Our Lord is Allah|", then remained steadfast - 41:30) This verse has mentioned two qualities of these people. One is affirming Allah as their Lord. This refers to their |"iman& (faith). The other quality is of their remaining steadfast which refers to their good deeds. In this way, the verse says that these people combine the true faith with good practice. The word used in the text for this second aspect is istiqamah (translated above as being steadfast) which has been taken by Maulana Thanawi to mean firmness in unshaken faith. This explanation is reported from Sayyidna Abu Bakr (رض) The explanation given by Sayyidna ` Uthman (رض) is nearly the same, as according to him istiqamah means ikhlas (sincerity) in deeds. And Sayyidna ` Umar (رض) has explained istiqamah in the following words, الاستقامۃ ان تستقیم علٰی الامروا النھی ولا تروغ روغان الثعالب ۔ (المظھری) Istiqamah is that you hold on unwaveringly to all the injunctions of Allah - carry out the good deeds and stay away from prohibitions, and do not seek escape-routes like foxes. (Mazhari). That is why scholars have said that Istiqamah is a small word, but it comprises all the revealed laws of Islam which includes carrying out all the orders of Allah and staying away from all prohibitions and odious things on a permanent basis. It is stated in Tafsir Kashshaf that a person&s declaration that his Lord is Allah can only be true when he believes from the bottom of his heart that he is being brought up by Allah Almighty in all situations and at every step, that he cannot take even one breath without His mercy, and all this demands that one should be so devoted and steadfast in his ways of worship that neither his heart nor his body should deviate even to a hair&s breadth from submission to Him like a slave. That is the reason that once the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was asked by Sayyidna Sufyan Ibn ` Abdullah Thaqafi (رض) to tell him something so comprehensive about Islam that he should not have to ask anybody else afterwards for anything. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said to him: قُل آمنتُ بِاللہإ ثُمَّ استقِم (رواہ مسلم) |"Say, ` I have faith in Allah&, and then remain steadfast to it.|" Remaining steadfast apparently means to hold on firmly to the faith and to the good deeds which the faith demands. Sayyidna ` Ali and Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) have defined Istiqamah (Steadfastness) as discharge of obligatory duties, and Hasan Basri said that Istiqamah is to obey Allah in all deeds, and to avoid His disobedience. This tells us that the above quoted description of Istiqamah given by Sayyidna ` Umar (رض) ، is the most comprehensive. The descriptions of Sayyidna Abu Bakr (رض) and Sayyidna ` Uthman (رض) also result in the above, because sincerity in deeds has been stressed upon by them along with good deeds. (Tafsir Mazhari). Jassas has also adopted the above explanation by quoting Abul ` Aliyah and so has Ibn Jarir. تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ (on them the angels will descend - 41:30). The descent of angels and their address as mentioned in this verse will take place at the time of one&s death according to Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، but according to Qatadah, it will take place on the Day of Resurrection at the time of rising from the graves. And according to Waki& Ibn Jarrah, it would happen on three occasions, first at the time of death, secondly in the graves, and thirdly on the Day of Resurrection at the time of rising from graves. And Abu Hayyan has opined in Al-Bahr-ul-Muhit that, in fact, angels keep on descending upon Mu&mins (believers) all the time, even in this life, and their effects and blessings are found in the deeds of the believers; but they will be visible on these occasions only, and it is at that time that the voice of angels will be heard. Abu Nu&aim has reported about Thabit Al-bunani (رح) that while reciting Surah Ha Meem Sajdah, when he reached the present verse (on them the angels descend), he said, |"According to a Hadith that has reached us, the Mu&min at the time of rising in his grave on the Day of Resurrection, will be met by the two angels who used to be with him in the world, and they will console him not to worry or be afraid, rather be happy with the glad tidings of Paradise, which was being promised to him. These words of the angels will bring serenity to the Mu&min. (Mazhari)

