Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 49

سورة حم السجدہ

لَا یَسۡئَمُ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ دُعَآءِ الۡخَیۡرِ ۫ وَ اِنۡ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَیَئُوۡسٌ قَنُوۡطٌ ﴿۴۹﴾

Man is not weary of supplication for good [things], but if evil touches him, he is hopeless and despairing.

بھلائی کے مانگنے سے انسان تھکتا نہیں اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو مایوس اور نا امید ہو جاتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Man is fickle when Ease comes to Him after Difficulty Allah says, لاَا يَسْأَمُ الاْاِنسَانُ مِن دُعَاء الْخَيْرِ وَإِن مَّسَّهُ الشَّرُّ ... Man does not get tired of asking for good; but if an evil touches him, Allah tells us that man never gets bored of asking his Lord for good things, such as wealth, physical health, etc., but if evil touches him -- i.e., trials and difficulties or poverty -- ... فَيَوُوسٌ قَنُوطٌ then he gives up all hope and is lost in despair, i.e., he thinks that he will never experience anything good again.

انسان کی سرکشی کا حال اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ مال صحت وغیرہ بھلائیوں کی دعاؤں سے تو انسان تھکتا ہی نہیں اور اگر اس پر کوئی بلا آپڑے یا فقر و فاقہ کا موقعہ آجائے تو اس قدر ہراساں اور مایوس ہو جاتا ہے کہ گویا اب کسی بھلائی کا منہ نہیں دیکھے گا ، اور اگر کسی برائی یا سختی کے بعد اسے کوئی بھلائی اور راحت مل جائے تو کہنے بیٹھ جاتا ہے کہ اللہ پر یہ تو میرا حق تھا ، میں اسی کے لائق تھا ، اب اس نعمت پر پھولتا ہے ، اللہ کو بھول جاتا ہے اور صاف منکر بن جاتا ہے ۔ قیامت کے آنے کا صاف انکار کر جاتا ہے ۔ مال و دولت راحت آرام اس کے کفر کا سبب بن جاتا ہے ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے ( كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى Č۝ۙ ) 96- العلق:6 ) یعنی انسان نے جہاں آسائش و آرام پایا وہیں اس نے سر اٹھایا اور سرکشی کی ۔ پھر فرماتا ہے کہ اتنا ہی نہیں بلکہ اس بد اعمالی پر بھلی امیدیں بھی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بالفرض اگر قیامت آئی بھی اور میں وہاں اکٹھا بھی کیا گیا تو جس طرح یہاں سکھ چین میں ہوں وہاں بھی ہوں گا ۔ غرض انکار قیامت بھی کرتا ہے مرنے کے بعد زندہ ہونے کو مانتا بھی نہیں اور پھر امیدیں لمبی باندھتا ہے اور کہتا ہے کہ جیسے میں یہاں ہوں ویسے ہی وہاں بھی رہوں گا ۔ پھر ان لوگوں کو ڈراتا ہے کہ جن کے یہ اعمال و عقائد ہوں انہیں ہم سخت سزا دیں گے پھر فرماتا ہے کہ جب انسان اللہ کی نعمتیں پا لیتا ہے تو اطاعت سے منہ موڑ لیتا ہے اور ماننے سے جی چراتا ہے جیسے فرمایا آیت ( فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وَقَالَ سٰحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ 39؀ ) 51- الذاريات:39 ) اور جب اسے کچھ نقصان پہنچتا ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعائیں کرنے بیٹھ جاتا ہے عریض کلام اسے کہتے ہیں جس کے الفاظ بہت زیادہ ہوں اور معنی بہت کم ہوں ۔ اور جو کلام اس کے خلاف ہو یعنی الفاظ تھوڑے ہوں اور معنی زیادہ ہوں تو اسے وجیز کلام کہتے ہیں ۔ وہ بہت کم اور بہت کافی ہوتا ہے اسی مضمون کو اور جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے آیت ( وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِهٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاۗىِٕمًا ۚ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ يَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗ ۭ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 12 ؀ ) 10- یونس:12 ) ، جب انسان کو مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے پہلو پر لیٹ کر اور بیٹھ کر اور اکٹھے ہو کر غرض ہر وقت ہم سے مناجات کرتا رہتا ہے اور جب وہ تکلیف ہم دور کر دیتے ہیں تو اس بےپرواہی سے چلا جاتا ہے کہ گویا اس مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 یعنی دنیا کا مال و اسباب، صحت وقوت، عزت و رفعت اور دیگر دنیاوی نعمتوں کے مانگنے سے انسان نہیں تھکتا، بلکہ مانگتا ہی رہتا ہے۔ انسان سے مراد انسانوں کی غالب اکثریت ہے۔ 49۔ 2 یعنی تکلیف پہنچنے پر فوراً مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے جب کہ اللہ کے مخلص بندوں کا حال اس سے مختلف ہوتا ہے، وہ ایک تو دنیا کے طالب نہیں ہوتے، ان کے سامنے ہر وقت آخرت ہی ہوتی ہے، دوسرے تکلیف پہنچنے پر بھی اللہ کی رحمت اور اس کے فضل سے مایوس نہیں ہوتے، بلکہ آزمائشوں کو بھی کفارہ سیأت اور رفع درجات کا باعث گردانتے ہیں، گویا مایوسی ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٤] انسان کی حرص کی انتہا :۔ یعنی ایک عام اور دنیا دار انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ مال و دولت سے کبھی سیر نہیں ہوتا۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ ہر طرح کی بھلائیاں میرے ہی لیے ہوں۔ رزق بھی کشادہ اور وافر ملے، خوشحالی اور عیش و عشرت نصیب ہو، تندرستی بھی ہو اور اولاد بھی اچھی ہو۔ غرض بھلائی کی جو قسم ہوسکتی ہے وہ چاہتا ہے کہ سب کچھ اسے مہیا ہو اور اگر یہ سب چیزیں مہیا ہو بھی جائیں تو پھر یہ چاہتا ہے کہ ان میں ہر آن اضافہ بھی ہوتا رہے اور اس کی یہ حرص کبھی ختم ہونے کو نہیں آتی۔ چناچہ سیدنا عبداللہ بن زبیر نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فرمایا : && اگر آدمی کو ایک وادی بھر سونا مل جائے جب بھی (قناعت نہیں کرنے کا) دوسری وادی چاہے گا اور اگر دوسری مل جائے تو تیسری چاہے گا۔ بات یہ ہے کہ آدمی کا پیٹ مٹی ہی بھرتی ہے && (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب ما یتقی من فتنۃ المال) [٦٥] تکلیف میں مایوس اور شاکی :۔ اور اس کی طبیعت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب اسے کوئی تنگی، فاقہ یا بیماری یا اسی قسم کا کوئی دوسرا دکھ پہنچتا ہے اور اسے اس تکلیف کے دور ہونے کے ظاہری اسباب نظر نہیں آتے تو اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر ناشکری کی باتیں کرنے لگتا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ ان ظاہری اسباب کے علاوہ بیشمار باطنی اسباب بھی موجود ہیں جو اسے نظر نہیں آسکتے اور اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہوتے ہیں۔ اگر وہ اللہ پر بھروسہ کرنا سیکھ جائے تو یقیناً اس کی یہ حالت نہ ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) لایسم الانسان …: یہاں سے انسانی طبیعت پر کفر و شرک اور قیامت کے انکار کا ایک بہت برا اثر ذکر فرمایا۔” الانسان “ سے مراد عام انسان ہے جو ایمان و یقین کی دولت سے خالی ہو، اس میں طبعی طور پر یہ کمزوری رکھی گئی ہے۔ توحید و رسالت اور آخرت پر ایمان کے بعد اس کی اس کمزوری کا علاج ہوجاتا ہے اور ایمان جس قدر قوی ہوتا ہے اتنا ہی وہ اس کمزوری سے پاک ہوتا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(ان الانسان خلق ھلوعا اذا مسئلہ الشر جزوعا واذا مسہ الخیر موعا الا المصلین الذین ھم علی صلاتھم دآئمون … اولئک فی جنت مکرمون) (المعارج : ١٩ تا ٣٥)” بلاشبہ انسان تھڑدلا بنایا گیا ہے۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جانے والا ہے اور جب اسے بھلائی ملتی ہے تو بہت روکنے والا ہے۔ سوائے نماز ادا کرنے والوں کے۔ وہ جو اپنی نماز پر ہمیشگی کرنے والے ہیں … یہی لوگ جنتوں میں عزت دیئے جانے والے ہیں۔ “ مزید دیکھیے سورة ہود (٩ تا ١١) کی تفسیر۔ (٢) من دعآء الخیر :” الخیر “ سے مراد دنیوی بھلائی ہے جس میں مال، اولاد ، عزت، صحت اور قوت سبھی کچھ شامل ہے۔ ”’ عآئ “ سے مراد خیر کی طلب ہے، یعنی انسان دنیوی بھلائی کی طلب سے نہ اکتاتا ہے اور نہ تھکتا ہے، خواہ اسے اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنا، آپ فرما رہے تھے :(لوکان لابن آدم و ادیان من مال لابتغنی ثالثاً ، ولا یملاً جوف ابن آدم الا التراب ، ویتوب اللہ علی من تاب) (بخاری الرفاق، باب مایتقی من فتنۃ المال :6336)” اگر ابن آدم کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ کوئی تیسری تلاش کرے گا اور ابن آدم کے پیٹ کو مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھرتی اور اللہ اس پر پھر مہربان ہوجاتا ہے جو واپس پلٹ آئے۔ “ (٣) وان مسہ الشرفیوس قنوط :” مس یمس “ (س) چھونا۔ ” فیوس “ ” یس یس یاسا “ (س، ح) سے مبالغے کا صیغہ ہے، بہت ناامید۔ ” قنوط “ ” قنط یقنط قنوطاً “ (س، ن) سے مبالغے کا صیغہ ہے، بہت ناامید۔ بعض مفسرین نے فرمایا ” فیوس “ اور ” قنوط “ دونوں کا معنی ایک ہے، تاکید کے لئے ” فیوس “ کے بعد ” قنوط “ لایا گیا ہے اور بعض نے فرمایا، دونوں کے معنی میں فرق ہے۔ ابوحیان نے فرمایا :” یاس “ دل کی حالت ہے کہ آدمی کا دل خیر کی امید سے خالی ہوجائے اور ” قنوط “ یہ ہے کہ نا امیدی کے آثار اس کے چہرے اور بدن پر بھی ظاہر ہوجائیں۔ “ ظاہر ہے یہ فرق اس وقت ہے جب یہ دونوں لفظ اکٹھے آئیں، ورنہ یاس اور قنوط دونوں میں قل بی اور بدنی ہر طرح کی نا امیدی مراد ہوتی ہے، جیسا کہ ایمان و اسلام کا معاملہ ہے۔” مس “ (چھونے) کے لفظ سے معلوم ہوا کہ کافر اتنا بےحوصلہ ہوتا ہے کہ برائی چھو جانے ہی سے آخری حد تک امید توڑ بیٹھتا ہے۔ مومن ایسا نہیں ہوتا، یہ صرف کافر کا حال ہے، جیسا کہ فرمایا :(انہ لا یا یس من روح اللہ الا القوم الکفرون) (یوسف : ٨٨) ” بیشک حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جو کافر ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا يَسْـَٔمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَاۗءِ الْخَيْرِ۝ ٠ ۡوَاِنْ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَيَـــــُٔـــوْسٌ قَنُوْطٌ۝ ٤٩ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ سأم السَّآمَةُ : الملالة ممّا يكثر لبثه، فعلا کان أو انفعالا قال : وَهُمْ لا يَسْأَمُونَ [ فصلت/ 38] ، وقال : لا يَسْأَمُ الْإِنْسانُ مِنْ دُعاءِ الْخَيْرِ [ فصلت/ 49] ، وقال الشاعر : سَئِمْتُ تکالیف الحیاة ومن يعش ... ثمانین حولا لا أبا لك يَسْأَم ( س ء م ) السامۃ اس کے معنی کسی چیز کے زیادہ عرصہ تک رہنے کی وجہ سے اس کبیدہ خاطر یا دل بر داشتہ ہوجانے کے ہیں اور یہ فعلا ( کسی کام کو زیادہ عرصہ تک کرنے ) اور انفعالا ( کسی چیز سے زیادہ متاثر ہوئے ) دونوں طرح ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَهُمْ لا يَسْأَمُونَ [ فصلت/ 38] اور ( کبھی ) تھکتے ہی نہیں نیز فرمایا : ۔ لا يَسْأَمُ الْإِنْسانُ مِنْ دُعاءِ الْخَيْرِ [ فصلت/ 49] انسان بھالئی کی دعائیں کرتا کرتا تو تھکتا نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 249 ) سمت تکالیف الحیاۃ ومن یعش ثما نین حولا لا ابالک یسام میں زندگی کی خوشگواریوں سے اکتا چکا ہوں ہاں جو شخص اسی کو پہنچ جائے وہ لا محالۃ اکتاہی جاتا ہے ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی شر الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں يأس اليَأْسُ : انتفاءُ الطّمعِ ، يقال : يَئِسَ واسْتَيْأَسَ مثل : عجب واستعجب، وسخر واستسخر . قال تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف/ 80] ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف/ 110] ، ( ی ء س ) یأس ( مصدرس ) کے معنی ناامید ہونیکے ہیں اور یئس ( مجرد) واستیئاس ( استفعال ) دونوں ہم معنی ہیں جیسے ۔ عجب فاستعجب وسخرو استسخر۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف/ 110] یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے ۔ قنط القُنُوطُ : اليأس من الخیر . يقال : قَنَطَ يَقْنِطُ قُنُوطاً ، وقَنِطَ يَقْنَطُ «3» . قال تعالی: فَلا تَكُنْ مِنَ الْقانِطِينَ [ الحجر/ 55] ، قال : وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ [ الحجر/ 56] ، وقال : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ [ الزمر/ 53] ، وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَؤُسٌ قَنُوطٌ [ فصلت/ 49] ، إِذا هُمْ يَقْنَطُونَ [ الروم/ 36] . ( ق ن ط ) القنوط ( مصدر ) کے معنی بھلائی سے مایوس ہونے کے ہیں اور یہ قنط ( ض ) وقنط ( س ) قناطا یعنی ہر دو ابواب سے استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَلا تَكُنْ مِنَ الْقانِطِينَ [ الحجر/ 55] آپ مایوس نہ ہوجئے ۔ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ [ الحجر/ 56] خدا کی رحمت سے ( میں مایوس کیوں ہونے لگا ۔ اس سے ) مایوس ہونا گمراہوں کا کام ہے ۔ يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ [ الزمر/ 53] اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَؤُسٌ قَنُوطٌ [ فصلت/ 49] اور اگر تکلیف پہنچتی ہے تو ناامید ہوجاتا ہے اور آس توڑ بیٹھتا ہے اور کبھی قنط کا لفظ طرٖد کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِذا هُمْ يَقْنَطُونَ [ الروم/ 36] تو ناامید ہوکر رہ جاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کافر کا مال و اولاد اور صحت کی خواہش سے کبھی دل نہیں بھرتا اور نہ وہ تھکتا ہے اور اگر اس کو کوئی تکلیف یا فاقہ پہنچتا ہے تو رحمت خداوندی سے خوفزہ اور ناامید ہوجاتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩{ لَا یَسْئَمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَآئِ الْخَیْرِ } ” انسان بھلائی مانگنے سے نہیں تھکتا “ یہاں بھلائی (خیر) سے مراد دنیوی نعمتوں اور مال و دولت کی فراوانی ہے۔ کسی انسان کے پاس جتنی چاہے دولت ہو اور جس قدر چاہے نعمتیں اسے میسر ہوں ‘ پھر بھی مزید حاصل کرنے کی اس کی خواہش کبھی ختم نہیں ہوتی۔ { وَاِنْ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَیَئُوْسٌ قَنُوْطٌ} ” اور اگر کہیں اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو بالکل مایوس و دل شکستہ ہوجاتا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

65 "For good": For prosperity, abundance of provisions, good health, well-being of children, etc. And "man" here does not imply every human being for it also includes the prophet and the righteous people , who are free from this weakness as is being mentioned below But here it implies the mean and shallow person who stars imploring God humbly when touched by harm and is beside himself with joy when he receives the good things of life As most human beings are involved in this weakness ,it has been called a weakness of man.

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :65 بھلائی سے مراد ہے خوشحالی ، کشادہ رزق ، تندرستی ، بال بچوں کی خیر وغیرہ ۔ اور انسان سے مراد یہاں نوع انسانی کا ہر فرد نہیں ہے ، کیونکہ اس میں تو انبیاء اور صلحاء بھی آ جاتے ہیں جو اس صفت سے مبرا ہیں جس کا ذکر آگے آ رہا ہے ۔ بلکہ اس مقام پر وہ چھچورا اور کم ظرف انسان مراد ہے جو برا وقت آنے پر گڑ گڑانے لگتا ہے اور دنیا کا عیش پاتے ہی آپے سے باہر ہو جاتا ہے ۔ چونکہ نوع انسانی کی اکثریت اسی کمزوری میں مبتلا ہے اس لیے اسے انسان کی کمزوری قرار دیا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٩۔ ٥١۔ منکر حشر لوگوں کی مذمت کے طور پر ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے حرص اور بےصبری کی مذمت فرمائی ہے قابل مذمت بےصبری شریعت میں دو طرح کی ہے ایک تو سختی اور مصیبت کے وقت بےصبر ہوجانا اور خدا کی درگاہ سے مصیبت کے بعد راحت کی توقع نہ رکھنا دوسرے فراخ دستی کے وقت جو چیزیں شرع میں منع ہیں ان سے بچنے میں صبر نہ کرنا اور فراخ دستی کے نشہ میں بےصبری سے ان کو کر بیٹھنا اس واسطے حرص کی مذمت کے ساتھ دونوں طرح کی بےصبری کی مذمت ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے ان دونوں موقعوں پر صبر کرنے کے اجر میں اور بےصبری کی اور حرص کی مذمت میں بہت سی حدیثیں جن کو ان آیتوں کی تفسیر کہنا چاہئے چناچہ حرص کی مذمت میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت سے صحیحین ٣ ؎ میں حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انسان کو دو جنگل بھی مال کے برے ہوئے مل جائیں تو انسان کی حرص کم نہ ہوگی اور تیسرے جنگل کی تلاش میں رہے گا اور جب تک قبر کی مٹی انسان کے پیٹ میں نہ بھرے گی انسان کا پیٹ ہرگز نہ بھرے گا۔ صحیحین ٤ ؎ میں دوسری روایت حضرت انس (رض) سے ہے جس کا حاصل یہ ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس قدر انسان بڈھا ہوتا جاتا ہے اسی قدر مال اور عمر کی اس کی حرص بڑھتی جاتی ہے مصیبت کے وقت صبر کرنے کی مدح میں حضرت عائشہ سے صحیح بخاری ٥ ؎ میں روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شہر میں وبا ہو اور انسان صبر کرکے اسی شہر میں بیٹھا رہے تو اس صبر کے سبب سے اس کو شہیدوں کا درجہ ملے گا اور مصیبت کے وقت بےصبری کی مذمت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود سے صحیحین میں روایت ہے کہ جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص مصیبتیں کے وقت گریبان پھاڑے یا منہ پیٹے اور زمانہ جاہلیت کی بےصبری کی باتیں کرے تو وہ پورا مسلمان نہیں ١ ؎ فراغت کے وقت خلاف شرع باتوں میں پڑھانے سے صبر کرکے شرع میں جو باتیں منع ہیں ان سے بچنے کو تقویٰ کہتے ہیں اور متقیوں کی مدح اور ان کے اجر کے ذکر میں اس قدر کثرت سے آیتیں اور حدیثیں ہیں جن کا شمار نہیں ہوسکتا اسی طرح فراغت کے وقت بےصبری کرکے شرع کی مناہی میں پڑجانے کی مذمت میں بھی بہت سی آیتیں اور حدیثیں ہیں اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے انما اموالکم و اولادکم فتنۃ جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں مال اور اولاد کی خوشحالی آدمی کے حق میں بڑی آزمائش کی چیز ہے۔ صحیح بخاری ٢ ؎ اور مسلم میں ابو سعید (رض) خدری کی روایت سے جو حدیث ہے اس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ کو اپنی امت کی فراغت اور فراغت کے بعد راہ راست پر قائم نہ رہنے کا بڑا خوف ہے حرص اور دونوں طرح کی بےصبری کی مذمت میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ مشرک لوگ حشر کے منکر ہیں ان کے ہر کام کا دارومدار دنیا کی زندگی اور دنیا کی خوبی پر ہے اس لئے ان کا ہر ایک شخص دنیا کی خوبی کے مانگنے سے کبھی نہیں تھکتا اور حشر کے انکار کے سبب سے ان کو صبر کے اجر کا یقین نہیں اس واسطے سختی کے وقت ایسے لوگوں سے صبر بھی نہیں ہوسکتا بلکہ سختی کے وقت ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے بالکل ناامید ہوجاتے ہیں ایسے لوگوں کو اگر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے تکلیف کے بعد کچھ راحت عنایت فرماتا ہے تو نادانی سے دنیا کی حالت پر عقبیٰ کی حالت کو قیاس کرکے کہنے لگتے ہیں کہ اول تو ہمیں عقبیٰ کا یقین نہیں اور اگر مسلمانوں کے کہنے موافق قیامت قائم ہوئی تو جس طرح غریب مسلمانوں کی نسبت ہم لوگ دنیا میں خوشحال ہی یہی حال ہمارا عقبیٰ میں بھی ہوگا پھر فرمایا یہ قیاس ان لوگوں کا بالکل غلط ہے جب قیامت کے دن ان کی بداعمالی کی سزا ان کو دی جائے گی اس وقت ان کو اپنی اس غلطی کا حال کھل جائے گا پھر فرمایا یہ لوگ شکر اور صبر کے اجر کو نہیں جانتے اس واسطے شکر کے موقع پر اللہ تعالیٰ کو بالکل بھول جاتے ہیں اور صبر کے موقع پر گھبرا کر رفع تکلیف کے لئے چوڑی چوڑی دعا مانگتے ہیں صحیح مسلم ٣ ؎ کے حوالہ سے صہیب رومی کی حدیث گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایماندار شخص کی نشانی یہ ہے کہ وہ تکلیف کے وقت صبر کرتا ہے اور راحت کے وقت اللہ کا شکر بجا لاتا ہے اس حدیث کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب جو کہ آیتوں میں مذمت کے طور پر مشرکوں کی جن عادتوں کا ذکر ہے ایماندار شخص میں کوئی عادت ان عادتوں میں سے نہیں ہونی چاہئے بلکہ ایمان دار شخص کو تکلیف کے وقت صبر کرنا چاہئے اور راحت کے وقت شکر۔ (٣ ؎ صحیح بخاری باب مایتقی من فتنۃ المال ص ٩٥٢ ج ٢۔ ) (٤ ؎ بخاری شریف باب من بلغ ستین سنۃ الخ۔ ص ٩٥٠ ج ٢۔ ) (٥ ؎ بخاری شریف باب اجرا الصابر فی الطاعون ص ٨٥٣ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب لیس منامن ضرب الخدود ص ١٧٣ ج ٢۔ و صحیح مسلم باب تحریم ضرب الخدود ص ٧٠ ج ١۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب مایحذر من زھرۃ الدنیا۔ ص ٩٥١ ج ٢۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم باب فی احادیث متفرقۃ ص ٤١٣ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:49) لایسئم : مضارع منفی واحد مذکر غائب۔ سأمۃ سأم (باب سمع) مصدر سے۔ تھکنا۔ اکتا جانا۔ نہیں تھکتا۔ س ء م مادہ۔ دعاء الخیر : خیر کی دعا۔ مال و رزق میں وسعت اور صحت و تندرستی اور خیر و عافیت کی طلب۔ ان مسہ الشر : ان شرطیہ ۔ مس ماضی واحد مذکر غائب (باب نصر) سے مس مصدر۔ چھونا ۔ الشر۔ سختی و غربت۔ ان مسہ الشر شرط۔ فیئوس قنوط : جواب شرط۔ یئوس یاس (باب سمع) صفت مشبہ کا صیغہ ہے مایوس۔ ناامید۔ باب استفعال سے بھی اسی معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے : حتی اذاستیئس الرسل (12:110) یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے ی ء س مادہ قنوط : بالکل ناامید۔ مایوس ۔ قنوط (باب نصر) مصدر سے مبالغہ کا صیغہ ہے قانط اسم فاعل واحد مذکر ای فھو یؤس قنوط تو وہ اللہ کی رحمت اور راحت سے مایوس و ناامید ہوجاتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5” خیر “ (بھلائی) سے مراد مال و دولت اور خوشحالی وغیرہ ہے جس کی ہوس سے صرف انبیاء ( علیہ السلام) اور اس کے مخصوص نیک بندے ہی مستثنیٰ ہیں۔ 6 جیسے تنگدستی یا بیماری وغیرہ۔ 7 اور منہ سے نا شکری کے کلمات نکالنے لگتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اور یہ غایت ناشکری و سوء ظن باللہ و کراہت لامر اللہ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرک کے شرک کی بنیادی وجہ مفاد پرستی اور جلد بازی کرنا ہے۔ مشرک کی طبیعت میں مفاد پرستی اور جلد بازی کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا ہے۔ مشرک دنیا کے بارے میں بڑا حریص ہوتا ہے۔ مشرک اور دنیا پرست انسان معمولی آزمائش اور نقصان برداشت نہیں کرسکتا۔ ہمیشہ دنیا کے لیے ہی دعائیں کرتارہتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٠٠) مشرک کو تکلیف پہنچے اور اس کی دعا جلد قبول نہ ہو تو یہ اپنے رب سے ہی مایوس ہوجاتا ہے۔ مایوسی کے عالم میں اسے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نواز دے تو سمجھتا ہے کہ یہ میری کوشش کا نتیجہ ہے۔ بسا اوقات اپنی زبان سے بھی کہتا ہے کہ میری تکلیف اس لیے رفع ہوئی کہ میں نے اس کے لیے بہتر منصوبہ بندی اختیار کی اور ہر وقت اس کا علاج کرلیا ہے۔ مشرکانہ عقیدہ اور دنیا پرستی کی وجہ سے اس کا مستقل ذہن بن جاتا ہے۔ بالخصوص ان لوگوں کا جو کئی نسلوں سے دولت مند ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کا نظام اس طرح ہی چلتا رہے گا۔ بالفرض اگر قیامت قائم ہوگئی تو وہاں بھی ہمیں دوسروں پر برتری حاصل ہوگی۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمیں طویل سے طویل تر زندگی حاصل ہوجائے۔ یہاں تک کہ ہم ہزار سال زندہ رہیں۔ حالانکہ طویل زندگی انہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی (البقرۃ : ٩٦) ایسے انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ملے تو منہ پھیر لیتا ہے اور ناشکری کرتا ہے۔ تکلیف پہنچے تو لمبی لمبی دعائیں کرتا ہے۔ یہ حالت اس شخص کی ہوتی ہے جو رسمی طور پر اسلام کا نام لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو کافر گردانا ہے جنہیں سخت اور شدید عذاب دیا جائے گا۔ (عَنْ خَبَّابٍ (رض) قَالَ کُنْتُ قَیْنًا بِمَکَّۃَ ، فَعَمِلْتُ لِلْعَاصِ بْنِ وَاءِلِ السَّہْمِیِّ سَیْفًا، فَجِءْتُ أَتَقَاضَاہُ فَقَالَ لاَ أُعْطِیکَ حَتَّی تَکْفُرَ بِمُحَمَّدٍ قُلْتُ لاَ أَکْفُرُ بِمُحَمَّدٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَتَّی یُمِیتَکَ اللَّہُ ، ثُمَّ یُحْیِیَکَ قَالَ إِذَا أَمَاتَنِی اللَّہُ ثُمَّ بَعَثَنِی، وَلِی مَالٌ وَوَلَدٌ فَأَنْزَلَ اللَّہُ (أَفَرَأَیْتَ الَّذِی کَفَرَ بآیَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَیَنَّ مَالاً وَوَلَدًا أَطَّلَعَ الْغَیْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَہْدًا)[ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قَوْلِہِ (أَطَّلَعَ الْغَیْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَہْدًا )] ” حضرت خباب (رض) کہتے ہیں کہ میں مکہ میں لوہار تھا۔ میں نے عاص بن وائل سھمی کے لیے تلوار بنائی۔ اس کے پاس مزدوری لینے کے لیے گیا۔ تو اس نے کہا میں اس وقت تک تجھے تیری اجرت نہیں دوں گا جب تک تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار نہ کردے۔ میں نے کہا اللہ تجھے موت دے پھر زندہ کرے میں پھر بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار نہیں کروں گا۔ اس نے کہا۔ جب اللہ تعالیٰ میری موت کے بعد مجھے زندہ کرے گا تو اس وقت بھی میرے پاس مال ہوگا لہٰذا میں قیامت کے دن تیری مزدوری ادا کردوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت نازل فرمائی کہ کیا اسے غیب کا علم ہے یا اس نے اللہ تعالیٰ سے معاہدہ کر رکھا ہے کہ اسے آخرت میں بھی اچھا مقام اور مال دیا جائے گا۔ “ دنیا دار کے مقابلے میں مؤمن کا کردار : (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر ] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں۔ اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اس کو آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے اور اگر اسے تنگدستی آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔ “ مسائل ١۔ مشرک اور کافر دنیا کے معاملے میں بڑا حریص ہوتا ہے۔ ٢۔ دنیا دار شخص تکلیف کے وقت اپنے رب سے مایوس ہوجاتا ہے۔ ٣۔ دنیا دار شخص کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر حاصل ہو تو وہ اسے اپنی لیاقت سمجھتا ہے۔ ٤۔ دنیا پرست انسان کو اللہ تعالیٰ سخت عذاب دے گا۔ تفسیر بالقرآن دنیا پرست انسان کا انجام : ١۔ جو لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرتے ہیں یہ دور کی گمراہی میں ہیں۔ (ابراہیم : ٣) ٢۔ جن لوگوں کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا، قیامت کے دن ہم ان کو بھلا دیں گے۔ (الاعراف : ٥١) ٣۔ یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی بیشک اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (النحل : ١٠٧) ٤۔ جس نے سرکشی اختیار کی اور دنیا کو ترجیح دی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (الناز عات : ٣٧ تا ٣٩) ٥۔ دنیا چاہنے والوں کو دنیا اور آخرت چاہنے والوں کو آخرت ملتی ہے۔ (آل عمران : ١٤٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ کس قدر خوفناک دن ہے لیکن انسان اس کے بارے میں بالکل محتاط نہیں ہے۔ انسان ہر قسم کی بھلائی کے لئے بہت ہی حریص ہے۔ لیکن قیامت کی بھلائی کی وہ ذرا بھی فکر نہیں کرتا۔ انسان معمولی مصیبت پر جزع فزع کرنے لگتا ہے۔ لیکن قیامت کے ہولناک جزع فزع کا اسے خیال نہیں ہے۔ یہاں انسان کے نفس کی اندرونی تصویر کھینچی جاتی ہے۔ تمام لباس اور پردے اتار دئیے جاتے ہیں اور ہر قسم کی ملمع کاری کو ہٹا کر نقش انسانی کا اصل رنگ دکھایا جاتا ہے۔ نفس انسانی کی یہ نہایت ہی سچی تصویر ہے۔ نہایت ہی باریک خدو خال کو بھی اس میں نمایاں کیا گیا ہے۔ وہ لوگ جو اللہ کی ہدایات پر ایمان نہیں رکھتے ، جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ، وہ تو بالکل سیدھی راہ پر گامزن ہوتے ہیں ، ان کا ایک ہی رنگ ڈھنگ ہوتا ہے۔ لیکن گمراہ لوگوں کی نفسیات کیا ہیں ، یکدم بدلنے والے ، ضعیف الارادہ ، دکھاوے کے شیدائی ، مال کے لالچی ، ناشکرے ، خوشحالی میں مغرور اور بدحالی میں آہ وفغان کرنے والے ، غرض یہ نہایت ہی تفصیل تصویر ہے ان لوگوں کی اور عجیب تصویر ہے۔ انسان بھلائی کی دعا مانگتے نہی تھکتا۔ وہ بڑے اصرار اور گڑگڑا کر دعائے خیر کرتا ہے۔ اور دعا کرتے ہوئے نہیں تھکتا لیکن شر اگر محض اس کو چھو کر بھی گزر جائے تو وہ تمام امیدیں کھو دیتا ہے ، مکمل طور پر مایوس ہوجاتا ہے۔ یہ خیال کرتا ہے کہ اس شر سے تو اب نکلنے اور بچنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ یوں وہ سمجھ لیتا ہے کہ سب اسباب و وسائل ختم ہوگئے۔ اس کا سینہ تنگ ہوجاتا ہے ، مغموم و متفکر ہوجاتا ہے۔ اللہ کی رحمتوں اور مہربانیوں سے مایوس ہوجاتا ہے۔ یہ اس لیے کہ اس کا اپنے رب پر بھروسہ نہیں ہوتا اور رب سے اس کا تعلق کمزور ہوتا ہے۔ لیکن یہی انسان ، جب اللہ اس پر اپنی رحمتیں اور مہربانیاں کرتا ہے ، یہ مصیبت جاتی رہتی ہے ، تو اللہ کی نعمتیں اسے ۔۔۔ اور متکبر کردیتی ہیں۔ یہ شکر نہیں بجا لاتا۔ اب خوشحال اسے آسمانوں پر چڑھا دیتی ہے۔ وہ کہتا ہے یہ تو میرا فرض ہے۔ میں اپنی صلاحیت پر اس کا مستحق ہوا ہوں اور یہ حق داعی ہے۔ یہ شخص آخرت کو بھول جاتا ہے اور اسے بعید از امکان سمجھتا ہے۔ کہتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

انسان کا حب دنیا اور ناشکری کا مزاج اور وقوع قیامت کا انکار ان آیات میں انسان کا ایک مزاج بیان فرمایا ہے اور وہ یہ کہ انسان برابر اللہ تعالیٰ سے خیر کی دعا کرتا ہے مالھی مانگتا ہے اور صحت بھی اور دوسری چیزیں بھی، جب تک یہ چیزیں پاس رہتی ہیں تو خوب خوش رہتا ہے اور اگر کوئی تکلیف پہنچ جائے، مریض ہوجائے تنگ دستی آجائے تو اس پر ناامیدی چھا جاتی ہے وہ سمجھتا ہے کہ بس اب تو میں مصیبت ہی میں رہوں گا کبھی میری حالت ٹھیک ہونے والی نہیں ہے ( یہ ان لوگوں کا حال ہوتا ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو نہیں پڑھا اس کے رسول کی ہدایات پر عمل نہیں کیا، نیک بندوں کی صحبت نہیں اٹھائی)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

48:۔ ” لایسئم الانسان “ یہ چوتھا شکوی ہے۔ انسان سے انسان کافر مراد ہے (مظہری) ۔ ” دعاء الخیر “ مصدر، مفعول کی طرف مضاف ہے (روح) مشرک اور کافر انسان اپنے خود ساختہ معبودوں سے دنیوی نعمتیں مانگنے سے اکتاتا نہیں اور مسلسل مانگتا ہی چلا جاتا ہے۔ لیکن اگر اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور اس کی مصیبت بدستور باقی رہتی ہے، تو اپنے معبودوں سے مایوس اور ناامید ہوجاتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ اور ان کے اختیار میں کچھ نہیں۔ اس لیے معبودان باطلہ سے مایوس ہو کر اللہ تعالیٰ سے لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ قنوط من الصنم ذو دعاء اللہ تعالی۔ (مدارک ج 4 ص 75، مظہری ج 8 ص 305) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(49) انسان بھلائی مانگنے سے تھکتا نہیں اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو ناامید ہوکر آس کو توڑ بیٹھتا ہے۔ یعنی دین حق کے منکر کی حالت یہ ہے کہ مال کی فراخی کے مانگنے سے اس کا پیٹ ہی نہیں بھرتا اور بھلائی مانگنے سے تھکتا ہی نہیں اور اگر اتفاقاً تنگدستی یا مرض وغیرہ کی کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہوجاتا ہے اور آس توڑ دیتا ہے۔