Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 36

سورة حم السجدہ

وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۳۶﴾

And if there comes to you from Satan an evil suggestion, then seek refuge in Allah . Indeed, He is the Hearing, the Knowing.

اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو یقیناً وہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ... And if an evil whisper from Shaytan tries to turn you away, then seek refuge in Allah. means, the devils among men may be deceived by your kind treatment of him, but the devils among the Jinn, when they insinuate their evil whispers, cannot be dealt with except by seeking refuge with the Creator Who gave him power over you. If you seek refuge with Allah and turn to Him, He will stop him from harming you and bring his efforts to naught. When the Messenger of Allah stood up to pray, he would say: أَعُوذُ بِاللهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِه I seek refuge in Allah the All-Hearing, All-Knowing, from the accursed Shaytan and his evil insinuations, breath and impurity." We have already stated that there is nothing like this in the Qur'an, apart from the passage in Surah Al-A`raf, where Allah says: خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِض عَنِ الْجَـهِلِينَ وَإِمَّا يَنَزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَـنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ Show forgiveness, enjoin what is good, and turn away from the foolish. And if an evil whisper comes to you from Shaytan, then seek refuge with Allah. Verily, He is All-Hearer, All-Knower. (7:199-200) and the passage in Surah Al-Mu'minun where Allah says: ادْفَعْ بِالَّتِى هِىَ أَحْسَنُ السَّيِّيَةَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ وَقُلْ رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيـطِينِ وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحْضُرُونِ Repel evil with that which is better. We are Best-Acquainted with the things they utter. And say: "My Lord! I seek refuge with You from the whisperings of the Shayatin. And I seek refuge with You, My Lord! lest they should come near me." (23:96-98) ... إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ Verily, He is the All-Hearer, the All-Knower.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 یعنی شیطان، شریعت کے کام سے پھیرنا چاہے یا احسن طریقے سے برائی کے دفع کرنے میں رکاوٹ ڈالے تو اس کے شر سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ 36۔ 2 اور جو ایسا ہو یعنی ہر ایک کی سننے والا اور ہر بات کو جاننے والا، وہی پناہ کے طلب گاروں کو پناہ دے سکتا ہے۔ اس کے بعد اب پھر بعض ان نشانیوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو اللہ کی توحید، اس کی قدرت کاملہ اور اس کی قوت تصرف پر دلالت کرتی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٤] برائی پر غصہ سے بھڑک اٹھنا شیطانی انگیخت ہے :۔ یعنی جب کوئی شخص برائی کرے اور انسان غصہ سے بھڑک اٹھے اور بدلہ لینے پر تیار ہوجائے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ یہ شیطانی انگیخت ہے۔ شیطان اسے یہ پٹی پڑھاتا ہے کہ اس قسم کی بےعزتی کو ہرگز برداشت نہ کرنا چاہئے۔ پھر وہ اسے انتقام لینے پر آمادہ کردیتا ہے۔ ایسی صورت حال پیش آئے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیجئے اور شیطان مردود سے، جو اس بات کا محرک بنا تھا، اللہ کی پناہ میں آجائیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کی حرکات و سکنات کو بھی دیکھ رہا ہے اور تمہارے احوال سے بھی خوب واقف ہے لہذا وہ خود ہی تمہاری چارا جوئی فرمائے گا۔ [٤٥] غصہ کا علاج :۔ سیدنا سلیمان بن صُرَد کہتے ہیں کہ ایک دفعہ دو آدمیوں نے رسول اللہ کے سامنے گالی گلوچ کی اور ایک کو اتنا غصہ آیا کہ اس کا چہرہ پھول گیا۔ اور رنگ بدل گیا آپ نے فرمایا : && مجھے ایک ایساکلمہ معلوم ہے۔ اگر غصہ کرنے والا شخص وہ کلمہ کہے تو اس کا غصہ جاتا رہتا ہے۔ && ایک دوسرا شخص اس کے پاس گیا اور آپ نے جو فرمایا تھا اسے اس کی خبر دی اور کہا : && شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ && وہ کہنے لگا کیا تم نے مجھے دیوانہ سمجھ لیا ہے یا مجھے کوئی روگ ہوگیا ہے ؟ && (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب ما ینہی من السباب واللعن) حالانکہ اس کا یہ جواب ہی دیوانگی کی علامت ہے۔ غصہ میں انسان کی عقل پر جذبات غالب آجاتے ہیں۔ اور عقل جاتی رہتی ہے اور دیوانہ بھی اسے کہتے ہیں جس میں عقل نہ ہو۔ رہا یہ سوال کہ وہ کلمہ کون سا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اللہ سے پناہ مانگے یا ( أعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیطْنِ الرَّجِیْمِ ) کہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

واما ینزغنک من الشیطن نزع … ” نزع “ کا لفظی معنی ” کسی سوئی یا نوک دار چیز کے ساتھ چوکا مارنا “ ہے، مراد شیطان کا غصہ دلا کر برانگیختہ کردینا ہے۔ اس آیت کی تفسیر سورة اعراف (٢٠٠) اور سورة مومنوں (٩٦ تا ٩٨) میں گزر چکی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝ ٣٦ نزع نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی: وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] ( ن زع ) نزع الشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کام ن کو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف/ 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو عوذ العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ع و ذ) العوذ ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اگر ابو جہل کی سختیوں کی وجہ سے شیطان کی طرف سے غصہ کا کچھ خیال آنے لگے تو اس شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لیا کیجیے وہ ابو جہل کی باتوں کو سننے والا اور اس کی سزا سے باخبر ہے یا یہ کہ آپ کے استفادہ کو سننے والا اور وسوسہ شیطان کو جاننے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦{ وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ } ” اور اگر کبھی تمہیں شیطان کی طرف سے کوئی چوک لگنے لگے تو اللہ کی پناہ طلب کرلیا کرو۔ “ اگر کبھی کسی کے ناروا سلوک اور مخالفانہ رویے پر غصہ آجائے تو فوراً سمجھ لو کہ یہ شیطان کی اکساہٹ ہے ‘ شیطان تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے۔ چناچہ ایسی کیفیت میں فوراً اللہ کی پناہ طلب کرلیا کرو ‘ کیونکہ صرف اسی کی پناہ میں آکر تم شیطان کے وار سے بچ سکتے ہو۔ { اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ } ” یقینا وہی ہے سب کچھ سننے والا ‘ سب کچھ جاننے والا۔ “ یہ آیت سورة الاعراف (آیت ٢٠٠) میں بھی آچکی ہے۔ وہاں { اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ} کے الفاظ ہیں۔ گویا یہاں اللہ تعالیٰ کی مذکورہ صفات (السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ) کے بارے میں زیادہ زور اور تاکید کا انداز پایا جاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