خلاصہ تفسیر جن لوگوں نے (دل سے) اقرار کرلیا کہ ہمارا رب (حقیقی صرف) اللہ ہے (مطلب یہ ہے کہ شرک چھوڑ کر توحید اختیار کرلی) پھر (اس پر) مستقیم رہے (یعنی اس کو چھوڑا نہیں) ان پر (اللہ کی طرف سے رحمت و بشارت کے) فرشتے اتریں گے (اول موت کے وقت پھر قبر میں پھر قیامت میں۔ جیسا کہ درمنثور میں حضرت زید بن اسلم کی روایت سے ثابت ہے اور کہیں گے) کہ تم نہ (احوال آخرت سے) اندیشہ کرو اور نہ (دنیا کے چھوڑنے پر) رنج کرو (کیونکہ آگے تمہارے لئے اس کا نعم البدل اور امن و عافیت ہے) اور تم جنت (کے ملنے) پر خوش رہو جس کا تم سے وعدہ کیا جایا کرتا تھا، ہم تمہارے رفیق تھے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی رہیں گے (دنیا میں فرشتوں کا رفیق ہونا یہ ہے کہ وہ انسان کے دل میں نیک کاموں کا الہام کرتے رہتے ہیں، اور کوئی تکلیف و مصیبت پیش آجائے تو اس پر صبر و سکون فرشتوں ہی کی رفاقت کا اثر ہوتا ہے۔ اور آخرت میں رفیق ہونا تو آمنے سامنے کھل کر ہوگا، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے :۔ (آیت) وتتلقہم الملئکة اور دوسری آیت میں (آیت) یدخلون علیہم من کل باب وغیرہ) اور تمہارے لئے اس (جنت) میں جس چیز کو تمہارا جی چاہے گا موجود ہے اور نیز تمہارے لئے اس میں جو مدد مانگو گے موجود ہے (یعنی جو کچھ زبان سے مانگو گے وہ تو ملے ہی گا۔ بلکہ مانگنے کی بھی ضرورت نہ ہوگی جس چیز کو تمہارا دل چاہے گا موجود ہوجائے گی) یہ بطور مہمانی کے ہوگا۔ غفور رحیم کی طرف سے (یعنی یہ نعمتیں اکرام و اعزاز کے ساتھ اس طرح ملیں گی جس طرح مہمانوں کو ملتی ہیں۔ آگے حسن حال کے بعد حسن مقال و اعمال کو بتایا گیا ہے) اور اس سے بہتر کس کی بات ہو سکتی ہے جو (لوگوں کو) خدا کی طرف بلائے اور (خود بھی) نیک عمل کرے اور (اظہار اطاعت کے لئے) کہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں (یعنی بندگی کو اپنا فخر سمجھے، متکبرین کی طرح اس سے عار نہ کرے) اور (چونکہ دعوت الی اللہ اور اصلاح خلق کا ارادہ کرنے والوں کو اکثر جاہلوں کی طرف سے ایذاؤں اور تکلیفوں کا سامنا ہوتا ہے اس لئے آگے ان کو ظلم کے مقابلہ میں انصاف اور برائی کے بدلہ میں بھلائی کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ نیز تجربہ سے ثابت ہے کہ دعوت کے موثر اور کامیاب ہونے کا بھی یہی طریقہ ہے کہ مخالفین کی ایذاؤں پر صبر کر کے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاوے اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا جس میں سب مسلمان ضمناً شامل ہیں کہ) نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی (بلکہ ہر ایک کا اثر جدا ہے اور جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اب) آپ (مع اپنے متبعین کے) نیک برتاؤ سے (بدی کو) ٹال دیا کیجئے پھر یکایک (آپ دیکھیں گے کہ) آپ میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہوجاوے گا جیسا کوئی دلی دوست ہوتا ہے۔ (یعنی بدی کا بدلہ بدی سے دینے میں تو عداوت بڑھتی ہے اور نیکی کرنے سے بشرط سلامت طبع دشمن کی عداوت گھٹتی ہے۔ یہاں تک کہ اکثر تو بالکل ہی عداوت جاتی رہتی ہے اور اس معاملہ میں مثل دوست کے ہوجاتا ہے گو دل سے دوست نہ ہو) اور یہ بات ان ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو (اخلاق کے اعتبار سے) بڑے مستقل (مزاج) ہیں اور یہ بات اسی کو نصیب ہوتی ہے جو (ثواب کے اعتبار سے) بڑا صاحب نصیب ہے اور اگر (ایسے وقت میں) آپ کو شیطان کی طرف سے (غصہ کا) کچھ وسوسہ آنے لگے تو (فوراً ) اللہ سے پناہ مانگ لیا کیجئے، بلاشبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ (بشرط سلامت طبع کی قید سے یہ خدشہ دور ہوگیا کہ بعض اوقات شریر آدمی پر نرمی کرنے کا الٹا اثر ہوتا ہے، کیونکہ یہ صرف ایسے لوگوں سے متحمل ہے جو اپنی سلامت طبع کھو بیٹھتے ہیں اور وہ شاذ ونادر ہوتے ہیں) ۔ معارف ومسائل شروع سورت سے یہاں تک منکرین قرآن اور منکرین رسالت و توحید سے خطاب ہے۔ ان کو حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی نشانیاں پیش نظر کر کے توحید کی دعوت پھر انکار کرنے والوں کا انجام اور عذاب آخرت و دوزخ کا مفصل بیان چلا آیا ہے۔ یہاں سے مومنین و کاملین کے حالات اور دنیا و آخرت میں ان کے اعزازو اکرام کا بیان اور ان کے لئے خاص ہدایات کا ذکر ہے۔ مومنین و کاملین وہی ہوتے ہیں جو خود بھی اپنے اعمال و اخلاق میں مستقیم اور بےکم وکاست بالکل شریعت کے مطابق ہوں اور دوسروں کو بھی اللہ کی طرف دعوت دیں اور ان کی اصلاح کی فکر کریں۔ اسی سلسلہ میں داعیان اسلام کے لئے صبر اور برائی کے بدلہ میں بھلائی کرنے کی ہدایت ہے۔ استقامت کے معنی : پہلے جز کو لفظ استقامت سے تعبیر فرما کر ارشاد ہوا (آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا۔ یعنی جن لوگوں نے سچے دل سے اللہ تعالیٰ کو اپنا رب یقین کرلیا اور اس کا اقرار بھی کرلیا۔ یہ تو اصل ایمان ہوا، آگے اس پر مستقیم بھی رہے یہ عمل صالح ہوا۔ اس طرح ایمان اور عمل صالح کے جامع ہوگئے۔ لفظ استقامت کا جو مفہوم خلاصہ تفسیر میں بیان ہوا ہے کہ ایمان و توحید پر قائم رہے اس کو چھوڑا نہیں۔ یہ تفسیر حضرت صدیق اکبر سے منقول ہے اور تقریباً یہی مضمون حضرت عثمان غنی سے منقول ہے، انہوں نے استقامت کی تفسیر اخلاص عمل سے فرمائی ہے اور حضرت فاروق اعظم نے فرمایا کہ ” استقامت یہ ہے کہ تم اللہ کے تمام احکام، اوامر اور نواہی پر سیدھے جمے رہو، اس سے ادھر ادھر راہ فرار لومڑیوں کی طرح نہ نکالو “۔ اس لئے علماء نے فرمایا کہ استقامت تو ایک لفظ مختصر ہے مگر تمام شرائع اسلامیہ کو جامع ہے جس میں تمام احکام الٰہیہ پر عمل اور تمام محرمات و مکروہات سے اجتناب دائمی طور پر شامل ہے۔ تفسیر کشاف میں ہے کہ انسان کا ربنا اللہ کہنا جبھی صحیح ہوسکتا ہے جبکہ وہ دل سے یقین کرے کہ میں ہر حال اور ہر قدم میں اللہ تعالیٰ کی زیرتربیت ہوں مجھے ایک سانس بھی اس کی رحمت کے بغیر نہیں آسکتا اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان طریق عبادت پر ایسا مضبوط و مستقیم رہے کہ اس کا قلب اور قالب دونوں اس کی عبودیت سے سرمو انحراف نہ کریں۔ اس لئے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی نے یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اسلام کی ایک جامع بات بتلا دیجئے جس کے بعد مجھے کسی سے اور کچھ نہ پوچھنا پڑے تو آپ نے فرمایا، قل امنت باللہ ثم استقم (رواہ مسلم) یعنی تم اللہ پر ایمان لانے کا اقرار کرو، پھر اس پر مستقیم رہو۔ مستقیم رہنے کی ظاہر مراد یہی ہے کہ ایمان پر بھی مضبوطی سے جمے رہو اور اس کے اقتضاء کے مطابق اعمال صالحہ پر بھی۔ اسی لئے حضرت علی اور ابن عباس نے استقامت کی تعریف ادائے فرائض سے فرمائی اور حضرت حسن بصری نے فرمایا : استقامت یہ ہے کہ تمام اعمال میں اللہ کی اطاعت کرو اور اس کی معصیت سے اجتناب کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ استقامت کی جامع تعریف وہی ہے جو اوپر حضرت فاروق اعظم سے نقل کی گئی ہے اور حضرت صدیق اکبر اور حضرت عثمان غنی کی تعریف بھی اسی کی طرف راجع ہے جس میں اعمال صالحہ کے ساتھ اخلاص عمل کی تاکید ہے۔ (تفسیر مظہری) جصاص نے بھی مذکورہ تفسیر کو ابو العالیہ سے نقل کر کے اختیار کیا ہے اور ابن جریر نے بھی۔ (آیت) تَـتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ۔ فرشتوں کا نزول اور وہ خطاب جو اس آیت میں آیا ہے، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ موت کے وقت ہوگا اور قتادہ نے فرمایا کہ محشر میں قبروں سے نکلنے کے وقت ہوگا اور وکیع بن جراح نے فرمایا کہ تین وقتوں میں ہوگا۔ اول موت کے وقت پھر قبروں کے اندر پھر محشر میں قبروں سے اٹھنے کے وقت۔ اور ابوحیان نے بحر محیط میں فرمایا کہ میں تو کہتا ہوں کہ مومنین پر فرشتوں کا نزول ہر روز ہوتا ہے جس کے آثار و برکات ان کے اعمال میں پائے جاتے ہیں۔ البتہ مشاہدہ اور ان کے کلام کا سننا یہ انہیں مواقع میں ہوگا۔ اور ابونعیم نے حضرت ثابت بنانی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے سورة حم السجدہ کی تلاوت فرمائی یہاں تک کہ آیت تـتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ پر پہنچے تو فرمایا کہ ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ مومن جس وقت اپنی قبر سے اٹھے گا تو دو فرشتے جو دنیا میں اس کے ساتھ رہا کرتے تھے وہ ملیں گے اور اس کو کہیں گے کہ تم خوف و غم نہ کرو بلکہ جنت کی بشارت سنو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ان کا کلام سن کر مومن کو اطمینان ہوجائے گا۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝ ٣٠ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سيدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا فرشته الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج/ 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك . ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا } ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

راہ خدا میں استقامت ، قیامت کو کام آئے گی قول باری ہے (ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا۔ بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر وہ اس پر قائم رہے) تاآخر آیت۔ ایک قول کے مطابق موت کے وقت فرشتے ان پر نازل ہوں گے اور کہیں گے کہ ” جس منزل کی طرف تم جارہے ہو اس سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ “ اللہ تعالیٰ ان کا خوف دور کردے گا۔ فرشتے پھر کہیں گے۔ ” دنیا اور دنیا والوں پر غم نہ کرو۔ “ اللہ تعالیٰ ان کا خوف دور کردے گا۔ فرشتے مزید کہیں گے۔ ” تمہیں جنت کی بشارت ہو۔ “ زید بن اسلم سے بھی یہی روایت ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ فرشتے ان سے یہ بات قبر سے نکل کر میدان قیامت میں کھڑے ہونے کے وقت کہیں گے، جب وہ اہوال قیامت کا مشاہدہ کریں گے تو فرشتے ان سے کہیں گے۔ ” نہ ڈرو اور نہ غم کرو، یہ ہولناکیاں تمہارے لئے نہیں ہیں۔ یہ دوسروں کے لئے ہیں۔ “ فرشتے ان سے یہ بھی کہیں گے ” دنیاوی زندگی میں ہم تمہارے دوست اور رفیق رہے۔ “ پھر فرشتے ان سے جدا نہیں ہوں گے تاکہ ان کی مانوسیت ختم نہ ہو یہاں تک کہ یہ لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ ابوالعالیہ نے درج بالا قول باری کی تفسیر میں کہا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے لئے دین کو خالص کرلیا نیز عمل کو بھی اور دعوت الی اللہ کو بھی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اس کے بجائے جو حضرات توحید خداوندی کے قائل ہوگئے اور ایمان پر ثابت قدم رہے اور اس کے بعد کوئی کفریہ کام نہیں کیا یا یہ کہ فرائض کی ادائیگی پر ثابت قدم رہے اور لومڑی کی طرح مکاری اور چالاکی نہیں کی تو ان لوگوں کی روحوں کے قبض کے وقت فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ آئندہ آنے والے ہیولوں سے اندیشہ نہ کرو اور نہ دنیا کے چھوڑنے پر افسوس کرو اور جنت کے ملنے پر خوش رہو جس کا تم سے دنیا میں وعدہ کیا جاتا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ { اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا } ” بیشک وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے “ اللہ پر ایمان لانا آسان ہے مگر اس پر جمے رہنا آسان نہیں ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب انسان کو اللہ پر پوری طرح توکل ّہو ‘ وہ ہر حالت میں اس کی رضا پر راضی رہے۔ نہ اپنی کسی حالت کے بارے میں اس کی زبان پر حرف شکایت آئے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے کسی فیصلے پر اس کے دل میں ملال پیدا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے آگے اس کا سر تسلیم بلا حیل و حجت جھکتا چلا جائے اور وہ اپنے تن من دھن کو ہتھیلی پر رکھے ‘ اس کے درِ اطاعت پر ہمہ وقت کمر بستہ کھڑے رہ کر عملی طور پر ثابت کر دے کہ : { اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ (الانعام) ” یقینا میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے “۔ اس استقامت کی اہمیت ایک حدیث سے بہت اچھی طرح واضح ہوتی ہے۔ حضرت سفیان بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا : ” یارسول اللہ ! مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات بتادیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی اور سے کچھ دریافت کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ “ (یعنی مجھے اسلام کی حقیقت ایک جملے میں بتا دیجیے تاکہ میں اسے گرہ میں باندھ لوں۔ ) جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ ) (١) ” کہو میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر جم جائو ! “ اگر واقعی کوئی شخص غور کرے تو اس استقامت میں اسے قیامت مضمر دکھائی دے گی۔ (واضح رہے کہ استقامت اور قیامت کا سہ حرفی مادہ ایک ہی ہے۔ ) یہ قیامت ہی تو ہے کہ ایک بندہ اللہ تعالیٰ کو نظریاتی طور پر اپنا رب مان لینے کے بعد عملی طور پر ساری دنیا سے بےنیاز ہوجائے اور اپنے ایک ایک عمل سے ثابت کردے کہ میرا پروردگار ‘ میرا حاجت روا ‘ میرا سہارا ‘ میرا مشکل کشا ‘ میرے نفع و نقصان کا مالک صرف اور صرف اللہ ہے۔ دل کا یہ یقین اور عمل کا یہ رنگ گویا چوٹی ہے اس ایمان اور عمل صالح کی جس کا ذکر سورة العصر میں نجاتِ اُخروی کی پہلی دو شرائط کے طور پر اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کے الفاظ میں ہوا ہے۔ اب اگلی آیت میں ان خوش قسمت لوگوں کا اللہ کے ہاں مقام ملاحظہ کیجیے جو اپنی دنیوی زندگی میں ایمان و عمل کی اس چوٹی یعنی استقامت تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں : { تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ } ” ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ آپ لوگ ڈرو نہیں اور غمگین نہ ہو اور خوشیاں منائو اس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے۔ “ فرشتوں کا نزول ان لوگوں پر کب ہوتا ہے ؟ اس حوالے سے یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ موت کے قریب ایسے لوگوں کو خوش آمدید کہنے اور بشارت دینے کے لیے فرشتے نازل ہوتے ہیں ‘ لیکن دنیوی زندگی کے دوران بھی اہل ایمان کی مدد کے لیے فرشتوں کا آنا ثابت ہے۔ جیسے میدانِ بدر میں اہل ِایمان مجاہدین کی مدد کے لیے فرشتے نازل ہوئے : { اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاط } ( الانفال : ١٢) ” (یاد کریں) جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ربّ وحی کر رہا تھا فرشتوں کو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ‘ تو تم (جائو اور) اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو “۔ چناچہ مومنین صادقین پر ملائکہ کا نزول اثنائے حیات میں بھی ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

32 After warning the disbelievers of the consequences of their opposition to the truth and their stubbornness, the address now turns to the believers and the Holy Prophet. 33 That is, they did not call Allah their Lord merely incidentally, nor were they involved in the error to regard Allah as their Lord and at the same time others 'as well as their lords, but they embraced the Faith sincerely and stood by it steadfastly: neither adopted a creed contrary to it later nor mixed it up with a false creed, but they fulfilled the demands of the doctrine of Tauhid in their practical lives as well. "Standing steadfast on Tauhid" has been explained by the Holy Prophet and the eminent Companions thus: Hadrat Anas has reported that the Holy Prophet said: "Many people called Allah their Lord, but most of them became disbelievers. Firm and steadfast is he who remained firm on this creed till his death." (Ibn Jarir, Nasa'i, Ibn Abi Hatim). Hadrat Abu Bakr Siddiq (may Allah be pleased with him) has explained it thus: "Then he did not associate another with Allah: did not attend to any other deity beside Him. " (Ibn Jarir). Hadrat `Umar (may Allah be pleased with him) once recited this verse on the pulpit and said: "By God, the steadfast are those who remained firm on obedience to Allah: did not run about from place to place like foxes." (Ibn Jarir). Hadrat 'Uthman (may Allah be pleased with him) says "Performed his deeds sincerely for the sake of Allah only." (Kashsaf) Hadrat `Ali (may Allah be pleased with him) says: "Performed the duties enjoined by Allah faithfully and obediently." (Kashshaf) 34 It is not necessary that the coming down of the angels may be perceptible, and the believers may see them with the eyes, or hear their voices with the ears. Although Allah also sends the angels openly for whomever He wills, generally their coming down for the believers, especially in hard times when they are being persecuted by the enemies of the Truth, takes place in imperceptible ways and their voices penetrate into the depths of the heart as peace and tranquility instead of just striking the ear-drums. Some commentators have regarded this coming down of the angels as restricted to the time of death or grave, or the Plain of Resurrection. But if the conditions in which these verses were sent ' down arc kept in view there remains no doubt that the real object of stating this thing here is to mention the coming down of the angels on those who struggle with their lives in this world in the cause of the Truth, so that they are consoled