Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 50

سورة حم السجدہ

وَ لَئِنۡ اَذَقۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنَّا مِنۡۢ بَعۡدِ ضَرَّآءَ مَسَّتۡہُ لَیَقُوۡلَنَّ ہٰذَا لِیۡ ۙ وَ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً ۙ وَّ لَئِنۡ رُّجِعۡتُ اِلٰی رَبِّیۡۤ اِنَّ لِیۡ عِنۡدَہٗ لَلۡحُسۡنٰی ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِمَا عَمِلُوۡا ۫ وَ لَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ غَلِیۡظٍ ﴿۵۰﴾

And if We let him taste mercy from Us after an adversity which has touched him, he will surely say, "This is [due] to me, and I do not think the Hour will occur; and [even] if I should be returned to my Lord, indeed, for me there will be with Him the best." But We will surely inform those who disbelieved about what they did, and We will surely make them taste a massive punishment.

اور جو مصیبت اسے پہنچ چکی ہے اس کے بعد اگر ہم اسے کسی رحمت کا مزہ چکھائیں تو وہ کہہ اٹھتا ہے کہ اس کا تو میں حقدار ہی تھا اور میں تو خیال نہیں کر سکتا کہ قیامت قائم ہوگی اور اگر میں اپنے رب کے پاس واپس کیا گیا تو بھی یقیناً میرے لئے اس کے پاس بھی بہتری ہے ، یقیناً ہم ان کفار کو ان کے اعمال سے خبردار کریں گے اور انہیں سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَيِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاء مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَذَا لِي ... And truly, if We give him a taste of mercy from Us, after some adversity has touched him, he is sure to say: "This is due to my (merit)..." means, if something good happens to him or some provision comes to him after a period of difficulty, he says, `this is because of me, because I deserve this from my Lord.' ... وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَايِمَةً ... I think not that the Hour will be established. means, he does not believe that the Hour will come. So when he is given some blessing, he becomes careless, arrogant and ungrateful, as Allah says: كَلَّ إِنَّ الاِنسَـنَ لَيَطْغَى أَن رَّءَاهُ اسْتَغْنَى Nay! Verily, man does transgress. Because he considers himself self-sufficient. (96:6-7) ... وَلَيِن رُّجِعْتُ إِلَى رَبِّي إِنَّ لِي عِندَهُ لَلْحُسْنَى ... But if I am brought back to my Lord, surely there will be for me the best with Him. means, `if there is a Hereafter after all, then my Lord will be generous and kind to me just as He was in this world.' So he expects Allah to do him favors in spite of his bad deeds and lack of certain faith. Allah says: ... فَلَنُنَبِّيَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ Then, We verily will show to the disbelievers what they have done, and We shall make them taste a severe torment. Thus Allah threatens punishment and vengeance to those whose conduct and belief is like that.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 یعنی اللہ کے ہاں میں محبوب ہوں، وہ مجھ سے خوش ہے، اسی لئے مجھے وہ اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے۔ حالانکہ دنیا کی کمی بیشی اس کی محبت یا نارضگی کی علامت نہیں ہے۔ بلکہ صرف آزمائش کے لئے اللہ ایسا کرتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ نعمتوں میں اس کا شکر کون کر رہا ہے اور تکلیفوں میں صابر کون ہے ؟ 50۔ 2 یہ کہنے والا منافق یا کافر ہے، کوئی مومن ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ کافر ہی یہ سمجھتا ہے کہ میری دنیا خیر کے ساتھ گزر رہی ہے تو آخرت بھی میرے لئے ایسی ہی ہوگی۔ 49۔ 3 یہ کہنے والا منافق یا کافر ہے، کوئی مومن ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ کافر ہی یہ سمجھتا ہے کہ میری دنیا خیر کے ساتھ گزر رہی ہے تو آخرت بھی میرے لیے ایسی ہی ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٦] آسائش میں اپنی تدبیر پر ناز :۔ اور تیسرا پہلو یہ ہے کہ اگر ہم اس کی تنگی، فاقہ یا بیماری کو دور کردیں اور اس پر بھلے دن آجائیں تو پھر بھی اللہ کی طرف نہیں ہوتا، نہ اس ذات کا شکر ادا کرتا ہے جس نے اس کی تکلیف کو دور کردیا جس سے وہ قطعاً مایوس ہوچکا تھا۔ بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ بس اس کی حسن تدبیر اور محنت کا نتیجہ تھا اور اگر میرے دن پھرگئے ہیں تو میں فی الواقع اس بات کا مستحق تھا۔ [٦٧] مالدار اور دنیا دار لوگوں کا نظریہ کہ اگر اللہ آج مجھ پر خوش ہے تو قیامت کو کیوں نہ ہوگا :۔ ایسا شخص اگر اللہ کی ہستی کو مانتا بھی ہے تو اس کی معرفت انتہائی ناقص ہوتی ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ سب کچھ بس میں ہی ہوں۔ میرے اوپر کوئی ایسی ہستی نہیں جو کلیتاً میرے نفع و نقصان کی مالک ہو اور میری زندگی کی باگ ڈور اسی کے ہاتھوں میں ہو۔ اسی طرح روز آخرت اور اعمال کی جزا و سزا پر بھی اس کا ایمان انتہائی ناقص ہوتا ہے اور لوگوں کے کہنے پر وہ یہ فرض کرلیتا ہے کہ اگر مجھے اپنے پروردگار کے سامنے جانا بھی پڑا تو کیا وجہ ہے کہ وہ مجھے عذاب دے۔ میری موجودہ خوشحالی ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی خدا ہے تو وہ یقیناً مجھ سے خوش ہے۔ پھر اس دن آخر کیوں خوش نہ ہوگا۔ گویا ایسے لوگوں کے نزدیک دنیا کی خوشحالی ہی ان کے پروردگار کی خوشنودی کی دلیل ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ جس شخص کا اپنے پروردگار اور آخرت کے بارے میں ایسا غلط اور کمزور قسم کا ایمان ہو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ کافر بھی ہوتا ہے اور مشرک بھی۔ جیسا کہ سورة کہف کے پانچویں رکوع میں بالکل ایسے ہی شخص کا قصہ گزر چکا ہے۔ اور ایسے شخص کی صحیح ذہنیت درج ذیل حدیث سے بھی معلوم ہوتی ہے : سیدنا خباب بن ارتص کہتے ہیں کہ میں مکہ میں لوہار کا پیشہ کرتا تھا۔ میں نے عاص بن وائل سہمی کے لیے ایک تلوار بنائی۔ اس کی مزدوری کے تقاضا کے لیے میں عاص کے پاس گیا اس نے کہا : میں تجھے یہ مزدوری اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تو محمد (کے دین) سے پھر نہ جائے۔ میں نے کہا۔ میں تو اس وقت تک بھی اس دین سے نہیں پھر سکتا جب کہ تو مر کر دوبارہ جی اٹھے گا۔ اس نے کہا : کیا میں مرنے کے بعد پھر جیوں گا ؟ میں نے کہا، && بیشک && وہ کہنے لگا : اچھا پھر جب میرے مرنے کے بعد اللہ مجھ کو زندہ کرے گا تو آخر مال اور اولاد بھی دے گا۔ اس وقت میں تیرا قرضہ ادا کردوں گا && (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورة مریم۔ باب قولہ اطلع الغیب) [٦٨] غلیظ کے معنی موٹا۔ دبیز، گاڑھا، سخت اور گندہ سب کچھ آتا ہے۔ اور یہاں یہ لفظ سخت اور گندہ دونوں معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ غلاظت مشہور لفظ ہے۔ اور یہ عذاب گندہ اس لحاظ سے ہوگا کہ ایسے لوگوں کو پینے کے لیے پیپ، کچ لہو، زخموں کا دھو ون، انتہائی متعفن بدبودار اور شدید ٹھنڈا پانی، ایسی ہی چیزیں پینے کو ملیں گی جن سے انسان کو گھن آتی ہے۔ اور اس کے سخت ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ولئن اذقنہ رحمۃ منا …: یعنی ایک طرف وہ نا امیدی کہ شر کے چھو جانے ہی سے آخری حد تک ناامید ہوتا ہے، دوسری طرف یہ احسان فراموشی کہ مصیبت کے بعد کسی رحمت کا ذائقہ چکھتے ہی پھول جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے لاتعلق ہوجاتا ہے، حالانکہ نہ وہ شر اور مصیبت دائمی تھی نہ اس دنیوی نعمت کو دوام ہے۔ پھر یہ نعمت اس کی محنت کا نتیجہ نہیں کہ اس پر پھول جائے، بلکہ یہ محض ہماری عطا ہے۔ ” رحمتہ منا “ کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة ہود (٩، ١٠) کی تفسیر۔ (٢) لیقولن ھذا لی : یعنی کافر آدمی دنیوی نعمت کا ذائقہ چکھتے ہی تین کفریہ باتیں کہے گا، اس کے دل میں یہی باتیں ہوں گی اور زبان سے بھی یہی کہے گا۔ پہلی بات یہ کہ یہ نعمت میری جدوجہد کا نتیجہ اور میرا حق ہے، جیسا کہ فرعون کے لوگ کہتے تھے (دیکھیے اعراف : ١٣٠، ١٣١) اور جیسا کہ ق اورن نے کہا تھا ) (دیکھیے قصص : ٧٨) حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی صریح ناشکری اور احسان فراموشی ہے۔ (٣) وما اظن الساعۃ قآئمۃ ولئن رجعت الی ربی ان لی عندہ للحسنیٰ : ان دونوں باتوں کی تفصیل سورة کہف کی آیت (٣٦) کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَىِٕنْ اَذَقْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنَّا مِنْۢ بَعْدِ ضَرَّاۗءَ مَسَّـتْہُ لَيَقُوْلَنَّ ھٰذَا لِيْ۝ ٠ ۙ وَمَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَاۗىِٕمَۃً۝ ٠ ۙ وَّلَىِٕنْ رُّجِعْتُ اِلٰى رَبِّيْٓ اِنَّ لِيْ عِنْدَہٗ لَــلْحُسْنٰى۝ ٠ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِمَا عَمِلُوْا۝ ٠ ۡوَلَــنُذِيْقَنَّہُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِيْظٍ۝ ٥٠ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) ضر الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] ، فهو محتمل لثلاثتها، ( ض ر ر) الضر کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء/ 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ قائِمٌ وفي قوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] . وبناء قَيُّومٍ : ( ق و م ) قيام أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد/ 33] تو کیا جو خدا ہر نفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اگر ہم اس کو کسی تکلیف کے بعد اپنی طرف سے مال و اولاد کی نعمت کا مزہ چکھائیں تو یہ کہتا ہے کہ یہ تو میرے لیے علم خداوندی میں مقرر ہی تھا۔ اور قیامت کے آنے کا خیال نہیں کرتا اور بعث کا انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر بقول محمد مجھے اپنے رب کی طرف پہنچایا بھی گیا تو میرے لیے آخرت میں بھی جنت ہے، عتبہ بن ربیعہ اور اس کے ساتھی یہ بکواس کرتے ہیں تو ہم ان منکروں کو ان کے کفر کی حالت کے یہ سب کردار بتا دیں گے اور ان کو دوزخ میں سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠{ وَلَئِنْ اَذَقْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنَّا مِنْم بَعْدِ ضَرَّآئَ مَسَّتْہُ } ” اور اگر اسے ہم اپنی رحمت کا مزہ چکھا دیں اس کے بعد کہ اسے کوئی تکلیف پہنچی تھی “ { لَیَقُوْلَنَّ ہٰذَا لِیْلا } ” تو وہ ضرور کہے گا کہ ہاں یہ تو میرا حق ہے “ سختی کا وقت گزر جانے کے بعد حالات بہتر ہوجانے پر وہ بڑے فخر سے دعوے کرے گا کہ میں نے اپنے ناخن تدبیر سے تمام عقدے حل کرلیے ہیں اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بالآخر میں نے اپنے تمام مسائل پر قابوپا لیا ہے۔ { وَمَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً } ” اور میں نہیں سمجھتا کہ یہ قیامت وغیرہ کوئی قائم ہونے والی شے ہے۔ “ { وَّلَئِنْ رُّجِعْتُ اِلٰی رَبِّیْٓ } ” اور اگر مجھے لوٹا ہی دیا گیا میرے رب کی طرف “ یہ ہو بہو وہی الفاظ ہیں جو سورة الکہف کی آیت ٣٦ میں ایک مالدار اور آسودہ حال شخص کے حوالے سے نقل ہوئے ہیں۔ ان دونوں مکالموں میں صرف رُدِدْتُ اور رُجِعْتُ کا فرق ہے۔ یہ جملہ دراصل ایک ایسے مادیت پسند انسان کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو دنیا کی زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھتا ہے اور ہمہ تن اسی کی زیب وزینت میں گم ہے۔ ایسے شخص کو اگر کسی وقت آخرت کی فکر پریشان کرتی ہے تو وہ اس خیال سے خود کو تسلی دے لیتا ہے کہ قیامت برپا ہونے کی یہ تمام باتیں اوّل تو محض ایک ڈھکوسلا ہیں ‘ لیکن اگر بالفرض قیامت آ ہی گئی اور مجھے دوبارہ زندہ ہو کر اللہ کے حضور پیش ہونا ہی پڑا تو : { اِنَّ لِیْ عِنْدَہٗ لَلْحُسْنٰی } ” یقینا میرے لیے اس کے پاس بہتری ہی ہوگی۔ “ اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں مجھے دولت اور عزت دی ہے ‘ اولاد عطا کی ہے اور طرح طرح کی دوسری نعمتوں سے بھی مجھے نواز رکھا ہے تو اس کا یہی مطلب تو ہے کہ میں اس کا منظورِ نظر ہوں اور وہ مجھ پر مہربان ہے۔ چناچہ اس زندگی کے بعد بھی اگر کوئی زندگی ہے تو میں وہاں بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کا منظورِ نظر ہی رہوں گا ‘ وہ وہاں بھی مجھ پر اسی طرح مہربان رہے گا اور جس طرح میں یہاں اس دنیا میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہا ہوں وہاں بھی اسی طرح مزے اڑائوں گا۔ { فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِمَا عَمِلُوْا } ” تب ہم پوری طرح سے جتلادیں گے ان کافروں کو جو کچھ بھی اعمال انہوں نے کیے ہوں گے۔ “ { وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ } ” اور انہیں ہم لازماً مزا چکھائیں گے بہت ہی گاڑھے عذاب کا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

66 That is “I have got all this because of my being worthy of it :it is my right that I should receive all this."

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :66 یعنی یہ سب کچھ مجھے اپنی اہلیت کی بنا پر ملا ہے اور میرا حق یہی ہے کہ میں یہ کچھ پاؤں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:50) لئن لام تاکید کے لئے ان شرطیہ۔ اذقنہ رحمۃ منا : اذقنا ماضی جمع متکلم اذاقۃ (باب افعال) مصدر سے ۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب ہم اس کو چکھاتے ہیں۔ ہم نے اسکو چکھایا۔ رحمۃ مفعول ثانی اذقنا کا منا متعلق رحمۃ اور (جب) ہم اس کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں۔ بعد ضراء مضاف الیہ۔ الضراء تکلیف۔ سختی، تنگی۔ مرض۔ مصیبت۔ اسم ہے۔ بوجہ غیر منصرف ہونے کے بجائے مکسور کے مفتوح آیا ہے۔ مستہ : مست ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب اس نے چھوا۔ مس (باب نصر) مصدر ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جسے اس نے چھوا تھا ۔ جو اس کو آئی تھی۔ جملہ لئن اذقنہ ۔۔ مستہ شرط ہے اور اگلا جملہ جواب شرط ہے۔ لیقولن لام جوان شرط کے لئے ہے۔ یقولن مضارع معروف بانون تاکید ثقیلہ صیغہ واحد مذکر غائب تو ضرور بالضرور اس کا قول یہ ہوتا ہے ھذا الی : ھذا ای ھذہ الرحمۃ یہ رحمت۔ یہ تنگی کے بعد فراخی ، بیماری کے بعد یہ صحت، عسرت کے بعد یہ یسرت، لی میں لام استحقاق کا ہے ی ضمیر واحد متکلم کے لئے یعنی یہ میرا حق تھا۔ میں اس کا ہی مستحق تھا۔ (کہ مجھے اس دکھ کے بعد یہ سکھ میسر ہو) لیقولن ھذا لی جملہ جواب شرط کا ہے۔ وما اظن الساعۃ قائمۃ : ما اظن مضارع منفی واحد متکلم میں گمان نہیں رکھتا۔ میرا خیال نہیں ہے۔ الساعۃ (القیامۃ مفعول قائمۃ کھڑی ہونے والی قیام (باب نصر) ق د م مادہ۔ خبر۔ ترجمہ : میں خیال نہیں کرتا کہ قیامت برپا ہوگی۔ ولئن زجعت الی ربی جملہ شرط ہے ان لی عندہ للحسنی جواب شرط حسنی اچھی، عمدہ ۔ بروزن فعلی حسن سے افعل التفضیل کا صیغہ واحد مؤنث ۔ ای وعلی فرض صحۃ ماقالت الرسل من البعث ان لی عند اللّٰہ الجنۃ اور اگر قیامت کے متعلق رسولوں کی بات سچ بھی ہوگئی تو مجھے وہاں بھی اللہ کے ہاں جنت ہی ملے گے۔ مولانا عبد الماجد دریا بادی رقمطراز ہیں :۔ ان لی عندہ للحسنی ان خود کلمہ تاکید کا ہے پھر لی کی تقدیم نے اس تاکید کو مضاعف کردیا ہے پھر للحسنی میں ل الگ تاکید کا ہے۔ یعنی ترجمہ ہوگا :۔ تو میرے لئے اس کے پاس ضرورہی بہتری ہی ہے۔ فلننبئن فاء عاطفہ ہے۔ لننبئن مضارع کا صیغہ جمع متکلم با تاکید لام ونون ثقیلہ۔ تنبئۃ باب تفعیل ۔ ہم ضرور ہی بتائیں گے۔ ہم ضرور ہی آگاہ کریں گے۔ الذین کفروا موصول و صلہ مل کر ننبئن کا مفعول۔ ولنذیقنھم : واؤ عاطفہ۔ لنذیقن مضارع معروف بلام تاکید و نون ثقیلہ صیغہ جمع متکلم۔ اذاقۃ (افعال) سے مصدر ہم ضرور ضرور چکھائیں گے۔ ہم ضرور ضرور مار دیں گے۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ عذاب غلیظ۔ موصوف و صفت شدید عذاب : فھو کو ثاق غلیظ لایمکن قطعہ۔ سخت بندھن کی طرح کی اس کو ٹوٹنا ممکن ہی نہ ہوگا۔ چناچہ خدا کے عذاب اور بندھن کے متعلق قرآن مجید میں ہے :۔ فیومئذ لایعذب عذابہ احد ولا یوثق وثاقۃ احد (89:25، 26) تو اس دن کہ کوئی خدا کے عذاب کی طرح کا کوئی (کسی کو) عذاب دے گا اور نہ کوئی ویسا جکڑنا جکڑے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی اپنے آپ کو اس کا مستحق گردانتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کی بجائے اسے اپنی محنت اور ذہانت کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ 9 یعنی میں اس کی نظر میں پسندیدہ ہوں تبھی تو اس نے مجھے خوشحالی دی ہے۔ اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اگر بالفرض آخرت بھی آئے تو وہ مجھے اپنی گونا گوں نعمتوں سے ہمکنارنہ کرے۔ دنیا پر آخرت کو قیامت کرنا یہ غلط بنیاد پر غلط عقیدہ ہے جس کی متعدد آیات میں قرآن نے تردید کی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ کیونکہ میری تدبیر و لیاقت و فضیلت اسی کو مقتضی تھی اور یہ بھی غایت ناشکری و کبر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما اظن الساعۃ قائمۃ (٤١ : ٥٠) “ میں نہیں سمجھتا کہ قیامت کبھی آئے گی ”۔ اب یہ اپنے آپ میں مست ہے۔ اللہ پر احسان جتلاتا ہے۔ اور یہ خیال کرتا ہے کہ اللہ کے ہاں بھی میرا یہی مقام ہوگا حالانکہ اس کا کوئی مقام نہ ہوگا۔ یہ تو آخرت کا منکر اور کافر ہے۔ اس کے باوجود یہ سمجھتا ہے کہ اگر اللہ کے ہاں چلا گیا تو وہاں بھی باعزت لوگوں میں شمار ہوگا۔ ولئن رجعت الی ربی ان لی عندہ للحسنی (٤١ : ٥٠) “ لیکن اگر واقعی میں اپنے رب کی پلٹایا گیا تو وہاں بھی مزے کروں گا ”۔ یہ ہے بےجا غرور ، اب نہایت ہی برمحل تنبیہہ آتی ہے۔ فلننبئن الذین ۔۔۔۔ عذاب غلیظ (٤١ : ٥٠) “ حالانکہ کفر کرنے والوں کو لازماً ہم بتا کر رہیں گے کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں اور انہیں ہم بڑے گندے عذاب کا مزہ چکھائیں گے ”۔ یہ ہے انسان کہ جب اللہ اسے خوشحال بناتا ہے۔ تو یہ سرکشی اختیار کرتا ہے۔ منہ موڑتا ہے اور غرور کرتا ہے۔ لیکن اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو پھر گرجاتا ہے۔ اپنے آپ کو ذلیل و خوار سمجھتا ہے۔ حقیر و لاچار ہوتا ہے۔ اور گڑ گڑانے اور بلبلانے لگتا ہے ، لمبی لمبی دعائیں کرتا ہے۔ ذرا دیکھئے تو سہی ، قرآن کریم نے انسانی نفسیات کے چھوٹے بڑے عمل اور رد عمل کو کس باریکی سے ریکارڈ کیا ہے۔ یہ اللہ کا کلام ہے جو خالق انسان ہے اور خود خالق بتا رہا ہے کہ یہ ہے حضرت انسان۔ کیونکہ خالق اپنی مخلوق کے کل پرزوں کو اچھی طرح جانتا ہے ، اللہ جانتا ہے کہ یہ ان نشیب و فراز میں پھرتا رہتا ہے ، الا یہ کہ اسے صراط مستقیم کی طرف پکڑ کرلے جایا جائے۔ تب وہ راہ راست پر چلتا ہے۔ نفس انسانی کی اس نہایت ہی ننگی تصویر کے بعد اللہ ان سے پوچھتا ہے کہ تم اس وقت کیا کرو گے کہ جس کتاب کی تم تکذیب کرتے ہو۔ اگر یہ اللہ کی جانب ہی سے ہو اور تم اس عذاب کے مستحق ہوجاؤ جس سے تمہیں ڈرایا جارہا ہے اور اس وقت تم تکذیب اور دشمنی کے عواقب و نتائج کا اپنے آپ کو مستحق کرلو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا کہ اگر ہم انسان کو اپنی رحمت چکھا دیں خیر اور عافیت اور مالداری سے نواز دیں اس کے بعد کہ اسے تکلیف پہنچ چکی تھی تو کہتا ہے کہ ہاں مجھے یہ چاہئے اور میں اس کا حق دار ہوں اللہ تعالیٰ کی جو نعمت ملی اسے اللہ کا فضل نہیں بلکہ اپنے ہنر کا نتیجہ سمجھتا ہے جیسا کہ قارون نے کہا تھا (انما اوتیتہ علی علم عندی) یہ تو مجھے میرے علم کی وجہ سے دیا گیا۔ حالت ٹھیک ہوتی ہے اور مال مل جاتا ہے تو انسان قیامت ہی کا منکر ہوجاتا ہے کہتا ہے کہ میرے خیال میں تو قیامت آنے والی نہیں ہے اور اگر بالفرض قیامت آہی گئی اور میں اپنے رب کی طرف لوٹا دیا گیا تو میں وہاں بھی عزت اور کرامت سے نوازا جاؤں گا جیسا کہ دنیا میں بھی مجھے نوازا گیا ہے وہاں بھی میرا حال اچھا ہوگا دنیا میں بھی اچھی حالت کا مستحق ہوں اور آخرت میں بھی، یعنی یہ ناشکرا انسان یہ نہیں مانتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر فضل فرمایا ہے دنیا اور آخرت میں اچھی حالت میں رہنے کو اپنا ذاتی استحقاق مانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کافروں کو ہم ان کے اعمال سے باخبر کردیں گے اور بتادیں گے کہ تم نے غلط سمجھا تھا تم اپنے اعمال کے اعتبار سے عزت اور کرامت کے مستحق نہیں ہو، ذلت اور اور اہانت کے مستحق ہو (ولنذیقنھم من عذاب غلیظ) اور ہم انہیں ضرور ضرور سخت عذاب چکھائیں گے۔ اس وقت جھوٹی باتوں اور جھوٹے دعوؤں کا پتہ چل جائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