40 Satan feels grieved when he sees that in the conflict between the Truth and falsehood meanness is being resisted with nobility and evil with goodness. He wants that he should somehow incite the fighters for the sake of the Truth and their prominent men in particular, and especially their leaders, to commit such a mistake, even if once, on the basis of which he may tell the common people that evil is not being committed by one side only: if mean acts are being committed by one side, the people of the other side also are not morally any better: they too have committed such and such a shameless act. The common people do not have the capability that they may assess and counterbalance fairly the excesses being committed by one party by the reactions of the other. As long as they sec that while the opponents ate adopting every mean act yet these people do not swerve at All from the path of decency and nobility, goodness and righteousness, they continue to regard and esteem them highly. But if at some time they happen to commit an unworthy act, even if it is in retaliation against a grave injustice, both the sides become equal in their esteem, and the opponents also get an excuse to counter one blameable act with a thousand abuses. That is why it has been said: 'Be on your guard against the deceptions of Satan. He will incite you as a wellwisher to take note of every abuse and every insult and attack and urge you to pay the opponent in the same coin, otherwise you would be regarded as a coward and weaken your image of strength. " On every such occasion whenever you feel any undue provocation, you should take care that this is an incitement of Satan who is arousing you to anger and wants you to commit a mistake. And after having been warned do not be involved in the misunderstanding that you have full control over yourself, and Satan cannot make you commit any mistake. This high opinion of ones own power of judgement and will is another and more dangerous deception of Satan. Instead of it you should seek Allah's refuge, for man can save himself from mistakes only if Allah helps and grants him protection. The beat commentary of this subject is the event which Imam Ahmad has related in his Musnad on the authority of Hadrat Abu Hurairah. He says that once a man started uttering invectives against Hadrat Abu Bakr, in the presence of the Holy Prophet. Hadrat Abu Bakr kept on hearing the invectives quietly and the Holy Prophet kept on smiling at it. At last, whcn Hadrat Abu Bakr could restrain himself no longer, he also uttered a harsh word for the person in response. No sooner did he utter the word than the Holy Prophet was seized by restraint, which appeared on his face, and he rose and left the place immediately. Hadrat Abu Bakr also rose and went behind him. On the way he asked, 'How is it that as long as the person went on abusing me, you kept quiet and smiling, but whcn I also said a word in retaliation, you were annoyed" The Holy Prophet replied, "Until you were quiet an angel remained with you, who went on replying to him on your behalf, but when you spoke out Satan came in place of the angel: I could not sit with Satan. " 41 After seeking Allah's refuge against the storm of opposition, the thing that brings patience and peace and tranquillity to the heart of the believer is this conviction: "Allah is not unaware: He knows whatever we arc doing as well as that which is being done against us. He is hearing whatever we and our opponents utter and watches the conduct of both of us." On the basis of this very conviction the believer entrusts his own and the opponents of the truth's affair to Allah and remains satisfied. ' This is the fifth place where the Holy Prophet and, through him, the believers have been taught this wisdom of preaching and reforming the people. For the other four places, see AI-A'raf: 199-204, An-Nahl: 125-128, Al Mu'minun: 96-98, Al-'Ankabut: 46-47 and the E.N.'s.