and encouraged and they rest assured that they are not helpless but the angels of Allah are at their back. Although the angels also come to receive the believers at the time of death and they also welcome them in the grave (in the state of bearzakh), and They will also accompany them constantly on the Day of Resurrection, from the time Resurrection takes place till their entry into Paradise, yet their company is not particularly restricted to the Hereafter but remains available in this world also. The context clearly shows that in the conflict between the Truth and falsehood just as the worshippers of falsehood are accompanied by the devils and mischievous people, so arc the believers accompanied by the angels. On the one hand, the companions of the worshippers of falsehood show their misdeeds seem fair to them and assure them that the tyrannical and dishonest acts that they are committing arc the very means of their success and through them only will their leadership and dominance remain safe in the world. On the other, the angels come down to the worshippers of the Truth and give them the message that is being mentioned in the following sentences. 35 These are very comprehensive words, which contain a new theme of consolation and peace for the believers, in every stage of life, from the world till the Hereafter. This counsel of the angels in this world means: "No matter' how strong and powerful be the forces of falsehood, you should not be afraid of them, and whatever hardships and deprivations you may have to experience on account of your love of the Truth, you should not grieve on account of them, for ahead there lie in store for you such things against which every blessing of the world is insignificant." When the angels say the same words at the time of death, they mean this: "There is no cause of fear for you in the destination you are heading for, for Paradise awaits you there, and you have no cause of grief for those whom you are leaving behind in the world, for we are your guardians and companions here." When the angels will say these very words in the intermediary state between death and Resurrection and in the Plain of Resurrection, they will mean: `Here, there is nothing but peace for you. Do not grieve for the hardships you had to suffer in the world, and do not fear what you are going to face in the Hereafter, for we are giving you the good news of Paradise, which used to be promised to you in the world. "

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :32 یہاں تک کفار کو ان کی ہٹ دھرمی اور مخالفت حق کے نتائج پر متنبہ کرنے کے بعد اب اہل ایمان اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روئے سخن مڑتا ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :33 یعنی محض اتفاقاً کبھی اللہ کو اپنا رب کہتے بھی جائیں اور ساتھ ساتھ دوسروں کو اپنا رب بناتے بھی جائیں ، بلکہ ایک مرتبہ یہ عقیدہ قبول کر لینے کے بعد پھر ساری عمر اس پر قائم رہے ، اس کے خلاف کوئی دوسرا عقیدہ اختیار نہ کیا ، نہ اس عقیدے کے ساتھ کسی باطل عقیدے کی آمیزش کی ، اور اپنی عملی زندگی میں بھی عقیدہ توحید کے تقاضوں کو پورا کرتے رہے ۔ توحید پر استقامت کا مفہوم کیا ہے ، اس کی تشریح نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اور اکابر صحابہ نے اس طرح کی ہے : حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قد قالھا الناس ثم کفر اکثرھم ، فمن مات علیھا فھو ممن استقام ۔ بہت سے لوگوں نے اللہ کو اپنا رب کہا ، مگر ان میں سے اکثر کافر ہو گئے ۔ ثابت قدم وہ شخص ہے جو مرتے دم تک اسی عقیدے پر جما رہا ( ابن جریر ، نسائی ابن ابی حتم ) ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں : لم یشرکوا باللہ شیئاً ، لَمْ یَلتفتوا الٰی الٰہٍ غیرہ ۔ پھر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا ، اس کے سوا کسی دوسرے معبود کی طرف توجہ نہ کی ( ابن جریر ) ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ منبر پر یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا ، خدا کی قسم ، استقامت اختیار کرنے والے وہ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو گئے ، لومڑیوں کی طرح اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر دوڑتے نہ پھرے ( ابن جریر ) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اپنے عمل کو اللہ کے لیے خالص کر لیا ( کشاف ) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللہ کے عقائد کردہ فرائض فرمانبرداری کے ساتھ ادا کرتے رہے ( کشاف ) سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :34 فرشتوں کا یہ نزول ضروری نہیں ہے کہ کسی محسوس صورت میں ہو اور اہل ایمان انہیں آنکھوں سے دیکھیں یا ان کی آواز کانوں سے سنیں ۔ اگرچہ اللہ جل شانہ جس کے لیے چاہے فرشتوں کو علانیہ بھی بھیج دیتا ہے ، لیکن بالعموم اہل ایمان پر ، خصوصاً سخت وقتوں میں جبکہ دشمنان حق کے ہاتھوں وہ بہت تنگ ہو رہے ہوں ، ان کا نزول غیر محسوس طریقہ سے ہوتا ہے ، اور ان کی باتیں کان کے پردوں سے ٹکرانے کے بجائے دل کی گہرائیوں میں سکینت و اطمینان قلب بن کر اترتی ہیں ۔ بعض مفسرین نے فرشتوں کے اس نزول کو موت کے وقت ، یا قبر ، یا میدان حشر کے لیے مخصوص سمجھا ہے ۔ لیکن اگر ان حالات پر غور کیا جائے جن میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں ، تو اس میں کچھ شک نہیں رہتا کہ یہاں اس معاملہ کو بیان کرنے کا اصل مقصد اس زندگی میں دین حق کی سر بلندی کے لیے جانیں لڑانے والوں پر فرشتوں کے نزول کا ذکر کرنا ہے ، تاکہ انہیں تسکین حاصل ہو ، اور ان کی ہمت بندھے ، اور ان کے دل اس احساس سے مطمئن ہو جائیں کہ وہ بے یار و مدد گار نہیں ہیں بلکہ اللہ کے فرشتے ان کے ساتھ ہیں ۔ اگرچہ فرشتے موت کے وقت بھی اہل ایمان کا استقبال کرنے آتے ہیں ، اور قبر ( عالم برزخ ) میں بھی وہ ان کی پذیرائی کرتے ہیں ، اور جس روز قیامت قائم ہو گی اس روز بھی ابتدائے حشر سے جنت میں پہنچنے تک وہ برابر ان کے ساتھ لگے رہیں گے ، لیکن ان کی یہ معیت اسی عالم کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی وہ جاری ہے ۔ سلسلہ کلام صاف بتا رہا ہے کہ حق و باطل کی کشمکش میں جس طرح باطل پرستوں کے ساتھی شیاطین و اشرار ہوتے ہیں اسی طرح اہل ایمان کے ساتھی فرشتے ہوا کرتے ہیں ۔ ایک طرف باطل پرستوں کو ان کے ساتھی ان کے کرتوت خوشنما بنا کر دکھاتے ہیں اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ حق کو نیچا دکھانے کے لیے جو ظلم و ستم اور بے ایمانیاں تم کر رہے ہو ، یہی تمہاری کامیابی کے ذرائع ہیں اور انہی سے دنیا میں تمہاری سرداری محفوظ رہے گی ۔ دوسرے طرف حق پرستوں کے پاس اللہ کے فرشتے آ کر وہ پیغام دیتے ہیں جو آگے کے فقروں میں ارشاد ہو رہا ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :35 یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جو دنیا سے لے کر آخرت تک ہر مرحلے میں اہل ایمان کے لیے تسکین کا ایک نیا مضمون اپنے اندر رکھتے ہیں ۔ اس دنیا میں فرشتوں کی اس تلقین کا مطلب یہ ہے کہ باطل کی طاقتیں خواہ کتنی ہی بالا دست اور چیرہ دست ہوں ، ان سے ہرگز خوف زدہ نہ ہو اور حق پرستی کی وجہ سے جو تکلیفیں اور محرومیاں بھی تمہیں سہنی پڑیں ، ان پر کوئی رنج نہ کرو ، کیونکہ آگے تمہارے لیے وہ کچھ ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی ہر نعمت ہیچ ہے ۔ یہی کلمات جب موت کے وقت فرشتے کہتے ہیں تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آگے جس منزل کی طرف تم جا رہے ہو وہاں تمہارے لیے کوئی خوف کا مقام نہیں ، کیونکہ وہاں جنت تمہاری منتظر ہے ، اور دنیا میں جن کو تم چھوڑ کر جا رہے ہو ان کے لیے تمہیں رنجیدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ، کیونکہ یہاں ہم تمہارے لیے چین ہی چین ہے ، دنیا کی زندگی میں جو حالات تم پر گزرے ان کا غم نہ کرو اور آخرت میں جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کا خوف نہ کھاؤ ، اس لیے کہ ہم تمہیں اس جنت کی بشارت دے رہے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:30) ثم استقاموا : ثم تراخی وقت کے لئے بھی ہوسکتا ہے (التراخی الزمانی) کہ اقرار باللسان کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ استقامت میں بھی برقرار رہے۔ اور التراخی الرتبی کے لئے بھی ہوسکتا ہے کہ استقامت بہ نسبت اقرار باللسان کے زیادہ بلند اور مشکل امر ہے۔ یعنی زبانی اقرار کے بعد مسلسل اپنے قول اور فعل اور فرائض کی ادائیگی سے اس اقرار کو مستقل اور ثابت رکھے۔ استقاموا۔ ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ استقامۃ (استفعال) مصدر وہ ثابت قدم رہے۔ وہ قائم رہے ای ثبتوا علی الاقرار ولم یرجعوا الی التشرک یعنی اپنے اقرار پر ثابت قدم رہے اور شرک کی طرف دوبارہ نہ مڑے۔ حدیث شریف میں ہے قل ربی اللّٰہ تعالیٰ ثم استقم : کہو اللہ تعالیٰ میرا پروردگار ہے اور پھر اس پر قائم رہو۔ تتنزل علیہم : تتنزل مضارع واحد مؤنث غائب وہ (فرشتوں کی جماعت) اترتی ہے۔ نازل ہوتی ہے تنزل (تفعل) مصدر سے جس کے معنی اترنے کے ہیں۔ الا مرکب ہے ان اور لا سے یہاں (1) ان مفسرہ ہے کیونکہ تتنزل کے اندر قول کا معنی پوشیدہ ہے۔ (2) یہاں ان مصدریہ ہے یعنی امر آخرت جو تمہارے سامنے آرہا ہے اس کا اندیشہ نہ کرو۔ لا ہر دو صورت میں نافیہ ہے۔ لا تخافوا۔ تم مت ڈرو۔ ولا تحزنوا اور تم غم مت کرو۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ ابشروا فعل امر جمع مذکر حاضر ابشار (افعال) مصدر سے جس کے معنی بشارت پانے کے ہیں۔ تم کو خوشخبری ہو۔ توعدون : مضارع مجہول جمع مذکر حاضر۔ وعد مصدر۔ کنتم سے اس کے معنی ماضی استمراری کے ہوگئے۔ یعنی (جس جنت کا) تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ایۃ میں ان حرف مشبہ بالفعل۔ الذین اسم ام اور تتنزل خبر ان۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 جمہور صحابہ (رض) وتابعین کے نزدیک ” سقامۃ “ سے مراد خلوص عمل اور عقیدہ توحید پر ثبات ہے۔6 یعنی موت یا قبر یا قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرو نہیں اور نہ دنیا کے مال و متاع اور اولاد کے چھوٹ جانے پر افسوس کرو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ مطلب یہ کہ شرک سے تبری کر کے توحید اختیار کرلی۔ 5۔ یعنی اس کو چھوڑا نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کے مقابلے میں موحّدوں کے ساتھ ملائکہ کا سلوک اور ان کا اکرام۔ جن لوگوں نے کہا کہ ہمار رب ” اللہ “ ہے پھر اس پر مرتے دم تک قائم رہے۔ ان کی موت کے وقت ان کے لیے ملائکہ آتے ہیں جو انہیں تسلی دیتے ہیں کہ غمگین اور پریشان نہیں ہونا۔ بلکہ اس جنت کے ساتھ خوش ہوجاؤ جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں تمہارے ساتھ تھے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھ رہیں گے۔ تمہارے لیے تمہارے رب کی طرف سے وہ سب کچھ ہے جو تمہارا دل چاہے گا اور تمہارے رب کے ہاں تمہاری مہمان نوازی ہوگی۔ ” رَبُّنَا اللّٰہُ “ سے مراد یہ نہیں کہ بس انہوں نے ایک مرتبہ کہہ دیا کہ ہمارا رب ” اللہ “ ہے اور پھر اپنی مرضی کرتے رہے۔ اس کا معنٰی ہے کہ انہوں نے دل کی سچائی اور کردار کی گواہی سے مرتے دم تک ثابت کر دکھایا کہ واقعی ہمارا خالق، مالک، رازق اور حقیقی حکمران صرف ایک ” اللہ “ ہے، ہم اسی کے بندے اور غلام ہیں۔ ہمارا مال، جان، عزت و اقبال اسی کا دیا ہوا ہے اور اسی کے نام اور کام پر قربان ہوگا۔ جسے دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے۔” فرما دیجیے کہ بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت ” اللہ “ کے لیے ہے جو جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی بات حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے حکم ماننے والوں میں ہوجاؤں۔ فرما دیجیے کہ کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں ؟ حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے۔ “ (الانعام : ١٦٢ تا ١٢٤) ( الم اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ ) [ العنکبوت : ١ تا ٣] ” الف۔ لام۔ میم۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے ہیں اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا۔ حالانکہ ہم ان سے پہلے لوگوں کی آزمائش کرچکے ہیں۔ اللہ ضرور دیکھے گا کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں۔ “ (عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ الثَّقَفِی ِّ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قُلْ لِی فِی الإِسْلاَمِ قَوْلاً لاَ أَسْأَلُ عَنْہُ أَحَدًا بَعْدَکَ وَفِی حَدِیثِ أَبِی أُسَامَۃَ غَیْرَکَ قَالَ قُلْ آمَنْتُ باللَّہِ فَاسْتَقِمْ )[ رواہ الترمذی : کتاب الایمان، باب جامِعِ أَوْصَافِ الإِسْلاَمِ ] ” حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے اسلام کے بارے میں کوئی ایسی بات بتائیں جو مجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ابو اسامہ کی روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کسی سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ آپ نے فرمایا تو کہہ ! میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر استقامت اختیار کر ! “ (عَنْ وَّھْبِ ابْنِ مُنَبِِِِّۃٍ قِےْلَ لَہٗ اَلَےْسَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مِفْتَاحُ الْجَنَّۃِ قَالَ بَلٰی وَلٰکِنْ لَّےْسَ مِفْتَاحٌ اِلَّا وَلَہٗٓ اَسْنَانٌ فَاِنْ جِءْتَ بِمِفْتَاحٍ لَّہٗٓ اَسْنَانٌ فُتِحَ لَکَ )[ رواہ البخاری فی ترجمۃ الباب ] ” حضرت وہب بن منبہ (رض) سے کسی نے یہ سوال کیا کیا لا الہ الا اللہ جنت کی چابی نہیں ہے ؟ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں ؟ لیکن ہر چابی کے دندانے (پیچ) ہوا کرتے ہیں اگر تو پیچ دار چابی سے تالا کھولے گا تو کھل سکتا ہے (بصورت دیگر تیرے لیے دروازہ نہیں کھل سکتا۔ ) “ استقامت کی دعا : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُکْثِرُ أَنْ یَّقُوْلَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اٰمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِءْتَ بِہٖ فَھَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوْبَ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللّٰہِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَآءُ ) [ رواہ الترمذی : کتاب القدر، باب ماجاء أن القلوب ...] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر دعا کرتے۔ اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھنا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! ہم آپ پر اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لائے۔ کیا آپ ہمارے بارے میں بھی خطرہ محسوس کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جیسے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَقُوْلُ یَا وَلِیَ الإِْسْلَامِ وَأَہْلِہٖ ثَبِّتْنِیْ حَتّٰی أَلْقَاکَ ) [ رواہ الطبرانی : فی الأوسط وہوحدیث صحیح ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کرتے تھے کہ اے سلامتی کے مالک اور اس کے اہل ! مجھے اسلام پر ثابت قدم رکھ۔ یہاں تک کہ تجھ سے آملوں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد عقیدہ توحید پر استقامت اختیار کرنی چاہیے۔ ٢۔ جو لوگ عقیدۃ توحید پر جم جاتے ہیں ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ ٣۔ صراط مستقیم پر گامزن رہنے والوں کو فرشتے تسلی اور جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن دین پر استقامت اختیار کرنے والوں کی جزا : ١۔ ایمان لانے کے بعد استقامت دکھلانے والوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (الاحقاف : ١٣) ٢۔ مومنوں کی استقامت دیکھ کر شیطان خود ڈر جاتا ہے۔ (الانفال : ٤٨) ٣۔ اللہ کی توحید پر استقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور وہ انہیں خوشخبری دیتے ہوئے کہتے ہیں غم وحزن میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں تمہارے لیے جنت ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ ( حٰم السجدۃ : ٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یعنی اللہ کو اپنا رب کہہ کر ، استقامت کے یہ معنی ہیں کہ اس اقرار کے تقاضے پورے کئے جائیں جس طرح ان کا حق ہے۔ ضمیر میں شعور طور پر یہ عقیدہ بیٹھا ہوا ہو ، زندگی اور عمل میں اس پر گامزن ہو ، اس راہ میں اگر تکالیف آئیں تو ان کو برداشت کرے۔ اس معنے میں یہ دراصل بہت بڑا حکم ہے اور بھاری ذمہ داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے ہاں پھر اس کا بہت بڑا اجر ہے کہ ملائکہ ان پر نازل ہوں گے اور ان کے ہمدم ہوں گے۔ ان کے دوست ہوں گے اور وہ جو باتیں کریں گے اللہ نے ان فرشتوں کی زبانی ان کو نقل کیا ہے۔ الا تخافوا (٤١ : ٣٠) ” نہ ڈرو “ ولا تحزنوا (٤١ : ٣٠) ” نہ غم کرو “۔ اور اس جنت کے لیے خوش ہوجاؤ۔ بشارت ہے تم کو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی۔ اس کے بعد یہ فرشتے پھر ان کے سامنے اس جنت کی تصویر کھینچتے ہیں جو انہیں ملنے والی ہے کہ ” وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے ، تمہاری ہوگی “۔۔۔۔ پھر وہ مزید حسن و جمال اور عزت و استقبال کا ذکر کرتے ہیں : ” یہ ہے سامان ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور و رحیم ہے “ ۔ یعنی یہ اللہ نے تمہاری ضیافت اور مہمانی کے لئے تیار کیا ہے۔ اب ان نعمتوں کے بعد اور کیا رہ جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل استقامت کو بشارت اس کے بعد اہل ایمان کی فضیلت بیان فرمائی اور ان کی اجمالی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا، ارشاد فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور پھر ایمان پر جمے رہے یعنی اس کے تقاضوں کو پورا کرتے رہے ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان کو بشارت دیتے ہیں کہ تم خوف نہ کرو اور رنج نہ کرو اور جنت کی خوشخبری سن لو جس کا تم سے اللہ کے نبی نے اور اللہ کی کتاب نے وعدہ کیا ہے۔ فرشتوں کے جس نزول اور بشارت کا ذکر ہے اس کا وقوع کب ہوتا ہے ؟ صاحب روح المعانی نے حضرت زید بن اسلم تابعی (رح) سے نقل کیا ہے کہ موت کے وقت اور قبر میں نازل ہوتے وقت فرشتے آتے ہیں اور مذکورہ بالا بشارت دیتے ہیں اور قیامت کے دن جب قبروں سے اٹھائے جائیں گے اس وقت بھی فرشتے یہ بشارت دیں گے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ بشارت مذکورہ بالا تینوں احوال کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ عام حالات میں بھی اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا رہتا ہے کہ فرشتے بطریقہ الہام ان کے دلوں میں سکون اور اطمینان کا القاء کرتے رہتے ہیں جس سے وہ اور زیادہ خیر کے کاموں میں آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ حضرت عطاء بن ابی رباح (رح) نے فرمایا کہ (اَلَّا تَخَافُوْا) کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری نیکیاں مقبول ہیں یہ خوف نہ کرو کہ وہ رد کردی جائیں گی اور (وَلاَ تَحْزَنُوْا) کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں کے بارے میں رنجیدہ مت ہو وہ بخش دئیے جائیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

30:۔ ” ان الذین قالوا “ تخویف منکرین کے بعد مؤمنین کے لیے بشارت اخروی ہے۔ جن لوگوں نے اللہ کی وحدانیت اور اس کی ربوبیت کا اعتراف کیا اور پھر اسی پر قائم رہے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا۔ اخلاص و احسان کے ساتھ اس کی اطاعت (اور اداء فرائض واجتناب محرمات) پر گامزن رہے اور ترک اطاعت کیلئے حیلے بہانے تلاش نہ کیے۔ عن ابی بکر الصدیق (رض) انہ قال ثم استقاموا لم یشرکوا باللہ شیئا۔ عن عمر (رض) اسقتقاموا واللہ علی الطریقۃ لطاعتہ ثم لم یرو غواروغان الثعالب وقال عثمان (رض) ثم اخلصو العمل للہ وقال علی (رض) ثم ادوا الفرائض (قرطبی ج 15 ص 358) ۔ 31 ۔ ” تتنزل “ قیامت کے دن اللہ کی طرف سے فرشتے انہیں خوشخبری سنائیں گے کہ آج تمہیں کوئی خوف اور غم نہیں۔ تمہیں وہ باغ بہشت مبارک ہو جس کا تمہیں دنیا میں وعدہ کیا گیا تھا۔ ” نحن اولیاء کم “ یہ بھی فرشتوں کا کلام ہے۔ دنیا اور آخرت میں ہم تمہارے قرین اور ساتھی ہیں۔ دنیا میں بھی تمہارے ساتھ رہے اللہ کے حکم سے تمہاری نگہبانی کرتے رہے۔ تمہیں نیک کاموں کی طرف مائل کرتے اور تمہارے اعمال کو نوٹ کرتے رہے۔ اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھ ہوں گے پلصراط پر، میدانِ حشر میں اور جنت میں۔ جنت میں تمہیں ہر وہ نعمت میسر ہوگی۔ جس کی تمہارے دل میں خواہش ہو اور جو منہ سے مانگو گے، فورًا حاضر ہوگا۔ یہ سب کچھ معاف کرنے والے مہربان خدا کی مہمانی ہوگی۔ بھلا پھر وہاں کس چیز کی کمی ہوسکتی ہے ؟۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) بلا شبہ جن لوگوں نے اس امر کا اقرار کیا اور یوں کہا کہ پروردگار ہمارا اللہ تعالیٰ ہے پھر اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہے تو ایسے لوگوں پر فرشتے اترتے ہیں کہ آئندہ آنے والی چیزوں سے خوف نہ کرو اور نہ پچھلی چیزوں کا کچھ غم کرو اور چھوڑی ہوئی چیزوں پر غمگین نہ ہو اور تم اس جنت کی بشارت پر خوش ہو جس کا تم کو وعدہ دیا گیا ہے یعنی اوپر کی آیتوں میں دین حق کے منکروں کا ذکر تھا اور ان کے افعال شنیعہ کا بیان تھا۔ اس آیت میں مسلمانوں کا ذکر ہے کہ جنہوں نے توحید کا اقرار کیا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کرتے رہے تو ایسے لوگوں پر فرشتے اترتے ہیں یعنی مرتے وقت اور قبر میں اور قبروں سے دوبارہ زندہ ہوتے وقت یہ تین وقت فرشتوں کے آنے کا ہے جو یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ جو چیزیں آئندہ تم کو پیش آنے والی ہیں ان کا بالکل خوف نہ کرو اور ہم جو چیزیں دنیا میں چھوڑ کر آئے ہو مثلاً مال اور اولاد وغیرہ ان کا غم نہ کرو اور جس جنت کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے اس کے حصول پر خوش ہو یعنی وہ حاصل ہونے والی ہی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا تم ثم استقم کے کیا معنی سمجھتے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا توحید کا اعلان کرنے کے بعد کوئی گناہ نہ کرے آپ نے فرمایا تم دین کو ایک مشکل بات پر حمل کیا لوگوں نے کہا آپ اس کا مطلب بیان کیجئے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا توحید کا اقرار کرنے کے بعد پھر بت پرستی اور شرک کو اختیار نہ کیا حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ توحید قبول کرنے کے بعد منافقت اختیار نہ کی۔