49:۔ ” ولئن اذقنہ “ پھر اگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت واسعہ سے اس کو نعمت عطا فرما دیتا ہے اور اس کی تکلیف دور کردیتا ہے۔ تو وہ اللہ کا شکر کرنے کے بجائے کہتا ہے کہ یہ نعمت تو مجھے ملنی ہی چاہئے تھی، کیونکہ میں اس کا مستحق تھا۔ اور میں نے فلاں فلاں حیلہ اور تدبیر اختیار کی۔ اس لیے مجھے یہ نعمت میسر ہوئی۔ میں نے فلاں معبود کو پکارا۔ فلاں بزرگ کی نذر مانی۔ میں نے یہ حیلہ کیا۔ وہ حیلہ کیا وغیرہ وغیرہ۔ ای ھذا من عندی (قرطبی) ای استحقہ بعملی (خازن) جیسا کہ دوسری جگہ وارد ہے انما اوتیتہ علی علم عندی (القصص رکوع 8) ۔ تائید : ” ثم اذا خولہ نعمۃ منہ نسی ماکان یدعوا الیہ من قبل وجعل للہ اندادا “ (الزمر رکوع 1) باقی رہا قیامت کا قصہ تو میرا خیال یہ ہے کہ قیامت ہیں آئے گی۔ لیکن اگر بالفرض آ ہی گئی تو آخرت میں بھی خوشحال ہوں گا جس طرح دنیا میں میں آرام و راحت اور عیش و عشرت کا مستحق ہوں اسی طرح آخرت میں بھی ان نعمتوں کا مستحق ہوں گا یا آخرت میں میرے بزرگ اور میرے معبود میرے لیے ہر راحت اور نعمت کا سامان بہم پہنچا دیں گے۔ قالہ الشیخ (رح) تعالی۔ ” فلننبئن الذین کفروا الخ “ یہ شکوے کے درمیان تخویف اخروی ہے۔ قیامت کے دن ہم ان مشرکین کو ان کے اعمال کی حقیقت سے آگاہ کریں گے۔ اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اصل حقیقت ان کے زعم باطل کے خال ہے اور وہ نعمت و کرامت کے نہیں، بلکہ ذلت اور اہانت کے مستحق ہیں۔ اور ہم انہیں ایسے سخت عذاب میں گرفتار کریں گے۔ جس سے ان کا چھٹکارا حاصل کرنا ناممکن ہوگا۔ لنعلمنہم بحقیقۃ اعمالہم لنبصرنہم بعکس ماعتدوا فیھا یظہر لھم انہم مستحقون للاھانۃ لا الکرامۃ کام توھموا (روح ج 25 ص 4) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(50) اور اگر ہم اس تکلیف اور دکھ کے بعد جو اس کو پہنچا تھا اپنی کسی مہربانی کے مزے سے اس کو لذت اندوز کردیتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ یہ تو میرا حق تھا جو مجھے ملنا ہی چاہیے تھا اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت اٹھنی ہے اور قیامت کبھی قائم ہوگی اور اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو بھی میرے لئے اس کے ہاں خوبی اور بہتری ہے سو ہم ان کافروں کو ان کے تمام اعمال کی جو یہ کرتے رہتے ہیں پوری حقیقت سے آگاہ کردیں گے اور ہم ان کو سخت ترین عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اس قسم کا کفران نعمت دین حق کے منکروں کی عادت میں داخل ہے مال کی محبت کا یہ عالم کہ کبھی سیر نہ ہوں عدم اعتماد کی یہ حالت کہ کوئی نقصان ہوا تو مایوس اور ناامید غلط فہمی اور بےوفائی کی یہ حالت کہ دکھ اور مصیبت کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی کا مزہ چکھائے تو کہے یہ تو مجھے ملنا ہی تھا یعنی میرا حق تھا جو مجھ کو مل کر رہا۔ بداعتقادی اور اس پر سے خوش فہمی کی یہ کیفیت کہ قیامت کے قائم ہونے کا یقین نہیں اور اگر بالفرض مجھے اپنے رب کی طرف جانا بھی پڑا تو بھی میرے لئے وہاں مزے ہوں گے اور اچھی اور بہتر چیزیں مجھ کو وہاں ملتی رہیں گی۔ اس پر فرمایا کہ ہم ان کے اعمال کی پوری حقیقت ان پر آشکارا کردیں گے اور ان کے بعد تمام اعمال ان کے جتادیں گے اور ان کو سخت ترین سزا کا مزہ چکھائیں گے اسی مضمون کی مزید وضاحت اور تتمہ کے طور پر فرماتے ہیں۔