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :40 شیطان کو سخت تشویش لاحق ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں کمینگی کا مقابلہ شرافت کے ساتھ اور بدی کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک ہی مرتبہ سہی ، حق کے لیے لڑنے والوں ، اور خصوصاً ان کے سربر آوردہ لوگوں ، اور سب سے بڑھ کر ان کے رہنما سے کوئی ایسی غلطی کرا دے جس کی بنا پر عامۃ الناس سے یہ کہا جاسکے کہ دیکھیے صاحب ، برائی یک طرفہ نہیں ہے ، ایک طرف سے اگر گھٹیا حرکتیں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف کے لوگ بھی کچھ بہت اونچے درجے کے انسان نہیں ہیں ، فلاں رکیک حرکت تو آخر انہوں نے بھی کی ہے ۔ عامۃ الناس میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ٹھیک انصاف کے ساتھ ایک طرف کی زیادتیوں اور دوسرے طرف کی جوابی کاروائی کے درمیان موازنہ کر سکیں ۔ وہ جب تک یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ مخالفین ہر طرح کی ذلیل حرکتیں کر رہے ہیں مگر یہ لوگ شائستگی و شرافت اور نیکی و راستبازی کے راستے سے ذرا نہیں ہٹتے ، اس وقت تک وہ ان کا گہرا اثر قبول کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن اگر کہیں ان کی طرف سے کوئی بے جا حرکت ، یا ان کے مرتبے سے گری ہوئی حرکت سرزد ہو جائے ، خواہ وہ کسی بڑی زیادتی کے جواب ہی میں کیوں نہ ہو ، تو ان کی نگاہ میں دونوں برابر ہو جاتے ہیں ، اور مخالفین کو بھی ایک سخت بات کا جواب ہزار گالیوں سے دینے کا بہانا مل جاتا ہے ۔ اسی بنا پر ارشاد ہوا کہ شیطان کے فریب سے چوکنے رہو ۔ وہ بڑا درد مند و خیر خواہ بن کر تمہیں اشتعال دلائے گا کہ فلاں زیادتی تو ہرگز برداشت نہ کی جانی چاہیے ، اور فلاں بات کا تو منہ توڑ جواب دیا جانا چاہیے ، اور اس حملے کے جواب میں تو لڑ جانا چاہیے ورنہ تمہیں بزدل سمجھا جائے گا اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔ ایسے ہر موقع پر جب تمہیں اپنے اندر اس طرح کا کوئی نامناسب اشتعال محسوس ہو تو خبردار ہو جاؤ کہ یہ شیطان کی اکساہٹ ہے جو غصہ دلا کر تم سے کوئی غلطی کرانا چاہتا ہے ۔ اور خبردار ہو جانے کے بعد اس زعم میں نہ مبتلا ہو جاؤ کہ میں اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہوں ، شیطان مجھ سے کوئی غلطی نہیں کرا سکتا ۔ یہ اپنی قوت فیصلہ اور قوت ارادی کا زعم شیطان کا دوسرا اور زیادہ خطرناک فریب ہو گا ۔ اس کے بجائے تم کو خدا سے پناہ مانگنی چاہیے ، کیونکہ وہی توفیق دے اور حفاظت کرے تو آدمی غلطیوں سے بچ سکتا ہے ۔ اس مقام کی بہترین تفسیر وہ واقعہ ہے جو امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت ابوہریرہ سے نقل کیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بے تحاشا گالیاں دینے لگا ۔ حضرت ابو بکر خاموشی کے ساتھ اس کی گالیاں سنتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکراتے رہے ۔ آخر کار جناب صدیق کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور انہوں نے بھی جواب میں اسے ایک سخت بات کہہ دی ۔ ان کی زبان سے وہ بات نکلتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید انقباض طاری ہوا جو چہرہ مبارک پر نمایاں ہونے لگا اور آپ فوراً اٹھ کر تشریف لے گئے ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی اٹھ کر آپ کے پیچھے ہو لیے اور راستے میں عرض کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے ، وہ مجھے گالیاں دیتا رہا اور آپ خاموش مسکراتے رہے ، مگر جب میں نے اسے جواب دیا تو آپ ناراض ہو گئے؟ فرمایا جب تک تم خاموش تھے ، ایک فرشتہ تمہارے ساتھ رہا اور تمہاری طرف سے اس کو جواب دیتا رہا ، مگر جب تم بول پڑے تو فرشتے کی جگہ شیطان آ گیا ۔ میں شیطان کے ساتھ تو نہیں بیٹھ سکتا تھا ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :41 مخالفتوں کے طوفان میں اللہ کی پناہ مانگ لینے کے بعد جو چیز مومن کے دل میں صبر و سکون اور اطمینان کی ٹھنڈک پیدا کرتی ہے وہ یہ یقین ہے کہ اللہ بے خبر نہیں ہے ۔ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ہمارے ساتھ کیا جا رہا ہے اس سے بھی وہ واقف ہے ۔ ہماری اور ہمارے مخالفین کی ساری باتیں وہ سن رہا ہے اور دونوں کا طرز عمل جیسا کچھ بھی ہے اسے وہ دیکھ رہا ہے ۔ اسی اعتماد پر بندہ مومن اپنا اور دشمنان حق کا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے پوری طرح مطمئن ہو جا تا ہے ۔ یہ پانچواں موقع ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے واسطے سے اہل ایمان کو دعوت دین اور اصلاح خلق کی یہ حکمت سکھائی گئی ہے ۔ اس سے پہلے کے چار مقامات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حواشی ۱٤۹ تا ۱۵۳ ، النحل ۱۲۲ ۔ ۱۲۳ ، جلد سوم ، المومنون ، حواشی ۸۹ ۔ ۹۰ ، العنکبوت ، ۸۱ ۔ ۸۲ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: شیطان کے کچوکے سے مراد یہ ہے کہ جب وہ تمہارے دل میں کوئی گناہ کا یا کوئی برائی کرنے کا وسوسہ ڈالے تو تم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لیا کرو جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ یہ کہو : اَعوْذُ باللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:36) اما : ان شرطیہ اور ما زائدہ سے مرکب ہے۔ اگر ینزغنک مضارع واحد مذکر غائب بانون تاکید ثقیلہ ۔ نزغ (باب فتح) سے مصدر جس کے معنی عیب لگانا۔ لفظ کے ذریعے طعن و تشنیع کرنا۔ لوگوں کے درمیان فساد ڈالنا۔ برائی پر اکسانا کے ہیں۔ نزغ بینھم ان کے درمیان فساد ڈال دیا۔ وسوسہ پیدا کردیا۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ مطلب یہ ہے کہ اگر شیطان کی طرف سے آپ کے دل میں وسوسہ پیدا ہو اور انتقام لینے پر اور برائی کے عوض برائی کرنے پر شیطان آپ کو ابھارے۔ فاستعذ باللّٰہ۔ فاء جواب شرط کے لئے ہے استعذ : فعل امر واحد مذکر حاضر۔ استعاذۃ (استفعال) بمعنی پناہ مانگنا۔ تو تو (اس کے شر سے) پناہ مانگ۔ سورة اعراف (7) کی آیت (200) میں بھی یہی آیت مذکور ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی شیطان دل میں وسوسہ ڈالے اور برائی پر اکسائے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی کبھی بےاختیار غصہ چڑھ آئے تو یہ شیطان کا دخل ہے۔ ( موضح)4 صحیحین میں حضرت سلمان (رض) بن صرو سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں دو آدمی باہم گالم گلوچ کرنے لگے۔ ایک کا پارہ بہت چڑھا ہوا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے جسے یہ شخص زبان سے ادا کرے تو اس کا غصہ فرد ہوجائے اور وہ ہے ” اعوذ باللہ من الشیطان الرحیم “ وہ شخص وبولا ” کیا آپ مجھے پاگل سمجھتے ہیں ؟ جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ( کچھ کہنے کی بجائے) یہ آیت تلاوت فرمائی ( شوکانی) اس کے متعلق کچھ تشریح سورة اعراف ( آیت 20) اور سورة مومنوں آیت (97، 98) میں بھی گزر چکی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مبلّغ کو اپنے بچاؤ کے لیے ہدایات۔ مبلّغ بھی انسان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں دفاع کے لیے غیرت اور غصّہ رکھا ہے۔ اگر انسان میں غیرت اور غصہ نہ ہوتا تو یہ کبھی اپنی عزت اور مال و جان کی حفاظت نہ کرسکتا۔ غیرت کا اظہار اور غصہ کرنا بعض مواقع پر فرض ہے۔ لیکن کچھ مواقع ایسے ہیں جن میں غیرت اور غصہ کا اظہار فائدے کی بجائے نقصان کا باعث ثابت ہوتا ہے۔ بالخصوص اگر الداعی جذباتی اور جھگڑالو ہوگا تو فائدے کی بجائے اپنا اور دین حنیف کا نقصان کربیٹھے گا۔ طبیعت میں غصہ اور طیش آئے تو حکم ہے کہ ” اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ “ پڑھے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور جاننے والا ہے۔ توجہ اور بار بار پڑھنے اس کا غصہ یقیناً رفوہوجائے گا۔ عربی میں عوذ چوپائے کے اس بچے کو کہتے ہیں جو ابتدائی ایّام میں چلنے کے قابل نہیں ہوتا۔ جس وجہ سے گرتے اور لڑکھڑاتے ہوئے چل کر اپنی مامتا کے دودھ تک پہنچتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ” اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ “ پڑھنے والا اس قدر اپنے آپ کو بےبس سمجھ کر پڑھے اور اپنے رب سے پناہ طلب کریں۔ (عن سُلَیْمَان بن صُرَدٍ (رض) قَالَ اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَنَحْنُ عِنْدَہٗ جُلُوسٌ وَأَحَدُہُمَا یَسُبُّ صَاحِبَہٗ مُغْضَبًا قَدْ اِحْمَرَّ وَجْہُہٗ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنِّی لَأَعْلَمُ کَلِمَۃً لَوْ قَالَہَا لَذَہَبَ عَنْہُ مَا یَجِدُ لَوْ قَالَ أَعُوذ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیمِ فَقَالُوا للرَّجُلِ أَلَا تَسْمَعُ مَا یَقُول النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنِّی لَسْتُ بِمَجْنُونٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب ] ” حضرت سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم آپ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے دو آدمیوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں آپس میں گالی گلوچ کی۔ دونوں میں ایک شدید غصے میں تھا وہ دوسرے کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ایسی بات جانتا ہوں اگر وہ اسے پڑھے تو اس کا غصہ جاتا رہے گا۔ :” اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ “ ” میں شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں۔ “ صحابہ کرام (رض) نے اس شخص سے کہا کیا تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نہیں سنتے ؟ اس شخص نے کہا میں پاگل تو نہیں ہوں۔ یعنی میں نے سن لیا اور اس پر عمل کرتا ہوں۔ “ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ : لَیْسَ الشَّدِیْدُ بالصُّرْعَۃِ إِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِیْ یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی کو پچھاڑنے والا طاقتور نہیں ہے طاقتور تو وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔ “ (قِیْلَ نَزَلَتِ الْآیَۃُ فِیْ أَبِیْ بَکَرٍ (رض) ، فَإِنَّ رَجُلاً شَتَمَہٗ فَسَکَتَ مِرَاراً ، ثُمَّ رَدَّ عَلَیْہِ فَقَام النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ شَتَمَنِیْ وَأَنْتَ جَالِسٌ، فَلَمَّا رَدَدْتُ عَلَیْہِ قُمْتَ ، قَالَ إِنَّ مَلِکًا کَانَ یُجِیْبُ عَنْکَ ، فَلَمَّا رَدَدْتَ عَلَیْہِ ذَہَبَ ذٰلِکَ الْمَلَکُ وَجَاء الشَّیْطَانْ ، فَلَّمْ أَجْلِسُ عِنْدَ مُجِیْءِ الشَّیْطَانِ ) (تفسیر الرازی) ” ایک موقعہ پر حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے ایک شخص بد زبانی کر رہا تھا تنگ آکر جناب ابوبکر صدیق (رض) نے اس جیسی زبان استعمال کی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تک آپ صبر اور درگزر کر رہے تھے۔ اس وقت تک آپ کی طرف سے ایک فرشتہ جواب دے رہا تھا جب آپ نے اس کا جواب دیاتو اس کی جگہ شیطان آگیا۔ “ (الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) [ آل عمران : ١٣٤] ” جو لوگ آسانی اور سختی میں اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نیکو کاروں سے محبت کرتا ہے۔ “ مسائل ١۔ غصہ سے نجات پانے کے لیے ” اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ “ پڑھنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں شیطان لعنتی اور پھٹکارا ہوا ہے۔ تفسیر بالقرآن تعوذ کی ترغیب اور اس کے فائدے : ١۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جہالت سے پناہ مانگی۔ (البقرۃ : ٦٧) ٢۔ حضرت نوح کو جہالت سے بچنے کا حکم۔ (ہود : ٤٦) ٣۔ جاہلوں سے بحث کی بجائے اجتناب اور اعراض کرنا چاہیے۔ (الفرقان : ٦٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واما ینزغنک ۔۔۔۔۔ السمیع العلیم (٤١ : ٣٦) ” اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو ، وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے “۔ غصے میں کبھی اکساہٹ ہوتی ہے انتقام کی ، برائی کی وجہ سے بعض اوقات انسان صبر کی کمی محسوس کرتا ہے یا شرافت میں تنگ دلی محسوس کرتا ہے۔ ایسے حالات میں اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم پڑھنا چاہئے۔ اس سے وہ سوراخ بند ہوجائے گا جو شیطان کرنا چاہتا تھا۔ اللہ انسانی دل کا خالق ہے ، وہ اس کے نشیب و فراز سے اچھی طرح واقف ہے۔ وہ اس کی طاقت اور حد برداشت کو بھی جانتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ شیطان کس سوراخ سے حملہ آور ہوتا ہے ۔ یہ داعی کے قلب کو گھیرتا ہے اور اکساتا ہے ۔ یہ اللہ ہی ہے جو بچانے والا ہے۔ کیونکہ یہ راستہ کٹھن ہے۔ یہ راہ بڑی دشوار گزار ہے ، نفس انسانی کے نشیب و فراز میں اور نفس انسانی کی پیچیدہ وادیوں میں داعی کو سفر کرنا ہوتا ہے تا کہ داعی گہرے نفسیاتی میلانات میں ہدایت اور قیادت کا حق ادا کرسکے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جب کوئی شخص نیک کاموں میں لگتا ہے تو شیطان اس کے نفس میں برے برے وسوسے ڈالتا ہے اس کے بارے میں فرمایا (وَاِِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنْ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ باللّٰہِ ) (اور اگر آپ کو شیطان کی طرف سے کچھ وسوسہ آنے لگے تو آپ اللہ کی پناہ مانگیں) (اِِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ) (بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ ) صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ لفظ نزغ عربی زبان میں کسی لکڑی یا انگلی سے چبھانے کے لیے بولا جاتا ہے جسے اردو کے محاورے میں کچو کہ دینا کہہ سکتے ہیں ذرا ذرا سے و سو سے تو آتے ہی رہتے ہیں شیطان کبھی زور دار وسوسہ بھی ڈال دیتا ہے اسی لیے اسے نزع سے تعبیر فرمایا جب کوئی شخص دعوت حق دے گا خیر کی بات کرے گا اور مخالف اور منکر کی تکلیف دہ باتوں پر صبر کرے گا تو شیطان اس موقع پر کچوکا دے گا مثلاً یوں سمجھائے گا کہ تم تو حق بات کہہ رہے ہو۔ تمہیں جھوٹا بننے اور دبنے کی کیا ضرورت ہے ایسے موقع پر اللہ کی پناہ لے اور (اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ) پڑھ کر آگے بڑھ جائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 34:۔ ” واما ینزغنک “ اگر کبھی بتقاضائے بشریت، آپ کو ان معاندین کی خرافات پر غصہ آجائے تو آپ شر شیطان سے اللہ کی پناہ مانگیں، تاکہ اس کا اثر زائل ہوجائے۔ ” انہ ھو السمیع العلیم “ یہ ماقبل کے لیے علت ہے۔ کیونکہ سب کچھ سننے اور سب کچھ جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وان صرفک الشیطان عما وصیت بہ من الدفع بالتیھی احسن (فاستعذ باللہ) ای من شرہ (خازن جلد 6 ص 112) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(36) اور اگر شیطانی وسوسہ کسی وقت آپ کو ابھارے اور اگر کبھی شیطان کا کچوکنا آپ کو کچو کے تو آپ پنا پکڑئیے اللہ کی اور اللہ سے پناہ طلب کیا کیجئے بلا شبہ وہی سننے والا جاننے والا ہے۔ نزغ کا لفظی ترجمہ کچوکنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ غصہ کا وسوسہ آئے اور غصہ پر ابھارے تو آپ فورات اللہ سے پناہ طلب کرلیا کیجئے کیونکہ وہی سب کے سننے والا جاننے والا ہے۔